Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 9

سورة الحج

ثَانِیَ عِطۡفِہٖ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَہٗ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ نُذِیۡقُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ ﴿۹﴾

Twisting his neck [in arrogance] to mislead [people] from the way of Allah . For him in the world is disgrace, and We will make him taste on the Day of Resurrection the punishment of the Burning Fire [while it is said],

جو اپنی پہلو موڑنے والا بن کر اس لئے کہ اللہ کی راہ سے بہکا دے ، اسے دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثَانِيَ عِطْفِهِ ... Bending his neck in pride, Ibn Abbas and others said, "Too proud to follow the truth when he is called to it." Mujahid, Qatadah and Malik said, narrating from Zayd bin Aslam: ثَانِيَ عِطْفِهِ (Bending his neck in pride), means, twisting his neck, i.e., turning away from the truth to which he is called, bending his neck out of pride and arrogance. This is like the Ayat: وَفِى مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَـهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ And in Musa, when We sent him to Fir`awn with a manifest authority. But (Fir`awn) turned away along with his hosts. (51:38-39) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَأ أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَـفِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُوداً And when it is said to them: "Come to what Allah has sent down and to the Messenger," you see the hypocrites turn away from you with aversion. (4:61) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْاْ رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ And when it is said to them: "Come, so that the Messenger of Allah may ask forgiveness from Allah for you," they twist their heads, and you would see them turning away their faces in pride. (63:5) And Luqman said to his son: وَلاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ And turn not your face away from men with pride. (31:18) meaning, do not turn away from them in an arrogant manner. And Allah says: وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ ءَايَـتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِراً And when Our verses are recited to him, he turns away in pride. (31:7) ... لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ... and leading (others) too (far) astray from the path of Allah. This either refers to those who are stubborn, or it means that the person who does this has been created like this so that he will be one of those who lead others astray from the path of Allah. Then Allah says: ... لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ... For him there is disgrace in this worldly life, meaning, humiliation and shame, such as when he is too arrogant to heed the signs of Allah, so Allah will send humiliation upon him in this world and will punish him in this world, before he reaches the Hereafter, because this world is all he cares about and all he knows. ... وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ ( وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا) 31 ۔ لقمان :7) ( لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ ) 63 ۔ المنافقون :5) ( اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ) 17 ۔ الاسراء :83)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ثَانِيَ عِطْفِهِ (Turning his side away - 22:5) The word عِطْفِ ` itf means ` side of the body&, and the expression means ` to turn on one&s side& - in other words ` to oppose&.

ثَانِيَ عِطْفِهٖ ، عطف کے معنے جانب اور کروٹ کے ہیں یعنی کروٹ موڑنے والا۔ اس سے مراد اس کا اعراض کرنا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ۭ لَہٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّنُذِيْقُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝ ٩ ثنی الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ عطف العَطْفُ يقال في الشیء إذا ثني أحد طرفيه إلى الآخر، کعطف الغصن والوسادة والحبل، ومنه قيل للرّداء المثنيّ : عِطَاف، وعِطْفَا الإنسان : جانباه من لدن رأسه إلى وركه، وهو الذي يمكنه أن يلقيه من بدنه . ويقال : ثنی عِطْفَهُ : إذا أعرض وجفا، نحو : نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] ، وصعّر بخدّه، ونحو ذلک من الألفاظ «4» ، ويستعار للمیل والشّفقة إذا عدّي بعلی، يقال : عَطَفَ عليه وثناه، عاطفة رحم، وظبية عاطفة علی ولدها، وناقة عَطُوف علی بوّها «5» ، وإذا عدّي بعن يكون علی الضّدّ ، نحو : عَطَفْتُ عن فلان . ( ع ط ف ) العطف ( ن ) کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی چیز کا ایک سرا دوسرے کی طرف موڑ دیا جائے مثلا رسی درخت کی ٹہنی وغیرہ کو دوہرا کرنے کو عطف کہا جاتا ہے اور عطاف کے معنی دو تہوں والی چادر کے ہیں ۔ عطفا الانسان انسان کے دونوں پہلو یعنی سر سے لے کر سرین تک کے دونوں جانب بدن کے اس حصہ کو آسانی سے موڑا جاسکتا ہے ثنی عطفہ کے معنی ہیں اعراض کرنا اور دور ہونا جیسا کہ نای بجنبہ وصعر نجد ہ وغیرہ محاورات ہیں جب یہ لفظ علیٰ کے واسطہ سے متعدی ہو تو اس کے معنی کیس پر مائل ہونے اور شفقت کرنا آتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ عطف علیہ وثنا ہ عاطفہ رحم ظبیۃ عاطف علی ولدھا وناقۃ عطوف علٰی بوھا وغیرہ اور جب تعدیہ بواسطہ عن ہو تو اس کے معنی اعراض کرنا اور دور ہونا ہوتے ہیں جیسے عطفت عن فلان میں نے فلاں سے اعراض کیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة «2» ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث : «اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» «3» . والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء : إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم . ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) تاکہ دوسرے لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے بےراہ کردیں ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے یعنی بدر کے دن ذلیل ہو کر مارا جائے گا اور ہم قیامت کے دن جلتی ہوئی آگ کا عذاب یا سخت عذاب اس کو چکھائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. Verse 3 mentioned those people who have themselves gone astray, but verse 9 mentions those who have not only deviated from the right way themselves but are also bent upon misleading others from it.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :14 پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں ۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:9) ثانی۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ ثنی یثنی (ضرب) ثنی مصدر۔ عطفہ۔ اس کا شانہ۔ اس کا پہلو۔ عطف۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ عطف کے معنی جانب وپہلو کے ہیں۔ اور اس کی جمع اعطاف ہے جیسے حمل کی جمع احمال ہے۔ عطف الانسان۔ سر سے لے سرین تک انسان کے دونوں جانب یعنی پہلو ہیں اور یہ بدن کا وہ حصہ ہے جس کو وہ موڑ سکتا ہے اور ثنی عطفہ کا استعمال منہ موڑنے اور سختی برتنے کے لئے ہوتا ہے۔ جیسے نای بجانبہ۔ (اس نے پہلو تہی کی) اور صعر بخدہ (اس نے اپنا گال پھلایا) جب اس کا تعدیہ بذریعہ علی ہوتا ہے تو اس کا استعمال شفقت اور میلان کے معنی میں ہوتا ہے چناچہ عطف علیہ (وہ اس پر مہربان ہوا) اور جب بذریعہ عن اس کا تعدیہ ہوتا ہے تو پھر اس کے معنی منہ موڑنے اور بےرخی کرنے کے ہوتے ہیں۔ جیسے عطفت عن فلان میں نے فلاں سے منہ موڑ لیا۔ ثانی عطفہ۔ ضمیر فاعل یجادل سے حال ہے (تکبر سے) پہلو کو موڑتا ہوا۔ لیضل عن سبیل اللہ۔ لیضل۔ لام تعلیل کے لئے ہے۔ یضل واحد مذکر غائب۔ تاکہ گمراہ کرے۔ تاکہ بہکاوے۔ (باب افعال) ۔ نذیقہ۔ مضارع جمع متکلم ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ ہم اس کو چھکائیں گے، اذاق یذیق اذاقۃ واذاقۃ (افعال ) چکھانا۔ ذائقۃ چکھنے والی۔ الحریق۔ آگ۔ احرق یحرق (افعال) کسی چیز کو جلانا۔ احترق (افعال) جل جانا جیسے فاصابھا اعصار فیہ نار فاحترقت۔ (2:266) تو (ناگہاں) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولہ چلے اور وہ جل (کر راکھ کا ڈھیر ہو) جائے۔ حرق یحرق (تفعیل) جلانا ۔ قالوا حرقوہ (21:68) کہنے لگے اس کو جلادو۔ الحریق بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور فاعل اور مفعول دونوں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جلانے والا۔ جلا ہوا۔ تپ محرقہ۔ تیز بخار۔ جلا دینے والا بخار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا ‘ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلانے کو تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ یعنی ابوہریرہ (رض) بھول گئے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنی مدت بتلائی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دومچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ “ [ رواہ البخاری : باب (یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا) زُمَرًا ] (دومچی سے مراد اس کا کوئی خاص ذرّہ ہے جو محفوظ رہتا ہے۔ ) مسائل ١۔ قیامت کو جھٹلانے والا حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ ٢۔ قیامت کو جھٹلانے والے کے پاس عقلی و نقلی دلیل نہیں ہوتی ٣۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلادینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے منکر کو عذاب : ١۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ثَانِيَ عِطْفِهٖ الخ “ یہ ” یُجَادِلُ “ کے فاعل سے حال ہے یعنی حق سے اعراض کرتے اور اللہ کے ذکر سے منہ موڑتے ہوئے وہ جھگڑا کرتا ہے ” لِیُضِلّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ “ یہ اس کے جدال کی غرض وغایت اور علت ہے۔ یعنی جدال سے اس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ متعلق یجادل علۃ لہ فان غرضہ من الجدال الاضلال عن سبیلہ تعالیٰ وان لم یعترف بانہ اضلال (روح ج 17 ص 122) ۔ 18:۔ ” لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْيٌ الخ “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ” وَ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ الخ “ تخویف اخروی۔ ” ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ الخ “ ای یقال لہ فی الاخرۃ اذا دخل النار (قرطبی ج 12 ص 16) جب آخرت میں وہ جہنم میں داخل ہوگا اس وقت اس سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اپنے کیے کی سزا ہے اور تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ ان اللہ لیس بظلام للعبید سے پہلے اور واؤ عاطفہ کے بعد اعلم مقدر ہے ورنہ ماقبل پر اس کا عطف جائز نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) تکبر سے اپنا پہلو موڑ کر جھگڑا کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے … صحیح راستے سے لوگوں کو بےراہ کرے ایسے شخص کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور ہم اس کو قیامت کے دن بھی عذاب سوزاں کا مزا چکھائیں گے اور جلانے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