Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 54

سورة الحج

وَّ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَیُؤۡمِنُوۡا بِہٖ فَتُخۡبِتَ لَہٗ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۵۴﴾

And so those who were given knowledge may know that it is the truth from your Lord and [therefore] believe in it, and their hearts humbly submit to it. And indeed is Allah the Guide of those who have believed to a straight path.

اور اس لئے بھی کہ جنہیں علم عطا فرمایا گیا ہے وہ یقین کرلیں کہ یہ آپ کے رب ہی کی طرف سے سراسر حق ہی ہے پھر وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کی طرف جھک جائیں یقیناً اللہ تعالٰی ایمان والوں کو راہ راست کی طرف رہبری کرنے والا ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُوْمِنُوا بِهِ ... And that those who have been given knowledge may know that it is the truth from your Lord, so that they may believe therein, means, `so that those who have been given beneficial knowledge with which they may differentiate between truth and falsehood, those who believe in Allah and His Messenger, may know that what We have revealed to you is the truth from your Lord, Who has revealed it by His knowledge and under His protection, and He will guard it from being mixed with anything else.' Indeed, it is the Wise Book which, لااَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلااَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ Falsehood cannot come to it from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise (Allah). (41:42) فَيُوْمِنُوا بِهِ (so that they may believe therein), means, that they may believe that it is true and act upon it. ... فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ... and their hearts may submit to it with humility. means, that their hearts may humble themselves and accept it. ... وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ امَنُوا إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ And verily, Allah is the Guide of those who believe, to the straight path. means, in this world and in the Hereafter. In this world, He guides them to the truth and helps them to follow it and to resist and avoid falsehood; in the Hereafter, He will guide them to the straight path which leads to the degrees of Paradise, and He will save them from the painful torment and the dismal levels of Hell.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر و شرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔ 3: دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کردیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انھیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انھیں جہنم کے عذاب الیم و عظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انھیں نوازے گا۔ اللھم اجعلنا منہم

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یعنی ایمان والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہوسکتی ہے اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا واقعہ میں سے اس کا صرف آخری حصہ ہی ایسا ہے۔ جو درست ہے اور صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ یعنی کسی موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم تلاوت فرمائی۔ اس کے اختتام پر آپ نے اور مسلمانوں نے سجدہ کیا تو پاس بیٹھے ہوئے مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ ماسوائے ایک شخص (امیہ بن خلف) کے کہ اس نے کنکریں ایک مٹھی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی سے لگا کر کہنے لگا کہ بس مجھے اتنا ہی کافی ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة والنجم) رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں، ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات سے ہے۔ رہا مشرکوں کا مسلمانوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتا تو اس کی وجہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ جس کی بنا پر وہ قرآن کو جادو اور آپ کو جادو گر کہا کرتے تھے اور مسلمانوں پر قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ اس سے ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُہُمْ۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝ ٥٤ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ خبت الخَبْتُ : المطمئن من الأرض، وأَخْبَتَ الرّجل : قصد الخبت، أو نزله، نحو : أسهل وأنجد، ثمّ استعمل الإخبات استعمال اللّين والتّواضع، قال اللہ تعالی: وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود/ 23] ( خ ب ت ) الخبت ۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی اور نرم زمین کا قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں ( جیسے اسھل وانجد ) اس کے بعد لفظ الاخبات ( افعال ) نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود/ 23] اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) تاکہ جن حضرات کو قرآن کریم اور توریت کا علم دیا گیا وہ اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ یہ حق و باطل کی وضاحت اللہ کی طرف سے ہے اور یہ نبی کی زبان پر جو حق بات ظاہر ہوئی ہے وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے سو اللہ تعالیٰ کے اس حق کے اظہار کی اور تصدیق کریں اور پھر اس کی طرف ان کے دل اور بھی جھک جائیں اور بسر و چشم قبول کرلیں۔ اور واقعی اللہ تعالیٰ ہی ایسے لوگوں کو جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے راہ راست یعنی دین اسلام دکھاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَّلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ) ” ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں اللہ کے فیصلے پر پورے شرح صدر کے ساتھ ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ (وَاِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ” یعنی مخلص اہل ایمان سے کسی وقت اگر کہیں کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رخ پھیر کر درست سمت کی طرف موڑ دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. That is, Allah lets Satan work such mischief to put to the test both the righteous and the wicked people. The people with a perverted mentality deduce wrong conclusions from these and deviate from the right way, while those, who think on the right lines, realize that all these things are the mischief of Satan and that the message of the Prophet is based on the truth. They conclude that the very fact that Satan has been so much agitated and become active against it is a clear proof of its being the truth. It is very important to understand the real significance of this passage (verses 52-54) for this has given rise to a grave misunderstanding. If we consider it in the context in which it occurs, it becomes obvious that it was sent down to refute the wrong appraisal of the casual observers that the Prophet (peace be upon him) had failed to achieve his desired object. This was because he had striven for thirteen long years to persuade his people to accept his message but the apparent result was that he had not only failed in this, but he and the small band of his followers had been forced to leave their homes. As this exile contradicted his claim that he was a Prophet of Allah and had His approval and succor with him, some people became skeptical about it. Moreover, they became doubtful about the truth of the Quran, because they were not being visited by the scourge, which was inflicted on those who treated the Prophet as false. His antagonists scoffed at him, saying: Where is that succor of Allah and the scourge with which we were threatened? The answer to these doubts of the disbelievers was given in the preceding passage, and in this passage the addressees were those who were influenced by this propaganda. Briefly the whole answer was to this effect. It is not a new thing that the people of a Messenger have treated him as an impostor for it has always been happening like this. You can see from the remnants of those peoples who treated their Messengers as impostors how they were punished for their mischief. You can learn a lesson from them, if you will. As regards to the delay in the coming of scourge, the Quran never threatened the disbelievers with immediate punishment, nor is it the job of the Messenger to inflict punishments. The scourge is sent by Allah, but He is not hasty in sending His torment. He gives respite to the people to mend their ways as He is giving you now. Therefore, you should not be under any delusion that the threats of scourge are empty threats. It is also not a new thing that the desires and wishes of a Prophet meet with obstacles or that false propaganda is made against his message for the same has already happened with regard to the messages of the former Prophets. But ultimately Allah eradicated the mischief worked by Satan and made the message successful. Therefore you should take a warning from the past history of Satan’s mischief and its ultimate failure. You should note it well that the obstacles and the mischief of Satan are a trial and means that help attract the righteous people towards Islam and winnow the dishonest people away from it. It is a pity that in spite of the above clear and simple meaning of the passage which fits in well with the context, a grave misunderstanding has arisen because of a tradition which has not only changed its meaning entirely and rendered it irrelevant in the context but has helped make doubtful the very basic articles of the faith. Therefore we are making a critical appraisal of the tradition in order to show how to make the right use of traditions for the correct interpretation of the Quran. According to this tradition, the Prophet (peace be upon him) had a strong longing and desire to this effect: I wish some revelations were sent down to tone down the abhorrence of the mushrik Quraish against Islam so as to bring them nearer to it, or at least the criticism against their creed may not be so severe as to arouse their enmity. While he was cherishing this desire, it so happened that one day when he was sitting in a big gathering of the Quraish, Surah An-Najm was revealed and he began to recite it. When he came to (verses 19, 20): Have you ever considered about this Lat and this Uzza, and a third (goddess) Manat, all of a sudden he recited, “These are exalted goddesses; indeed their intercession may be expected”. After this he continued to recite Surah An-Najm up to the last verse and then fell down in prostration and all the Muslims and the mushriks of the Quraish also did the same, for the latter said: Now we have no difference with Muhammad. We also profess that Allah is the Creator and the Provider and that these deities of ours are merely our intercessors with Him. After this, when in the evening Angel Gabriel came, he said: What have you done? I did not bring these two sentences. At this the Prophet (peace be upon him) became very sad and Allah sent down (verse 73-75 of Surah Bani Israil): O Muhammad, these people have left no stone unturned to tempt you away from that which We have revealed to you so that you might fabricate something in Our name. Had you done that, they would have made you their friend. It was just possible that you might have inclined a little towards them, if We had not given you strength. But if you had done so, We would have made you taste double chastisement in this world as well as in the Hereafter, then you would have found no helper against Us. But in spite of this, he continued to be grieved till Allah sent down (verse 52 of this Surah Al-Hajj) in which Allah consoled him, saying that the same had been happening to the