Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 39

سورة الحج

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾

Permission [to fight] has been given to those who are being fought, because they were wronged. And indeed, Allah is competent to give them victory.

جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر ) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Permission to fight; this is the first Ayah of Jihad Allah said: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ Permission (to fight) is given to those (believers) who are fought against, because they have been wronged; and surely, Allah is able to give them victory. Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, "This was revealed about Muhammad and his Companions, when they were expelled from Makkah." Mujahid, Ad-Dahhak and others among the Salaf, such as Ibn Abbas, Urwah bin Az-Zubayr, Zayd bin Aslam, Muqatil bin Hayan, Qatadah and others said, "This is the first Ayah which was revealed about Jihad." Ibn Jarir recorded that Ibn Abbas said, "When the Prophet was driven out of Makkah, Abu Bakr said, `They have their Prophet. Truly, to Allah we belong and truly, to Him we shall return; surely they are doomed."' Ibn Abbas said, "Then Allah revealed the words: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ Permission (to fight) is given to those (believers) fought against, because they have been wronged; and surely, Allah is able to give them victory." Abu Bakr, may Allah be pleased with him, said, "Then I knew that there would be fighting." Imam Ahmad added: "Ibn Abbas said, `This was the first Ayah to be revealed concerning fighting."' This was also recorded by At-Tirmidhi and An-Nasa'i in the Book of Tafsir of their Sunans. At-Tirmidhi said: "It is a Hasan Hadith." .. وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ and surely, Allah is able to give them victory. means, He is able to grant victory to His believing servants without any fighting taking place, but He wants His servants to strive their utmost in obeying Him, as He says: فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّواْ الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَأءُ اللَّهُ لاَنْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَـلَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ So, when you meet those who disbelieve, strike necks till when you have killed and wounded many of them, then bind a bond firmly. Thereafter either for generosity, or ransom, until war lays down its burden. Thus, but if it had been Allah's will, He Himself could certainly have punished them. But (He lets you fight) in order to test some of you with others. But those who are killed in the way of Allah, He will never let their deeds be lost. He will guide them and set right their state. And admit them to Paradise which He has made known to them. (47:4-6) قَـتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّوْمِنِينَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَن يَشَأءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ Fight against them so that Allah will punish them by your hands, and disgrace them, and give you victory over them, and heal the breasts of a believing people, and remove the anger of their (believers') hearts. Allah accepts the repentance of whom He wills. Allah is All-Knowing, All-Wise. (9:14-15) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ And surely, We shall try you till We test those who strive hard and the patient, and We shall test your facts. (47:31). And there are many similar Ayat. Ibn Abbas commented on the Ayah, وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (and surely, Allah is able to give them (believers) victory), "And this is what He did." Allah prescribed Jihad at an appropriate time, because when they were in Makkah, the idolators outnumbered them by more than ten to one. Were they to engage in fighting at that time, the results would have been disastrous. When the idolators went to extremes to persecute Muslims, to expel the Prophet and resolving to kill him; when they sent his Companions into exile here and there, so that some went to Ethiopia and others went to Al-Madinah; when they settled in Al-Madinah and the Messenger of Allah joined them there, and they gathered around him and lent him their support, and they had a place where Islam prevailed, and a stronghold to which they could retreat; then Allah prescribed Jihad against the enemy, and this was the first Ayah to be revealed for it. Allah said: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

حکم جہاد صادرہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری ۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری ۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے ۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے ۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو ۔ الخ ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16۝ۧ ) 9- التوبہ:16 ) یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں ، اللہ ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے ۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے ۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31؀ ) 47-محمد:31 ) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا ۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا ۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں ۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی ( ٨٠ ) سے کچھ اوپر تھے ۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی ، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے ۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ بیک بینی ودوگوش وطن مال اسباب ، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کرچل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے ۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا ۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی ۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے ، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی ۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری ۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں ، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں ، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں ، مکے سے نکال دئیے گئے ، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے ۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں ۔ فرمان ہے آیت ( يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ Ǻ۝ ) 60- الممتحنة:1 ) تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے ۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت ( وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید ) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب ، مہربان ، ذی احسان پر ایمان لائے تھے ۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے ۔ شعر ( لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا ) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا ، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا ۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں ۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں ۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں ۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہاجاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد ۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع ، نصرانیوں کے بیع ، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ Ċ۝ ) 47-محمد:7 ) یعنی اگر اے مسلمانو! تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا ۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں ۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا ، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب ۔ فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١؀ښ ) 37- الصافات:171 ) یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21؀ ) 58- المجادلة:21 ) خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بےوسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مذید تشریح کے لئے دیکھئے سورة بقرہ، آیت 251 کا حاشیہ) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] مکہ میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے تو اس وقت بعض جرأت مند صحابہ نے ان کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تھی مگر اس وقت اللہ نے انھیں ایسی اجازت نہیں دی۔ بکہ صبر و استقامت سے ظلم کو برداشت کرنے کی ہی تلقین کی جاتی رہی۔ پھر جب مسلمان مدینہ میں منتقل ہوگئے اور ایک چھوٹی سی اسلام مملکت کی داغ بیل پڑگئی، جو صرف مدینہ کے ایک چھوٹے سے قصبے تک محدود تھی۔ مسجد نبوی تعمیر ہوگئی جو مسلمانوں کے ہر طرح کے معاملات میں ہیڈ کو ارٹر کا کام دیتی تھی۔ مہاجرین کے مسولہ معاش کو مواخات کے ذریعہ کسی حد تک حل کرلیا گیا۔ یہودی قبائل اور مشرک قبائل سے امن و آشتی کے ساتھ آپس میں رہنے کے ماہدات طے پاگئے۔ اور مسلمان اس قبل ہوگئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ تو ان کو کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہی وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو مدافعانہ جنگ کی اجازت دی گئی اور اس اجازت کی وجہ صاف الفاظ میں بتلا دی گئی کہ یہ اجازت انھیں اس لئے دی جارہی ہے کہ ان پر مسلسل ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اجازت سن ١ ہجری کے آخر میں ملی تھی۔ بعد میں بہت سی ایسی آیات نازل ہوئیں جن میں صرف مدافعانہ جنگ کی اجازت ہی نہیں بلکہ ہر اس قوت سے بھڑ جانے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا جو اللہ کے دین کے راستہ میں مزاحم ہورہی ہو۔ [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ جہاد و قتال کے بغیر بھی مسلمانوں کی مدد کرکے انھیں غالب کر دے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ مسلمانوں کو بےسروسامان، تنگدست اور مٹھی بھر جماعت کو ان کفار مکہ پر غالب کردے جو اسلحہ، مال و دولت اور تعداد ہر لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مزید برآں تمام مشرک قبائلی اور یہود بھی ان کے معاون و مددگار ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ ۔۔ :” أَيْ فِی الْقِتَالِ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دفاع کا طریقہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام مسلمانوں سے لے گا، وہ اگر چاہے تو قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحاب مدین کی طرح آسمانی عذاب کے ذریعے سے کفار کو تباہ و برباد کرسکتا ہے، مگر فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے سزا دلوانے کا طریقہ اختیار فرمایا، کیونکہ اس میں بیشمار حکمتیں ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۝ ۙ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ) [ التوبۃ : ١٤، ١٥ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ جہاد کی چند حکمتوں کے لیے دیکھیے سورة محمد (٤) ، آل عمران (١٤٠ تا ١٤٢، ١٧٩) اور توبہ (١٦) ۔ 