Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 46

سورة الحج

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ ﴿۴۶﴾

So have they not traveled through the earth and have hearts by which to reason and ears by which to hear? For indeed, it is not eyes that are blinded, but blinded are the hearts which are within the breasts.

کیا انہوں نے زمین میں سیرو سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان ( واقعات ) کو سن لیتے ، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الاَْرْضِ ... Have they not traveled through the land, means, have they not traveled in the physical sense and also used their minds to ponder! That is sufficient, as Ibn Abi Ad-Dunya said in his book At-Tafakkur wal-I`tibar, "Some of the wise people said, `Give life to your heart with lessons, illuminate it with thought, kill it with asceticism, strengthen it with certain faith, remind it of its mortality, make it aware of the calamities of this world, warn it of the disasters that life may bring, show it how things may suddenly change with the passing of days, tell it the stories of the people of the past, and remind it what happened to those who came before."' Walk through their ruins, see what they did and what became of them, meaning, look at the punishments and divine wrath that struck the nations of the past who belied, ... فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ اذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ... and have they hearts wherewith to understand and ears wherewith to hear, meaning, let them learn a lesson from that. ... فَإِنَّهَا لاَإ تَعْمَى الاْإَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. means, the blind person is not the one whose eyes cannot see, but rather the one who has no insight. Even if the physical eyes are sound, they still cannot learn the lesson.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] یعنی ان تباہ شدہ بستیوں سے جو ان کے راستہ میں پڑتی ہیں یہ لوگ کبھی بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ ان بستیوں کا ایسا انجام کیوں ہوا ؟ مگر یہ باتیں سوچنے کے لئے تو دیدہ بینا چاہئے اور وہ ان میں ہے نہیں۔ عبرت حاصل کرنے کے لئے آنکھ کی بینائی کی ضرورت نہیں دل کی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عقل، فہم، فکر، سوچ کو دل سے متعلق کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام قسم کے جذبات مثلاً محبت، ہمدردی، رحم، اخوت اور اس کے برعکس جذبات مثلاً نفرت، کینہ، بغض حسد سب کا منبع دل کو قرار دیا ہے۔ جبکہ جدید طب کی رو سے کم از کم عقلی، فہم، فکر اور سوچ وغیرہ دل سے نہیں بلکہ دماغ سے تعلق رکھتے ہیں۔ باینہمہ ہر زبان کے محاورہ میں دل ہی کو ان اشیاء کا مرجع قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے مذکورہ بالا شعر میں بھی && دل بینا && استعمال ہوا ہے یا مثلاً : ss یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل ss ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل اس شعر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ارادہ سوچ کے بعد پیدا ہوتا ہے جیسے دماغ کے بجائے دل سے منسوب کیا گیا ہے اور قرآن لوگوں کے اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ موجودہ نظریہ قابل تغیر و تبدل ہے اور عین ممکن ہے کہ اس تحقیق کے بعد نئی تحقیق کے بعد ان تمام اشیاء کا اصل مرکز دماغ کے بجائے دل ہی کو قرار دیا جائے اور دماغ کی تمام تر فکر اور سوچ بھی دل کے خیالات اور جذبات کے تابع ہو۔ لہذا ہمیں ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ بات اسی ہستی کی سب سے زیادہ صحیح ہوسکتی ہے جو خود ان اشیاء کی خالق اور ہر طرح کے قلبی واردات سے پوری طرح واقف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : عرب کے لوگ تجارت کے لیے دور دراز سفر کرتے تھے، چناچہ وہ گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے تھے۔ سورة قریش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس انعام کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ یمن قوم عاد کا مسکن تھا اور شام کے سفر میں مدائن صالح اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں پر سے ان کا گزر ہوتا تھا، قوم لوط کے متعلق فرمایا : (وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ ١٣٧؀ۙوَبِالَّيْلِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ الصافات : ١٣٧، ١٣٨ ] ” اور بلاشبہ تم یقیناً صبح جاتے ہوئے ان پر سے گزرتے ہو اور رات کو بھی۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ “ اور قوم لوط اور قوم شعیب (اصحاب الایکہ) کے متعلق فرمایا : ( وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ ) [ الحجر : ٧٩ ] ” اور بیشک وہ دونوں (بستیاں) یقیناً ظاہر راستے پر موجود ہیں۔ “ مدین کا علاقہ بھی حجاز کے شمال مغرب میں واقع تھا۔ سفر میں آدمی کو مالی فوائد کے علاوہ علمی فوائد اور بیشمار تجربات اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں اور سفر کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے۔ ابوالعلاء المعری کہتا ہے ؂ وَ قِیْلَ أَفَاد بالْأَسْفَارِ مَالاً فَقُلْنَا ھَلْ أَفَادَ بِھَا فُؤَادًا ” لوگوں نے بتایا کہ اس نے مختلف سفروں میں بہت سا مال حاصل کیا ہے، تو ہم نے کہا، کیا اس نے ان سے کوئی دل بھی حاصل کیا ہے ؟ “ یعنی اسے سفروں سے کچھ عقل و دانش اور نصیحت و عبرت بھی حاصل ہوئی ہے ؟ اس آیت میں ان لوگوں سے جنھوں نے یہ سفر کیے تھے، کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ مختلف قوموں کے آثار قدیمہ دیکھ کر ان کے دل عقل کرتے اور نصیحت و عبرت حاصل کرتے، یا لوگوں سے سن کر ہی عبرت حاصل کرتے ؟ مقصد یہ ہے کہ سفر کا فائدہ تو سوچنا سمجھنا اور عبرت حاصل کرنا ہے اور بیشک تم نے ان سفروں میں آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا اور کانوں سے بہت کچھ سنا مگر جب اس سے عبرت اور عقل حاصل نہیں کی تو سمجھو کہ تم آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے اور کان رکھنے کے باوجود بہرے ہو، فرمایا : (وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٧١ ] ” اور ان لوگوں کی مثال جنھوں نے کفر کیا، اس شخص کی مثال جیسی ہے جو ان جانوروں کو آواز دیتا ہے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہیں سنتے، بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو وہ نہیں سمجھتے۔ “ گویا جس کا دل عقل سے خالی ہے اس کی آنکھوں اور کانوں کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اس آیت میں ان لوگوں کو جنھوں نے سفر نہیں کیا، ترغیب دی جا رہی ہے کہ دنیا میں چلو پھرو، اس سے تمہاری آنکھیں دیکھ کر اور کان سن کر عبرت و نصیحت حاصل کریں گے۔ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ ۔۔ : ” إِنَّ “ کے بعد ” ھَا “ ضمیر قصہ کہلاتی ہے، یہ مذکر بھی آتی ہے، جیسا کہ اس آیت کی ایک قراءت ” فَإِنَّہُ لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ “ بھی ہے، اس وقت اسے ضمیر شان کہتے ہیں، معنی دونوں کا ایک ہی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ۔۔ بینائی دو قسم کی ہے، ایک آنکھوں کی بینائی، اسے بصارت کہتے ہیں اور ایک دل کی بینائی، اسے بصیرت کہتے ہیں۔ اسی طرح اندھا پن بھی دو قسم کا ہے، ایک آنکھوں کا اندھا ہونا اور ایک دل کا اندھا ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ یہاں آنکھوں کے اندھا نہ ہونے کا مطلب ہے کہ آنکھیں اندھی ہونے سے کچھ نقصان نہیں، اصل نقصان دل اندھا ہونے اور بصیرت سے محروم ہونے کا ہے۔ 3 بعض اہل علم نے بصارت اور بصیرت کی مثال سواری اور سوار کی بیان فرمائی ہے، اگر سوار دیکھتا ہے تو سواری اندھی ہونے کا خاص نقصان نہیں، لیکن اگر سوار اندھا ہے تو سواری کی نگاہ جتنی بھی تیز ہو کچھ فائدہ نہیں۔ 3 موجودہ سائنس کا کہنا ہے کہ سوچنا سمجھنا دماغ کا کام ہے دل کا نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس دل کو عقل کا مرکز قرار دیا ہے جو سینے میں ہے، اس دماغ کو نہیں جو سر میں ہے۔ اب بعض لوگوں نے کہا کہ قرآن نے سائنس کی زبان میں بات نہیں کی، ادبی زبان میں بات کی ہے مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ سائنس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں، جب کہ اللہ کا فرمان اٹل ہے اور کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ دماغ کو خون دل ہی سے پہنچتا ہے، عین ممکن ہے کہ دماغ محض ایک سٹور ہو جس کا بٹن دل میں ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے اور بیشمار دفعہ ہوا ہے کہ یہاں بھی سائنس اصل حقیقت تک پہنچ جائے اور دل کو عقل کا مرکز تسلیم کرلے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Travels undertaken to acquire insight into things and to learn lessons from the past is one of the religious objectives أَفَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ (Have they not, then, travelled on earth so that they should have hearts - 22:46) This verse encourages travel, provided the person travelling keeps his eyes wide open and imbibes in his mind the lessons of history. The phrase فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ (so that they should have hearts - 22:46) suggests that a person can gain wisdom and intelligence by a careful study of the history of bygone times and an account of people who inhabited this world in different ages. Every event of history holds a lesson for a person who has insight and who does not regard history as a mere record of episodes and occurrences. Ibn Abi Hatim has written in his book اَلتَفَکّر quoting Malik Ibn Dinar (رح) that Allah Ta’ ala commanded Sayyidna Musa (علیہ السلام) to wear shoes made of iron and to hold in his hand a staff made of iron and travel around the earth until his shoes would be worn out and his staff broken down. (Ruh-Ma ani). If this narration is true, then naturally it means to acquire knowledge and lessons from the past.

