Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 67

سورة الحج

لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۶۷﴾

For every religion We have appointed rites which they perform. So, [O Muhammad], let the disbelievers not contend with you over the matter but invite them to your Lord. Indeed, you are upon straight guidance.

ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے ، جسے وہ بجا لانے والے ہیں پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہئیے آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے ۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Nation has its Religious Ceremonies Allah tells: لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَ يُنَازِعُنَّكَ فِي الاَْمْرِ ... For every nation We have made Mansak which they must follow; so let them not dispute with you on the matter, Allah tells us that He has made Mansak for every nation. Ibn Jarir said, "This means that there are Mansak for every Prophet's nation." He said, "The origin of the word Mansik in Arabic means the place to which a person returns repeatedly, for good or evil purposes. So the Manasik (rites) of Hajj are so called because the people return to them and adhere to them." If the phrase "For every nation We have ordained religious ceremonies" means that every Prophet's nation has its religious ceremonies as ordained by Allah, then the phrase "So let them (the pagans) not dispute with you on the matter" refers to the idolators. If the phrase "For every nation We have ordained religious ceremonies" means that it is the matter of Qadar (divine decree), as in the Ayah, وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا (For each nation there is a direction to which they face). (2:148) Allah says here: هُمْ نَاسِكُوهُ (which they Nasikuh) meaning, which they must act upon. The pronoun here refers back to those who have these religious ceremonies and ways, i.e., they do this by the will and decree of Allah, so do not let their dispute with you over that divert you from following the truth. Allah says: ... وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ but invite them to your Lord. Verily, you indeed are on the straight guidance. i.e., a clear and straight path which will lead you to the desired end. This is like the Ayah: وَلاَ يَصُدُّنَّكَ عَنْ ءَايَـتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ And let them not turn you away from the Ayat of Allah after they have been sent down to you: and invite to your Lord. (28:87) وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ

مناسک کے معنی اصل میں عربی زبان میں منسک کا لفظی ترجمہ وہ جگہ ہے ، جہاں انسان جانے آنے کی عادت ڈال لے ۔ احکام حج کی بجاآوری کو اس لئے مناسک کہا جاتا ہے کہ لوگ بار بار وہاں جاتے ہیں اور ٹھیرتے ہیں ۔ منقول ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ہر امت کے پیغمبر کے لئے ہم نے شریعت مقرر کی ہے ، اس امر میں لوگ نہ لڑے ، سے مراد یہ مشرک لوگ ہیں ۔ اور اگر مراد ہر امت کے بطور قدرت کے ان کے افعال کا تقرر کرنا ہے ۔ جیسے سورۃ بقرہ میں فرمان ہے کہ ہر ایک لئے ایک سمت ہے جدھر وہ متوجہ ہوتا ہے یہاں بھی ہے کہ وہ اس کے بجالانے والے ہیں تو ضمیر کا اعادہ بھی خود ان پر ہی ہے یعنی یہ اللہ کی قدرت اور ارادے سے کررہے ہیں ان کے جھگڑنے سے تو بددل نہ ہو اور حق سے نہ ہٹ ۔ اپنے رب کی طرف بلاتا رہ اور اپنی ہدایت واستقامت پر مکمل یقین رکھ ۔ یہی راستہ حق سے ملانے والا ہے ، کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمایا ہے ( وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 87؀ۚ ) 28- القصص:87 ) خبردار کہیں تجھے اللہ کی آیتوں کے تیرے پاس پہنچ جانے پر بھی ان سے روک نہ دیں ، اپنے رب کے راستے کی دعوت عام برابر دیتا رہ ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حق قبول کرنے سے جائے تو اس سے کنارہ اختیار کیجئے اور کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ۔ جیسے کئی جگہ اسی مضمون کو دہرایا ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو ان سے کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ پس یہاں بھی ان کے کان کھول دیئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے وہ تمہاری ادنیٰ سی ادنیٰ حرکت کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے تم میں کافی شاہد ہے قیامت کے دن ہم تم میں فیصلہ اللہ خود کردے گا اور اس وقت سارے اختلافات مٹ جائیں گے جیسے فرمان ہے تو اسی کی دعوت دیتا رہ اور ہمارے حکم پر ثابت قدم رہ اور کسی کی خواہش کے پیچھے نہ لگ اور صاف اعلان کردے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر میرا ایمان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے، انجیل امت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔ 67۔ 2 یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑیں۔ 67۔ 3 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] منسک کا لفظ اگرچہ حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہوگیا ہے اور مناسک حج سے مراد اعمال اور ارکان حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے ہے اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے۔ تاہم اس لفظ کے معانی میں یہ وسعت ہے کہ اس کا اطلاق تمام عبادات کے طریق کار پر ہوتا ہے اور یہ لفظ منہاج سے اخص ہے۔ منہاج کے معنی میں تمام شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار شامل ہے اور یہ طریق کار بھی اللہ ہی کی طرف سے بتلایا جاتا ہے اور منسک کا اطلاق صرف عبادات کے طریقے کار پر ہوتا ہے۔ [٩٧] عبادات کا طریق کار ہر نبی اور اس کی امت کے لئے مختلف رہا ہے اور اس میں وقت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور چونکہ یہ طریق کار بھی اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بارے میں آپ سے بحث یا جھگڑا کرے۔ کیونکہ اس زمانہ میں یہی طریق کار درست اور برحق ہے۔ جو آپ کو بتلایا جارہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ : ” مَنْسَكًا “ ” نَسَکَ یَنْسُکُ “ (ن، ک) سے مصدر میمی ہے، عبادت، قربانی، عبادت کا طریقہ یا قربانی کا طریقہ، یا یہ ظرف ہے، یعنی عبادت یا قربانی کی جگہ۔ ” نَسْکٌ“ اور ” نُسُکٌ“ عبادت، ذبیحہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الاضحی کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : ( إِنَّ أَوَّلَ نُسُکِنَا فِيْ یَوْمِنَا ھٰذَا أَنْ نَّبْدَأَ بالصَّلَاۃِ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ ) [ بخاري، العیدین، باب استقبال الإمام الناس في خطبۃ العید : ٩٧٦، عن البراء۔ ] ” ہمارے آج کے دن میں ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس جائیں اور قربانی کریں۔ “ یہاں نماز کو ” نُسُکٌ“ کہا گیا ہے۔ ” لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا “ کا جملہ اس سے پہلے آیت (٣٤) میں بھی گزرا ہے، وہاں اس کا معنی قربانی کا طریقہ کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پالتو مویشیوں پر اللہ کا نام لینے یعنی ذبح کرنے کا ذکر ہے۔ 3 آیات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حج کے بعض مناسک میں تبدیلی کی، اسی طرح جیسے پہلی امتوں کے لیے مقرر کردہ بعض احکام منسوخ بھی کیے اور بعض میں تبدیلی فرمائی تو کفار مکہ نے، جو دین ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے دار تھے اور یہود و نصاریٰ سب نے جھگڑنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اصل دین ایک ہے جو توحید ہے، مگر ہم نے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس زمانے کے احوال و ضروریات کے مطابق عبادت کا ایک طریقہ مقرر فرمایا، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے تھے۔ جس میں بعض چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی تھیں، جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لیے تورات اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لیے تورات کے ساتھ انجیل تھی۔ اب قیامت تک دنیا کے تمام لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں اور ان کا ضابطۂ حیات قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ( شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) [ المائدۃ : ٤٨ ] ” تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ “ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ اگر بعد میں آنے والے نبی کے زمانے میں کسی عبادت کے طریقے میں کوئی تبدیلی کر دے تو بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ دل و جان سے اسے قبول کریں نہ کہ اس معاملے میں پیغمبر سے جھگڑا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ یہ لوگ ہرگز آپ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں، یعنی آپ بھی ان سے جھگڑا نہ کریں اور نہ انھیں جھگڑے کا موقع دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور یقین رکھیں کہ آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں۔ سورة جاثیہ میں فرمایا : (ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ الجاثیۃ : ١٨ ] ” پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا (For every ummah (religious community) We have appointed a way of worship - 22:67). This sentence has come earlier in almost identical words in verse number 34 of this Surah, but the word مَنسَكً (mansak) conveys a different meaning in each verse. In the earlier verse the words مَنسَكً and نسَكً have been used in the context of the rites of Hajj and mean sacrifice of animals, while in the present verse the word مَنسَكً has been used in the sense of the rules of slaughter or general rules of worship. That is why, unlike the verse 34, the present verse does not have the conjunctive letter & وَ & (i.e. &and& ) in the beginning. One interpretation of this verse is that the infidels used to engage the Muslims in futile arguments regarding the slaughter of animals. They thought it odd that Islam permitted its followers to eat the meat of those animals which they slaughtered with their own hands but forbade eating the meat of those animals whom Allah Ta’ ala killed, that is the carrion. The present verse was revealed to answer these objections of the infidels. (Ruh ul-Ma’ ani). Thus the meaning of the word مَنسَكً here would refer to ` the method of slaughter&, and the sum and substance of the verse is that Allah Ta’ ala gave each nation a code of laws, and the rules governing the slaughter of animals are different in each code. The rules of slaughter given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are independent and self-sufficient and it is not permissible to compare them. with those of an earlier Shari&ah, let alone comparing them with someone&s own whims and conjectures. As regards the meat of dead animals, it is well known that its oral use was forbidden in all earlier codes. (Ruh u1-Ma` ani) Therefore, it is sheer ignorance to argue with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on that basis. However, majority of commentators has interpreted this verse in another way. They say that the word مَنسَكً here means the general rules of Shari&ah. Lexically, the word مَنسَكً means a place which is fixed for a specific purpose, whether the purpose is good or bad, and for this reason the rites of pilgrimage are known as نسَكً , because different rites connected with the pilgrimage have to be performed at places fixed for each rite. (Ibn Kathir). The dictionary meaning of is ` piety and worship of Allah Ta’ a1a&, and the words أَرِ‌نَا مَنَاسِكَنَا (And show us our ways of worship - 2:128) occurring in the Qur&an have been used in this sense Manasik means rules governing worship. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has adopted this second interpretation also. Ibn Jarir, Ibn Kathir, Qurtubi, Ruh u1-Ma` ani etc. have adopted this meaning of the word, and the context of the verse also lends support to this interpretation. Having said all this, it is evident that the meaning of this verse would be that the infidels and the polytheists who dispute the Islamic code of laws on the ground that their own ancestral religion did not include those laws must understand very clearly that any comparison between the old book or Shari` ah and the new book or Shari` ah is totally misplaced and irrelevant, because Allah Ta` a1a granted to each nation in its own time a special Shari` ah and a Book which was binding upon it until another book or Shari` ah arrived on the scene after which it becomes the duty of all people to follow the new Shari` ah, and if any of its laws are in conflict with the laws of the old Shari` ah, then the new rules shall prevail and the old laws will stand invalidated, and nobody has the right to raise a dispute on this matter with the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who is the recipient of the latest book and Shari` ah. This is the meaning of the following words of this verse. فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ‌ (They should never quarrel with you in the matter - 22:67). That is, now that the Holy Prophet has brought a new Book and new code of laws no one has the right to dispute them and create any confusion about them. This also shows that there is in fact no inconsistency between the two interpretations of this verse. It is quite possible that this verse was revealed with reference to some specific dispute about the slaughter of animals but since, as a general rule, the words must be interpreted in the sense they are understood by the common people and not in reference to a particular event, the words of this verse can be so construed as to apply to all the laws of Shari&ah. The essence of both the interpretations, therefore is, that since Allah Ta’ ala has given each nation its own particular set of rules where differences as to details do exist, the latest set of rules becomes binding on all peoples, and issues relating to these differences cannot be raised. This is the reason why it has been stated at the end of this verse وَادْعُ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ (And do call them to your Lord. Surely, you are on straight Guidance - 22:67) in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been advised not to take any notice of the machinations and disputes raised by the infidels but to continue with his mission, because he was following the path of righteousness whereas his opponents were steeped in error. A doubt and its answer In verse 67 it has been averred that Allah Ta’ ala granted to the earlier nations their own Shari` ah or set of rules, and the Mosaic Code and the Christian Code are instances in point. The Jews and the Christians may, therefore, are that their Codes also being Divine should be allowed to exist alongside of the Islamic Code. But this is a fallacious argument because it is a well established fact that an earlier Shari` ah is cancelled by a subsequent Shari` ah, and this view is reinforced by the following verses in which the infidels who challenge the Islamic Shari` ah have been warned of severe chastisement. وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (And if they dispute with you, then say, |"Allah knows best what you do.|" - 22:68)

خلاصہ تفسیر (جتنی امتیں اہل شرائع گزری ہیں ان میں) ہم نے ہر امت کے واسطے ذبح کرنے کا طریق مقرر کیا ہے کہ وہ اسی طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے تو (اعتراض کرنے والے) لوگوں کو چاہئے کہ اس امر (ذبح) میں آپ سے جھگڑا نہ کریں (ان کو تو آپ سے بحث اور جھگڑا کرنے کا حق نہیں مگر آپ کو حق ہے اس لئے) آپ (ان کو) اپنے رب (یعنی اس کے دین) کی طرف بلاتے رہے آپ یقینا صحیح راستہ پر ہیں۔ (صحیح راستہ پر چلنے والے کو حق ہوتا ہے کہ غلط راستے پر چلنے والے کو اپنی طرف بلائے غلط راستہ والے کو یہ حق نہیں ہوتا) اور اگر (اس پر بھی) یہ لوگ آپ سے جھگڑا کرتے رہیں تو آپ یہ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے (وہی تم کو سمجھے گا آگے اسی کی توضیح یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن (عملی) فیصلہ فرما دے گا جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے تھے (آگے اسی کی تائید ہے کہ) اے مخاطب کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے (اور علم الٰہی میں محفوظ ہونے کے ساتھ یہ بھی) یقینی بات ہے کہ یہ (یعنی ان کے سب اقوال و اعمال) نامہ اعمال میں (بھی محفوظ) ہے (پس) یقینا (ثابت ہوگیا کہ) یہ (فیصلہ کرنا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان ہے۔ معارف و مسائل لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا، یہی مضمون تقریباً انہیں الفاظ کے ساتھ اسی سورت کی آیت نمبر ٣٤ میں گزر چکا ہے مگر دونوں جگہ لفظ منسک کے معنے اور مراد میں فرق ہے۔ وہاں نسک اور منسک قربانی کے معنے میں بضمن احکام حج آیا تھا اور اس لئے وہاں واؤ کے ساتھ وَلِكُلِّ اُمَّةٍ فرمایا گیا۔ یہاں منسک کے دوسرے معنے (یعنی احکام ذبائح یا علم احکام شرعیہ) اور دوسرا مفہوم مراد ہے اور یہ ایک مستقل حکم ہے اس لئے اس کو عطف کر کے نہیں بیان کیا گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ بعض کفار مسلمانوں سے ان کے ذبائح کے متعلق فضول بحث وجدال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارے مذہب کا یہ حکم عجیب ہے کہ جس جانور کو تم خود اپنے ہاتھ سے قتل کرو وہ تو حلال اور جس کو اللہ تعالیٰ براہ راست مار دے یعنی عام مردار جانور وہ حرام۔ ان کے اس جدال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (کما رواہ الحاکم و صححہ و البیہقی فی الشعب عن علی بن حسن و ابن عباس انہا نزلت بسبب قول الخزاعیین، روح المعانی) تو یہاں منسک کے معنی طریقہ ذبح کے ہوں گے اور حاصل جواب کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت اور شریعت کے لئے ذبیحہ کے احکام الگ الگ رکھے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ایک مستقل شریعت ہے اس کے احکام کا معارضہ کسی پہلی شریعت کے احکام سے کرنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ تم اس کا معارضہ خالص اپنی رائے اور خیال باطل سے کر رہے ہو یعنی مردار جانور کا حلال نہ ہونا تو اس امت و شریعت کے ساتھ مخصوص نہیں سب پچھلی شریعتوں میں بھی حرام رہا ہے تو تمہارا یہ قول تو بالکل ہی بےبنیاد ہے اس بےبنیاد خیال کی بنا پر صاحب شریعت نبی سے مجادلہ اور معارضہ کرنا حماقت ہی حماقت ہے (ہکذا بین فی روح المعانی معنی الایة) اور جمہور مفسرین نے اس جگہ لفظ منسک عام احکام شریعت کے معنے میں لیا ہے کیونکہ اصل لغت میں منسک کے معنی ایک معین جگہ کے ہیں جو کسی خاص عمل خیر یا شر کے لئے مقرر ہو اور اسی لئے احکام حج کو مناسک الحج کہا جاتا ہے کہ ان میں خاص خاص مقامات خاص احکام و اعمال کے لئے مقرر ہیں (ابن کثیر) اور قاموس میں لفظ نسک کے معنی عبادت کے لکھے ہیں قرآن میں اَرِنَا مَنَاسِكَنَا اسی معنے کے لئے آیا ہے مناسک سے مراد عبادت کے احکام شرعیہ ہیں۔ حضرت ابن عباس سے یہ دوسری تفسیر بھی روایت کی گئی ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اسی معنی عام کی تفسیر کو اختیار کیا گیا ہے اور آیت کا سیاق وسباق بھی اسی کا قرینہ ہے کہ منسک سے مراد شریعت اور اس کے احکام عام ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مشرکین اور مخالفین اسلام جو شریعت محمدیہ کے احکام میں جدال اور جھگڑے کرتے ہیں اور بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ان کے آبائی مذہب میں وہ احکام نہ تھے تو وہ سن لیں کہ پچھلی کسی شریعت و کتاب سے نئی شریعت و کتاب کا معارضہ مجادلہ کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو اس کے وقت میں ایک خاص شریعت اور کتاب دی ہے جس کا اتباع اس امت پر اس وقت تک درست تھا جب تک کوئی دوسری امت اور دوسری شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ آگئی۔ اور جب دوسری شریعت آگئی تو اتباع اس جدید شریعت کا کرنا ہے اگر اس کا کوئی حکم پہلی شریعتوں کے مخالف ہے تو پہلے حکم کو منسوخ اور اس کو ناسخ سمجھا جائے گا اس لئے اس صاحب شریعت سے کسی کو مجادلہ اور منازعت کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ آیت کے آخری الفاظ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ کا یہی حاصل ہے کہ موجودہ زمانہ میں جبکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مستقل شریعت لے کر آگئے تو کسی کو اس کا حق نہیں کہ ان کی شریعت کے احکام میں جدال اور نزاع پیدا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ پہلی تفسیر اور اس دوسری تفسیر میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ آیت کا نزول کسی خاص نزاع دربارہ ذبائح کے سبب سے ہوا ہو مگر آیت کے عام الفاظ تمام احکام شرعیہ پر مشتمل ہیں اور اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص مورد کا نہیں ہوتا۔ تو حاصل دونوں تفسیروں کا یہی ہوجائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو الگ الگ شریعت دی ہے جن میں احکام جزئیہ مختلف بھی ہوتے ہیں تو کسی پچھلی شریعت پر عمل کرنے والے کو نئی شریعت سے معارضہ اور نزاع کا کوئی حق نہیں بلکہ اس پر اس نئی شریعت کا اتباع واجب ہے اسی لئے آخر آیت میں فرمایا گیا، وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ ، یعنی آپ ان لوگوں کی چہ میگوئیوں اور نزاع وجدال سے متاثر نہ ہوں بلکہ برابر اپنے منصبی فریضہ دعوت الی الحق میں مشغول رہیں کیونکہ آپ حق اور صراط مستقیم پر ہیں آپ کے مخالف ہی راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ایک شبہ کا جواب : اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد کسی پہلی شریعت پر ایمان رکھنے والے مثلاً یہودی نصرانی وغیرہ کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ خود قرآن نے ہمارے لئے اس آیت میں یہ کہہ کر گنجائش دی ہے کہ ہر شریعت اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لئے اگر زمانہ اسلام میں بھی ہم شریعت موسویہ یا عیسویہ پر عمل کرتے رہیں تو مسلمانوں کو ہم سے اختلاف نہ کرنا چاہئے کیونکہ آیت میں ہر امت کو شریعت خاصہ دینے کا ذکر کرنے کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کو یہ حکم بھی دے دیا گیا ہے کہ شریعت محمدیہ کے قائم ہوجانے کے بعد وہ اس شریعت کی مخالفت نہ کریں۔ یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان ان کی سابقہ شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ بولیں اور اس آیت کے بعد کی آیات سے یہ مضمون اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے جن میں شریعت اسلام کے خلاف مجادلہ کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ان حرکتوں کو خوب جانتا ہے وہی اس کی سزا دے گا۔ وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ۝ ٠ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى ہُدًى مُّسْتَقِيْمٍ۝ ٦٧ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں نسك النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] . ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

منسک کسے کہتے ہیں ؟ قول باری ہے (لکل امۃ جعلنا منسکا ھم ناسکرہ فلاینازعنک فی الامر۔ ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمد ! وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں) ایک قول کے مطابق منسک اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی عمل خیر یا شر کے لئے عام ہو اور اس بنا پر لوگ اس سے مانوس ہوں۔ حج کے مناسک و ہ مقامات ہیں جہاں حج کے دوران عبادتیں کی جاتی ہیں اس لئے یہ مقامات حج کی عبادات ادا کرنے کے مقامات قرار پائے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ منسک عید کو کہتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قربانی کے جانور کا خون بہا کر اظہار بندگی کا نام منسلک ہے۔ عطار، مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ ہر امت کے لئے جانوروں کی ذبح کی عبادت مقرر کی گئی ہے جس کے لئے وہ جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق منسک ان تمام عبادات کا نام ہے جنہیں بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ابوبکر جصاص ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت برنا بن عازب کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید قربان کے دن باہر تشریف لائے اور فرمایا (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج ہماری پہلی عبادت نماز ہوگی اور اس کے بعد قربانی) آپ نے نماز اور ذبح یعنی قربانی دونوں کو نسک قرار دیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے۔ ہے کہ نسک کے اسم کا اطلاق تمام عبادات پر ہوتا ہے تاہم تقرب الٰہی کی جہت سے ذبح ہونے والے جانور پر اس کا اطلاق عرف عام کے لحاظ سے زیادہ غالب اور واضح ہے۔ قول باری ہے (ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک تو فدیہ ادا کرے روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں۔ اگر نسک سے تمام عبادات مراد ہوں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے اس صورت میں ذبح بھی آیت کی مراد میں داخل ہوگی اور یہ چیز اس امر کی موجب ہوگی کہ لوگوں کو جانور کی قربانی دینے کا پابند کردیا گیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فلا ینا زعناک فی الامر) جب ہم جانور کی قربانی دینے کے پابند ہوگئے تو اس صورت میں اضحیہ کے وجوب پر اس سے استدلال کی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔ اس لئے کہ زکوۃ کی ادائیگی کی طرح خوش حال لوگوں کی طرف سے عام طور پر قربانی دی جاتی ہے۔ اگر ہم اس سے حج کے موقعہ پر واجب ذبح مراد لیں تو پھر سا کا تعلق قران اور تمتع کی قربانیوں کے ساتھ خاص ہوگا اس لئے کہ حج کے اندر یہی دونوں قربانیاں نسک ہیں، باقی قربانیاں نسک نہیں کہلاتی ہیں۔ اس لئے کہ حج کے دوران ان کا وجوب کسی کمی کی تلافی یا جرم کی سزا کے طور پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر ان کا وجوب بنیادی طور پر عبادت کے سلسلے میں نہیں ہوتا۔ جبکہ ظاہر قول ہے (جعلنا منسکا ھم ناسکوہ) اس امر کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ شروع ہی سے عبادت کا ایجاب ہوا ہے۔ آیا قربانی واجب، سنت یا مستحب ہے ؟ سلف اور فقہاء مصار کے مابین اضحیہ یعنی عید قربان کے موقع پر کی جانے والی قربانی کے وجوب کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ شعبی نے ابو سریحہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو دیکھا تھا کہ یہ حضرات قربانی نہیں دیتے تھے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت بن عباس انہیں عید قربان کے دن دو درہم دے کر گوشت خریدنے کے لئے بھیج دیتے اور فرماتے کہ راستے میں جو شخص تم سے ملے اس سے کہہ دینا کہ یہ ابن عباس کا اضیحہ ہے۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ قربانی کوئی لازمی چیز نہیں ہے البتہ سنت اور نیکی ہے۔ حضرت ابو مسعود نصاری کہا کرتے تھے کہ میں خوشحال ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، اس کی وجہ صرف یہ اندیشہ ہے کہ کہیں میرے پڑوسی سے دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ قربانی مجھ پر لازم ہے۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ مسافر کے سوا دوسروں پر قربانی واجب ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ لوگ جب موجود ہوتے یعنی مقیم ہوتے تو قربانی کرتے اور اگر مسافر ہوتے تو قربانی نہ کرتے ۔ یحییٰ بن الیمان نے سعید بن عبدلاعزیز سے اور انہوں نے محکول سے روایت کی ہے کہ قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جو لوگ مقیم اور خوشحال ہوں خواہ وہ شہری باشندے ہوں یا دیہاتی ، ان پر قربانی واجب ہے ۔ مسافروں پر واجب نہیں۔ خواہ مسافر خوشحال ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں یسار یعنی خوشحالی کی حدود ہے جس پر پہنچ کر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابو یوسف سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ امام ابو یوسف سے ایک اور روایت کے مطابق قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ تمام لوگوں پر خواہ وہ مقیم ہوں یا مسافر قربانی ہے ۔ جس شخص نے بلا عذر قربانی نہ کی اس نے بہت برا کیا۔ سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ سفیان نے یہ بھی کہا ہے کہ قربانی نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عبداللہ بن الحسن کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو قربانی کا جانور دے دے تو میرے نزدیک اس کا یہ فعل قربانی دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان آراء پر ابوبکر جصاص رائے زنی کرتے ہئے کہتے ہیں کہ جو لوگ قربانی کے وجوب کے قائل ہیں وہ آیت زیر بحث سے استدلال کرتے ہیں نیز قول باری (قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے) سے بھی ان کا استدلال ہے۔ یہ آیت اضحیہ کے امر کی مقتضی ہے اس لئے کہ اس مقام پر نسک سے اضحیہ یعنی عید قربان پر دی جانے والی قربانی مراد ہے ۔ اس س پر سعید بن جبیر کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمران بن حصین سے کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ سے فرمایا تھا (یا فاطمۃ اشھدی اضحیتک فانہ یغفرلک یا ول قطرۃ من دمھا کل ذنب عملتیہ و قولی (ان صلوتی ونسکی ومعیای و مسماتی للہ رب العالمین) اے فاطمہ ! اپنی قربانی کو ذبح ہوتا ہوا دیکھو اس لئے کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس وقت یہ پڑھو (بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موث سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ) ایک روایت کے مطابق حضرت علی قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہی آیت تلاوت کرتے تھے۔ حضرت ابوبردہ بن نیار نے عید قربان کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول ! میں نے اپنے نسک یعنی قربانی کے سلسلے میں تعجیل کرلی ہے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشراد ہے (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج کے دن ہماری پہلی عبادت نماز ہے اور اس کے بعد قربانی ہے) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نسک سے کبھی اضحیہ بھی مراد ہتا ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات قول باری (وبذلک امرت اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے) سے معلوم ہوتی ہے اور امر ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ اس بارے میں قول باری (فصل لربک وانحو پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو ) سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس آیت میں نماز سے نماز عید اور نحر سے قربانی مراد ہے۔ امر وجوب کا مقتضی ہوتا ہے جب ایک چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب ہوگئی تو وہ ہم پر بھی واجب ہوگی۔ کیونکہ قول باری ہے (فاتبعوہ اس کی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرو) نیز ارشاد ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لئے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے) روایات کی جہت سے قربانی کے وجوب کے قائلین اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو زید بن الحساب نے عبداللہ بن عیاش سے نقل کی ہے۔ انہیں اعرج نے حضرت ابوہریرہ سے انہوں نے کہا کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کان لہ یسار فلم یضح فلا یقرین مصلانا جس شخص کو وسعت اور فراخی میسر ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو زید بن الحساب کے علاوہ ایک جماعت نے مرفوعاً روایت کی ہے جس میں یحییٰ بن سعید بھی شامل ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عباس بن الولید نے، انہیں الہیشم خارجہ نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبداللہ بن عیاش سے، انہوں نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من قدر علیٰ سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نماز گاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو یحییٰ بن یعلیٰ نے بھی مرفوعاً روایت کی ہے۔ ہمیں نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے انہیں احمد بن النعمان الفراء نے ، انہیں یحییٰ بن یعلی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے یا عباس نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من وجد سعۃ فلم یضع فلا یقربن مسجدنا ) جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے) اسی حدیث کو عبید اللہ بن ابی جعفر نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ ” جس شخص کو کشائش اور فراخی میسر ہو اور وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ “ ایک قول کے مطابق عبید اللہ بن ابی جعفر ضبط حدیث اور جلالت روایت میں ابن عیاش سے بڑھ کر ہیں۔ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ پر موقوف کیا ہے، اسے مرفوعاً بیان نہیں کیا۔ ایک قول کے مطابق اس بارے میں درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ پر جا کر موقوف ہوگئی ہے۔ قربانی کا حکم باقی ہے اور عتیرہ منسوخ ہے اضیحہ کے ایجاب پر ابور رملہ الحنفی کی حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہ حدیث انہوں نے مخنف بن سلیم سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (علی کل اھل بیت فی عامر اضحیۃ وعتیرۃ ہر خاندان پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عتیرہ بالاتفاق منسوخ ہ، اس کی صورت یہ تھی کہ لوگ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے پھر بکری ذبح کرتے اسے رجبیہ بھی کہتے ہیں۔ ابن سیرین اور ابن عون دونوں اس پر عمل پیرا رہے۔ عتیرہ تو بالانفاق منسوخ ہے لیکن اضحیہ کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اس حدیث کے مقتضی کی روشنی میں یہ واجب ہے تاہم اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ ہر خاندان پر ایک قربانی ہے یہ بات تو معلوم ہے کہ ایک واجب قربانی پورے خاندان کے لئے کافی نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک فرد کی طرف سے ادا ہوتی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے۔ قربانی کے ایجاب کے قائلین اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں احمد بن ابی عون البزوری نے ، انہیں ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہیں ابو اسماعیل المودب نے مجالد سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر اور حضرت براء بن عازب سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید قربان کے دن منبر پر ارشاد فرمایا (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ بح بعد الصلوۃ جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی ہے وہ اب نماز کے بعد قربانی کرے) یہ سن کر حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوگئے اور عرض کیا ” اللہ کے رسول ! میں نے پہلے ہی جانور ذبح کرلیا تھا خیال یہ تھا کہ جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر آئیں گے تو دوستوں کے ساتھ مل کر گوشت کھائیں گے۔ آپ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا (لیس منک تمہاری قربانی نہیں ہوئی) انہوں نے پھر عرض کیا۔” میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے۔ “ آپ نے فرمایا۔” اس کی قربانی دے دو ، تمہاری طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی طرف سے اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی۔ ‘ ‘ اس روایت سے کئی وجوہ کی بنا پر قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ حج بعد الصلوۃ) اس میں ذبح کا حکم ہے جس کا ظاہر وجوب کا مقتضی ہے ۔ دوسری وجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک ولا تجزی عن غیرک) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس بکری کے بچے کی قربانی کے ذریعے تمہاری قربانی ادا ہوجائے گی اس لئے کہ محاورہ ہے ” جزی عنی کذا “ جس کے معنی ہیں۔” اس نے میری طر ف سے فلاں چیز ادا کردی “ اور ادائیگی واجب چیز کی ہوتی ہے یہ بات وجوب کی مقتضی ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں (فمن ذبح قبل الصلوۃ فلیعد اضحیۃ جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی دی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے) بعض طرق میں یہ ذکر ہے آپ نے حضرت ابوبردہ سے فرمایا (اعد اضحیتک اپنی قربانی دوبارہ کرو) جو حضرات اس بات کو تسلیم نہیں کرتے وہ یہ کہتے ہیں کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ وشھد معنا فلیذبح جس شخص نے ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھی اور ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا وہ قربانی کرے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ سب کے نزدیک قربانی کے وجوب کا نماز میں شمولیت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ جب یہ بات سب کے لئے عام ہے اور اس میں مال داروں کی تخصیص نہیں ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدب اور استحباب مراد لیا ہے۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک بکری کے بچے کی قربانی تمہاری طرف سے ادا ہوجائے گی) تو اس سے آپ سے آپ نے اس عبادت کا جو ازمراد لیا ہے۔ جو از اور قضاء یعنی ادائیگی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جواز قربت یعنی عبادت کا جواز اور دوسرا جواز فرض۔ لفظ جواز اور قضاء کا اطلاق ظاہراً وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابو بردہ نے نذر کے طور پر اپنے اوپر قربانی واجب کرلی ہو۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دوبارہ قربانی دینے کا حکم دیا ۔ اس لئے آپ نے جن الفاظ کے ذریعے حضرت ابوبردہ کو خطاب کیا ہے وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ ایک معین شخص کے لئے حکم تھا ہر شخص پر عموم لفظ کے ذریعے قربانی کا ایجاب نہیں تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر واجب کی ادائیگی مراد لیتے تو آپ حضرت ابوبردہ سے اس قربانی کی قیمت ضرور پوچھتے تاکہ ان پر اس کے مثل کا ایجاب ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابوبردہ نے یہ عرض کیا تھا کہ ” میرے پاس بکری کا بچہ ہے جس میں دو بکریوں سے زیادہ گوشت ہے۔ “ اس طرح بکری کا بچہ اس جانور سے بہتر تھا جو انہوں نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا تھا۔ قربانی کے وجوب پر نظر اور قیاس سے استدلال کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر کی صورت میں قربانی لازم ہوجاتی ہے۔ اگر وجوب کے حکم کے اندر قربانی کے لئے اصل موجود نہ ہوتی تو نذر کی بنا پر یہ ہرگز لازم نہ ہوتی جس طرح دوسری تمام چیزوں کا حکم ہے کہ اگر وجوب کے حکم کے اندر ان کی اصل موجود نہ ہو تو وہ نذر کی بنا پر واجب نہیں ہوتیں۔ قربانی کے وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسے جابر الحنفی نے نقل کی ہے انہوں نے ابو جعفر سے اس کی روایت سے کی ہے وہ کہتے ہیں۔ اضحیہ نے ہر اس ذبح کو منسوخ کردیا جو اس سے قبل ہوتی تھی، زکوۃ نے ہر اس زکوۃ کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے ادا کی جاتی تھی۔ رمضان کے روزے نے ہر اس روزے کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے رکھا جاتا تھا اور غسل جنایت نے ہر اس غسل کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے عمل میں آتا تھا۔ “ یہ بات اضحیہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے ماقبل کی قربانی کی تمام صورتیں منسوخ ہوگئیں۔ اس کی وجہ سے جو چیز منسوخ ہوئی ہے وہ واجب کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہر وہ حکم جس کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہو کہ یہ اپنے ماقبل کے لئے ناسخ ہے وہ فرض یا واجب ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے نزدیک وجوب پر دلالت نہیں کرتی، اس لئے کہ واجب کا نسخ دراصل وجوب کی مدت کا بیان ہوتا ہے۔ جب نسخ کے ذریعے یہ بیان کردیا جائے کہ ایجاب کی مدت اس وقت تک کے لئے تھی تو اس میں ایسی بات نہیں پائی جائے گی جو کسی اور حکم کے ایجاب کی مقتضی بن سکتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے کہ تم لوگوں سے عتیرہ (رجب کے مہینے میں ذبح ہونے والی بکری) اور عقیقہ بچے کی پیدائش کے سات دن بعد ذبح کیا جانے والا جانور) نیز دوسرے تمام ذبائح کا حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اس ارشاد میں کسی اور ذبیحہ کے وجوب پر دلالت نہ ہوتی۔ اس بنا پر درج بالا قول میں کہ ” اضحیہ نے ماقبل کے ہر ذبیحہ کو منسوخ کردیا ہے۔ “ اضحیہ کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس مقام پر نسخ کے ذکر کا فائدہ صرف یہ ہے کہ جب ہمیں اضحیہ کی ترغیب دلائی گئی تو اس کے بعد اب کوئی واجب ذبیحہ باقی نہیں رہا۔ قربانی کے وجوب کی نفی پر اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں عبدالعزیز بن الخطاب نے، انہیں مندل بن علی نے ابوحباب سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاضحی علی فریضۃ وھو علیکم سنۃ قربانی مجھ پر فرض ہے لیکن تمہارے لئے سنت ہے) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں سعید بن محمد ابو عثمان الا نجدانی نے، انہیں الحسن بن حماد نے، انہیں عبدالرحیم بن سلیم نے عبداللہ بن محرز سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بالاضحی والو ترولم تعزم علی۔ مجھے قربانی کرنے اور وتر پڑھنے کا حکم ملا ہے لیکن یہ مجھ پر لازم نہیں کئے گئے ہیں۔ ) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن علی بن العباس الفقیہ نے، انہیں عبد اللہ بن عمر نے۔ انہیں محمد بن عبدالوارث نے، انہیں ابان نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (ثلاث ھن علی فریضۃ ولکم تطرع الاضحی والو تر والضحی تین باتیں میرے لئے فرض ہیں اور تمہارے لئے نفل ہیں۔ قربانی، و تر کی نماز اور چاشت کی نماز) ان روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی ہم پر واجب نہیں ہے۔ تاہم اگر روایات میں کسی حکم کی نفی اور اثبات میں تعاضر ہوجائے تو اثبات و ایجاب کی روایات اولیٰ ہوں گی۔ ان پر دو وجوہ کی بنا پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا۔ ایک تو یہ کہ اباحت ترک پر ایجاب وارد ہوتا ہے دوسری یہ کہ ایجاب کی روایات میں ترک کی ممانعت ہے اور نفی کی روایات میں ترک کی اباحت ہے اور ممانعت اباحت اولیٰ ہوتی ہے۔ نفی وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ہارون بن عبداللہ نے ، انہیں عبداللہ بن یزید نے، انہیں سعید بن ایوب نے، انہیں عیاش القتبانی نے عیسیٰ بن ہلال ا لصدفی سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بیوم الاضحی عیداً جعلہ اللہ لھذہ الا مۃ مجھے عید قربان کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کیا ہے) ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا۔” اگر میرے پاس صرف ایک اونٹنی ہو جو مجھے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لئے ملی ہو تو آیا میں اس کی قربانی کر دوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” نہیں، اگر تم اپنے بال اتروا لو، ناخن ترشوا لو، مونچھیں کتروا لو اور موئے زیر ناف صاف کرلو تو اللہ کے نزدیک اس سے تمہاری قربانی کی تکمیل ہوجائے گی۔ “ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالا امور کو بمنزلہ اضحیہ قرار دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اضحیہ واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان افعال کو سرانجام واجب نہیں ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ابراہیم بن موسیٰ الرازی نے ، انہیں عیسیٰ نے ، انہیں محمد بن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب سے، انہوں نے ابو عیش سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر کو دو خوبصورت خصی شدہ اور سینگوں والے مینڈھے ذبح فرمائے۔ جب آپ نے ذبح کرنے کے لئے ان دونوں کو لٹایا تو یہ دعا پڑھی (انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض علی ملۃ ابراہیم حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا اول المسلمین، اللھم منک ولک عن محمد و امتہ باسم اللہ واللہ اکبر۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ملت ابراہیمی پر ہوں سب سے یک سو ہو کر، میں مشرکین میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زنگدی اور میری موت سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اطاعت کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ ! یہ تیری ہی طرف سے عطا ہوئی ہے اور تیرے ہی لئے ہے، یہ قربانی محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اور اس کی امت کی طرف سے ہے، اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ سب سے بڑا ہے ) اس کے بعد آپ نے دونوں جانوروں کو ذبح کردیا۔ ان حضرات کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ غیر واجب ہے اس لئے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو ایک مینڈھا پوری امت کی طرف سے قربانی کے لئے کافی نہ ہوتا۔ ابوبکر جصاص اس استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات وجوب کی نفی نہیں کرتی۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کی طرف سے تطوع اور رضا کارانہ طور پر یہ قربانی دی تھی اور یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص جس پر قربانی واجب ہو اس کی طرف سے کوئی رضا کارانہ طور پر قربانی دے دے جس طرح ایک شخص جس پر قربانی واجب ہوتی ہو اگر وہ نفلی قربانی دے گا تو اس کی یہ قربانی جائز ہوگی لیکن یہ چیز اس پر لازم شدہ قربانی کے وجوب کو ساقط نہیں کرے گی۔ ہم نے سلف سے قربانی کے ایجاب کی نفی میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان سے دو وجوہ کی بنا پر فنی وجوب پر استدلال ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس سے نفی وجوب کے خلاف روایت منقول ہو، جبکہ ان حضرات سے ہماری مذکورہ نفی ایجاب کی روایتیں پوری طرح پھیلی ہوئی اور مشہور تھیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو لوگوں کو اس حکم کی عمومی طور پر ضرورت ہوتی جس سے یہ بات لازم ہوجاتی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے صحابہ کرام کو اس کے وجوب کے حکم سے ضرور آگاہ کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے صحابہ کرام کو آگاہ کردیا جاتا تو یہ حکم استفاضہ اور تواتر کی صورت میں امت کے اندر نقل ہوتا اور کچھ نہ ہوتا تو کم از کم اس حکم کی روایت اسی درجے کی ہوتی جس درجے کی صدقہ فطر کے حکم کی روایت ہے اس لئے کہ لوگوں کو عمومی طور پر اس حکم کے جاننے کی ضرورت تھی۔ جب امت کے اندر استفاضہ کی صورت میں اس حکم کی روایت موجود نہیں ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے ۔ ا سلسلے میں یہ استدلال بھی کیا جاسکتا ہے اگر قربانی واجب ہوتی جو کہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو مقیم اور مسافر کا حکم یکساں ہوتا ۔ اس کا وجوب دونوں پر ہوتا جس طرح صدقہ فطر کا وجوب دونوں پر ہے۔ لیکن جب امام ابوحنیفہ مسافر پر اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ یہ سرے سے واجب نہیں ہے۔ ایک استدلال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر یہ واجب ہوتا جبکہ یہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو وقت کا گزر جانا اس کے وجوب کو ساقط نہ کرسکتا۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایام النحر گزر جانے کے ساتھ قربانی ساقط ہوجاتی ہے تو یہ امر اس کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ ایسے تمام حقوق جو مال کے اندر واجب ہوتے ہیں مثلاً زکوۃ، صدقہ فطر اور عشر وغیرہ وہ وقت کے گزر جانے کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) کیوں کہ ہم نے ہر ایک دین والے کے لیے ذبح اور یہ کہ عبادت کا طریقہ متعین کردیا ہے وہ اپنے دین کے طریقہ پر ذبح کیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ہُمْ نَاسِکُوْہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ ) ” یعنی بنی اسرائیل کے لیے قربانی کا طریقہ اور تھا ‘ بنی اسماعیل کسی اور طریقے سے قربانی کرتے تھے ‘ جبکہ مسلمانوں کو ان دونوں سے مختلف طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ ہر امت کی اپنی اپنی شریعت کا معاملہ ہے ‘ اس میں جھگڑنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے آیت ٣٤ میں اس طرح آچکا ہے : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِط فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْاط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ) ” اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ بنایا ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیاکریں ان مویشیوں پر جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں۔ تو (جان لو کہ) تمہارا معبود ایک ہی ہے ‘ چناچہ تم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بشارے دے دیجیے عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115. That is, the community of every Prophet. 116. Here the Arabic word mansak has been used in its most comprehensive sense which also includes sacrifice (verse 34). It means service, worship, in short, the entire way of life. The same theme has been expressed in (Surah Al-Maidah, Ayat 48): We prescribed a law and a way of life for each of you. 117. That is, now you have brought a way of life just as the former Prophets brought ways of life for their people. Therefore the people have no right to dispute with you concerning the law you have brought. 118. This confirms the explanation given in( E.N. 117) above.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :115 یعنی ہر نبی کی امت ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :116 یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے ۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ قربانی کا قاعدہ کیا گیا تھا ، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں اس کے وسیع معنی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا ۔ لیکن یہاں اسے محض قربانی کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر پرستش کے بجائے بندگی کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا ۔ اس طرح منسک ( طریق بندگی ) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں ، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہوگا جو سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً ، ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ( آیت 48 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :117 یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک منسک لائے تھے ، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو ۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے ۔ سورہ جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ( آیت 18 ) پھر ( انبیاء بنی اسرائیل کے بعد ) اے محمد ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت ( طریقے ) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ ( مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ 20 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :118 یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: بعض لوگ اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکام دئیے ہیں، ان میں سے کچھ ان احکام سے مختلف ہیں جو پچھلے انبیائے کرام کی امتوں کو دئیے گئے تھے اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے یعنی مختلف انبیائے کرام کی شریعتوں میں اللہ نے عبادت کے مختلف طریقے مقرر فرمائے تھے اور ہر دور کے مناسب شریعت کے مختلف احکام دئیے تھے۔ لہذا اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے کچھ احکام پچھلی شریعتوں سے الگ ہیں تو اس میں نہ کوئی اعتراض کی بات ہے، اور نہ بحث مباحثے کا کوئی موقع۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧۔ ٧٠:۔ چند مشرکوں نے صحابہ (رض) سے جھگڑا کیا تھا کہ تم اپنے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور کھاتے ہو اور اللہ کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ مفسروں نے ان آیتوں کے معنی دو طرح بیان کئے ہیں ‘ ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہر زمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک شریعت قائم کی ہے ‘ کبھی شریعت موسوی ہے اور کبھی عیسوی اور کبھی محمدی ‘ اپنے اپنے زمانے میں ہر شریعت حق اور اللہ کی بھیجی ہوئی ایک شریعت ہے ‘ ایک شریعت کا حکم پکڑ کر دوسری شریعت کے حکم میں حجت کرنا ٹھیک نہیں ہے دوسرے معنی یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ کے علم میں نیک وبد چھٹ چکے ہیں اس لیے ہر ایک گروہ اپنی تقدیری خو اور عادت پر اڑا ہوا ہے۔ مسئلہ تقدیر کی عمدہ تحقیق : غرض اس دوسرے معنی میں اللہ کے علم غیب کا اور اللہ کے اس علم غیب کے موافق جو کچھ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے قرار پایا ہے اس کا ذکر ہے اسی کو تقدیر کہتے ہیں ‘ آگے کی آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے اس لیے دوسرے معنی قرآن کے مطلب کے موافق ہیں ‘ یہ تقدیر الٰہی اور علم الٰہی کا مسئلہ ایسا مشکل ہے کہ اس میں بہت لوگ بہک گئے ہیں اور طرح طرح کی غلطی میں پڑگئے ہیں ‘ چناچہ فلسفی لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جزئیات کا علم نہیں اور اپنے اس قول پر دلیل انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ جزئی چیزیں بدلتی رہتی ہیں ‘ مثلا کبھی زید بھوکا ہے ‘ کبھی پیاسا ہے ’ کبھی بچپنے کی حالت میں ہے کبھی بڑھاپے کی حالت میں اگر زید کی ان سب حالتوں کا علم اللہ تعالیٰ کو ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا علم بھی ہمیشہ گویا بدلتا رہے گا کیونکہ علم کی حالت بدلنے سے عالم کی حالت بھی بدل جاتی ہے علماء اسلام نے بہت آیتوں اور حدیثوں سے فلسفیوں کی عقلی دلیلوں کو غلط ٹھہرایا ہے اور عقلی جواب بھی دیئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر جزئی حالت کو پیدا کرنے سے پہلے جان کر لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے علم کی نسبت یہ کہنا کہ علم کی حالت بدلنے سے عالم کی حالت بھی بدل جاتی ہے بالکل غلط ہے کس لیے کہ علم کی حالت بدلنے سے اس عالم کی حالت بدل جاتی ہے جو عالم اس حالت کو پہلے سے نہ جانتا ہو ‘ اللہ تعالیٰ کا علم ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک گھڑی ساز ایک گھڑی کی عمر اور طرح طرح کی گھڑی کی حالت کو پہلے سے ذہن میں رکھ کر ایک گھڑی بنادے ‘ اب اس گھڑی کے تیار ہونے کے بعد اس گھڑی کی جس قدر حالتیں بدلیں گی ‘ ان سے اس گھڑی ساز کی حالت اس کے علم کی حالت کچھ نہ بدلے گی ‘ اس نے ان سب حالتوں کو پہلے ہی سے جان لیا ہے ‘ ہاں سوا اس گھڑی ساز کے اور لوگ جو اس گھڑی کا حال پہلے سے نہیں جانتے ‘ اس گھڑی کے نئے حال کے جاننے سے ان کے علم کی حالت اور خود ان کی حالت بدلے گی۔ اب اس مثال میں گھڑی ساز کے علم کی حالت اور اور لوگوں کی حالت کو ایک بتلانا جس طرح غلط ہے اسی طرح فلسفی لوگوں نے مخلوق کے علم کی حالت اور خالق کے علم کی حالت کو ایک جان کر ایک حالت کی جو دوسری حالت پر قیاس کیا ہے ‘ وہ بالکل غلط ہے ‘ یہ تو علم الٰہی میں فلسفی لوگوں نے جو غلطی کی ہے اس کا ذکر ہوا۔ اب تقدیر کے مسئلہ میں جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں نے غلطی کی ہے ‘ قدریہ لوگوں میں دو گروہ ہیں ایک گروہ تو تقدیر کو بالکل نہیں مانتا ‘ بلکہ یہ کہتا ہے کہ پہلے سے اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں لکھا ‘ بلکہ اب جو کچھ نیک وبد دنیا میں ہوتا ہے وہ بغیر اللہ کے پہلے سے لکھنے کے خود بندہ کرلیتا ہے ‘ دوسرا گروہ نیکی کو خدا کا فعل بتلاتا ہے اور بدی کو بندہ کا فعل کہتا ہے یہ عقیدہ پارسی لوگوں کے عقیدہ کے موافق ہے اسی واسطے قدریوں کے اس گروہ کو اس امت کے مجوس کہتے ہیں جبریہ فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ بندہ کو اپنے فعل میں کچھ دخل نہیں ہے بلکہ وہ بمنزلہ ایک پتھر کے ہے ‘ جو کچھ نیک و بد کام بندہ کرتا ہے ‘ وہ خود خدا کرتا ہے ‘ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں امتحان کے لیے نیک وبد سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور بندہ کو ہر طرح کے فعل کا مختار کیا ہے ‘ جیسا کہ بندہ کرے گا ‘ ویسا ہی پھل پاوے گا اور علمائے اہل سنت نے جبریہ اور قدریہ دونوں مذہب کے لوگوں کی غلطیاں حدیث کی شرحوں اور عقائد کی کتابوں میں نقلی اور عقلی دلیلوں سے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ یہاں ان کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ حکم اور عمرہ کی قربانی کے وقت اور روز مرہ جانوروں کے ذبح کے وقت جو لوگ مردار جانوروں کا گوشت جائز ٹھہرانے کے لیے یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ مسلمان غلطی پر ہیں جو اللہ کے مارے ہوئے جانور کا گوشت نہیں کھاتے اور اپنے ہاتھ کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھاتے ہیں اور لوگوں کی ایسی حجتیں پیش کرنے کا سبب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ہر فرقہ کا طریقہ لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے اس کے موافق دنیا میں ہر فرقہ کا طریقہ پایا جاتا ہے ‘ اس واسطے اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں کو ذبح کے باب میں اللہ کا حکم سنا دو کیونکہ جس طریقہ پر تم ہو وہ اللہ کا بتایا ہوا سیدھا راستہ ہے اور جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ بےسند طریقہ ہے اس پر بھی جو لوگ جھگڑے سے باز نہ آویں تو ان لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو ہو کر اس فیصلہ کے بعد حق ونا حق ہر ایک کو معلوم ہوجاوے گا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو غیب کا علم نہیں ہے اس واسطے دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے تمام دنیا کا قیامت کے حال کا لوح محفوظ میں لکھا جانا ان کو مشکل معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس لیے دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ دینا اس کے نزدیک آسان ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے کس قدر مدت پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:67) منسکا۔ شریعت۔ طریق عبادت ۔ قربانی کرنا۔ (یا قربانی کرنے کا طریقہ) (نیز ملاحظہ ہو 22:34) ناسکوہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ ناسکو اصل میں ناسکون تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون گرادیا گیا۔ نسک ینسک (باب نصر) سے اسم فاعل جمع مذکر۔ عبادت یا شریعت کے طریقہ پر چلنے والے۔ خدا کے لئے قربانی کرنے والے۔ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع منسکا ہے۔ ہم ناسکوہ جس پر وہ چلنے والے ہیں۔ فلا ینازعنک۔ فعل نہی جمع مذکر غائب بانون ثقیلہ۔ منازعۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تجھ سے جھگڑا نہ کریں۔ سوا نہیں نہ چاہیے کہ تجھ سے جھگڑا کریں۔ فی الامر۔ ای فی امر الدین۔ دین کے بارہ میں ۔ دین کے معاملہ میں۔ یا فی امر الذبائح (خازن) ذبیحہ کے معاملہ میں۔ بدیل بن ورقائ۔ بشر بن سفیان ۔ یزید بن خنیس۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے جھگڑتے تھے کہ یہ کیا بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے مارے ہوئے کو تو کھالیتے ہو اور خدا کے مارے ہوئے (مردہ) کو نہیں کھاتے۔ حکم ہوتا ہے کہ تم ان سے ان فضول باتوں پر جھگڑا مت کرو۔ ھدی۔ ھدایۃ سے ہدایت، رہنمائی ھو علی ھدی۔ وہ سیدھی راہ پر ہے۔ انک لعلی ھدی مستقیم۔ علی حرف جار۔ ھدی موصوف۔ مستقیم صفت۔ موصوف صفت مل کر مجرور۔ بیشک آپ سیدھی راہ پر ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ چناچہ توراۃ کی شریعت اس زمانہ والوں کے لئے مقرر کی۔ پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لوگوں کیلئے انجیل شریعت چلتی رہی اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لئے قرآن و سنت کی شریعت مقرر رہے گی۔ (شوکانی) 14 ۔ کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا زمانہ ہے انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جھگڑنے کی پروا نہ کریں (شوکانی) 15 ۔ اب سیدھا راستہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لو نزل موسیٰ فاتعتموہ و ترکتمو فیلضللتم۔ اگر موسیٰ ( علیہ السلام) بھی نازل ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجائو۔ (الجامع الصغیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 67 تا 72 : امۃ (امت۔ جماعت) ‘ منسکا (طریقہ عبادت و بندگی) ‘ ناسکون (وہ اس (طریقہ) پر عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کرنے والے) ‘ ینازعن (وہ جھگڑا کرتے ہیں) ‘ ادع (بلائیے۔ دعوت دی جئے) ھدی (ہدایت) ‘ جادلو (وہ جھگڑنے والے ہیں) ‘ یسیر (آسان) ‘(لم ینزل ( نہیں اتارا) ‘ سلطان (سند۔ دلیل) ‘ المنکر (ناگوار) ‘ یکادون (وہ قریب ہوتے ہیں) ‘ یسطون (وہ حملہ کرتے ہیں) ‘ انبئی (میں بتاتا ہوں) ۔ تشریح : آیت نمبر 67 تا 72 : اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے رسول بھیجے انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنی امتوں کو طریق عبادت سکھایا۔ خاتم الانبیا حضرت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اللہ نے عبادت کے طریقے سکھائے تاکہ ساری دنیا کے مسلم ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں اور ان کی زندگی کے ہر کام میں ایسا خلوص پیداہو جائے جس سے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوجائے۔ اللہ کو یاد کرنے کے یہ طریقے مختلف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق رہا ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہوجائے۔ اللہ کو یاد کرنے کے یہ طریقے مختلف ضور ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق رہا ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہوئی ہے۔ لہٰذا جب اس بات کو بنیاد بنا لیاجائے گا تو پھر کسی طرح کا اختلاف نہ رہے گا۔ لیکن اختلاف جس عبادت میں ہوتا ہے وہ طریقہ بندگی ہے جس میں غیر اللہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ جب وہ لوگ غیر اللہ کی عابدتو بندگی میں شریک کرنے لگتے ہیں تو اس کے ماننے والوں کے سامنے اگر غیر اللہ کی عبادت و بندگی سے منع کیا جاء تو وہ اپنے بےحقیقت معبودوں اور ان شخصیتوں کے خلاف سننے کو تیار ہیں ہوتے جو ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں۔ جب وہ علمی بات کا جواب علم و دلیل کی روشنی میں دینے سے اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں جو حق و صداقت کے علم بردارہوتے ہیں اور وہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنی ساری صلاحیتوں کو لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اللہ نے ہر (رسول کی) امت کو ایک طریق عبادت و بندگی عطا کیا تھا اور اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عطا کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اختلاف کرنے او جھگڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے کیونکہ اللہ اس بات پر گواہ ہے کہ آپ بالکل سیدھے اور سچے راستے پر ہیں۔ اگر پھر بھی وہ اختلاف کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے اللہ تمہارے کرتوتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ قیامت دور نہیں ہے اس دن اس بات کا بھی فیصلہ کردیا جائے گا کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا ایک ذرہ بھی اس کی نگاہوں سے چھپا ہوا یا پوشیدہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر بات اللہ کے ریکارڈ میں موجود ہے جس کو ریکارڈ کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا اللہ کے لئے ذرا بھی مشکل یا دشوار نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں ‘ چیزوں ‘ اور شخصیتوں کی) عبادتو بندگی کر رہے ہیں نہ تو اللہ نے اس کے لئے کوئی دلیل اور نشانی بھیجی ہے اور نہ اس کی کوئی علمی بنیاد ہے ایسے بےانصاف لوگوں کا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہے۔ ان کا یہحال ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ ان کے سامنے اللہ کی آیات کو پوھتے اور سناتے ہیں تو ان کافروں کی تیوریوں پر بل پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اس سچی اور حقیقی بات کو سن کر اس کا ٹھوس جواب نہیں دے سکتے تو آگ بگولا ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سچائی بتانے والوں پر حملہ کرکے ان کو تباہ وبرباد کردیں گے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں سے جو آیات قرآنی کو سننا گوارا نہیں کرتے کہہ دیجئے کہ مرنے کے بعد سب سے بد ترین ٹھکانا اور بدترین آگ جہنم کی آگ ہے۔ تمہاری دشمنی تمہیں آخرکار اس آگ میں جھونک دے گی۔ اور اس طرح اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کررہے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ صحیح رستہ والے کو حق ہوتا ہے غلط رستہ والے کو اپنی طرف بلانے کا، اور غلط رستہ والے کو یہ حق نہیں ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے دلائل دے کر اپنی توحید سمجھا دی ہے۔ اس کے باوجود کوئی شخص توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو اس کی مرضی کیونکہ ہر کسی کے لیے گمراہی اور ہدایت کا راستہ متعین ہوچکا ہے۔ یہود و نصاریٰ ہر اس بات پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں جو ان کی شریعت کے خلاف ہے۔ اس پر انھیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ جہاں تک دین کے بنیادی اصولوں کا معاملہ ہے وہ تو ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ لیکن ہر دور کے حالات کے مطابق شریعت یعنی دین کے کچھ اصولوں کی تشریح میں فرق رہا ہے۔ جس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو دین پر عمل کرنا آسان رہے۔ اسی وجہ سے پہلی شریعتوں کے ساتھ شریعت محمدیہ کا بعض معاملات میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ بعض شریعتوں میں بیک وقت دو بہنوں سے نکاح کرنا جائز تھا لیکن شریعت محمدی میں حرام ہے، پہلے انبیاء پر مال غنیمت حرام تھا، امت محمدی کے لیے جائز قرار پایا، پہلی امتوں کے لوگ صرف اپنے عبادت خانوں میں ہی نماز ادا کرتے ان کے علاوہ کسی اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، لیکن مسلمانوں کے لیے بوقت نماز مسجد میں جانا ممکن نہ ہو جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں۔ پہلی شریعتیں بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں تھیں اور شریعت محمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اگر یہود و نصاریٰ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو اے پیغمبر ! ان لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے کی بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے اور آپ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں یقیناً آپ ہی صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ اگر لوگ پھر بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتے تو آپ یہ فرما کر ان سے الگ ہوجائیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی اچھی طرح جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ وہی قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے مابین بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے ایک شریعت مقرر کی تھی۔ ٢۔ پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اب شریعت محمدیہ پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔ ٣۔ حقیقت جاننے کے باوجود لوگ حق کے بارے میں جھگڑا کریں تو انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ صادر فرمائیں گے : ١۔ اللہ مردوں کو اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ : ٦ تا ١٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٤۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس : ١٠٩) ٥۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ١) ٦۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ (البقرۃ : ١١٣) ٧۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لکل امۃ جعلنا ……اللہ یسیر (٩٦) ہر قوم اور ہر امت کا ایک منہاج فکر ، منہاج عقیدہ اور ایک منہاج عمل اور ایک نظام زندگی ہوتا ہے۔ یہ نظام ان قوانین کے تابع ہوتا ہے جو اللہ نے انسانوں کے اندر جاری کئے ہیں جن کے مطابق انسان ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور بعض چیزوں کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ قوانین تخلیقی قوانین ہیں اور اللہ نے پیدائش کے وقت سے انسان کے اندر ان کا داعیہ رکھا ہے۔ جو امت دل کھول کر ان قوانین فطرت کو سمجھتی ہے اور ان کے مطابق اس کائنات اور نفس انسانی کے اندر دلائل ہدایت تلاش کرتی ہے ، وہ امت ہدایت یافتہ امت ہے کیونکہ وہ اس کائنات سے وہ قوانین دریافت کرلیتی ہے جس کے مطابق وہ اللہ کی معرفت اور اس کی اطاعت کے مقام تک پہنچ جاتی ہے۔ جو امت ان قوانین فطرت اور قوانین نفس سے آنکھیں بند کرلیتی ہے اور اسے ان میں خدا تک پہنچنے کی راہ نظر نہیں آتی ، وہ امت امت ضلالہ ہے اور اس نے خود اعراض کیا ہے اور سرکشی کی راہ اپنائی ہے۔ اس طرح اللہ نے ہر امت کے لئے کچھ مناسک رکھے ہیں ، جن پر وہ عمل کرتی ہے ، ایک مناج رکھا ہے جس پر وہ چلتی ہے ۔ لہٰذا مشرکین کے ساتھ مجادلہ میں اب وقت ضائع نہ کیا جائے ، کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو راہ ہدایت اختیار کرنے سے روک رہے ہیں۔ وہ مناج ضلالت میں دور تک چلے گئے ہیں لہٰذا اللہ بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان لوگوں کو اسلام کے خلاف مجادلے اور مباحثے کا موقع ملے۔ وہ تو چاہتے ہی یہ ہیں ، اے پیغمبر آپ اپنی راہ پر آگے بڑھیں۔ آپ کی راہ سیدھی ہے اور نظام مستقیم ہے۔ وادع الی ربک انک لعلی ھدی مستقیم (٢٢ : ٨٦) ” تم اپنے رب کی طرف دعوت دو ، یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔ “ آپ اپنے منہاج پر مطمئن ہوجائیں اور استقامت کے ساتھ اس پر گامزن رہیں۔ اگر کوئی آپ سے مجادلہ کرے تو بات مختصر کریں اور جہاد کا وقت آیات کلامی پر بحثوں میں ضائع نہ کریں۔ وان جدلوک فقل اللہ اعلم بما تعملون (٢٢ ، ٨٦) ” اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ کو خوب معلوم ہے۔ “ بحث و مباحثہ تب فائدہ مند ہوتا ہے کہ مخاطب ماننے کے لئے تیار ہو ، اور وہ حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہو۔ ایسے افراد کے ساتھ مباحثہ مفید نہیں ہوتا جو اپنی بات پر مصر ہوں اور وہ اس کائنات میں پائے جاین الے تمام دلائل کو جو انفس و آفاق میں موجود ہیں اور قرآن ان کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے ، یکسر رو کر کے مکابرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ کے حوالے کر دو ، یہ اللہ ہی ہے جو تمام امتوں کے طریقوں کا فیصلہ قیامت میں کرے گا۔ اللہ یحکم بینکم یوم القیمۃ فیما کنتم فیہ تختلفون (٢٢ : ٩٦) ” اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ “ اللہ وہ جج ہے جس کے فیصلے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ قیامت کے فیصلے کے لخاف تو کوئی اپیل نہ ہوگی۔ یہ تو سپریم فیصلہ ہوگا۔ اللہ علم کامل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اس کی کوئی سبب یا کوئی دلیل جھوٹ نہیں ہو سکتی۔ عمل و شعور میں سے کوئی بات اس سے مخفی نہیں رہ سکتی۔ وہ تو آسمانوں و زمین میں سب کچھ جانتا ہے اس میں لوگوں کے اعمال اور نیات سب شامل ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر امت کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کیے گئے ہیں مشرکین اور دیگر کافرین جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور آپ کے بیان فرمودہ اعتقادات اور احکام شرعیہ پر اعتراض کرتے تھے ان میں یہود و نصاری بھی تھے یہ لوگ یوں کہتے کہ یہ احکام اور اعمال ہم نے پہلے کسی سے نہیں سنے۔ آپ کی بتائی ہوئی ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا پرانی امتوں کے اعمال و احکام میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا، مقصد یہ تھا کہ جھگڑے کرتے رہیں اور انکار پر تلے رہے، اللہ جل شانہٗ نے ان لوگوں کو جواب دے دیا (لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ھُمْ نَاسِکُوْہُ ) (ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کردیئے جن کے مطابق وہ عمل کرتے تھے) اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے مالک الملک ہے آمر مطلق ہے اسے اختیار ہے کہ جس امت کو جو چاہے حکم فرمائے انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کی امتوں کو جو احکام عطا فرمائے ان کے ذمہ ان پر عمل کرنا تھا اور آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو جو احکام دیئے ان پر عمل کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی ہے، کسی مخلوق کو کوئی حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرے اور یوں کہے کہ آخری نبی جو آئے ہیں ان کی شریعت میں بہت سی وہ چیزیں ہیں جو انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کی شریعت میں نہیں ہیں۔ معاندین کو جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا (فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ ) (سو وہ اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کریں) خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مستقل شریعت لے کر تشریف لائے آپ کے تشریف لانے پر تمام احکام شرعیہ فرعیہ سابقہ منسوخ ہوگئے جو شخص آپ کے ارشاد فرمودہ احکام پر اعتراض کرتا ہے اور جھگڑا کرتا ہے اس کا اعتراض کرنا اللہ پر اعتراض ہے جو کفر در کفر ہے یہ لوگ جھگڑے بازی سے دور رہیں (وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ اِنَّکَ لَعَلٰی ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ) (اور آپ ان کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہئے بلاشبہ آپ ہدایت پر ہیں جو سیدھا راستہ ہے) مطلب یہ ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں حق کی دعوت دیتے رہیں کوئی کچھ بھی اعتراض کرے کسی کے اعتراض سے متاثر نہ ہوں اللہ کی طرف سے آپ کو ہدایت والا راستہ بتایا گیا ہے اور اس کے حق ہونے کی اللہ کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے وہ آپ کے لیے کافی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:۔ ” لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا الخ “ یہ سورت کے مضمون ثانی یعنی نفی شرک فعلی کا اعادہ ہے۔ ” مَنْسَکًا “ قربانی کی جگہ۔ قال قتادۃ و مجاھد موضع قربانی یذبحون فیہ (خازن و معالم ج 5 ص 26) ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ادیان سابقہ سے دلیل نقلی پیش فرمائی کہ محض اللہ کی رضا کے لیے ہم نے ہر شریعت میں قربانی دینے کا دستور مقرر کیا تھا اور یہ شرک فعلی جس کا مشرکین ارتکاب کرتے ہیں کسی دین میں ہم نے جائز نہیں کیا اس لیے اس معاملہ میں آپ ان کے جھگڑے کی پروا نہ کریں اور نرمی اور احسن طریق سے توحید کی دعوت دیتے رہیں کیونکہ آپ سیدھی راہ پر ہیں اور یہ مسئلہ توحید ہر پیغمبر نے اپنی امت کو واضح کر کے بتایا۔ ” وَادْعُ اِلیٰ رَبِّکَ “ الیٰ توحیدہ و عبادتہ حسبما بین فی منسکھم و شریعتھم (ابو السعود ج 6 ص 265، روح ج 17 ص 197) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(67) ہم نے سب سابقہ امتوں میں سے ہر امت کے لئے ایک طریقہ عبدت اور بندگی کی راہ مقرر کی ہے کہ وہ اس طریقہ پر عبادت کرتے ہیں لہٰذا ان کو چاہئے کہ وہ آپ سے اس کام میں جھگڑا نہ کریں اور آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے اور دعوت دیتے رہئے آپ یقیناً سیدھی راہ پر ہیں۔ سب انبیاء سابقین اصول میں متفق رہے ہیں البتہ فروع اور احکامِ شرعیہ میں ضرورت زمانہ کے اعتبار سے کچھ فرق ہوتا رہا ہے ورنہ توحید باری، قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ان سب باتوں میں تمام پیغمبروں کی ایک سی تعلیم رہی ہے۔ اسی طرح آپ کی نبوت کے زمانے میں آپ کو بھی عبادت کے کچھ طریقے تعلیم کئے گئے ہیں اس پر جھگڑا کرنے کی کیا بات ہے۔ جب یہ طریقہ امم سابقہ سے چلا آتا ہے تو اس میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور اس دین کے بارے میں الجھنا نہیں چاہئے آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہئے۔ کیونکہ آپ کی راہ سیدھی ہے اور آپ سیدھی راہ پر ہیں۔ بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر قربانی کے ساتھ کی ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض کفار نے اعتراض کیا تھا کہ مسلمان خود تو اپنے ہاتھ سے جانور کو ذبح کرکے کھاتے ہیں اور جس کو خدا مار دیتا ہے اور جو جانور اپنی موت سے مرجاتا ہے اس کو حرام کہتے ہیں اور اس کو نہیں کھاتے۔ یہ شاید بشیر بن حرث، زید بن خینس اور بدیل بن ورقاء نے مسلمانوں سے چھیڑ خانی کی تھی۔ یہ آیت ان کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قربانی کا طریقہ ہر امت میں رہا ہے اور وہ قربانی کرتے رہے ہیں تو اس میں ان کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ ان کو دین حق کی دعوت دیتے رہئے کیونکہ آپ سیدھی راہ پر ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اصل دین ہمیشہ سے ایک ہے اور احکام ہر دین میں جدا آئے ہیں۔ ہر کام کا واسطہ کیوں پوچھتے ہیں۔ 12۔ جو لوگ باوجود اس کے بھی جھگڑا کریں ان کا جواب آگے فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