Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 45

سورة الحج

فَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ بِئۡرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصۡرٍ مَّشِیۡدٍ ﴿۴۵﴾

And how many a city did We destroy while it was committing wrong - so it is [now] fallen into ruin - and [how many] an abandoned well and [how many] a lofty palace.

بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہ و بالا کر دیا اس لئے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں اور بہت سے آباد کنوئیں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ... And many a township did We destroy, ... وَهِيَ ظَالِمَةٌ ... while they were given wrongdoing, meaning, they were rejecting their Messengers. ... فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا ... so that it lie in ruins, Ad-Dahhak said, "(Leveled to) their roofs," i.e., their houses and cities were destroyed. ... وَبِيْرٍ مُّعَطَّل... َةٍ ... and (many) a deserted well, means, they draw no water from it, and no one comes to it, after it had been frequented often by crowds of people. ... وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ and a castle Mashid! Ikrimah said, "This means whitened with plaster." Something similar was narrated from Ali bin Abi Talib, Mujahid, Ata', Sa`id bin Jubayr, Abu Al-Mulayh and Ad-Dahhak. Others said that it means high and impenetrable fortresses. All of these suggestions are close in meaning and do not contradict one another, for this sturdy construction and great height did not help their occupants or afford them any protection when the punishment of Allah came upon them, as He says: أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِى بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ "Wheresoever you may be, death will overtake you even if you are in Buruj Mushayyadah!" (4:78)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یعنی رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام یہ ہوا کہ ان کی پررونق اور پربہار آبادیاں اور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اس عذاب نے صرف آدمیوں کا ستیاناس نہیں کیا بکہ ان کے تعمیر شدہ مکانات بھی زمین بوس ہوگئے۔ کنوئیں ویران ہوگئے۔ جن سے آسانی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کبھی یہاں انسانوں کی کثیر تعداد ... آباد ہوگی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ۔۔ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٩) کی تفسیر۔ ” َبِئْرٍ “ مؤنث سماعی ہے، اس لیے اس کی صفت ” مُّعَطَّلَةٍ “ آئی ہے۔ ” مَّشِيْدٍ “ ” شَادَ یَشِیْدُ شَیْدًا “ (ض) سے اسم مفعول ہے، چونے کے ساتھ مضبوط کیا ہوا۔ یہ مجرد ثلاثی سے ہے، جب کہ سورة نساء...  کی آیت (٧٨) : (وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ) میں باب تفعیل یعنی ثلاثی مزیدفیہ استعمال ہوا ہے جس میں مبالغہ ہوتا ہے، کیونکہ وہاں موت کا ذکر ہے کہ خواہ تم چونے کے ساتھ بنے ہوئے محکم سے محکم قلعوں میں ہو موت تمہیں وہاں بھی نہیں چھوڑے گی۔ موت کی دسترس کے اظہار کے لیے ” مُّشَـيَّدَةٍ “ (باب تفعیل) لایا گیا، جب کہ پرانے محلات خواہ کس قدر مضبوط ہوں آخر وہ پختگی باقی نہیں رہتی، اس لیے صرف ” مَشِیْد “ (ثلاثی مجرد) پر اکتفا کیا گیا۔ ” مَشِیْد “ کا ایک معنی بلند بھی ہے۔ 