Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 60

سورة الحج

ذٰلِکَ ۚ وَ مَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ لَیَنۡصُرَنَّہُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ﴿۶۰﴾

That [is so]. And whoever responds [to injustice] with the equivalent of that with which he was harmed and then is tyrannized - Allah will surely aid him. Indeed, Allah is Pardoning and Forgiving.

بات یہی ہے اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقیناً اللہ تعالٰی خود اس کی مدد فرمائے گا بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ... That is so. And whoever has retaliated with the like of that which he was made to suffer.... Muqatil bin Hayan and Ibn Jurayj mentioned that this was revealed about a skirmish in which the Companions encountered some of the idolators. The Muslims urged them not to fight during the Sacred Months, but the idolators insisted on fighting and initiated the aggression. So the Muslims fought them and Allah granted them victory. ... ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ... and then has again been wronged, Allah will surely help him. ... إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ Verily, Allah indeed is Oft-Pardoning, Oft-Forgiving.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی یہ کہ مہاجرین بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ 60۔ 2 کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر سربرا ہوچکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کردینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔ 60۔ 3 اس میں پھر معاف کردینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہوگا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] پچھلی دو آیات میں ان مہاجر مسلمانوں کا ذکر تھا۔ جو کفار کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے اور وہ ظلم کا بدلہ لے ہی نہ سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے۔ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ بدلہ لینا چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لیں جس قدر ان پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر بدلہ لینے میں زیادتی کریں گے تو یہ خود ظالم ٹھہریں گے اس صورت میں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جو مظلوم ہیں۔ کیونکہ اللہ ہمیشہ مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جہاں اور بہت سی نعمتیں ارشاد فرمائیں وہاں سب سے آخر میں اور بطور خاص جو نصیحت فرمائی یہ تھی۔ && وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ&& (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدعاء الی اعثہادتین و شرائع الاسلام) یعنی مظلوم کی بددعا سے بچے رہنا کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کو شیخ سعدی~رح~ نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔ برس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس آہ کی قبولیت خود اسے لینے کو آگے آتی ہے۔ [٨٩] اس آیت میں صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو اللہ اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا اور اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔ اس اجازت کے باوجود اگر بدلہ نہ لیا جائے تو یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ لہذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت کو اپنائیں اور ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوا کریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ ۔۔ : ” ذٰلِكَ “ کا لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ تو ہوا، اب اگلی بات سنو کہ جو شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنی اسے ایذا دی گئی ہے، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ اس میں جہاد کی ترغیب ہے اور ” اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا “ اور ” وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ “ کا مضمون دہرایا گیا ہے۔ عطف اس کا ” وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ “ پر ہے، جس میں ان مظلوموں کا ذکر تھا جو بدلہ نہیں لے سکے، اب ان مظلوموں کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ انھیں تاکید ہے کہ وہ اتنا ہی بدلہ لیں جتنی ان پر زیادتی ہوئی ہے، اگر اتنا بدلہ لینے کے بعد پھر ان پر زیادتی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ان کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بیشمار ایذائیں دیں، انھیں دین سے مرتد کرنے کے لیے مسلسل عذاب سے دو چار رکھا، جو قتل سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ تھا۔ انھیں ان کے گھروں سے نکالا، اس کے بعد بھی لڑائی کے لیے چڑھ کر آتے رہے۔ ان کی ایذا کے برابر بدلے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ١٩٠؁ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ) [ البقرۃ : ١٩٠، ١٩١ ] ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو، بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں، پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، ایسے ہی کافروں کی جزا ہے۔ “ اسی طرح حکم دیا : (وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ 12؀ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاج الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ التوبۃ : ١٢، ١٣ ] ” اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ بیشک یہ لوگ، ان کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ “ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ : یہاں ان صفات کے تذکرے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو معاف کر دو ، کیونکہ ان کے متعلق تو حکم ہے : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ “ عفو و درگزر مسلمانوں کے باہمی معاملات میں ہے، کفار کے ساتھ نہیں، فرمایا : (وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں، کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ “ یہاں ان صفات کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اتنا ہی بدلہ لینے کا جو حکم دیا ہے کہ جتنی ایذا دی جائے، یہ اس کے عفو و مغفرت کی وجہ سے ہے کہ اس نے کفار پر بھی حد سے بڑھ کر زیادتی کی اجازت نہیں دی، جس سے وہ مظلوم ٹھہریں، کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ ) [ بخاري، المظالم، باب الاتقاء و الحذر من دعوۃ المظلوم : ٢٤٤٨، عن ابن عباس (رض) ] ” مظلوم کی بددعا سے بچ، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔ “ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بدلہ لینے میں سو فیصد برابری تو انسان کے بس ہی میں نہیں، اس لیے فرمایا کہ کچھ کمی بیشی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In an earlier verse it has been mentioned that Allah Ta’ ala helps those who are wronged unjustly وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِ‌هِمْ لَقَدِيرٌ‌ (Allah is powerful to give them victory - 22:39) Some people bear their sufferings patiently and do not seek vengeance from their oppressors, but there are others who retaliate and serve a full measure of retribution on their oppressors which should, therefore, place them both on even terms as being quits. But if the oppressor, incensed at the retaliation, attacks him again, then this person once again becomes the victim of oppression. This verse promises Allah&s help for such a person also. On the other hand there are several verses which promise Allah&s goodwill to those Muslims who bear their sufferings with patience and equanimity and do not seek vengeance from their oppressors. Some of these verses are: فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّـهِ But whoso pardons and puts things right, his wage falls upon Allah - 42:40. وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ And that you forgive is closer to Taqwa - 2:237. But surely he who bears patiently and forgives - surely that is true constancy - 42:43. In all these verses