Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 62

سورة الحج

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ ﴿۶۲﴾

That is because Allah is the Truth, and that which they call upon other than Him is falsehood, and because Allah is the Most High, the Grand.

یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی اور پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ ... That is because Allah -- He is the Truth, meaning, the true God, besides Whom no one deserves worship. He is the Possessor of the greatest sovereignty; whatever He wills happens and whatever He does not will does not happen. Everything is in need of Him and submits to Him. ... وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ... and what they invoke besides Him, it is false. meaning, the idols and false gods. Everything that is worshipped instead of Him -- may He be exalted -- is false, because it can neither bring benefit nor cause harm. ... وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ And verily, Allah -- He is the Most High, the Most Great. This is like the Ayat: وَهُوَ الْعَلِىُّ الْعَظِيمُ and He is the Most High, the Most Great. (42:4) الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ the Most Great, the Most High. (13:9) Everything is subject to His might and power; there is no God except Him and no Lord besides Him, because He is the Almighty and there is none mightier than He, the Most High and there is none higher than He, the Most Great and there is none greater than He. Exalted, sanctified, and glorified be He far above all that the evildoers say.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 اس لئے اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق ہے اس کے وعدے حق ہیں، اس کا اپنے اولیاء کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا حق ہے، وہ اللہ عزوجل اپنی ذات میں، اپنی صفات میں اور اپنے افعال میں حق ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] پھر جو ہستی کائنات میں اتنا تصرف کرنے پر قدرت رکھتی ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کو تصرف میں ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ تاہم ظاہری اور باطنی اسباب اور ان کے نتائج پر اللہ اکیلے کا کنٹرول ہے تو پھر حق بات یہی ہے کہ اپنی حاجات کے لئے اکیلے اللہ ہی کو پکارا جائے۔ کیونکہ وہی سب سے بڑی قوت ہے اور قوت والا ہے اور وہی سب سے بڑا ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو اپنے قبضہ اختیار میں لے رکھا ہے اور جو لوگ ایسے قدرتوں والے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں وہ غلط کار ہیں اور غلطی پر ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے پاس کوئی قدرت و تصرف ہے ہی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ۔۔ : یہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے وعدے کو پورا کرنے کی تیسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سچا اور حق رب ہے۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرے اسے کر گزرتا ہے، سو وہ اپنے دوستوں کی ضرور مدد کرے گا اور اس کے سوا جس کو بھی لوگ پکارتے ہیں وہ ناحق اور باطل ہے، وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتا تو ان کی مدد کیا کرے گا ؟ اور اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کے مقابلے میں اپنے دشمنوں کی مدد کیوں کرے گا ؟ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ : چوتھی وجہ اس بات کی کہ ” اللہ تعالیٰ مظلوم مسلمانوں کی مدد ضرور کرے گا “ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے اونچا ہے، باقی سب نیچے ہیں اور وہی بیحد بڑا ہے، باقی سب چھوٹے ہیں اور کوئی اس کا مدمقابل نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۝ ٦٢ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) یہ اللہ کی قدرت کا اس لیے مظاہرہ کرایا جارہا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے اور تم اس بات کا یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت حق ہے اور وہی ہستی میں کامل الوجود ہے اور جن چیزوں کی تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کرتے ہو وہ بالکل ہی بےہودہ ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی تمام چیزوں سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ ) ” اللہ کی ذات برحق ہے ‘ جس کا حق ہونا قطعی اور یقینی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109. As Allah is in fact the Sovereign of the universe, His worshipers will surely attain true success and the worshipers of false gods will meet with utter failure.