3 یہ سات اقوام جن کا ذکر ہوا ہے، کثرت و قوت میں تمام اقوام سے بڑھ کر تھیں۔ ان کے علاوہ ان کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طرح کی کتنی قومیں گزری ہیں ؟ ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت بیان فرمائی کہ پہلے انھیں مہلت دی جاتی ہے، پھر اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ایمان لے آئیں تو خیر، ورنہ انھیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ ترتیب کے مطابق پہلے مہلت کا اور پھر پکڑنے کا ذکر ہونا چاہیے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے ایسی اقوام کی کثرت، ان کی قوت و شوکت اور ان کی تباہی و بربادی کی یاد دلانے والے آثار قدیمہ کا بیان پہلے فرمایا اور آیت (٤٦) میں دوبارہ انھیں مہلت دینے کے بعد پکڑنے کا ذکر فرمایا۔ سو ارشاد فرمایا کہ کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ان کے ظلم اور کفر ان نعمت کی پاداش میں ہم نے ہلاکت اور تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ ان کی چھتیں بوسیدہ ہو کر گرنے کے بعد ان کی دیواریں بھی ان پر گری پڑی ہیں اور کتنے ہی کنویں ہیں جو کبھی آبادی کا مرکز تھے اور ان پر پانی کے لیے آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، اب اجاڑ اور ویران پڑے ہیں۔ عربوں کے ہاں پانی کی قلت کی وجہ سے کنوؤں کا خصوصاً ذکر فرمایا۔ اسی طرح کتنے ہی چونے کے ساتھ مضبوط بنے ہوئے بلند و بالا اور پر شکوہ ایوان اور محلات ہیں، جن میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی اور جن کی حفاظت کے لیے دن رات ہزاروں فوجیوں کا پہرا ہوتا تھا، اب ان پر کوؤں، چیلوں اور الوؤں کی حکومت ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَا وَہِىَ ظَالِمَۃٌ فَہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ۝ ٤٥ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء... / 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں خوی أصل الخَوَاء : الخلا، يقال خَوَى بطنه من الطعام يَخْوِي خَوًى «3» ، وخَوَى الجوز خَوًى تشبيها به، وخَوَتِ الدار تَخْوِي خَوَاءً ، وخَوَى النجم وأَخْوَى: إذا لم يكن منه عند سقوطه مطر، تشبيها بذلک، وأخوی أبلغ من خوی، كما أن أسقی أبلغ من سقی. والتّخوية : ترک ما بين الشيئين خالیا . ( خ و ی ) الخوا ء کے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اس کا پیٹ طعام سے خالی ہوگیا ۔ اور تشبیہ کے طور پر خوی الجواز کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جسکے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ خوت خواء الدار گھر ویران ہوکر گر پڑا اور جب ستارے کے گرنے پر بارش نہ ہو تو تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے یہاں خوی کی نسبت آخویٰ کے لفظ میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے جیسا کہ سقی اور اسقیٰ میں ۔ التخویۃ دو چیزوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑ نا ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ بئر قال عزّ وجل : وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وأصله الهمز، يقال : بَأَرْتُ بِئْراً وبَأَرْتُ بُؤْرَة، أي : حفیرة . ومنه اشتق المِئْبَر، وهو في الأصل حفیرة يستر رأسها ليقع فيها من مرّ عليها، ويقال لها : المغواة، وعبّر بها عن النمیمة الموقعة في البلية، والجمع : المآبر . ( ب ء ر) البئر ( کنویں ) اصل میں یہ مہوز ( العین ) ہے ۔ بارت بئرا وبارت بؤرۃ کے معنی گڑھا کھودنے کے ہیں قرآن میں ہے۔ { وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ } ( سورة الحج 45) اور بہت سے کنویں بیکار اور محل ویران پڑنے ہیں ۔ اسی سے المئیر کا لفظ مشتق ہے جو اصل میں اس گڑھے کو کہتے ہیں جس کا منہ اس طرح ڈھانپ دیا جائے کہ جو شخص اس کے اوپر سے گزرے اس میں گر پڑے ایسے گڑھے کو مغواۃ بھی کہا جاتا ہے اور کنایہ مئبر ایسی سخن چینی کو کہتے ہیں جو انسان کو بلا میں ڈالنے والی ہو اس کی جمع المآبر آتی ہے عطل العَطَلُ : فقدان الزّينة والشّغل، يقال : عَطِلَتِ المرأةُ «6» ، فهي عُطُلٌ وعَاطِلٌ ، ومنه : قوس عُطُلٌ: لا وتر عليه، وعَطَّلْتُهُ من الحليّ ، ومن العمل فَتَعَطَّلَ. قال تعالی: وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ [ الحج/ 45] ، ويقال لمن يجعل العالم بزعمه فارغا عن صانع أتقنه وزيّنه : مُعَطِّل، وعَطَّلَ الدّار عن ساکنها، والإبل عن راعيها . ( ع ط ل ) العطل ( س ) زیور سے خالی ہونا یا مزدور کا بیکار ہونا کہا جاتا ہے عطلت المرءۃ عورت زیور سے خالی ہوگئی ایسی عورت کو عطل اور عاطل کہا جاتا ہے اسی سے قوس عطل ہے یعنی وہ کمان جس پر تانت نہ ہو عطلتہ من الحلی ادلعمل میں نے اسے زیور یا کام سے خالی کردیا فتعطل میں نے اسے زیور یا کام سے خالی کردیا فتعطل چناچہ وہ خالی ہوگیا ۔ بیکار ہوگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے کنوئں بیکار پڑے ہیں ۔ اور جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جہاں کا کوئی صانع نہیں ہے جس نے اسے محکم اور آراستہ کیا ہے انہیں معطلۃ کہا جاتا ہے عطل الدار گھر کو ویران کردیا عطل الابل اونٹ بغیر محافظ کے چھوڑ دیئے ان کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دیا قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔ شيد قال عزّ وجل : وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، أي : مبنيّ بِالشِّيدِ. وقیل : مطوّل، وهو يرجع إلى الأوّل . ويقال : شَيَّدَ قواعده : أحكمها، كأنه بناها بِالشِّيدِ ، والْإِشَادَةُ : عبارة عن رفع الصّوت . ( ش ی د ) المشید ( پلستر کیا ہوا ، بلند ) قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے بلند محل ہیں ۔ تو مشید کے معنی یا تو پلستر کی ہوئی عمارت کے ہیں اور یا مطول یعنی بلند کے ہیں اگر چہ یہ بھی مآل کے لحاظ سے پہلے معنی کی طرف راجع ہے محاورہ ہے شید قواعدہ اس کی بنیادوں کو اسی طرح محکم بنایا جیسے گچ کی ہوئی ہوتی ہیں ۔ الاشادۃ ( افعال ) کے معنی ( بلند آواز سے شعر پڑھنا یا گانا ) کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) غرض کہ کتنی بستیوں والے جن کو بذریعہ عذاب ہم نے ہلاک کیا ہے جن کی حالت یہ تھی کہ وہ شرک اور نافرمانی کرتی تھیں سو وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور اسی طرح ان بستیوں میں کتنے بےکار کنوئیں پڑے ہیں کہ کوئی ان کا مالک اور ان میں سے پانی کھینچنے والا نہیں اور بہت سے بڑے مضبوط قلعے پڑے ہیں کہ کوئی ان...  میں رہنے والا نہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ) ” اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے جس جس بستی کو ہلاک کیا ان کے باسی مجرم اور گناہگار تھے۔ جب بھی کوئی بستی کفر و شرک اور دوسرے گناہوں کے سبب معصیت اور برائی کا مرکز بن جاتی تو اس کا وجود معاشرے کے لیے خطرے کی علامت بن جاتا۔ چناچہ جس طرح ... انسانی جسم کا کوئی حصہ گل سڑ کرّ متعفن مواد سے بھر جائے تو باقی جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے اس حصے یا عضو کو کاٹ پھینکنا نا گزیر ہوجاتا ہے ‘ بالکل اسی طرح اللہ کی مشیت سے ہر ایسی بستی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ (وَبِءْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ ) ” ان تباہ ہونے والی بستیوں میں کتنے کنویں ہوں گے جو کسی وقت بڑی محنت سے کھودے گئے ہوں گے۔ اپنے اپنے وقت پر ان کنووں پر پانی بھرنے والے لوگوں کے کیسے کیسے جمگھٹے رہا کرتے ہوں گے ‘ مگر اب وہ کنویں ویران و معطل پڑے ہیں۔ (وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ ) ” ان قوموں کے گچ کاری کیے گئے مضبوط اور عالی شان محل اب کھنڈرات میں تبدیل ہوئے پڑے ہیں۔ سپین میں جا کر الحمرا کو دیکھو ! ‘ کبھی یہ محل مسلمان فرمانرواؤں کا مسکن تھا ‘ آج اس کی کیا کیفیت ہے ؟ قرطبہ کی عالی شان مسجد کو دیکھو ! جہاں اب نہ کوئی سجدہ کرنے والا ہے اور نہ وہاں کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہے۔ [ بئرٍ اور قَصْرٍ ، قَرْیۃٍ پر عطف ہیں۔ ]  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. In Arabic a well is synonymous with a habitation. Thus “many a wells” means “many a habitation has been destroyed”.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :90 عرب میں کنواں اور بستی قریب قریب ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں ۔ کسی قبیلے کی بستی کا نام لینا ہو تو کہتے ہیں : ماء بنی فلان یعنی فلاں قبیلے کا کنواں ۔ ایک عرب کے سامنے جب یہ کہا جائے گا کہ کنوئیں بیکار پڑے ہیں تو اس کے ذہن میں اس کا یہ مطلب آئے گا کہ بستیاں اجڑی پڑی ہیں ...  ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ ٤٨:۔ اوپر ذکر تھا کہ مہلت کے زمانہ میں نافرمان لوگوں کو جو ڈھیل دی گئی تھی ‘ مہلت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس ڈھیل کو بحال نہیں رکھا اور ان نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذابوں میں پکڑلیا ‘ ان آیتوں میں اس کی یہ تفسیر فرمائی کہ ان نافرمان لوگوں کی بستیاں اس طرح ناگہانی عذابوں سے ہلاک کردی گئیں کہ مثل... ا قوم لوط کی بستیوں کے مکانات چھتوں کے بل الٹ دیئے گئے ‘ قوم ثمود کے پکے پکے مکانات اور بڑے بڑے کار آمد کنویں نکمے پڑے رہ گئے ‘ آگے فرمایا ‘ یہ مشرکین مکہ تجارت کی غرض سے اکثر ملک شام کا سفر کرتے رہتے ہیں ‘ اس سفر میں کیا ان کو قوم ثمود اور قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں نظر نہیں آتیں ‘ پھر فرمایا ان لوگوں کے منہ پر آنکھیں ہیں اس لئے ان اجڑی ہوئی بستیوں پر تو ان کی نظر اکثر پڑتی ہے ‘ لیکن شرک اور گناہوں کے سبب سے ان کے دل اندھے ہیں اس واسطے نہ عبرت کی نظر سے ان اجڑی ہوئی بستیوں کو یہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں نہ اس کا کچھ حال ہوش حواس کے کانوں سے سنتے ہیں ‘ ترمذی ‘ نسائی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہوں سے آدمی کے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے ‘ اس حدیث سے مشرک کے دل کے اندھے ہوجانے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اندھے آدمی کی آنکھوں پر اندھیرا چھا جاتا ہے ‘ اور وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتا ‘ اسی طرح رات دن کے شرک سے مشرک کے سارے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے ‘ اس لئے اس کے دل میں کسی نیک بات کے سمجھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے بچ اس ہزار سال پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا ‘ اپنے علم کے موافق اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی یہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے دن کے عمل رات سے پہلے اللہ کے فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں اس