Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 66

سورة الحج

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاکُمۡ ۫ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ ﴿۶۶﴾

And He is the one who gave you life; then He causes you to die and then will [again] give you life. Indeed, mankind is ungrateful.

اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا بیشک انسان البتہ ناشکرا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is He, Who gave you life, and then will cause you to die, and will again give you life. Verily, man is indeed Kafurun. This is like the Ayat: كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَتًا فَأَحْيَـكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ How can you disbelieve in Allah Seeing that you were dead and He gave you life. Then He will give you death, then again will bring you to life and then unto Him you will return. (2:28) قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ Say: "Allah gives you life, then causes you to die, then He will assemble you on the Day of Resurrection about which there is no doubt." (45:26) قَالُواْ رَبَّنَأ أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ They will say: "Our Lord! You have made us to die twice, and You have given us life twice!" (40:11) So how can you set up rivals to Allah and worship others besides Him when He is the One Who is independent in His powers of creation, provision and control of the existence! وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ... It is He, Who gave you life, means, He gave you life after you were nothing, and brought you into existence. ... ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ... and then will cause you to die, and will again give you life. means, on the Day of Resurrection. ... إِنَّ الاِْنسَانَ لَكَفُورٌ Verily, man is indeed Kafurun. meaning, denying.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر و جحود پایا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] انسان کو اللہ کا زندگی بخشنا ایسا احسان ہے جسے ہر شخص احسان سمجھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا انسان کو موت دینا اس لحاظ سے احسان ہے کہ اگر آدم سے لے کر موجودہ دور تک تمام مخلوق زندہ رہتی۔ تو انسان کو زمین پر کھڑا ہونے کو بھی جگہ نہ ملتی۔ وسائل معاش اور ضروریات زندگی کا مہیا ہونا تو دور کی بات ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ ساتھ ہی ساتھ پہلوں کو موت کی نیند سلا کر آنے والوں کے لئے جگہ اور ضروریات زندگی مہیا کردیتا ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد زندہ کرنا پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دینا بھی اللہ تعالیٰ کا انسان پر احسان عظیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس اخروی زندگی اور اس کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کرکے انجام سے خبردار نہ کرتا تو طاقتور اور درندہ صفت انسان کمزور انسانوں کو کچا چبا ڈالتے اور انھیں کبھی جینے کا حق نہ دیتے۔ جس کا بالآخر نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں مسلسل جنگ اور بدامنی کی وجہ سے انسان کا وجود ہی صفحہ ہستی سے ختم ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات کے باوجود انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ نہ کسی ایسے حقائق پر غور کرتا ہے اور نہ اللہ کے ان احسانات کے لئے اس کا شکر گزار ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ ۔۔ : یہ چھٹی نعمت ہے اور پہلے ذکر کی گئی تمام نعمتوں کی اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا، اگر پیدا ہی نہ کرتا تو دوسری تمام نعمتیں تمہارے کس کام کی تھیں ؟ اس بات کو ہر ملحد شخص بھی مانتا ہے کہ ہم پہلے نہیں تھے، بعد میں پیدا ہوئے۔ ”ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ “ پھر وہ تمہیں موت دے گا، یہ حقیقت بھی ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ ” ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ “ جو شخص پہلی دونوں باتیں مانتا ہے اسے یہ بھی ماننا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد زندہ بھی کرے گا۔ 3 بظاہر ان تینوں میں سے نعمت صرف پہلی دفعہ پیدا کرنا ہے، کیونکہ پھر مارنا اور زندہ کرنا تو محاسبے کے لیے ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بھی نعمتیں ہیں، کیونکہ ان دونوں کے بغیر جنت اور دیدار الٰہی کبھی حاصل نہیں ہوسکتے اور جو چیز جنت کی ہمیشہ کی زندگی اور مالک کے دیدار کا ذریعہ ہو اس کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے ؟ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ : ” لَكَفُوْرٌ“ ” کَافِرٌ“ میں مبالغہ ہے اور کفر سے مراد کفر نعمت یعنی نعمتوں کی ناشکری یا ان کا انکار ہے، یعنی ابن آدم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتا جو اوپر کی آیات میں مذکور ہیں، نہ ان کا شکر ادا کرتا ہے، یعنی اس دعوت کو نہیں مانتا جو اس کی طرف سے اس کے رسول پیش کرتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ) [ إبراہیم : ٣٤ ] ” اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے، بلاشبہ انسان یقیناً بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ۝ ٠ۡثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۝ ٦٦ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) اور اسی نے تمہیں کو تمہاری ماؤں کے رحم ہی میں زصفر کی حالت میں زندگی دی اور وہی تمہیں بچپن یا بڑے ہونے کی حالت میں موت دے گا اور وہی تمہیں مرنے کے بعد پھر زندہ کرے گا، واقعی بدیل بن ورقاء کافر اور اللہ تعالیٰ اور بعث بعد الموت اور مسلمانوں کے ذبیحہ کا منکر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ ) ” یعنی پہلے تم مردہ تھے اور اس نے تمہیں زندہ کیا۔ یہ آیت سورة البقرۃ کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : (کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُمْْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) دونوں آیات کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں۔ صرف سورة البقرۃ کے ” کُنْتُمْ اَمْوَاتاً “ کے الفاظ کو زیر مطالعہ آیت میں دہرایا نہیں گیا۔ مضمون دونوں آیات کا بہر حال ایک ہی ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ارواح کو عالم ارواح میں پیدا کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟ ) لینے کے بعد سب کو سلا دیا ‘ بالکل اسی طرح جیسے آج کسی چیز کو کو لڈ سٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ تمام انسانوں کی پہلی موت تھی۔ اس کے بعد جب کسی روح کا رحم مادر میں کسی جنین کے ساتھ ملاپ ہوتا ہے تو یہ اس روح یا اس انسان کا احیائے اول ہے۔ پھر دنیوی زندگی کے بعد جب اسے موت آئے گی تو یہ اس کا ” اماتہ ثانیہ “ ہوگا اور جب اسے قیامت کو اٹھایا جائے گا تو وہ احیائے ثانی ہوگا۔ اس مضمون کا ذروۂ سنام (climax) سورة غافر (المؤمن) کی آیت ١١ میں آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

