Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 73

سورة الحج

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾

O people, an example is presented, so listen to it. Indeed, those you invoke besides Allah will never create [as much as] a fly, even if they gathered together for that purpose. And if the fly should steal away from them a [tiny] thing, they could not recover it from him. Weak are the pursuer and pursued.

لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے ، گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The insignificance of the Idols and the foolishness of their Worshippers Here Allah points out the insignificance of the idols and the foolishness of those who worship them. يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ ... O mankind! A parable has been made, meaning, a parable of that which is worshipped by those who are ignorant of Allah and who join others as partners with Him. ... فَاسْتَمِعُوا لَهُ ... so listen to it, pay attention and understand. ... إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ... Verily, those on whom you call besides Allah, cannot create a fly, even though they combine together for the purpose. Even if all the idols and false gods whom you worship were to come together to create a single fly, they would not be able to do that. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah recorded the Marfu` report: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ خَلَقَ خَلْقًا كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا مِثْلَ خَلْقِي ذَرَّةً أَوْ ذُبَابَةً أَوْ حَبَّة "Who does more wrong than one who tries to create something like My creation! Let them create an ant or a fly or a seed like My creation!" This was also recorded by the authors of the Two Sahihs via `Umarah from Abu Zur`ah from Abu Hurayrah, who said that the Prophet said: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً فَلْيَخْلُقُوا شَعِيرَة Allah says: "Who does more wrong than one who tries to create (something) like My creation! Let them create an ant, let them create a grain of barley." Then Allah says: ... وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْيًا لاَّ يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ... And if the fly snatches away a thing from them, they will have no power to release it from the fly. They are unable to create a single fly and, moreover, they are unable to resist it or take revenge against it if it were to take anything from the good and perfumed thing on which it lands. If they wanted to recover that, they would not be able to, even though the fly is the weakest and most insignificant of Allah's creatures. Allah says: ... ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ So weak are the seeker and the sought. Ibn Abbas said, "The seeker is the idol and the sought is the fly." This was the view favored by Ibn Jarir, and it is what is apparent from the context. As-Suddi and others said, "The seeker is the worshipper, and the sought is the idol." Then Allah says:

کم عقل پجاری اللہ کے ماسوا جن کے عبادت کی جاتی ہے ان کی کمزوری اور ان کے پجاریوں کی کم عقلی بیان ہو رہی ہے کہ اے لوگو یہ جاہل جس جس کی بھی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں ، رب کے ساتھ یہ جو شرک کرتے ہیں ، ان کی ایک مثال نہایت عمدہ اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان ہو رہی ہے ذرا توجہ سے سنو ۔ کہ ان کے تمام کے تمام بت ، بزرگ وغیرہ جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ، جمع ہوجائیں اور ایک مکھی بنانا چاہیں تو سارے عاجز آجائیں گے اور ایک مکھی بھی پیدا نہ کر سکیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث قدسی میں فرمان الٰہی ہے اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری طرح کسی کو بنانا چاہتا ہے ۔ اگر واقعہ میں کسی کو یہ قدرت حاصل ہے تو ایک ذرہ ، ایک مکھی یا ایک دانہ اناج کا ہی خود بنادیں ۔ بخاری ومسلم میں الفاظ یوں ہیں کہ وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادیں ۔ اچھا اور بھی ان کے معبودان باطل کی کمزوری اور ناتوانی سنو کہ یہ ایک مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے وہ ان کا حق ان کی چیز ان سے چھینے چلی جارہی ہے ، یہ بےبس ہیں ، یہ بھی تو نہیں کرسکتے کہ اس سے اپنی چیز ہی واپس لے لیں بھلا مکھی جیسی حقیر اور کمزور مخلوق سے بھی جو اپنا حق نہ لے سکے اس سے بھی زیادہ کمزور ، بودا ضعیف ناتوان بےبس اور گرا پڑا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں طالب سے مراد بت اور مطلوب سے مراد مکھی ہے ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور ظاہر لفظوں سے بھی یہی ظاہر ہے دوسرا مطلب یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ طالب سے مراد عابد اور مطلوب سے مراد اللہ کے سوا اور معبود ۔ اللہ کی قدروعظمت ہی ان کے دلوں میں نہیں رچی اگر ایسا ہوتا تو اتنے بڑے توانا اللہ کے ساتھ ایسی ذلیل مخلوق کو کیوں شریک کرلیتے ۔ جو مکھی اڑانے کی بھی قدرت نہیں رکھتی جیسے مشرکین قریش کے بت تھے ۔ اللہ اپنی قدرت وقوت میں یکتا ہے تمام چیزیں بےنمونہ سب سے پہلی پیدائش میں اس نے پیدا کردی ہیں کسی ایک سے بھی مدد لیے بغیر پھر سب کو ہلاک کرکے دوبارہ اس سے بھی زیادہ آسانی سے پیدا کرنے پر قادر ہے ۔ وہ بڑی مضبوط پکڑ والا ، ابتدا اور اعادہ کرنے والا ، رزق دینے والا ، اور بے انداز قوت رکھنے والا ہے ، سب کچھ اس کے سامنے پست ہے ، کوئی اس کے ارادے کو بدلنے والا ، اس کے فرمان کو ٹالنے والا اس کی عظمت اور سلطنت کا مقابلہ کرنے والا نہیں ، وہ واحد قہار ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بےجان مورتیاں ہیں جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتیں ہیں۔ 73۔ 2 طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بےبسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے ' (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں مکھی کا انتخاب اس لیے فرمایا کہ وہ بہت چھوٹی اور حقیر سے مخلوق ہے۔ جس سے سب لوگوں کو نفرت اور گھن آتی ہے۔ اب جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر ہی اپنے معبود سے حاجت طلب کی۔ لہذا اس کمزوری میں تو کوئی شبہ ہی نہ رہا۔ اور جس سے مراد طلب کی جارہی ہے اس کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ ایک مکھی جیسی حقیر مخلوق بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ بلکہ ان کے سامنے جو نذریں، نیازیں پیش کی جارہی ہیں ان پر مکھی پیٹھ کر اس کا حقیر سا حصہ اڑا لے جائے تو وہ اس سے واپس بھی نہیں لے سکتا۔ پھر یہ کسی ایک معبود کا مسئلہ نہیں سارے معبود مل کر بھی نہ ایک مکھی تک پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی چھینی ہوئی چیز اس سے چھڑا سکتے ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر ان کی بےبسی اور کمزوری کیا ہوسکتی ہے ؟ اب اگر یہ مشرک اس ایک بات پر ہی غور کرلیں تو انھیں اپنی حماقتر کا پوری طرح علم ہوسکتا ہے کہ کمزوری اور بےبسی میں ان کے معبود ان سے بھی بڑھ کر ہیں۔ لہذا ان سے حاجات طلب کرنا نہایت احمقانہ بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ مشرکین کی اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی کوئی نقلی دلیل ہے نہ عقلی۔ اس سورت کی ابتدا ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ سے ہوئی تھی، اختتام کے قریب بھی ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کے ساتھ خطاب ہے۔ ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ سے مراد یہاں مشرکین ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا دوسروں کو وہی پکارتے ہیں، سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ یا سب لوگوں ہی کو خطاب ہے، جیسے کسی قبیلے کا ایک آدمی کوئی کام کرے تو کہہ دیا جاتا ہے، قبیلے والو ! تم نے یہ کام کیا ہے۔ (روح المعانی) فرمایا، لوگو ! ایک مثال بیان کی گئی ہے، اسے کان لگا کر سنو۔ یہاں مثال بیان کرنے والے کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ پوری طرح توجہ مثال کی طرف رہے جو اصل مقصود ہے، بیان کرنے والے کا ذکر مقصود نہیں۔ (بقاعی) اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ۔۔ : اللہ کے سوا تم جن کو بھی پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کریں گے، خواہ وہ سب اس کام کے لیے جمع ہوجائیں۔ مثال میں مستقبل میں حرف ” لَنْ “ کی تاکید کے ساتھ ایک مکھی پیدا کرنے کی نفی فرمائی ہے، یعنی نہ وہ اس سے پہلے یہ کام کرسکے، نہ اب کر رہے ہیں اور نہ آئندہ ایسا کریں گے۔ اللہ کی ایک چھوٹی سی مخلوق پیدا کرنا، جو لوگوں کی نگاہ میں بالکل حقیر ہے، جب تمہارے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے اختیار میں نہیں تو وہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی بیشمار عظیم الشان مخلوقات کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَھَبَ یَخْلُقُ کَخَلْقِيْ فَلْیَخْلُقُوْا ذَرَّۃً أَوْ لِیَخْلُقُوْا حَبَّۃً أَوْ شَعِیْرَۃً ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واللہ خلقکم وما تعملون ) ۔۔ : ٧٥٥٩۔ مسلم : ٢١١١، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرنے چلا ہے ؟ سو وہ ایک ذرہ پیدا کریں، یا ایک دانہ یا ایک جو پیدا کریں۔ “ 3 بعض لوگ جو فوت شدہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ سے مراد صرف بت لیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء و اولیاء ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ نہیں۔ اس پر خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ (اللہ کے سوا نہیں) تو پھر وہ خود خدا ٹھہرے۔ اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے تو اس کائنات میں تم سے بڑا کافر کوئی نہیں کہ تم نے اللہ کی پیدا کردہ مخلوق کو رب بنادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء ہوں، اولیاء ہوں یا فرشتے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ ہیں، خود اللہ نہیں۔ دلیل اس کی یہی آیت ہے کہ صرف بت ہی نہیں تمام زندہ یا فوت شدہ انبیاء و اولیاء اور تمہارے بنائے ہوئے مشکل کشا، داتا اور دستگیر جمع ہو کر بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے۔ اگر کوئی بنا سکتا ہے یا کسی نے بنائی ہے تو اس کا نام لو۔ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا : ( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ڬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) [ الرعد : ١٦ ] ” کہہ دے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں ؟ یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں ؟ یا انھوں نے اللہ کے لیے کچھ شریک بنا لیے ہیں جنھوں نے اس کے پیدا کرنے کی طرح پیدا کیا ہے، تو پیدائش ان پر گڈمڈ ہوگئی ہے ؟ کہہ دے اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی ایک ہے، نہایت زبردست ہے۔ “ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ کی مزید وضاحت کے لیے سورة نحل (٢٠، ٢١) ملاحظہ فرمائیں۔ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ : یہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ کی بےبسی کی ایک اور مثال ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو وہ اس سے ہرگز چھڑا نہیں پائیں گے۔ اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مراد بت ہیں جن پر ان کو پوجنے والے زعفران اور شہد وغیرہ لگاتے ہیں، یا ان کے سامنے کھانے کی اشیاء لا کر رکھتے ہیں، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کرتی تھی۔ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ یہ تفسیر بھی ٹھیک ہے، مگر اللہ کے سوا وہ سب ہستیاں بھی اس میں شامل ہیں جنھیں پکارا جاتا ہے، اگر نہ مانو تو اس ہستی کا نام لو جس نے مکھی سے چھینی ہوئی چیز چھڑائی ہو۔ مفسر آلوسی نے فرمایا : ” وَالْآیَۃُ وَ إِنْ کَانَتْ نَازِلَۃً فِي الْأَصْنَامِ ۔۔ إِلَّا أَنَّ الْحُکْمَ عَامٌّ لِسَاءِرِ الْمَعْبُوْدَاتِ الْبَاطِلَۃِ “ ” آیت اگرچہ بتوں کے بارے میں اتری ہے۔۔ مگر اس کا حکم تمام باطل معبودوں کے لیے عام ہے۔ “ (روح المعانی) چھیننے میں وجۂ شبہ مکھی کا ڈھیٹ پن ہے۔ اگر یہ ڈھیٹ پن شیر میں ہوتا تو شاید ہی کوئی اس سے بچتا مگر یہ اللہ کی حکمت ہے کہ شیر کی قوت کے ساتھ لوگوں سے دور رہنا رکھ دیا اور مکھی کے ضعف کے ساتھ ڈھیٹ پن رکھ دیا۔ (بقاعی) ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ : اس بات سے کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی سے چھینی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتے۔ مکھی کی قوت کی طرف ذہن جاسکتا تھا، اس لیے وضاحت کردی کہ مکھی بھی کمزور، جس سے چھین کرلے جا رہی ہے وہ بھی کمزور اور جو اسے پوجتے اور پکارتے ہیں وہ بھی کمزور۔ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ : نتیجہ اس ساری مثال کا یہ ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ سے بالکل جاہل ہے، تبھی وہ اللہ کا حق کہ صرف اسے پکارا جائے، کسی دوسرے کو دیتا ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ پھر اس سے بڑھ کر بےقدری کیا ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ان ہسیتوں کو دے دے جو حقیر ترین چیز مکھی بھی نہ پیدا کرسکتے ہیں اور نہ اس سے چھینی ہوئی چیز واپس لے سکتے ہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ : یہاں سوال پیدا ہوا کہ پھر اس کی قدر کا حق کیا ہے ؟ جواب میں فرمایا، بیشک اللہ یقیناً بہت قوت والا ہے۔ جو چیز پیدا کرنا چاہے کرسکتا ہے اور کرتا ہے، جسے فنا کرنا چاہے کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ وہ سب پر غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں، جبکہ کسی دوسرے میں نہ یہ قوت ہے اور نہ غلبہ۔ 3 مکھی کی حقارت اگر ضرب المثل ہے تو اس کی جرأت بھی بےمثال ہے۔ بڑے بڑے جابر بادشاہ اس کے آگے بےبس ہوجاتے ہیں، اسے چہرے سے اڑاتے ہیں، یہ پھر آ بیٹھتی ہے، حتیٰ کہ زچ ہو کر بعض اوقات کہہ اٹھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں پیدا کیا ہے ؟ اس پر انھیں یہ سننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جبار لوگوں کو ذلیل کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Illustrating the futility of polytheism and idol-worship by citing a parable Generally the words ضُرِبَ مَثَلُ are used for quoting an incident as an example. However, it is not used here in that sense but the foolishness of idol worship has been illustrated by citing a parable. The infidels are told that the idols from which they seek the gratification of their desires are so utterly helpless that all of them together cannot create a humble thing like a fly. Indeed they cannot even protect the offerings of eatables, which their worshippers bring them daily, against the inroads of flies. Then how can they protect you from any calamity? The stupidity and foolishness of the idol-worshippers has been described at the end of the verse by the words ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (Feeble are the invoker and the invoked - 22:73) meaning thereby that if the object of worship is so utterly weak and powerless, those worshipping it must be more so.

