Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 6

سورة الحج

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۙ﴿۶﴾

That is because Allah is the Truth and because He gives life to the dead and because He is over all things competent

یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو جلاتا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ ... That is because Allah: He is the Truth, means, the Creator, the Controller, the One Who does as He wills. ... وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَى ... and it is He Who gives life to the dead, means, just as He gives life to the dead earth and brings forth from it all these kinds of vegetation. إِنَّ الَّذِى أَحْيَـهَا لَمُحْىِ الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Verily, He Who gives it life, surely is able to give life to the dead. Indeed He is able to do all things. (41:39) إِنَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be!" -- and it is! (36:82) ... وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ and it is He Who is able to do all things.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں حق کا معنی سچا ہے۔ یعنی ان دونوں مثالوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لیث بعدالموت کو حتمی اور یقینی قرار دے رہا ہے تو اس کی بات بالکل سچی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس کا وجود کوئی فرضی وجود نہیں جسے عقلی اشکالات کی وجہ سے تسلیم کرلیا گیا ہو جیسا کہ فلاسفروں کا خیال ہے جو علت و معلول کی کڑیاں جوڑتے جوڑتے جب عاجز آجاتے ہیں تو ایک ہستی کو واجب الوجود یا علت العلل CauseFirst تسلیم کرنے لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ ایک زندہ جاوید ہستی ہے جو ہر چیز میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا ہے اور ہر چیز پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور تیسرے یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کائنات اور اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو محض تفریح طبع کے لئے پیدا نہیں کیا۔ اور ان تینوں معانی پر قرآن کی دوسری بیشمار آیات شاہد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ۔۔ : اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ ” باء “ سببیہ ہے جو ” کَاءِنٌ“ وغیرہ سے متعلق ہے، جو افعال عامہ سے مشتق ہیں۔ یعنی بنی آدم کو پیدا کرنے اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیشہ ثابت اور موجود ہے، سو وہی ان دونوں کا اور ہر چیز کا موجد ہے۔ ” وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى“ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کرے گا، اگر وہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت نہ رکھتا تو بےجان مٹی اور نطفے کو اور مردہ زمین کو زندگی کیسے بخشتا ؟ ” وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْر “ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، سو وہ نطفے اور مردہ زمین کو زندگی بخشنے پر بھی قادر ہے۔ ”ۙوَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ ۔۔ “ اور اس کا سبب یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ قبروں میں دفن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، تاکہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے، ورنہ نطفے سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک پہنچانے کا کوئی مقصد نہ ہوتا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث اور بےمقصد نہیں۔ قدیم مفسرین یہ معنی بیان کرتے ہیں۔ 3 دوسرا مطلب یہ ہے کہ ” باء “ کو ایسے لفظ کے متعلق کیا جائے جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتا ہو، مثلاً ” شَاہِدٌ“ وغیرہ، ” أَيْ ذٰلِکَ شَاھِدٌ بِأَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ “ مطلب یہ ہوگا کہ یہ جو کچھ گزرا، یعنی انسان کا مٹی سے، پھر نطفے سے (آخر تک) پیدا ہونا اور مردہ زمین کا پانی سے زندہ ہوجانا اس بات کا شاہد اور اس کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا۔۔ متاخرین اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّہٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٦ۙ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) یہ جو کچھ تمہاری حالت بدلنے پر اور زمین کی حالت کی تبدیلی سے قدرت خداوندی کا ظہور فرمایا یہ سب اس لیے کہ تاکہ تم اب جان لو اور اس بات کا اقرار کرلو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہستی میں کامل ہے اور اسی کی عبادت برحق ہے اور وہ ہی جانوں میں جان ڈالتا ہے اور وہ ہی موت وحیات ہر چیز پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ ) ” اللہ تعالیٰ کے حق ہونے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ (وَاَنَّہٗ یُحْیِی الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ” بارش کے پانی سے مردہ زمین کے یکایک زندہ ہوجانے کا منظر تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک دن تم لوگوں کو قبروں سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کرے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. The Arabic text may mean three things: (1) Allah is telling the truth and you are wrong in presuming that there is no possibility of life-after-death. (2) Allah’s existence is not merely a supposition but it is a reality. He is not only the first cause but has supreme authority, and is conducting every affair in the universe according to His Will, Knowledge and Wisdom. (3) All His designs and works are based on truth and are, therefore, serious, meaningful and full of wisdom.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :8 اس سلسلہ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تنہا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو ۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ ، واجب الوجود اور علت العلل ( First Cause ) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعل مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت ، اپنے ارادے ، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے ۔ وہ حق ہے ، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پر حکمت ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: مطلب یہ ہے کہ تمہاری اپنی تخلیق ہو یا زمین سے پودے اگانے کا معاملہ، ان ساری باتوں کی اصلت علت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا وجود ایسا ہے جو کسی کا محتاج نہیں اور باقی ساری چییزیں اسی کی قدرت سے وجود میں آتی ہیں۔ لہذا وہ مردوں کو زندہ کرنے کی بھی پوری قدرت رکھتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:6) ذلک۔ یعنی انسان کی تخلیق اور اس کے مختلف مدارج اور بنجر زمین کو خوشنما اور لہلہاتا سبزہ زار بنادینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی یہ مذکورہ وجوہ اس بات پر دلیل ہیں کہ وہی قائم و دائم ہے اور اسی کی قدرت سے یہ سب تعینات ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمہارا یہ سمجھنا قطعی باطل ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں بلکہ جسے جمیع ممکنات پر قدرت حاصل ہے۔ (شوکانی، کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ اس کا کمال ذاتی ہے۔ 5۔ یہ اس کا کمال فعلی ہے۔ 6۔ یہ اس کا کمال وصفی ہے، اور یہ تینوں کمالات مل کر امور مذکورہ کی علت ہیں کیونکہ اگر کمالات ثلثہ میں سے ایک بھی غیر متحقق ہوتا تو ایجاد نہ پایا جاتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ذَالِکَ بِاَنَّ الخ “ جار مجرور کا متعلق محذوف ہے ای لتستیقنوا۔ ذالک ای المذکور فی الدلیل مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوگیا کہ کارساز اور متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ قیامت بپا کرنے پر قادر ہے اس سے حسب ذیل امور ثابت ہوئے کہ (1) معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (2) وہ مردوں کو ضرور زندہ کرے گا۔ (3) وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (4) اور قیامت لامحالہ آئیگی۔ (5) اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اٹھائیگا۔ یہ پانچوں ثمرات و نتائج دلائل مذکورہ پر مرتب ہیں۔ اور ” اِنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاِنَّهٗ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، وَ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ“ اور ” وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ “ یہ سب ” اَنَّ اللّٰهُ ھُوَ الْحَقُّ “ پر معطوف ہیں۔ ثم انہ سبحانہ لما قرر ھذین الدلیلین رتب علیھما ماھو المطلوب والنتیجۃ وذکر امور خمسۃ الخ (کبیر ج 6 ص 216) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) یہ سب کچھ اس سبب سے ہوا تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ثابت و برحق ہے اور وہی ہستی میں کامل ہے اور یہ کہ وہی بےجانوں میں جان ڈالتا اور مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شئے پر قادر ہے یعنی جو باتیں اوپر مذکور ہوئیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہیں اور جان کو جاندار کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