114. That is, though man sees every reality presented by the Prophets, yet he denies it.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :114 یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٦:۔ اوپر انسان کی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا احسان جتلایا جاکر اس آیت میں خود انسان کے پیدا کرنے کا احسان جتلایا گیا ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ انسان کی کچھ ہستی نہیں تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو نسیت سے ہست کیا ‘ اس کی سب ضروری کی چیزوں کو پیدا کیا۔ انسان کی عمر کی ایک تعداد مقرر کی جس کے پورے ہوجانے کے بعد ہر شخص مرجاوے گا اور پھر وقت مقررہ پر سزا وجزا کے لئے ہر شخص کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا کہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے لیکن انسان ایسا ناشکرہ ہے کہ اللہ کے ان سب احسانات کو بھول کر اللہ کی تعظیم میں ایسے غیروں کو شریک کرتا ہے کہ نہ انہوں نے انسان کو پیدا کیا نہ انسان کی کسی ضرورت کی چیز کو پیدا کیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے مغیرہ ١ ؎ بن شعبہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ رات کی نماز میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ کھڑے رہنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں سوج جاتے تھے لوگوں نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں ‘ پھر آپ عبادت میں اتنی کوشش کیوں کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا نہ کروں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اللہ کا شریک نہیں اس لیے انسان پر خالص دل سے اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے ‘ جو لوگ اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ‘ ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ہر شخص پر خالص دل سے اکیلے اللہ کی عبادت واجب ہے جو لوگ اس واجب میں خلل ڈالتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب التحریض علی قیام اللیل۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:66) کفور۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ناشکرا ۔ کافر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ جو یہ سب کچھ دیکھتا ہے پھر بھی اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ یعنی اس دعوت کو نہیں مانتا جو اس کی طرف سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ زیادہ اجزاء سورت میں کفار کے جدال اور اس کے وجوہ ابطال کا بیان ہے، منجملہ ان مجادلات کے ایک مجادلہ متعلق ذبح کے تھا جس کا حاصل وہی ہے جو اب بھی بعض کفار کی زبان پر مشہور ہے کہ خدا کی ماری مردار اور اپنی ماری حلال، آگے اس پر مشرکین کو زجر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وھو ……لکفور (٦٦) انسان کے ڈھانچے میں زندگی ڈالنا یعنی پہلے انسان ڈھانچے میں تو ایک عظیم معجزہ ہے ، اور رات اور دن جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ زندگی ڈالتا ہے اس سے اس معجزے کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ یہ ” حیات “ کیا چیز ہے۔ ابھی تک یہ امور غبیبہ سے ہے اور عقل اس کے بارے میں حیراں ہے۔ اس میں بہرحال تامل و تدبر اور سائنسی تحقیق کے لئے بڑی گنجائش ہے۔ پھر موت بھی ایک دوسرا معجزہ ہے کہ انسان اس کی حقیقت سے آج تک عاجز ہے۔ موت نہایت ہی مختصر ٹائم میں واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن زندگی اور موت کے آثار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انسان کے لئی اس میں غور و فکر کے وسیع امکانات ہیں۔ اب تیسرا مرحلہ کہ موت کے بعد زنگدی کیسے ہوگی۔ یہ بھی اللہ کے پوشیدہ علوم میں سے ایک غیب ہے۔ لیکن اس پر دلیل بہت آسان ہے کہ جب ایک چیز کو پہلے پیدا کردیا گیا ، تو دوسری بار اس کی پیدائش میں کیا مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اس میں بھیانسان غو رو فکر کرسکتا ہے۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ غور و فکر ان موضوعات پر نہیں کرتا اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ ان الانسان لکفور (٢٢ : ٦٦) ” بیشک انسان ناشکرا ہے۔ “ بڑا منکر حق ہے۔ قرآن مجید نے یہ تمام دلائل اس موضوع کے گرد پیش کئے ہیں کہ جن لوگوں پر ظلم ہوگا ، اللہ ان کی مدد رکے گا اور لوگوں کو چاہئے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کا جواب دیں۔ یہ طرز استدلال قرآن کریم کے اس اسلوب کے مطابق ہے کہ قرآن اس کائنات کے قوانین فطرت اور مظاہر قدرت کو دلوں میں ولولہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے کیونکہ نظام اسلامی کے اندر موجود قوانین عدل کو پوری کائنات کے اندر موجود قوانین فطرت کی تائید حاصل ہے۔ …… اس کائنات کے مظاہر فطرت اور قوانین قدرت کے بیان کے اس فیصلہ کن موڑ پر پہنچ کر اب قرآن مجید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کرتا ہے کہ آپ مشرکین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی راہ پر چلیں۔ مشرکین کے نزاع اور جدال کی پرواہ نہ کریں۔ اللہ مشرکین کو یہ طاقت نہیں دیتا کہ وہ آپ کو اپنی راہ سے روک سکیں۔ یہ راہ آپ کے لئے اللہ نے چنی ہے اور اس راہ میں آپ صرف دعوت ہپنچانے تک محدود رہیں۔ اصل فیصلہ تو اللہ خود قیامت میں کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