معارف و مسائل شرک و بت پرستی کی احمقانہ حرکت کی ایک مثال سے توضیح : ضُرِبَ مَثَلٌ، ضرب مثل کا لفظ عام طور پر جو کسی خاص قصہ کی تمثیل کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں ضرب مثل سے یہ صورت مراد نہیں بلکہ شرک و بت پرستی کی حماقت کو ایک واضح مثال سے بیان کرنا ہے کہ یہ بت جن کو تم لوگ اپنا کارساز سمجھتے ہو یہ تو ایسے بیکس بےبس ہیں کہ سب ملا کر ایک مکھی جیسی حقیر چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور پیدا کرنا تو بڑا کام ہے تم روز ان کے سامنے مٹھائی اور پھل وغیرہ کھانے کی چیزیں رکھتے ہو اور مکھیاں اس کو کھا جاتی ہیں، ان سے اتنا تو ہوتا نہیں کہ مکھیوں سے اپنی چیز ہی کو بچا لیں یہ تمہیں کسی آفت سے کیا بچائیں گے اسی لئے آخر آیت میں ان کی جہالت اور بیوقوفی کو ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ یعنی جس کا معبود ہی ایسا بےبس ہو اس کا عابد اس سے بھی زیادہ کمزور ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝ ٠ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝ ٠ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝ ٠ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝ ٧٣ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ اسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» . استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ذب الذباب يقع علی المعروف من الحشرات الطائرة، وعلی النّحل، والزنابیر ونحوهما . قال الشاعر : فهذا أوان العرض حيّا ذبابه ... زنابیره والأزرق المتلمّس وقوله تعالی: وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً [ الحج/ 73] ، فهو المعروف، وذباب العین :إنسانها، سمّي به لتصوّره بهيئته، أو لطیران شعاعه طيران الذّباب . وذباب السّيف تشبيها به في إيذائه، وفلان ذباب : إذا کثر التأذّي به . وذبّبت عن فلان : طردت عنه الذّباب، والمِذَبّة : ما يطرد به، ثمّ استعیر الذّبّ لمجرّد الدّفع، فقیل : ذببت عن فلان، وذُبَّ البعیرُ : إذا دخل ذباب في أنفه . وجعل بناؤه بناء الأدواء نحو : زكم . وبعیر مذبوب، وذَبَّ جِسْمُهُ : هزل فصار کذباب، أو کذباب السّيف، والذَّبْذَبَةُ : حكاية صوت الحرکة للشیء المعلّق، ثم استعیر لكلّ اضطراب وحرکة، قال تعالی: مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] ، أي : مضطربین مائلين تارة إلى المؤمنین، وتارة إلى الکافرین، قال الشاعر : تری كلّ ملک دونها يتذبذب وذَبَّبْنَا إِبِلَنَا : سقناها سوقا شدیدا بتذبذب، قال الشاعر : 168- يذبّب ورد علی إثره ( ذ ب ب ) الذباب ۔ کے معنی مکھی کے ہیں اور یہ لفظ شہد کی مکھی اور بھڑ وغیرہ پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے یہ وادی کے پر رونق ہونے کا موسم ہے اس کے زنا بیر اور سبز مکھیاں خوب بھن بھنا رہی ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً [ الحج/ 73] اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے ۔ میں ذباب کے معنی مکھی کے ہیں ۔ ذباب العین ۔ آنکھ کی پتلی اسے ذباب یا تو ہیئت میں تشبیہ کے لحاظ سے کہا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ آنکھ کی پتلی سے بھی مکھی کی طرح شعاعیں نکلتی ہیں اور ایذا رسانی میں مکھی کے ساتھ تشبیہ دے کر تلوار کی دھار کو ذباب السیف کہا جاتا ہے اسی طرح موذی شخص کو بھی ذباب کہہ دیا جاتا ہے ۔ ذنب عن فلان کسی سے مکھی کو دور ہٹانا ۔ المذبۃ ۔ موچھل ۔ مکھیاں اڑانے کا آلہ ۔ استعارہ کے طور پر ذب کا لفظ ہر چیز کے دفع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ مثلا کہا جاتا ہے : ۔ ذبیت عن فلان ۔ میں نے فلاں سے دور ہٹایا ذب البعیر ۔ اونٹ کی ناک میں مکھی داخل ہوگئی ۔ یہ بھی بیماری کے دوسرے صیغوں کی طرح ( جیسے زکم وغیرہ ) فعل مجہول استعارہ ہوتا ہے ۔ اونٹ وبلا ہوکر مکھی یا تلوار کی دھار کی طرح ہوگیا ۔ الذبۃ اصل میں معلق چیز کے ہلنے کی آواز کو کہتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر قسم کی حرکت اور اضطراب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قران میں ہے : ۔ مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں ۔ یعنی وہ ہمیشہ مضطرب سے رہتے ہیں بھی مسلمانوں کی طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی کفار کی طرف شاعر نے کہا ہے ( طویل ) کہ اس کی سلطنت گے درے ہر ایک سلطنت مضطرب نظر آتی ہے ۔ ہم نے اونٹوں کو سخت ہنکایا ۔ شاعر نے کہا ہے ( متقارب کہ در و اس کے پیچھے سخت دوڑ رہا تھا ۔ سلب السَّلْبُ : نزع الشیء من الغیر علی القهر . قال تعالی: وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً لا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ [ الحج/ 73] ، والسَّلِيبُ : الرّجل الْمَسْلُوبُ ، والنّاقة التي سُلِبَ ولدها، والسَّلَبُ : المسلوب، ويقال للحاء الشجر المنزوع منه سَلَبٌ ، والسُّلُبُ في قول الشاعر في السُّلُبُ السّود وفي الأمساح فقد قيل : هي الثیاب السّود التي يلبسها المصاب، وكأنها سمّيت سَلَباً لنزعه ما کان يلبسه قبل . وقیل : تَسَلَّبَتِ المرأة، مثل : أحدّت، والْأَسَالِيبُ : الفنون المختلفة . ( س ل ب ) السلب اس کے معنی کسی سے کوئی چیز چھین لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً لا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ [ الحج/ 73] اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے ۔ السلیب : لٹا ہوا آدمی وہ اونٹنی جس کا بچہ چھن گیا ہو اور السلب کے معنی چھینی ہوئی چیز اور درخت سے اتاری ہوئی چھال کے ہیں ۔ اور شاعر کے قول ( رجز ) ( 233 ) فی السلب السود وفی الامساح ( سیاہ ماتمی لباس اور ٹاٹ پہنے ہوتے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے سیاہ ماتمی لباس مراد ہے جو مصیبت زدہ شخص پہن لیتا ہے اور ماتمی لباس کو سلب اس لئے کہا جاتا ہے کہ اصل لباس اتار کر اسے پہنا جاتا ہے پھر جیسا کہ احدت المرئۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی ماتمی لباس پہننے کے ہیں ایسے ہی تسلبت المرئۃ بھی کہا جاتا ہے الاسلوب طریقہ ، روش جمع اسالیب ۔ نقذ الإِنْقَاذُ : التَّخْلِيصُ من وَرْطَةٍ. قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها [ آل عمران/ 103] والنَّقْذُ : ما أَنْقَذْتَهُ ، وفَرَسٌ نَقِيذٌ: مأخوذٌ من قومٍ آخرین كأنه أُنْقِذَ منهم، وجمْعُه نَقَائِذُ. ( ن ق ذ) الانقاذ کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها[ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا ۔ النقذ بمعنی چھڑا یا ہوا فر س نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا گویا وہ ان سے بچایا گیا ہے نقا ئذ ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ طلب الطَّلَبُ : الفحص عن وجود الشیء، عينا کان أو معنی. قال تعالی: أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] ، وقال : ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ، وأَطْلَبْتُ فلاناً : إذا أسعفته لما طَلَبَ ، وإذا أحوجته إلى الطَّلَبِ ، وأَطْلَبَ الكلأُ : إذا تباعد حتی احتاج أن يُطْلَبَ. ( ط ل ب ) الطلب ( ن ) کے معنی کسی شے کے پانے کی تلاش اور جستجو کرنا کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیز اعیان و اجسام سے تعلق رکھتی ہو یا معانی سے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] تم اسے تلاش کے باوجود حاصل نہیں کرسکو گے ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ضعف الطالب والمطلوب طلب کرنے والا اور جسے طلب کیا جائے ( یعنی عابد معبود دونوں کمزور ہیں ۔ الطلب فلانا کسی کی حاجت راوائی کرنا کسی کو محتاج کرنا اور جو گھاس پانی سے بہت دور ہو اور اس تک پہنچنے کے لئے تکلیف اٹھانا پڑے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اطلب الکلاء