تفسیر میں یہ بھی ایک ١ ؎ جگہ جتلا دیا گیا کہ زمین سے آسمان تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے جس سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اول آسمان سے زمین تک آنے جانے کا ہزار برس کا فاصلہ اللہ کے فرشتے ایک دن میں طے کرتے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ قریش میں کے عذاب کے جلدی کرنے والوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس کے حکم سے ہزار برس کا کام ایک دن میں طے ہوجاتا ہے اس کے حکم کے بعد عذاب کے آجانے میں کچھ دیر نہیں لگ سکتی مگر یہ عادت الٰہی ہے کہ لوح محفوظ کے نوشتہ کے مطابق پہلے نافرمان لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے ‘ پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو دنیا اور عقبیٰ کے عذاب میں ان کو پکڑ لیا جاتا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے بدر کے قصہ کی انس بن مالک کی روایت جو جگہ جگہ گزر چکی ہے ‘ اس سے آخری آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں کے یہ دل کے اندھے لوگ مہلت کے بعد اس لڑائی کے وقت دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ (١ ؎ نیز دیکھئے مشکوٰۃ ص ٥١٠ باب بد الخلق الخ فصل ثالث )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:45) فکاین۔ کاین اصل میں کای تھا۔ قرآنی املا میں تنوین کو بصورت نون لکھا گیا ہے۔ کاین قرآن میں ہر جگہ بصورت خبر آیا ہے ۔ گو یہ استفہام کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ مبہم کثیر تعداد پر دلالت کرتا ہے۔ ابہام کو دور کرنے کے لئے اس کے بعد عموما من بطور تمیز آتا ہے۔ فکاین من قریۃ اھلکنھا۔ پس کتنی ہی ب... ستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا۔ وھی ظالمۃ۔ اھلکنا کے مفعول سے جملہ حالیہ ہے یعنی درآں حالیکہ وہ نافرمان تھیں۔ خاویۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث خوی یخوی (ضرب) سے خواء مصدر۔ خوی البیت۔ گھر کا گرنا۔ منہدم ہونا۔ ڈھے جانا۔ خالی ہونا۔ عروشھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی چھتیں۔ العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع عروش ہے عرشت واعترشت العنب۔ انگور کی بیل کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹی بنانا۔ اسی بلندی کی وجہ سے بادشاہ کے تخت کو بھی عرش کہتے ہیں۔ فھی خاویۃ علی عروشھا۔ پس وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ اس جملہ کا عطف اھلکنھا پر ہے۔ بئر معطلۃ۔ موصوف صفت۔ اس کا عطف قریۃ پر ہے ای وکاین من بئر معطلۃ۔ اور کتنے ہی بےکار کنویں۔ معطلۃ۔ اسم مفعول واحد مؤنث تعطیل مصدر (باب تفعیل) خالی چھوڑے ہوئے (کنویں) جن سے کوئی پانی بھرنے والا ہی نہیں رہا۔ العطل ۔ (باب سمع) زیور سے خالی ہونا۔ یا مزدور کا بےکار ہونا۔ عطلت المراء ۃ عورت زیور سے خالی ہوگئی۔ وقصر مشید۔ موصوف وصفت اس کا عطف بھی قریۃ پر ہے ای وکاین من قصر مشید اھلکنا اھلھا۔ اور کتنے ہی قلعی چونے کے محل جن کے بسنے والوں کو ہم نے ہلاک کر ڈالا۔ مشید۔ اسم مفعول واحد مذکرشد مصدر (باب ضرب) مضبوط ۔ بلند۔ شید چنائی اور لپائی کا مصالحہ۔ دیوار پر پلستر چڑھانے کی چیز۔ شاد یشید۔ پلستر کرنا۔ اونچا کرنا۔ (کسی کا مرتبہ اونچا کرنا۔ آواز کو اونچا کر کے شعر گانا) باب تفعیل سے تشیید اونچا کرنا۔ جیسے بروج مشیدۃ (4:78) اونچے بنائے ہوئے برج۔ آیت کی عبارت کچھ یوں ہوئی وکاین من قریۃ اھلکنا ھاوکم من بئر عطلناھا باھلاک اھلھا وکم من قصر مشید اخلیناھا من ساکنیہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی ڈھے چکی ہیں اور اجاڑ پڑی ہیں۔ 10 ۔ کوئی ان سے پانی نکالنے والا اور پینے والا نہیں رہا۔ 11 ۔ کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں رہا۔ آیت میں ان کی کامل تباہی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مراد یہ کہ ویران ہیں، کیونکہ عادة اول چھت گرجاتی ہے، پھر اس پر دیواریں آپڑتی ہیں۔ 8۔ پس اس طرح ذلت موعود پر یہ لوگ معذب ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

گزشتہ ہلاک شدہ اقوام پر ایک نہایت سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب گزشتہ ہلاک شدہ اقوام پر جامع تبصرہ۔ فکاین من ……مشید (٤٥) ایسی ہلاک شدہ بستیاں بیشمار ہیں۔ انداز کلام ان اقوام کی ہلاکتوں کے مناظر کو ایک منظر کی صورت میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ انسان کہتا ہے کہ وہ ہیں ہلاک شدہ بستیوں کے کھنڈرات۔ بڑے بڑے مح... ل چھتوں کے اوپر پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ دیواروں پر استوار تھے۔ جب کرے تو چھتیں نیچے اور تمام عمارتی ڈھانچہ ان کے اوپر۔ اس طر یہ منظر نہایت ہی و عشتاک ، دلدوز اور پرتاثیر بن جاتا ہے۔ یہ کہ یہ منظر اس کا مستحق ہے کہ اس کی سابق اور موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے۔ کھنڈرات میں جب انسان پھرتا ہے تو وہ بہت ہی وحشتاک نظر آتے ہیں اور ان سے اگر کوئی عبرت حاصل کرنا چاہے تو عبرت حاصل کرسکتا ہے اور انسان میں خوف خدا پیدا ہو سکتا ہے۔ ان بڑے بڑے گائوں کے آثار ہمارے سامنے ہیں ، ان کی چھتوں پر ان کی بلڈنگیں گری ہوئی ہیں اور ان کے کنوئیں خالی پڑے ہیں نہ ان پر کوئی آنے والا نظر آتا ہے اور نہ جانے والا کسی وقت تو ان پر عوام کا بےحد اژدھام تھا۔ بڑی بڑی عمارات کھڑی ہیں ، لیکن کوئی انسان نہیں ، کوئی زندہ چیز بھی نہیں ہے ، تخلیل کے پردے پر صورتیں ابھرتی ہیں کہ کسی وقت تو یہاں گہما گہمی ہوگی ! ان مناظر کو دکھانے کے بعد قرآن کریم سخت تنبیہ کے ساتھ پوچھتا ہے کہ آیا مشرکین نے کبھی ان کھنڈرات پر غور نہیں کیا ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ ” فَکَاَیِّنْ مِّنْ الخ “ یہ اقوام سابقہ پر عذاب دنیوی کی قدرے تفصیل ہے یعنی بہت ایسی بستیاں ہیں جن کے باشندوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا اور پیغام توحید کو ٹھکرا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے ان کی بستیوں کو تہس نہس کدیا۔ کھیتیاں اور باغات تباہ کردیے یہاں تک کہ ان کے مکانات کی چھتیں زمین...  پر آرہیں۔ عالیشان اور مضبوط و مستحکم محلات زمین بوس ہوگئے اور آباد کنوئیں ویران و بیکار ہوگئے۔ ” ظَالِمَةٌ“ شرک کی وجہ سے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے وہی ظالمۃ۔ ” اَھْلَکْنٰھَا “ کی ضمیر منصوب سے حال ہے حال ای واھلھا مشرکون (مدارک ج 3 ص 81) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) غرض ! کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک و برباد کرڈالا اور ان کی حالت یہ تھی کہ وہ بستیاں یعنی ان کے رہنے والے ظالم اور نافرمانی کے خوگر ہوچکے تھے اور اب ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور بہت سے کنویں بیکار اور بہت سے چونے اور گچ گیری کے پختہ محل ویران پڑے ہوئے ہیں یعنی نافر... مان بستیوں کا تباہ کردینا مجھے مشکل نہیں ہم نے بہت سی ایسی بستیوں کو ویران کردیا۔ جن کے رہنے والے نافرمانی کرتے تھے آج ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی چھتیں گری پڑی ہیں یعنی مکانات مع چھتوں کے بیٹھ گئے اور جب آبادی برباد ہوگئی تو کنویں سب بیکار ہوگئے اور بڑے بڑے چونے کے پختہ محل سب ویران ہوگئے۔  Show more