Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 27

سورة الحج

وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ ﴿ۙ۲۷﴾

And proclaim to the people the Hajj [pilgrimage]; they will come to you on foot and on every lean camel; they will come from every distant pass -

اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ ... And proclaim to mankind the Hajj, meaning, `announce the pilgrimage to mankind and call them to perform pilgrimage to this House which We have commanded you to build.' It was said that Ibrahim said: "O Lord, how can I convey this to people when my voice will not reach them" It was said: "Call them and We will convey it." So Ibrahim stood up and said, "O mankind! Your Lord has established a House so come on pilgrimage to it." It is said that the mountains lowered themselves so that his voice would reach all the regions of the earth, and those who were still in their mothers' wombs and their fathers' loins would hear the call. The response came from everyone in the cities, deserts and countryside, and those whom Allah has decreed will make the pilgrimage, until the Day of Resurrection: "At Your service, O Allah, at Your service." This is a summary of the narrations from Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr and others among the Salaf. And Allah knows best. This was recorded by Ibn Jarir and by Ibn Abi Hatim at length. ... يَأْتُوكَ رِجَالاًأ وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ ... They will come to you on foot and on every lean camel, This Ayah was used as evidence by those scholars whose view is that Hajj performed on foot by those who are able, is better than Hajj performed riding, because the phrase "on foot" is mentioned first, and because it is an indication of their keenness and resolve. Waki` narrated from Abu Al-`Umays from Abu Halhalah from Muhammad bin Ka`b that Ibn Abbas said, "I do not regret anything except for the fact that I wish I had performed Hajj on foot, because Allah says, يَأْتُوكَ رِجَالاًأ (They will come to you on foot)." But the majority are of the view that performing Hajj while riding is better, following the example of the Messenger of Allah, because he performed Hajj riding, although his physical ability was sound. ... يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ ... they will come from every Fajj, means every route, as Allah says: وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجاً سُبُلً and We placed therein Fijaj for them to pass. (21:31) ... عَمِيقٍ `Amiq, means distant. This was the view of Mujahid, Ata', As-Suddi, Qatadah, Muqatil bin Hayan, Ath-Thawri and others. This Ayah is like the Ayah in which Allah tells us how Ibrahim prayed for his family, فَاجْعَلْ أَفْيِدَةً مَّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ So fill some hearts among men with love towards them. (14:37) There is no one among the Muslims who does not long to see the Ka`bah and perform Tawaf, people come to this spot from every corner of the world.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہوجائیں گے۔ 27۔ 2 یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان عام کردو کہ وہ حج کے لئے یہاں آئیں۔ حضرت ابراہیم کہنے لگے یہاں میری آواز کون سنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اعلان کردو۔ آواز پہنچا دینا میرا کام ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر پکارا : لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہذا حج کو آؤ۔ اور اللہ نے یہ آواز ہر اس شخص اور اس روح تک پہنچا دی جس کے لئے حج مقدر تھا اور اس کی روح نے اس اعلان پر لبیک کہا۔ [٣٦] یہاں ضامر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ضامر وہ جانور ہے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سدھارنے اور مشن کی کثرت اور کسرت کی وجہ سے دبلا پتلا اور چھریرے بدن والا ہوجائے اور سبک رو، یا سبک خرام ہو تاکہ مقابلہ میں آگے نکل سکے۔ اور جانور بھوک کی کمی کی وجہ سے دبلا ہو اسے عجف کہتے ہیں۔ عرب میں ضامر کا لفظ عموماً اونٹ کے لئے مختص ہوگیا خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور اونٹ کا نام بطور خاص اس لیے لیا گیا کہ اس زمانہ میں اور اس علاقہ میں اونٹ ہی آمدورفت اور نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ ۔۔ : حج کا لفظی معنی قصد ہے، مراد اللہ کے گھر کا قصد ہے، اس نیت سے کہ وہ قولی، بدنی اور مالی عبادات ادا کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے یہاں مقرر فرمائی ہیں۔ ” رِجَالًا “ ” رَاجِلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” نَاءِمٌ“ کی جمع ” نِیَامٌ“ ہے، یعنی پیدل چلنے والے۔ ” ضَامِرٍ “ سواری کا وہ جانور جسے چارے کی قلت اور سفر نے تھکا کر دبلا کردیا ہو۔ ” فَجٍّ “ دو پہاڑوں کے درمیان کھلے راستے کو کہتے ہیں، مکہ کے راستے میں اکثر پہاڑوں سے گزر ہوتا ہے، اس لیے اس کے راستوں کو ” فَجٍّ “ کہہ دیا ہے۔ ” عَمِيْقٍ “ کا لفظی معنی گہرا ہے، مراد دور کا سفر ہے، دور کی مسافت کو کنویں کی گہرائی سے مشابہت دی ہے۔ پنجابی میں اسے ” ڈونگھے پینڈے “ کہتے ہیں۔ 3 حج کے اعلان سے پہلے اپنے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے کے لیے آنے والوں کی خاطر پاک صاف کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا مہمانوں کی آمد سے پہلے گھر کی صفائی ہونی چاہیے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کی تعمیر کے بعد حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ان بیشمار سواریوں پر سوار ہو کر آئیں گے، جو بہت گہرے اور دور دراز راستوں کو طے کرتی ہوئی آئیں گی اور سفر کی دوری کی وجہ سے لاغر ہوچکی ہوں گی۔ ” كُلِّ ضَامِرٍ “ سے مراد لاغر سواریوں کی کثرت ہے، کیونکہ ہر لاغر سواری تو مکہ نہیں جاتی۔ عربی میں ” کُلٌّ“ کا لفظ کثرت کے لیے بھی آتا ہے، جیسا کہ عنترہ کے ان شعروں میں ” کُلٌّ“ کا لفظ تین دفعہ کثرت کے معنی میں آیا ؂ جَادَتْ عَلَیْہِ کُلُّ بَکْرَۃِ حَرَّۃٍ فَتَرَکْنَ کُلَّ قَرَارَۃٍ کَالدِّرْھَمِ سَحًّا وَ تَسْکَابًا فَکُلَّ عَشِیَّۃٍ یَجْرِيْ عَلَیْھَا الْمَاءُ لَمْ یَتَصَرَّمِ (ابن عاشور) ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اعلان کیسے کیا ؟ اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” جب اللہ تعالیٰ نے حج کی دعوت کے لیے اعلان کرنے کا حکم دیا تو ذکر کیا جاتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی، پروردگار ! میں لوگوں تک یہ پیغام کیسے پہنچاؤں، میری تو آواز ہی ان تک نہیں پہنچے گی ؟ فرمایا، تم منادی کرو، پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ تو آپ نے اپنے مقام پر، بعض نے کہا پتھر پر، بعض نے کہا صفا پر اور بعض نے کہا جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر اعلان کیا : ” لوگو ! تمہارے رب نے گھر بنایا ہے، تم اس کا حج کرو۔ “ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ جھک گئے، حتیٰ کہ یہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچ گئی اور جو ماؤں کے شکم یا باپوں کی پشت میں تھے ان کے کانوں میں بھی پہنچ گئی۔ ہر پتھر، اینٹ یا درخت جس نے اسے سنا اس نے بھی اور جس شخص کے متعلق اللہ نے قیامت تک حج کرنا لکھا تھا، سب نے جواب میں کہا : ” لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ “ یہ ان روایتوں کا مضمون ہے جو ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور کئی ایک سلف سے آئی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے انھیں پورے طول سے نقل کیا ہے۔ “ ابن کثیر (رض) کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات مروی نہیں، اوپر نقل کردہ روایات میں ” ذکر کیا جاتا ہے “ ، ” بعض نے کہا “ ، ” کہا جاتا ہے “ اور ” واللہ اعلم “ کے الفاظ ابن کثیر کی ان روایات کی صحت میں تردد کو ظاہر کر رہے ہیں۔ تابعین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس اعلان کے وقت وہاں موجود نہیں تھے اور نہ انھوں نے اپنا ذریعہ بتایا ہے۔ رہی ابن عباس (رض) کی روایت تو اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر لکھتے ہیں کہ اسے ابن ابی شیبہ (مصنف : ١١؍٥١٨) اور حاکم (المستدرک : ٢؍٣٨٨) دونوں نے جریر عن قابوس عن ابیہ عن ابن عباس کے طریق سے مختصراً بیان کیا ہے، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، لیکن قابوس ” لَیِّنُ الْحَدِیْثِ “ (کمزور حدیث والا) ہے، جیسا کہ تقریب میں ہے۔ ابن عباس (رض) سے یہ روایت ثابت بھی ہو تو معلوم نہیں انھوں نے یہ کہاں سے لی ہے ؟ کیونکہ نہ خود اس وقت موجود تھے اور نہ انھوں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز ساری دنیا اور تمام ارواح تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں، مگر یہ بات کسی معتبر طریقے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ ابن عاشور (رض) لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) ” رَحَّالَۃٌ“ تھے، یعنی بہت سفر کیا کرتے تھے، چناچہ انھوں نے حسب استطاعت اس حکم پر عمل کیا اور ہر اس مقام پر حج کا اعلان کیا جہاں وہ اپنے سفروں کے دوران گزرے یا پہنچے۔ پھر ان کے بعد ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان فرمایا، اب دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں یہ اعلان نہ پہنچا ہو اور جہاں سے لوگ سفر کرکے حج کے لیے نہ پہنچتے ہوں۔ سعودی حکومت کا اندازہ ہے کہ دس پندرہ سال تک حاجیوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سارا سال عمرہ کے لیے آنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ” يَاْتُوْكَ رِجَالًا “ (تیرے پاس آئیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہر سال حج کے موقع پر خود وہاں موجود ہوتے تھے، یا مراد ہے کہ حج پر جانے والا ہر شخص ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت پر گویا انھی کے پاس جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third command given to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was أَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ (Announce among people about the obligation of Hajj - 22:2&7). Ibn Abi Hatim has related from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that when Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was commanded by Allah to make this proclamation, he submitted that the place where he stood was an uninhabited desolate plane with nobody to hear the proclamation whereas he lacked the means to convey it to the populated areas. Allah Ta’ ala then told him that he was required only to make the proclamation and the responsibility for conveying it to the four corners of the world rested with Himself, that is Allah Ta’ ala. Thereupon Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) stood at مقام ابراھیم (Station of Ibrahim) and made the proclamation and Allah Ta’ ala magnified his voice so that it was heard all round the earth. It is also related that he made the proclamation from the top of the mount Abu Qubais (جبل أبی قبَیس). He put his fingers in his ears, turned his face in four directions and called out |"0 people! Allah has established His House and made it obligatory upon you to make pilgrimage to it. So obey the command of your Lord.|" It is also mentioned in this narration that Allah Ta’ ala so decreed that the announcement was heard miraculously all over the world, not only by the people living then, but also by all those yet to be born upto the Day of Resurrection. And all those who are destined to perform the pilgrimage responded to the call with the words اللَّھُمَّ لَبَّیک لَبَّیک . Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that the Talbiyah during the pilgrimage has its origin in this response to the call of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . (Qurtubi, Mazhari) Further on, the verse describes the tradition which has been established for all times as a result of the proclamation of Sayyidna Ibrahim namely يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (22:28) meaning that people will come to Baitullah from the four corners of the earth, some on foot and others on their mounts, which will become lean because of the long distances traversed by them. From that remote time until today, though thousands of years have elapsed, people come to Baitullah to perform pilgrimage, just as they did in the earliest times. All the prophets who came after Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and their followers strictly observed this tradition. During the long period of ignorance after Sayyidna ` Isa& (علیہ السلام) ، the Arabs, even though they lapsed into the evils of idolatry, yet they continued to perform very faithfully all the rituals of the pilgrimage precisely as they had inherited them from the time of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) .