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :109 یعنی حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی رب وہی ہے ، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے ۔ اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں ، ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے ان کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے ، اس لیے خدا سے منہ موڑ کر ان کے اعتماد پر جینے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:62) ذلک۔ اس کے بھی وہی معنی ہیں جو آیت (61) متذکرہ بالا میں بیان ہوئے یہاں یہ لفظ مکرر اس کی ایک دوسری صفت بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے یعنی نصرت مؤمنین و دیگر صفات کے اثبات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بان اللہ ھو الحق کہ وہ الحق ہے اس کا دین حق ہے اس کی عبادت حق ہے اور وہ اپنے قول وفعل میں حق ہے۔ اور مشرکین خود جھوٹے ان کے بت جھوٹے اور ان کا مذہب باطل۔ گویا آیات 56 تا 60 میں جو صفات مذکور ہوئی ہیں ان کے اثبات میں مندرجہ ذیل دلائل لائے گئے ہیں۔ (1) اس کا ایلاج لیل ونہار پر قادر ہونا۔ (2) اس کا سمیع وبصیر ہونا۔ (3) اس کا الحق ہونا۔ (4) ماسوی اللہ کا پکارنا باطل ہونا۔ (5) اس کا العلی الکبیر ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ جب وہ سچا ہے تو اس کا دین بھی سچا ہے اور اس کا اہل ایمان سے وعدہ بھی سچا ہے۔ 5 ۔ جب وہ (یعن بت جسے کافر پکارتے ہیں) غلط، جھوٹ اور لغو ہے تو ان کی مدد کیسے کرسکتا ہے ؟ 6 ۔ اس کا کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک بان اللہ ……العلی الکبیر (٣٦) اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ حق ہے اور حق اس نظام کائنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ باطل ہے۔ باطل میں خلل پڑتا رہتا ہے اور حق قائم و دائم رہتا ہے لہٰذا یہ اہل حق کی مدد کے لئے کافی دلیل ہے اور یہی بات اس نصرت کی ضمانت ہے۔ یہ باطل اور ظلم کے خلاف اللہ کی نصرت پر دلیل بھی ہے اور یہ اس بات پر بھی دلیل ہے کہ اللہ کے تکوینی فیصلے جس طرح اصل ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کی نصرت کا یہ وعدہ بھی اٹل ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ وعدہ پورا نہ ہو کیونکہ اللہ ان سرکشوں سے بڑا بادشاہ ہے او وہ ان جباروں سے بہت بڑا ہے۔ وان اللہ ھوا لعلی الکبیر (٢٢ : ٢٦) ” اور اللہ ہی بالا دست اور بزرگ ہے۔ “ لہٰذا وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ظلم بلند رہے اور طویل عرصے تک عوام پر ظلم ہوتا رہے۔ …… یہ مضمون کہ دلائل کائنات اللہ کی لامحدود وقدرت پر شاہد عادل ہیں ، ذرا آگے بھی جاری رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:۔ ” ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ الْحَقُّ الخ “ یہ فتح و نصرت کی دلیل لمی ہے یعنی فتح و نصرت کی اصل علت اور وجہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا جن معبودوں کو مشرکین پکارتے ہیں وہ باطل اور بےحقیقت ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ضرور فتح دے گا۔ جو خالصۃً اسی کی عبادت کرتے اور صرف اسی کو پکارتے ہیں اور معبودان باطلہ کے پجاریوں کو مغلوب و مقہور کرے گا یا یہ ماقبل کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ کمال قدرت اور شمول علم کے ساتھ اس لیے متصف ہے کہ وہی معبود برحق ہے جس کی الوہیت دلائل قاہرہ اور دلائل قاہرہ اور براہین واضحہ سے ثابت ہوچکی ہے لہذا جو مستحق الوہیت ہو وہی ہر چیز پر قادر اور ہر چیز کا عالم ہوسکتا ہے۔ الثابت الھیتہ فلا یصلح لھا الا من کان عالما قادرا (ابو السعود ج 6 ص 263) ۔ ” اَلْعَلِیُّ “ قدرت میں ہر چیز پر گا لب، مثال و نظیر اور شریک وسہیم سے پاک اور منزہ۔ ” اَلْکَبِیْرُ “ ذات میں کامل، واجب الوجود ازلی اور ابدی، ای العالی علی کل شیء بقدرتہ والعالی عن الاشباہ والانذار۔ الکبریاء عبارۃ عن کمال الذات۔ ای لہ الوجود المطلق ابدا و ازلا فھو الاول القدیم والاخر الباقی بعد فاء خلقہ (قرطبی ج 12 ص 91) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) نیز یہ امداد اس بنا پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات حق اور اپنی ہستی میں کامل اور واجب الوجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی یہ مشرک عبادت کرتے ہیں وہ سراسر باطل لچر اور پوچ اور غلط اور لغو ہیں اور نیز اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سب سے عالی شان اور بڑی ہے یعنی ہماری نصرت اور ہماری مدد کی کامیابی اس بنا پر بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی ہستی میں کامل ہے اور دوسرے جن کو یہ لوگ پکارتے اور ان کی عبادت کرتے ہیں باطل اور حادث ہیں وہ سب ضعیف وناتواں اور عاجز ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے اس لئے جس کو اس کی مدد حاصل ہے وہی غالب اور کامیاب ہے آگے اور اس کی قدرت کا بیان ہے۔ 12