it is encouraged not to retaliate for revenge and rather forgive and forget, which is a magnanimous way of dealing with fellow human beings. This is the way Qur&anic teachings stand and call it a supreme and superior trait. Thus it may perhaps be argued that the person who retaliates against the wrongs done to him and conducts himself contrary to the course of action preferred by Allah Ta’ ala will be deprived of His support and help. But this doubt has been allayed in the final part of this verseإِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ‌ (22:60) that is, Allah will not punish him for this lapse and will help him if he is subjected to injustice by his oppressors ever again. (Ruh-ul-Ma’ ani)

خلاصہ تفسیر یہ (مضمون تو) ہوچکا اور (آگے یہ سنو کہ) جو شخص (دشمن کو) اسی قدر تکلیف پہنچا دے جس قدر (دشمن کی طرف سے) اس کو تکلیف پہنچائی گئی تھی پھر (اس برابر سرابر ہوجانے کے بعد اگر اس دشمن کی طرف سے) اس شخص پر زیادتی کی جاوے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی ضرور امداد کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا بہت مغفرت کرنے والا ہے۔ معارف و مسائل چند آیات پہلے یہ مضمون مذکور ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کی مدد کرتا ہے ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ مگر مظلوم کی دو قسم ہیں ایک تو وہ جس نے دشمن سے ظلم کا کوئی انتقام اور بدلہ لیا ہی نہیں بلکہ معاف کردیا یا چھوڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اپنے دشمن سے برابر سرابر بدلہ اور انتقام لے لیا جس کا مقتضی یہ تھا کہ اب دونوں برابر ہوگئے آگے یہ سلسلہ ختم ہو مگر دشمن نے اس کے انتقام لینے کی بنا پر مشتعل ہو کر دوبارہ حملہ کردیا اور مزید ظلم کیا تو یہ شخص پھر مظلوم ہی رہ گیا۔ اس آیت میں اس دوسری قسم کے مظلوم کی امداد کا بھی وعدہ ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند یہ ہے کہ آدمی پہلے ہی ظلم پر صبر کرے اور معاف کر دے انتقام نہ لے جیسا کہ بہت سی آیات میں اس کا ذکر ہے مثلاً فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ اور وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ للتَّقْوٰى اور وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ، ان سب آیات میں ترغیب اس کی دی گئی ہے کہ ظلم کا بدلہ نہ لے بلکہ معاف کر دے اور صبر کرے۔ قرآن کریم کی ان ہدایات سے اسی طرز کا افضل و اولیٰ ہونا ثابت ہوا۔ شخص مذکور جس نے اپنے دشمن سے برابر کا بدلہ لے لیا اس نے اس افضل و اولیٰ اور قرآنی ہدایات مذکورہ پر عمل ترک کردیا تو اس سے شبہ ہوسکتا تھا کہ اب یہ شاید اللہ کی نصرت سے محروم ہوجائے اس لئے آخر آیت میں ارشاد فرما دیا اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کی اس کوتاہی پر کہ افضل و اولیٰ پر عمل نہیں کیا اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمائے گا بلکہ اب بھی اگر مخالف نے اس پر دوبارہ ظلم کردیا تو اس کی امداد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ۝ ٠ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْہِ لَيَنْصُرَنَّہُ اللہُ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۝ ٦٠ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : 323- أخذ البلی أبلادها «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : 324- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لوسخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) جو شخص دشمن کے ولی کو قتل کرے جیسا کہ اس نے اس کے ولی کو قتل کیا ہے اور پھر اس دشمن کی طرف سے اس شخص پر ظلم کیا جائے تو مظلوم کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا کہ وہ اسے قتل کردے گا تو اس سے دیت نہیں کی جائے گی، یہ جس شخص کے بھائی پر زیادتی کی گئی ہے یہ اس کے لیے انتقام ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ” ذلک ومن عاقب بمثل ما عوقب۔ “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک چھوٹے لشکر کے بارے میں نازل ہوئی جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روانہ فرمایا تھا چناچہ راستے میں ان سے مشرکین ایسے وقت میں ملے جب کہ ماہ محرم الحرام کے اختتام میں دو راتیں باقی تھیں مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر دو کیوں کہ یہ شہر حرام میں قتال کو حرام سمجھتے ہیں (اس لیے ہم سے جھگڑا نہیں کریں گے موقع اچھا ہے) صحابہ کرام (رض) نے ان کو قسمیں دلائیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرایا کہ ہمارے سے جھگڑا مت کرو کیوں کہ ہم شہر حرام میں قتال کو حلال نہیں سمجھتے مشرکین نے اس بات کے ماننے سے انکار کیا اور ان سے قتال کیا اور ان پر زیادتی کی چناچہ پھر مسلمانوں نے بھی ان سے قتال کیا اور مسلمانوں کی اللہ کی طرف سے مدد کی گئی، اسی کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ ) ” یعنی مسلمانوں پر اس سے قبل جو زیادتیاں ہوچکی ہیں اب وہ ان کا بدلہ لے سکتے ہیں ‘ اور پھر مزید کسی زیادتی کی صورت میں بھی اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. The preceding verses referred to those persecuted people who could not retaliate and here the reference is to those victims of persecution who could fight back. From this verse, Imam Shafai has concluded that retaliation will be effected in the way as life was taken in the original act. If a person is killed by immersion in water, the killer also should be put to death by immersion in water; or if a person is burnt to death, the killer also will be burnt to death. The Hanafites dispute this. According to them, retaliation against a murderer will be incurred in one and the same established way no matter how life was taken by the culprit in the original act. 105. This verse (60) may imply two things: (1) Allah forgives that killing which is done in self-defense, though killing of people is not a good thing in itself. (2) As Allah, Whose slaves the believers are, is Forgiving and Forbearing, they should also forgive and forbear as much as possible. Though they have the right of retaliation, they should not resort to carnage and massacre.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :104 پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں ، اور یہاں ان کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو ۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا ، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا ۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو ، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :105 اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ ظلم کے مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو ، عفو و درگزر کرنے والا ہے ، اس لیے تم کو بھی ، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو ، عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے ۔ اہل ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم ، عالی ظرف اور متحمل ہوں ۔ بدلہ لینے کا حق انہیں ضرور حاصل ہے ، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: اوپر آیت ٣٩ میں مسلمانوں کو ان کافروں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے ان پر ظلم ڈھائے تھے ؛ حالانکہ اس سے پہلے ان کے ظلم کے جواب میں صبر اور درگزر کے احکام دئیے جاتے رہے تھے، اب یہاں صرف جنگ ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہر قسم کے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے، بشرطیکہ وہ اتنا ہو جتنا ظلم ہوا، اور بتایاجارہا ہے کہ اگرچہ درگزر کا معاملہ زیادہ افضل ہے ؛ لیکن برابر کا بدلہ لینا بھی جائز ہے، اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کاو عدہ ہے ؛ بلکہ یہاں اور آگے بڑھ کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر برابر کا بدلہ لینے کے بعد ظالم دوبارہ زیادتی کرے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٠:۔ تفسیر مقاتل بن حیان ‘ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جو شان ١ ؎ نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں اور مشرکوں کا مقابلہ محرم کے مہینہ میں پڑگیا۔ مشرکوں نے آپس میں صلاح کی کہ اس مہینے میں مسلمانوں پر ضرور حملہ کرنا چاہیے کس لیے کہ اس مہینہ میں یہ لوگ لڑائی کو جائز نہیں سمجھتے اس واسطے یہ اوپرے دل سے ان دنوں میں لڑیں گے اور ہم ان پر غالب رہیں گے ‘ مسلمانوں نے اگرچہ مشرکوں کو طرح طرح کی قسمیں دیں اور کہا کہ محرم کے مہینے میں مقابلہ نہ کرو لیکن مشرکوں نے نہ مانا ‘ آخر مقابلہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی مگر مسلمانوں کے دل میں خلش رہی کہ محرم کے مہینے میں لڑنے سے اللہ تعالیٰ ان سے ناخوش ہوا ہوگا اور ان کے مدینہ واپس جانے تک کوئی آیت اللہ کی خوشنودی کی ان کے حق میں نازل ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ تو غیب دان ہے اس کو ان کے دلوں کا حال معلوم تھا کہ ان کے دلوں میں محرم کی تعظیم تھی اور اپنی طرف سے یہ ہرگز لڑنا نہیں چاہتے تھے مشرکوں نے جب ان پر کمال زیادتی کی اس وقت انہوں نے بدلہ لینے کے طور پر مقابلہ کیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ یہ لوگ مجبور ہو کر لڑے ‘ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان سے کچھ مواخذہ نہیں فرمایا اس طرح کی مجبوری کے ہر موقع کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ معاف کرنے والا اور بخشے والا ہے ‘ صحیح مسلم ‘ ابوداؤد اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ لڑائی جھگڑے میں سارا بوجھ اس شخص پر ہوتا ہے جو جھگڑے کی ابتدا اور جھگڑے کو شروع کرے۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس لڑائی میں ناجائز لڑائی کہ ابتداء مشرکوں کی طرف سے تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ناجائز لڑائی کا سارا بوجھ مشرکوں پر رکھا اور مسلمانوں کو ناجائز لڑائی کے بوجھ سے سبکدوش فرما کر غیبی مدد سے انہیں فتحیاب کردیا ‘ تفسیر مقاتل اور تفسیر ابن ابی حاتم کے صحیح ہونے کا ذکر ایک جگہ اس تفسیر میں کردیا گیا ہے اس لئے اس شان نزول کو معتبر کہا جاسکتا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٩٥ ج ١٧ والد رالمنثورص ٣٦٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٦٦ ج ٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:60) ذلک۔ ای الامر ذلک۔ سو یہ بات ہے۔ یہ تو ہے ان کا حال۔ ذلک وقف ج ہے جو وقف جائز کو ظاہر کرتا ہے یہاں پچھلی بات ختم ہوتی ہے ۔ اگلا جملہ مستانفہ ہے اور یہاں سے نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ عاقب۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ معاقبۃ (مفاعلۃ) سے۔ اس نے بدلہ دیا۔ اس نے سزا دی۔ عوقب ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ اسے ایذا دی گئی۔ اسے تکلیف پہنچائی گئی۔ وہ ستایا گیا۔ عقاب مصدر۔ من عاقب بمثل ما عوقب بہ۔ جو شخص اسی قدر تکلیف پہنچائے جتنی تکلیف اسے پہنچائی گئی (یعنی جس نے دشمن کی ایذا کا بدلہ اس کی ایذا کے برابر لے لیا اور یوں معاملہ برابر کردیا ) ثم۔ پھر اس کے بعد۔ بغی علیہ۔ اس پر زیادتی کی گئی۔ بغی ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ بغی مصدر ۔ لینصرنہ اللہ۔ لینصرن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ۔ واحد مذکر غائب (جس کا مرجع وہ شخص ہے جس پر زیادتی کی گئی ) اللہ فعال۔ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ عفو۔ بروزن فعول۔ مبالغہ کا صیغہ ہے بہت زیادہ معاف کرنے والا۔ یہ بھی اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی مظلوم کے ظالم سے اپنا بدلہ لینے کے بعد، پھر ازسرنو ظالم سے اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرمائے گا کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اس کا قاعدہ ہے جیسا کہ حضرت انس (رض) سے صحیح روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اتقوا دعوۃ المظلوم وان کان کافرا فانھا لیس بینھما حجاب۔ کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرو چاہے وہ کافر ہو اس لئے کہ اس کے ( اور اللہ کے) درمیان پردہ نہیں ہے۔ (الجامع الصغیر) مقصد یہ ہے کہ مسلمان مظلوم ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ (قرطبی) 1 ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت ڈالیں۔ اور متعدد آیات میں عفو کی ترغیب دی ہے اور اسے ” ان ذلک لمن عزم الامور “ فرمایا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یعنی بدلہ واجبی لینے والے کو خدا عذاب نہیں کرتا اگرچہ بدلہ نہ لینا بہتر تھا۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے بدلہ لیا، کافروں کی ایذا کا پھر ” احد “ و ” احزاب “ میں کافر زیادتی کرنے کو آئے، پھر اللہ نے پوری مدد کی۔ “ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اگر یہ شخص بدلہ لینا چاہئے تو دنیا میں نصرت شرعیہ یقینی ہے، یعنی اجازت انتقام کی، اور اگر بدلا نہ لے تو آخرت میں نصرت حسیہ ضروری ہے، یعنی ظالم کی تعذیب۔ فائدہ : یہ رعایت مماثلت کا وجوب ہے معاملات معاشرت میں نہ کہ جہاد میں، نیز جو افعال ہر حال میں معصیت ہیں وہ اس عموم سے مستثنی ہیں۔ مثلا کوئی کسی کے والدین کو برا کہے تو عوض میں اس کے والدین کو برا کہنا جائز نہ ہوگا۔ 4۔ اوپر مومنین کے غالب اور کفار کے مغلوب ہونے کا بیان تھا۔ چونکہ مسلمانوں کی موجودہ بےسرو سامانی اور کفار کی عدد اور عدد میں فراوانی پر نظر کرنے پر اس میں ایک گونہ استبعاد تھا اس لئے آگے اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتے ہیں۔ اور چونکہ جہلاء کفار کو اس مقام پر اپنے معبودین کے ناصر ہونے کا وہم ہوسکتا تھا، اور چونکہ یہ مضمون متضمن توحید ذاتی و صفاتی و افعال تھا، اور روئے سخن تھا مشرکین کی طرف جو کہ شرک میں مبتلا ہونے سے نعم الہیہ سے جحود کرتے تھے، اس لئے الم تر ان اللہ انزل سے لکفور تک اس مضمون کی قدرے تفصیل فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیشک اللہ تعالیٰ حوصلے والا ہے۔ لیکن وہ اپنے مظلوم بندوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بدلہ لے سکتے ہیں۔ بدلہ لینے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مظلوم اس قدر ہی بدلہ لے سکتا ہے جس قدر اس پر زیادتی کی گئی ہو۔ اگر بدلہ لینے والے پر دوبارہ زیادتی کی گئی تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی مدد فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ بدلہ فوجداری، دیوانی اور لسانی معاملات میں ہوگا۔ اخلاقی معاملات میں بدلہ لینے کی بجائے حدود کا نفاذ ہے یعنی اگر کسی کی بہو، بہن، بیٹی یا کسی عزیزہ کے ساتھ کوئی شخص بدکاری کرتا ہے تو اس کی شرعی سزا ہوگی نہ کہ بدکاری کرنے والے کی عزیزہ کے ساتھ بدکاری کی اجازت۔ ان معاملات میں حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ شریعت کے مطابق مظلوم کی دادرسی کا انتظام کرے مظلوم کو بدلے کا حق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ جس میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ لوگو ! اگر اکثر معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دو ۔ تو اللہ تمہیں بھی معاف کر دے گا۔ ابن جریج اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت صحابہ کے اس لشکر کے بارے میں نازل ہوئی جس کی مڈ بھیڑ کفار کے ایک جتھے سے حرمت والے مہینے میں ہوئی۔ مسلمانوں نے انہیں حرمت والے مہینے کے احترام سے آگاہ کیا کہ وہ اس کا احترام کریں۔ مشرک یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، انہوں نے صحابہ پر حملہ کردیا تب مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور انہیں کفار پر غلبہ عطا فرمایا۔ ( ابن کثیر ) مسائل ١۔ مظلوم کو ظلم کے برابر بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی ضرور مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک ……غفور (٠٦) اس نصرت کی شرط یہ ہے کہ سزا بطور قصاص دی گئی ہو ، اس میں زیادتی نہ ہو اور نہ ہی سرکشی کر کے سزا کو ظلم سے بدل دیا گیا ہو۔ سزا میں غلونہ کیا گیا ہو۔ اس سزا کے جواز کے بعد یہ جملہ آیا ہے کہ اللہ غفور و رحیم ہے۔ اللہ ہر جرم کو معاف بھی کرسکتا ہے لیکن انسانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ بعض اوقات کسی قیمت پر جرم کو معاف نہیں کرتے اور قصاص اور سزا کے نفاذ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اللہ نے ان کو یہ حق دیا ہے۔ معاف نہ کرنا انسان کی بشری کمزوری ہے۔ ایک شخص پر ظلم ہو ، وہ اس کے بدلے متوازن قصاص لے ، لیکن ظالم اگر پھر ظلم پر اتر آئے تو اللہ کی نصرت کا وعدہ اس شخص کے ساتھ ہے جس نے قصاص لیا۔ ظالم اور باغی کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس وعدے کو اللہ تعالیٰ اس کائنات کے تکوینی نوامیس قدرت کے ساتھ مربوط کرتے ہیں ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ کائناتی قوانین قدرت اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور وہ نصرت کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح یہ قوانین قدرت اٹل ہیں اور نہایت باریکی سے اپنے فرائض کو پورا کر رہے ہیں اسی طرح اللہ کی نصرت بھی ایک کائناتی حقیقت ہے۔ اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسا نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ذلک صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یہ مبتدا ہے اور خبر مخدوف ہے یعنی یہ بات جو اوپر بیان ہوئی یہ طے شدہ ہے اللہ تعالیٰ نے جیسا فرمایا ہے ویسا ہوگا (وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ) (الایۃ) اور جو شخص اس قدر بدلہ لے جس قدر اسے تکلیف پہنچائی گئی پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور ضرور اس کی مدد فرمائے گا اس آیت سے زیادہ کرنے والے سے بدلہ لینے کی اجازت معلوم ہوئی بشرطیکہ بدلہ لینے میں برابری کا دھیان رہے یعنی جتنی تکلیف پہنچائی گئی ہو اس قدر تکلیف پہنچا سکتا ہے اگر کسی نے اتنا ہی بدلہ لیا جتنا بدلہ لینے کا اختیار تھا پھر اس پر اس شخص کی طرف سے زیادتی کی گئی جس نے پہلے زیادتی کی ابتدا کی تھی تو اللہ جل شانہ ضرور ضرور اس شخص کی مدد فرمائے گا جس پر دوبارہ زیادتی کی گئی (اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ) (بلا شبہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے) اللہ تعالیٰ تو معاف فرما دیتا ہے لیکن بندے بدلہ لے لیتے ہیں اگر بندے بھی معاف کردیا کریں تو اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا ثواب پائیں گے جیسا کہ سورة شوریٰ میں فرمایا (فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ) (سو جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر اللہ پر ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ ” وَ مَنْ عَاقَبَ الخ “۔” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهَ “۔ من ینصر میں مسلمانوں کو فتح کی خوشخبری دی اب یہاں وعدہ فتح و نصر کا اعادہ کیا گیا تاکہ اس کی دو دلیلیں ایک انی اور لمی کا ذکر کیا جائے۔ ” ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ “ ثم تعقیب ذکر کے لیے ہے یعنی جن لوگوں نے ظالموں سے اپنے اوپر کیے گئے مظالم کا بدلہ لیا اور بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہیں کیا اور پھر ظالموں کی طرف سے وہ سخت مظالم وشدائد کا نشانہ بھی بنے ہوں۔ ظالموں کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا اور انہیں فتح و ظفر سے ہمکنار کرے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) یہ مضمون تو ہوچکا اور جس نے اپنے تکلیف پہنچانے والے کو صرف اتنی تکلیف پہنچائی جتنی اس کو پہنچائی گئی تھی پھر اس برابر سرابر بدلا لینے والے پر دوبارہ زیادتی کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی جس پر زیادتی کی جائے گی ضرور مدد کرے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا درگزر کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے یعنی کسی شخص نے دوسرے شخص یا جماعت پر زیادتی کی کوئی تکلیف پہنچائی یا گھر سے بےگھر کیا پھر اس جماعت یا شخص نے اپنا بدلہ لیا اور بدلا بھی برابر سرابر یعنی بدلا لینے میں کوئی زیادتی نہیں کی۔ لیکن برابر سرابر بدلہ لینے کے بعد پھر پہلے فریق یا شخص نے زیادتی کی تو یہ وعدہ ہے کہ اس مظلوم شخص یا فریق کی ضرور مدد کی جائے گی جس پر دوبارہ زیادتی کی جائے گی اور یہ جو فرمایا درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے یہ شاید اس لئے فرمایا کہ بدلہ لینے میں کچھ تھوڑی سی بلاقصد زیادتی ہوجائے تو وہ قابل معافی اور لائق درگزر ہوگی۔ یا شاید اس لئے فرمایا کہ انتقام اور بدلہ لینے کے مقابلہ میں معاف کردینا اور صبر کرنا بہتر ہے۔ ولمن صبر وغفران ذالک لمن عزم الامور۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بدلہ واجبی لینے والے کو عذاب نہیں کرتا اگرچہ بدلہ نہ لینا بہتر تھا۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے بدلہ لیا کافروں کی ایذاء کا پھر کافر آئے زیادتی کرنے کو احد میں اور احزاب میں پھر اللہ نے پوری مدد کی۔ 12