former Prophets. Another thing that happened in the meantime was that the story reached the migrants to Habash that there had been a reconciliation between the Prophet and the disbelievers of Makkah. Accordingly, many of them returned to Makkah only to learn that the news of reconciliation was wrong and the conflict between Islam and kufr was raging as furiously as before. Now let us make a critical study of this story which has been cited by Ibn Jarir and many other commentators and is even contained in many collections of traditions. (1) None of its reporters, except Ibn Abbas, is a companion. (2) There are many major discrepancies and variations in its details. (3) The wording ascribed to the Prophet (peace be upon him) in praise of the idols in each tradition is different from that of others. Moreover, these words have been attributed to different sources according to different traditions: (a) These words were put in by Satan during the revelation and the Prophet (peace be upon him) imagined that they were revealed by Gabriel. (b) He himself uttered these words inadvertently, being urged by his own desire. (c) He was dozing when he uttered these words. (d) He intentionally uttered these words but in a manner as to question their veracity. (e) Satan interpolated these words into the revelation, giving an impression that the Prophet (peace be upon him) himself had recited them. (f) It was one of the mushriks who had recited these words. Yet scholars of tradition like Hafiz Ibn Hajar and jurists like Abu Bakr alJassas and rationalists like Zamakhshari and commentators like Ibn Jarir accept this story as true and consider it as a commentary on (verse 52) of this Surah. Ibn Hajar argues like this: "Even though the links by which this tradition has been related are either weak or broken, except in one case, the very fact that it has been related through so many links is a proof that there is some truth about it. The one which has strong links is by Said bin Jubair who has related it from Ibn Abbas and the reporters of two more traditions (which have been cited by Tabari) have been declared authentic by Bukhari and Muslim. On the other side, there are other eminent scholars who declare this story to be utterly baseless. Ibn Kathir says: All the links of this tradition are unauthentic and I have found no correct version of this with continuous links. Baihaqi says: This story has not been proved to be correct by the rules of reporting. When Ibn Khuzaimah was asked about it, he said: This story has been invented by heretics. Qazi Ayad says: The very fact that this tradition is neither contained in any of the six authentic collections of Hadith nor has it been related in an authentic way by authentic reporters shows its weakness. Besides them, Imam Razi, Qazi Abu Bakr Ibn al-Arabi, Alusi etc. have rejected it altogether. It is a pity that even those who reject this story have not done full justice to their cases. There are some who reject it because its links are weak. In other words, they would have accepted it, if its links were strong. Then there are others who reject it because its acceptance makes the whole faith doubtful. This kind of reasoning may satisfy the believers but it cannot satisfy those who are already skeptical or intend to make a research into it with a view to making a correct appraisal of Islam. They will rather say: When a story is related by an eminent companion and is contained in the collections of traditions, there is no reason why we should reject it just because it makes your faith doubtful. Now let us consider the story critically and rationally to prove that it is unacceptable. (1) Its internal evidence proves it to be wrong: (a) According to the story the incident happened after the first migration to Habash, for according to it some of the migrants returned to Makkah after hearing the story. Now the fact is that the migration took place in the month of Rajab of the fifth year of Prophethood and some of the migrants returned to Makkah three months later, i.e. in Shawwal of the same year. (b) (Verses 73-75 of Surah Al- Isra) in which the Prophet (peace be upon him) was reproved for this incident were revealed in the eleventh or twelfth year of Prophethood. In other words, he was reproved by Allah five or six years after the incident. (c) This (verse 52) in which the interpolation by Satan was abrogated was sent down in the first year of Hijrah, i.e. about two years after the reproof. Can a person in his senses believe that the Prophet (peace be upon him) was reproved for the interpolation after six years, and it was abrogated after nine years? (2) According to the story, this interpolation was made in Surah An-Najm. When the Prophet was reciting the words, “And a third (goddess) Manat”; he also recited the interpolated sentence, and then continued the recital up to the end of the Surah. It is said that the disbelievers of Makkah were so pleased with the interpolation that they declared: The differences between us and Muhammad (peace be upon him) have now come to an end. Let us now read (verses 19-23 of An-Najm) along with the alleged interpolation (in italics): Have you ever considered about the reality of this Lat and Uzza and a third (goddess) Manat? These are exalted goddesses; indeed their intercession may be expected. What, do you have sons for yourselves and daughters for Him (Allah)? This is indeed an unfair division. They are nothing but mere names which you and your forefathers have invented. Allah has sent down no authority in regard to