معارف و مسائل زمین کی سیر و سیاحت اگر عبرت و بصیرت حاصل کرنے کے لئے ہو تو مطلوب دینی ہے : اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ، اس آیت میں زمین کی سیر و سیاحت جبکہ بچشم عبرت ہو اس کی طرف ترغیب ہے اور فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ سے اس طرف اشارہ ہے کہ زمانہ ماضی اور گزشتہ اقوام عالم کے حالات و کیفیات کا مشاہدہ انسان کو عقل و بصیرت عطا کرنے والا ہے بشرطیکہ ان حالات کو بعض تاریخی سوانح کی حیثیت سے نہیں بلکہ عبرت کی نظر سے دیکھے تو ہر واقعہ ایک بصیرت کا سبق دے گا۔ ابن ابی حاتم نے کتاب التفکر میں حضرت مالک بن دینار سے نقل کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ لوہے کے جوتے بناؤ اور لوہے کی عصا ہاتھ میں لو اور اللہ کی زمین میں اتنے پھرو کہ یہ آہنی جوتے گھس جائیں اور آہنی عصا ٹوٹ جائے (روح المعانی) اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس سیر و سیاحت کا مقصد وہی عبرت و بصیرت حاصل کرنا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِہَا۝ ٠ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝ ٤٦ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) تو کیا یہ کفار مکہ اپنی تجارتوں کے سلسلہ میں ملک میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے علاوہ اور قوموں کا کیا حشر ہوا، اس کو دیکھ کر ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے اور یہ غور وفکر کرنے لگیں یا ان کے کان ایسے ہوجائیں کہ حق اور خوف کی بات کو سننے لگیں مگر بات یہ ہے کہ بغیر عبرت کے دیکھنے یا یہ کہ کلمہ شرک سے آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ حق اور ہدایت کی طرف سے دل اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ) ” اگر یہ لوگ عقل اور سمجھ سے کام لیتے تو پیغمبروں کو جھٹلانے والی قوموں کی بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھ کر عبرت پکڑتے اور اصل بات کی تہہ تک پہنچتے۔ اس آیت میں ایک بہت اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ یہاں لفظ ” قلب “ کے ساتھ عقل اور سمجھنے کے تعلق کی بات ہوئی ہے۔ یہ بات کئی دفعہ اس سے پہلے بھی میں دہرا چکا ہوں کہ انسان ایک مرکب وجود کا حامل ہے۔ اس مرکب کی ایک اکائی تو اس کا جسم ہے جو خالص ایک حیوانی وجود ہے۔ اس وجود میں حیوانوں کی تمام تر خصوصیات (faculties) موجود ہیں۔ اس لحاظ سے انسان گویا اعلیٰ ترین حیوان ہے ‘ یعنی اپنے جسم کی ساخت کے اعتبار سے وہ تمام حیوانوں سے افضل ہے۔ لیکن اپنے اس حیوانی وجود کے ساتھ ساتھ انسان اپنا ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے ‘ جو اس کے حیوانی وجود سے علیحدہ اور مستقل بالذات وجود ہے۔ انسان کے ان دونوں وجودوں کے ملاپ اور امتزاج کی ترکیب اور کیفیت کے متعلق ہم کچھ بھی ادراک نہیں رکھتے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انسانی وجود کے اندر جو ” جان “ (life) ہے وہ کہاں ہے ؟ کیا یہ جان دل میں ہے ؟ لیکن دل تو آج کل بدل بھی دیا جاتا ہے اور جان وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ تو کیا یہ جان دل سے متعلق ہے یا دماغ سے متعلق ؟ حقیقت بہر حال یہی ہے کہ اس کے متعلق ہم واقعی نہیں جانتے۔ تو جب ہم جان کے متعلق ہی کچھ نہیں جانتے تو اس سے آگے بڑھ کر ” روح “ کے متعلق ہم کیا جان سکتے ہیں کہ انسان کی روح اس کے جسم کے اندر کس طور سے صحبت پذیر ہے ؟ اتصالے ّ بےتکیف بےقیاس ! ہست رب الناسّ را با جان ناس انسان کے حیوانی اور روحانی وجود میں باہم مصاحبت اور اتصال تو ہے ‘ لیکن اس کی نوعیت واقعتا کیا ہے ؟ بقول شاعر یہ مصاحبت اور اتصال ” بےتکیف و بےقیاس “ ہے۔ نہ اس کی کیفیت معلوم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی اور چیز پر قیاس کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن انسان کے دو علیحدہ علیحدہ وجود بہر حال موجود ہیں۔ ان میں سے اس کا روحانی وجود بہت پہلے عالم ارواح میں پیدا کیا گیا تھا ‘ جس کا حوالہ سورة الانعام کی آیت ٩٤ میں اس طرح آیا ہے : (کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) جبکہ ہر انسان کے مادی یا جسمانی وجود کی پیدائش اس دنیا یا عالم خلق کے اندر اپنے اپنے وقت پر ہوتی ہے۔ اس ساری تفصیل میں سیاق وسباق کے حوالے سے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ انسان کے دونوں وجودوں میں سے ہر وجود کی اپنی اپنی صلاحیتیں اور اپنے اپنے ذرائع علم ہیں۔ روح کی اپنی عقل ‘ اپنی بصارت اور اپنی سماعت ہے ‘ جبکہ حیوانی وجود کی اپنی عقل ہے ‘ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں حیوانی وجود ہی کے حواس کا ذکر ہے : (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ) ۔ سورة بنی اسرائیل کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت حیوانی وجود کے ذرائع علم سے متعلق تفصیلاً گفتگو ہوچکی ہے۔ اب آیت زیر نظر میں روحانی وجود کے ذرائع علم کی بات ہو رہی ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھ لیں کہ روح دیکھتی بھی ہے ‘ سنتی بھی ہے اور سمجھتی بھی ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے دل ہوتے جن سے یہ بات سمجھتے ! (فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ) ” ذرا غور کریں ‘ یہ کون سا اندھا پن ہے ؟ دراصل یہی وہ اندھا پن تھا جو ابوجہل ‘ ابو لہب اور ولید بن مغیرہ جیسے لوگوں کو لاحق تھا۔ ان کی آنکھیں تو اندھی نہیں تھیں ‘ لیکن ان کے دل مکمل طور پر اندھے ہوچکے تھے۔ ان کی روحوں پر دنیوی اغراض ‘ ہٹ دھرمیوں اور عصبیتوں کے غلیظ پردے پڑچکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی روحیں نہ دیکھ سکتی تھیں ‘ نہ سن سکتی تھیں اور نہ سمجھ سکتی تھیں۔ ایسے لوگوں کا دیکھنا اور سننا صرف حیوانی سطح کا دیکھنا اور سننا ہوتا ہے۔ جیسے تیزی سے گزرتی ہوئی کار کو دیکھ کر انسان بھی ایک طرف ہوجاتا ہے اور کتا بھی اس سے اپنا بچاؤ کرلیتا ہے۔ اس حوالے سے انسان اور کتے ّ کے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں۔ چناچہ انسان کو چاہیے کہ اپنی ان صلاحیتوں کے اعتبار سے حیوانوں کی سطح سے ترقی کر کے انسانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی نکتہ کو اقبال جیسے صاحب نظر نے یوں بیان کیا ہے : ” دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! “ کہ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو اور دوسرے انداز کا سننا سیکھو ! قریش مکہّ کے تجارتی قافلے عذاب الٰہی کی زد میں آنے والی تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ وہ لوگ ان کھنڈرات کو دیکھتے تو تھے لیکن وہ یہ سب کچھ حیوانی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ چناچہ نہ وہ ان سے کوئی سبق حاصل کرتے تھے ‘ نہ عبرت پکڑتے تھے۔ انسان کی یہی وہ کیفیت ہے جس کے بارے میں آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اس لیے کہ روح کا مسکن قلب ہے۔ ہم یہ تو نہیں سمجھ سکتے کہ اس ملاپ کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے اور نہ ہی ہم دل کے اندر کسی طریقے سے روح کے اثرات کا کھوج لگا سکتے ہیں ‘ کیونکہ وہ ایک غیر مرئی چیز ہے ‘ لیکن انسان کے حیوانی وجود کے اندر روح کا تعلق بہر حال اس کے ” قلب “ کے ساتھ ہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91. The words “blinded are the hearts” have been used in the metaphorical and not in the literal sense. Since the heart is regarded as the center of emotions, feelings and of mental and moral qualities, these words have been used to imply that their obduracy has inhibited them from feeling and acting rationally.