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) اے کفار مکہ تمہارے بتوں کی ایک عجیب حالت بیان کی جاتی ہے اس کو غور سے سنو اور قبول کرو وہ یہ کہ جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ ایک مکھی تو پیدا کر ہی نہیں سکتے اگرچہ یہ سارے عابد اور یہ سب معبود مل کر بھی کوشش کریں تب بھی ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے (اور یہ تو بڑی بات ہے وہ معبود تو ایسے عاج ہیں) اور اگر مکھی تمہارے ان معبودوں سے کچھ چھین لے جائے جو کچھ تم ان پر شہد ملتے ہو تو تمہارے یہ معبود اس مکھی سے چھڑا ہی نہیں سکتے اور نہ اس کو بھگا سکتے ہیں۔ ایسے ہی یہ بت بہیودہ ہیں اور ایسی ہی مکھی یا یہ کہ ایسا ہی ان کی پرستش کرنے والا بیہودہ ہے اور ایسے ہی ان کے یہ معبود بیہودہ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس سورة مبارکہ کا آخری رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اعتبار سے یہ ہمارے ” مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب “ میں بھی شامل ہے۔ چناچہ اس رکوع کے مطالعہ سے پہلے میں ” منتخب نصاب “ اور اس کی غرض وغایت کے حوالے سے بھی چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ الحمدللہ ! ہم نے ” رجوع الی القرآن “ کی جو تحریک شروع کر رکھی ہے اور اللہ کی توفیق سے اب تک میں اس میں اپنی زندگی کے ٣٥ سال صرف کرچکا ہوں (واضح رہے کہ یہ دروس جن پر ” بیان القرآن “ مشتمل ہے ‘ ١٩٩٨ ء کے ہیں) ۔ اسی تحریک کی کو کھ سے تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت نے جنم لیا ہے ‘ ہماری اس دعوت ” رجوع الی القرآن “ کی بنیاد ” مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب “ ہے۔ اس منتخب نصاب کو میں نے ذریعہ بنایا ہے لوگوں کو قرآن سے متعارف کرانے کا اور ایک مسلمان پر دین کی طرف سے جو بنیادی فرائض عائد ہوتے ہیں ان فرائض کا ایک جامع تصور ان کے سامنے رکھنے کا۔ یعنی دین کے وہ فرائض جن کے بارے میں ہم سے قیامت کے دن باز پرس ہونی ہے ان کا ایک صحیح تصور مختصر الفاظ میں ہمارے سامنے آجائے۔ جہاں تک نماز ‘ روزہ وغیرہ کا تعلق ہے ‘ اس کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہ بنیادی فرائض میں سے ہیں ‘ لیکن کیا ہم پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں ؟ کیا ہم کچھ اور امور میں بھی مسؤل ہیں ؟ کیا بحیثیت مسلمان اس سے بڑھ کر کچھ مزید بھی ہماری ذمہ داری ہے ؟ ان سب سوالات کے جوابات اس منتخب نصاب کے مطالعے میں موجود ہیں۔ یہ نصاب تقریباً دو پاروں کے برابر ہے۔ یعنی حجم کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کا ١٥/١ واں حصہ ہے۔ قرآن مجید کے اب تک کے مطالعے (بیان القرآن) کے دوران ہم منتخب نصاب کے کچھ حصوں کا مطالعہ بھی کر آئے ہیں ‘ لیکن چونکہ اس نصاب میں زیادہ تر آیات اور سورتیں قرآن حکیم کے نصف ثانی بلکہ آخری حصے سے شامل ہوئی ہیں ‘ اس لیے زیادہ تر مقامات کا مطالعہ ابھی باقی ہے۔ اگرچہ ان مقامات اور اسباق کا انتخاب کرتے ہوئے یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی کہ قرآن کے کس حصے سے کتنا حصہ منتخب کیا جائے ‘ لیکن عملی طور پر قرآن کے آخری حصے سے زیادہ آیات منتخب ہوئی ہیں۔ اس صورت حال کی ایک بہت خوبصورت مشابہت حروف مقطعات کے ساتھ ہے جس کی طرف آج اچانک میرا ذہن منتقل ہوا ہے اور وہ یہ کہ عربی کے ٢٨ یا ٢٩ حروف تہجی کی جو تختی ہے اس کے نصف اول میں سے بہت کم حروف ہیں جو حرف مقطعات میں شامل ہوئے ہیں ‘ جبکہ اس تختی کے نصف ثانی میں سے بہت سے حروف ہیں جو حروف مقطعات میں آئے ہیں۔ یہ تو بہرحال ایک اضافی نکتہ تھا۔ اس وقت منتخب نصاب کے عمومی تعارف اور اس میں سورة الحج کے آخری رکوع کی اہمیت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔ اس منتخب نصاب کے کل چھ حصے ہیں۔ پہلا حصہ ” جامع اسباق “ پر مشتمل ہے۔ اس کا آغاز سورة العصر سے ہوتا ہے جو قرآن حکیم کی ایک مختصر مگر انتہائی جامع سورت ہے۔ اس میں انسان کی نجات اخروی کے چار لوازم یعنی ایمان ‘ عمل صالح ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پہلے حصے میں قرآن کے تین ایسے جامع مقامات شامل کیے گئے ہیں جن میں نجات کے انہیں چاروں لوازم کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہے۔ پہلے حصے کا دوسرا درس سورة البقرۃ کی آیت ١٧٧ (آیت البر) پر مشتمل ہے جس میں نیکی کی حقیقت پر تفصیلی بحث ہوئی ہے کہ یوں تو ہر شخص اپنے ذہن میں نیکی کا ایک اپنا تصور رکھتا ہے لیکن اصل اور جامع نیکی کون سی ہے ؟ نیکی کی روح کیا ہے ؟ اس کی جڑ اور بنیاد کیا ہے ؟ اس کا سب سے اونچا مقام کیا ہے ؟ اور اس کا مقام مطلوب کون سا ہے ؟ حصہ دوم میں ایمان سے متعلق مباحث ہیں کہ ایمان کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آتا ہے ؟ اس حصے کے دروس میں سورة الفاتحہ کا درس ‘ سورة آل عمران کے آخری رکوع کی آیات کا درس اور سورة النور کے پانچویں رکوع کا درس شامل ہیں۔ اس نصاب کا تیسرا حصہ اعمال صالحہ کے بارے میں ہے۔ اس میں انفرادی و اجتماعی سطح پر اور پھر معاشرتی و ریاستی سطح پر اعمال صالحہ کی اہمیت ‘ کیفیت ‘ ضرورت وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ معاشرتی سطح پر اعمال صالحہ کی تفصیلات کے سلسلے میں سورة بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع کا اہم درس بھی اس حصے میں شامل ہے۔ (ان آیات میں جو احکام مذکور ہیں وہ تورات کے ” احکام عشرہ “ یعنی En Commandments کی قرآنی تشریح و تعبیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ) منتخب نصاب کے چوتھے حصے کا پہلا درس سورة الحج کے اس رکوع پر مشتمل ہے جو اب ہمارے زیر مطالعہ آرہا ہے۔ گویا اس کی جگہ منتخب نصاب کے عین وسط میں ہے۔ قرآن کی دعوت کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کا جامع ترین مقام ہے۔ اس میں قرآنی دعوت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی ایک دعوت عمومی اور دوسری دعوت خصوصی۔ قرآن کی دعوت عمومی بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لیے ہے۔ کوئی فرد دنیا کے کسی گوشے یا کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو ‘ کسے باشد ! وہ قرآن کی اس دعوت کا مخاطب ہے۔ یہ عمومی دعوت دراصل ایمان کی دعوت ہے۔ چونکہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا) (سبا : ٢٨) اس لیے ایمان کی یہ دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے کہ لوگو ! اللہ پر ایمان لاؤ ‘ رسول پر لاؤ ‘ آخرت ‘ بعث بعد الموت ‘ جنت اور دوزخ پر ایمان لاؤ ! یہ پہلے درجے کی دعوت ہے اور پہلے درجے میں صرف ماننے کی دعوت ہی دی جاسکتی ہے۔ اس درجے پر عمل (نماز ‘ روزہ وغیرہ) کی دعوت نہیں دی جاسکتی ‘ کیونکہ جو انسان اللہ ‘ رسول اور قرآن کو نہیں مانتا اس کے لیے نماز اور روزہ کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے ! اس کے بعد خصوصی دعوت کا درجہ ہے اور اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو پہلی دعوت یعنی دعوت ایمان پر لبیک کہتے ہیں۔ یعنی جو لوگ دعوت ایمان کو قبول کریں گے انہیں دعوت عمل کے ذریعے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کیا جائے گا۔ چناچہ اس رکوع کی چھ آیات میں دعوت قرآنی کے ان دونوں (عمومی اور خصوصی ) درجوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔ پہلی چار آیات میں ” یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ “ کے الفاظ سے پوری بنی نوع انسان کو خطاب کیا گیا ہے ‘ جبکہ آخری دو آیات میں ” یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا “ کے الفاظ کے ساتھ اہل ایمان کو دعوت عمل دی گئی ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ط) ” چونکہ اس کے مخاطبِ اوّل مکہّ کے ُ بت پرست تھے اس لیے انہیں شعور دلانے کے لیے ان کے ُ بتوں کی مثال دی گئی ہے کہ خانہ کعبہ میں سجائے گئے تمہارے یہ تین سو ساٹھ بت مل کر بھی کوشش کرلیں تب بھی ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ یہ وہی انداز ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے ُ بتوں کی بےبسی ظاہر کرنے کے لیے اپنایا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے ُ بتوں کو توڑ کر ان کے پجاریوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔ (وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط) ” یعنی مکھی کو تخلیق کرنا تو بہت دور کی بات ہے ‘ یہ تو اپنے اوپر سے مکھی کو اڑا بھی نہیں سکتے۔ اگر کوئی مکھی ان کے سامنے پڑے ہوئے حلووں مانڈوں میں سے کچھ لے اڑے تو اس سے وہ چیز واپس بھی نہیں لے سکتے۔ (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ” اس مضمون پر یہ جملہ اس قدر جامع ہے کہ قرآن مجید کے نظریۂ توحید کا عملی لبّ لباب ان تین الفاظ میں سما گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر باشعور انسان کا ایک نصب العین ‘ آئیڈل یا آدرش ہوتا ہے ‘ جس کے حصول کے لیے وہ دن رات بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ انسان کی شخصیت اور اس کا آئیڈیل آپس میں ایک دوسرے کی پہچان کے لیے معیار اور کسوٹی فراہم کرتے ہیں۔ کسی انسان کا معیار اس کے آئیڈیل سے پہچانا جاتا ہے اور کسی آئیڈیل کا معیار اس کے چاہنے والے کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کا آئیڈیل گھٹیا ہے تو لازماً وہ انسان خود بھی اسی سطح پر ہوگا اور اگر کسی کا آئیڈیل اعلیٰ ہوگا تو وہ خود بھی اعلیٰ شخصیت کا مالک ہوگا۔ اس اصول پر ان لوگوں کے ذہنوں کے معیار اور سوچوں کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پتھر کے بتوں کو اپنے معبود سمجھ کر ان کے آگے جھکتے ہیں۔ جس طالب کا مطلوب اور آئیڈیل ایک ایسا بےجان مجسمہ ہے جو اپنے اوپر سے ایک مکھی تک کو نہیں اڑا سکتا ‘ اس کی اپنی شخصیت کا کیا حال ہوگا : ع ” قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا ! “ یہ مضمون ذرا مختلف انداز میں سورة البقرۃ کی آیت ١٦٥ میں اس طرح آچکا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ط) کہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مدِّ مقابل کچھ معبود بنا کر ان سے ایسے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس توحید کا سبق تو یہ ہے : لَا مَحْبُوْبَ الاَّ اللّٰہ ! لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہ ! لَا مَطْلُوْبَ الاَّ اللّٰہ ! یعنی انسان کا محبوب و مقصود و مطلوب صرف اور صرف اللہ ہے۔ باقی کوئی شے مطلوب و مقصود نہیں ہے ‘ باقی سب ذرائع ہیں۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مختلف ذرائع سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں توحید کا تقاضا یہی ہے کہ ان سب چیزوں کو ذرائع کے طور پر استعمال ضرور کریں مگر انہیں اپنا مطلوب و مقصود نہ بنائیں۔ نہ کھیتی کو ‘ نہ دکان کو ‘ نہ کسی ہنر کو ‘ نہ کسی پیشے کو ‘ نہ کسی رشتہ دار ‘ اور نہ اولاد کو ! یہ ہے توحید کاُ لبّ لباب ! جو شخص توحید کے اس تصور تک نہیں پہنچ سکتا اور اللہ کی معرفت اس انداز میں حاصل نہیں کرسکتا ‘ اس کے ذہن کی پستی اسے اللہ کو چھوڑ کر طرح طرح کی چیزوں کی پرستش کرنا سکھاتی ہے اور پھر اسی ڈگر پر چلتے ہوئے کوئی وطن پرست ٹھہرتا ہے تو کوئی قوم پرست قرار پاتا ہے۔ کوئی دولت کی دیوی کا پجاری بن جاتا ہے تو کوئی اپنے نفس کو معبود بنا کر اپنے ہی حریم ذات کے گرد طواف شروع کردیتا ہے۔ ع ” اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

123. This parable has been cited to impress upon the idolworshipers that their deities are absolutely powerless, for even if they all collaborated to create an insignificant thing like a fly, they could not; nay, even if a fly snatched away anything from them they could not prevent it. This shows how weak they themselves are and how powerless are the idols they supplicate.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :123 یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالا تر طاقت کی طرف استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے ۔ مگر اس غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے ۔ اب غور کرو کہ ان لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ ٧٤:۔ اوپر ذکر تھا کہ جب ان بت پرستوں کو بتوں کی مذمت کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان آیتوں کے سنانے والے مسلمانوں پر یہ مشرک حملہ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ‘ ان آیتوں میں مشرکوں کے قائل کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ مشرک جن بتوں کی مذمت سے ایسے جڑتے ہیں ‘ آخر وہ بت اپنے پوجا کرنے والوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں وہ تو ایسے عاجز ہیں کہ تمام دنیا کے بت بھی جمع ہوجاویں تو اللہ کی مخلوقات میں کی ایک ادنیٰ چیز مکھی کو بھی نہیں پیدا کرسکتے بلکہ مکھی کا پیدا کرنا تو درکنار یہ بت زعفران پانی میں گھول کر خوشبو کے لیے ان بتوں پر جو مل دیتے ہیں اور مکھیاں اس کو چاٹنا اور اس کے ریزے منہ میں لے کر اڑنا شروع کردیتی ہیں تو یہ بت ان ریزوں کو بھی مکھی کے منہ سے نہیں چھڑا سکتے ‘ اس واسطے اگرچہ مکھی اللہ کی ایک ناچیز اور عاجز مخلوق ہے لیکن یہ بت تو ایسے عاجز ہیں کہ ایک مکھی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے رہی یہ بات کہ جن نیکوں کی شکل کی یہ پتھر کی مورتیں ہیں عقبیٰ میں وہ نیک لوگ ان مورت پرستوں کے کچھ کام نہ آئیں گے کیونکہ ان مشرکوں کو پہلے ہی سمجھا دیا گیا ہے کہ قیامت کے دن وہ نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجاویں گے مَاقَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ ایسی عاجزی کی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں تو اللہ کی قدرت کے پہچاننے سے ایسے لوگ بالکل بےبہرہ ہیں اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مشرک اللہ کے علم غیب میں گمراہ اور دوزخی ٹھہر چکے ہیں وہ ایسی ہی بدحواسی کی باتیں کرتے ہیں کہ اللہ جیسے زبردست معبود کو چھوڑ کر خیالی چیزوں کی پوجا کو اچھا جانتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخی قرار پاچکے ہیں ان کو برے کام آسان اور اچھے معلوم ہوتے ہیں ‘ حدیث کے اس ٹکڑے سے آیتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں کے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں ‘ اگرچہ قرآن کی کھلی کھلی مثالوں سے ان کو بت پرستی کی برائی سمجھائی گئی لیکن مرتے دم تک وہ لوگ بت پرستی کو ہی اچھا جانتے رہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:73) تدعون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم پکارتے ہو۔ دعاء مصدر۔ لن یخلقوا۔ مضارع نفی تاکید بلن جمع مذکر غائب۔ وہ ہرگز پیدا نہیں کرسکیں گے۔ ذبابا۔ مکھی۔ اذبۃ۔ ذبان وذب۔ جمع۔ یسلبہم۔ مضارع مجزوم بوجہ ان شرطیہ واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (اگر) وہ ان سے چھین لے۔ سلب مصدر جس کا مطلب ہے چھیننا۔ لا یستنقذوہ۔ لا یستنقذون۔ فعل مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ مجزوم بحذف نون اعرابی۔ جواب شرط ہے۔ استنقاذ (استفعال) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع شیئا ہے۔ وہ اس کو نہیں چھڑا سکتے۔ اس کو واپس نہیں لے سکتے۔ اس کی خلاصہ نہیں کرسکتے ۔ انقذ ینقذ (باب افعال) چھڑانا۔ بچا لینا۔ قرآن مجید میں ہے وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا (3:102) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے۔ تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا۔ ضعف۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ضعف وضعف مصدر (باب نصروکرم) وہ کمزور ہوا۔ وہ ناتواں ہوا۔ یہاں باب کرم سے استعمال ہوا ہے۔ الطالب۔ مراد بتوں کے پجاری۔ المطلوب۔ مراد بت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی لاتعداد اور عظیم الشان مخلوقات کے مقابلہ میں مکھی کی کیا حیثیت ہے ؟ 9 ۔ یعنی چاہنے والا کافر اور جس بت کو وہ چاہتا ہے دونوں کمزور و بےبس ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” مکھی چاٹتی ہے بت کو، نہ وہ مورت اڑاتی ہے اور نہ اس کا شیطان۔ (موضح) اس سے زیادہ بےبسی اور کیا ہوسکتی ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٠) اسرارومعارف لوگو اس بات پر غور کرو اور اچھی طرح سوچو کہ اللہ جل جلالہ کے علاوہ جس جس کی پوجا کی جاتی ہے اگر وہ سب معبودان باطلہ اکھٹے ہو کر بھی کوشش کریں تو ایک مکھی جیسی حقیر مخلوق بھی بنا نہیں سکتے نہ صرف یہ بلکہ ان پر جو چڑھاوے چڑھاتے ہو ان کے سامنے پڑی ہوئی اشیاء کو مکھی کھاتی رہتی ہے وہ تو مکھی اڑا بھی نہیں سکتے کہ اپنے شے کو اس سے بچا لیں بھلا وہ تمہاری مدد کریں گے ، کتنے حقیر ہیں ان سے مانگنے والے اور کس قدر بےبس یہ تمہارے مطلوب ومعبود بنے ہوئے ہیں ، افسوس کہ تم نے اللہ جل جلالہ کی عظمت کو نہ جانا اور اس کی قدر نہ کرسکے لیکن اے کفار تمہارے نہ ماننے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق تو نہ آجائے گا وہ تو بہت بڑا طاقت والا اور ہر شے پر غالب ہے ۔ وہ اپنا رسول بھی اپنی پسند سے چنتا ہے فرشتوں میں سے اپنی مرضی سے چن کر وحی لے جانے پر مقرر فرمایا ایسے ہی انسانوں میں سے جسے چاہتا ہے اس نعمت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے کفار کا یہ اعتراض کہ رسول کوئی بہت امیر ہونا چاہئے تھا یا فلاں بڑے قبیلے کا یا کوئی بڑا سردار وغیرہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ اللہ جل جلالہ اپنے کام کے لیے اپنی مرضی سے جسے چاہے چن لیتا ہے اور اسے کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں ، وہ خود ہر بات سنتا ہے اور ہر شے کو دیکھتا ہے لہذا منکرین کی پرواہ نہ کرو ۔ (عبادت سے توفیق عمل نصیب ہوتی ہے) بلکہ اے ایمان والوں تم پہ تو اس کی خاص عنایت ہے لہذا تم خوب خوب اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہارا پروردگار ہے ، ہر شے وہی دے رہا ہے اور اسی سے آئندہ بھی ملنے کی امید ہے نیز عبادت ہی سے نیک اعمال اور خوبصورت کردار کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور عبادات وکردار مل کر فلاح اور بھلائی کا سبب بنتے ہیں لہذا نہ عبادات میں سستی کرنی چاہئے اور نہ میدان عمل میں ۔ (عہد حاضر کی بدقسمتی) کہ عہد حاضر کی بدنصیبی یہ ہے کہ جو مسلمان عبادت و ریاضت میں لگے بس صرف اسی طرف کے ہو رہے اور سمجھا کہ یہی اصل دین ہے اور جو دوسرے میدان عمل میں پہنچے تو واپس عبادت کی طرف نہ پلٹے اور وہیں کے ہو رہے حتی کہ عبادات کو فضول سمجھنے لگے ، یہ دونوں صورتیں درست نہیں حق یہ کہ مسلمان عبادات میں اور علم دین کے حصول میں بھی محنت کرے اور جدید علوم اور میدان عمل میں بھی محنت کا حق ادا کرے کہ مسلمان تو مجاہد ہے لہذا اسے اللہ جل جلالہ کی راہ میں پورا پورا جہاد کرنا ہے فرمایا اللہ جل جلالہ کی راہ میں ایسا جہاد کرو اتنی محنت کرو کہ محنت کرنے کا حق ادا ہوجائے اور مثال قائم ہوجائے اس لیے کہ اس کا تم پر احسان عظیم ہے کہ تمہیں بحیثیت قوم اور امت اپنے لیے چن لیا ہے اور ادیان سابقہ کے برخلاف تمہارے دین میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو زیادہ مشکل یا تکلیف دہ ہو بلکہ زندگی کے معمولات ہی کو ایک خوبصورت ضابطے میں سجا کر اللہ جل جلالہ کی اطاعت سے مشرف کردیا جبکہ عملا اور آسان ہوگئے پر تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت بھی تو ہو کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے وہ ساری امت کے بھی تو باپ ہیں اور تم ہی وہ ملت اور امت ہو جس کے لیے انہوں نے دعا کی تھی اور اپنی اس دعا میں تمہیں مسلمان کا نام دیا تھا جیسے ارشاد ہے (آیت) ” وجعلنا مسلمین لک ومن ذریتا امۃ مسلمۃ لک “۔ چناچہ اللہ جل جلالہ نیتم پر اپنے عظیم الشان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ رکھا کہ اس کے واسطے سے تم اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرتے ہو اور اس کی ذٓت اس بات کی گواہ ہے کہ تمہارا کون سا عمل نیکی اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہے اور دوسری تمام امتوں پر تم گواہ ہو کہ جب روز حشر کفار انکار کریں گے کہ ہمیں تو انبیاء کرام (علیہ السلام) نے بتایا ہی کچھ نہ تھا تو تم گواہی دو گے کہ اے اللہ تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتایا تھا کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ جل جلالہ کا حکم پہنچا دیا تھا اور کفار ہی جھوٹے ہیں اور دیکھو تمہاری گواہی پر لوگوں کی نجات یا گرفت کا مدار رکھا ہے تو کیا تمہیں زیب دیتا ہے کہ خود ہی اطاعت نہ کرو ہرگز نہیں لہذا عبادات میں بھی بہت محنت کرو اور میدان عمل میں بھی اللہ جل جلالہ کی ذات سے وابستہ رہو اور سب امیدیں اسی سے رکھو کہ وہی تمہارا مالک ہے اور کیا ہی خوب مالک ہے ، سبحان اللہ کہ ہر طرح کی مدد ہر آن کرنے پہ قادر ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 73 تا 78 : ضرب (بیان کیا گیا۔ مارا گیا) ‘ استمعوا (غور سے سنو) ‘ لن یخلقوا (وہ ہرگز پیدا نہ کریں گے۔ وہ ہرگز پیدا نہیں کرسکتے) ‘ ذباب مکھی۔ کوئی ایک مکھی) ‘ یسلب (وہ کھینچ لیتا ہے۔ وہ چھین لیتا ہے) ‘ لایستنقذوہ (وہ نہ چھڑا سکیں گے) ‘ الطالب (چاہنے والا) ‘ مطلوب (چاہا گیا) ‘ یصطفی (وہ منتخب کرتا ہے) ‘ افعلوا (تم کرو) ‘ الخیر (بھائی ۔ نیک کام) ‘ اجتبی (اس نے چنا۔ منتخب کیا) ‘ حرج (تنگی) ‘ سمی (اس نے نام رکھا) ‘ شھید (گواہ) ‘ اعتصموا (تم مضبوط تھام لو) ‘ مولی (مالک) ‘ نعم المولی (بہترین مالک) ‘ نعم النصیر (بہترین مدد گار) ۔ تشریح : آیت نمبر 73 تا 78 : اللہ وہ ہے جو کائنات کے ذرے ذرے کا خالق ومالک ‘ تمام طاقتوں ‘ قوتوں اور عزت و احترام اور تمام عبادتوں کا مستحق ہے۔ ہر شخص اس کا محتاج ہے لیکن وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں کے تمام حالات ‘ جذبات ‘ احساسات اور ضروریات سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ اپنے بندوں کی بھلائی رہبری اور رہنمائی کے لئے ہر زمانہ میں اپنے پاک نفس پیغمبروں کو بھیجتا رہا ہے وہ سب کا مشکل کشا اور ہر طرح کی نعمتوں سے نواز نے والا ہے۔ رکوع ‘ سجدے اور تمام عبادتوں کے لائق صرف اسی کی ذات ہے۔ وہ ہر آن ہر ایک کے کام آنے والا ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن کفر اور انکار کی روش پر چلنے والے انسانوں کی جہالت ‘ بےوقوفی اور نادانی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر ہر کمزور اور بےبس چیز کو طاقت ور سمجھ کر اس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اسی کو اپنا مشکل کشا مان لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ پتھر کے بےجان اور بےبس و مجبور معبود جو ایک مکھی جیسا حقیر جانور بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ اگر ان کے سامنے سے وہ مکھی کچھ لے اڑے تو اس سے واپس لینے کے لئے اس سے چھین نہیں سکتے۔ جن کی بےبسی کا یہ عالم ہے جو خود اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں وہ دوسروں کی مشکلات کیسے دور کرسکتے ہیں۔ ان سے کسی طرح کی امید رکھنا محض ایک تصوراتی عیاشی اور بچوں کے بنائے ہوئے ریت کے گھر وندوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا لوگوں کو اللہ کی قدر اس طرح کرنی چاہیے کہ اس کا حق ادا ہوجائے۔ تمام لوگوں کو اور ان کے تمام کاموں کو آخر کار اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ رکوع ‘ سجدے ‘ تمام عبادتیں صرف ایک اللہ کے لئے ہیں۔ ہرخیر و فلاح اور بھلائی کا کام محض اللہ کے لئے کیا جائے ‘ اسی میں کامیابی ہے۔ اللہ نے امت محمدی کو اپنے دین کی حفاظت کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ اس نے دین میں کسی طرح کی تنگی اور مشکل پیدا نہیں کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر تمام اہل ایمان کو جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہم سب کا نام ” مسلم “ رکھا ہے۔ اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو اہل ایمان اور پوری کائنات کے لئے مشعل راہ بنایا ہے۔ اللہ نے پوری امت محمدی کو یہ شرف و عزت عطا فرمایا ہے کہ وہ تمام انبیاء کی امتوں کی گواہ بنے گی لہٰذا تمازوں کے نظام کا قیام ‘ زکوۃ کی ادائیگی کا اہتمام ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جس پر اللہ کے دین کی بنیادیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ان بینادوں کو چھوڑ کر جس بنیاد کو بھی اپنا یا جائے گا وہ انتہائی کمزور اور ناقابل بھروسہ بنیادیں ہوں گی۔ وہ اللہ سب سے اچھا مالک اور سب سے بہترین مدد گا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرنے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی و رسول مانتے ہوئے ان کی اطاعت و فرماں برداری اور حقیقی محبت کی توفیق عطا فرمائے اور کتاب الہیٰ کے تمام احکامات پر پوری طرح عمل کرنے کی سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین الحمد للہ سورة الحج کی تمام آیات کا ترجمہ اور تفسیر و تشریح مکمل ہوگئی۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک کے ناپائیدار اور بلا دلیل ہونے کی ایک اور دلیل۔ شرک کا عقیدہ اس قدر ناپائیدار اور کمزور ترین ہے کہ اگر اس پر معمولی سا غور کرلیا جائے تو اسے چھوڑنا انسان کے لیے نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مشرک شرک کے بارے میں انتہائی جذباتی ہوتا ہے جس وجہ سے مثال بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لوگو ! تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یعنی اس سے بدکنے کی بجائے اس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرو۔ بیشک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بیشک وہ سب کے سب اس کام کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار، اگر مکھی کوئی چیز اڑا لے جائے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مرادیں مانگنے والا اور جن سے مرادیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اس کی قدر جاننے کا حق تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفصل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت مشرک کو مہلت دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی بےثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ مکھی اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتا کسی چیز سے سیر نہیں ہوتے۔ اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے۔ (الاعراف : ١٧٣ تا ١٧٦) کردار کے اعتبار سے یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی عظمت اور برکت کو چھوڑ کر جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے۔ جنہیں اپنی پاکی، پلیدی کا خیال تک نہیں ہوتا۔ وہ ایسے لوگوں سے مانگتا ہے جو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور مزارات پر آنے والوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یہ تو کلمہ گو حضرات کا حال ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ تو شرک کرنے کی وجہ سے اس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں اور مجذوبوں کے نفس کی پوجا کرتے ہیں۔ درحقیقت مشرک نے اپنے رب کی قدر کو نہیں پہچانی۔ جس وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ذلیل کردیتا ہے۔ مشرک اپنے رب کی قدر پہچانے یا نہ پہچانے اللہ تعالیٰ ہر حال میں قوت والا اور غالب ہے۔ (فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَار) [ الحشر : ٢] اے عقل والو ! عبرت حاصل کرو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید میں مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ٢۔ قرآن کی امثال اور و نصیحت کو غور سے سننا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کے سوا کوئی کچھ بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ کے علاوہ سب لوگ اس قدر بےبس ہیں کہ وہ مکھی سے ایک ذرّہ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ ٥۔ مشرک ہر لحاظ سے کمزور ہوتا ہے۔ ٦۔ مشرک اللہ کی قدر نہیں پہچانتا۔ ٧۔ اللہ سب سے زیادہ قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الناس ……والمطلوب (٢٧) یہ عام پکار ہے ، بلند آواز سے اعلان عام ہے۔ یا یھا الناس (٢٢ : ٣٨) اے لوگو ، جب لوگ جمع ہوگئے تو ان کے سامنے ایک مثال ہے۔ ایک عجیب منظر کی شکل میں ۔ یہ کوئی مخصوص مجلس نہیں ہے ، نہ کوئی اتفاقی بات ہے بلکہ لوگوں کو بلایا گیا ہے۔ ضرب مثل فاستمعوا لہ (٢٢ : ٨) ” مثال دی جاتی ہے غور سے سنو ، اس کو۔ “ یہ مثال ایک قاچدہ اور اصول مقرر کرتی ہے اور حقیقت بتاتی ہے۔ ان الذین ……اجتمعوالہ (٢٢ : ٣٨) ” جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑکر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ ‘ یعنی اللہ کے سوا تم جن بتوں کو پوجتے ہو ، یا جن اشخاص کی بندگی کرتے ہو ، یا رسومات اور تاقلید کی بندگی کرتے ہو ، جن سے تم نصرت طلب کرتے ہو ، جن سے تم امداد طلب کرتے ہو اور جن سے تم عزت طلب کرتے ہو ، یہ سب کے سب اگر مل جائیں تو ایک مکھی کی تخلیق بھی نہیں کرسکتے۔ مکھی اللہ کی مخلوقات میں سے بہت ہی صغیر و حقیر مخلوق ہے لیکن جن کو یہ الہ اور خدا کہتے ہیں وہ اس پر بھی قادر نہیں۔ اگرچہ وہ سب کے سب ایک دوسرے کی مدد پر جمع ہوجائیں تو اللہ کی مخلوقات میں سے اس نہایت ہی معمولی چیز کو وہ نہیں پیدا کرسکتے۔ جہاں تک مکھی کی تخلیق کا تعلق ہے وہ تو اونٹ اور ہاتھی جیسے بڑے حیوانات کی طرح مشکل اور محال ہے۔ کیونکہ مکھی کے اندر بھی وہی راز حیات ہے جو اونٹ اور ہاتھی کے اندر ہے لہٰذا محض محال ہونے میں تو چھوٹی بڑی مخلوق برابر ہے۔ لیکن قرآن کے معجزانہ انداز بیان نے یہاں مکھی جیسی صغیر و حقیر چیز کو مثال کے لئے منتخب کیا ہے کیونکہ اگر کوئی مکھی کی تخلیق سے عاجز ہے تو اس کی عاجزی بمقابلہ اونٹ یا ہاتھی زیادہ سہولت سے سمجھ میں آتی ہے ، یہ محض تعبیری انداز ہے ورنہ حقیقت تو دونوں کی ایک ہے۔ قرآن کریم کا یہ نہایت انوکھا اسلوب ہے۔ اب ذرا ان معبودوں کی کمزوری کی سمت میں ایک قدم اور آگے جائیے۔ وان یسلبھم الذباب شیئالا یستنقذوہ منہ (٢٢ : ٣٨) ” بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ ‘ ان معبودوں کی حالت تو یہ ہے کہ اگر مکھی ان سے کوء چیز چھین کرلے جائے تو یہ اسے نہیں چھڑا سکتے ۔ چاہے بت ہوں ، چاہے اشخاص اور اولیاء ہوں۔ بلکہ بڑے بڑے فرعونوں سے مکھی انگر کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو وہ اسے پکڑ نہیں سکتے۔ یہاں بھی مکھی کو اختیار کیا گیا تاکہ اس صغیر و حقیر چیز کا سایہ ان بتوں پر پڑے اور ان کی بیچاگری اچھی طرح واضح ہوجائے۔ جبکہ اس کے اندر خطرناک بیماری ہوتی ہے اور وہ ہم سے نفیس چیزیں اڑا کرلے جاتی ہے۔ یہ کبھی ہم سے آنکھیں لے لیتی ہے ، کبھی اس کی وجہ کوئی عضو شل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھار تو آدمی اس بیمار سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سل ٹائیفائیڈ ، ڈائینٹری اور ہیضے کے جراثیم کی حامل ہے ، لیکن ہم سے وہ چیزیں لے جاتی ہے جو ہم اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ قرآن کا معجزانہ انداز کلام اس قسم کے ایک لفظ اور مفہوم کا انتخبا کر کے اس طرح کی فضا پیدا کر یدتا ہے۔ اگر قرآن مجید میں کہتا کہ اگر درندے ان سے کوئی چیز لے جائیں تو یہ چھڑا نہیں سکتے تو اس سے ضعف کے مقابلے میں قوت کا تصور آتا ، حالانکہ درندے مکھی سے زیادہ قیمتی شے نہیں چھین سکتے لیکن مکھی کے لفظ سے ان کی بیچارگی اور حقارت کا تصور زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ مثال کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ ضعف الطالب و المطلوب (٢٢ : ٣٨) ” مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ “ تاکہ مکھی کے لفظ سے جو ضعیفی کی فضا بنی ہے وہ ثابت بھی ہوجائے۔ اب فضا تیار ہے ، انسانی سوچ اور فکر میں ان الموں کی حقارت اور بیچارگی بیٹھ گئی ہے ، ایسی فضا میں قرآن اللہ کی قوت کا اعلان کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ انسان نے اللہ کی اس عظیم قوت کا اندازہ نہیں لگایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کے معبودوں کی عاجزی کا حال غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں اور ان کے معبودوں کے بارے میں عجیب بات بیان فرمائی ہے اور اس کو مثل سے تعبیر فرمایا مثل کہاوت کو کہتے ہیں اور یہ ایسی بات ہے جسے مشرکوں کے سامنے بار بار ذکر کرنا چایئے۔ مشرکوں کو سنائیں اور ان سے کہیں کہ خوب دھیان سے سنو تاکہ تمہیں اپنی حماقت اور گمراہی کا خوب پتہ چل جائے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تم جن کی عبادت کرتے ہو اور جنہیں مدد کے لیے پکارتے ہو یہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے سب مل کر بھی ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ اتنی بڑی کائنات کا خالق ہے اس کی عبادت چھوڑ کر عاجز مخلوق کی عبادت کرنا اور عاجز مخلوق سے مرادیں مانگنا بہت بڑی بےوقوفی ہے اور بہت دور کی گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تم نے جتنے بھی معبود بنا رکھے ہیں یہ مکھی پیدا تو کیا کرتے اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ مشرکین بتوں کے جسموں پر زعفران لگا دیتے تھے اور ان کے سروں پر شہد مل دیتے تھے پھر دروازہ بند کر کے یہ چلے جاتے تھے۔ اور ادھر روشن دانوں سے مکھی آجاتی تھی جو شہد کو کھا جاتی تھی (ہندوستان کے مشرکوں کا اب بھی یہ طریقہ ہے کہ بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں ان کے سامنے مٹھائیاں رکھتے ہیں مکھیوں کے مزے آجاتے ہیں اور یہ باطل معبود بےجان عاجز مکھی تک کے سامنے کچھ بھی نہیں) اپنے خود تراشیدہ معبودوں کی حالت خود آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن ان کی پوجا پاٹ اور ان کے سامنے ڈنڈوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ جو شحض حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت توحید سے منہ موڑے گا وہ اسی طرح عاجز مخلوق کے سامنے ذلیل ہوگا، جو لوگ خالق ومالک کی توحید کے قائل نہیں ہوتے اور اس کی ذات پاک کو سجدہ نہیں کرتے وہ یوں ہی مارے پھرتے ہیں اور اپنے سے بھی زیادہ عاجز مخلوق کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ ) (طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ طالب سے مشرک یعنی غیر اللہ کی عبادت کرنے والا اور مطلوب سے معبود باطل مراد ہیں اور مطلب یہ ہے جیسا عابد ویسا ہی معبود دونوں ہی ضعیف ہیں، معبود تو ضعیف اس لیے ہیں کہ وہ مکھی تک سے مٹھائی بھی نہیں چھڑا سکتے اور اس کی عبادت کرنے والا اس لیے کمزور ہے اس کی کمزوری عقل کے اعتبار سے ہے وہ ایسی چیز سے نفع کا امیدوار ہے جو اپنے چڑھاوے کی چیز کو مکھی تک سے نہیں چھڑا سکتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:۔ ” یَا اَیُّھَا النَّاسُ الخ “ یہ سورت کے دونوں مضمونوں کے ساتھ متعلق ہے پہلے سے بالذات اور دوسرے سے بالتبع یعنی اللہ کے سوا تم جن خود ساختہ معبودوں کو مصائب میں پکارتے ہو وہ بالکل عاجز ہیں تمہاری مدد کرنا تو درکنار وہ اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے اور اپنے نفی نقصان کے مالک بھی نہیں لہذا وہ نذر و نیاز کا استحقاق بھی نہیں رکھتے اس طرح اس سے شرک اعتقادی اور شرک فعلی دونوں کی نفی ہوگئی ابتدائے سورت سے یہاں تک مسئلہ توحید کے اثبات اور اعتقادی اور عملی شرک کے رد پر دلائل عقلیہ اور نقلیہ پیش کیے گئے۔ یہاں معبودان باطلہ کے عاجز و بےبس ہونے اور غیر اللہ کی پکار کے بےسود ہونے کو ایک تمثیل سے واضح کیا گیا ہے یعنی اے مشرکین اللہ کے سوا تم جن خود ساختہ معبودوں کو مصائب و حاجات میں پکارتے ہو وہ تمہاری حاجت برآری اور داد رسی نہیں کرسکتے۔ وہ بالکل عاجز ہیں حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف وہی ہوسکتا ہے جو سب کا خالق ومالک ہے اور تمہارے معبود تو سارے مل کر بھی ایک مکھی پیدا کرنے قدرت بھی نہیں رکھتے مکھی کو پیدا کرنا تو درکنار اگر ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے مکھی کچھ تھوڑا سا اپنے منہ میں ڈال کرلے اڑے تو وہ اس کے منہ سے چھڑانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے تو جو معبود اس قدر عاجز اور بےبس ہوں ان کی عبادت کرنا۔ ان کو کارساز سمجھ کر مصائب میں پکارنا اور ان کی رضا جوئی کے لیے نذریں نیازیں دینا نہایت ہی بےعقلی کی بات ہے۔ ” ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ “ طالب یعنی غیر اللہ کو پکارنے والا اور مطلوب یعنی معبود باطل دونوں کمزور ثابت ہوئے۔ طالب اس طرح کہ اس نے غیر محل سے حاجت مانگی اور مطلوب اس طرح کہ اپنے پجاری کو کچھ نہ دے سکا۔ الطالب عابد غیر اللہ تعالیٰ والمطلوب الالھۃ (روح ج 17 ص 202) ۔ اس آیت سے اولیاء اللہ کو حاجات و مشکلات میں پکارنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے بعض جہلا کا خیال ہے کہ اولیاء اللہ ان کی حاجت روائی کرتے ہیں اس لیے وہ ان کی نذریں دیتے ہیں وہ ان کو قبروں میں متصرف و مختار سمجھتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں، متشکل ہو کر قبروں سے باہر نکل آتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا “ اشارۃ الی ذم الغالین فی اولیاء اللہ تعالیٰ حیث یستغیثون بھم فی الشدۃ غافلین عن اللہ تعالیٰ وینذرون لھم النذور والعقلاء منھم یقولون انھم وسائلنا الی اللہ تعالی۔ ولا یخفی انھم فی دعواھم اشبہ الناس بعبدۃ الاصنام القائلین انما نعبدھم لیقربونا الی اللہ زلفی۔ ومنھم من یثبت التصرف لھم جمیعا فی قبورھم۔ والعلماء منھم یحصرون التصرف فی القبور فی اربعۃ او خمسۃ واذا طولبوا بالدلیل قالوا ثبت ذالک بالکشف قاتلھم اللہ تعالیٰ ما اجھلھم و اکثر افترائھم ومنھم من یزعم انھم یخرجون من القبور ویتشکلون باشکال مختلفۃ۔ وکل ذالک باطل لا اصل لہ فی الکتاب والسنۃ وکلا سلف الامۃ وقد افسد ھؤلاء علی الناس دینھم الخ (روح ج 17 ص 112، 113) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) اے انسانو ! ایک عجیب بات اور توحید کے مقابلے میں شرک کی برائی کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے تم اس کو کان لگا کر توجہ سے سنو۔ بلاشبہ ! تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبودوں کی عبادت اور پرستش کرتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور وہ ہرگز ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب مکھی پیدا کرنے کے لئے جمع بھی ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو یہ اس مکھی سے اس چیز کو چھڑا بھی نہیں سکتے۔ طالب یعنی عابد بھی ضعیف و ناتواں اور مطلوب یعنی معبود بھی کمزور و ضعیف یعنی مکھی ایک بہت ہی ذلیل و حقیر جانور ہے یہ تمام معبودان باطلہ مل کر بھی اس کی تخلیق نہیں کرسکتے اور اس کو نہیں بناسکتے۔ پیدا تو کیا کریں گے۔ ان کی کمزوری کا یہ عالم ہے اگر مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کچھ لے کے اڑ جائے تو یہ اس کو مکھی سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کفار مکہ ان بتوں کے سر پر زعفران ملتے تھے اور شہد ملتے تھے یا یہ کہ بت پرست کچھ کھانے پینے کو بتوں کے سامنے رکھ دیا کرتے ہی۔ طالب اور مطلوب میں مفسرین کے چند قول ہیں طالب سے مراد مکھی اور مطلوب سے مراد صنم یا طالب سے مراد صنم اور مطلوب سے مراد مکھی یا طالب سے مراد صنم کا پجاری اور مطلوب سے مراد صنم۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چاہنے والا اور جس کو چاہتا ہے ان کے بت مکھی چاٹتی ہے بت کو نہ وہ مورت اڑاتی ہے اس کو نہ اس مورت کا شیطان۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ یہ مشرک کس قدر بیوقوف ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو قادر و توانا ہے اس کو چھوڑ کر کمزور اور عاجز کی پوجا کرتے ہیں۔