them. They follow only conjectures and the whims of their own minds, although right guidance has come from their Lord. Even a casual reader will detect an obvious contradiction in the passage. Immediately after praising the goddesses there is a hard hit on their worshipers, as if to say: O foolish people! How is it that you have ascribed daughters to Allah and sons to yourselves? All this is your own invention which has no authority from Allah. On the face of it, the interpolation makes the passage absurd which cannot be assigned even to a rational person not to speak of Allah. Then the story presumes that all the Quraish who were listening to it must have lost their senses; otherwise they could not have declared that their differences with Muhammad (peace be upon him) had been made up from thence. From this internal evidence it has become clear that this story is absurd and meaningless. (3) Now let us consider whether the occasions, ascribed by the commentators to the revelation of the verses under discussion, fit in with the chronological order of the Quran. According to the story, the interpolation in Surah An-Najm was made in the fifth year of Prophethood. The reproof was made in (verses 73-75 of Bani Israil) and then the interpolation was annulled and the incident explained in (verses 52-54 of Surah Al-Hajj). Now there could be only two possibilities about the time of their revelation. Either the verses containing the reproof and the abrogation were sent down in the period in which the interpolation took place, or the verse containing the reproof was sent down along with Surah Al-Hajj. In the first case, the question arises: Why were these verses (Surah Bani-Israil, 73-75) not inserted in Surah An-Najm? Why were they held in abeyance for six long years and then inserted in Surah Bani Israil, when it was revealed, and (verses 52-54) (containing the abrogation) inserted in Surah Al-Hajj after a further delay of more than two years? Does it mean that the verses were sent down on one occasion and inserted years later haphazardly in one Surah or the other? In the second case, the question would arise: Does it stand to reason that the verses containing the reproof (Surah Bani-Israil, 73-75)were sent down six years after the interpolation, and the verse of abrogation (Surah Al-Hajj, Ayat 52) nine years after the incident? Still another question arises: What was the occasion of the revelation of the verses of reproof and abrogation in Surahs Surah Bani-Israil and Al-Hajj in the context in which they occur? (4) Now let us turn to the third principle of correct appraisal of the Quran. For a correct appreciation of the Quran it is essential to consider whether a particular commentary fits in with the relevant context of the Quran or not. If we make even a cursory study of (Surah Bani Israil, verses 71-73), it will become obvious that there was no occasion for the alleged reproof in (verse 73) and that there is no tinge of reproof in it, for the words of the verse refute the allegation that the Prophet was taken in by the mischief of the disbelievers. Then in Surah Al-Hajj, if we make a critical study of the verses that precede (verses 52-54 )and follow them, it will become obvious that there was no occasion to console the Prophet for the interpolation and to annul it after nine years. (5) We reiterate that no tradition, however strong links it might have, can be accepted when the text itself is a clear evidence against it, and when it does not fit in with the wording, the context, the order etc. of the Quran. When the incident is considered in this background, even a skeptical research scholar would be convinced that the tradition is absolutely wrong. As regards to a believer, he can never accept it, when he knows that it contradicts not only one verse but a large number of other verses of the Quran. He would rather believe that the reporters of the tradition might have been deluded by Satan and not the Holy Prophet (peace be upon him). He would never believe that the Holy Prophet (peace be upon him) could interpolate even a single word in the Quran under the influence of a desire of his own: or that there could ever occur such a desire in his mind that he should make a compromise with the disbelievers by associating shirk with Tauhid: or that he could ever wish that Allah might not say anything to displease the disbelievers: or that the revelation was made in such an unsafe and doubtful manner as to enable Satan to mix with it even a word in a manner as if it was also brought by Gabriel. Each of these things is contradictory to the clear revelation of the Quran and the basic articles of the faith which we have learned from the Quran and the Prophet (peace be upon him). God forbid that we should accept any such tradition that might lead to the above mentioned presumptions just because the tradition seems to be authentic in every way. It will be worth-while to consider the question: How is it that so many reporters of traditions have related this story? Does it not show that there must have been some reality about it? Otherwise, so many reporters, who included many authentic and eminent scholars, could not have made such an heinous slander against the Quran and the Prophet (peace be upon him). Its answer is contained in the authentic collections of traditions by Bukhari, Muslim, Abu Dawud, Nasai and Musnad Ahmad. The reality of the incident is this. The Prophet (peace be upon him) recited Surah An-Najm and performed prostration at the end of it. At this, all the hearers, both the