Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 38

سورة الحج

اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوۡرٍ ﴿۳۸﴾٪  12 الثلٰثۃ

Indeed, Allah defends those who have believed. Indeed, Allah does not like everyone treacherous and ungrateful.

سن رکھو! یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالٰی ہٹا دیتا ہے کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالٰی کو ہرگز پسند نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Good News of Allah's Defence for the Believers Allah tells: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ امَنُوا ... Truly, Allah defends those who believe. Here Allah tells us that He defends His servants who put their trust in Him and turn to Him in repentance; He protects them from the the worst of evil people and the plots of the sinners; He protects them, guards them and supports them, as He tells us elsewhere: أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ Is not Allah sufficient for His servant! (39:36) وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَـلِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىْءٍ قَدْراً And whosoever puts his trust in Allah, then He will suffice him. Verily, Allah will accomplish his purpose. Indeed Allah has set a measure for all things. (65:3) ... إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ Verily, Allah likes not any treacherous ingrate. means, He does not like any of His servants who bear these characteristics, i.e., treachery in covenants and promises whereby a person does not do what he says, and ingratitude is to deny the blessings, whereby one does not acknowledge or appreciate them.

اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دے رہا ہے کہ جو اس کے بندے اس پر بھروسہ رکھیں اس کی طرف جھکتے رہیں انہیں وہ اپنی امان نصیب فرماتا ہے ، شریروں کی برائیاں دشمنوں کی بدیاں خود ہی ان سے دور کردیتا ہے ، اپنی مدد ان پر نازل فرماتا ہے ، اپنی حفاظت میں انہیں رکھتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ ) 39- الزمر:36 ) یعنی کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور آیت میں ( وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا Ǽ۝ ) 65- الطلاق:3 ) جو اللہ پر بھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے الخ ، دغا باز ناشکرے اللہ کی محبت سے محروم ہیں اپنے عہدو پیمان پورے نہ کرنے والے اللہ کی نعمتوں کے منکر اللہ کے پیار سے دور ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 جس طرح 6 ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] اللہ تعالیٰ اہل حق کا فریق اس لئے بنتا ہے کہ فریق ثانی خائن اور بددیانت بھی ہے اور ناشکرا بھی۔ بددیانت اور خائن اس لحاظ سے کہ اللہ نے انھیں کعبہ کی تولیت کی امانت سپرد کی تو انہوں نے اہل حق کو کعبہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی اور ناشکرے اس لحاظ سے ہیں کہ ان کو سب نعمتیں تو اللہ نے دی ہیں مگر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی ساری نیاز مندیاں اور عبادتیں بتوں کے لئے وقف کردیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : پچھلی آیات کے ساتھ اس مضمون کا تعلق یہ ہے کہ اس سورت میں اس سے پہلے کفار کا اور ان کے لیے عذاب الیم کا ذکر ہوا ہے، جو اسلام اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس میں اللہ کی عبادت کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ پھر آیت (١٩) ” ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ “ میں مشرکین اور موحدین کی کشمکش کا ذکر فرمایا ہے، اس کے بعد بیت اللہ کی تعمیر، حج کی ابتدا اور قربانی اور حج کے دوسرے اعمال کی فضیلت کا بیان ہوا ہے جس سے مہاجر مسلمانوں کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے، بیت اللہ کی زیارت اور اس کے عمرہ و حج کا شوق پیدا ہونا قدرتی تھا اور یہ خیال بھی کہ کافر کب تک ظلم کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو اللہ کے گھر سے روکتے رہیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اپنے آپ کو بےیارو مددگار مت سمجھیں، اللہ تعالیٰ ان کا دفاع کر رہا ہے اور کرے گا۔ بہت جلد مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوگا اور کفار، جنھوں نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور انھیں ان کے وطن مکہ معظمہ سے ہجرت پر مجبور کیا، وہ مغلوب ہوں گے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ : ” خَوَّانٍ “ ” خَانَ یَخُوْنُ “ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے اور ” كَفُوْرٍ “ ” کَفَرَ یَکْفُرُ “ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کے دفاع کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بیحد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہے، جبکہ کفار میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بیحد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہو، تو کیا وہ عام خیانت کرنے والے اور عام ناشکرے کو پسند فرماتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی خیانت کرنے والے اور کسی بھی ناشکرے کو پسند نہیں کرتا، خواہ وہ صرف خائن و کافر ہو یا خوان و کفور ہو، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ ) [ الأنفال : ٥٨ ] ” بیشک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “ اور فرمایا : (فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ ) [ آل عمران : ٣٢ ] ” بیشک اللہ کفر کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “ یہاں مبالغے کے صیغے لانے کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار مکہ کا حال بیان کرنا مقصود ہے کہ انھیں بیت اللہ کی تولیت کی امانت اور حرم میں سکونت کی نعمت عطا کی گئی مگر انھوں نے شرک و کفر پر اصرار کرکے اور مسلمانوں پر بےپناہ مظالم ڈھا کر، انھیں خانہ بدر کرکے اور آئندہ حج و عمرہ، نماز و طواف اور دوسری عبادات کے لیے اللہ کے گھر میں آنے سے روک دیا۔ یہ امانت میں حد سے بڑھی ہوئی خیانت اور نعمت کی بہت بڑی ناشکری ہے۔ یاد رہے کہ ” خَوَّانٍ “ میں ” كَفُوْرٍ “ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ ” خَؤُوْنٌ“ کے بجائے ” خَوَّانٍ “ اس لیے لایا گیا ہے کہ کفر اور دوسرے نقائص کی اصل بھی خیانت ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان میں پائے جانے والے نقائص مبالغہ سے خالی ہوں۔ خیانت ہی کو لے لیجیے ! آدمی جب کسی کی خیانت کی نیت کرتا ہے، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو درحقیقت وہ پہلے اپنی جان کی خیانت کرتا ہے، پھر لوگوں کی اور رب تعالیٰ کی بھی، کفر کا بھی یہی حال ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The previous verses contain an account of how the infidels of Makkah prevented the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his companions from entering the Haram and the Holy Mosque to perform ` Umrah when, having put on ihram, they had reached as far as Hudaibiyah, a place not far from Makkah. In this verse Allah Ta’ ala consoled the Muslims with the promise that He would deprive the infidels of their power to harm them anymore. This incident took place in the year 6 A.H. and thereafter the power and the morale of the infidels suffered continuous decline until in the year 8 A.H. the Muslims conquered Makkah. The following verses describe this event in detail.

