Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 37

سورة الحج

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۳۷﴾

Their meat will not reach Allah , nor will their blood, but what reaches Him is piety from you. Thus have We subjected them to you that you may glorify Allah for that [to] which He has guided you; and give good tidings to the doers of good.

اللہ تعالٰی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے توتمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو ، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Goal of the Udhiyyah (Sacrifice) according to Allah is the Sincerity and Taqwa of His Servant Allah says: this sacrifice is prescribed for you so that you will remember Him at the time of slaughter, for He is the Creator and Provider. Nothing of its flesh or blood reaches Him, for He has no need of anything other than Himself. During the time of Jahiliyyah, when they offered sacrifices to their gods, they would put some of the meat of their sacrifices on their idols, and sprinkle the blood over them. But Allah says: لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاوُهَا ... It is neither their meat nor their blood that reaches Allah, Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Jurayj said, "The people of the Jahiliyyah used to put the meat of their sacrifices and sprinkle the blood on the House, and the Companions of the Messenger of Allah said, "We have more right to do that." Then Allah revealed the words: لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاوُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ ... It is neither their meat nor their blood that reaches Allah, but it is Taqwa from you that reaches Him. That is what He will accept and reward for, as mentioned in the Sahih, إِنَّ اللهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلاَ إِلَى أَلْوَانِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم Allah does not look to your appearance or your colors, but He looks to your hearts and deeds. And in the Hadith; Indeed charity falls in the Hand of Ar-Rahman before it falls in the hand of the one asking. ... كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ ... Thus have We made them subject to you, meaning, `for this purpose We have subjugated the Budn for you,' ... لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ ... that you may proclaim Allah's greatness for His guidance to you. means, that you may glorify Him for guiding you to His religion and His way which He loves and is pleased with, and has forbidden you to do all that He hates and rejects. ... وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ And give glad tidings to the doers of good. means, `give good news, O Muhammad, to those who do good,' i.e., whose deeds are good and who remain within the limits prescribed by Allah, who follow that which has been prescribed for them, who believe in the Messenger and follow that which he has conveyed from his Lord. Note: The Udhiyyah is Sunnah, Mustahabbah One animal is sufficient on behalf of all the members of one household. Ibn Umar said, "The Messenger of Allah continued to offer sacrifice for ten years." This was recorded by At-Tirmidhi. Abu Ayub said: "At the time of the Messenger of Allah, a man would sacrifice a sheep on behalf of himself and all the members of his household, and they would eat from it and feed others, until the people started boasting (by sacrificing more than one) and things reached the stage that you see now." This was recorded by At-Tirmidhi, who graded it Sahih, and by Ibn Majah. Abdullah bin Hisham used to sacrifice one sheep on behalf of his entire family; this was recorded by Al-Bukhari. Concerning how old the sacrificial animal should be, Muslim recorded from Jabir that the Messenger of Allah said: لاَا تَذْبَحُوا إِلاَّ مُسِنَّةً إِلاَّ أَنْ تَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْن Do not sacrifice any but mature animals, and if that is not possible, then sacrifice a young sheep.

قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے ۔ اسی لئے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بےنیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقوی کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے واللہ اعلم ۔ عامر شعبی سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا اللہ کو گوشت وخون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو ، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نامرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں ۔ ( مسئلہ ) امام ابو حنیفہ مالک ثوری کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے ۔ ( ترمذی ) امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت احمد رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب وفرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں ۔ یہ بھی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہوگیا ۔ حضرت ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتدا کریں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے ، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لئے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا ہر گھر والوں پر ہرسال قربانی ہے اور عتیرہ ہے جانتے ہو عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو ۔ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کردیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کرلیا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ ) حضرت عبداللہ بن ہشام اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ ( بخاری ) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر مسنہ بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کرسکتے ہو ۔ زہری تو کہتے ہیں کہ جزعہ یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے ۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں لگ جائے ۔ اور گائے جب دوسال پورے کرکے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو ۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دوسال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہوگیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اسکی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] مشرکین کی یہ عادت تھی کہ جب وہ کسی بت کے نام پر کوئی قربانی کا جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت اس کے سامنے رکھ دیتے اور اس کا خون بت کے جسم پر مل دیتے تھے۔ بتوں کے سامنے رکھا ہوا گوشت تو بتوں کے مجاوروں کے کام آتا تھا اور وہی ان بتوں کو بعد میں صاف بھی کر ڈالتے تھے۔ اور جب وہ اللہ کے نام کی قربانی کرتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لا رکھتے اور خون کعبہ کی دیواروں سے لتھیڑا دیتے یا اس پر اس خون کے چھینٹے ڈالتے۔ گویا ان کے خیال کے مطابق قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس کا گوشت اور خون پیش کردیا جائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جاہلی نظریہ کی تردید کرتے ہو وے فرمایا کہ اللہ کو نہ تمہارے قربانی کے جانوروں کے گوشت کی ضرورت ہے اور نہ خون کی۔ خون تو ویسے ہی حرام اور ناپاک چیز ہے اور گوشت تم خود ہی کھا سکتے ہو اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ اللہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم نے کس نیت، خلوص اور محبت کے ساتھ اللہ کے حضور یہ قربانی پیش کی ہے۔ تمہاری نیت میں جس قدر خلوص اور تقویٰ ہوگا وہی اللہ کے حضور اس قربانی کی قدروقیمت ہوگی۔ بعض لوگ قربانی محض رسم کے طور پر بجا لاتے ہیں۔ بعض اس لئے کہ ہمارے بچے آخر دوسرے کی طرف سے گوشت آنے کی کیوں انتظار کرتے رہیں۔ اور بعض دولتمند اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ انھیں طعنہ نہ دیں۔ اور بعض اس لئے کوئی موٹا، عمدہ اور قیمتی جانور قربانی کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کی شہرت ہو۔ اور بعض بخل سے کام لے کر کوئی کمزور اور عیب دار قسم کا جانور قربانی کردیتے ہیں۔ ایسے سب لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ کہ اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھتا ہے آیا اس بندہ نے جو قربانی کی ہے وہ اللہ کی احسان مندی اور شکر بجا لاتے ہوئے شوق و محبت سے کی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کی نیت ہی لنگڑی لولی ہو تو اگر وہ کوئی موٹا تازہ جانور بھی قربان کرے گا تو اس کا اسے کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟۔ [٦٢] بڑائی بیان کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر یا بسم اللہ واللہ اکبر اور شکر کی ادائیگی کے لئے اللھم منک ذلک (یعنی اے اللہ ! یہ قربانی کا جانور تو نے ہی عطا کیا تھا اور تیری رضا کے لئے میں اسے قربان کر رہا ہوں) پڑھنا چاہئے۔ [٦٣] جب ستم رسیدہ سید مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آئے تو انھیں کئی قسم کے غم اور تفکرات لاحق تھے۔ گھر بار اور اپنا وطن مالوف چھوڑنے کا غم یا مدینہ میں آپ ہوا کی ناسازگاری، ذریعہ معاش کی فکر، کفار مکہ کی ایذا رسانیوں کی یاد جو انھیں بےچین کردیتی تھی۔ مزید ستم یہ کہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی کفار مکہ نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ علاوہ ازیں ایک بڑا غم مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے دور ہوجانے کا تھا۔ جسے اب وہ دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ مناسک حج وعمرہ بجا لانا تو دور کی بات تھی۔ انھیں حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی طرف سے کافروں کی مدافعت کر رہا ہے اور وہ بتدریج ایسے حالات پیدا کردے گا کہ مسلمانوں کے لئے سب راہیں کھل جائیں گی۔ اور ان کے دشمن ہی بالآخر غائب و حاضر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو کئی ایسے احکام دیئے گئے ہیں جن سے ان کی مناسک حج وعمرہ کی بجا لانے کی حسرت کی کسی حد تک تلافی ہوسکتی تھی۔ اور ان احکام پر حج کرنے والوں سے مماثلت بھی پائی جاتی تھی۔ مثلاً مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان میں ہر صاحب استطاعت ١٠ ذی الحجہ کو قربانی کیا کرے چناچہ رسول اللہ نے مدینہ میں دس سال قربانی دیتے رہے نیز مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ یکم ذی الحجہ کا یعنی چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ حجامت بنوائے اور نہ ناخن کٹوائے۔ نیز یہ کہ مسلمان کسی دوسرے کے ہاتھ میں اپنا قربانی کا جانور بیت اللہ شریف بھیج سکتے ہیں۔ نیز ایام تشریق میں وہ بھی اسی طرح تکبیرات پڑھا کریں جس طرح حاجی حضرات ان دنوں میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ قربانیوں کے گوشت پہنچیں گے، جو کھا لیے گئے اور نہ ان کے خون، جو بہا دیے گئے۔ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے غنی ہے، اس کے پاس تو تقویٰ یعنی تمہارے دل کا وہ خوف پہنچے گا جو اللہ کی ناراضگی سے بچاتا ہے، جو دل پر غالب ہوجاتا ہے تو آدمی اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتا اور ہر منع کردہ کام سے باز آجاتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَ أَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ أَعْمَالِکُمْ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ۔۔ : ٣٤؍ ٢٥٦٤ ] ” اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔ “ اس آیت اور حدیث سے دل کے تقویٰ اور نیت کے اخلاص کی اہمیت ظاہر ہے، اس لیے قربانی خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، نہ دکھاوا مقصود ہو اور نہ شہرت، نہ فخر اور نہ یہ خیال کہ لوگ قربانی کرتے ہیں تو ہم بھی کریں۔ نیت کے بغیر عمل کا کچھ فائدہ نہیں۔ نیت خالص ہو تو بعض اوقات عمل کے بغیر ہی بلند مقامات تک پہنچا دیتی ہے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : ( إِنَّ بالْمَدِیْنَۃِ اَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِیْرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوْا مَعََکُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَھُمْ بالْمَدِیْنَۃِ ؟ قَالَ وَھُمْ بالْمَدِیْنَۃِ حَسَبَھُمُ الْعُذْرُ ) [ بخاري، المغازی، باب : ٤٤٢٣ ]” مدینہ میں کئی لوگ ہیں کہ تم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی وادی طے کی ہے مگر وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! مدینہ میں رہتے ہوئے ؟ “ فرمایا : ” ہاں ! مدینہ میں رہتے ہوئے، انھیں عذر نے روکے رکھا۔ “ نیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی زندگی جتنی بھی ہو محدود ہے، یعنی صرف چند سال، اگر اس میں نیک عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں اور برے عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ محدود عمل پر غیر محدود جزا نیت کی وجہ سے ہے کہ نیک کی نیت ہمیشہ نیکی کرتے رہنے کی اور بد کی نیت ہمیشہ بدی کرتے رہنے کی تھی۔ دیکھیے سورة انعام (٢٧، ٢٨) ۔ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ : یہاں تاکید کے لیے قربانی کے جانوروں کو مسخر کرنے کا احسان دوبارہ یاد دلایا اور تکبیر یعنی ” اللہ اکبر “ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ “ کہنا اللہ کو مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) اونٹ کو اشعار (کوہان کی ایک طرف زخم) کرتے ہوئے ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ “ پڑھتے تھے۔ [ الموطأ لإمام مالک : ٨٤٥ ] انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ “ پڑھا اور اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا۔ [ بخاري، الأضاحي، باب التکبیر عند الذبح : ٥٥٦٥ ] ” لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ “ کے لفظ عام ہونے کی وجہ سے چوپاؤں کو مسخر کرنے کی نعمت پر دوسرے اوقات میں بھی اللہ کی کبریائی بیان کرنی چاہیے، جیسا کہ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کے لیے روانہ ہوتے وقت اونٹ پر سوار ہوتے تو تین دفعہ ” اللہ اکبر “ کہتے، پھر ” سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ “ پڑھتے (آگے سفر کی مکمل دعا مذکور ہے) ۔ [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب دابتہ۔۔ : ١٣٤٢ ] وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ :” الْمُحْسِنِيْنَ “ کو بشارت دینے کے حکم کے بعد ” الْمُحْسِنِيْنَ “ کو بشارت دینے کا حکم دیا۔ احسان کا تعلق ” وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ “ سے ہے۔ تقویٰ ہر وقت اللہ کے خوف سے اس کے احکام پر عمل اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔ احسان بھی یہی ہے کہ ہر وقت یہ بات دل و دماغ میں حاضر رکھے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حدیث جبریل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کی تفسیر فرمائی : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ )[ بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل۔۔ : ٥٠ ] ” احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “ تواضع اور احسان کی صفات رکھنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں ہر خیر کی بشارت ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١١٢) ، نساء (١٢٥) اور لقمان (٢٢) اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) 3 مفسر بقاعی نے ” وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ “ کی واؤ کا ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ دین کا مدار نذارت و بشارت دونوں پر ہے، اس مقام پر چونکہ حج اور اس کے اعمال قربانی وغیرہ کا ذکر ہے، جو بشارت سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں، اس لیے نذارت کو حذف کرکے واؤ عطف کے بعد بشارت کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ گویا اصل عبارت یوں تھی :” فَأَنْذِرْ أَیُّھَا الدَّاعِی ! الْمُسِیْءِیْنَ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ “ ” سو اے دعوت دینے والے ! برائی کرنے والوں کو ڈرا اور نیکی کرنے والوں کو خوش خبری سنا دے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The real object is not the specific rites of pilgrimage but true devotion to Allah and submission to His will which are inherent in those rites لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا (It is neither their flesh nor their blood that reaches Allah - 22:37) It means that the sacrifice of animals is a very high form of worship, but their meat and blood do not reach Allah Ta’ ala nor are these two things the real object of sacrifice. Its real aim is to recite the name of Allah and to comply with His commands with true devotion. This rule applies to all forms of worship. For instance, the object of prayers is not just the movement of limbs, or the object of fasting is not merely a denial of food and drink. The real purpose of these rites of worship is to obey the commands of Allah Ta’ ala with all sincerity. Devoid of sincerity these rites of worship are like a body without soul. Nevertheless these forms of worship are also very important because Allah Ta’ ala has prescribed these forms for different types of worship. Allah knows best. واللہ اعلم

عبادات کی خاص صورتیں اصل مقصود نہیں بلکہ دل کا اخلاص و اطاعت مقصود ہے : لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اللہ کے پاس اس کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا نہ وہ مقصود قربانی ہے بلکہ مقصود اصلی اس پر اللہ کا نام لینا اور حکم ربی کی بجا آوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے۔ یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست و برخاست کرنا اور بھوکا پیاسا رہنا اصل مقصود نہیں بلکہ مقصود ا صلی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص و محبت کے ساتھ ہے اگر یہ عبادات اس اخلاص و محبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے روح غائب ہے مگر عبادات کی شرعی صورت اور ڈھانچہ بھی اس لئے ضروری ہے کہ حکم ربانی کی تعمیل کیلئے اس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرما دی گئی ہیں۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ كَذٰلِكَ سَخَّرَہَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ہَدٰىكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٣٧ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : 455- جزعت ولیس ذلک بالنّوال «1» قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ لحم اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو : لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ: اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم : قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ. ( ل ح م ) اللحم ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ ح ُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قربانی کی روح تقویٰ ہے قول باری ہے (لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائوھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو گوشت قبول کرتا ہے اور نہ خون، اللہ تعالیٰ تو بس ان قربانیوں کے سلسلے میں پائے جانے والے تقویٰ کو قبول کرتا ہے۔ ایک قول ہے کہ اللہ کی رضا کو نہ ان کے گوشت پہنچ سکتے ہیں اور نہ ان کے خون مگر تمہارا تقویٰ اسے پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے فرمایا تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ قربانیاں کرنے والے صرف اپنے اعمال کی بنا پر ثواب کے مستحق ہیں کیونکہ گوشت اور خون اللہ کے پیدا کردہ ہیں اس لئے وہ ان کی بنا پر ثواب کے مستحق نہیں بن سکتے۔ ثواب کے مستحق تو صرف وہ اپنے فعل کی بنا پر بن سکتے ہیں جو تقویٰ ہے نیز ان جانوروں کو ذبح کر کے اللہ کے حکم کی موافقت کی راہ اختیار کرنا ہے۔ جانوروں کو مسخر کردیا گیا ہے قول باری ہے صکذلک سخرھا لکم لتکبروا اللہ علی ماھدکم اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی نجشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو نرم کردیا ہے تاکہ بندے جس طرح چاہیں ان سے کام لیں بخلاف درندوں کے جو قدرت کی طرف سے دی ہوئی قوت اور خطرناک اعضاء کی بنا پر کسی طرح قابو میں نہیں آسکتے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون زمانہ جاہلیت میں لوگ قربانی کے گوشت کو بیت اللہ کی دیواروں پر رکھ دیا کرتے تھے اور ان کے خون سے بیت اللہ کی دیواروں کو ملوث کردیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے ان کو روک دیا کہ اللہ تعالیٰ خون اور گوشت کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ تمہارے پاکیزہ اور صاف اعمال کو قبول کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع کردیا ہے تاکہ تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں اپنے دین اور سنت کی توفیق عطا فرمائی۔ شان نزول : ( آیت) ” لن ینال اللہ لحومہا “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیت اللہ کو اونٹوں کے گوشت اور اس کے خون سے ملوث کردیا کرتے تھے تو صحابہ کرام (رض) یہ دیکھ کر کہنے لگے تو ہم اس چیز کے زیادہ مستحق ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط) ” قربانی کا اصل فلسفہ یہی ہے ‘ بلکہ ہر عبادت کا فلسفہ یہی ہے۔ کسی بھی عبادت کا ایک ظاہری پہلو یا ڈھانچہ ہے اور ایک اس کی روح ہے۔ ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ اہم ہے اور وہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس عبادت کا بجا لانا ممکن نہیں ‘ لیکن یہ ظاہری پیکر اصل دین اور اصل مقصود نہیں ہے۔ کسی بھی عبادت سے اصل مقصود اس کی روح ہے۔ اسی نکتہ کو علامہ اقبال ؔ نے ان اشعار میں واضح کیا ہے : ؂ رہ گئی رسم اذاں ‘ روح بلالی (رض) نہ رہی فلسفہ رہ گیا ‘ تلقین غزالی (رح) نہ رہی اور نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں ‘ تو باقی نہیں ہے ! چنانچہ قربانی کا اصل مقصود ہمارے دلوں کا تقویٰ اور اخلاص ہے۔ اللہ کے ہاں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص قربانی دے رہا ہے وہ اپنی معمول کی زندگی میں اس کی نافرمانی سے کتنا ڈرتا ہے ؟ وہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں اللہ کے احکام و قوانین کا کس قدر پابند ہے ؟ کس قدر وہ اپنی توانائیاں ‘ اپنی صلاحیتیں اور اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کر رہا ہے ؟ کیا قربانی کے جانور کا اہتمام اس نے رزق حلال سے کیا ہے ؟ اس قربانی کے پیچھے اس کا جذبۂ اطاعت و ایثار کس قدر کارفرما ہے ؟ یہ اور اسی نوعیت کی دوسری شرائط جو قربانی کی اصل روح اور تقویٰ کا تعین کرتی ہیں اگر موجود ہیں تو امید رکھنی چاہیے کہ قربانی اللہ کے حضور قابل قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ سب کچھ نہیں تو ٹھیک ہے آپ نے گوشت کھالیا ‘ کچھ غریبوں کو بھی اس میں سے حصہ مل گیا ‘ اس کے علاوہ شاید قربانی سے اور کچھ فائدہ حاصل نہ ہو۔ (کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٹکُمْ ط) ” مسلمان سال میں دو عیدیں مناتے ہیں۔ ایک عید الفطر ہے جو روزوں کے بعد آتی ہے اور دوسری عید الاضحیٰ جو حج کے ساتھ منسلک ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ سورة البقرۃ کے ٢٣ ویں رکوع میں روزوں کے ذکر کے بعد بھی بالکل یہی حکم وارد ہوا ہے : (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٹکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ” تاکہ تم لوگ اللہ کی تکبیر بیان کرو اس ہدایت پر جس سے اس نے تمہیں سرفراز کیا ہے اور تاکہ تم شکر ادا کیا کرو “۔ یعنی دونوں مواقع پر اللہ کی تکبیر بلند کرتے ہوئے اس کی کبریائی کا اظہار کرنے کی خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی لیے عیدین کی نمازوں کے لیے آتے جاتے تکبیریں پڑھنے کی تاکید احادیث میں ملتی ہے اور عیدین کی نمازوں کے اندر بھی اضافی تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔ (وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ) ” محسنین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام ‘ ایمان اور تقویٰ کی منزلیں طے کرتے ہوئے درجۂ احسان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ کی توفیق سے اس درجہ کو حاصل کرلیتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! آمین ! ثم آمین !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. This prescribes a very important condition for the sacrifice made in the worship of Allah. A sacrifice is acceptable to Allah only if it is accompanied by piety and sincerity. Though sacrifice is a symbol of Allah, yet it has been made plain that it is accepted only if it is accompanied by piety, saying: “Neither their meat that reaches Allah nor their blood, but what reaches Him is the piety from you”. This was also meant to condemn the ritual of the days of ignorance, when the Arabs took the flesh to the Kabah and smeared its walls with the blood of the sacrificed animal. 74. “That you may glorify Allah” at the time of sacrifice verbally also in order to acknowledge that the animals really belong to Allah and to no one else. One of the sentences uttered at the time of sacrifice is Allahumma minka wa laka (O Allah, this animal is Thine and is presented to Thee). It should be noted that the command of sacrifice as contained in (verses 36 and 37) is not for the pilgrims alone and that the performance of sacrifice is not confined to Makkah on the occasion of Hajj. It is a general command for all those Muslims who are well off. They have been enjoined to be grateful to Allah because He has subjected these animals for the good of all human beings. Therefore they are required to sacrifice the animals during these days so that they may spiritually join those who go to Makkah to perform Hajj. There are many authentic traditions to the effect that the Prophet (peace be upon him) made sacrifice on this occasion, while he was personally at Al-Madinah. (1) The one who does not perform sacrifice even though he can, should not join us in the Eid Prayer. (Musnad Ahmad, Ibn