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :91 خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے ۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں الجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے ۔ ادبی زبان میں احساسات ، جذبات ، خیالات ، بلکہ قریب قریب تمام ہی افعال دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ۔ حتی کہ کسی چیز کے یاد ہونے کو بھی یوں کہتے ہیں وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:47) یستعجلونک۔ یستعجلون۔ مضارع جمع مذکر غائب استعجال (استفعال) مصدر۔ وہ جدہ مانگتے ہیں۔ وہ عجلت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلدی آجائے۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر ۔ تجھ سے۔ تعدون۔ عد سے۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم شمار کرتے ہو۔ تم گنتے ہو۔ مما تعدون۔ جس حساب سے تم گنتی کرتے ہو۔ یعنی تمہارے شمار کے مطابق۔ عدد مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی ان کے ظاہری حواس (کان، آنکھ) تو صحیح سلامت ہیں مگر دل اندھے ہوگئے ہیں ان میں فکر و تدبر کی صلاحیت نہیں رہی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ سو ان کے بھی وہی دل اندھے ہور ہے ہیں، ورنہ امم مذکورہ کی حالت سے سمجھ لیتے کہ فی الواقع کفر ناپسندیدہ حق ہے جب تو اس پر عذاب آیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی کی بنیادی وجہ۔ بڑی بڑی اقوام کی تباہی کا تذکرہ کرنے کے بعد اہل دنیا کو دعوت فکر دی ہے کہ کیا انھوں نے دنیا کا جغرافیہ نہیں دیکھا اور تاریخ عالم کو نہیں پڑھا کہ تباہ و برباد ہونے والے لوگ زمین پر اس طرح دندناتے پھرتے تھے کہ ان کے دبدبہ کی وجہ سے مخلوق کانپتی تھی۔ ان کی زبان جنبش کرتی تو لشکر و سپاہ حرکت میں آجاتے۔ یہ لوگ اپنے محلات سے باہر نکلتے تو ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی تھیں جس راستہ سے گزرتے لوگ ان کا جاہ و جلال دیکھ کر ساکت وجامد رہ جاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ کبھی زوال پذیر اور تباہ ہوں گے۔ لیکن جب رب ذوالجلال کے عذاب کا کوڑا حرکت میں آیا تو اس طرح نیست و نابود کردیے گئے کہ آج ان کے محلات میں الوؤں کے ڈیرے اور ان کی بستیاں ویرانیوں کا خوفناک منظر پیش کررہی ہیں۔ ان میں عبرت کا سامان ہے مگر ان لوگوں کے لیے جن کے سینے میں سوچنے والے دل، جن کے کان حقیقت سننے والے اور عبرت کی نگاہ سے دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی۔ لوگوں کے دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ جب دل اندھے ہوجائیں تو دیکھنے والی آنکھیں، سننے والے کان اور دھڑکنے والے دل کچھ کام نہیں آتے۔ جب کسی قوم کی اجتماعی صورت ایسی ہوجائے تو ان کو نہ اقتدار بچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سہارا کام دیتا ہے، مذکورہ بالا اقوام کا یہی حال تھا جس وجہ سے انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ مسائل ١۔ دل سوچنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے ہیں۔ ٢۔ دل اندھا ہوجائے تو انسانی اعضاء حقیقتاً بےکار ہوجاتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افلم یسیروا فی ……فی الصدور (٤٦) گزشتہ زمانے کی ہلاک شدہ اقوام کے کھنڈرات کا تصور ہی مفید اور عبرت آموز ہوتا ہے۔ انسان ان کو پھٹی پھٹی نظروں سے حیرانی کے ساتھ دیکھتا ہے اور یہ کھنڈرات انسان کو خاموشی کی زبان سے بہت کچھ بتاتے ہیں۔ افلم یسیروافی الارض (٢٢ : ٣٦) ” کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ “ کہ دیکھیں اور انہیں معلوم ہو کہ کیا کیا لوگ یہاں رہ گئے ہیں۔ یہ کھنڈر ان کو خاموشی کی زبان میں بہت کچھ بتا دیں گے اور کہہ دیں گے کہ دیکھو کہ ہم دیکھنے والوں کے لئے عبرت ہیں فتکون لھم قلوب یعقلون بھا (٢٢ : ٣٦) ” کہ ان کے دل و دماغ سمجھنے والے ہوتے۔ “ تاکہ وہ سمجھیں کہ ان مٹے ہوئے کھنڈرات کی پشت پر تاریخ کیا ہے۔ یہ اللہ کی کس سنت کا پتہ دے رہے ہیں ، جو کبھی بدلتی نہیں ہے۔ او اذان یسمعون بھا (٢٢ : ٣٦) ” یا ان کے کان سننے والے ہوتے “ تاکہ وہ ان کھنڈرات سے پوچھتے کہ ان کے باسی کہاں گئے ، یہ کنوئیں کیوں خالی پڑے ہیں اور یہ محل کیوں برباد ہوئے۔ کیا ان لوگوں کے پاس عقل نہیں ہے ؟ یہ دیکھتے ہیں لیکن کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سنتے ہیں لیکن کوئی عبرت نہیں لیتے۔ فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور (٢٢ : ٣٦) ” حققیت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ “ یہاں دلوں کی جگہ کا بھی تعین کردیا جاتا ہے مزید تاکید کی خاطر کہ وہ سینوں میں ہیں اور ان کے سنیوں میں جو دل ہیں وہ اندھے ہیں ، اگر یہ دل اندھے نہ ہوتے تو وہ نصیحت آموزی میں بڑے پر جوش ہوتے ، وہ عبرت لیتے اور ان لوگوں جیسے انجام سے ڈر کر ایمان کی طرف مائل ہوتے ، کیونکہ اس قسم کے کھنڈرات ان کے اردگرد کئی مقامات پر ہیں۔ لیکن ان لوگوں کا رویہ بالکل الٹا ہے۔ عبرت لینے ، ایمان لانے ، عذاب الٰہی سے ڈرنے کے بجائے یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ عذاب ہم پر جلدی آجائے حالانکہ اللہ نے کسی حکمت کی وجہ سے اسے مئوخر کردیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ ” اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا الخ “ اس میں سیر و سیاحت کر کے اقوام سابقہ کے آثار باقیہ دیکھ کر ان سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ان معاندین کے دل اندھے اور بہرے ہیں جو نہ حق کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ حق بات تک ان کی رسائی ہوسکتی ہے اگر یہ لوگ گذشتہ مفکر و معاند اقوام کی تباہی و بربادی کے نشانات اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھیں منکر تو شاید ان کے دلوں کی آنکھیں کھل جائیں اور ان کے دل اللہ کی توحید کو سمجھنے اور قبول کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ فتکون لھم قلوب یعقلون بھا ای یعلمون ما یجب ان یعلم من التوحید (روح ج 17 ص 0167) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) سو کیا یہ منکر لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں جس سے ان کے دل ایسے ہوجاتے ہیں کہ ان سے سمجھنے لگتے اور کان ایسے ہوجاتے کہ ان سے سننے لگتے۔ اصل بات یہ ہے کہ کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ وہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ یعنی سفر کرتے اور ان تباہ شدہ بستیوں کو دیکھتے تو ان کی کچھ عبرت ہوتی تب تو شاید ان کے دلوں سے گمراہی اور کانوں سے شقادت کا ثقل دور ہوجاتا ہے واقعہ یہ ہے کہ کچھ آنکھوں کا اندھا ہوجانا نقصان رساں نہیں ہے بلکہ دل کے اندھے ہوجاتے ہیں تو پھر ہدایت مستبعد ہوجاتی ہے ورنہ امم سابقہ کے حالات ہی سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ نافرمانی حضرت حق تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں ہے اگر انبیاء کی تکذیب اور نافرمانی حضرت حق کی ناراضگی کا سبب نہ ہوتی تو پہلی امتوں کو کیوں ہلاک کیا جاتا چونکہ کفر کی وجہ سے ان کے دل اندھے ہوچکے ہیں اس لئے اتنی سی بات بھی ان کے دل میں نہیں اترتی۔ جب دل میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی نہ رہے تو آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سننا نہ سننے اور نہ دیکھنے کے برابر ہے۔