خلاصہ تفسیر بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ان مشرکین کے غلبہ اور ایذا رسانی کی قدرت کو) ایمان والوں سے (عنقریب) ہٹا دے گا (کہ پھر حج وغیرہ سے روک ہی نہ سکیں گے) بیشک اللہ تعالیٰ کسی دغا باز کفر کرنے والے کو نہیں چاہتا (بلکہ ایسے لوگوں سے ناراض ہے اس لئے انجام کار ان لوگوں کو مغلوب اور مومنین مخلصین کو غالب کرے گا) معارف و مسائل سابقہ آیات میں اس کا ذکر تھا کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو جو عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے قریب مقام حدیبیہ پر پہنچ چکے تھے حرم شریف اور مسجد حرام میں جانے اور عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اس آیت میں مسلمانوں کو اس وعدہ کے ساتھ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ان مشرکین کی اس قوت کو توڑ دے گا جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں یہ واقعہ ٦ ہجری میں پیش آیا تھا اس کے بعد سے مسلسل کفار مشرکین کی طاقت کمزور اور ہمت پست ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ٨ ھ میں مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ اگلی آیات میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝ ٣٨ۧ دفع الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [ الحج/ 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل . ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج/ 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ خون الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة : الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، ( خ و ن ) الخیانۃ خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اور قول و فعل سے نیکی کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سنا دیجیے یا یہ کہ خلوص کے ساتھ قربانی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ یقینا اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والوں سے ان کفار مکہ کے مظالم کو ہٹا دے گا بیشک اللہ تعالیٰ کسی دھوکے باز کفر کرنے والے کو نہیں چاہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب ہمیں جن آیات کا مطالعہ کرنا ہے ان میں وارد احکام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تحریک کی جدوجہد میں ایک نئے موڑ (turning point) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ وہی آیات ہیں جو ہجرت کے سفر کے دوران میں نازل ہوئی تھیں۔ (قبل ازیں آیت ١١ کے ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کا حوالہ گزر چکا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئی تھیں) ۔۔ ان آیات کا مضمون اور مقام و محل اس پہلو سے بھی قابل غور ہے کہ سورة البقرۃ کے ٢٣ ویں رکوع میں یعنی تقریباً سورت کے وسط میں رمضان المبارک اور روزے کے احکام و فضائل کا ذکر ہے اور اس کے بعد دو رکوع (٢٤ واں اور ٢٥ واں رکوع) قتال فی سبیل اللہ اور مناسک حج کے احکام پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی اس سورت کے تقریباً وسط میں دو رکوع مناسک حج پر مشتمل ہیں اور اس کے فوراً بعد اب قتال فی سبیل اللہ کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے اگرچہ سورة البقرۃ اور سورة الحج کی باہمی مشابہت بھی ظاہر ہوتی ہے لیکن ایک بہت اہم حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں مضامین (حج اور قتال فی سبیل اللہ) میں بہت گہرا ربط ہے۔ اس ربط اور تعلق کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ کعبۃ اللہ جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا وہ ان آیات کے نزول کے وقت مشرکین کے زیر تسلط تھا اور توحید کے اس مرکز کو انہوں نے شرک کا اڈّا بنایا ہوا تھا۔ چناچہ اس وقت امت مسلمہ کا پہلا فرض منصبی یہ قرار پایا کہ وہ اللہ کے اس گھر کو مشرکین کے تسلط سے واگزار کرا کے اسے واقعتا توحید کا مرکز بنائے۔ لیکن یہ کام دعوت اور وعظ سے ہونے والا تو نہیں تھا ‘ اس کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر حج بیت اللہ کے احکام کے ساتھ ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا تذکرہ ہے۔ آیت ٣٨ (اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط) ” اس تحریک میں اب جو نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے اس میں مسلح تصادم نا گزیر ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس رزم گاہ میں اہل ایمان خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ ان کی مدد اور نصرت کے لیے اور ان کے دشمنوں کو بیخ و بنُ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اللہ ان کی پشت پر موجود ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ) ” یہ یقیناً مشرکین مکہ کا تذکرہ ہے ‘ جو ایک طرف خیانت کی انتہائی حدود کو پھلانگ گئے تو دوسری طرف ناشکری میں بھی ننگ انسانیت ٹھہرے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی وراثت کے امین تھے۔ بیت اللہ گویا ان لوگوں کے پاس ان بزرگوں کی امانت تھی۔ یہ گھر تو تعمیر ہی اللہ کی عبادت کے لیے ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی گواہی ان الفاظ میں دی تھی : (رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) (ابراہیم : ٣٧) کہ پروردگار ! میں اپنی اولاد کو اس گھر کے پہلو میں اس لیے بسانے جا رہا ہوں کہ یہ لوگ تیری عبادت کریں۔ پھر آپ ( علیہ السلام) نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے یہ دعا بھی کی تھی : (وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) ابراہیم) کہ پروردگار ! مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی کی لعنت سے بچائے رکھنا۔ چناچہ مشرکین مکہّ نے اللہ کے اس گھر اور توحید کے اس مرکز کو شرک سے آلودہ کر کے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی نہیں کی تھی بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی متبرک امانت میں خیانت کا ارتکاب بھی کیا تھا۔ دوسری طرف یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے اللہ کی نا شکری کے مرتکب بھی ہوئے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں مکہ کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ بیت اللہ کی وجہ سے ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی میدان میں ان کی اجارہ داری خانہ کعبہ ہی کے طفیل قائم ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شام (موسم گرما) اور یمن (موسم سرما) کے درمیان ان کے قافلے قبائلی حملوں اور روایتی لوٹ مار سے محفوظ رہتے تھے تو صرف اس لیے کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے۔ یہی وہ حقائق تھے جن کی طرف ان کی توجہ سورة القریش میں دلائی گئی ہے : (لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ ۔ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ ۔ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍلا وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ) ” قریش کو مانوس کرنے کے لیے ! انہیں سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے مانوس کرنے کے لیے ! پس انہیں چاہیے کہ وہ (اس سب کچھ کے شکر میں) اس گھر کے رب کی بندگی کریں ‘ جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا ‘ اور خوف میں امن بخشا۔ “ مگر اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے نا شکری کی انتہا کردی۔ انہوں نے اللہ کی بندگی کے بجائے بت پرستی اختیار کی اور بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کے بجائے اسے ُ بت خانے میں تبدیل کردیا۔ اس پس منظر کو ذہن نشین کر کے آیت زیر نظر کا مطالعہ کیا جائے تو سیاق وسباق بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خائن اور ناشکرے لوگ کون ہیں جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. From here the address for the first time prepares the Muslims for Jihad. In order to understand this, we should keep in view the preceding portion (verses 19-24) in which the ideological conflict between the two parties (believers and disbelievers) and the result thereof have been described. This naturally serves as a prelude to the armed conflict between the two parties. That is why in (verses 26- 37) the immediate causes which necessitated war have been stated to serve as an introduction and justification for war with the disbelievers of Makkah. After the migration to Al-Madinah, when the first Hajj season approached, it naturally brought along with it anguish and anger both for the Muhajirs and the Ansar, who had been debarred froth visiting Makkah and performing Hajj, That is why, in this passage (verse 26-37), the rituals and the objects of Hajj have been described to bring home to the disbelievers that they had no right to debar anyone from Hajj. On the other hand, the Muslims are being prepared to fight not with the intention of wreaking vengeance but for the sake of reform. At the same time sacrifice on the occasion of Hajj has been prescribed as a permanent rite to enable them (and the Muslims of the whole world) to commemorate Hajj and the rites connected with it, so that they might refrain from wreaking vengeance on the people of Makkah for the persecution to which they had been subjected. They have, therefore, been enjoined to fight to bring about better conditions and not to take revenge on their persecutors. 76. The Arabic word mudafiat implies two things. (1) To fight with the enemy to ward off his aggressive attack. (2) To fight with the enemy not just once but whenever the need arises. Allah has assured the believers that He will defend them against the enemy every time there is a conflict between Islam and kufr. This is to encourage the believers that they will not be left alone in their defense, but Allah Himself will be a party with them and will help them to frustrate the cunning designs of the enemy and to ward off their attacks. Indeed this verse is a great encouragement for the believers, for it imbues their hearts with spirit and strength which nothing else can. 77. Allah becomes a party with the believers because they are justified in waging war against the disbelievers who are treacherous and ungrateful to Allah in spite of His many blessings and favors to them.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :76 مدافعت دفع سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دور کرنے کے ہیں ۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے ۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے ۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہل ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہل ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے ۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے ، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو ان سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہل حق کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :77 یہ وجہ ہے اس بات کی کہ اس کشمکش میں اللہ کیوں اہل حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے ۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے ، اور کافر نعمت ہے ۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے ، اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: مکہ مکرمہ میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر جو ظلم توڑے جارہے تھے، شروع میں قرآن کریم ہی نے انہیں بار بار صبر سے کام لینے کا حکم دیا تھا، اب اس آیت میں یہ تسلی دی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ صبر آزما مرحلہ اب ختم ہونے والا ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان ظالموں کے ظلم کا جواب دیا جاے ؛ چنانچہ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے ؛ لیکن اس سے پہلے یہ خوشخبری دے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کا دفاع کرے گا اس لئے وہ اب بے خوف ہو کر لڑیں اور وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے لڑائی ہونی ہے وہ دغا باز اور ناشکرے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، اس لئے وہ ان کے خلاف مسلمانوں ہی کی مدد کرے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:37) یدافع۔ دافع یدافع مدافعۃ (باب مفاعلۃ) الدفع دفع کرنا ہٹا دینا۔ جب اس کا تعدیہ الی کے ساتھ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالہ کردینے کے ہیں مثلاً فادفعوا الیہم اموالہم (4:6) تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو ۔ اور جب اس کا تعدیہ عن کے ساتھ آئے تو اس کے معنی مدافعت کرنا۔ حمایت کرنا کے ہیں۔ مثلاً آیت ہذا۔ یہاں باب مفاعلہ سے آیا ہے۔ جس میں باہم مقابلہ کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی کافر مسلمانوں کو اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مقابل پر ان کی مدافعت کرتا ہے۔ ان اللہ یدافع عن الذین امنوا۔ خدا مؤمنوں سے (ان کے دشمنوں کو) ہٹاتا رہتا ہے یا دشمنوں کے مقابلہ میں مومنوں کی حمایت کرتا رہتا ہے۔ خوان۔ اسم فاعل خیانۃ سے مبالغہ کا صیغہ ہے بہت خیانت کرنے والا۔ بڑا دغا باز۔ خائن خیانت کرنے والا۔ کفور۔ کافر ۔ فعول کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ سخت منکر ۔ بڑا احسان فراموش۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی حق و باطل کی کشمکش میں اہل ایمان کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں حمایت فرمائے گا۔ چناچہ اس وعدہ کے مطابق مسلمان اپنے دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے اور آخر کار اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ 12 ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر مفسرین کے بقول یہ پہلی آیت ہے جس میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں لڑنے کی اجازت دی گئی اور یہ بھی فی مجملہ مدافعت کی ایک صورت ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) اس آیت میں قتال یعنی لڑنے کی صرف اجازت دی گئی ہے بعد میں سورة بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں لڑنے کا حکم دیا گیا ہے دیکھئے آیت۔ 19، 191، 391 ۔ 241 اور 223 (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کہ پھر حج وغیرہ سے روک ہی نہ سکیں گے۔ 2۔ اس لئے انجام کار ان کو مغلوب اور مومنین مخلصین کو غالب کردے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قربانی کے جذبہ کا منطقی نتیجہ ہے کہ مسلمان اپنا تن، من، دھن ” اللہ “ کی راہ میں نچھاور کر دے اس لیے قربانی کے مسائل بیان کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی اجازت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ میں تیرہ سال تک مسلمان ہر قسم کے مظالم برداشت کرتے رہے۔ مقابلے میں جب کبھی لڑنے کی اجازت طلب کی گئی تو مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے سے روک دیا گیا۔ ہجرت کے بعد یہ پہلا فرمان ہے جس میں مظلوم مسلمانوں کو نہ صرف لڑنے کی اجازت دی گئی بلکہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ مسلمانوں اب تمہیں ظلم کے خلاف لڑنے کی اجازت ہے۔ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے پر قادر ہے۔ باالفاظ دیگر تمہاری ضرور مدد کی جائے گی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا دفاع کرتا ہے کیونکہ وہ کسی خائن اور ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔ چناچہ جب کفار کے ساتھ قتال کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک نہتے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ کامیابیاں عنایت فرمائیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ وَلَمْ ےَغْزُ وَلَمْ ےُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃِ ، باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے نہ جہاد کیا اور نہ ہی دل میں جہاد کا خیال لایا تو وہ منافقت کی ایک قسم پر فوت ہوا۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان اللہ ……عاقبۃ الامور (٤١) اس کرہ ارض پر شر کی قوتیں ہر وقت کام کرتی ہیں ، خیر و شر اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ ہر وقت برپا رہتا ہے اور یہ معرکہ اس وقت سے قائم ہے جب سے اللہ نے اس کرہ ارض پر انسان کو پیدا کر کے بھیجا ہے۔ شرہمیشہ سرکش ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ قوت اور اسلحہ سے لیس ہوتا ہے۔ شر کی گرفت بےرحمانہ ہوتی ہے اور اس کی مار بےترسی سے ہوتی یہ۔ اگر اللہ کے کچھ بندوں کو راہ ہدایت معلوم ہوجائے تو وہ ان کی راہ روکتا ہے اور ان کو حق سے دور ہٹاتا ہے ، اگر کسی کا دل حق کے لئے کھل جائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایمان ، حق اور بھلائی کی پشت پر بھی قوت ہو ، تاکہ باطل کی پکڑ ، سرکشی ، فتنے اور زیادتی سے اسے روکا جاسکے اور حق کو دشمنوں اور سختیوں سے بچایا جائے۔ اللہ کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایمان ، بھلائی اور سچائی کو اس طرح کمزور چھوڑ دیا جائے کہ وہ میدان میں باطل کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس سلسلہ میں اہل حق کے دلوں میں پائیج انے والی قوت ایمانی پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے اور انسانی فطرت اور انسانی ضمیر میں حق کے ولولہ سے کام لیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر باطل قوتوں کے مقابلے میں حق کی کوئی قوت نہ ہو تو اہل حق اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں۔ اہل حق کی فطرت کو بھی بگاڑا جاسکتا ہے۔ کیونکہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مصائب برداشت کرنے کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور ایک حد پر جا کر انسانی قوتیں جواب دے دیتی ہیں۔ اللہ لوگوں کے قلوب و نفوس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں چاہا کہ اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزمائش میں ڈال دیا جائے۔ ہاں اس حد تک قوت کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے کہ جب وہ مقابلے کی تیاری کر رہے ہوں۔ دفاع کی تیاریاں ہو رہی ہوں اور وسائل جہاد جمع کئے جا رہے ہوں جب وہ یہ کام کر چکیں تو پھر ان کو قتال کی اجازت ہے تاکہ وہ اہل کفر کی دست درازیوں کا رد کرسکیں۔ اذن قتال دینے سے قبل اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ وہ خود اہل ایمان کی طرف سے دفاع کرتے ہیں اور یہ کہ اللہ ان کی نصرت اور تعاون پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان اللہ یدفع عن الذین امنوا (٢٢ : ٣٨) ” یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ “ اللہ اہل ایمان کے دشمنوں کو پسند نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے حق کا انکار کیا ہے اور وہ خائن بھی ہیں۔ لہٰذا یقینا ان کو رسوا کر کے رہے گا۔ ان اللہ لایحب کل خوان کفور (٢٢ : ٣٨) ” بیشک اللہ کسی خائن اور کفران نعمت کرنے الے کو پسند نہیں کرتا۔ “ اللہ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق پہنچتا ہے ، ان کا موقف درست ہے ، آداب جنگ کے اعتبار سے بھی کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، وہ جارحیت کے مرتکب ہرگز نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ سرکشی کرنے الے ہیں۔ اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا (٢٢ : ٣٩) ” اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ “ ان کو چاہئے کہ وہ اللہ کی اس حمایت پر مطمئن ہوجائیں۔ اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ وان اللہ علی نصر ھم لقدیر (٢٢ : ٣٩) ” اور اللہ یقینا کی مدد پر قادر ہے۔ “ ان کو اس معرکہ آرائی کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لئے اس عظیم مہم میں کود رہے ہیں ، اس مہم کے نتائج صرف انہی کے لئے مفید نہ ہوں گے ، بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے مفید ہوں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایمان اور نظریات کی آزادی کے بنیادی حقوق قائم ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی جواز فراہم کرتی ہے کہ ان کو اپنے گھروں اور اپنے ملک سے بغیر کسی جواز کے نکالا گیا ہے۔ الذین اخرجوا من دیار ھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا لالہ (٢٢ : ٣٠) ” یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ “ حالانکہ یہ بہت ہی سچی بات تھی جو کبھی کہی جاسکتی ہے۔ یہ اس بات کی نہایت ہی مستحق تھی کہ اسے بار بار دہرایا جائے۔ جب اس بات کی وجہ سے ان لوگوں کا اخراج عمل میں آیا تو یہ کھلی سرکشی اور ظلم تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ مظلوموں کی جانب سے کوئی ذاتی دشمنی کسی کے ساتھ نہ تھی ، محض ان کا نظریہ ہی تھا جس کی وجہ سے ان کو نکال دیا گیا۔ اس کشمکش میں اس دنیا کے مفادات میں سے بھی کسی مفاد کا دخل نہ تھا کہ کوئی مفادات ، خواہشات یا کسی طمع و لالچ کا بہانہ کرسکے۔ یا ہمدردیں اور کسی اور ذاتی پسند و ناپسند کا بہانہ بنایا جاسکے۔ یہ صرف نظریاتی جنگ تھی۔ پھر یہ بھی ایک عمومی اصول ہے کہ کسی بھی نظریہ کے لئے قوت مدافعت کی بےحد ضرورت ہوتی ہے۔ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت و مسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیراً (٢٢ : ٣٠) ” اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ “ صومعہ عبادت کی اس جگہ کو کہا جاتا ہے ، جہاں راہب عبادت کرتے ہیں۔ بیع نصاریٰ کی عبادت گاہ ہے۔ یہ صومعہ سے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ صلوت یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ مقامات اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص اور مقدس ہیں لیکن یہ سب مسمار ہو سکتے ہیں اگر ان کی شت پر قوت مدافعت نہ ہو۔ اہل باطل کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان مقامات پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے بلکہ ان مقامات کی حمایت اور ان کا بچائو تب ہی ہو سکتا ہے کہ کسی عقیدے کے حامی اس کی پشت پر ہوں اور ان کے اندر قوت مدافعت بھی ہو اور وہ اپنے عقیدہ کے احترام کو بزور قوت دشمن سے منوا بھی سکتے ہوں۔ باطل تو سرکش ہوتا ہے وہ تب ہی رکتا ہے جب اس جیسی قوت اس کے مقابل کے پاس بھی ہو جس پر باطل حملہ آ ور ہو رہا ہے۔ محض اس لئے کہ حق ، حق ہے۔ باطل حملہ آور ہونے سے نہ رکے گا۔ لہٰذا حق کی پشت پر بھی ایک مساوی بلکہ برتر قوت ہونی چاہئے جو اس کا دفاع کرسکے۔ یہ ایک کلی فائدہ ہے جب تک انسان ہے ایسا ہی ہوگا۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ان نصوص قرآنیہ پر غور کریں جن کے الفاظ تو بہت کم ہیں لیکن ان کے معانی بہت ہی وسیع ہیں۔ یہ نصوص انسانی نفس انسانی ، زندگی اور انسانی زندگی کے واقعات کے اہم رازوں پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قتال کی اجازت دے رہے ہی جن کے ساتھ مشرکین نے جنگ کی اور ان پر دست درازیاں کیں۔ یہ اس لئے کہ اللہ اہل ایمان سے مدافعت کی ذمہ داری لیتا ہے اور اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ خیانت گر اہل کفر اہل اسلام پر دست درازیاں کریں۔ ان اللہ یدفع ……کفور (٢٢ : ٣٨) ۔ ” اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لاتے ہیں یقینا اللہ کسی خائن کا فر نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ “ اللہ نے مسلمانوں کو یہ یہ ضمانت دے دی کہ وہ ان کی جانب سے مدافعت کرے گا اور جس کی مدافعت اللہ کرے تو یہ بات یقینی ہے کہ دشمن اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ وہ اپنے دشمن پر غالب ہوگا ، تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ پھر ان کو قتال کی اجازت کیوں دیتا ہے ؟ پھر جہاد کیوں فرض کیا گیا ہے ؟ پھر وہ کیوں لڑتے ہیں جس میں وہ قتل بھی ہوت یہیں ، زخمی بھی ہوتے ہیں اور ان کو جدوجہد اور مشقیں بھی کرنی ہوتی ہیں اور مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں اور قربانیاں بھی دینی ہوتی ہیں اور نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالب ہوتے ہیں حالانکہ اللہ بغیر ان کی جدوجہد کے بھی اور بغیر کسی مشقت اور قربانی کے بھی اور بغیر کسی قتل و قتال کے بھی ان کی جانب سے مدافعت کرسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی حکمت اس باب میں بہت ہی گہری ار بہت ہی دور رس ہے۔ اللہ کی محبت اصل مقام تک پہنچنے والی ہے اور بہت ہی اونچی ہوتی ہے لیکن ہم جس قدر سمجھ سکے ہیں اور جس قدر ہماری عقلوں میں سمجھنے کی صلاحیت ہے اور جس قدر ہمارے تجربات ہیں ، ان کے مطابق جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ میری دعوت کے حاملین سست اور کاہل رہیں اور وہ نہایت ہی سستی سے بیٹھے رہیں اور ان پر اللہ کی نصرت آجائے اور وہ شہزادوں کی طرح بیٹھے ہوں۔ محض اس لئے کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کام جو سب کے سب ضروری ہیں ان کو اس قابل نہیں بناتے کہ یہ لوگ دعوت اسلامی کی حمایت کریں اور اس کی جانب سے دفاع کریں۔ نماز ، عبادت ، اور دعاء تو ایک سپاہی کے لئے زاد راہ ہیں اور جنگ میں یہ اخلاقی قوت کا کام دیتے ہیں ، اہل ایمان کے پاس یہ مزید اسلحہ ہے جو دشمن کے پاس نہیں ہے۔ دشمن کے پاس جو روایتی اسلحہ ہے وہ مسلمان کے پاس بھی ہے اور تقویٰ ہے اور اتصال باللہ اس پر مزید ہے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ مسلمانوں اور اہل ایمان کا دفاع وہ خود مسلمانوں اور اہل ایمان کے ذریعہ سے کرے تاکہ معرکہ آرائی کے دوران مسلمان پختہ ہوجائیں۔ اس لئے کہ انسانی شخصیت کے اندر موجود خفیہ قوتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں ، جب انسان کو خطرہ درپیش ہو ، اور انسان اپنی مدافعت کر رہا ہو۔ مقابلے اور جنگ میں انسان اپنی پوری قوت لے کر دشمن کے مقابلے میں نکل آتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانی قوت کا ہر ہر خلیہ محترک اور تیار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ دوسرے خلیوں کے ساتھ تعاون کرے اور مشرکہ کارروئیاں کرے۔ جس قدر قوت کی فراہمی اس سے ممکن ہو ، وہ فراہم کرے۔ غرض وہ اپنی قوت کا آخری ذرہ بھی نکال دے اور انسان اس مقام تک پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر ہوتا ہے۔ جو جماعت دعوت اسلامی کو لے کر اٹھتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوت کا ہر خلیہ اپنی قوت کا پورا ذخیرہ ، اپنی صلاحیتوں کا پورا جوہر ، اپنی تمام طاقتوں کو جمع کرتے ہوئے اس راہ پر لگا دے تاکہ خود اس کی تربیت اور ترقی مکمل ہو سکے ، وہ پختہ ہو سکے ار اس طرح وہ اس امانت کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو سکے جو اس پر ڈالا گیا ہے۔ وہ نصرت اور کامرانی جس میں فتح یاب ہونے والے نے کوئی تکلیف نہ اٹھائی ہو ، اور جو کامیابی بڑی آسانی اور بغیر کانٹا چبھے حاصل ہوجائے ، اس کے نتیجے میں خود انسانی کارکنوں کی یہ حقیر صلاحیتیں نہیں ابھرتیں کیونکہ ان کے ظہور کے لئے کوئی محرک نہیں ہوتا ، مقابلہ اصل محرک ہوتا ہے۔ نیز جو کامیابی بڑے آرا م سے اور بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے ، وہ اسی طرح آسانی سے ناکامی میں بدل جاتی ہے اور ضائع ہوجاتی ہے۔ چونکہ یہ مفت میں ہوتی ہے اور کامیاب ہونے والے نے اس کی کوئی قیمت ادا نہیں کی ہوتی ، اس لئے اس کی نظروں میں اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ پھر جن لوگوں کو یہ بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے ان صلاحیتوں کو اس کے دماغ کا تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کی خفیہ قوتیں جب اس کے حصول کے لئے بیدار نہیں ہوتیں تو اس کے دفاع کے لئے کیسے بیدار ہوں گی۔ لہٰذا ان کے لئے دفاع ممکن ہی نہیں رہتا۔ یہ عملی اور یہ وجدانی تربیت انسان کو تب حاصل ہوتی ہے کہ اسے فتح بھی ہوئی ہو اور ہزیمت بھی اٹھانی پڑی ہو۔ اس کا کرو فر بھی دیکھا ہو ، قوت اور ضعف بھی دیکھا ہو ، اقدام اور پسپائی دونوں دیکھی ہوں اور دونوں کی خوشی اور کڑوا پن چکھا ہو۔ امید و بیم ، خوشی اور غم ، اطمینان اور قلق ، ضعف کا احساس اور قوت کا شعور یہ سب کچھ اس نے میدان جنگ میں دیکھا ہو۔ نیز اس نے نظریات کا اتحاد اور نظریاتی انتشار بھی دیکھا ہو۔ مختلف رجحانات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا تجربہ وہ کرتا ہے۔ جاعت کے اندر قوت کے مراکز اور ضعف کے مقامات سے وہ باخبر ہو اور ہر قسم کے حالات میں معاملات کی تدبیر کو وہ جانتا ہو۔ یہ تمام مراحل اس جماعت اور گروہ کے لئے ضروری ہیں جس نے دعوت اسلامی کو لے کر چلنا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کوئی عملاً معرکے میں نہ اترے۔ اس وجہ سے اور اس کے علاوہ مزید خفیہ حکمتوں کی وجہ سے جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے ، اللہ نے یہ طے کیا کہ وہ مسلمانوں کا دفاع خود مسلمانوں کے ذریعے کرے اور ایسا نہیں فرمایا کہ یہ ایک لقمہ تر ہوگا جو ان کے لئے آسمانوں سے پکا پکایا اتر جائے۔ بعض اوقات ایسے مظلوموں پر نصرت کا نزول دیر کردیتا ہے جن کو اپنے گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے رب کو ایک سمجھتے ہیں۔ صرف اللہ کو رب سمجھتے ہیں لیکن اس میں اللہ کی گہری حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات نصرت لیٹ ہوجاتی ہے کیونکہ دعوت اسلامی کے حاملین ابھی پختہ نہیں ہوئے ہوتے اور ان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ان کی قوتیں مجتمع نہیں ہوتیں۔ اسلامی عناصر نے اپنی قوتوں کے تمام ذخائر کو میدان میں نہیں اتارا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایسی ناپختگی کی حالت میں اللہ کی نصرت آجائے تو وہ جلد ہی اسے کھودیں گی۔ بعض اوقات نصرت اس لئے بھی دیر کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے کہ مومن اپنی پوری قوت اس راہ میں جھونک دیں۔ اپنا آخری سرمایہ اور قوت نچوڑ کر ختم کردیں اور کوئی چیز ذخیرہ کر کے نہ رکھیں اور اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیں۔ جب تک انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا ، نصرت نہیں آتی۔ بعض اوقات اس لئے بھی نصرت نہیں آتی کہ اللہ اہل ایمان کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام حربے آزما لیں اور ان کو معلوم ہوجائے کہ یہ نصرت صرف ان کی قوتوں کی وجہ سے ہی سے نہیں آتی بلکہ اللہ کی نصرت تب آتی ہے جب اہل ایمان اپنی قوت ، اپنی دولت اور اپنی صلاحیتوں کا آخری ذخیرہ بھی ختم کردیں اور ان کے سامنے صرف اللہ کی مدد کا ذخیرہ رہ جائے تب مدد آپہنچتی ہے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی مئوخر ہوجاتی ہے کہ امت مومنہ کا تعلق باللہ معیار مطلوب تک پہنچ جائے ، اسے مشکلات پیش آئیں اور وہ برداشت کرے ، اسے المناک نتائج سے دوچار ہونا پڑے اور وہ صبر کرے اور اسے اپنی پوری قوتیں صرف کرنے کا موقع ملے اور حالت یہ ہوجائے کہ اللہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہغے اور اللہ کے سوا توجہات مرکوز کرنے کا اور کوئی نکتہ نہ رہے۔ یہ تعلق باللہ پھر اس بات کی بھی ضمانت ہوتا ہے کہ نصرت آنے اور فتح ملنے کے بعد امت سیدھی راہ پر گامزن رہتی ہے۔ وہ پھر پنی راہ نہیں چھوڑتی ۔ وہ سچائی ، عدل اور بھلائی کا راستہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس کی وجہ سے اسے فتح نصیب ہوتی ہے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی نہیں آتی کہ امت اپنی جدوجہد ، اپنے انفاق اور اپنی قربانیوں میں خالص رضائے الٰہی کے لئے کام نہیں آتی۔ اس کی جنگ مفادات کے لئے ہوتی ہے ، یا وہ ذاتی رنجش کی وجہ سے لڑتی ہے ، یا اس کی جدوجہد میں دکھاوا ہوتا ہے ، حالانکہ اللہ کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد صرف ال لہ کے لئے ہو ، صرف اللہ کے راستے میں ہو۔ اس کے ساتھ کوئی اور سوچ وابستہ نہ ہو ، کارکنوں کے شعور اور لاشعور میں رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کسی حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے یا شجاعت کی وجہ سے لڑتا ہے یا شخصیت کے اظہار کے لئے لڑتا ہے تو ان میں سے کون سی جنگ فی سبیل اللہ ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا ” جس نے اس لئے جنگ کی کہ اللہ کا کلما بلند ہو تو صرف یہ فی سبیل اللہ ہے۔ “ بعض اوقات اسلامی عناصر کو اس لئے بھی کامیابی نہیں ہوتی کہ جس شر کے مقابلے میں امت کام کر رہی ہوتی اس میں خیر کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ اللہ اس شر کو مہلت دیئے جاتا ہے تاکہ شرک و اس خبر سے تہی دامن کر دے تاکہ اگر ہلاکت آئے تو خالص شر پر آئے اور اس میں خیر کا کوئی پہلو نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ شر کے ساتھ خیر کا ایک ذرہ بھی ضائع ہوجائے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی نہیں آتی کہ جس باطل کے خلاف امت مسلمہ اور جماعت مومنہ برسر پیکار ہوتی ہے اس کا کھوٹ عوام الناس کی نظروں میں آشکار اور پوری طرح واضح نہیں ہوا ہوتا۔ ایسے حالات میں اگر شر کو شکست دے دی جائے تو شر کو بھی معاشرے میں سے بعض ایسے لوگ حامی و مددگار مل جائیں گے جنہوں نے ابھی تک شر کے کھوٹ کو سمجھا نہیں ہوتا اور وہ اس کے فساد ، زوال کو سمجھے ہی نہیں ہوتے اور اس پر مطمئن نہیں ہوتے لہٰذا اس شر کی بعض جڑیں نیک لوگوں کے ذہنوں میں بھی ہوتی ہیں ، جو حقیقت سے بیخبر ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ باطل کو ایک عرصہ تک برسر اقتدار رکھتا ہے تاکہ تمام لوگوں کے ذہن صاف ہوجائیں اور جب وہ نیست و نابود ہوجائے تو اس پر رونے والی ایک آنکھ بھی معاشرے میں موجود نہ ہو۔ بعض اوقات نصرت میں دیر اس لئے بھی ہوتی ہے کہ معاشرہ ابھی تک قبول حق کے لئے ہی تیار نہیں ہوتا اور سچائی کو اٹھانے کے اہل بھی نہیں ہوتا۔ جس کی حامل اور داعی جماعت مومنہ ہوتی ہے۔ اگر ایسے حالات میں حق کو نصرت بھی مل جائے تو بھی اسے قرار نصیب نہیں ہوتا اور خود معاشرہ کے اندر سے ردعمل شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی مشیت ہوتی ہے کہ کچھ مزید عرصے کے لئے حق و باطل کی کشمکش جاری رہے تاکہ معاشرہ سچائی کے استقبال کے لئے تیار ہوجائے۔ یہ وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان کے علاوہ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جن کو صرف اللہ جانتا ہے ۔ کبھی کبھار ، نصرت الٰہی میں دیر لگ جاتی ہے۔ کارکنوں کو زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں ، ان پر مصائب بڑھ جاتے ہیں ، لیکن آخر کار فتح و نصرت جماعت مومنہ کے لئے ہوتی ہے اور جدوجہد کے زمانے میں اللہ کی ضمانت دفاع بہرحال اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حصول نصرت کی کچھ شرائط ہیں۔ کچھ تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں جو فراہم کرنے پڑتے ہیں اور اس کے لئے ایک مخصوص فضا ہوتی ہے جو پیدا کرنا پڑتی ہے (یاد رہے کہ یہ محض من اور سلویٰ نہیں ہے۔ ) ولینصرن اللہ ………عاقبۃ الامور (٢٢ : ٣١) ” اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ، اللہ بڑا طاقتور ہے اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، زکوۃ دیں ، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کا تاکیدی وعدہ ہے ، نہایت ہی باوثوق وعدہ ہے ، اٹل قاعدہ ہے کہ جو اس کی نصرت کرے گا تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا لیکن یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ ضرور ہے کہ اللہ کن لوگوں کی نصرت کرتا ہے ، تاکہ ان کو نصرت کا مستحق سمجھا جائے۔ کیونکہ اللہ تو قوی ہے ، عزیز ہے ، اس کے موالے تو کبھی شکست نہیں کھاتے تو وہ کون ہیں ؟ وہ یہ ہیں ؟ الذین ان مکنھم فی الارض (٢٢ : ٣١) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم اقتدار ” بخشیں “ ۔ نصرت آجائے اور ان کا اقتدار اعلیٰ قائم ہوجائے تو اقاموا الصلوۃ (٢٢ : ٣١) ” نماز قائم کریں گے۔ “ اللہ کی بندگی کریں گے اور اللہ کی طرف نہایت ہی مطیع فرمان ہو کر ، عاجز ہو کر ، سرتسلیم خم کرتے ہوئے رجوع کریں گے۔ واتوا الزکوۃ (٢٢ : ٣١) ” زکوۃ دیں گے۔ “ مال کا حق ادا کریں گے۔ نفس کی فطری کنجوسی پر قابو پائیں گے۔ اسے حرص و آز سے پاک کریں گے۔ شیطان کے وسوسوں پر غلبہ پائیں گے ، جماعت اور سوسائٹی کے اندر پائے جانے والے رخنے دور کریں گے۔ ضعیفوں اور محتاجوں کا حق ادا کریں گے ، ان کو ایک زندہ جسم کے حقوق دیں گے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ” مومن باہم محبت ، باہم ہمدردی ، بامہ رحم و کرم میں جسد واحد کی طرح ہوتے ہیں ، اگر جسم کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم بےچین ہوتا ہے اور تمام جسم بےخوابی کا شکار ہوتا ہے۔ وامروابالمعروف (٢٢ : ٣١) ” نیکی کا حکم دیں گے “ وہ نیکی اور اصلاح کے داعی بھی ہوں گے لوگوں کو زبردستی بھی نیکی پر آمادہ کریں گے۔ ونھوا عن المنکر (٢٢ : ٣١) ” اور وہ برائی سے منع کریں گے۔ “ شر و فساد کا مقابلہ کریں گے۔ وہ امت مسلمہ کا یہ نشان بحال کریں گے کہ وہ منکر کو برداشت نہیں کرتے اور اگر وہ اسے دفع کرسکتی ہو تو دفع کرتی ہے اور اگر وہ معروف قائم کرسکتی ہے تو قائم کرے گی۔ ایسے لوگ اللہ کی نصرت کے مستحق ہوت یہیں جو اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے پوری جدوجہد کریں۔ صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہوں ، کسی اور پر نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کی مدد ہوگی۔ لہٰذا اللہ کی نصرت کا وعدہ قائم ہے اسباب نصرت پر۔ نصرت کے تقاضے پورے کرنے پر اس کے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرنے پر ، اس کے بعد بھی بات اللہ کی مرضی پر ہے۔ وہ اپنی مخلوق کے اندر جس طرح چاہتا ہے ، تصرفات کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ شکست کو فتح میں بدل دیتا ہے اور بعض اوقات فتح کو ہزیمت میں بدل دیتا ہے۔ خصوصاً جب نصرت کے بنیادی عناصر ہیں ، خلل آجائے اور لوگ ذمہ داریاں اور تقاضے پورے نہ کریں۔ وللہ عاقبۃ الامور (٢٢ : ٣١) ” اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ “ اللہ کی نصرت وہ ہوتی ہے جس کے ذریعہ اسلامی نظام زندگی قائم ہو ، حق ، انصاف ، آزادی اور خیر و اصلاح کا دور دورہ ہو۔ پیش نظر اعلیٰ مقاصد ہوں نہ کہ کچھ افراد ، اشخاص ، شخصیات اور ان کے ذاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر بلند اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا تب نصرت الٰہی حاصل ہوگی۔ بہرحال نصرت الٰہی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس کی قیمت پیشگی ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ بعض شرائط لازمی ہوتی ہے۔ یہ نصرت کسی کو مفت میں نہیں ملتی نہ اللہ کو کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور نصرت اس شخص کو نہیں ملتی نہ اس جماعت کو ملتی ہے جو اس کے مقاصد اور تقاضے پورے نہ کرتی ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ہٹا دیگا، اسے خائن اور کفور پسند نہیں ہیں چند صفحات پہلے اس بات کا ذکر تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے عمرہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے تو مشرکین مکہ نے مقام حدیبیہ میں آپ کو روک دیا تھا ان لوگوں نے بڑی ضد کی اور گو صلح بھی کرلی لیکن اس بات پر آمادہ نہ ہوئے کہ آپ اسی سال عمرہ کریں آپ نے احصار ہوجانے کی وجہ سے وہیں جانور ذبح کردیئے اور احرام سے نکل کر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے پھر آئندہ سال ٧ ھ میں آپ نے اس عمرہ کی قضا کی، آیت بالا میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ مشرکین جو مومنین کو تکلیف دیتے ہیں اور انہیں حرم شریف کے داخلہ سے روکتے ہیں یہ کچھ دن کی بات ہے اللہ تعالیٰ کافروں کو ہٹا دے گا اور مومنین امن وامان کے ساتھ چلے پھریں گے اور حج وعمرہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ٨ ھ میں مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی بھی خیانت کرنے والے نا شکرے کو پسند نہیں فرماتا) ہر کافر اور مشرک خیانت کرنے والا ہے اس کے ذمہ ہے کہ اپنے خالق ومالک وحدہ لا شریک کی عبادت کرے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو مانے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا لہٰذا وہ بہت بڑا خائن ہے۔ اسی لیے لفظ خوان مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے اور ہر کافر کفور یعنی نا شکرا بھی ہے پیدا تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور عبادت کرتا ہے غیر اللہ کی اور ان دینوں کو اختیار کرتا ہے جنہیں لوگوں نے خود تراشا ہے یہ خالق جل مجدہ کی بہت بڑی نا شکری ہے کہ نعمتیں اس کی کھائیں اور اسی کے دین سے منحرف رہیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں فرماتا مشرک اور کافر سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں آخر یہ لوگ مغلوب ہوں گے اور اللہ کے مومن بندے ہی کامیاب ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ” اِنَّ اللّٰهَ یُدَافِعُ الخ “ شرک فی التصرف اور شرک فعلی کے دلائل کے ساتھ نفی کرنے کے بعد یہ اعلان جہاد کی تمہید ہے اور مسلمانوں کو جہاد کی بشارت ہے یعنی اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں ایمان والوں کی مدافعت کرے گا اور ان کی مدد فرمائے گا۔ جہاد سے ممانعت کے بعد سے سے پہلے یہی آیت نازل ہوئی جس میں جہاد کی دوبارہ اجازت دی گئی۔ وھی اول ایۃ نزلت فی القتال بعد ما نھی عنہ فی نیف و سبعین ایۃ علی ما روی الحاکم فی المستدرک عن ابن عباس (رض) (روح ج 17 ص 162) ۔ 52:۔ ” اِنَّ اللّٰهَ لَایُحِبُّ الخ “ یہ ماقبل کی علت ہے یہ مشرکین چونکہ خوان (بڑے خائن) اور کفور (بڑے ناشکر گذار) ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو ان کے ہاتھوں مغلوب و مقہور نہیں کرے گا۔ خیانت سے مراد شرک اور کفران نعمت سے غیر اللہ کے تقرب کے لیے نذر و نیاز دینا مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس اور امام زجاج سے منقول ہے قال ابن عباس خانوا اللہ فجعلوا معہ شریکا و کفروا نعمہ قال الزجاج من تقرب الی الاصنام بذبیحتہ وذکر علیھا اسم غیر اللہ فھو خوان کفور (معالم و خازن ج 5 ص 19) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) بلاشبہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے مشرکین کے ضرر کو ہٹادے گا اور دورکردے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی خیانت کرنے والے ناسپاس اور کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ چونکہ یہ بحث اس قصے سے شروع ہوئی تھی جو کفار مکہ نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تھا اسی پر یہ احکام نازل ہوئے تھے اس لئے اس تمام واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ ہم کفار کی اس ایذا رسانی کو تم سے دفع کردیں گے اور ان کو آئندہ یہ ہمت نہیں ہوگی کہ وہ تم کو حج اور عمرہ کرنے سے روک سکیں اور تمہارے اعمال مذہبی میں مداخلت کرسکیں۔ اس کا یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کسی خیانت کرنے والے دغا باز کو اور کسی ناسپاس کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب تک حضرت مکہ میں رہے حکم تھا کہ مسلمان صبر کریں کافروں کی بدی پر صبر کیا پھر جب مدینہ میں آئے حکم ہوا کہ جو تم سے بدی کرتے ہیں تم بھی بدلہ تو تب جہاد شروع ہوا آگے حکم ہے۔ 12