Majah). (2) According to a tradition reported by Ibn Umar, the Prophet (peace be upon him) dwelt at Al-Madinah for ten years and performed sacrifice every year. (Tirmizi). (3) According to Anas, the Prophet (peace be upon him) said: The one who sacrificed an animal before the Eid Prayer, should offer another sacrifice; but the one who sacrificed his animal after the Eid Prayer, did the right thing and followed the way of the Muslims. (Bukhari). It this connection, it is note-worthy that no Eid Prayer is held on the tenth of Zil-Hajj in Makkah: therefore the injunction was meant for all Muslims and not only for those performing Hajj at Makkah. Thus, it is clear that the sacrifice on the occasion of Eid which is observed in the entire Muslim world is a Sunnah of the Prophet (peace be upon him) and has been enjoined by him. The only dispute is whether it is obligatory in nature or only a Sunnah. Ibrahim Nakhai, Imams Abu Hanifah, Malik, Muhammad and, according to a tradition, Imam Abu Yusuf too, are of the opinion that it is obligatory in nature. On the other hand, Imams Shafai and Ahmad bin Hanbal regard it only as a Sunnah of the Muslims, and Sufyan Thauri has also agreed with them, saying that there will be no harm if a person does not offer a sacrifice. It is, however, an irony that some of the learned Muslims of our time, who follow neither the Quran nor the Sunnah, and are only guided by personal whims, have declared that if there is a consensus of opinion of the Muslims, they can give up the practice of sacrifice on the occasion of Eid.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :73 جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے ، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے ۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے ۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں ، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے ۔ اگر تم شکر نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا ، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا ۔ یہ بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : ان اللہ لا ینظر الیٰ سورکم ولا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ، اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :74 یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو ۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ ہے ۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے ، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں ، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے ، اس کے حقوق مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں ، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے ۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ : اللھم منک ولک ، خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ اس مقام پر پہچان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے ، اور صرف مکے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے ، بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے ، جہاں بھی وہ ہوں ، تا کہ وہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں ۔ حج کی سعادت میرے سر نہ آئی نہ سہی ، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوار بیت اللہ میں کریں ۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ طیبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من وجد سعۃ فلم یُصَّحِّ فلا یقربن مصَلّانا ۔ : جو شخص استطاعت رکھتا ہو ، پھر قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف ۔ ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے ۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے روز فرمایا: من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد ومن ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین ۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے ، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق ۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں ۔ مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بقرعید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں ، اپنی اپنی قربانیاں کرلیں ۔ اس پر آپ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھر اعادہ کریں ۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں ، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے ۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت ۔ ابراہیم نخعی ، امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام محمد ، اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی ، اس کو واجب مانتے ہیں ۔ مگر اما شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ سرف سنت مسلمین ہے ، اور سفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں ۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :75 یہاں سے تقریر کا رخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے ۔ سلسلہ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا ۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارت حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے ۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکے میں ان پر کیے گئے تھے ، بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکے سے نکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے ۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصے میں کعبے کی تعمیر ، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کر دیا ہے ۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے اٹھیں ۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے ، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تاکہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کر سکے ۔ اس کے بعد اب دوسرے حصے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی جارہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ ٣٨:۔ تفسیر ابن منذر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ٣ ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حج کے وقت مشرک لوگ جو قربانی کرتے تھے تو ذرا سا خون اللہ کے نام کا کعبہ کو لگا دیتے تھے ‘ اسلام کے بعد مسلمانوں نے بھی اس رسم کو جاری کرنا چاہا ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو اس رسم سے منع فرمایا اور فرما دیا کہ جو چیز تم اللہ کے نام پر دیتے ہو ‘ اس چیز کی اللہ کو پرواہ نہیں ہے ‘ خود تم اور جو چیز تم اللہ کے نام پر دیتے ہو ‘ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے صدقہ خیرات کا حکم شریعت میں اللہ تعالیٰ نے اس واسطے دیا ہے کہ صدقہ دینے والے کا دل اللہ آزمائے کہ کہاں تک اس کے دل میں پرہیز گاری کا اثر ہے ‘ اس تفسیر میں ایک جگہ یہ جتلا دیا ہے کہ صدقہ دینے والے کا دل اللہ آزمائے کہ کہاں تک اس کے دل میں پر ہزگاری کا اثر ہے ‘ اس تفسیر میں ایک جگہ یہ جتلا دیا گیا ہے کہ تفسیر ابن المنذر قدیمی اور معتبر تفسیروں میں ہے ‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ٤ ؎ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ خدا تعالیٰ لوگوں کی صورت شکل اور ان کے مال ومتاع پر نظر نہیں ڈالتا بلکہ خدا کی نظر لوگوں کے دل اور ان کے اعمال پر پڑتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین ‘ اللہ تعالیٰ کی محبت ‘ ریا اور دکھاوے سے بچاؤ کہاں تک ہے اور ان کے اعمال حکم شریعت کے موافق کہاں تک صحیح اور بدعت کے اثر سے کہاں تک پاک وصاف ہیں ‘ ایک شخص بڑے سے بڑا کوئی نیک کام کرے اور اس کے دل میں یہ باتیں ایمان کی مضبوطی کی کم ہوں جن کا ذکر اوپر کی حدیث میں گزرا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں اس کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا ‘ جو شخص چھوٹا سا کوئی کام نیک نیتی اور مضبوطی ایمان سے کرے ‘ چناچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ٥ ؎ سے یہ حدیث قدسی جو ہے کہ نیکی کا اجر دس سے سات سو تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ‘ اس کی شرح خود صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ میں یہ فرمائی ہے کہ جس قدر ایمان واسلام اچھا اور مضبوط ہوتا ہے اسی قدر نیکی کا اجر بڑھتا ہے اب ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی یہ جو حدیث ٢ ؎ ہے کہ جو چیز خیرات کی جائے تو محتاج کے ہاتھ میں وہ چیز پیچھے جاتی ہے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں وہ چیز چلی جاتی ہے اور قربانی کا خون زمین پر پیچھے گرتا ہے ‘ پہلے اللہ تعالیٰ کے روبرو وہ خون چلا جاتا ہے ‘ اس کے معنی بھی حل ہوگئے کہ نیک کام سے پہلے جس طرح کی نیت کام کرنے والے کی ہوتی ہے ‘ اس نیت کے موافق پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ثواب اور اجر قرار پا جاتا ہے ‘ پھر پیچھے وہ کام ظہور میں آتا ہے ‘ کس لیے کہ قصد اور نیت ہر کام سے مقدم ہے اور خدا تعالیٰ کی جناب میں نیت پر اجر کی مقدار ہے ‘ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس کام کی اجازت شریعت میں نہ ہو وہ کام اللہ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خلاف ملت ابراہیمی کعبہ کو خون لگانے کی رسم کو پسند نہیں فرمایا ‘ سبب اس کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی فرما نبرداری کو اپنے بندوں سے چاہتا ہے اور فرما نبراداری حکم کی تعمیل سے ہوتی ہے ‘ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے حکم ہی نہیں دیا ‘ اس کے کرنے میں فرما نبرداری کہاں ہے ‘ الٹی نافرمانی ہے ‘ بدعتی لوگوں کو ذرا اس مطلب پر غور کرنا چاہیے ‘ چوپایوں کے انسان کے بس میں کردینا یہ کرتے تھے ‘ اس سے اوپر کی آیت میں اس نعمت کا ذکر فرما کر تاکید کے طور پر ان آیتوں میں پھر ان کا ذکر فرمایا۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک سے روایت ٣ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جانوروں کے ذبح کے وقت اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بسم اللہ واللہ اکبر کہا کرتے تھے ‘ یہ حدیث لتکبروا اللہ علی ماھدکم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے رسول کی معرفت ہدایت کی ہے ‘ جانوروں کے ذبح کے وقت اس کے موافق اللہ کی بڑائی خالص دل سے کیا کرو کہ اس نے اپنی کبریائی سے چوپایوں کو تمہارے بس میں کردیا ‘ صحیح بخاری ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ میں حضرت عائشہ سے روایت ٤ ؎ ہے کہ بعضے ایسے نو مسلم لوگ صحابہ (رض) کو تحفہ کے طور پر گوشت بھیجا کرتے تھے کہ ذبح کے وقت ان لوگوں کے بسم اللہ واللہ اکبر کہنے میں شبہ باقی رہتا تھا ‘ جب یہ ذکر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسے گوشت کے کھاتے وقت بسم اللہ کہہ لی جائے ‘ کھانے کے وقت کی سنت بسم اللہ کو ذبح کے وقت کی بسم اللہ کا قائم مقام جو اس حدیث میں ٹھہرایا گیا ہے ‘ اس سے علماء نے یہ بات نکالی ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ واللہ اکبر کہنا سنت ہے ‘ زیادہ تفصیل اس کی فقہ کی کتابوں میں ہے جس طرح احسان کے معنی کسی کے ساتھ نیکی اور بھلائی سے پیش آنے کے ہیں ‘ اسی طرح اس کے معنی خالص دل کے حسن عمل کے بھی ہیں ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے اور فقط مسلم میں حضرت عمر (رض) سے جو روایتیں ١ ؎ ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کے معنی یہ فرمائے کہ آدمی نیک کام کرتے وقت یہ جانے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر یہ مرتبہ آدمی کو میسر نہ آئے تو اتنا ضرور جان لیوے کہ اللہ اس آدمی کو دیکھ رہا ہے یہ روایتیں وبشر المحسنین کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ قربانی اور باقی کے سب نیک عمل خالص عقبیٰ کے ثواب کی اس سے بھی بڑھ کر اجر دیا جائے گا اس نے فرمایا اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں کو اس اجر کی خوشخبری سنا دی جائے ‘ اللہ کے رسول کی ہجرت کے بعد جو کمزور مسلمان مکہ میں رہ گئے تھے ‘ مشرکین مکہ ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ‘ ان مسلمانوں کی تسکین کے لیے آگے فرمایا کہ ان مشرکوں کی دعا بازی اور ناشکری اللہ کو پسند نہیں ہے اس لیے بہت جلد وہ زمانہ آنے والا ہے کہ اللہ ان دغا باز اسلام کے دشمنوں کا غلبہ مسلمانوں پر باقی نہ رکھے گا ‘ مشرکین مکہ نے دغا بازی سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ننگی تلواریں لے کر حملہ کرنے کا جو مشورہ کیا تھا اس کا ذکر سورة انفال میں گزر چکا ہے ‘ اس قصہ سے ان لوگوں کی دغا بازی اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے اور ناشکری ان لوگوں کی اس سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آسمانی کتاب دے کر ان کی ہدایت کے لیے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا لیکن ان لوگوں نے اس نعمت کی ناشکری کر کے اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کو جھٹلایا ‘ آخری آیت میں مشرکوں کے غلبہ کو مٹا دینے کا جو وعدہ تھا فتح مکہ کے وقت اس وعدہ کا یہ ظہور ہوا کہ جن بتوں کی حمایت کے جوش میں مشرکین مکہ مسلمانوں سے دشمنی رکھتے اور شرک کے غلبہ کے سبب سے مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ‘ فتح مکہ کے وقت اس غلبہ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں تک مٹایا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر ان بتوں کو زمین میں گرادیا اور کوئی مشرک ان بتوں کی کچھ حمایت نہ کرسکا ‘ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایتوں کے حوالہ سے یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (٣ ؎ تفسیر الدرا لمنثورص ٣٦٣ ج ٤ ) (٤ ؎ تفسیر ابن اثیر ص ٣٢٤ ج ٣۔ ) (٥ ؎ مشکوٰۃ کتاب اسماء اللہ تعالیٰ ) (١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٦ کتاب الایمان ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٢٤ ج ٣ ومشکوٰۃ ص ١٢٨ باب فی الاضحتیہ ) (٣ ؎ صحیح بخاری ص ٨٣٤ ج ٢ ) (٤ ؎ صحیح بخاری ص ٨٨٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ کتاب الایمان پہلی حدیث )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:37) لن ینال۔ مضارع منفی تاکید بلن۔ ہرگز نہیں پہنچتا۔ دماؤھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ دماء مصدر دم کی جمع ہے ان کے خون ۔ کذلک۔ اس طرح۔ (جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے خاص کر کہ اونٹ کو کس طرح کھڑا کر کے نحر کیا جائے۔ لتکبروا اللہ۔ لام تعلیل کا ہے۔ تکبروا مضارع جمع مذکر حاضر۔ تکبیر (تفعیل) مصدر۔ تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو۔ یعنی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور حمد بیان کرتے ہوئے اس کو بزرگی سے یاد کرو۔ علی ما ھدکم۔ اس بارے میں جس میں اس نے تمہاری راہنمائی کی ہے۔ یعنی اس کو تسخیر کرنے کے متعلق اور اس سے فوائد دنیوی اور دینی حاصل کرنے کے متعلق جو طریقے اس نے بتائے ہیں۔ ارشدکم الی طریق تسخیرھا وکیفیۃ التقرب بھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی قربانی میں اصل چیز جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ تمہارے دلوں کا خلوص اور تقویٰ ہے۔ اگر خلوص نیت سے قربانی کرو گے تو تمہارا نذرانہ خدا کے حضور قبولیت حاصل کرلے گا ورنہ خون اور گوشت کی خدا کو کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اسی بات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے (ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم و لکن ینظر الی قلوبکم۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم عن ابی ہریرۃ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکین قربانی کر کے اس کا خون کعبہ پر چھڑکتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی ایسا کرنا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) 10 ۔ یہا تکبر یعنی ” اللہ اکبر “ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اور اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ” بسم اللہ واللہ اکبر “ کہنامطلوب الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) دونوں کو جمع کرتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دو جانور (دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے وقت پہلے دعا پڑھی اور پھر بسم اللہ واللہ اکبر “ پڑھ کر ان کو ذبح کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قربانی کے مسائل کا بیان جاری ہے۔ عربوں میں یہ بھی جہالت پائی تھی کہ جب وہ قربانی ذبح کرتے تو اس کا خون اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے تھے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا کہ ہماری قربانی قبول ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے اس رسم کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا نہ خون پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت۔ اسے دلوں کا اخلاص اور تمہاری پرہیزگاری درکار ہے کہ تم کس جذبے اور نیت کے ساتھ قربانی کرتے ہو۔ جس میں پہلا جذبہ یہ درکار ہے کہ قربانی کرنے والا یہ احساس دل میں لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے وسائل اور طاقت سے یہ جانور میرے تابع ہوا ہے۔ دوسرا یہ جذبہ پیدا کرے کہ اسی کی ہدایت اور توفیق سے میں اسے ذبح کررہا ہوں۔ اگر وہ مجھے ہدایت اور توفیق نہ بخشتا تو مجھ میں کب ہمت تھی کہ میں قربانی کرتا۔ ہدایت سے مراد وہ توفیق اور راہنمائی ہے جس بنا پر آدمی دوسروں کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے حضور اور اس کی رضا کے لیے نذونیاز اور قربانی پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اس اخلاص کے ساتھ قربانی ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہی کی قربانی قبول کرتا ہے اسی لیے قربانی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے تھے۔ (قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) [ الانعام : ١٦٢] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے ! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَرَ بِکَبْشٍ اَقْرَنَ ےَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَّےَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَےَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَاُتِیَ بِہٖ لِےُضَحِّیَ بِہٖ قَالَ ےَا عَآءِشَۃُ ھَلُمِّی الْمُدْےَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِےْھَا بِحَجَرٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَخَذَھَا وَاَخَذَ الْکَبْشَ فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قَالَ (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ) ثُمَّ ضَحّٰی بِہ) [ رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الضَّحِیَّۃِ وَذَبْحِہَا مُبَاشَرَۃً بلاَ تَوْکِیلٍ وَالتَّسْمِیَۃِ وَالتَّکْبِیرِ ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگوں والا مینڈھا جس کی ٹانگیں ‘ پیٹ اور آنکھیں سیاہ تھیں مجھے لانے کا حکم دیا۔ جب یہ جانور ذبح کے لیے لایا گیا تو آپ نے مجھے چھری لانے کے لئے فرمایا ساتھ ہی فرمایا کہ پتھر پر چھری تیز کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھے کو لٹا کر ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ پڑھی اور یہ الفاظ ادا کیے۔ الٰہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ آل محمد اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی طرف سے قبول فرما۔ “ بعض نام نہاد دانشور اور کچھ لوگ آسمانی آفت زلزلہ ‘ سیلاب ‘ غربت یا جہاد کے جذبہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہر سال قربانی کرنے کے بجائے قربانی کی رقم جہاد اور فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونی چاہیے۔ ایسے احباب کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ کے دس سالہ دور میں قربانی بھی کی اور جہاد بھی جاری رکھا۔ جہاں تک غربت کا معاملہ ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور سے زیادہ مسلمانوں پر کبھی بھی غربت کا دور نہیں آیا۔ لہٰذا لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہر حال میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی قربانی کرتے رہیں۔ کیونکہ ارشاد ہے : ” ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسند کوئی عمل نہیں۔ قربانی کا جانور اپنے سینگوں ‘ کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اس لیے قربانی کرنے پر خوش ہوا کرو۔ “ (رواہ ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ) مسائل ١۔ اللہ کو قربانی کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا۔ ٢۔ اللہ کو قربانی کرنے والے کا اخلاص درکار ہے۔ ٣۔ قربانی پر تکبیر پڑھنا چاہیے۔ بسم اللہ واللہ اکبر۔ ٤۔ اخلاص کے ساتھ قربانی دینے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن محسنین کے اوصاف : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٢۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩٥) ٣۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ١٣) ٤۔ محسنین تنگی اور کشادگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ) (اللہ کو ہرگز ان کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے) یعنی جو جانور ضحایا اور ہدایا میں ذبح کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو ان کی کچھ حاجت نہیں اس کے پاس نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون ان کو تو تم ہی کھا پی کر برابر کردیتے ہو (کچھ گوشت خود کھایا کچھ اپنے گھر والوں کو کھلایا کچھ اصحاب و احباب کو دیا کچھ فقراء اور مساکین کو دیا یہ سب تمہارے اور تمہارے ابناء جنس ہی کے کام آگیا) اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے اخلاص کے ساتھ بہ نیت تقرب الی اللہ جانور ذبح کیے یا ریا کاری کے طور پر، خوش دلی سے قربانی کی ہے یا بد دلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اس کے مطابق جزا دے گا جو چیز اللہ کے لیے قربان کی جا رہی ہے وہ اچھی سے اچھی ہو خوش دلی سے بھی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر (ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) کے دن (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں مقام قبولیت میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو (رواہ الترمذی) حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کا جاری کیا ہوا طریقہ ہے عرض کیا اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے ! عرض کیا اگر اون والا ہو (جس میں بال بہت زیادہ ہوتے ہیں) تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔ (کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰیکُمْ ) (اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر فرما دیا تاکہ تم ان پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی) اللہ تعالیٰ نے ایمان بھی نصیب فرمایا اعمال صالحہ کی بھی توفیق دی اگر وہ ہدایت نہ دے دیتا تو تم ایمان سے بھی محروم رہتے اور اس کی عبادت سے بھی اور یہ بھی سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں ہدایت دی ہے جانوروں کو اللہ ہی کے لیے ذبح کرتے ہو اگر اس کی طرف سے ہدایت نہ ملتی تو مشرک ہوجاتے اور غیر اللہ کے لیے ذبح کرتے۔ (وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور محسنین کو بشارت دیدیجیے) لفظ محسنین موحدین، مخلصین، عابدین، قانتین، شاکرین سب کو شامل ہے ان سب کو خوشخبری ہے کہ ان کے لیے موت کے بعد خیر و خوبی ہے اور قیامت کے دن جنت کا داخلہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ ” لَنْ یَّنَالَ الخ “ یہاں قربانی کا اصل فلسلفہ بیان کیا گیا ہے یعنی صرف جانور کو ذبح کرنے اور اس کا خون گرادینے اور محض اس کا گوشت کھانے کھلانے سے تم اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تمہارا دل تقوی اخلاص اور خوشدلی کے جذبہ سے لبریز نہ ہو۔ جانور کا گوشت اور اس کا خون اٹھ خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں نہیں پہنچیں گے وہاں تو تمہارے دل کا تقوی اور اخلاص قبول ہوتا ہے۔ ” کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا الخ “ اسی طرح اللہ نے یہ چوپائے تمہارے بس اور تصرف میں دے دئیے ہیں تاکہ تم اللہ کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کا اظہار کرو اور ان چوپایوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کی خوشنودی کے لیے اسی کے نام پر ذبح کرو۔ ” وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ “ توحید پرستوں اور ہر قسم کے شرک (اعتقادی اور فعلی) سے اجتناب کرنے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ وبشر المحسنین قال ابن عباس الموحدین۔ (معالم و خازن ج 5 ص 19) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور ان کا خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تمہارا تقویٰ اور تمہارے دلوں کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو اسی طرح تمہارے لئے مسخر کردیا ہے اور ان کو تمہارے بس میں دے دیا ہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی اور تم کو توفیق دی اور تمہاری صحیح رہنمائی فرمائی۔ اور اے پیغمبر مخلصین اور نیکی کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجئے۔ یعنی قربانی کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو گوشت اور خون پہنچایا جائے بلکہ جو چیز ان کو مطلوب ہے وہ تو تقویٰ اور اخلاص ہے اور یہی چیز ان کی بارگاہ میں مقبول ہے اس لئے ہر قربانی کرنے والے کو لازم ہے کہ اس کی قبانی میں غیر اللہ کا شائبہ بھی نہ ہو۔ نہ تو غیر اللہ کا تقرب مقصود ہو اور نہ ریائو نمود ہو بلکہ جو فعل ہو وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ اوپر ان جانوروں کی تسخیر میں عام اشارہ تھا اور یہاں تسخیر کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ان کی قربانی کو تقرب خداوندی کا ذریعہ اور سبب بنایا اگر وہ مسخر نہ ہوتے تو ان کو ذبح کرنا اور ان کو قربان کرنا تمہارے بس میں نہ ہوتا۔ بڑائی بیان کرو کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کبریائی کا اظہار کرو اور اس کے اقتدار کی عظمت کو تسلیم کرو اور اس کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرو۔ علی ماھداکم یعنی جانوروں کی تسخیر اور تقرب کی کیفیت اور اس کا طریقہ سکھایا اگر وہ نہ بتاتا تو گھوڑے کے لئے لگام اور اونٹ کے لئے نکیل کون بناتا۔ یا یہ کہ بڑائی بیان کرنے میں شکر کی طرف اشارہ ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ شکر بجالانے میں تمہاری رہنمائی کی اور شکر کا طریقہ سکھایا۔ آخر میں فرمایا مخلصین کو بشارت دیدیجئے کہ جو عمل خلوص کے ساتھ ہوتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور مقبول ہوتا ہے۔