80:۔ ” وَھُوَ الَّذِيْ اَحْیَاکُمْ الخ “ دلائل مذکورہ بالا سے معلوم ہوگیا کہ کارساز اور حاجت روا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں کیونکہ وہ قادر علی الاطلاق اور ساری کائنات میں متصرف مطلق ہے۔ جس طرح وہ مردہ زمین میں بارش سے زندگی کی لہر دوڑا دیتا ہے اور بےجان نطفہ سے انسانوں اور دیگر جانداروں کو پیدا کرسکتا ہے اسی طرح وہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ ” اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ“ لیکن یہ انسان کس قدر احسان فراموش اور ناشکر گذار واقع ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احسانات و انعامات کو بھلا کر ان کی ناشکری کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی عاجز مخلوق کو شریک بنانا اور آخرت کا انکار کرنا ہے (ان الانسان لکفور) ای الجحود لما ظہر من الایات الدالۃ علی قدرتۃ ووحدانیتہ (قرطبی ج 12 ص 93) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(66) اور وہی ہے جس نے تم کو پہلی مرتبہ زندگی بخشی۔ پھر وہ تم کو موت دے گا۔ پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ واقعی انسان بڑا ناسپاس اور ناشکرا ہے۔ پہلی مرتبہ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کرکے انسان کی پیدائش کا سلسلہ جاری کیا۔ پھر زندگی کے بعد موت دیتا ہے اور مرنے کے بعد عالم آخرت میں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا ان تمام انعامات الٰہیہ کے بعد بھی انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا قائل نہیں ہوتا اور شرک کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس کا حق نہیں مانتا۔ 12