Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 56

سورة الحج

اَلۡمُلۡکُ یَوۡمَئِذٍ لِّلّٰہِ ؕ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۵۶﴾

[All] sovereignty that Day is for Allah ; He will judge between them. So they who believed and did righteous deeds will be in the Gardens of Pleasure.

اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی وہی ان میں فیصلے فرمائے گا ، ایمان اور نیک عمل والے تو نعمتوں سے بھری جنتوں میں ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الْمُلْكُ يَوْمَيِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ... The sovereignty on that Day will be that of Allah. He will judge between them. This is like the Ayat: مَـلِكِ يَوْمِ الدِّينِ The Only Owner of the Day of Recompense. (1:4) الْمُلْكُ يَوْمَيِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـنِ وَكَانَ يَوْماً عَلَى الْكَـفِرِينَ عَسِيراً The sovereignty on that Day will be the true (sove... reignty), belonging to the Most Gracious (Allah), and it will be a hard Day for the disbelievers. (25:26) ... فَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... So those who believed and did righteous good deeds, means, their hearts believed in Allah and His Messenger, and they acted in accordance with what they knew; their words and deeds were in harmony. ... فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ in Gardens of Delight. means, they will enjoy eternal bliss which will never end or fade away.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر بطور انعام یا بطور امتحان لوگوں کو بھی بادشاہتیں اور اختیار و اقتدار مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کسی کے پاس بھی کوئی بادشاہت اور اختیار نہیں ہوگا۔ صرف ایک اللہ کی بادشاہی اور اس کی فرمان روائی ہوگی، اسی کا مکمل اختیار اور غلبہ ہوگا (اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ل... لرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا) 25 ۔ الفرقان :26) ' بادشاہی اس دن ثابت ہے واسطے رحمان کے اور یہ دن کافروں پر سخت بھاری ہوگا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا ' آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ' پھر خود ہی جواب دے گا ' ایک اللہ غالب کی '۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] یعنی آج تو ہر شخص خواہ وہ ایماندار ہے یا کافر ہے یا منافق ہے یا مشرک ہے وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ وہ حق پر ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے اچھا کر رہا ہے۔ لیکن قیامت کے دن سب کو روز روشن کی طرح علم ہوجائے گا کہ آج صرف اکیلے اللہ ہی کی حکمرانی ہے۔ اور ان کے معبودوں یا دیوتاؤں کے کارساز نہ ہونے کا سارا ف... ریب کھل جائے گا اور اللہ تعالیٰ شہادات قائم کرکے یہ فیصلہ کردے گا کہ حق پر کون تھا اور جھوٹا کون ؟ یا فلاں شخص کتنا حصہ حق پر تھا اور کتنا باطل پر ؟ پھر اسی فیصلہ کے مطابق لوگوں کو بدلہ دیا جائے گا۔ اہل حق تو جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوں گے اور حق کو جھٹلانے کو رسوا کن عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ : ” اَلْمُلْكُ “ کے الف لام کی وجہ سے ” تمام بادشاہی “ ترجمہ کیا ہے، یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر لوگوں کو بھی بادشاہت مل جاتی ہے مگر اس دن کسی اور کی بادشاہی نہیں ہوگی، فرمایا : (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) [ المؤمن : ١٦ ] ” آج کس ک... ی بادشاہی ہے ؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے، بہت دبدبے والا ہے۔ “ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : دنیا میں ہر شخص، کافر ہو یا منافق یا مسلم، یہی سمجھ رہا ہے کہ وہ حق پر ہے، دوسرے سب غلط ہیں، اس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کرے گا۔ دیکھیے سورة زمر (٤٦) اس فیصلے کے نتیجے میں ایمان اور عمل صالح والے نعمت والے باغوں میں ہوں گے۔ ایمان اور عمل صالح اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکریم تھی، بدلے میں ” جَنّٰتِ النَّعِيْمِ “ میں رہنے کی تکریم ملی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلہِ۝ ٠ۭ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ۝ ٠ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝ ٥٦ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل ق... وله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) جیسا کہ بدر قیامت کے دن بادشاہی اللہ ہی کی ہوگی وہ ہی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا سو جو لوگ آپ پر اور قرآن کریم پر ایمان لائے ہوں گے اور اچھے کام کیے ہوں گے وہ چین کے باغوں میں ہوں گے کے ذریعے سے ان کو عزت دی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذٍ لِّلّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ ط) ” کائنات کا حاکم حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کائنات میں ہر جگہ ‘ ہر وقت اسی کا حکم چل رہا ہے ‘ لیکن آج اس حقیقت پر کچھ پردے پڑے ہوئے ہیں۔ چناچہ دنیا میں ہمیں ڈرامے کے کرداروں کی طرح چھوٹے چھوٹے بادشاہ ‘ فرمانروا ‘ سردار وغیرہ بھی مقتدر...  اور با اختیار نظر آتے ہیں ‘ لیکن جب قیامت کا دن آئے گا تو یہ سب پردے اٹھ جائیں گے۔ اس دن تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے پوچھا جائے گا : (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط) (المؤمن : ١٦) ” آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ “ اور پھر خود ہی جواب دیا جائے گا : ( لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) ” صرف اس اللہ کی جو واحد ہے ‘ قہار ہے ! “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہوگی۔ اس دن نیک و بد کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عارضی طور پر دنیا میں کچھ اختیارات دیے ہیں۔ اسی بناء پر مختلف وقتوں اور علاقوں میں کچھ لوگوں کو اقتدار دیا جاتا ہے تاکہ دنیا کا نظام اجتماعی شکل میں چلتا رہے لیکن حقیقی...  بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ اپنی حکمت عملی کے تحت دنیا کا اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں دیتا ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو پورے کا پورا نظام ختم کردیا جائے گا۔ ربِّ ذوالجلال کے سوا کسی کے پاس کچھ اختیار نہیں ہوگا اس دن اعلان ہوگا کہ آج صرف اللہ کے لیے بادشاہی ہے۔ ” اللہ “ صالح اعمال کرنے والے ایمانداروں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کرے گا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ” اللہ “ کی آیات کو جھٹلایا ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَیَطْوِی السَّمَاءَ بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ ) [ رواہ البخاری باب قَوْلِہِ (وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں کہاں ہیں زمین کے بادشاہ۔ “ جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ شَجَرَۃٌ یَّسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ عَامٍ لَایَقْطَعُھَا وَلَقَابُ قَوْسِ اَحَدِکُمْ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّمَّا طَلَعََتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ اَوْتَغْرُبُ ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر کوئی سوار اس کے سایہ میں سو سال چلتا رہے ‘ تب بھی اس سایہ ختم نہ ہو سکے گا اور یقیناً تم میں سے کسی ایک شخص کی جنّت میں کمان کے برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے ‘ جن پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ “ جہنم کا ایک منظر (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔ ) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ ] حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ مسائل ١۔ ایمان اور صالح اعمال آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ٢۔ صالح اعمال کرنے والے ایمانداروں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ کفر و کذب اختیار کرنے والوں کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں کے انجام کا فرق : ١۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٢۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامۃ : ٢٢) ٣۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٤۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٥۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٥) ٦۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے سو پائیں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ٧۔ دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ ( یونس : ٢٧) ٨۔ ملائکہ جنتیوں کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣۔ ٢٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذٍ لِّلّٰہِ ) قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی ہوگی، اہل دنیا کی مجازی حکومتیں، سلطنتیں ختم ہوچکی ہوں گے، اللہ تعالیٰ ہی دونوں جماعتوں (مومنین اور کافرین) کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ نعمت کے باغوں میں ہونگے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور...  آیات الہٰیہ کو جھٹلایا ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا، دنیا میں وہ ایمان قبول کر کے با عزت نہیں رہنا چاہتے اور کفر میں عزت سمجھتے ہیں لہٰذا انہیں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس میں بہت سخت عذاب ہے اور بہت بڑی ذلت بھی ہے۔ ھذا الذی ذکرنا فی تفسیر الایۃ اختارہ صاحب روح المعانی حیث قال و المراد بذالک ھنا (بالتمنی) عند کثیر القراء ۃ و الایۃ مسوقۃ لتسلیۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بان السعی فی ابطال الأیات امر معھودوانہ لسعی مردود، و المعنی وما ارسلنا من قبلک رسولاً و لانبیا الا وحالہ انہ اذا قرا شیئا من الایات القی الشیطان الشبہ و التخیلات فیھا یقرؤہ علی اولیاۂ لیجادلوہ بالباطل و یردوا و اما جاء بہ کما قول تعالیٰ (و ان الشیطان لیوحون الی اولیاءھم لیجادلو کم) و قال سبحانہ (و کذالک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا) و ھذا کقو لھم علی ما فی بعض الروایات عند سماع قرأتہ (علیہ السلام) (انکم و ما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم) ان عیسیٰ عبد من دون اللہ تعالیٰ و الملائکۃ علیھم السلام عبدوا من دون اللہ تعالیٰ (فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان) ای فیبطل ما یلقیہ من تلک الشبہ و یذھب بہ بتوفیق النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لردہ اور بانزال مایردہ (ثم یحکم اللہ أیاتہ) ای یاتی بھا محکمۃ مثبۃ لا تقبل الردبوجہ من الوجوہ (روح المعانی ج ١٧ ؍ ١٧٣) و ھھنا قصۃ ذکرھا المفسرون وھی قصۃ الغر انیق قال الرازی فی تفسیرہھی باطلۃ موضوعۃ واحتجوا علیہ بالقرأن والسنۃ و المعقول، قال اللہ تعالیٰ شانہٗ (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) و قال (سنقرئک فلا تنسی) و قال (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ) و قال (انا نحن نزلنا الذکرو انالہ لحافظون) و قال البیھقی ھذہ القصۃ غیر ثابتۃ من جھۃ النقل ثم اخذیتکلم فی ان رواۃ ھذہ القصۃ مطعونون۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ ” اَلْمُلْکُ الخ “ جس دن وہ اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے اس دن تمام اختیار و تصرف اللہ تعالیٰ کا ہوگا اور دنیا کی طرح مجازاً بھی کسی کو کوئی اختیار حاصل نہ وہ گا۔ اس لیے اس دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اپنا ہوگا اور حکم الٰہی کے خلاف کوئی سفارشی یا مددگار نہ ہوگا۔ (الملک) ای السلطان القاھر والاستیل... اء التام والتصرف علی الاطلاق ” یَوْمَئِذٍ لِّلّٰه “ وحدہ بلاشریک اصلا بحیث لا یکون فیہ لاحد تصرف من التصرفات فی امر من الامور لا حقیقۃ ولا مجازا ولا صورۃ ولا معنی کما فی الدنیا الخ (ابو السعود ج 6 ص 259) ۔ 70:۔ ” فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ “ تا ” عَذَابٌ مُّھِیْنٌ“ یہ ” یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ “ کی تفصیل ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جو آخری فیصلہ فرمائے گا جس میں کسی کو دخل دینے کی مجال نہ ہوگی وہ یہ ہوگا کہ ایمان والوں کو جنت میں اور مشرکین و مکذبین کو جہنم میں داخل کیا جائیگا۔ ” فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ “ یہ ان مومنین صالحین کے لیے بشارت اخروی ہے جن کے دلوں میں دین حق کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ ” وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ “ یہ منکرین اور مکذبین کے لیے تخویف اخروی ہے کہ آخرت میں ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ یحکم بینھم یعنی یوم القیامۃ ھو للہ وحدہ لا منازع لہ فیہ ولا مدافع۔ ثم بین ھکمہ فقال کفروا وکذبوا بایتنا فاولئک لھم عذاب مھین (قرطبی ج 12 ص 88) ۔ کفار و مشرکین کے لیے دنیا اور آخرت میں عذاب ذلت و رسوائی کا باعث ہے لیکن مومنین کو دنیا میں جو تکلیفیں پہنچیں یا آخرت میں انہیں جو گناہوں کی سزا ملے گی وہ ان کے لیے ذلت ورسوائی نہیں بلکہ ان کی تطہیر اور بلندی درجات کا سبب ہوگی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اس دن بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی وہی ان لوگوں کے درمیان حقیقی اور عملی فیصلہ فرمائے گا سو جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کرتے رہے وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے۔