3 یہ پہلی آیت ہے جس میں کفار سے لڑائی کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ مکہ میں کفار کی بیشمار زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہاتھ روک کر رکھنے کا حکم تھا، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ) [ النساء : ٧٧ ] ” کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ “ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ( لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ أَخْرَجُوْا نَبِیَّھُمْ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ! لَیُھْلِکُنَّ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (ۧاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ) وَھِيَ أَوَّلُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٢٤٦، ح : ٢٩٦٨۔ مسند أحمد : ١؍٢١٦، ح : ١٨٧٠ ] ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیا گیا تو ابوبکر (رض) نے کہا : ” انھوں نے (مکہ والوں نے ) اپنے نبی کو نکال دیا، انا للہ و انا الیہ راجعون، وہ ضرور ہلاک کردیے جائیں گے۔ “ تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : (ۧاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ) [ الحج : ٣٩ ] عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ وہ پہلی آیت ہے جو قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔ “ جب مسلمان مدینہ منتقل ہوگئے تو چھوٹی سی اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ کفار نے یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا تو اس آیت میں مسلمانوں کو بھی لڑائی کی اجازت مل گئی۔ یہ تقریباً ہجرت کے پہلے سال کے آخر کا واقعہ ہے، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے خلاف کئی مہمیں بھیجیں، جن کے نتیجے میں پہلا فیصلہ کن معرکہ بدر کے مقام پر ہوا، جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان قرار دیا اور جس میں فرشتوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی مدد کی گئی۔ 3 قتال (لڑائی) ایک نہایت مشکل کام ہے، بیشک موت کا وقت مقرر ہے مگر آدمی جان بچانے کے لیے لڑائی سے جان بچاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قتال فرض کرنے میں تدریج سے کام لیا، پہلے اس آیت کے ذریعے سے قتال کا اذن ملا، پھر ” قَاتِلُوْا “ کے حکم کے ساتھ قتال فرض ہوا، مگر صرف ان لوگوں سے جو لڑائی کریں، جیسا کہ فرمایا : (وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ) [ البقرۃ : ١٩٠ ] ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو۔ “ اس کے بعد تمام کفار سے لڑنا فرض کردیا گیا، فرمایا : (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ) [ البقرۃ : ٢١٦ ] ” تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے۔ “ اور فرمایا : (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ ) [ التوبۃ : ٥ ] ” پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٢٩] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَ ھُمْ وَ أَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإْسْلَامِ وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ ) [ بخاري، الإیمان، باب ( فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ۔۔ : ٢٥ ] ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں سے قتال (لڑائی) کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ لڑائی کی تدریجاً فرضیت ایسے ہی ہے جیسے شراب تین مرحلوں میں مکمل حرام ہوئی۔ دیکھیے سورة مائدہ (٩٠) کی تفسیر۔ اسی طرح روزہ تین مرحلوں میں موجودہ صورت میں فرض ہوا۔ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا : یعنی مسلمانوں کو قتال کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، یہ ظلم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کیا گیا اور مسلمانوں پر بھی۔ عروہ بن زبیر فرماتے ہیں : ( سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِکُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِيْ مُعَیْطٍ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یُصَلِّيْ ، فَوَضَعَ رِدَاءَہٗ فِيْ عُنُقِہِ فَخَنَقَہُ بِھَا خَنْقًا شَدِیْدًا، فَجَاءَ أَبُوْ بَکْرٍ حَتّٰی دَفَعَہُ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ( اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ) [ بخاري، فضائل أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٧٨ ] ” میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے پوچھا : ” مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ سخت تکلیف کیا پہنچائی تھی ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” میں نے (بدبخت) عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، اس نے اپنی چادر آپ کی گردن میں ڈالی اور آپ کا گلا بہت سختی سے گھونٹ دیا تو ابوبکر (رض) آئے اور اسے دھکیل کر پیچھے ہٹایا اور کہا : ( اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ) [ المؤمن : ٢٨ ] ” کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے، حالانکہ یقیناً وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْھَرَ إِسْلَامَہُ سَبْعَۃٌ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُوْ بَکْرٍ ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّہُ سُمَیَّۃُ ، وَصُھَیْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ وَ عَلَیْہَِ سَلَّمَ فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِعَمِّہِ أَبِیْ طَالِبٍ وَ أَمَّا أَبُوْ بَکْرٍ فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِقَوْمِہِ وَ أَمَّا سَاءِرُھُمْ ، فَأَخَذَھُمُ الْمُشْرِکُوْنَ وَأَلْبَسُوْھُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیْدِ وَصَھَرُوْھُمْ فِي الشَّمْسِ ، فَمَا مِنْھُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وَاتَاھُمْ عَلٰی مَا أَرَادُوْا، إِلاَّ بِلَالاً ، فَإِنَّہُ ھَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِي اللّٰہِ ، وَھَانَ عَلٰی قَوْمِہِ ، فَأَخَذُوْہُ ، فَأَعْطَوْہُ الْوِلْْدَانَ ، فَجَعَلُوْا یَطُوْفُوْنَ بِہِ فِيْ شِعَابِ مَکَّۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ : أَحَدٌ، أَحَدٌ ) [ ابن ماجہ، السنۃ، باب فضل سلمان وأبي ذر والمقداد : ١٥٠ و صححہ الحاکم والذھبي وابن حبان وغیرھم و الألباني ] ” سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات آدمی تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد (رض) ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا، ابوبکر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ باقی سب کو مشرکین نے پکڑ لیا اور انھیں لوہے کی قمیصیں پہنا کر دھوپ میں جھلسنے کے لیے پھینک دیا۔ چناچہ ان میں سے جو بھی تھا اس نے اس کے مطابق کہہ دیا جو وہ چاہتے تھے سوائے بلال (رض) کے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کے نزدیک اس کی جان بےقدر و قیمت ٹھہری (اس نے اپنی جان کی کوئی پروا نہ کی) اور وہ ان لوگوں کی نظر میں ایسا بےقدر و قیمت ٹھہرا کہ انھوں نے اسے پکڑا اور لڑکوں کو دے دیا۔ وہ اسے مکہ کی گھاٹیوں میں پھراتے تھے اور وہ کہتا تھا : اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔ “ ابوبکر (رض) کو مشرکین کی بےتحاشا مار کا تذکرہ بھی کتب سیرت میں موجود ہے۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَمَّارٍ وَأَھْلِہِ وَھُمْ یُعَذَّبُوْنَ فََقَالَ أَبْشِرُوْا آلَ عَمَّارٍ وَآلَ یَاسِرٍ فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ) [ مستدرک حاکم : ٣؍٣٨٣، ح : ٥٦٦٦ و صححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمار اور اس کے خاندان کے پاس سے گزرے، جب انھیں عذاب دیا جا رہا تھا تو فرمایا : ” اے آل عمار اور آل یاسر ! خوش ہوجاؤ، تمہارے وعدے کی جگہ جنت ہے۔ “ خباب (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں مشرکین کی طرف سے بہت سخت تکلیف پہنچی تھی۔ میں نے کہا : ” کیا آپ اللہ سے دعا نہیں کرتے ؟ “ آپ (سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ تھا، فرمایا : ” تم سے پہلے لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا کہ لوہے کی کنگھیوں کے ساتھ ان کی ہڈیوں سے گوشت اور پٹھے چھیل دیے جاتے تھے، یہ چیز انھیں ان کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور انھیں سر کی چوٹی پر آرا رکھ کر دو حصوں میں چیر دیا جاتا، یہ چیز انھیں ان کے دین سے پھیرتی نہ تھی اور (اللہ کی قسم ! ) یہ کام ضرور پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا سوائے اللہ کے، یا سوائے بھیڑیے کے اس کی بھیڑ بکریوں پر اور لیکن تم جلدی کرتے ہو۔ “ [ بخاري، مناقب الأنصار، باب ما لقي النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أصحابہ من المشرکین بمکۃ : ٣٨٥٢ ] کفار نے مسلمانوں پر اس قدر ظلم کیا اور اتنی ایذائیں دیں کہ ان میں سے کچھ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے اور کچھ مکہ ہی میں ظلم کی چکی میں پستے رہے، حتیٰ کہ انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ابوبکر (رض) بھی ایک دفعہ ہجرت کرنے کے لیے نکلے مگر ابن الدغنہ برک الغماد سے انھیں واپس لے آئے، پھر بعد میں وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ : یعنی اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے، مگر اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر اور انھیں غالب کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس وقت مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی، مقابلے میں قریش تھے، جن کی سرداری پورے عرب میں مسلم تھی اور عرب کے تمام مشرک قبائل ان کی پشت پر تھے، بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر کائنات کے مالک اور شہنشاہ کا یہ فرمان کہ ” بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے “ یہ جملہ ان مسلمانوں کو قوی اور قائم کردینے والا تھا جنھیں پورے عرب کے مقابلے کے لیے کہا جا رہا تھا اور کفار کو بھی تنبیہ ہے کہ ان کا مقابلہ چند مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہے، کیونکہ مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان نہیں بلکہ مراد نصرت کا وعدہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary First command to fight the infidels The infidels of Makkah intensified their aggression against the Muslims and every day people arrived in Madinah bearing marks of ill-treatment which they had suffered at the hands of unbelievers. In the days before Hijrah the number of the faithful had increased considerably and they sought permission to defend themselves against the oppression to which they were being constantly subjected, but the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) advised them patience because he had not received Allah&s permission so far to resist the infidels with force of arms. This situation persisted for about ten years. (Qurtubi) At last, things became so bad that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was left with no choice but to leave Makkah. As he started on his journey accompanied by Sayyidna Abu Bakr (رض) he said اخرجوا نبیّھم لیھلکنّ (They have expelled their Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the time has come when they will perish). When he arrived at Madinah this verse was revealed which permitted the Muslims to take up arms against the infidels. (رواہ النسایٔی والترمذی عن ابن عباس (رض) Qurtubi) Tirmidhi, Nasa’ i, Ibn Majah, Ibn Hibban, Hakim and others have reported on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that this is the first verse which permitted the Muslims to offer armed resistance to the infidels, whereas in more than seventy earlier verses armed resistance was forbidden.