Muslims and the mushriks, fell down in prostration. This was what really happened and there is nothing strange about it. Let us depict the occasion: The Prophet (peace be upon him) was reciting a forceful piece of the eloquent Quran in a very impressive manner. Naturally the occasion produced an emotional effect and all the listeners instinctively fell down in prostration along with him. It was because of such ecstasies produced by the Prophet’s (peace be upon him) recital of the Quran as this that the disbelievers dubbed him a sorcerer. As regards the story that the Prophet (peace be upon him) praised the deities of the disbelievers, it appears that the Quraish concocted the story to hide their defeat. Probably someone or other of them explained away their defeat, saying: We ourselves heard Muhammad praising our deities. Therefore we also fell down in prostration along with him. As regards to the migrants to Habash, they returned to Makkah when they heard the concocted story that there had been a compromise between the Prophet (peace be upon him) and the Quraish. It appears that some of those people who had seen the Muslims and the mushriks falling down together in prostration, presumed that peace had been made between them, so the story traveled to the migrants in Habash who had no means to verify it and thus thirty three of them returned to Makkah. Naturally these three things, prostration by the Quraish, their explanation of it, and the return of the migrants from Habash, combined to evolve that story. So much so that some authentic people were also deluded by it, for to err is human, and the pious and intelligent people are no exception to it. However, the error of the latter proves to be more harmful, because their credulous followers accept with closed eyes their misconceptions along with their right conclusions. On the other hand, mischief mongers collect all such errors of the righteous people and exploit them to prove that all the collections of traditions are false and should be rejected forthwith.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :101 یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش ، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے ۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے ، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا ۔ سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص ، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے ، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے ۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے ، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے ، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی ، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید ، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں ، اب کیوں نہیں آجاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے ۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں ۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے ۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے ۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو ۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں ، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے ۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے ۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے ۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے ۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں ۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں ، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو ۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے ۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے ۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے ، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں ۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے ۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے ۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے ، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی ۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے ، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ۔ قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں ۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو ۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپ پر سورہ نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا ۔ جب آپ :اَفَرَاَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی ہ وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃ الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلی ہ وان شفاعتھن لترجیٰ ( یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ) ۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورہ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے ، یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گئے ۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اختلاف باقی رہ گیا ۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے ، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں ۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا ۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورہ بنی اسرائیل ، رکوع 8 میں ہے کہ : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہ ........... ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورہ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے ۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے ۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آ گئے ۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی ، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے ۔ یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزول میں ، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم ، ابن النذر ، بَذّار ، ابن مَردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے ۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس ، محمد بن کعب قُرظی ، عُروہ بن زبیر ، ابوصالح ، ابوالعالیہ ، سعید بن جبیر ، ضحاک ، ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث ، تَتَدہ ، مجاہد ، سُدّی ، ابن شہاب زُہری ، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں ( ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے ) ۔ یہ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں ۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں ۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں ۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کر دیے اور آپ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں ۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گئے ۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے ۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے ۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں ۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا ۔ ابن کثیر ، بیہقی ، قاضی عیاض ، ابن خُزیمہ ، قاضی ابو بکر ابن العزی ، امام رازی ، قُطبی ، بدر الدین عینی ، شو کافی ، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے ، سب مرسل اور منقطع ہیں ، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا ۔ بیہقی کہتے ہیں کہ از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے ۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے ۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زَمخشری جیسے عقلیت پسند مفسر ، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں ۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ : سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع ، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور ۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے ( مراد ہے یوسف بن حماد عن اَمَیّہ بن خالد عن شُعْبہ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں ۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں ۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب ، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ ۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے ، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں ۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے ۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے ۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو ۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں ، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں ، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہو انہیں رد کر دیں ۔ وہ گو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین ، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے ، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو ، یا قوی ہوتی ۔ پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے ۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی ، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا ۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے : ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی ، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد ( یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں ) مکے واپس آگیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جارہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی ، معراج کے بعد اتری ہے ، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیر بحث آیت ، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے ۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی ، اللہ نے اسے منسوخ کر دیا ہے ۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو ، عتاب چھ سال بعد ، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد؟ پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورہ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے ، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا ، اور آگے پھر سورہ نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے ۔ اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختلاف ختم ہو گیا ۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے : پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور ( دیوی ) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس ( یعنی اللہ ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے ۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے ۔ دیکھیے ، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے ۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو ، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں َ ۔ یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں ۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے ۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا ، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورہ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے ۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختلاف ختم ہو گیا ؟ یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورہ نجم میں کی گئی تھی ، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی ۔ اس آمیزش پر سورہ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا ، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورہ حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی ۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہو گی ۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتوں کی اس زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا ، یا پھر عتاب والی آیت سورہ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورہ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو ۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتوں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورہ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا ۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورہ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا ۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا ؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی ، تو علاوہ اس بے تکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے ۔ یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے ، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں ۔ سورہ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے ، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے ( قطع نظر اس سے کہ آیت : اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں ، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق ) ۔ اسی طرح سورہ حج آپ کے سامنے موجود ہے ۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے ۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ اے نبی ، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں ، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے ، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے ۔ ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں ، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت ، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو ، ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ ، سیاق و سباق ، ترتیب ، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو ۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے ۔ رہا مومن ، تو وہ سے ہرگز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے ۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا ، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے ، یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آ سکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کر کے کفار کو راضی کیا جائے ، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں ، یا یہ کہ آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں ۔ خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کر دیا جائے جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے ۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے ، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں ، اشاعت کیسے پا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور مسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی تلاوت فرمائی ، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین ، مسلم اور مشرک سب ، سجدے میں گر گئے ۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا ۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی ۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا ، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گرگیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے ۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب ، ہمارے کانوں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے ۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے ، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا ۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکے میں واپس آ گئے ۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں ، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی ، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے ۔ انسان آخر انسان ہے ۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں ۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے ، نذر آتش کر دینے کے لائق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ ٥٧:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکوں کے حق میں شیطان کی شرارت کا کیا نتیجہ ہوا ان آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ اسی شیطانی شرارت سے سمجھ دار لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا انہیں یقین اور زیادہ ہوگیا کیونکہ وہ لوگ سمجھ گئے کہ شیطان کا دخل مٹانے اور قرآن کی آیتوں کو پکا کرنے کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے فرمایا گیا کہ قرآن اس کا کلام ہے اس کو اپنے کلام میں شیطان کا دخل اچھا معلوم نہیں ہوا ‘ پھر فرمایا ‘ اس یقین کی زیادتی کے سبب سے قرآن کی نصیحت کے موافق عمل کرنے کے لئے ان لوگوں کے دل پہلے سے زیادہ نرم ہوگئے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے علم غیب میں جو لوگ ایماندار ٹھہر چکے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے سیدھے راستہ پر آنے کے لیے اسی طرح کے سامان پیدا کردیتا ہے ہاں جو لوگ اللہ کے علم غیب میں منکر شریعت قرار پاچکے ہیں یا تو قیامت کے عذاب دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل جاویں گی ‘ یا قیامت سے پہلے کسی آفت کے دن کو دیکھ پاویں گے تو پچھتاویں گے ‘ اس سے پہلے قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں ایسے لوگوں کو ہمیشہ شبہ رہے گا ‘ اللہ سچا ہے ‘ اللہ کا کلام سچا ہے ‘ یہ ناگہانی آفت کا دن ان لوگوں کے حق میں بدر کی لڑائی کا دن تھا کہ جس طرح بانجھ عورت کو اولاد نصیب نہیں ہوتی اسی طرح ان میں کے بڑے بڑے سرکشوں کو اس دن صبح کی شام نصیب نہیں ہوئی جن کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے اگرچہ بعضے مفسروں نے یوم عقیم کی تفسیر قیامت کے دن کو قرار دیا ہے لیکن قیامت کا ذکر ان آیتوں میں جدا آیا ہے اس واسطے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں یوم عقیم کی تفسیر بدر کی لڑائی کے دن کو ٹھہرا کر اسی تفسیر کو صحیح قرار دیا ہے صحیح بخاری ومسلم کی حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ حشر کے دن ننگے پاؤں ‘ ننگے بدن سب لوگ ایک حالت میں ہوں گے ‘ اس حدیث سے آگے کی آیتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں عارضی بادشاہ اور امیر بہت سی آفتوں کو اپنی حکومت اور مالداری کے سبب سے ٹال دیتے ہیں ‘ قیامت کے دن سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی حکومت نہ ہوگی بلکہ بڑے بڑے بادشاہ اور امیر اس دن فقیروں کی طرفح ننگے پاؤں اور ننگے بدن اللہ تعالیٰ کے روبرو گھڑے ہوں گے اور فرمانبرداروں کے حق میں جنت میں داخل ہونے کا اور نافرمانوں کے حق میں دوزخ میں جھونکے جانے کا جو فیصلہ اللہ تعالیٰ اس دن فرماوے گا ‘ اس کا اثر بادشاہ ‘ امیر ‘ فقیر سب پر یکساں پڑے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:54) اوتوا العلم۔ اوتوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب ایتاء (افعال) سے مصدر۔ وہ دئیے گئے۔ ان کو دیا گیا۔ اوتوا العلم۔ جنہیں علم دیا گیا۔ اصحاب علم و فراست ۔ انہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب القرآن کے لئے ہے۔ اسی طرح اسی آیت میں فتخبت لہ اور فیؤمنوا بہ میں بہ اور لہ کی ضمائر کا مرجع القرآن ہے اور ان ہر دو میں ف بمعنی تعقیب ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عطف سببی کے لئے ہو۔ فیؤمنوا بہ ای یزدادوا ایمانا ان کا ایمان اور پختہ ہوجائے فتخبت لہ قلوبہم پھر اس کی طرف ان کے دل اور بھی زیادہ جھک جائیں۔ تخبت۔ مضارع واحد مؤنث غائب اخبات (افعال) مصدر وہ (مزید) نرمی و انکساری اختیار کریں۔ الخبت اصل میں نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں پھر اس کو نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے واخبتوا الی ربہم (11:23) اور انہوں نے اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔ لھاد میں لام تاکید کا ہے ھاد ھدایۃ سے اسم فاعل واحد مذکر ہے۔ اصل میں ھادی تھا۔ ہدایت دینے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ” تخبت “ میں مطمئن ہونے کا مفہوم بھی شامل ہے اور جھکنے اور نرم ہونے کا بھی (شوکانی) 2 ۔ یعنی انہیں شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کے مقابلے میں ایمانداروں کے دل اور کردار۔ اللہ تعالیٰ اس لیے شیطان کی شیطنت کو دباتا اور مٹاتا ہے تاکہ حقیقی علم رکھنے والے لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ اور حق ہے۔ حقیقی علم رکھنے والے لوگ ” اللہ “ کے فرمان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل حق بات کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ضرور رہنمائی کرتا اور انھیں سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں علم سے مراد شریعت کا وہ علم ہے جس سے ایماندار لوگ رہنمائی حاصل کرکے شیطانی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” اُوْتُوْ العِلْمَ “ سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو پہلے عیسائی اور یہودی تھے۔ جب ان کے سامنے قرآن و سنت پیش کیے جاتے ہیں تو انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وہی حق ہے جس کا ذکر انھوں نے تورات، انجیل میں پڑھا تھا۔ پھر وہ حق کو قبول کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں کرتے۔ ” اللہ “ سے ڈرنے والے علماء اُوْتُوا الْعِلْمَ میں شامل ہیں۔ (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ الْفَجْرِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً وَرِزْقاً طَیِّباً ) [ رواہ احمد : مسند ام سلمہ زوج النبی ] ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بیشک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے ( الٰہی ! میں تجھ سے نفع مند علم اور قبول ہونے والا عمل اور رزق حلال کا طلبگار ہوں۔ “ (حَدَّثَنِی عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلاَمٍ مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ بِمَا یَعْلَمُونَ قَالَ فَمَا یَنْفِی الْعِلْمَ مِنْ صُدُور الرِّجَالِ ؟ قَال الطَّمَعُ ) [ رواہ دارمی : باب صِیَانَۃِ الْعِلْمِ ] ” عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں بیشک عمر بن خطاب (رض) نے عبداللہ بن سلام (رض) سے سوال کیا کہ علم والے کون ہیں ؟ عبداللہ (رض) بن سلام نے جواب دیا جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے دریافت کیا لوگوں کے دلوں سے علم کو ختم کرنے والی کون سے چیز ہے ؟ اُنہوں نے کہا دنیا کا لالچ۔ “ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے سے پہلے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے الٰہی ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب، تو ہی زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے اور حاضر و غائب کا علم رکھنے والا ہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ اختلافی معاملات میں حق اور سچ کے ساتھ میری رہنمائی فرما۔ یقیناً تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرتا ہے۔ “ [ رواہ مسلم : باب الدعاء فی الصلوۃ اللیل ] مسائل ١۔ حقیقی علم وہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرے۔ ٢۔ حق کی رہنمائی پانے کے بعد ایمان دار کا دل اس کی جانب جھک جانا چاہیے۔ ٣۔ جو لوگ حق کے سامنے جھکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کے سنگ میل : ١۔ اللہ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ: ٦١) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٥۔ اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٧۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٨۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) اور نیز اس لئے ہوتا ہے تاکہ وہ لوگ جن کو صحیح فہم عطا ہوا ہے وہ اس امر کا اور زیادہ یقین کرلیں کہ جو کچھ پیغمبر نے تلاوت کیا ہے اور قرآن کریم کا جو حصہ آپ نے پڑھا ہے وہ آپ کے پروردگار کی جانب سے حق ہے۔ پھر یہ اہل علم اس پر ایمان لانے میں اور پختہ ہوجائیں اور ان کے دل اس قرآن کریم اور اس پر عمل کرنے کی طرف اور جھک جائیں اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ یعنی جو الہ علم و فہم ہیں وہ اس آزمائش میں پورے اتریں اور وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے ہے وہ حق ہے خواہ وہ متشابہات ہوں یا محکمات ہوں وہ سب حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اہل علم و فہم اپنے ایمان پر اور زیادہ قائم اور پختہ ہوجائیں پھر قرآن کریم پر عمل کرنے کی طرف ان کے دل اور جھک جائیں اور یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ ہی اہل ایمان کو سیدھی راہ بتانے والا اور سیدھی راہ تک پہنچانے والا ہے۔ خلاصہ ! یہ کہ متشابہات سے دو باتیں ہونی ہیں اہل زیغ کا زیغ نمایاں ہوجاتا ہے اور اہل فہم کا ایمان مضبوط اور پختہ ہوجاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس میں گمراہ اور بہکتے ہیں سو ان کا کام بہکنا ہے اور ایمان والے مضبوط ہوتے ہیں کہ اس کلام میں بندے کا دخل نہیں۔ اگر ہوتا تو یہ بھی بندے کے خیال کی طرح کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتا اور جس کی نیت اعتقاد پر ہو اس کو اللہ یہ بات سمجھاتا ہے۔ 12 بہرحال ! اہل علم و فہم کی فراست اور ان کے ایمان کی پختگی کا اظہار کرنے کے بعد شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے والوں کا ذکر فرمایا۔