Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 47

سورة الحج

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ وَ لَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ وَعۡدَہٗ ؕ وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۴۷﴾

And they urge you to hasten the punishment. But Allah will never fail in His promise. And indeed, a day with your Lord is like a thousand years of those which you count.

اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا ۔ ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers Demand for the Punishment Allah tells His Prophet: وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ... And they ask you to hasten on the torment! meaning, these disbelievers who disbelieve in Allah and His Book and His Messenger and the Last Day. This is like the Ayat: وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَأءِ أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ And (remember) when they said: "O Allah! If this is indeed the truth from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." (8:32) وَقَالُواْ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ They say: "Our Lord! Hasten to us Qittana (our punishment) before the Day of Reckoning!" (38:16) ... وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ... And Allah fails not His promise. means, His promise to bring about the Hour and wreak vengeance upon His enemies, and to honor His close friends. ... وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ And verily a day with your Lord is as a thousand years of what you reckon. means, He does not hasten, for what is counted as a thousand years with His creation is as one day with Him, and He knows that He is able to exact revenge and that He will not miss a thing, even if He delays and waits and postpones. Hence He then says: وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ

ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کررہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کردیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جارہاہے ۔ چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج ۔ کہتے تھے کہ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کردے ۔ اللہ فرماتا ہے یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آکر ہی رہیں گے ۔ اولیا اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے ۔ اسمعی کہتے ہیں میں ابو عمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عمرو کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے ؟ سن عرب میں وعد کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن الیعاد کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے ۔ ( فانی وان اوعدتہ او وعدتہ لمخلف ایعادی ومنجز موعدی ) میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں ۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا ۔ الغرض سزا کا وعدہ کرکے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کرکے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لئے عجلت کیا ہے ؟ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے ، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہوجائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑلے گا ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے ، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی ۔ جب مست ہوگئے تو اچانک گرفت کر لی ، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے ، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقرا مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے ۔ اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں تو یہی آیت سنائی ۔ یعنی اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کاہے ۔ ابو داؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور موخر رکھے گا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ( ابن جریر ) بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الرد علی الجمیہ میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ Ĉ۝ ) 32- السجدة:5 ) کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے ، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو ۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہوجائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (24 گھنٹے) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، 6 گھنٹے (جو 24 گھنٹے کا چوتھائی ہے) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم و بیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم و تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرکے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ابھرنے والی قوم یا تہذیب کی طبعی عمر ہزار سال ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ بلکہ یہ الفاظ انسان کے عذاب کو جلد طلب کرنے اور اس کے قانون تدریج و امہال کے مطابق تاخیر میں تقابل کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی قوم کے ظلم و جور میں اس قدر زیادتی واقع ہوجائے تو تین چار صدیاں گزرنے پر بھی اسے تباہ کردیا جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے۔ کہ کوئی قوم یا تہذیب ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہے۔ یہ سب باتیں کسی قوم کے گناہوں کی رفتار پر منحصر ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ : مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جلد از جلد عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اس مطالبے سے ان کا مقصد عذاب آنے کا انکار اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانا، آپ کا مذاق اڑانا اور آپ کو لاجواب کرنا تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس مطالبے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٨ ] ” اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔ “ اور فرمایا : (وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ ) [ العنکبوت : ٥٣ ] ” اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آجاتا۔ “ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست عذاب کی دعا سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے : (وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ ) [ صٓ : ١٦ ] ” اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہمیں ہمارا حصہ یوم حساب سے پہلے جلدی دے دے۔ “ اور فرمایا : (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اور جب انھوں نے کہا اے اللہ ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ : مشرکین جس یقین کے ساتھ عذاب نازل ہونے کو جھٹلاتے تھے اسی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا، جو اس نے فرمایا ہے ہو کر رہے گا، مگر اس وقت پر جو اس نے مقرر فرمایا ہے۔ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ ۔۔ : یعنی رب تعالیٰ تمہاری طرح تنگ ظرف اور جلد باز نہیں بلکہ بیحد حلیم اور وسعت والا ہے۔ اس کی دی ہوئی تھوڑی سی مہلت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، تمہارا ایک ہزار سال اس کے نزدیک صرف ایک دن ہے، وہ اتنا حلیم ہے کہ آدھے دن کی مہلت دے تو وہ بھی پانچ سو برس ہوگی اور ایک گھنٹہ کی مہلت دے تو چالیس برس سے زیادہ ہوگی۔ اس کے حلم کی وجہ یہ ہے کہ وہ انتقام پر قادر ہے، کوئی چیز اس کی گرفت سے نکل نہیں سکتی، خواہ وہ کتنی مہلت دے یا رسی دراز کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

How the Day of Resurrection will be equal to one thousand years by our reckoning In this verseإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ (22:47) means that one day with your Lord is like one thousand years of what you count. This verse can be interpreted in two ways. The first meaning is that the verse refers to the Day of Resurrection and the events which will take place on that day will be so horrifying and of such extreme severity that the day will appear never to end, as if it was equal to one thousand years according to our reckoning. Many commentators have interpreted this verse accordingly. The other meaning of the verse is that the Day of Resurrection will in actual fact be so long that it will stretch up to one thousand years of this world. This view is supported by a saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as reported in Musnad of Ahmad and Tirmidhi on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once addressed the poor people of the muhajirin (i.e. those who migrated from Makkah) and said, ` I give you good news about the full refulgence on the Day of Resurrection and that you will be admitted to heaven half a day before the rich and the wealthy, and a day in the Hereafter will be of one thousand years, hence the poor will enter the heaven five hundred years before the wealthy&. Tirmidhi has classified this hadith as &hasan&. (Mazhari) A doubt and its explanation There is a verse in Surah Al-Ma&arij which says that the day with your Lord will be equal to fifty thousand years كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ. (Whereof the measure is fifty thousand yours - 70:4) This can also be explained by applying either of the two explanations of the present verse and in the first case since every person will suffer different levels of severity, to some it will appear as if he has suffered pain for one thousand years, while to others the period will appear equal to fifty thousand years. If, however, the second explanation is applied to this verse, then there would appear to be a contradiction between the verses where one verse equates the Day of Resurrection to one thousand years and the other to fifty thousand years. But this so-called contradiction has been reconciled by Sayyidna Ashraf ` Ali Thanavi (رح))in his commentary Bayan ul-Qur&an, by saying that this difference may be due to different horizons. Just as we see in our world that the length of day and night is different on different horizons, (on zero latitude it is of 24 hours while at the latitude of 900 it is one year. Likewise it is possible that the length of the Day of Resurrection would be different on different horizons, and if its length right below the day line is one thousand years because of miraculously slow rotation of sun or earth), the areas falling 50 times far from it may have a day 50 times more in length. And Allah knows best.