خلاصہ تفسیر (گو اب تک بمصالح کفار سے لڑنے کی ممانعت تھی لیکن اب) لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دے دیگئی جن سے (کافروں کی طرف سے) لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر (بہت) ظلم کیا گیا ہے (یہ علت ہے مشروعیت جہاد کی) اور (اس حالت اذن میں مسلمانوں کی قلت اور کفار کی کثرت پر نظر نہ کرنا چاہئے کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے غالب کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے (آگے ان کی مظلومیت کا بیان ہے کہ) جو (بیچارے) اپنے گھروں سے بےوجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی عقیدہ توحید پر کفار کا یہ تمام تر غیظ و غضب تھا کہ ان کو اس قدر پریشان کیا کہ وطن چھوڑنا پڑا آگے جہاد کی حکمت ہے) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ (ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹواتا رہتا (یعنی اہل حق کو اہل باطل پر وقتاً فوقتاً غالب نہ کرتا رہتا) تو (اپنے اپنے زمانوں میں) نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم (اور منعدم) ہوگئے ہوتے (آگے اخلاص فی الجہاد پر غلبہ کی بشارت ہے) اور بیشک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو کہ اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا (یعنی اس کے لڑنے میں خالص نیت اعلاء کلمة اللہ کی ہو) بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا (اور) غلبہ والا ہے (وہ جس کو چاہے قوت و غلبہ دے سکتا ہے آگے ان کی فضیلت ہے) یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دیدیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور (دوسروں کو بھی) نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام تو خدا ہی کے اختیار میں ہے (پس مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ کوئی کیونکر کہہ سکتا ہے کہ انجام بھی ان کا یہی رہے گا بلکہ ممکن ہے کہ اس کا عکس ہوجاوے چناچہ ہوا) ۔ معارف و مسائل کفار کے ساتھ جہاد کا پہلا حکم : مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار کے مظالم کا یہ حال تھا کہ کوئی دن خالی نہ جاتا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ آتا ہو۔ قیام مکہ کے آخری دور میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہوچکی تھی وہ کفار کے ظلم و جور کی شکایت اور ان کے مقابلے میں قتل و قتال کی اجازت مانگتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں فرماتے کہ صبر کرو مجھے ابھی تک قتال کی اجازت نہیں دی گئی یہ سلسلہ دس سال تک اسی طرح جاری رہا (قرطبی عن ابن عربی) جس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وطن مکہ چھوڑنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور صدیق اکبر آپ کے رفیق تھے تو مکہ مکرمہ سے نکلتے وقت آپ کی زبان سے نکلا اخرجوا نبیھم لیھلکن یعنی ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب ان کی ہلاکت کا وقت آ گیا ہے اس پر مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی (جس میں مسلمانوں کو کفار سے قتال کی اجازت دے دیگئی) رواہ النسائی والترمذی عن ابن عباس) ۔ (قرطبی) اور حضرت ابن عباس سے ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم وغیرہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن فرمایا ہے روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ یہ پہلی آیت ہے جو قتال کفار کے معاملہ میں نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے ستر سے زیادہ آیتوں میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝ ٣٩ۙ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) اب مسلمانوں کو کفار مکہ کے ساتھ لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ کفار مکہ نے ان پر بہت ظلم کیا ہے بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں پر غالب کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ” اذن للذین یقتلون “۔ (الخ) امام احمد (رح) نے اور ترمذی (رح) نے تحسین (رح) اور امام حاکم (رح) نے تصحیح کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے چلے تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا تاکہ وہ ہلاک ہوں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی اب لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دی گئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ط) ” سالہا سال سے انہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ نت نئے طریقوں سے انہیں ستایا جا رہا تھا۔ انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اب تک اللہ تعالیٰ نے ایک حکم کے ذریعے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ یہ حکم اگرچہ وحی جلی کی صورت میں قرآن میں نہیں آیا مگر سورة النساء کی آیت ٧٧ میں (کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ ) کے الفاظ میں تصدیق کی گئی ہے کہ انہیں اپنے ہاتھ روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خفی کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام اہل ایمان کو اس سے مطلع فرما دیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ‘ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے ‘ تمہیں زندہ بھون کر کباب کردیا جائے ‘ تم لوگ جواب میں ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے۔ بہر حال اب تک تو یہ حکم تھا ‘ مگر اب ان کے ہاتھ کھولے جا رہے ہیں۔ اب انہیں اجازت دی جا رہی ہے کہ آئندہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں۔ (وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ نِ ) ” تاکیداً یہاں پھر فرما دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھیں ‘ یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری طرح قادر ہے اور وہ ضرور ان کی بھرپور مدد فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. This (verse 39) is the first verse of the Quran in which permission to tight was given in the month of Zil-Hajj in the first year after Hijrah according to our research. Then the command to fight was given in (verse 190, 191, 193, 216 and 244 of Surah Al-Baqarah) in Rajab or Shaban of A.H. 2. 79. “Allah surely has Power over giving them victory”: this assurance was urgently needed by the persecuted Muslims whose fighting strength at that time was very meager, not even a thousand including all the migrants and the Muslims of Al-Madinah. On the other hand, the fighting strength of the Quraish by themselves was much greater. Besides, they had all the other mushrik clans of Arabia at their back and were joined later by the Jews as well. Therefore, this assurance was most opportune and the challenge to the disbelievers was very significant, for it meant to say that they were not fighting against a small number of the Muslims but against Allah. Therefore, “You are welcome to fight if you dare”.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :78 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے ، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی ۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی ۔ بعد میں سورہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا ، یعنی : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ، ( آیت 190 ) اور وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھَمْ مِّن حَیْثَ اَخْرَجُوْکُمْ ( آیت 191 ) اور وَقَاتِلُوْھُمْ حتیٰ لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ ( آیت 193 ) اور : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ( آیت 216 ) اور : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ O ( آیت 244 ) اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے ۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی ، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :79 یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں ، اللہ ان کو تمام مشرکین عرب پر غالب کر سکتا ہے ۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی ، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے ۔ اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے نہایت بر محل تھا ۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا ۔ اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ ۔ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے ۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: مکہ مکرَّمہ میں تیرہ (۱۳) سال تک صبر وضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٩۔ ٤٤:۔ ترمذی ‘ نسائی ‘ مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ٢ ؎ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو مشرکین مکہ صحابہ (رض) کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے اور صحابہ (رض) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان تکالیف کا ذکر کرتے تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ صبر کرو مجھے ابھی لڑائی کا حکم خدا کی طرف سے نہیں ہے ‘ جس وقت مکہ سے ہجرت کا حکم آنحضرت کو ہوگیا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو قرینہ سے معلوم ہوگیا کہ مشرکین مکہ پر اب کوئی وبال ضرور آئے گا اس لیے حضرت ابوبکر صدیق نے انا للہ پڑھی اور فرمایا ‘ قریش نے نبی وقت کو مکہ سے نکال دیا ‘ اب ان پر کوئی وبال آنے والا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے صدیق کی تصدیق میں یہ آیتیں نازل فرمائیں ‘ ترمذی نے اس شان نزول کی روایت کو حسن ١ ؎ اور حاکم نے صحیح کہا ٢ ؎ ہے ‘ یہ پہلی آیتیں ہیں جن میں لڑائی کی اجازت مسلمانوں کو ملی ہے ‘ پہلی آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ آج تک جن مسلمانوں کو مشرک طرح طرح سے ستاتے تھے اور ستانے پر بھی مسلمانوں کو لڑائی کا حکم نہیں تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مخالفوں سے لڑنے کا حکم دے دیا ‘ غرض اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ‘ مکہ میں تھوڑے سے مسلمان جب تک تھے اور موسم حج پر مدینہ منورہ کے لوگ آن کر مسلمان نہیں ہوئے تھے اس وقت تک اگرچہ مکہ کے موجودہ مسلمان مشرکوں کی ایذا رسانی سے تنگ آکر لڑنے کو تیار تھے لیکن اللہ کی حکمت میں لڑائی کا حکم نازل ہونا مصلحت کے خلاف تھا جب اسی آدمیوں کے قریب انصار موسم حج کے وقت مسلمان ہوئے اور ہجرت کا حکم نازل ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے آئے اور مہاجر اور انصار مل کر ایک دل ہوگئے اور مسلمانوں کی جماعت بڑھ گئی ‘ اس وقت اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کا ظہور ہوا ‘ جب مسلمانوں کی جماعت تھوڑی اور مشرکوں کی بھیڑ زیادہ تھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کو آسمان سے فرشتے بھیجے ‘ چناچہ اس کا پورا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ‘ علاوہ اس کے مہاجرین کی ایک خاص مدد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ انصار کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈال دی کہ مہاجروں کو اپنا شہر مکہ چھوڑنے کے بعد مدینہ میں ہر طرح کا آرام انصار کے سبب سے ملا اور یہ بھی فرما دیا کہ شرع کے طور پر لڑائی کے جائز کردینے میں بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے دین کی حفاظت ہوتی ہے اور کوئی مخالف دین ‘ کسی دین کی حد تک نہیں کرسکتا ‘ اگر یہ دین کی لڑائی جائز نہ ہوتی تو مخالف لوگ نصاری کے جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے عبادت خانے ‘ شہروں میں کے ان کے بڑے بڑے گرجا ‘ یہود اور مسلمانوں کی مسجدیں سب ڈھا دیتے اور ان میں اللہ کا ذکر بند ہوجاتا مگر اللہ بڑا زبردست ہے ‘ جو اس کے دین کی مدد کرتا ہے ‘ وہ اسے غیب سے مدد دے کر مخالف لوگوں پر غالب کردیتا ہے ‘ اس کے بعد مہاجرین کی تعریف فرمائی کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کی زمین میں ان کو ٹھکانہ ملے تو یہ نماز روزہ اور نیک کام کرتے ہیں اور ہجرت کا ذکر آنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر مشرکین مکہ کے جھٹلانے کا خیال جو گزرا تھا اور اس خیال سے کچھ رنج جو آپ کو ہوا تھا ‘ اس رنج کو اس تسکین سے رفع فرما دیا کہ ہمیشہ سے مخالف لوگ انبیاء کو جھٹلاتے رہے ہیں ‘ تمہارے ساتھ کچھ یہ بات نئی نہیں ہے اور انبیاء کی قوم کے لوگوں نے ان انبیاء کو جھٹلایا تھا ‘ اس واسطے ان قوموں کا نام لیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو نہیں جھٹلایا تھا ‘ بلکہ فرعون کی قوم نے جس کا نام قبطی قوم ہے ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا ‘ اس لیے جھٹلانے والی قوموں میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کا نام نہیں لیا اور جھٹلانے والی قوموں کے ہلاک ہوجانے کا ذکر بھی فرما دیا تاکہ قریش کو تنبیہ ہوجاوے کہ رسول وقت کے ساتھ سرکشی کرنے والوں کا جو انجام سلف سے ہوتا رہا ہے وہی انجام ان کا ہوگا ‘ اصحاب مدین شعیب (علیہ السلام) کی امت کو کہتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ راہ راست پر آنے کے لیے مہلت دیتا ہے ‘ جب مہلت کے زمانے میں وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قوم نوح سے لے کر فرعون تک منکر شریعت قوموں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے مہلت دی اور پھر طرح طرح کے عذابوں سے ان کو ہلاک کردیا۔ بدر کی لڑائی تک یہی عادت الٰہی قریش کے حق میں جاری رہی لیکن جب اس مہلت کے زمانہ میں مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچا پالیا فکیف کان نکیر اس کا مطلب یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں ان لوگوں کو جو ڈھیل دی گئی تھی ‘ مہلت کے بعد اس ڈھیل کو ناپسندی کی نظر سے اللہ تعالیٰ نے دیکھا اور ان لوگوں کو طرح طرح کے عذاب میں پکڑ لیا۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٢٥ ج ٣ والدر المنثور ص ٣٦٣ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی ص ١٤٦ ج ٢ ) (٢ ؎ الدر المنثورص ٣٦٤ ج ٤ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:39) اذن۔ اذن سے (باب سمع) ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ حکم دیا گیا۔ اجازت ۔ یقاتلون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب قتال مصدر (باب مفاعلہ) جن سے قتال کیا جائے (جن کے خلاف جاحانہ جنگ کی جا رہی ہے) ۔ بانہم ظلموا۔ میں ب سببیہ ہے یعنی بوجہ اس کے کہ اس پر ظلم ہو رہا ہے۔ اذن للذین یقتلون بانہم ظلموا۔ جن (مؤمنین) کے خلاف جارحانہ قتال کیا جا رہا ہے ان کو اب مدافعت میں جہاد کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ (یہ آیت احکام جہاد میں اولین آیت ہے اس سے قبل مسلمان کافروں کے ظلم وتشدد اور ان کی چیرہ دستیوں کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتے رہے تھے کیونکہ منشا ایزدی یہی تھا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی گو ان کی تعداد کم ہے اور بےسروسامان ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو تمام دشمنوں پر غالب کرسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف چناچہ ظہور اسلام کے مکی دور کے تیرہ برس مسلمانوں کو برداشت کرنے اور دین سیکھنے سکھانے پر محنت کرنے کا حکم تھا مگر جب کفار کا ظلم حد سے بڑھا اور مسلمان گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے حتی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کرنا پڑی اور آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو جہاد کی اجازت اور جہاد کرنے کا حکم ملا اور جہاد کی فرضیت کے ساتھ اس کی وجہ بھی ارشاد فرمائی گئی کہ مسلمانوں کو جو کافروں کے جوروستم کی زد پر ہیں اور جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اب مقابلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ (جہاد کی فرضیت اور اس کی وجہ) اللہ کریم نے ظلم کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ظلم کی تعریف وہ ظلم کہلائے گی ، چناچہ یہ وجہ تو ہر وقت موجود ہے لہذا مسلمانوں پر ہمیشہ جہاد بھی فرض ہے ، اسی لیے حد یہ مقرر کی گئی تھی کہ (آیت) ” حتی لا تکون فتنۃ “۔ کہ کوئی فساد باقی نہ رہے ، جہاد سے یہ مراد نہیں کہ کسی کو زبردستی مسلمان کیا جائے یہ ضرور مراد ہے کہ کوئی اسلامی احکام میں مداخلت کی جرات نہ کرے اور اللہ جل جلالہ کی زمین پر اسی کی مخلوق پر ظلم کرنے سے روکا جائے نیز اس کے ساتھ اللہ جل جلالہ کی مدد کا وعدہ موجود ہے کہ مسلمان جب بھی اور جہاں بھی اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے ظلم کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں گے اللہ جل جلالہ ان کی مدد کرنے پر پوری طرح قادر ہے ، ظاہری اسباب خواہ جیسے بھی ہوں فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہوگی اور اللہ کا یہ وعدہ بھی جس طرح حکم ہمیشہ کے لیے ہے ہمیشہ ہی کے لیے ہے اور بدرواحد سے لے کر آج کے دور کے افغان جہاد تک اس کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ خود کفار کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ مٹھی بھر مسلمان صحرائے عرب سے اٹھ کر روئے زمین پر چھا گئے تو یہود نے شیعہ تحریک کی بنیاد رکھی جس بہت بڑا رکن ترک جہاد ہے کہ امام غائب آئے گا تو اس کی قیادت میں جہاد جائز ہو سکے گا اور برصغیر میں نصرانیوں نے مرزائیت کی بنیاد رکھی یہ بھی صرف جہاد کو روکنے کے لیے ایک بڑے ظلم اور گمراہی کی بنیاد رکھی گئی اور اب تو نئی مصیبت یہ ہے کہ ہمارا ایک بہت بڑا دیندار طبقہ اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ سارا کام محض دعاؤں سے ہوگا بس دیگیں پکائی جائیں نتیجہ یہ کہ جب لڑنے کا ارادہ ہی نہیں تو جدید تکنیک سیکھنے کی کیا ضرورت چناچہ مسلمان بتدریج نئی ایجادات تک سے دور ہوتا جا رہا ہے اور یہ ہم غیر شعوری طور پر بغیر اجرت کے کافر کی مدد کر رہے ہیں اللہ ہمیں معاف فرمائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق بخشے آمین ! چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کو مقابلے کی اجازت بھی ہے اور اللہ کریم ان کی پوری مدد بھی فرمائے گا یعنی یہ ایک طرح سے فتح کی بشارت بھی ہے اب اس کے بعد ان مظالم کا تذکرہ بھی ہے جو مسلمانوں پہ ڈھائے جا رہے تھے کہ نہ صرف انہیں قتل کیا گیا ، مارا گیا بلکہ ان پر ظلم کرکے انہیں ان کے گھروں تک سے نکال دیا گیا تو ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اللہ جل جلالہ کو اپنا رب مانتے اور اسی کی عبادت کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے ۔ اور یہ قانون فطرت ہے کہ اللہ کریم ہر خرابی کے مقابلے کے لیے بھی حالات پیدا فرماتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا اور زیادتی کرنے والوں سے دفاع کی اجازت نہ دی جاتی تو نہ صرف آج بلکہ کبھی بھی زمین پر دین کا نظام قائم نہ ہو سکتا نہ عیسائیوں کے خلوت کدے اور عبادت خانے قائم رہتے اور نہ یہود کی عبادت گاہیں بن سکتیں جو اپنے اپنے وقت میں سب اسلام ہی تھے اور حق تھے یہ الگ بات ہے کہ اب خود ان لوگوں نے ان ادیان میں تحریف کرکے انہیں کفر وشرک میں تبدیل کردیا اور نہ مسلمانوں کی مساجد کافروں کی دست برد سے محفوظ رہتیں ، جن میں کثرت سے اللہ جل جلالہ کا نام کا ذکر ہوتا ہے ۔ (مساجد اور ذکر اسم ذات) قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر اسم ذات کے ذکر کا حکم دیا ہے جیسے اس آیہ کریمہ میں کہ مساجد میں تو پنجگانہ فرائض کی ادائیگی کی جاتی ہے پھر ان کی اہمیت کا سبب اسم ذات کا ذکر کیوں قرار دیا گیا کہ ذکر اسم ذٓت ہی واحد راستہ ہے جو قلب کو وہ تعلق نصیب کرتا ہے کہا سے عبادات میں حضور اور خشوع نصیب ہوتا ہے ہر عمل جو شریعت کے مطابق ہو ذکر اللہ ہے تلاوت ، نماز ، تسبیحات ذکر لسانی ہے مگر اس سب کے باوجود اسم ذات کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے اور کثرت کا حکم اس کے ساتھ موجود ہے جو تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب قلب ذاکر ہوجائے گویا ہر عبادت اور عبادت گاہ کی روح ذکر قلبی ہے ۔ نیز جہاد تو محض اللہ کے لیے اور اس کے دین کی مدد کے لیے ہے تو جو بھی خلوص سے یہ کام کرے گا اللہ جل جلالہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا یعنی جہاد میں مجاہد کی فتح یقینی ہے ، اگر نیت خالص جہاد ہی کی ہو یہ نہ ہو کہ صورت جہاد کی ہو اور مقصد اپنی کسی غرض کی تکمیل ہو اور اللہ جل جلالہ بہت بڑی طاقت والا اور ہر شے پہ غالب ہے یعنی کوئی بھی طاقت اللہ جل جلالہ کی مدد کو شکست نہیں دے سکتی ۔ اور خالص اللہ جل جلالہ کی راہ میں لڑنے والے لوگ ایسے ہیں کہ جب انہیں اقتدار اور غلبہ نصیب ہوتا ہے تو زمین پر بندوں سے بندوں کی غلامی چھڑا کر اللہ جل جلالہ کی عبادت کا نظام قائم کرتے ہیں اور مال پر زکوۃ یعنی دوسروں کے حقوق کا اہتمام کرتے ہیں اور نیکی کا حکم جاری کرتے ہیں اور برائی سے روک دیتے ہیں اور تمام امور کا انجام تو اللہ جل جلالہ ہی کے دست قدرت میں ہے لہذا مسلمانوں کو بظاہر کمزور دیکھ کر یہ نہ سمجھا جائے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہر کام جب اللہ جل جلالہ کرتا ہے تو جیسا چاہتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے ۔ rnّ جمہور مفسرین کرام کے نزدیک اس آیہ مبارکہ کی عملی تفسیر خلافت راشدہ کا مبارک دور ہے کہ ان کا جہاد خالص اللہ کے لیے تھا انھیں فتح اور غلبہ واقتدار نصیب ہوا اور انہوں نے روئے زمین بلکہ معلوم تاریخ انسانی کی بہت بڑی سلطنت پر اللہ کا نظام اور نظام اسلام رائج فرمایا ۔ (نفاذ اسلام اور تاریخ عالم) آج کے دور کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ تاریخی اعتبار سے عملی طور پر صرف خلافت راشدہ کے عہد میں اسلام ناقدرہا بعد کا سارا زمانہ اس سے خالی ہے لہذا ایسا کرنا بھلا آج کیسے ممکن ہے ؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اسلام اللہ جل جلالہ کا دیا ہوا نظام حیات کامل ومکمل سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور دینی ہر اعتبار سے ساری انسانیت کے لیے سارے زمانوں اور سب ممالک کے لیے ہے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ آج کے عہد کی ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام کبھی بھی انسانیت کو ایک خوبصورت فلاحی ، پرامن اور انصاف پر مبنی معاشرہ دینے کا اہل نہ تھا ، ظاہر ہے ایسا کہنا کسی بھی طرح ممکن نہیں کہ ساری دنیا جل رہی تھی جب ظہور اسلام ہوا اور روئے زمین پر سے ظلم مٹا کر عد و انصاف قائم کرے اسلام نے دکھا دیا تو یہ کہنا کہ تب تو ٹھیک ہے اب اسلام ایسا نہیں کرسکتا اس لیے درست نہ ہوگا کہ اسلام کا دعوی ہے کہ یہ خدائی قانون ہے اور ہمیشہ کے لیے ایک سا مفید ہے تو اس کا انکار سارے اسلام کا انکار ہوگا اس پر یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کہتی ہے خلافت راشدہ کے بعد عملا اسلام کہیں نافذ نہیں رہا مسلمانوں کی حکومتیں تو تھیں مگر اسلامی حکومتیں نہ تھیں تو یہ درست نہیں اور تاریخ یہود کی سازش کا شکار ہے ورنہ پہلے کی بات چھوڑیں جب تاتاریوں کا طوفان مسلمان کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا مصر میں بیبرس کی حکومت اسلامی تھی جس نے مشہور تاتاری جرنیل کو شکست فاش دی اور اس کے بدن کے ٹکڑے شہر کے دروازوں پر لٹکا کر باطل کی شکست کا نظارہ پیش کیا ، ہندوستان پر سلطانالتتمش کی حکومت اسلامی حکومت تھی ، حتی کہ ہلاکو خان کو سندھ کا دریا عبور کرنے کی جرات نہ ہوسکی اور نگ عالمگیر تک آئیے تو فتاوی عالمگیری آج بھی ریاستی قانون کی دستاویز کے طور پر موجود ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ درمیان میں ہر قسم کے لوگ بھی آئے ایسے ایسے بدنصیب بھی جنہوں نے اسلامی قانون کی پرواہ نہ کرکے اپنی مرضی سے بھی حکومت کی مگر یہ کہنا درست نہیں کہ اسلامی حکومت نہیں رہی ۔ اگر کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرکے اپنی دنیا وآخرت تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغموم نہ ہوں کہ اللہ کریم نے بندے کو راہ چننے کا اختیار دیا ہے اور پہلی قوموں نے جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عاد وثمود یا ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم یا لوط (علیہ السلام) کی قوم ان سب نے بھی تو اپنے انبیاء کرام کی دعوت کا انکار ہی کیا تھا مدین کے رہنے والوں نے یا موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا قبطیوں نے انکار کیا اور ان اقوام کو موقع بھی دیا گیا کہ سنبھل جائیں مگر جب کفر ہی پہ جمے رہے تو اللہ جل جلالہ کی گرفت میں آگئے اور انھیں میری عظمت کے انکار کا مزہ چکھنا پڑا ، کتنے ہی شہر ویران ہوئے جو ظالم اقوام کا مسکن تھے جو بڑے متکبر اور طاقتور تھے مگر اب ان کا حال کیا ہے ایسے برباد ہوئے کہ چھتیں پہلے گر گئیں اور اب دیواریں چھتوں پر گر پڑی ہیں کتنے کنویں تھے جو ان آبادیوں کے مکینوں نے بنائے جو اب ویران پڑے ہیں اور کتنے شاندار محلات قلعے جن پر فن تعمیر کا پورا پورا زور دکھایا گیا اور گلکاری کی گئی ، اب اس پر کا ہی جم رہی ہے کیا آج کے مفکر روئے زمین پر ان عبرت کے نشانوں کو نہیں دیکھ سکتے ۔ rnّ (قلب ، اس کی آنکھ کان اور کیفیات) لیکن کاش ان کے پاس دل ہوتے جو سمجھنے کی اہلیت رکھنے والے ہوتے ، گویا ذات باری ہو یا صفات باری ان کو جاننے اور معرفت الہی کے لیے قلب کی ضرورت ہے یہ جو گوشت کا لوتھڑا ہے اس کے اندر ایک لطیفہ ربانی ہے جو حقیقی قلب ہے اور جس میں عقل و شعور ہے ، جو سنتا ہے دیکھتا ہے ظاہر ہے تب ہی سمجھ سکتا ہے کفر اور نافرمانی دل کی یہ استعداد ضائع کردیتے ہیں تو انسان عظمت باری کو سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ، اسی لیے یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ کاش ان کے دل سمجھنے والے ہوتے کہ دماغ ، بدن اور اس کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے ہے اور روح اور اس کی ضروریات دل کا کام ہے تو کفار کے دل سمجھ سے عاری اور کان سننے سے محروم کہ ظاہری کان عقل اور دماغ کے لیے سنتے ہیں دل کی لیے کچھ سنائی نہیں دیتے ، ان کی آنکھیں بھی تو نہیں یہ ظاہری آنکھیں تو بیشک ہیں مگر ان کی دل کی آنکھیں اندھی ہیں وہ دل جو سینوں میں دھڑکتا ہے اسی کی بات ہو رہی ہے تو گویا دل کی آنکھ اور اس کی بینائی دل کے کان اور ان کی شنوائی ، دل کا شعور اور درد آشنائی یہی دین کی بنیاد اور اللہ جل جلالہ کی عظمت کو جاننے کے ذرائع ہیں اور ان اوصاف کا حصول اور ایسے افراد کی تلاش جو یہ کام کرسکیں یہ سب ضروریات دین میں سے ہیں اور اسی کا نام تصوف و سلوک ہے ۔ دل کے اندھے پن کی مصیبت دیکھو یہ آپ سے کہتے ہیں کہ اگر عذاب ہی آنا ہے تو پھر جلدی لاؤ انہیں اللہ کے عذاب کی شدت کا بھی اندازہ نہیں ان سے کہ دیجیے کہ مت گھبراؤ اللہ اپنے وعدے کیخلاف ہرگز نہ کرے گا انھیں اگرچہ عرصہ لمبا لگتا ہے مگر عنداللہ یعنی آسمانی نظام میں تو دنیا پر ہزار سال کے برابر ایکدن ہے تو اس لحاظ سے اگر کوئی سو سال بھی جیا تو دن کا دسوں حصہ ہی جیا جیسا دنیا کے نظام کا سیکرٹریٹ تو بالائے آسمان ہے جہاں دن اتنے بڑے شمار ہوتے ہیں اسی لیے فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو عمر کا کوئی فرق نہ ہوگا کہ اب تک دنیا پہ اگر دو ہزار برس بیت گئے تو جہاں وہ ہیں وہاں تو دوروز ہی گذرے ہیں بعض حضرات کے نزدیک ہزار سال کا ایک دن قیامت کا دن ہے ۔ واللہ اعلم۔ اور انہوں یہ دیکھنا چاہیے کہ کتنی آبادیاں جرم کفر میں اجڑ گئیں کتنی اقوام تباہ وبرباد ہوگئیں کتنے سرکش لوگ تھے جو ظلم کرتے تھے پر اللہ جل جلالہ کی گرفت میں آکر چور چور ہوگئے اس لیے کہ انجام کار ہر ایک کو اللہ جل جلالہ ہی کی بارگاہ کی طرف پلٹنا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن 39 تا 41 : اذن (اجازت دے دی گئی) ‘ یقتلون (وہ لڑتے ہیں) دیار (دار) (گھرے مکانات) ‘ دفع (دور کرتا ہے) ‘ ھدمت (ڈھادیئے گئے) ‘ صوامع (صومعۃ) ترک دنیا کرنے والوں کی عبادت گاہ ‘ بیع (بیعۃ) (نصاری کے گرجا گھر) ‘ صلوات (یہودیوں کے عبادت خانے) ‘ یذکر (یاد کیا گیا۔ یا کیا جاتا ہے) ‘ مکنا (ہم نے غلبہ دیا۔ ہم نے جمائو عطا کردیا) ‘ عاقبۃ (انجام) تشریح : آیت نمبر 39 تا 41 : سورۃ الحج کی ان آیات میں چند بنیادی اور اہم مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کی تشریح سے پہلے اگر اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے جن حالات میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی منشا کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ پس منظر یہ ہے۔ اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام (رض) کو مسلسل تیرہ سال تک اس طرح ستایا گیا اور ظلم و زیادتی کی انتہا کردی گئی جس کے تصور سے روح کا نپ اٹھتی ہے۔ صحابہ کرام (رض) کو مارنا ‘ پیٹنا ‘ گرم تپتے پتھروں اور جسم کو جھلسا دینے والے ریت پر ننگے بدن لٹاکر اوپر سے سینے پر بھاری پتھر رکھ دینا۔ کنکر یلے پتھروں پر گھسٹینا ‘ کھانے پین کی چیزوں کو روکنا ‘ میل جول چھوڑ دینا اور طرح طرح کے طعنے دینا وغیرہ۔ ان سنگین حالات میں صحابہ کرام (رض) کو حکم تھا کہ وہ کفار کے ہر ظلم و ستم کے جواب میں تحمل ‘ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ دوسری طرف خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے میں کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ جب آپ دین حق کی طرف بلانے کی جدوجہد کرتے تو قریشی نوجوان اور بچے شور ہنگامہ کرتے تاکہ آپ کی بات کسی کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔ جب آپ طائف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کی بات سننے کے بجائے اتنے پتھر برسائے گئے کہ آپ لہو لہان ہوگئے۔ جب مکہ کی سرزمین صحابہ کرام (رض) کے لئے تنگ ہوتی چلی گئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر اللہ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی جیسے ہی صحابہ کو اس کا علم ہوا تمام جاں نثاران مصطفیٰ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور اس طرح تمام مومنین نے مدینہ منورہ کو اپنا مرکز بنا لیا۔ مفسرین نے حضرت صہیب رومی ‘ حضرت ام سلمہ (رض) اور ان کے شوہر ابو سلمہ (رض) اور حضرت عباس ابن ربیعہ (رض) وغیرہ کے واقعات کو نقل کر کے بتایا ہے کہ خاص طور سے ان حضرات کو اس بری طرح ستایا گیا جو ناقابل تصور ہے اور اس طرح وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے کفار قریش نے مدینہ منورہ میں بھی آپ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور کئی جنگیں مسلط کردی گئیں۔ 6؁ ہجری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام (رض) ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر عمرہ کی نیت سے روانہ ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق ایک ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں لیا گیا۔ آپ کے ساتھ قربانی کے جو جانور تھے آپ نے ان کو قلادے پہنائے اور اونٹ کے کوہانوں کو چیر کر اس بات کا نشان بنا دیا کہ یہ جانور اللہ کے گھر میں قربانی کے لئے جارہے ہیں۔ جب قریش کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بوکھلا اٹھے۔ مجلس شوری منعقد کر کے یہ فیصلہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کو مکہ میں داخل ہونے سے روکاجائے۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے عام راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پر پیچ راستہ اختیار کیا اجو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہو کر گذرتا تھا۔ اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے مقام پر مقیم ہوگئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرما دیا کہ ہم صرف زیارت بیت اللہ کے لئے آئے ہیں لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ قریشیوں کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ قریشیوں نے صورت حال کی نزاکت محسوس کر کے سہیل بن عمرو کو صلح کے معاملات طے کرنے کے لئے روانہ کردیا اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازمی طور پر یہ بات طے کی جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال تین دن کے لئے بغیر اسلحہ لئے ہوئے آئیں۔ عمرہ اداکریں اور واپس چلے جائیں۔ کافی طویل گفتگو کے بعد کچھ نکات طے پا گئے۔ شرائط یہ تھیں (1) اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ اداکریں۔ (2) یہمعاہدہ دس سال کے لئے ہوگا۔ جس میں جو جس کے ساتھ ملنا چاہتا ہے وہ مل لے اور ایک دوسرے پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ (3) جو شخص اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر بھاگ کر مدینہ آئے گا اس کو واپس کیا جائے گا لیکن جو شخص مدینہ سے قریش کے پاس آجائے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے اس معاہدہ کو تحریر کرایا اس معاہدہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کھول دیا۔ جانور ذبح کئے اور سرمنڈایا۔ آپکے صحابہ اس معاہدہ کو اپنی شکست سمجھ رہے تھے دل ہی دل میں گھٹن بھی محسوس کررہے تھے مگر جب انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے احرام کھول دیئے۔ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ معاہدہ درحقیقت کفار مکہ کی زبردست شکست تھی۔ وجہ یہ ہے کہ معاہدہ ہمیشہ دو برابر کی طاقت اور حیثیت والوں کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ اس معاہدہ کے ذریعہ کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو برابر کی طاقت تسلیم کرلیا تھا جب کہ اس سے پہلے وہ مسلمانوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھے یہی وجہ ہے کہ اس سفر سے واپسی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورة فتح کی آیات نازل کر کے ان کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی اور خوش گوار تبدیلی کا آغاز تھا کیونکہ قریش جو مسلسل جنگیں مسلط کررہے تھے جب وہ میدان جنگ میں پسپا ہو کر امن و سلامتی کی طرف آگئے تو بت پرستوں اور یہودیوں کے جذبات ٹھنڈے پڑے گئے اور ان کی طاقت تقسیم ہو کر رہ گئی۔ چونکہ دین اسلام امن و سلامتی کا نظریاتی دین ہے اس لئے امن و سلامتی کا موسم ہی اس کو راس آتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد اہل ایمان کو دین اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور تبلیغ دین کا ایک اہم موقع ہاتھ آگیا۔ چناچہ مدینہ پہنچتے ہی اہل ایمان کی سرگرمیوں میں ایسی تیزی آئی کہ مسلمان افواج جن کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ ہو کسی تھی محض دو سال میں فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اس عرصہ میں دو اور زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ (1) آپ نے دنیا بھر کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے نام خطوط لکھ کر دعوت اسلام پیش کی جس کے جواب میں کسی نے اسلام قبول کیا کسی نے نہیں کیا لیکن اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کافروں کی توجہ اس طرف ہوگئی اور ان کے نزدیک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام جانا پہنچانا بن گیا۔ (2) دوسرا فائدہ یہ پہنچا کہ خیبر جو مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ایک سو میل کے فاصلے پر ہے وہ یہودیوں اور منافقین کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ ہر طرف مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑکا رہے تھے۔ کفار مکہ کے حملوں کے وقت بنو قریظہ کے یہودیوں نے میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غداری کی اور در پر دہ کفار کی مدد کی اور غزوہ خندق میں کفار کو مدینہ پر حملہ کی ترغیب بھی بنو قریظہ والوں نے دی تھی۔ وہ مسلسل اس سازش میں لگے ہوئے تھے کہ اگر بنو غطفان اور دیہاتی بدوان کے ساتھ مل جائیں تو وہ مسلمانوں کو گھیر کر ختم کر ڈالیں گے۔ دوسری طرف رائیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی مسلسل خیبر کے یہودیوں کو اکسارہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور مسلمانوں کی قوت کو تہس نہیس کردیں۔ یہ وہ تمام حالات ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظر تھے۔ ابھی تک اللہ کی طرف سے اپنا دفاع کرنے کی اجازت تھی لیکن کفر کی طاقت کو توڑنے کے لئے خود سے تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی لیکن سورة الحج کی ان آیات میں اہل ایمان کی مظلومیت کو دیکھتے ہوئے تلوار اٹھانے کی اجازت دے دی گئی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ آیات نازل فرمائیں جن میں کفر کو ایک فتنہ قرار دے کر اس کو مٹا ڈالنے کا حکم دیدیا گیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قریش سے معاہدہ کرنے کے بعد اس سے مطمئن ہوگئے کہ جنوب سے ان پر حملہ نہ ہوگا۔ تب آپ نے پہلی مرتبہ خیبر کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ آپ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ اور محرم کے چند دن گذار کر خیبر کی طرف چلنے کا حکمدیدیا۔ یہودیوں اور منافقین کی ساری کوششوں کے باوجود بہت تھوڑے عرصے میں اہل ایمان نے خیبر کے پورے علاقے کو فتح کرلیا اور اللہ نے جس صلح حدیبیہ کو ” فتح مبین “ قرار دیا تھا اس کی حقیقت سب کے سامنے کھ کر آگئی۔ اگر دیکھا جائے تو درحقیقت صلح حدیبیہ ہی دین اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی ہے جب کہ دین اسلام ایک علاقائی سطح سے ابھر کر عالمی سطح پر آگیا تھا اور اسلامی سلطنت مدینہ تک نہیں بلکہ ایک سو میل دور تک قائم ہوچکی تھی۔ اب اس پس منظر میں ان آیات کو ملاحظہ کیجئے تو پوری بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے۔ جن لوگوں (صحابہ کرام (رض) پر جنگ مسلط کی گئی تھی ان کو (پیش قدمی کرنے اور تلوار اٹھانے کی ) اجازت دیدی گء ہے کیونکہ ان پر ظلم و زیادتی کی گئی تھی۔ ان کو ان کے گھروں سے نکالا گیا ہے صرف اس لئے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مدد کرنے پر پوری قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتا تو راہبوں ‘ خانقاہوں ‘ نصاری کے گرجا گھر ‘ یہودیوں کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نا لیاجاتا ہے وہ ڈھادی جاتیں۔ یقیناً اللہ ان لوگوں کی ضرور مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشک و شبہ اللہ بڑی طاقت وقوت والا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہم اگر زمین میں تمکن (طاقت و قوت ‘ حکومت و اقتدار) عطاکریں گے تو وہ نمازیں قائم کریں گے۔ زکوۃ اداکریں گے نیک اور بھلے کاموں کا حکم دیں گے اور ہر طرح کی برائیوں سے روکیں گے لیکن ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار وقدرت میں ہے۔ ان آیات میں بیان کیے گئے چند مضامین کی وضاحت یہ ہے۔ (1) آپ نے آیات کے پس منظر میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ مکہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا جو کفار مکہ نے چھوڑ دیا ہو۔ مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی اور مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) نے اطاعت رسول کے عظیم جذبہ کے تحت کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ہر طرح کے ظلم وس تم کو سہتے رہے۔ انتہائی صبر و تحمل ‘ برداشت اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم مثال قائم کردی۔ جب کفار مکہ نے اہل ایمان کو مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور سنگین جارحیت کا مظاہرہ کیا اور اپنی سازشوں کا جال مدینہ کے کفار و مشرکین اور یہودیوں تک پھیلا دیا جو میثاق مدینہ کے پابند تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت دیدی اور کچھ عرصہ بعد وہ آیات نازل فرمائیں جن میں قتال و جہاد اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ سب سے پہلی آیت ہے جس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ کفار کو منہ توڑ جواب دیں حالانکہ اس سے پہلے ستر آیات میں قتال کی ممانعت فرمائی گئی تھی۔ (ترمذی ‘ مسند احمد) (2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ کو اس بات کی پوری قدرت حاصل ہے کہ وہ ان مظلوموں کی مدد فرمادے لیکن اللہ کا یہ قانون ہے کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ بتایا یہ گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اگر انہوں نے اللہ کے دین کی مدد نہ کی یعنی انہوں نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا اور دین کے فروغ سے غفلت اختیار کی تو پھر ان کی مدد نہ کی جائے گی۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو ! تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہوگے۔ (3) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد اور مظلومیت کو سند عطا فرمادی ہے اور فرمادیا گیا ہے کہ جن اہل ایمان کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا تھا یا ان کو نکالا گیا تھا اور اپنا سب کچھ دین اسلام کے لئے مٹا کر ہجرت کرگئے تھے اللہ نے ان کے ایثار و قربانی کو اپنی بار گاہ میں قبول فرما لیا ہے اور ان کی ہر طرح مدد کی جائے گی۔ (4) چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی کہ اہل ایمان کے اس جذبے کو انہوں نے ” جرم “ بنا دیا تھا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب ایک اللہ ہے۔ وحدانیت کا اقرار کرنے والوں کو انہوں نے جس طرح اپنی ملامت کا نشانہ بنا رکھا تھا وہ بھی ایک طرح کا ظلم ہی تھا کیونکہ کفار قریش جنہیں ابراہیمی ہونے پر بڑا ناز تھا ان کو تو اس توحید کے درس کو سب سے پہلے حاصل کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر وی زندگی درس توحید اور عملی جدوجہد کرتے رہے تھے ۔ جب انہوں نے ان مشرکین کو ان کے شرک پر آگا کیا تو انہوں نے اپنی سی کوشش کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک زبردست آگ میں جھونک دیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں بھسم کردیا۔ لیکن اللہ کو ایک ماننے والوں کو اللہ اسی طرح بچا لیا کرتا ہے۔ (5) پانچویں بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم پر خلوص دین داری ‘ پر عزم جدوجہد اور سر فروشی کے اپنے آپ کو سچائی کا پیکر بنا لیتی ہے تو وہ اگر چہ کمزورہی کیوں نہ ہو وہ دنیا میں تنہا اور بےبس نہیں ہوتی بلکہ جب ظالم اپنے ظلم کی انتہاؤں پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کے بازؤں میں وہ طاقت بھر دیتا ہے۔ اور حالات کو ان کے موافق بنا دیتا ہے کہ پھر ظالموں کا جینا دو بھر کردیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ نظام نہ ہوتا تو دنیا ظلم سے بھر جاتی اور کسی کا اقتدار اور کسی کی مذہبی جگہیں محفوظ نہ رہتیں۔ عیسائی راہبوں کی خانقاہیں ‘ نصاری کے گرجا گھر ‘ یہودیوں کے عبادت خانے اور اللہ کی وہ مسجدیں جہاں بڑی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے سب کے سب برباد ہوجاتے۔ لہٰذا اللہ مظلوموں کے ذریعہ ظالموں کو ختم کرتارہتا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ظالم و مظلوم کی یہ کشمکش ہر دور میں رہی ہے اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ ہٹا تا رہا ہے۔ ایسے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات میں مل جائیں گے کہ جب ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی تو مظلوم اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ظالموں کے ایوانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اگر ہم بر صغیر ہی کی تاریخ کو سامنے رکھ لیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ صرف ایک سو سال میں دو بڑی سلطنتوں کا زبردست عروج اور زوال ہوا۔ سلطنت برطانیہ جو یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک سے شروع ہوئی اور بتدریج اس نے دنیا کے اہم ملکوں پر قبضہ کرلیا اور وہ دنیا کی عظیم سلطنت اور طاقت بن کر ابھری۔ سلطنت برطانیہ کی وسعت اور پھیلائو کا یہعالم تھا کہ ان کی سلطنت میں سورج ڈوبتا ہی نہ تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے لئے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ایسے ایسے ظلم کئے جن کے تصور سے دل دہل جاتے ہیں اور انسانیت تڑپ کر رہ جاتی ہے۔ انسانیت کے نام کی مالا جپنے والے لوگوں کے سفید تھے لیکن ان کے دلوں کی سیاہی نے ہر طرف اندھیر مچا کر رکھ دیا تھا۔ ہندوستان میں خاص طور پر چونکہ مسلمانوں سے سلطنت چھینی گئی تھی اس لئے مسلمانوں پر وہ ظلم کئے جس کا تصور مہذب دنیا کر ہی نہیں سکتی۔ سات دن تک برابر قتل عام کیا جاتا رہا ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی۔ پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ عام شاہراہوں سڑکوں پر پھانسی کے تختے لگا دیئے گئے۔ یہ جگہیں جہاں پھانسیاں دی جارہی تھیں انگزیزوں کی ترفریح اور دلچسپی کا مرکز بن گئیں تھیں جہاں وہ پھانسی پانے والوں کے سسکنے اور دم توڑنے کا لطف لیا کرتے تھے سگریٹ کا کش لگاتے۔ آپس میں باتیں کرتے۔ جب پھانسی کا کام مکمل ہوجاتا اور وہ مظلوم شخص آخری ہچکی لیتا تو ہنسی او مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان کا اظہار کیا جاتا۔ ان بدنصیبوں میں بڑے بڑے ذی وجہاہت اور شان والے لوگ تھے۔ بعض مسلم محلے اس طرح تباہ و برباد کرکے رکھ دیئے گئے کہ پورے محلے میں کوئی ایک شخص بھی زندہ نہ بچ سکا۔ ستائیس ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی۔ عورتوں اور بچوں تک کی لاشیں سڑکوں پر کھینچی گئیں۔ باپردہ خواتین اور شریف خواتین کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جس کا تصور ممکن نہیں ہے اور اس کا خیال کر کے دل دھل جاتا ہے۔ (قیصر التواریخ ص 454 ) میلی سن لکھتا ہے۔ ہمارے فوجی افسر ہر قسم کے مجرموں کو مارتے پھرتے تھے۔ اور کسی درد اور افسوس کے بغیر انہیں پھانسیاں دے رہے تھے گویا وہ کتے تھے یا گیڈر یا نہایت ادنی قسم کے کیڑے مکوڑے (میلی سن ص 177 ج 2) فیلڈمارشل لارڈ ابرٹس نے 21 جون 1857 ئ؁ کو اپنی والدہ کو خط لکھا کہ سزائے موت کی سب سے زیادہ موثر صورت یہ ہے کہ مجرم کو توپ سے اڑا دیا جائے۔ یہ بڑا ہی خوفناک نظارہ ہوتا ہے۔ لیکن وجودہ وقت میں ہم احتیاط پر کار بند نہیں ہو سکتے ہمارا مقصد ان بد معاش مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ اللہ کی مدد سے انگریز اب ہندوستان کے مالک رہیں گے۔ (ایڈورڈ تھامسن ص 40۔ 1926 ؁) یہ اور اسی قسم کے وہ بیشمار واقعات ہیں جو ایک انسان کو لرزا کر رکھ دیتے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں پر معاش اور روزی کے دروازے بند کردیئے۔ ان کے اوقاف و جائید ادوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا گیا۔ جن علما نے سر اٹھانے کی کوشش کی ان کو زنگی بھر کی سزادے کر کالے پانی بھیج دیا گیا۔ اسلامی مدارس کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک زبردست مہم چلائی گئی تاکہ ان کے من پسنداداروں کو ترقی ملتی رہے۔ غر ضی کہ کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو انگریزوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف نہ کیا ہو۔ اس ظلم کے بعد دنیا کی مظلوم قوموں نے ایک انگڑائی لی۔ بیداری کی لہر اٹھی جو سلطنت برطانیہ کو بہا کرلے گئی۔ برطانیہ سمٹتے سمٹتے اپنے جزیرے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ جس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا آج یہ عالم ہے کہ ان کی سلطنت میں سورج ہی نہیں نکلتا۔ یورپ کے ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر دنیا میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں روس ایک طاقت ورملک بن کر ابھرا اور وہ دنیا کی عظیم طاقت بن گیا۔ اس نے بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا شروع کیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں کسر اٹھا نہ رکھی کیونکہ روس درحقیقت اپنے لئے اسلام ہی کو سب سے بڑا حریف سمجھتا تھا لہٰذا اس نے مسلمانوں اور دینی اداروں کو تباہ کرنے میں پوری طاقت جھونک دی۔ دوسری طرف امریکہ بھی ابھر کر سامنے آگیا اور پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی ایک کمیونسٹ بلاک اور دوسرا سرمایہ دار گروپ۔ دونوں کی کشمکش نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع کردیا۔ آخر کار امریکی سازشوں سے روس جیسی سپر پاور کو افغانستان میں اس طرح دھنسا دیا گیا کہ روس کی اکانومی اس طرح تباہ و برباد ہوگئی کہ روس کی طاقت کے اور ملک کے ٹکڑے اڑ گئے۔ اب اس وقت دنیا میں صرف امریکہ سپر پاور کے طور پر ابھر چکا ہے مگر اس نے مغربی مزاج کے مطابق پوری دنیا کو اپنے قدموں میں رکھنے کے لئے ساری دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیا ہے۔ پوری دنیا کے حکمران ‘ مملکتیں حتی کہ اقوام متحدہ بےجان ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب امریکہ بھی انسانیت کا نام لے کر تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہے۔ افغانتسان اور عراق کی جائز حکومتوں کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ اب اس کے بعد اللہ کا نظام کیا ہے وہی بہتر جانتا ہے لیکن امریکیوں کے ظالمانہ رویئے اور پانی طاقت کے گھمنڈ پر ناز کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی فرعونیت بہر حال رنگ لاکر رہے گی اور قرآنی فیصلہ اس پر نافذ ہو کر رہے گا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید اب آئندہ ہندو اور یہودی یا چین سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں گے۔ ایک دفعہد نیا پھر سے ظالموں کے ہاتھوں میں پھنس جائے گی۔ مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ صدیوں سے کفار کے ظلم و ستم سہنے کے باوجود مسلم قوم بد ستور سورة ی ہے اور وہ آنکھیں کھول کر حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنے خواب غفلت سے نہ جاگے تو آئندہ سودوسو سال تک مسلمانوں پر کفار و مشرکین کا مکمل غلبہ ہوجائے گا۔ جب سر سے پانی اونچاہوجائے گا تب ہم اٹھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر اس وقت تک گاڑی نکل چکی ہوگی۔ کاش امت مسلمہ ایک دفعہ پھر ابھر کر دنیا کو ظلم سے نجات دلائے اور دنیا میں امن و سکون کا نظام قائم کرے جو صرف قرآن و سنت کے مطابق قوانین ہی سے ممکن ہے۔ (6) چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” تمکن فی الارض “ (حکومت و سلطنت اور اقتدار وقوت) کی پیش گوئی اس وقت فرمائی جب ان کو مدینہ منورہ کے چند علاقوں پر بھی مکمل اقتدار و قوت حاصل نہ تھا۔ ان سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ان اہل ایمان کو دنیاوی سلطنت و حکومت اور قوت اقتدار عطا کیا جائے گا تو وہ دنیا کے فاتحین کی طرح غرور وتکبر ‘ نفس پرستی ‘ ظلم و زیادتی ‘ ذاتی شان و شوکت اور عیش پرستی کے بجائے وہ اقتدار اللہ کی امانت سمجھ کر نہایت عاجزی و انکساری سے ہر وہ کام کریں گے جسے ان کا پروردگار پسند کرتا ہے وہ اقتدار و حکومت کے ذریعہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ ‘ ظلم و زیادتی اور بےانصافی کے بجائے دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے۔ دین اسلام کو ایک نئی زندگی دینے کے لئے نمازوں کے نظام کو قائم کریں گے اور زکوۃ کے عاد لانہ نظام کے ذریعہ نیکیوں اور بھلائیوں کو فروغ دیں گے اور ہر برائی اور گناہ کے کاموں کو مٹانے اور دبانے کی بھر پور جدوجہد کریں گے۔ تاکہ دنیا کے بلکتے سسکتے انسانوں کو دین اسلام کے سائے میں امن و سلامتی مل سکے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ان آیات کے نزل ہونے کے بہت تھوڑے عرصے میں اسلام کا جھنڈا خیبر اور فتح مکہ سے شروع ہو کر ساری دنیا پر لہراتا چلا گیا۔ اور اس جھنڈے تلے انسانوں کو انسانی ظلم و ستم سے نجال مل گئی۔ اسلام کا عاد لانہ نظام دنیا بھر پر چھا گیا اور دنیا کے تمام لوگوں کو حقیقی امن و سلامتی نصیب ہوگئی۔ آج ایک مرتبہ پھر دنیا ظلم و جبر سے بھر گئی ہے۔ ہر طرف دنیا پرستی اور زر پرستی نے انسانی اقدار کو دولت اور لالچ کی بھینٹ چڑھادیا ہے۔ کیونکہ دنیا کا اقتدار قوت اور حکومت ان مشرکین و کفار کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے جو اس کے اہل نہ تھے۔ اہل ایمان کو پوری طاقت و قوت سے ابھر کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ دین اسلام کے سچے اصولوں کی روشنی سے دنیا کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور ایک نئی صبح طلوع ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ علت ہے مشروعیہ جہاد کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جہاد کی اجازت اور اس کے فوائد، اصحاب اقتدار کی ذمہ داریاں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت کا کام شروع کیا آپ کی دعوت پر شروع میں ان لوگوں نے لبیک کہی جو دنیاوی اعتبار سے ضعیف تھے۔ ان حضرات کے پاس مال بھی نہ تھا اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مشرکین کے غلام تھے اور بعض پر دیسی تھے مشرکین مکہ ان حضرات کو بہت بہت تکلیف دیتے اور بری طرح مارتے پیٹتے تھے حتیٰ کہ ان میں بہت سے حضرات حبشہ کو ہجرت کر گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر صحابہ کرام ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے پھر حبشہ کے مہاجرین بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے جب تک یہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے ان کو صبر کرنے کا حکم تھا جنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی جب مدینہ منورہ میں مسلمان جمع ہوگئے اور امن کی جگہ مل گئی اور ایک مرکزی جگہ حاصل ہوگئی جس میں اپنا اقتدار بھی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیدی، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہر بدر کردیا ہے یہ لوگ ضرور ہلاک ہونگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ) (الآیۃ) نازل فرمائی حضرت ابوبکر صدیق نے آیت سن کر یوں فرمایا کہ میں آیت کے نازل ہونے سے سمجھ گیا کہ اب (مشرکین سے ہماری) جنگ ہوگی چناچہ ہجرت کے دوسرے ہی سال غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا اور باذن اللہ تھوڑے سے مسلمان کافروں کی تین گنا تعداد پر غالب آگئے اس کے بعد اگلے سال غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا اور غزوات کے مواقع پیش آتے رہے اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے قدرت ہے کہ جس کی چاہے مدد فرمائے۔ مکہ مکرمہ میں وہ مسلمانوں کو کافروں کی ایذاؤں سے محفوظ رکھنے پر قادر تھا اور اس کے بعد بھی اسے قدرت تھی کہ جنگ کیے بغیر مسلمان مدینہ منورہ میں آرام سے رہیں اور دشمن چڑھ کر نہ آئے اور ان سے مقابلہ نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ مسلمان کے جان و مال اللہ کی راہ میں خرچ ہوں اور ان کو بہت زیادہ ثواب دیا جائے۔ مشرکین مکہ نے جو اہل ایمان سے دشمنی کی اور ان کو تکلیفیں دیں اور مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ حضرات اللہ کا نام لیتے تھے اللہ کو اپنا رب مانتے تھے دین توحید قبول کرلیا تھا کسی کا بگاڑا کچھ نہیں تھا کسی قسم کا کوئی جرم نہیں کیا تھا کافروں کے نزدیک ان کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوگئے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ ” اُذِنَ لِلَّذِیْنَ الخ “ اس آیت میں اجازت جہاد کے اسباب و وجوہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیت اگر مدنی ہے جیسا کہ ساری سورة حج مدنی ہے اس پر کوئی اشکال نہیں کیونکہ جہاد کی فرضیت مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور اگر یہ آیت مکی ہو جیسا کہ بعض کا قول ہے تو جہاد کا حکم ان لوگوں کو ہوگا جو مکہ مکرمہ سے باہر رہتے تھے یعنی ان مظلوم مسلمانوں کو جہاد کی اجازت ہے جنہوں نے پہل نہیں کی بلکہ ان کو لڑائی میں الجھایا گیا وہ ساسر مظلوم ہیں انہیں بلا وجہ گھروں سے نکالا گیا ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مالک و مختار اور کارساز سمجھتے تھے اور اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے تھے۔ ” اُذِنَ “ کا متعلق یعنی ماذون فیہ مقدر ہے بقرینہ یقاتلون ای فی القتال التقدیر۔ اذن للذین یقاتلون فی القتال فحذف الماذون فیہ لدلالۃ یقاتلون علیہ (کبیر ج 6 ص 236) ۔ اور حضرت شیخ (رح) تعالیٰ نے فرمایا یہاں اذن کا مفعول مقدر ہے یعنی اذن للذین یقاتلون ان یقاتلوا الخ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) جن لوگوں سے بلاوجہ لڑائی کی جاتی ہے ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ اب وہ بھی لڑیں اس اجازت اور حکم کی وجہ یہ ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں کی مدد کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ یعنی مکہ کے منکر مسلمانوں پر برابر ظلم کرتے رہے اور ان کو ہر قسم کی اذیت پہنچاتے رہے اور ان کو مکہ چھوڑنے پر کفار مکہ نے مجبور کردیا اور ان کی مظلومیت اور بےچارگی کی انتہا ہوگئی اور وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینے میں جاب سے۔ تب حکم دیا مظلوموں کو کہ اب تم سے جو لڑے تم بھی اس کا مقابلہ کرو۔