تیسرا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دیا گیا کہ وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ ، یعنی لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اس بیت اللہ کا حج تم پر فرض کردیا گیا ہے۔ بغوی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو فرضیت حج کے اعلان کا حکم ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ (یہاں تو جنگلی میدان ہے کوئی سننے والا نہیں) جہاں آبادی ہے وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے اس کے ساری دنیا میں پہنچانے اور پھیلانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت اونچا کردیا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے جبل ابی قبیس پر چڑھ کر یہ اعلان کیا، کانوں میں انگلیاں رکھ کر داہنے اور بائیں اور شرقاً و غرباً ہر طرف یہ ندا دی کہ اے لوگو تمہارے رب نے اپنا بیت بنایا ہے اور تم پر اس بیت کا حج فرض کیا ہے تو تم سب اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرو۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ آواز اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پہنچا دی اور صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک ہی نہیں بلکہ جو انسان آئندہ تا قیامت پیدا ہونے والے تھے بطور معجزہ ان سب تک یہ آواز پہنچا دی گئی اور جس جس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے حج کرنا لکھ دیا ہے ان میں سے ہر ایک نے اس آواز کے جواب میں لبیک اللہم لبیک کہا یعنی حاضر ہونے کا اقرار کیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد یہی ندا ابراہیمی کا جواب ہے۔ (قرطبی و مظہری) آگے آیت میں اس تاثیر کا ذکر ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے اعلان کو تمام انسانوں تک منجانب اللہ پہنچانے سے قیامت تک کے لئے قائم ہوگئی وہ یہ ہے يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ، یعنی اطراف عالم سے لوگ بیت اللہ کی طرف چلے آویں گے کوئی پیادہ کوئی سوار، اور سواری سے آنے والے بھی دور دراز ملکوں سے آئیں گے جس سے ان کی سواریاں بھی لاغر ہوجائیں گی۔ چناچہ اس وقت سے آج تک کہ ہزارہا سال گزر چکے ہیں بیت اللہ کی طرف حج کے لئے آنے والوں کی یہی کیفیت ہے۔ بعد میں آنے والے سب انبیاء اور ان کی امتیں بھی اس کی پابند رہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد طویل دور جاہلیت کا گزرا ہے اس میں بھی عرب کے باشندے اگرچہ بت پرستی کی بلاء میں مبتلا ہوگئے تھے مگر حج کے ارکان کے اسی طرح پابند تھے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) سے منقول و ماثور چلا آتا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ۝ ٢٧ۙ اذن ( تأذين) : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف/ 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف/ 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج/ 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ } ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ { فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ } ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ { وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ } ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔ حج أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعریحجّون بيت الزّبرقان المعصفراخصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ ضمر ( ضمیر) الضَّامِرُ من الفرس : الخفیف اللّحم من الأعمال لا من الهزال . قال تعالی: وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ [ الحج/ 27] ، يقال : ضَمَرَ ضُمُوراً «2» ، واضْطَمَرَ فهو مُضْطَمِرٌ ، وضَمَّرِّتُهُ أنا، والمِضْمَارُ : الموضع الذي يُضْمَرُ فيه . والضَّمِيرُ : ما ينطوي عليه القلب، ويدقّ علی الوقوف عليه، وقد تسمّى القوّة الحافظة لذلک ضَمِيراً. ( ض م ر ) الضامر اس چھر یرے گھوڑے کو کہتے ہیں جس کا دبلا پن لاغری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس ریا ضت کی وجہ سے ہو جو سدھا نے کے لئے اس سے کرائی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ [ الحج/ 27] دبلی سواریوں پر ۔ ضمر ضمورا واضتمر فھو مضتمیر کے معنی لاغر ہوجانا کے ہیں اور ضمرتہ کے معنی لاغر کردینا کے ۔ المضمار ( گھوڑ دوڑ کا میدان جہاں گھوڑوں کو دوڑانے کی مشق کرائی جاتی ہے ۔ الضمیر وہ بات جو تمہارے دل میں ہو اور اس پر اطلاع پانا دشوار ہو اسی وجہ سے کبھی ضمیر کا لفظ قوت حافظہ پر بھی بولاجاتا ہے ۔ فجج الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج . ( ف ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔ عمق قال تعالی: مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، أي : بعید . وأصل العُمْقِ : البعد سفلا، يقال : بئر عَمِيقٌ ومَعِيقٌ «5» : إذا کانت بعیدة القعر . ( ع م ق ) العمق ۔ دراصل اس کے معنی نیچے کی طرف دوری یعنی گہرائی کے ہیں اس لئے بہت گہرے کنویں کو بئر عمیق ومعیق کہا جاتا ہے ۔ ( راستے کی صفت ہو تو اس کے معنی دور رداز راستہ کے ہوتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور رداز راستے سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فرضیت حج قول باری ہے (واذن فی الناس بالحج اور لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو ۔ ) معمر نے لیث سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس حکم پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا۔” باری تعالیٰ ! میں انہیں کس طرح حج کے لئے بلائوں ؟ “ حکم ہوا ۔” یہ اعلان کرو، لوگو ! حاضر ہو جائو، لوگو ! حاضر ہو جائو۔ “ اسی سے تلبیہ لبیک اللھم لبیک بنا۔ عطاء بن الصائب نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیج کر لوگوں کو حج کے لئے بلانے کو کہا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اعلان کیا۔” لوگو ! تمہارے رب نے عبادت کے لئے ایک گھر بنادیا ہے اور تمہیں اس کے حج کا حکم دیا ہے۔ “ حضرت ابراہیم ع لیہ السلام کی اس آواز کو سج چی نے بھی سنا خواہ وہ چٹان تھی یا درخت یا ٹیلہ تھا یا مٹی کا ڈھیر یا کوئی اور چیز سب نے اس پکار کے جواب میں ” لبیک اللھم لبیک کہا۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس وقت ہی حج کی فرضیت ہوگئی تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو حج کے لئے بلائیں۔ اللہ کا یہ حکم وجوب پر محمول ہوا تھا۔ اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حج کی فرضیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک باقی رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض انبیاء کے ذریعے اس کی فرضیت منسوخ کردی گئی ہوتا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعقل یہ مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے قبل دو مرتبہ حج کیا تھا اور ہجرت کے بعد ایک مرتبہ حجتہ الوداع ادا کیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے دوران بہت سے ایسے افعال کرتے تھے جو انہوں نے اپنے طور پر درست افعال کے ساتھ خلط ملط کردیئے تھے۔ ان کا تلبیہ بھی مشرکانہ تھا۔ حج کی وہ فرضیت جس کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں آگیا تھا اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک باقی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعثت کے بعد ہجرت سے پہلے جو دو حج کئے تھے ان میں پہلا حج فرض کے طور پر کیا گیا تھا۔ اگر حج کی فرضیت بعض انبیاء کی زبانی منسوخ کردی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسے فرض کردیا تھا چناچہ ارشاد ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ۔ لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے) ایک قول کے مطابق اس آیت کا نزول 9 ھ میں ہوا تھا۔ ایک قول کے مطابق 10 ھ ہوا تھا۔ یہ وہی سال ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج ادا کیا تھا یہ بات زیادہ درست ہے اس لئے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ آپ نے فرض حج کی ادائیگی میں اس کے مقررہ وقت سے تاخیرکر دی ہوگی اس لئے کہ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل میں تمام لوگوں سے بڑھ کر شد و مد سے کام لینے والے اور ادائے فرض میں سب سے آگے نکل جانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سابقین کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اس بنا پر تعریف کی ہے کہ وہ نیکیوں کی طرف سبقت کرتے تھے۔ چناچہ ارشاد ہے گا نو ایسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغباً و رھباً وکانوا لنا خاشعین ۔ وہ نیک کاموں میں دوڑنے والے تھے اور ہمیں شوق اور خوف کے ساتھ پکارتے رہتے تھے اور ہمارے سامنے دب کر رہتے تھے) اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیک کاموں میں مسابقت کے لحاظ سے انبیائے سابقین سے کسی طرح پیچھے رہنے والے نہیں تھے بلکہ اس معاملہ میں آپ کا درجہ ہر نبی کے درجے سے بڑھ کر تھا۔ اس لئے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) پر آپ کو فضیلت حاصل تھی اور نبوت کے اندر آپ کا درجہ سب سے بلند تھا اس بنا پر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ نے جواب کے وقت سے حج کی ادائیگی کو مئوخر کردیا ہو۔ خاص طور پر جب کہ آپ نے دوسروں کو اس کی ادائیگی میں تعجیل کا حکم دیا ہے چناچہ حضرت ابن عباس نے آپ سے یہ روایت کی ہے کہ (من ادا دالحج فلیستعجل جو شخص حج کا ارادہ کرلے اسے اس کی ادائیگی میں تعجیل کرنی چاہیے۔ ) اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ آپ دوسروں کو تو حج کی ادائیگی میں تعجیل کا حکم دیں اور خود اس کی ادائیگی کو اس کے وجوب کے وقت سے مئوخر کردیتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کی ادائیگی کو اس کے وجوب کے وقت سے موخر نہیں کیا تھا۔ اگر حج کی فرضیت قول باری (وللہ علی الناس حج البیت) کی بنا پر ہوئی ہے تو اس آیت کے نزول کی تاریخ یا تو 9 ھ ہے یا 10 ھ اگر پہلی بات ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عذر کی بنا پر اس کی ادائیگی میں تاخیر کردی تھی۔ وہ عذ ر یہ تھا کہ اس سال حج اس وقت واقع ہوا تھا جس میں عرب کے لوگ نسئی یعنی حج کے مہینوں کو آگے پیچھے کر کے اس کی ادائیگی کرتے تھے جس کی بنا پر حج اپنے درست وقت پر ادا نہیں ہوتا تھا۔ 9 ھ میں بھی اتفاق سے یہی صورت حال تھی اور حج اپنے اس اصل وقت میں ادا نہیں ہو رہا تھا جس میں اللہ نے اس کی ادائیگی فرض کی تھی۔ اس عذر کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سال اس کی ادائیگی موخر رکھی تاکہ اگلے سال آپ کا حج ٹھیک اسی وقت ادا ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی فرض کی تھی۔ تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس میں شریک ہو کر آپ کی اقتدا کریں۔ اگر آیت کا زمانہ نزول 10 ھ ہے تو پھر یہ وہی سال ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا فرمایا تھا۔ اگر حج کا فریضہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے آپ کی بعثت تک باقی رہا تھا تو اس صورت میں آپ نے اپنی بعثت کے بعد اور ہجرت سے قبل پہلی مرتبہ جو حج کیا تھا وہ فرض حج کی ادائیگی تھی اس کے سوا باقی ماندہ تمام حج نفل کے طور پر ادا ہوئے تھے ان دونوں صورتوں میں یہ بات ثابت نہیں ہوگی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کی فرضیت کے بعد پہلی فرصت میں اس کی ادائیگی میں تاخیر کردی تھی۔ پیدل حج کرنے کا بیان موسیٰ بن عبیدہ نے محمد بن کعب سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” مجھے کسی چیز کی حسرت نہیں صرف ایک چیز کی تمنا ہے کہ مجھے پیدل حج کرنے کا موقع مل جاتا اس لئے کہ ارشاد باری ہے (یاتوک رجالاً وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے پیدل حج کیا۔ القاسم بن الحکم العرنی نے عبید اللہ الرصافی سے انہوں نے عبداللہ بن عتبہ بن عمیر سے کہ حضرت ابن عباس سے فرمایا : مجھے ایک چیز کے سوا کسی چیز کا افسوس نہیں جو میری جوانی میں مجھ سے رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے پیدل حج ادا نہیں کیا حسن بن عل ی نے پچیس مرتبہ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تک پیدل چل کر حج کیا جبکہ سواریوں کے عمدہ جانور ان کے ساتھ ہوتے، انہوں نے تین مرتبہ اللہ کے ساتھ اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کرلیا تھا۔ وہ اپنے ایک پائوں اپنے لئے رکھ لیتے اور ایک دے دیتے۔ “ عبدالرزاق نے عمرو بن زر سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ لوگ حج پر جاتے تو سواریوں پر سوار نہ ہوتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (یاتوک رجالاً و علی کل ضا مریا تین من کل فج عمیق کہ وہ تمہارے پاس ہر دور و دراز کے مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔ ابن جریج نے روای ت کی ہے، انہیں العلاء نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن علی کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت حسن بن علی حج کا سفر پیدل کرتے اور سواریوں کے جانوران کے ساتھ چلتے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یاتوک رجالاً و علی کل ضامر) اس امر کا مقتضی ہے کہ حج کے لئے پیدل اور سواری کے ذریعہ سفر کی اباحت ہے۔ آیت میں اس امر پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ ان میں افضل کو نسی صورت ہے۔ تاہم سلف سے جو روایتیں ہم نے نقل کی ہیں کہ انہوں نے پیدل حج کو پسند کیا تھا۔ نیز یہ کہ ان حضرات نے آیت کی بھی یہی تاویل کی تھی یہ دونوں چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ پیدل حج افضل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت منقول ہے جو ا سامر کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی والدہ نے بیت اللہ تک پیدل سفر کی نذر مان لی اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سوار ہو کر سفر کرنے اور اپنی نذر کے بدلے قربانی دینے کا حکم دیا یہ رویت اس پر دلالت کرتی ہے کہ پیدل چلنا بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ تھا اور اسے عبادت شمار کیا جاتا تھا ۔ عذر کی وجہ سے یہ عبادت ان پر لازم ہوگئی تھی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ترک پر یک ہدی یعنی قربانی کا جانور واجب نہ کردیتے۔ قول باری (یاتین من کل نج عمیق) کی تفسیر میں جویبر سے ضحاک سے روایت کی ہے کہ اس سے ” بلد بعید “ یعنی دور دراز مقام مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے دور دراز مکان “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فج راستے کو کہتے ہیں۔ گویا اللہ نے یہ فرمایا کہ وہ لوگ جو دور دراز رستہ طے کر کے آئیں۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ عمق اس طوالت کو کہتے ہیں جو سطح زمین دور تک چلی گئی ہو اور سا گہرائی کو بھی جو زمین کے اندر تک چلی گئی ہو ۔ رئو بہ کا مصرعہ ہے۔ ع وقاتم اعماق خاوی المخترق اور ایسا رساتہ جو سخت گرد و غبار والا ہے اور زمین میں دور تک چلا گیا ہے اس گزر گاہ پر کوئی چلنے والا نہیں ہے۔ شاعر نے یہاں عمق سے وہ دوری مراد لی ہے جو سطح زمین پر راستے کی شکل میں ہوتی ہے اس سے عمیق دور دراز کو کہیں گے کیونکہ سطح زمین پر یہ دور تک چلی جاتی ہے۔ ایک شاعر کا مصرعہ ہے۔ ع یقطعن بعد النازح العمیق یہ اونٹنیاں ایک دور دراز فاصلے کو قطع کرتی ہیں۔ یہاں شاعر نے عمیق سے بعید یعنی دور دراز مراد لی ہے۔ ام حکیم بنت امیہ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا۔” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوء یسنا تھا کہ (من اھل بالمسجد الا قصی بعمرۃ او بحجۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ جس شخص نے مسجد اقصی سے حج یا عمرے کا احرام باندھ لیا اس کے پچھلے تما مگناہ معاف ہوگئے) ابو اسحق نے اسود سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود نے کوفہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے سردیوں میں شام کے علاقے سے احرام باندھ لیا تھا۔ حضرت ابن عمر نے بیت مقدس سے اور حضرت عمران بن حصین نے بصرہ سے احرام باندھا تھا۔ عمرو بن مرہ نے عبداللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی سے قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو) کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا۔” یہ کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھ لو۔ ” حضرت عمر نیز حضرت علی کا قول ہے۔ میرے خیال میں عمرہ کرنے والا جس جگہ سے چلتا ہے اسے وہیں سے احرام باندھنا چاہیے۔ “ مکحول سے منقول ہے کہ حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ ایک شخص سمر قند یا خراسان یا بصرہ یا کوفہ سے احرام باندھتا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ حضرت ابن عمر نے جواب میں فرمایا :” کاش ! ہم اس مقا مپر جو ہمارے لئے میقات کے طور پر مقرر کیا گیا ہو اسلام لاتے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت ابن عمر نے مذکورہ بالا مقامات سے احرام باندھ لینے کو مسافت کی طوالت کی بن اپر ناپسند نہیں کیا بلکہ اس بنا پر ناپسند کیا کہ احرام باندھنے والا کہیں خلاف احرام کوئی فعل نہ کر بیٹھے۔ حج کے اندر تجارت کرنے کا بیان قول باری ہے (لیشھد وا منافع لھم تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لئے یہاں رکھے گئے ہیں) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس سے تجارت مراد ہے۔ نیز وہ تمام امور مراد ہیں جن کا دنیا اور آخرت سے تعلق ہوتا ہے۔ عاصم بن ابی النجود نے ابو ر زین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ منافع سے وہ منڈیاں مراد ہیں جو لگا کرتی تھیں، منافع کا ذکر صرف دنیا کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ابو جعفر سے مروی ہے کہ منافع سے مغفرت اور بخشش مراد ہے۔ اصل مقصود دینی منافع ہیں دنیاوی منافع بالتبع ہیں ابوبکر جصاص کہتے ہیں ظاہر آیت اس امر کا موجب ہے کہ اس میں منافع دین مراد ہیں اگرچہ تجارت مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس بالحج یا توک رجالاً و علی کل ضامر یا تین من کل فج عمیق لیشھدوا منا فع لھم) یہ قول باری اس چیز کا مقتضی ہے کہ لوگوں کو بلایا گیا اور حج کا حکم دیا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں اب یہ بات محال ہے کہ اس سے صرف دنیاوی فوائد مراد لئے جائیں اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو حج کے لئے لوگوں کو بلانا دنیاوی منافع کی خاطر ہوتا حالانکہ حج نام ہے طواف وسعی کا، وقوف عرفات و مزدلفہ کا اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور دیگر مناسک کا۔ ان امور میں دنیاوی منافع بالتیع داخل ہیں اور دنیاوی منافع اٹھانے کی رخصت اور اجازت ہے یہ بات نہیں کہ دنیاوی منافع ہی مقصود بالحج ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) اس آیت میں حج کے دوران تجارت کی رخصت و اجازت عطا کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں روایات کا ذکر ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر کے موقع پر کردیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) اور اپنی اولاد میں حج کی فرضیت کا اعلان کر دو ، اس اعلان سے لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے، پیدل بھی اور جو اونٹنیاں سفر کی وجہ سے دبلی ہوگئی ہیں ان پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز رستوں سے پہنچی ہوں گی۔ شان نزول : ( آیت) ” وعلی کل ضامر “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ حج کے زمانہ میں لوگ سواری پر سوار نہیں ہوتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یعنی لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور کمزور اونٹنیوں پر بھی سوار ہونے اور کرایہ پر سواری کرنے کی اجازت دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَاَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ ) ” اس حکم کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیسے اعلان کیا ہوگا ‘ کس طرح لوگوں کو پکارا ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پیغام اور پکار کو کہاں کہاں تک پہنچایا ہوگا ‘ یہ معاملہ اللہ اور ان کے درمیان ہے۔ (یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ) ” پہاڑوں کے درمیان کے راستہ کو ” فَجّ “ کہتے ہیں۔ اس سے مکہ کی مضافاتی وادیوں اور گھاٹیوں کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دور و نزدیک سے لوگ آئیں گے۔ ان میں پیدل بھی ہوں گے اور سوار بھی۔ وہ دورو نزدیک کے گہرے پہاڑی راستوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں پہنچیں گے۔ لاغر اونٹنیوں کے ذکر سے دور دراز کے سفر مراد ہیں کہ طویل سفر کی وجہ سے ان کی اونٹنیاں لاغر ہوچکی ہوں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46. The expression lean camels has been deliberately used to depict the picture of the camels of pilgrims coming from far off places to perform Hajj. 47. In my opinion the address to Prophet Abraham (peace be upon him) comes to an end with (verse 27, and verses 28- 29) have been added to emphasize and give further instructions for the performance of Hajj. We have based this opinion on the use of the epithet Ancient House of the Kabah. It could not have been used at the time when Prophet Abraham (peace be upon him) built it. (For further details about the construction of the Kabah see (Surah Al-Baqarah, Ayats 125-129); (Surah Aal-Imran, Ayats, 96-97); and (Surah Ibrahim, Ayats 35-41).

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :46 اصل میں لفظ : ضامر ، استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دبلے اونٹوں کے لیے بولتے ہیں ۔ اس سے ان مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آ رہے ہوں اور راستے میں ان کے اونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دبلے ہو گئے ہوں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :47 یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداءً حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے ۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کا خاتمہ اس قدیم گھر کا طواف کریں پر ہوا ہے ، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانہ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا ۔ ( حضرت ابراہیم کی تعمیر خانہ کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ، سورہ بقرہ ، آیات 125 ۔ 129 ۔ آل عمران ، آیات 96 ۔ 97 ۔ ابراہیم ، آیات 35 ۔ 41 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٢٩:۔ اوپر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا یہ قول گزر چکا ہے کہ کعبہ کے تیار ہوجانے کے بعد مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اذان دی کہ اے لوگو ! حج کرنے کے لیے آؤ ‘ اللہ کا گھر تیار ہوگیا ہے اور اس اذان کی یہ تاثیر اللہ تعالیٰ نے اہل قبلہ کے دلوں میں ڈال دی کہ وہ حج اور عمرہ کی نیت سے قیامت تک کعبہ کو جاویں گے ‘ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ ‘ سنن بیہقی ‘ تفسیر ابن المنذر ‘ تفسیر ابن ابی حاتم ‘ مستدرک ٢ ؎ حاکم وغیرہ میں ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ‘ اذان کے معنی جتلانے کے ہیں۔ نماز سے پہلی جو اذان دی جاتی ہے اس سے نماز کا وقت جتلایا جاتا ہے اس لیے اس کو بھی اذان کہتے ہیں جس طرح اللہ کے حکم سے ابراہیم (علیہ السلام) نے حج کی فرضیت لوگوں کو جتلائی ‘ اسی طرح حجتہ الوداع کے خطبہ میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حج کی فرضیت لوگوں کو جتلائی ہے جس کا ذکر مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت ٣ ؎ میں ہے ‘ دبلے اونٹوں کے ذکر کا مطلب ایسے دور مقامات سے حج کو آنے کا ہے جس سفر کی تکلیف سے ان حج کو آنے والوں کے سواری کے اونٹ دبلے ہوگئے ‘ ترمذی میں عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ٤ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ حج آدمی پر جب ہی فرض ہوتا ہے کہ اس کے پاس مکہ تک کے سفر کا کھانے اور سواری کے انتظام کا خرچ ہو ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن یزید خوزی کو ابن معین ‘ نسائی وغیرہ نے اگرچہ ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن عدی نے ابراہیم کو معتبر ٹھہرایا ہے ‘ سنہ تین سو کے علماء میں یہ عبداللہ بن عدی مشہور اور ثقہ عالم ہیں ‘ راویوں کے ثقہ اور ضعیف ہونے کے باب میں ان کے قول کا بڑا اعتبار ہے اس مضمون کی ایک روایت دارقطنی اور مستدرک حاکم میں انس بن مالک سے بھی ہے جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ٥ ؎ ہے ان روایتوں کے موافق اکثر علماء کا مذہب وہی ہے جو شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں بیان کیا ہے کہ حج کے فرض ہونے کے لیے سوار کا خرچ ضروری ہے ‘ فقط امام مالک (رح) یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کو پیدل چلنے کی عادت ہو اس پر بغیر سواری کے خرچ کے حج فرض ہوجاتا ہے ‘ ترمذی ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص پرہیزگاری سے حج کا فرض ادا کرے تو اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ (رض) بن عباس کی روایت سورة بقرہ میں گزر چکی ٢ ؎ ہے کہ حج کے سفر میں تجارت جائز ہے یہ حدیثیں منافع لھم کی گویا تفسیر ہیں جن سے دین و دنیا کے جو فائدے حج میں ہیں ان کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ قربانی کے دنوں میں جانوروں کے ذبح کے وقت اللہ کا نام جو لیا جاتا ہے آگے اس کا ذکر فرمایا ‘ مشرکین مکہ قربانی کے گوشت میں سے خود نہیں کھاتے تھے اس لیے فرمایا کہ قربانی کے گوشت میں سے خود کھانا اور محتاجوں فقیروں کو دینا سب کچھ جائز ہے ہاں حج کے دنوں کے کسی قصور کی سزا میں جو قربانی کی جاتی ہے وہ سب گوشت محتاجوں کو دے دیا جائے کیونکہ وہ گوشت قربانی والا شخص نہیں کھا سکتا ‘ عرفات سے پلٹنے کے بعد حجامت جو بنوائی جاتی ہے کپڑے پہنے جاتے ہیں دسویں ذی الحجہ کا طواف منی سے آن کر کیا جاتا ہے حج کے دنوں کی کوئی منت ہو تو وہ پوری کی جاتی ہے آخر آیت میں ان سب باتوں کا ذکر فرمایا ‘ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ کعبہ پہلے آدم (علیہ السلام) نے بنایا ‘ پھر شیث (علیہ السلام) نے پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ‘ حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے کعبہ بنانے کے ذکر میں کعبہ کو قدیم گھر اس لیے فرمایا کہ کعبہ کی عمارت کا ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے کا ہونا اور اس پہلی بنا پر ابراہیم (علیہ السلام) کا کعبہ کو بنانا اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ٣٥٤ ج ٤ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ کتاب المناسک بحوالہ مسلم ) (٤ ؎ جامع ترمذی ص ١٠٠ ج ١۔ طبع مجتبائی دہلی۔ ) (٥ ؎ تنقیح الرواۃ ص ١١٣ ج ٢ ) (١ ؎ ص ١٠٠ ج ١ باب ثواب الحج ) (٢ ؎ ص ١٥٩ جلد اول )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:27) اذن۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو پکار ۔ تو اعلان کر۔ تاذین (تفعیل) سے۔ الاذان ای الاعلام والاعلان۔ یاتوک۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) جمع مذکر غائب ک واحد مذکر حاضر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے۔ (یعنی اس گھر کی طرف آئیں گے جسے تو نے تعمیر کیا ہے یعنی بیت الحرام ۔ رجالا۔ پائوں چلتے ہوئے۔ پائوں پیادہ۔ راجل کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکاب۔ رجل سے مشتق ہے جس کے معنی پائوں کے ہیں۔ اسی مناسبت سے پائوں پیادہ کو راجل کہتے ہیں۔ یاتوک سے موضع حال میں ہے لہٰذا منصوب ہے۔ ضامر۔ اسم فاعل واحد مذکر ۔ دبلا۔ جس کی کمر پتلی ہو اور پیٹ بیٹھ گیا ہو۔ ضمور سے یہاں مراد سواری کا وہ جانور (اونٹ یا گھوڑا) جو دیر تک یا دور تک سواری دینے کے سبب دبلا ہوگیا ہو۔ مذکر ومؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ یاتین۔ مضارع جمع مؤنث غائب۔ وہ آئیں گی۔ ضامر کی صفت میں ہے یعنی جو دور دراز شاہراہوں سے آرہی ہوں گی (یاتین من کل فج عمیق) ۔ فج۔ الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں۔ اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی استعمال ہونے لگا۔ اس کی جمع فجاج ہے۔ قرآن مجید میں ہے فیھا فجاجا سبلا (21:31) اس میں کشادہ راستے۔ عمیق۔ عمق سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے العمق کے معنی نیچے کی طرف دوری یعنی گہرائی کے ہیں۔ اس لئے بہت گہرے کنویں کو بئر عمیق کہتے ہیں۔ راستہ کی صفت ہو تو اس کے معنی دور دراز کے لئے جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 وہ اونٹ جسے چارہ کی قلت اور سفر نے تھکا کر دبلا کردیا ہو۔ 4 ۔ چناچہ ابراہیم ( علیہ السلام) نے ایک پہاڑی پر چڑھ کر یہ اعلان کیا اور سب نے ان کی پکار کا جواب دیا لبیک اللھم لبیک۔ (شوکانی) 5

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اعلانِ حج کا حکم۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) تعمیرکعبہ سے فارغ ہوئے اور رب جلیل کے حضور اپنی مناجات پیش کرلیں تو حکم ہوا ‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور چاروں طرف اعلان کرو کہ اے لوگو ! تمہارے رب کا گھر تیار ہوچکا ہے لہٰذا اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہوجاؤ۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کرنے لگے : اے اللہ ! میں کمزور ہوں ‘ میری آواز ساری دنیا میں کس طرح پہنچے گی۔ حکم ہوا ‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) تیرا کام آواز دینا ہے ہمارا کام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ” عَلَےْکَ الإِْذْنُ وَعَلَےْنَا الْبَلاَغُ “ علامہ ابن کثیر (رض) نے لکھا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے ابو قیس پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی آپ کی آواز دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی یہاں تک کہ جن لوگوں کے مقدر میں حج تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز ان کی ماؤں کے رحم تک پہنچا دی ہے۔ حج عبادات کا مرقع، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی ہے جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اور ملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع و عریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات و معاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی سٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار، ذاتی اصلاح اور اجتماعی معاملات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے وہاں ملت کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی حکمت ہے جس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیش نظر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے فرماتے جارہے تھے : (عَلَیْکُمْ بالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ ) [ رواہ البخاری : باب أَمْرِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ ] ” اے حجاج کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے، نیکی اچھلنے کودنے کا نام نہیں۔ “ حج شوکت اسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کو اپنے کردار کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ “ حجِمبرور : ” جناب ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ ارشاد ہوا ‘ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھنے والے نے پھر پوچھا اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے عرض کیا جہاد کے بعد ؟ آپ نے ارشاد فرمایا حج مبرور یعنی ایسا حج جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے جس میں فسق وفجور نہ ہو (اور سنت کے مطابق کیا جائے ) ۔ “ [ رواہ البخاری : باب فضل الحج المبرور ] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی فرماتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا۔ اور اس نے دورانِ حج کوئی شہوانی فعل اور فسق وفجور نہ کیا تو وہ ایسے لو ٹے گا گویا اسی دن اس کی والدہ نے اسے جنم دیا ہے۔ [ رواہ البخاری : باب فی فضل حج المبرور ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے اقرع بن حابس تمیمی (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض کیا گیا ہے آپ خاموش رہے آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا پھر تم اس پر عمل کی طاقت نہ رکھتے۔ حج ایک ہی بار فرض ہے۔ “ [ رواہ النسائی : باب وجوب الحج ] مسائل ١۔ تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کا اعلان کرنے کا حکم ہوا۔ ٢۔ حج اور زیارت کعبہ کے لیے قیامت تک زمین کے نشیب و فراز سے لوگ پیدل اور اپنی سواریوں پر آتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن حج کے آداب : ١۔ ان لوگوں پر حج فرض ہے جو حج کے اخراجات اور سفر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ (آل عمران : ٩٧) ٢۔ حج کے مہینے معلوم ہیں لہٰذا حج کے ایام میں گناہ کے کام نہ کیے جائیں۔ (البقرۃ : ١٩٧) ٣۔ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو۔ (البقرۃ : ١٩٦) ٤۔ حج میں ہر کسی قسم کی بےحیائی، نافرمانی اور جھگڑا کرنے سے بچنا چاہیے۔ ( البقرۃ : ١٩٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا) (الآیۃ) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ساتھ ملا کر کعبہ شریف کی تعمیر پوری کرلی تو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انہیں حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دو یعنی پکارو کہ حج کے لیے چلے آؤ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں لوگوں میں اس بات کا کیسے اعلان کروں حالانکہ میری آواز نہیں پہنچ سکتی اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ تم پکارو آواز کا پہنچانا ہمارے ذمہ ہے چناچہ صفا پر اور ایک قول کے مطابق جبل ابو قبیس پر کھڑے ہو کر انہوں نے یوں آواز دے دی یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ رَبّکُمْ قَدْ اِتَّخَذَ بَیْتًا فَحَجُّوْہُ (اے لوگو ! یقین جانو تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے لہٰذا تم اس کا حج کرو) ان کے اس اعلان کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچا دیا اور ہر وہ شخص جس کی تقدیر میں حج کرنا تھا اسے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز سنوا دی حتیٰ کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جو ماؤں کے رحموں میں تھے اور باپوں کی پشتوں میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حضرت ابراہیم کی آواز پہنچا دی۔ اور جس جس کے لیے قیامت تک حج کرنا مقرر اور مقدر تھا ان سب نے اسی وقت لبیک اللھم لبیک پڑھ لیا، حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح منقول ہے۔ گزشتہ زمانہ میں تو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک شخص کی آواز بیک وقت پورے عالم میں کیسے پہنچی ہوگی ؟ لیکن اب تو جدید آلات نے سب پر واضح کردیا کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، ایک شخص ایشیا میں بولتا ہے تو اسی وقت اس کی آواز امریکہ میں سنی جاتی ہے اور امریکہ میں بولتا ہے توایشیا والے گھروں میں بیٹھے بیٹھے سن لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب تم حج کی دعوت دے دو گے تو تمہاری اس دعوت پر آواز سننے والے پیدل چل کر اور اونٹنیوں پر سفر کر کے دور دراز راستوں سے حج کے لیے چلے آئیں گے اس مضمون کو (یَاْتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ ) میں بیان فرمایا ہے، ضامر سے دبلی اونٹنیاں مراد ہیں کیونکہ اس کی صفت میں یَاْتِیْنَ جمع مونث غائب لایا گیا ہے، عرب کے لوگ تیز رفتاری کی ضرورت سے گھوڑوں کو اور اونٹوں کو کم کھلاتے تھے کیونکہ موٹے ہوں گے تو بوجھل ہونے کی وجہ سے چل نہ سکیں گے، ایسے جانوروں کو ضامر کہا جاتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور لوگوں میں حج کے فرض ہونے کا اعلان کردے اس کا اعلان سے لوگ تیرے پاس پاپیادہ یعنی پائوں چلتے آویں گے اور ان دبلی دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر بھی جو دور دراز کی راہ طے کرکے آئی ہونگی۔ یعنی حج کی فرضیت کا اعلان کرایا ابراہیم (علیہ السلام) سے آنے والوں کی دو ہی صورتیں ہوسکتی تھیں۔ قریب کے رہنے والے پیدل آکر حج کریں گے اور دور کے رہنے والے سواریوں پر آکر فریضہ ٔ حج ادا کریں گے۔ تیرے پاس آنے والے سے مطلب یہ ہے کہ تیرے تعمیر کردہ کعبہ کے پاس آئیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک پہاڑ پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پکارا کہ لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے حج کو آئو۔ باپ کی پشت میں لبیک کہا۔ جن کی قسمت میں حج ہے ایک بار یا دو بار یا زیادہ اپنے شوق سے ہزاروں خلق پیادہ آتے ہیں۔ لیکن فرض تب ہی ہے کہ سواری پیدا ہو اور اگر مکہ نزدیک ہے یا شخص کو چلنے کی عادت ہے تو امام مالک کے ہاں فرض ہے۔ 12 بہرحال ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی اور حج کے فرض ہونے کا اعلان ہوگیا۔ مسلمان جہاں جہاں آباد ہیں ان کے اہل مقدرت پر حج فرض ہے ۔ صنامر اصل میں دبلی اور چھریری اونٹنی کو کہتے ہیں یہ اونٹنی تیز رفتار ہوتی ہے اور یہ مطلب نہیں کہ اونٹ پر ہی آئیں چونکہ پہلے ان ممالک میں عام طور سے سفر اونٹ پر ہوا کرتا تھا سا لئے صنامر فرمایا اگر کوئی سواری میسر ہو تو اس پر سفر کریں۔ یہاں ضامر کا یہ مطلب بھی لوگوں نے بیان کیا ہے کہ دوردراز کے سفر کی وجہ سے وہ اونٹ دبلے ہوں گے آگے حج کا سبب بیان کرتے ہیں۔