آخرت کا دن ایک ہزار سال ہونے کا مطلب : آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ ، یعنی آپ کے رب کے پاس ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کی برابر ہوگا۔ اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ اس دن سے مراد قیامت کا دن لیا جائے اور اس کا ایک ہزار سال کی برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن کے ہولناک واقعات اور ہیبت ناک حالات کی وجہ سے یہ دن اتنا دراز محسوس ہوگا جیسے ایک ہزار سال خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اشتداد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے بہت سے حضرات مفسرین نے اس کے یہی معنے قرار دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ واقع میں عالم آخرت کا ایک دن ہمیشہ کے لئے دنیا کے ایک ہزار سال ہی کے برابر ہو بعض روایات حدیث سے اسی معنے کی شہادت ملتی ہے۔ مسند احمد، ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز فقراء مہاجرین کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم کو میں قیامت کے روز مکمل نور کی بشارت دیتا ہوں اور یہ کہ تم اغنیاء اور مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جاؤ گے اور اللہ کے یہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہوگا اس لئے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے (رواہ الترمذی و حسنہ۔ مظہری) خلاصہ تفسیر میں اسی دوسرے معنے کو بلفظ امتداد تعبیر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم ایک شبہ کا جواب : سورة معارج میں جو آخرت کے دن کو پچاس ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے کان مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ اس میں بھی دونوں تفسیریں اشتداد اور امتداد کی ہو سکتی ہیں اور ہر شخص کی شدت و مصیبت چونکہ دوسروں سے مختلف اور کم و بیش ہوگی اس لئے وہ دن کسی کو ایک ہزار سال کا محسوس ہوگا کسی کو پچاس ہزار سال کا، اور اگر دوسرے معنے لئے جاویں کہ حقیقةً آخرت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا تو ان دونوں آیتوں میں بظاہر تعارض ہوتا ہے کہ ایک میں ایک ہزار سال اور دوسری میں پچاس ہزار سال کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق سیدی حکیم الامت قدس سرہ نے بیان القرآن میں بیان فرمائی ہے جو اہل علم کے لئے علمی اور اصطلاحی الفاظ ہی میں نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تفاوت ایک ہزار سال سے پچاس ہزار سال تک اختلاف آفاق کے اعتبار سے ہو جس طرح دنیا میں معدل النہار کی حرکت کہیں دولابی ہے کہیں حمائلی کہیں رحوی اور اسی وجہ سے خط استواء پر ایک رات دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور عرض تسعین (قطب شمالی) پر ایک سال کا اور ان دونوں کے درمیان مختلف مقادیر پر مختلف ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح ممکن ہے کہ اول شمس کی حرکت جو معدل کے ساتھ ہے بطور خرق عادت و اعجاز اس قدر سست ہوجائے کہ ایک افق پر ایک ہزار سال کا دن ہو اور جو افق اس سے پچاس حصے ہٹا ہوا ہو اس پر پچاس ہزار برس کا ہو اور درمیان میں اسی نسبت سے متفاوت ہو، واللہ اعلم (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ۝ ٠ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝ ٤٧ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ خُلف ( عهد شكني) والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] ( خ ل ف ) خُلف الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نضر بن حارث نزول عذاب کے وقت سے پہلے آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں، عذاب کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ کبھی اس کے خلاف نہیں کرے گا اور آپ کے رب کے پاس کا ایک دن جس میں ان سے نزول عذاب کا وعدہ فرمایا ہے وہ دنیا کے سالوں میں سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ ط) ” عذاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سب وعدے ہر صورت میں پورے ہوں گے اور ان لوگوں پر عذاب آکر رہے گا۔ البتہ یہ عذاب کب آئے گا ؟ کس شکل میں آئے گا ؟ اس کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اس نے ایسی تمام معلومات خفیہ رکھی ہیں۔ سورة الانبیاء میں اس موضوع سے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوں اعلان کرایا گیا : (وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ) ” اور میں نہیں جانتا کہ جس عذاب کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا کچھ عرصے بعد آئے گا۔ “ (وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ” دنیا میں عام انسانی حساب کے مطابق ایک ہزار برس کا عرصہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ سورة السجدۃ میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ” اللہ آسمان سے زمین تک کے ہر معاملے کی تدبیر کرتا ہے ‘ پھر یہ چڑھتا ہے اس کی طرف ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہے ایک ہزار سال ‘ جیسے تم لوگ گنتے ہو “۔ یہ ” تدبیرِ اَمر “ دراصل اللہ تعالیٰ کے ان تین کاموں میں سے ایک ہے جن کے متعلق قبل ازیں سورة یونس کی آیت ٣ کے تحت (جلد چہارم) شاہ ولی اللہ (رح) کی تصنیف ” حجۃ اللہ البالغہ “ کے حوالے سے بتایا جا چکا ہے ‘ یعنی ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ چناچہ اس تیسرے کام (تدبیر) کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو طرح طرح کے احکام دیے جاتے ہیں اور پھر فرشتوں کے ذریعے سے ہی ان احکام کی تنفیذ (execution) ہوتی ہے۔ اس منصوبہ بندی میں اللہ کے ہاں ایک دن کا عرصہ انسانی گنتی کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مضمون چونکہ بہت واضح الفاظ کے ساتھ قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے اس لیے یہ معاملہ ” متشابہات “ میں سے نہیں بلکہ ” محکمات “ کے درجے میں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92. This refers to the oft-repeated challenge by the disbelievers: Well, if you are a true prophet, why does not that chastisement come with which you have been threatening us, for we have been rejecting your claim of being a true Prophet of Allah. 93. That is, the decisions of Allah do not follow your time and calendar, nor do the consequences of your wrong attitudes appear immediately after the deeds. Therefore it will be very foolish for the part of a people to argue that the threat of punishment was empty just because a decade or a century had passed since they had adopted a wicked attitude and conduct with impurity.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :92 یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے نبی برحق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ، اور جس کی دھمکیاں بھی تم بارہا ہم کو دے چکے ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :93 یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی اور کل اس کے اچھے یا برے نتائج ظاہر ہو گئے ۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرز عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہوگی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرز عمل کو اختیار کیے ہمیں دس ، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں ، ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں ۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی صحیح تشریح تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن اس آیت کو سمجھنے کے لئے اتنی تشریح کافی ہے کہ کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا، تو وہ اِس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اِتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اُس کا وقت، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا۔ اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو درحقیقت تم جس مدّت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ سورۂ معارج (۷۰:۴) میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ عذاب نہیں آسکتا۔ اس لئے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور بار بار اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 3 ۔ اس لحاظ سے قیامت جس میں تمہیں عذاب ملنے والا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت قریب ہے اگرچہ وہ تمہیں دور معلوم ہوتی ہے۔ (وحیدی) یا مطلب یہ ہے کہ ہزار برس کا کام ایک دن میں کرسکتا ہے۔ (موضح) ہوسکتا ہے کہ شدت ہول کے اعتبار سے قیامت کے دن کو ہزار برس کے برابر قرار دیا ہو۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کا دل کا اندھا ہوجائے تو اچھائی کے مقابلے میں برائی اختیار کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے تباہ ہونے والی اقوام اپنے پیغمبروں سے عذاب کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو بار بار عقیدہ توحید کی دعوت دیتے۔ لیکن وہ اس قدر دل کے اندھے ہوچکے تھے کہ دعوت حق قبول کرنے کی بجائے آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ جس قیامت یا عذاب کی آپ دھمکی دیتے ہیں وہ ہم پر کیوں نازل نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ جس عذاب کا تم بار بار مطالبہ کرتے ہو اسے نازل کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی زبان سے جس عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے اگر تمہارا یہی حال رہا تو وہ ضرور آکر رہے گا اس کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونے پائے گی۔ البتہ اگر سمجھنا چاہو تو تاریخ کا مطالعہ کرو اور تباہ ہونے والی اقوام کے کھنڈرات دیکھو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ظالم بستیوں کو ایک مدت تک مہلت دی۔ جب انھوں نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر ان پر ایسی گرفت کی کہ وہ دنیا میں عبرت کا نشان بنا دئیے گئے۔ جہاں تک قیامت کا معاملہ ہے اس کا پہلا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اور دوسرا دن تمہارے ایک ہزار سال کی گنتی کے مطابق ہوگا۔ اس دن ہر شخص اپنے رب کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اہل مکہ کا مطالبہ : (وَ اِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتَنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) [ الانفال : ٢٨] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی ) [ رواہ البخاری : باب تَمَنِّی الْمَرِیضِ الْمَوْتَ ] حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی تکلیف کی وجہ سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کریں۔ اے اللہ ! جب تلک میرا زندہ رہنا بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرا فوت ہونا بہتر ہو تو مجھے فوت فرما لینا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا عذاب مانگنے کی بجائے خیر مانگنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ خیر اور عذاب کے بارے میں کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی ظالم بستیوں کو نیست و نابود کیا۔ تفسیر بالقرآن عذاب میں مبتلا ہونے والی اقوام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ : ٥) ٤۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ : ٦) ٥۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٦۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٧۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویستعجلونک …مما تعدون (٤٧) ہر زمانے میں ظالموں کا یہی انداز ہوتا ہے۔ وہ زمانہ ماضی کے ظالموں کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تاریخ پڑھتے ہیں اور ان کے انجام ان کے سامنے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اسی راہ پر چلتے ہیں ، جس کا انجام وہ دیکھتے ہیں۔ جب ان کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ دیکھو تمہارے آبائو اجداد اس انجام سے دوچار ہوئے تھے ، یہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے تو یہ لوگ اسے مسجد سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے جو انہیں مہلت کی ایک گھڑی دے رکھی ہے تو یہ کبرو غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور سرکشی کی آخری حد پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس بات سے انہیں ڈرایا جاتا ہے اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور مذاق میں بھی اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مطالبہ کرتے ہیں کہ لائو وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ ولن یخلف اللہ وعدہ (٢٢ : ٨٣) ” اللہ ہرگز وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ “ عذاب ضرور اپنے وقت پر آئے گا ، اس کی حکمت اور اس کی تقدیر اور منصوبے کے مطابق۔ لوگوں کی طرف سے تاوانی کا مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن اللہ اسے اپنے وقت پر لائے گا۔ لوگوں کا وقت کا حساب اور ہے اور اللہ کا اور ہے۔ و ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (٢٢ : ٨٣) ” مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے زہار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ “ یہ کھنڈرات اور ان میں ہلاک شدہ اقوام کو بھی اللہ نے مہلت دی تھی لیکن ان کے لئے بھی یہ مہلت مفید نہ رہی کیونکہ اللہ کی سنت کے مطابق ان کی بربادی کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ تعجب ہے کہ مشرکین مکہ عذاب طلب کرتے ہیں اور اللہ کے ڈراوے کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ، محض اس لئے کہ ان کو اللہ نے مہلت دے دی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) (اور بلاشبہ آپ کے رب کے نزدیک ایک ایسا دن ہے جو تم لوگوں کے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگا) اس میں یہ بتایا کہ کفر کی سزا اگر کسی قوم کو دنیا میں نہ دی گئی تو قیامت تو سامنے ہے ہی وہ دن بہت سخت ہوگا اور دراز ہوگا دوزخ کا عذاب تو بعد میں ہوگا اس سے پہلے قیامت کے دن کے عذاب اور مصیبت میں جو مبتلا ہونگے اسی کو سوچ لیں اور غور کرلیں، قیامت کا دن ایک ہزار سال کا ہوگا اور اتنے لمبے دن میں جو تکلیف ہوگی اس کا اندازہ اسی سے کرلیں، حسب فرمان نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورج ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا اور اس کی گرمی سے اس قدر پسینہ میں ہوگا کہ بعض کا پسینہ ٹخنوں تک اور بعض کا کمر تک اور بعض کا منہ تک ہوگا یعنی پسینہ میں ایسے کھڑے ہونگے جیسے کوئی شخص نہر میں کھڑا ہو یہ پسینہ لگام کی طرح منہ میں گھس رہا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ فقراء مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہونگے اور یہ پانچ سو سال قیامت کے دن کا آدھا ہوگا۔ (رواہ الترمذی) آیت شریفہ اور حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قیامت کا دن ایک ہزار سال کا ہوگا اور سورة معارج میں فرمایا ہے کہ (فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ ) (اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا دونوں باتوں میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں تعارض نہیں ہے کیونکہ حاضرین کی حالت جدا جدا ہوگی کسی کو ایسا معلوم ہوگا کہ حساب کتاب میں پچاس ہزار سال لگے اور کسی کو یہ محسوس ہوگا کہ ایک ہزار سال میں حساب سے فارغ ہوگیا، حساب کی شدت اور خفت کے اعتبار سے ایک ہزار اور پچاس ہزار سال فرمایا۔ امام بیہقی نے کتاب البعث و النشور میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ وہ دن تو بہت ہی لمبا ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی (مقصد یہ تھا کہ وہ دن کیسے کٹے گا) آپ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ دن مومن پر ایسا ہلکا کردیا جائے گا ایک فرض نماز میں جو وقت خرچ ہوتا ہے اس سے بھی ہلکا معلوم ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے جب (فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ ) کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کو اس کا علم ہے میں جو بات نہیں جانتا اسے بیان کرنا اچھا نہیں سمجھتا۔ آخر میں بطورخلاصہ مضمون بالا کو پھر دہرایا اور فرمایا (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ ) (الایۃ) اور کتنی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی تھیں پھر میں نے انہیں پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب کو لوٹ کر آنا ہے یعنی دنیا میں جو مبتلائے عذاب ہوئے وہ اپنی جگہ قیامت کے دن میری طرف لوٹ کر آئیں گے اور قیامت کے دن اس کے بعد جو کفر کی سزا ملے گی وہ اس کے علاوہ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ ” وَیَسْتَعْجِلُوْنَک الخ “ زجر مع تخویف دنیوی، مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ جس عذاب سے تو ہمیں ڈراتا ہے اسے جلدی کیوں نہیں لاتا۔ اس کا جواب دیا گیا۔ ” وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ “ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ اگر مشرکین ایمان نہ لائیں تو انہیں دنیا میں رسوا کن عذاب سے ہلاک کیا جائے گا اور اس کا وقت بھی مقر کردیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے (فیصلہ عذاب) کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کرے گا اگر ان معاندین نے نہ مانا تو عذاب اپنے وقت پر ضرور آئے گا چناچہ یہ وعدہ جنگ بدر میں پورا ہوا۔ ای انہ انجز ذلک یوم بدر (خازن ج 5 ص 21) ۔ 62:۔ ” وَ اِنْ یُّوْحَا الخ “ ی ظالم و نادان عذاب کیوں مانگتے ہیں حالانکہ اللہ کا عذاب تو پناہ مانگنے کی چیز ہے نہ کہ طلب کرنے کی آخرت میں اللہ کا عذاب اس قدر شدید اور طویل ہوگا کہ عذاب کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ قال الفراء ھذا وعید لھم بامتداد عذابھم فی الاخرۃ الف سنۃ (قرطبی ج 12 ص 87) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور اے پیغمبر آپ سے یہ لوگ عذاب جلدی طلب کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا اور بلاشبہ آپ کے پروردگار کے پاس کا ایک دن تمہارے شمار اور تمہاری گنتی کے موافق ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے یعنی یہ ناسمجھ اور دل کے اندھے آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں اور عذاب نہیں آتا تو آپ کی تکذیب کرتے ہیں آپ کے دعوے نبوت کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ عذاب اپنے وقت مقررہ پر آکر رہے گا اس میں جلدی کرنا فضول ہے پھر ان کے ہاں کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے اگر اس حساب سے کسی عذاب کا وقت دو گھنٹے یا چار گھنٹے بھی ہو تب بھی کئی صدی سمجھنا چاہئے یا یہ مطلب ہے کہ وہ ہزار برس کا کام ایک دن میں کرسکتا ہے یا یہ کہ قیامت کے عذاب کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک دن ہزار برس کے برابر معلوم ہوگا یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وقت کی کمی بیشی اور دن کو کم ہونا یا بڑھ جانا تکلیف اور راحت پر موقوف ہے۔ دیوم لا اراک کالف شہر و شہر لااراک کا لف عام فارسی کے ایک مشہور شاعر نے کہا ہے۔ آں دم کہ تو باشم یک سالہ ہست روزے وآں دم کہ بےتو باشم یک لحظہ ہست سالے ہوسکتا ہے کہ ایک دن ایک ہزار برس بلکہ پچاس ہزار برس کے برابر ہو یا ایک دن عصر سے لے کر مغرب تک کا معلوم ہو۔