The Goal of the Udhiyyah (Sacrifice) according to Allah is the Sincerity and Taqwa of His Servant
Allah says: this sacrifice is prescribed for you so that you will remember Him at the time of slaughter, for He is the Creator and Provider. Nothing of its flesh or blood reaches Him, for He has no need of anything other than Himself. During the time of Jahiliyyah, when they offered sacrifices to their gods, they would put some of the meat of their sacrifices on their idols, and sprinkle the blood over them. But Allah says:
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاوُهَا
...
It is neither their meat nor their blood that reaches Allah,
Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Jurayj said,
"The people of the Jahiliyyah used to put the meat of their sacrifices and sprinkle the blood on the House, and the Companions of the Messenger of Allah said, "We have more right to do that."
Then Allah revealed the words:
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاوُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ
...
It is neither their meat nor their blood that reaches Allah, but it is Taqwa from you that reaches Him.
That is what He will accept and reward for, as mentioned in the Sahih,
إِنَّ اللهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلاَ إِلَى أَلْوَانِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم
Allah does not look to your appearance or your colors, but He looks to your hearts and deeds.
And in the Hadith;
Indeed charity falls in the Hand of Ar-Rahman before it falls in the hand of the one asking.
...
كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ
...
Thus have We made them subject to you,
meaning, `for this purpose We have subjugated the Budn for you,'
...
لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ
...
that you may proclaim Allah's greatness for His guidance to you.
means, that you may glorify Him for guiding you to His religion and His way which He loves and is pleased with, and has forbidden you to do all that He hates and rejects.
...
وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
And give glad tidings to the doers of good.
means, `give good news, O Muhammad, to those who do good,' i.e., whose deeds are good and who remain within the limits prescribed by Allah, who follow that which has been prescribed for them, who believe in the Messenger and follow that which he has conveyed from his Lord.
Note:
The Udhiyyah is Sunnah, Mustahabbah One animal is sufficient on behalf of all the members of one household.
Ibn Umar said,
"The Messenger of Allah continued to offer sacrifice for ten years."
This was recorded by At-Tirmidhi.
Abu Ayub said:
"At the time of the Messenger of Allah, a man would sacrifice a sheep on behalf of himself and all the members of his household, and they would eat from it and feed others, until the people started boasting (by sacrificing more than one) and things reached the stage that you see now."
This was recorded by At-Tirmidhi, who graded it Sahih, and by Ibn Majah.
Abdullah bin Hisham used to sacrifice one sheep on behalf of his entire family; this was recorded by Al-Bukhari.
Concerning how old the sacrificial animal should be, Muslim recorded from Jabir that the Messenger of Allah said:
لاَا تَذْبَحُوا إِلاَّ مُسِنَّةً إِلاَّ أَنْ تَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْن
Do not sacrifice any but mature animals, and if that is not possible, then sacrifice a young sheep.
قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو
ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے ۔ اسی لئے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بےنیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقوی کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے واللہ اعلم ۔ عامر شعبی سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا اللہ کو گوشت وخون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو ، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نامرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں ۔ ( مسئلہ ) امام ابو حنیفہ مالک ثوری کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے ۔ ( ترمذی ) امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت احمد رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب وفرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں ۔ یہ بھی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہوگیا ۔ حضرت ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتدا کریں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے ، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لئے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا ہر گھر والوں پر ہرسال قربانی ہے اور عتیرہ ہے جانتے ہو عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو ۔ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کردیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کرلیا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ ) حضرت عبداللہ بن ہشام اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ ( بخاری ) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر مسنہ بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کرسکتے ہو ۔ زہری تو کہتے ہیں کہ جزعہ یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے ۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں لگ جائے ۔ اور گائے جب دوسال پورے کرکے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو ۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دوسال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہوگیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اسکی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، واللہ اعلم ۔