Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 71

سورة الحج

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ مَا لَیۡسَ لَہُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ ﴿۷۱﴾

And they worship besides Allah that for which He has not sent down authority and that of which they have no knowledge. And there will not be for the wrongdoers any helper.

اور یہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جس کی کوئی خدائی دلیل نازل نہیں ہوئی نہ وہ خود ہی اس کا کوئی علم رکھتے ہیں ۔ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators' worship of others besides Allah and Their vehement rejection of the Ayat of Allah Allah says: وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ... And they worship besides Allah others for which He has sent down no authority, Allah tells us that the idolators, in their ignorance and disbelief, worship besides Allah others which He has sent down no authority for, i.e., no proof or evidence for such behavior. This is like the Ayah: وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَـهَا ءَاخَرَ لاَ بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْكَـفِرُونَ And whoever calls upon, besides Allah, any other god, of whom he has no proof; then his reckoning is only with his Lord. Surely, the disbelievers will not be successful. (23:117) So Allah says here: ... مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ ... for which He has sent down no authority, and of which they have no knowledge; meaning, they have no knowledge in the subject that they fabricate lies about; it is only something which was handed down to them from their fathers and ancestors, with no evidence or proof, and its origins lie in that which the Shaytan beautified for them and made attractive to them. Allah warned them: ... وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ and for the wrongdoers there is no helper. meaning, no one to help them against Allah when He sends His punishment and torment upon them. Then Allah says:

شیطان کی تقلید بلاسند ، بغیر دلیل کے اللہ کے سوا دوسرے کی پوجا پاٹ عبادت وبندگی کرنے والوں کا جہل وکفر بیان فرماتا ہے کہ شیطانی تقلید اور باپ دادا کی دیکھا دیکھی کے سوا نہ کوئی نقلی دلیل ان کے پاس ہے نہ عقلی ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ١١٧؁ ) 23- المؤمنون:117 ) جو بھی اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو بےدلیل پکارے اس سے اللہ خود ہی باز پرس کرلے گا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے ظالم چھٹکارا پاجائیں ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہ اللہ کے کسی عذاب سے انہیں بچالے ۔ ان پر اللہ کے پاک کلام کی آیتیں ، صحیح دلیلیں ، واضح حجتیں جب پیش کی جاتی ہیں تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ اللہ کی توحید ، رسولوں کی اتباع کو صاف طور پر بیان کیا تو انہیں سخت غصہ آیا ، ان کی شکلیں بدل گئیں ، تیوریوں پر بل پڑنے لگے آستینیں چڑھنے لگیں اگر بس چلے تو زبان کھینچ لیں ، ایک لفظ حقانیت کا زمین پر نہ آنے دیں ۔ اسی وقت گلا گھونٹ دیں ، ان سچے خیرخواہوں کی اللہ کے دین کے مبلغوں کی برائیاں کرنے لگتے ہیں ۔ زبانیں ان کے خلاف چلنے لگتی ہیں اور ممکن ہو تو ہاتھ بھی ان کے خلاف اٹھنے میں نہیں رکتے ۔ فرمان ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دو کہ ایک طرف تو تم جو دکھ ان اللہ کے متوالوں کو پہنچانا چاہتے ہو اسے وزن کرو دوسری طرف اس دکھ کا وزن کرلو جو تمہیں یقینا تمہارے کفر وانکار کی وجہ سے پہنچنے والا ہے پھر دیکھو کہ بدترین چیز کون سی ہے؟ وہ آتش دوزخ اور وہاں کے طرح طرح کے عذاب ؟ یا جو تکلیف تم ان سچے موحدوں کو پہنچانا چاہتے ہو؟ گو یہ بھی تمہارے ارادے ہی ارادے ہیں اب تم ہی سمجھ لو کہ جہنم کیسی بری جگہ ہے؟ کس قدر ہولناک ہے ؟ کس قدرایذاء دہندہ ہے؟ اور کتنی مشکل والی جگہ ہے؟ یقینا وہ نہایت ہی بدترین جگہ اور بہت ہی خوفناک مقام ہے ، جہاں راحت وآرام کا نام بھی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کرسکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی کتاب میں کہیں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ اس نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ لہذا ان کاموں میں تم ان سے رجوع کرکے ان سے اپنی حاجات طلب کرسکتے ہو۔ نہ ہی انھیں کسی علمی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امور کائنات میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو بھی تصرف کا حق حاصل ہے۔ اور اس بنا پر ان کی بھی عبادت کرنا درست ہے۔ لہذا جو معبدا ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور ان سے کئی صفات اور اختیارات منسوب کردیئے گئے ہیں ان کے آستانوں پر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ نذریں، نیازیں چڑھائی جاتی ہیں بعض کے طواف اور اعتکاف تک بھی کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت جاہلانہ توہمات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ [١٠٠] یعنی اللہ تو اس لئے ان کی مدد نہیں کرے گا کہ ان ظالموں نے اللہ کے شریک بنا کر اور اللہ کو ناراض کرلیا اور ان کے معبود اس لیے مدد نہیں کرسکیں گے کہ ان میں اتنی قدرت ہی نہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے ظلم اور حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات دے رکھے ہیں، لہٰذا ان کاموں کے لیے اپنی حاجات ان سے طلب کرو اور نہ اس بات کی کوئی علمی یا عقلی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی کائنات میں اپنی مرضی چلانے کا اختیار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس سے مرادیں مانگی جائیں۔ دیکھیے سورة احقاف (٤، ٥) اور فاطر (٤٠) جب شرک کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی، تو معلوم ہوا کہ لوگوں نے جو غیر اللہ کے آستانے بنا رکھے ہیں، یا زندہ یا فوت شدہ بزرگوں کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھ کر ان کی نذریں نیازیں چڑھا رہے ہیں اور ان کی قبروں کا یا ان کے بتوں کا طواف یا ان کے سامنے قیام، رکوع یا سجود کر رہے ہیں، یا ان کے مجاور بن کر ان کا اعتکاف کر رہے ہیں، یا انھیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان سے فریادیں کر رہے ہیں تو ان کے پاس اوہام پرستی اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں، جس کا رد قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) اور مائدہ (١٠٤) ۔ وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ : عبارت کی ترتیب کے مطابق یہ الفاظ کافی تھے کہ ” وَمَا لَھُمْ مِنْ نَّصِیْرٍ “ یعنی ان کا کوئی مددگار نہیں، اس کے بجائے فرمایا ” وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ “ یعنی ظالموں کا کوئی مددگار نہیں، یعنی اللہ کی نصرت سے ان کی محرومی کا باعث ان کا ظلم (شرک) ہے کہ اللہ کا حق بندوں کو دے دیا۔ یہ احمق سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود، حاجت روا اور مشکل کشا دنیا اور آخرت میں ان کی مدد کریں گے، حالانکہ ان کی مدد کوئی نہیں کرے گا، کیونکہ ان ظالموں نے اللہ کے لیے شریک بنا کر اسے ناراض کرلیا، سو وہ تو ان کی مدد کو آئے گا ہی نہیں اور دوسرے معبودوں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں میں طاقت ہی نہیں کہ ان کی مدد کرسکیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور یہ (مشرک) لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن (کے جواز عبادت) پر اللہ تعالیٰ نے کوئی حجت (اپنی کتاب میں) نہیں بھیجی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی (عقلی) دلیل ہے اور (قیامت میں) جب (ان کو شرک پر سزا ہونے لگے گی تو) ان ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا (نہ قولاً کہ ان کے فعل کے استحسان پر کوئی حجت پیش کرسکے نہ عملاً کہ ان کو عذاب سے بچا لے) اور (ان لوگوں کو اسی گمراہی اور اہل حق سے عناد رکھنے میں یہاں تک غلو ہے کہ) جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں (متعلق توحید وغیرہ کے) جو کہ (اپنے مضامین میں) خوب واضح ہیں (اہل حق کی زبان سے) پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں میں (بوجہ ناگواری باطنی کے) برے آثار دیکھتے ہو (جیسے چہرے پر بل پڑجانا، ناک چڑھ جانا، تیور بدل جانا اور ان آثار سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) قریب ہے کہ ان لوگوں پر (اب) حملہ کر بیٹھیں (گے) جو ہماری آیتیں ان کے سامنے پڑھ رہے ہیں یعنی حملہ کا شبہ ہمیشہ ہوتا ہے اور گاہ گاہ اس حملہ کا تحقق بھی ہوا ہے پس يَكَادُوْنَ استمرار کے اعتبار سے فرمایا) آپ (ان مشرکین سے) کہیئے کہ (تم کو جو یہ آیات قرآنیہ سن کر ناگواری ہوئی تو) کیا میں تم کو اس (قرآن) سے (بھی) زیادہ ناگوار چیز بتلا دوں وہ دوزخ ہے (کہ) اس کا اللہ تعالیٰ نے کافروں سے وعدہ کیا ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے (یعنی قرآن سے ناگواری کا نتیجہ ناگوار دوزخ ہے اس ناگواری کا تو غیظ سے غضب سے انتقام سے کچھ تدارک بھی کرلیتے ہو مگر اس ناگواری کا کیا علاج کرو گے جو دوزخ سے ہوگی۔ آگے ایک بدیہی دلیل سے شرک کا ابطال ہے کہ) اے لوگو ایک عجیب بات بیان کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سنو (وہ یہ ہے کہ) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک (ادنیٰ ) مکھی کو تو پیدا کر ہی نہیں سکتے گو سب کے سب بھی (کیوں نہ) جمع ہوجاویں اور (پیدا کرنا تو بڑی بات ہے وہ تو ایسے عاجز ہیں کہ) اگر ان سے مکھی کچھ (ان کے چڑھاوے میں سے) چھین لے جائے تو اس کو (تو) اس سے چھڑا (ہی) نہیں سکتے ایسا عابد بھی لچر اور ایسا معبود بھی لچر (افسوس ہے) ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی تعظیم کرنا چاہئے تھی (کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے) وہ نہ کی (کہ شرک کرنے لگے حالانکہ) اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا سب پر غالب ہے۔ (تو عبادت اس کا خالص حق تھا نہ کہ غیر قوی اور غیر عزیز کا جس کی عدم قوت باوضح وجوہ معلوم ہوچکی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝ ٠ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ۝ ٧١ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اور یہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں کہ جن کے جواز عبادت پر اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب اور حجت نہیں بھیجی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی نقلی دلیل اور ان مشرکین سے کوئی عذاب خداوندی کو روکنے والا ان کا مددگار نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا) ” اگرچہ وہ اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔ (وَّمَا لَیْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط) ” نہ صرف یہ کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کوئی سند نہیں بلکہ کوئی اثری ثبوت ‘ کوئی عقلی بنیاد اور کوئی منطقی دلیل بھی ان کے پاس ان من گھڑت معبودوں کی پرستش کے لیے نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

120. That is, neither there is any mention of their deities in any revealed Book nor do they have any other source of knowledge about them nor any authority to worship them. Therefore, it is sheer ignorance that they have associated their self invented deities with Allah and worship them, make vows and offer sacrifices to them and supplicate them for their needs etc. 121. This is to warn the foolish people that they are absolutely wrong in expecting that their deities would help them in this world and in the Hereafter because they have no power to help them. Thus, they will find no helper, for Allah alone could help them and they have already displeased Him by their rebellious behavior.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :120 یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو ، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے ۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں ، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں ، اور ان کے آستانوں پر جبہ سائیاں ہو رہی ہیں ، دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں ، نیازیں دی جا رہی ہیں ، طواف کیے جا رہے اور اعتکاف ہو رہے ہیں ، یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر اور کیا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :121 یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخرت میں ان کے مدد گار ہیں ، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے ۔ نہ یہ معبود ، کیونکہ ان کے پاس مدد کی کوئی طاقت نہیں ، اور نہ اللہ ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں ۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: یعنی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جس سے یہ علم حاصل ہوسکے کہ یہ بت واقعی خدائی کا درجہ رکھتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ ٧٢:۔ اوپر ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ہر فرقہ کا طریقہ لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ اسی کے موافق ہر فرقہ کا طریقہ دنیا میں پایا جاتا ہے ‘ اس بات کو پورا کرنے کے لیے ان آیتوں میں مشرکین مکہ کے غلط طریقہ کا حال بیان فرمایا کہ یہ لوگ رات دن بت پرستی کی کوئی سند نہیں ہے ‘ پھر فرمایا بت پرستی کے جائز ہونے پر کوئی سند نقلی موجود نہ ہونے کے علاوہ ان لوگوں کے پاس کوئی عقلی سند بھی بتوں کے معبود ٹھہرانے کی نہیں ہے کیونکہ یہ بت تو پتھر کی مورتیں ہیں ‘ ان میں نہ بولنے چالنے کی طاقت ہے نہ اپنی پوجا کرانے کی خواہش ‘ اب رہے وہ لوگ جن کی شکل کی یہ مورتیں ہیں وہ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہیں اس لیے ان ظالم بت پرستوں کا دنیا اور عقبیٰ میں کوئی یارو مددگار نہیں ‘ آگے فرمایا کہ اللہ کے علم غیب کے موافق ان میں جو لوگ گمراہ ٹھہر چکے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بت پرستی کی مذمت کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو غصہ سے ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بتوں کی مذمت کی آیتیں سنانے والوں پر حملہ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ اس سے بھی زیادہ غصہ اور چہرہ کا رنگ بدل جانے کی چیز دوزخ کی وہ آگ ہے جس میں جھونکنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ایسے منکر شریعت لوگوں سے کیا ہے اور یہ خوب یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں دوزخ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ صحح بخاری ومسلم میں انس بن مالک سے اور فقط ترمذی وغیرہ میں ابوذر (رض) سے جو ١ ؎ روایتیں ہیں ‘ ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ پورا حال لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو لوگ بستی اور بال بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جاویں اور سوائے رونے کے اور کچھ کام ان کو نہ رہے ‘ دوزخ کے بہت ہی برا ٹھکانہ ہونے کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٢٦٤۔ ٢٦٥ ج ٤ طبع مصر ١٣٨٨ ھ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:71) مالم ینزل بہ سلطنا۔ میں ما موصولہ ہے لم ینزل مضارع نفی حجد بلم واحد مذکر غائب کا صیغہ بہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ما ہے۔ سلطنا لم ینزلکا مفعول ہے۔ جس کی الوہیت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل یا سند نازل نہیں کی۔ (یہ دلیل سمعی ہے جو من جہت الوحی حاصل ہوسکتی ہے) ۔ وما لیس لہم بہ علم۔ اور نہ ہی خود انہیں اس کے متعلق کوئی علم ہے (یہ دلیل عقلی ہوئی) ۔ وما للظلمین من نصیر۔ میں ما نافیہ ہے۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی اپنی کسی کتاب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ ہمارے شریک ہیں تم ان کی پوجا کرسکتے ہو۔ 5 ۔ سوائے ادہام پرستی اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے۔ اس کا رو قرآن میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ دیکھئے مائدہ :104)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ نہ قولا کہ ان کے فعل کے استحسان پر کوئی حجت پیش کرسکے، نہ عملا کہ ان کو عذاب سے بچا سکے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور اس نے سب کچھ لکھ رکھا ہے جس میں یہ بھی تحریر ہے کہ ہر دور کے مشرک کس کس کی عبادت کریں گے۔ انسان کے اعمال نامہ اور لوح محفوظ کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ اے انسان تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس طرح بھی شرک کرے گا اسے اپنے اعمال نامہ میں درج پائے گا۔ اگر کتاب سے مراد لوح محفوظ لیا جائے تو اس کا معنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں چھوٹی بڑی ہر بات لکھی ہے لیکن شرک کے حمایت میں کوئی بات درج نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے کوئی عقلی و نقلی دلیل شرک کی حمایت میں نازل کی ہے۔ اس لیے شرک کرنے والے کسی آسمانی کتاب سے اس کی تائید میں کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ دوسرے الفاظ میں اس فرمان کا معنی یہ ہے کہ شرک کرنا اور اس کی دلیل دینا سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کے پرچار کے لیے اکثر جھوٹی کرامات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور جن قبروں کے لوگ چکر لگاتے ہیں۔ ان میں دفن ہونیوالے کا کسی کو علم نہیں۔ اکثر قبریں نقلی ہیں جن کی کرامات بیان کی جاتی ہیں۔ ان کے نام کا تاریخ میں کوئی ثبوت ہی نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا اور اس کی حمایت میں جھگڑتا ہے وہ پرلے درجے کا ظالم ہے۔ مشرک اس لیے بھی ظالم ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں شریک ٹھہراتا ہے وہ تو کسی اعتبار سے بھی اس لائق نہیں کہ انھیں ذات کبریا کا شریک بنایا جائے۔ ایسا سوچنے اور کرنے والے ظالم ہیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ سچے ہو تو شرک کے ثبوت پیش کرو : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ شُرَکَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَھُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اَمْ اٰتَیْنٰھُمْ کِتٰبًا فَھُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا) [ فاطر : ٤٠] ” فرما دیجئے کیا تم نے اپنے ان معبودوں کو دیکھا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دیکھاؤ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی کیا شراکت ہے یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے وہ اس میں سے کوئی دلیل رکھتے ہیں۔ بلکہ ظالم ایک دوسرے کے ساتھ مکروفریب کا وعدہ کرتے ہیں۔ “ (قُلْ اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِہٖ شُرَکَآءَ کَلَّا بَلْ ھُوَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) [ السبا : ٢٧] ” فرما دیجئے مجھے وہ لوگ دیکھائے جنہیں تم نے اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے کوئی نہیں بلکہ وہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “ مسائل ١۔ شرک کے لیے کوئی بھی عقلی و نقلی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ شرکیہ عقیدہ کے پیچھے علم نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ٣۔ مشرک ظالم ہوتا ہے، ظالم کا قیامت کے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے : ١۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٢۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٣۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے تو کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٥۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٦۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٧۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے تم ڈرتے نہیں حالانکہ اللہ نے شرک کی حمایت میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویعبدون ……من نصیر (١٧) حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جس صورتحال یا قانن یا معاشرے کو اللہ کی طرف سے کوئی سند حاصل نہ ہو اس میں کوئی قوت نہیں ہوتی۔ جس چیز کی پشت پر اللہ کی قوت نہ ہو وہ کمزور ہے۔ اس کے اندر قوت کا بنیادی عنصر ہی موجود نہیں ہے جو سلطان الٰہی ہے۔ یہ لوگ بت پرست ، انسان پرست یا شیطان پرست ہیں۔ ان سب چیزوں پر خدائی ہاتھ موجود نہیں ہے اس لئے ایسے لوگ حقیقی قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مذکورہ بالا چیزوں کی بندگی کسی دلیل ، کسی علم اور کسی یقین کی اساس پر نہیں کرتے۔ محض وہم اور خرافات کی بنیاد پر ان چیزوں کو مانتے ہیں۔ جبیہ اللہ کی نصرت اور مدد سے محروم ہوگئے تو اب دنیا و آخرت میں ان کا کوئی نصیر و مددگار نہیں ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی سند جواز نہیں ہے ، نہ علم ہے ان کو ، پھر یہ دعوت حق بھی سننے کے لئے تیار نہیں ، نہ اسے قبول کرتے ہیں ، بلکہ یہ لوگ ضد میں آ کر گناہ کے کام پر آمادہ ہوئے ہیں اور اس قدر ضد اور عناد میں آگئے ہیں کہ یوں نظر آتا ہے کہ ان کے سامنے الٰہی پیش کرنے والے پر یہ لوگ ٹوٹ پڑیں اور اس کو چبا کر کھا جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84:۔ ” وَ یَعْبُدُوْنَ الخ “ یہ بطور زجر دلائل مذکورہ کا ثمرہ ہے۔ مشرکین اللہ کے سوا ایسے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے معبود ہونے کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور جن کے معبود ہونے پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ ” سُلْطَانًا “ سے دلیل وحی اور دلیل نقلی اور علم سے دلیل عقلی مراد ہے۔ سلطانا ای حجۃ و برھانا سماویا من جہۃ الوحی والسمع و ما لیس لھم بہ علم ای دلیل عقلی ضروری او غیرہ (بحر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت پر نہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کوئی حجت اور سند نازل فرمائی اور نہ ان کے پاس ان چیزوں کی عبادت کے جواز پر کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ ایسے ظالموں کا کوئی مددگار ہوگا۔ یعنی جو لوگ بلا دلیل نقلی و عقلی کے شرک کا ارتکاب کریں ان کی کون مدد کرسکتا ہے۔