Surat ul Mominoon

The Believers

Surah: 23

Verses: 118

Ruku: 6

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن نام : پہلی ہی آیت قَد افْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان اور مضامین ، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے ۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے ، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے ۔ آیت 75 ۔ 76 سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا ۔ عروہ بن زبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے ۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے ۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے ، اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا ، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، حاکم ) ۔ موضوع اور مباحث : اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے ۔ آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے ، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں ، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں ۔ اس کے بعد انسان کی پیدائش ، آسمان و زمین کی پیدائش ، نباتات و حیوانات کی پیدائش ، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے ۔ پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں ، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں ، لیکن دراصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں : اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں ۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے ، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو ، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے ۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے ۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟ دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے ۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو ۔ سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں ۔ چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے ۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے ۔ ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی ، مال و دولت ، آل و اولاد حشم و خدم قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے ۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے ۔ اصل چیز جس پر خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے ۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے ۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے ، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے ۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں ، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے ، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے ، یہ ایک تنبیہ ہے ۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے ۔ پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو ، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہے ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں ، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا ۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے ۔ خاتمہ کلام پر مخالفین حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق اور اس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ المومنون تعارف اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر (رض) کے حوالے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی لیے اس سورت کا نام مومنون ہے۔ یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ (رض) نے سورۃ مومنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے۔ سورت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غوروفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اور بالاخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے، اس میں انسان کا نجام کیا ہوگا؟ اس کے علاوہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں، تاکہ یہ بات واضھ ہو کہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی، اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے، اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة نمبر 23 کل رکوع 6 آیات 118 الفاظ و کلمات 1070 حروف 4538 سورۃ المومنون مکہ مکرمہ کے دور متوسط میں نازل ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کی شدید مخالفت کی جارہی تھی مگر ظلم و ستم میں شدت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی بعض ایسی صفات کا ذکر فرمایا ہے جو ان کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و با مراد کرنے کی ضمانت ہیں۔ دنیا میں لوگوں نے کامیابی اور ناکامی کے کچھ پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔ جس کے پاس مال و دولت ‘ اولاد اور وسائل کی کثرت ہوتی ہے تو اس کو کامیاب ترین انسان اور بڑا آمی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ مال و دولت جس نے اسے بڑا آدمی بنا یا ہے وہ کہاں سے آئی۔ ذرائع حلال تھے یا حرام۔ یہ سب مال اس نے ظلم و زیادتی ‘ رشوت ‘ چوری ‘ ڈکیتی سے حاصل کیا ہے یا کسی اور ذریعہ سے۔ اس کے برخلاف وہ شخص جو اپنی نیکیوں پر قائم ہے ‘ علم و عمل کا پیکر ‘ تقویٰ و پرہیز گاری جس کا طریقہ زندگی ہے ‘ رزق حلال کی وجہ سے وہ غربت و بےبسی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے وہ چوری ‘ ڈکیتی اور ظلم و ستم کے بجائے اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرتا ہے تو ایسے شخص کو معاشرہ میں ناکام و نامراد سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کامیاب اور ناکام لوگوں کے لیے جو معیار مقرر کیا ہے وہ تقویٰ اور پرہیز گاری ہے یہاں انسانیت اور شرافت کو مال و دولت کے ترازو پر نہیں بلکہ نیکی ‘ اور پرہیزگاری اور تقویٰ کے پیمانوں سے ناپا جاسکتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری کا پیکر بن گئے وہ دنیا و آخرت کے کامیاب ترین لوگ ہیں لیکن جنہوں نے اللہ و رسول کی نافرمانی کو اپنا شعار بنا لیا ہے دن رات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلاتے ہیں۔ اپنی ضد ‘ تکبر ‘ غرور اور ہٹ دھرمی کے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ انتہائی ناکام و نامراد ہیں۔ ایسے لوگ نہ تو دنیا میں کامیا ہوں گے اور نہ آخرت کی ابدی راحتوں سے ہم کنارہوں گے۔ فرمایا کہ جب ایسے نافرمان لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر ان کی حکومت و اقتدار ‘ مال و دولت ‘ زیب وزینت ‘ طاقت و قوت ‘ تہذیب و تمدن ‘ بلند وبالا عمارتیں جن پر انہیں ناز ہوتا ہے ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں چناچہ اللہ نے کفار کی تمام طاقتوں کے باوجود قوم نوح (علیہ السلام) اور قوم موسیٰ (علیہ السلام) پر پانی کا ایک زبردست طوفا بھیج کر ان کو تنکوں کی طرح بہادیا اور ان کی طاقت وقوت ان کے کوئی کام نہ آسکی۔ ان کو اور ان کی ترقیات کو غرق کردیا گیا۔ لیکن وہ لوگ جو دنیاوی اعتبار سے نہایت کمزور اور بےبس تھے ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ان کو دنیاوی اقتدار و قوت دے دی گئی اور وہ زمین کے وارث بن گئے۔ جب سورة المومنون نازل کی گئی اس وقت تک حضرت عمر (رض) ایمان لاچکے تھے اور مسلمانوں کے حوصلے بلند اور تبلیغ اسلام میں ایک نئی روح بیدارہ چکی تھی۔ جب اس سورة کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو بعض صحابہ کرام (رض) نے ان کیفیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو نزول وحی کے وقت آپ پر طاری ہوتی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس وقت مجھ پر ایسی دس آیتیں اتاری گئی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کے معیار پر پورا ترے گا تو وہ یقیناً جنت کا مستحق بن جائے گا۔ پھر آپ نے سورة المومنون کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائیں۔ سورۃ المومنون میں اسی حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ دین و دنیا کی بھلائی اور کامیابی کن لوگوں کے حصے میں آئی۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو صاحب ایمان ہیں ‘ جن کی عبادت و بندگی میں خشوع و خضوع اور عاجزی ہوتی ہے ‘ جو فضول باتوں سے بچتے اور اپنے دلوں کو ہر طرح ناپاکیوں اور عیبوں سے پاکرکھتے ہیں۔ جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ جن کا یہ حال ہے کہ وہ امانتوں کی نگہداشت کرنے والے عہد و ماہدوں کی پابندی کرنے والے اور نمازوں کی حفاظت کا جذبہ رکھنے والے ہیں وہ مومن ہیں اور کامیاب ہیں۔ سورۃ المئومنون کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی سات صفات بیان کی ہیں اور بتایا ہے کہ جو لوگ ایسی صفات کے مالک ہوں گے وہ کبھی ناکام و نامراد نہ ہوں گے بلکہ دین و دنیا کی بھلائیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ساتوں صفات کی تصیل بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ ١) خشوع و خضوع : دلی سکون و اطمینان ‘ اللہ کے سامنے خوف سے ساکن اور پست ہونا۔ حضرت ابو دردائ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛ ” میری امت میں سب سے پہلے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ خشوع و خضوع ہے۔ یہاں تک کہ قوم میں خشوع (عاجزی و انکساری) اختیار کرنے والا نظر نہ آئے گا۔ “ اس حدیث پر غور کیا جائے تو آج جو ہماری حالت ہے وہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں میں اللہ کے لیے وہ عاجزی و انکساری اور توجہ الی اللہ نہیں رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نمازیں ‘ ہماری عبادات اور ہمارے معاملات خشوع سے خالی ہیں اور ہم ہر کام نہایت بےولی سے کرتے ہیں اس لیے ہمارے دل و دماغ اور روح پر روحانی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ٢) لغویات سے پرہیز : مومن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر اس بات یا ہر اس کام سے بچ کر چلتا ہے جو بےکار ‘ بےفائدہ اور بےمقصد ہو۔ جس میں نہ دنیا کا فائدہ نہ آخرت کی کامیابی ‘ نہ کوئی اچھا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ یہ گناہ بےلذت ہم زندگی بھر کرتے رہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری مجلسیں ‘ محفلیں اور اجتماعات ان لغویات سے بھر پور ہیں جن میں سوائے ایک دوسرے کی غیبت چغل خوری اور سازشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے ؛ ” انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہو سکتا ہے جب وہ لغو ( بےہودہ ‘ بےکار ‘ بےفائدہ باتوں کو) کو چھوڑ نہ دے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو بےکار باتوں میں الجھا کر ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر طرح کی لغویات سے بچ کر اپنی نمازوں اور عبادات میں مقصدیت پیدا کرتا ہے۔ ٣) تزکیہ نفس : مومنوں کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اپنے دل کو ہر طرح کے برے خیالات سے پاک صاف رکھتا ہے۔ کفر و شرک ‘ تکبر و غرور ‘ دکھاوا ‘ بغض وحسد ‘ کینہ پروری ‘ لالچ ‘ کنجوسی ‘ غیبت ‘ چغل خوری ‘ دوسروں پر الزام لگانے سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کو پاک صاف رکھتا ہے تاکہ انورات الہی سے اس کے من کے دنیا منور و روشن ہوجائے۔ ٤) شرم گاہوں کی حفاظت : مومن کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی شرم گاہوں کو ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور ان کا استعمال وہیں کرتے ہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول نے اجازت دی ہے۔ جو لوگ اس معاملہ میں حدود پار کرجاتے ہیں وہ ظالم ہیں جنہیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جس قوم میں زنا ‘ بدکاری ‘ اور لواطت عام ہوجاتی ہے وہ معاشرہ برباد ہو کر رہتا ہے۔ اگر اس معاشرے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور پھر ان گناہوں کا چلن ہو تو ان کو سزا ملنے میں دیر نہیں لگتی لیکن اگر کافر معاشرہ ہے تو اللہ ان کو سنبھلنے اور سمجھنے کے لیے مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔ اگر وہ اپنی اس روش سے باز نہیں آتے تب اللہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچلیتا ہے جس کا وہ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ اللہ کا وہ فیصلہ ہے جسے اللہ کبھی تبدیل نہیں کرتا۔ نزول قرآن کے وقت غلامی کا دور چلا آرہا تھا جس میں انسانوں کی خریدو فرخت ہوا کرتی تھی اور غلام باندیوں کا رواج تھا۔ غلام اور باندیاں ایک ذاتی ملکیت کی طرح ہوا کرتی تھیں۔ وہ جس طرح چاہتے ان کو استعمال کرتے تھے ۔ یہ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیض رحمت ہے کہ دنیا سے غلامی کا رواج ختم ہوگیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو شاید دنیا سے غلامی کا دور کبھی ختم نہ ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے ایسے طریقے اختیار فرمائے جس سے آہستہ آہستہ غلامی ختم ہو کر رہ گئی۔ تاہم جب تک اس مقصد کی تکمیل نہیں ہوگئی اس وقت تک دین اسلام نے ہمیں اجازت دی ہوئی تھی۔ فرمایا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے جہاں اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن اس کے سوا ہر جگہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ ٥) امانت کا خیال رکھنا : مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہیں کرتا۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جس میں امانت نہیں اس میں دین نہیں۔ ا کی جگہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمایا کہ منافق میں کیا کیا خرابیاں اور علامتیں ہوتی ہیں اسی میں فرمایا کہ منافق وہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت ضرور کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیانت و امانت مومن کا سب سے بڑا وصف اور صفت ہے۔ بہر حال بےایمانی اور ایمان ایک ساتھ نہیں چلتے۔ ٦) عہد کی پابندی : مومن کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کا پابند ہوتا ہے اور کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اے مومنو ! تم اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ اگر تم اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرو گے تو کل قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس کا جواب دینا ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو اپنے وعدے وعید پورے نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ عہد کی پابندی اور عہد شکنی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جو وعدہ خلافی کرنے والا ہے وہ درحقیقت حقیقی مومن نہیں ہے۔ ٧) نمازوں کی حفاظت : مومن کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وقت پر نماز کی ادائیگی ‘ پورے آداب کا لحاظ ‘ خشوع و خضوع کی پابندی مومن کا مزاج ہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان کا کاروبار یا زندگی کی ذمہ داریاں اس کو نمازوں سے غافل کردیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نمازوں کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ہی لوگ کامیاب و بامراد ہیں اور سچے مومن ہیں جن میں مذکورہ تمام صفات موجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة المؤمنوں کا تعارف ربط سورة : سورة حج کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ اے مسلمانوں ” اللہ “ ہی تمہارا مولیٰ ہے وہ بہترین مولیٰ ، خیرخواہ اور بہترین مددگار ہے۔ اگر تم نماز، زکوٰۃ اور اخلاقی حدود کی پابندی کرو گے تو کامیابی تمہارا مقدر بن جائیگی جس کی تمہیں گارنٹی دی جاتی ہے۔ یہ سورة 6 رکوع 118 آیات پر مشتمل ہے اس سورة کا نزول مکہ معظمہ میں اس وقت ہوا جب صحابہ کرام (رض) ہر قسم کے مظالم کا شکار تھے اور اہل مکہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے۔ اب یہ دعوت چند دنوں کی مہمان ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ کہہ کر خوشخبری دی کہ تم کامیاب ہوچکے ہو۔ بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ ناصرف تم دنیا میں کامیاب ہو گے بلکہ موت کے بعد جنت الفردوس میں داخل کیے جاؤ گے۔ اس جنت الفردوس میں جس سے آدم (علیہ السلام) نکالے گئے تھے۔ اس لیے تخلیق انسان کے مختلف مراحل کا ذکر فرماکر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس کے بعد قدر تفصیل کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی جدوجہد اور ان کی قوم کے ردِّ عمل کا تذکرہ فرمایا۔ پھر چند آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور فرعون کے استکبار کا ذکر کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کا نہایت مختصر ذکر کیا اور فرمایا کہ تمام رسل ایک ہی دعوت کے داعی اور ایک ہی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر فرقہ اپنے کیے پر نازاں ہے۔ فرقہ واریت کے پیچھے سب سے زیادہ دخل ذاتی اور جماعتی نظریات اور مفادات کا ہوتا ہے۔ اس سوچ کی یہ کہہ کر نفی کی گئی ہے کہ اگر حق کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کردیا جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ غمزدہ کیوں ہوتے ہیں آپ ان سے کسی قسم کا تقاضا نہیں کرتے۔ آپ صراط مستقیم کے داعی کے طور پر کام کرتے جائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے مختلف انداز اور الفاظ میں چار دفعہ یہ بات کہلوائی ہے کہ ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے۔ ساتوں آسمان اور عرش عظیم اور ساری کائنات کس کے قبضہ میں ہے ؟ کون ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ منکرین حق کا تمام سوالات کے جواب میں یہی کہنا تھا اور ہے کہ سب کچھ اللہ ہی پیدا کرنے والا اور وہی ان کا مالک ہے۔ ان کے اس اعتراف کے بعد یہ سمجھایا گیا ہے کہ پھر اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے باز کیوں نہیں آتے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر سے بہتر انداز میں تبلیغ کا کام جاری رکھیں۔ اگر کسی وقت شیطان آپ کو غصہ دلائے تو آپ شیطان سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگا کریں۔ سورة کے اختتام سے پہلے کفار کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تمہیں جہنم میں پھینکا جائے گا وہاں تم آہ زاریاں کرو گے مگر تمہاری کوئی فریاد نہیں سنی جائے گی۔ سورة کا اختتام اس بات پر کیا ہے کہ منکرین قیامت سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے حالانکہ انہیں ان کی موت کے بعد اٹھا کر ان سے سب کچھ پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بےفائدہ پیدا نہیں کی اس کی ذات، بادشاہی اور فرمان حق ہے، وہ عرش کریم کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ جو اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے رب سے استغفار کریں اور اس کی رحمت کے طلبگار رہیں کیونکہ وہی بڑا ارحم الرّاحمین ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ ……٨١ سورة المئومنون۔ ٣٢ سورة المومنون ایک نظر میں یہ سورة المومنون ہے ، اس کا نام ہی اس کے موضوع اور مضمون کو متعین کردیتا ہے۔ مضمون کا آغاز ہی مومنین کی صفات سے ہوتا ہے اور اس کے بعد نفس انسانی سے اور اس کائنات کی وسعتوں سے دلائل ایمان دیئے جاتے ہیں۔ ایمان کی حقیقت بیان کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء اسی ایمان یک طرف دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تمام انبیاء کی اقوام کے لوگوں نے اس ایمان کی بابت کیا کیا شبہات بیان کئے ، کیا کیا اعتراضات کئے ، اس دعوت ایمانی کی راہ کس کس طرح روکتے رہے اور انہوں نے کن وجوہات کی بنا پر رسولوں کی تکذیب کی ، رسولوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ سے نصرت طلب کی اور اللہ ہمیشہ کس طرح مومنین کو نجات دیتا رہا اور مکذبین کو ہلاک کرتا رہا۔ نیز یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب بھی رسول آئے ، انہوں نے لوگوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا اور تمام رسولوں نے اسی ایک حقیقت کی طرف دعوت دی لیکن جب رسول اس دنیا سے اٹھ گیا تو اس کے بعد لوگوں نے اپنے ایمان کے اندر اختلافات شروع کردیئے۔ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت جو موقف اختیار کیا وہ بعینہ وہی ہے جو تمام قوموں نے اپنے رسولوں کے خلاف اختیار کیا۔ یہ موقف نہایت ہی مکروہ موقف ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ آخر میں مناظر قیامت میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ انبیاء کی تکذیب کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یوں کافر کو ملامت کی جاتی ہے کہ ان کا یہ موقف مکروہ اور مشکوک ہے اور اس کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ آخر میں اس بات کی توثیق کی جاتی ہے اور اہل اسلام کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہوں۔ غرض سورة المومنن میں ، ایمان کے مسائل ، ایمان کے دلائل اور ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں اور یہی اس سورة کا موضوع ہے اور اسی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ اس سورة کے بھی کئی دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اہل ایمان یقینا فلاح پائیں گے۔ اس کے بعد مومنین کی صفات کا بیان شروع ہوتا ہے جن کی کامیابی کا اعلان یہاں کیا جا رہ ا ہے۔ اس کے بعد بیان کا یہ سلسلہ انفس اور آفاق میں پائے جانے والے دلائل ایمان کے موضعو میں داخل ہوجاتا ہے ، چناچہ سب سے پہلے تخلیق انسان کے عمل میں جنین کے مختلف حالات غور کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور پوری انسانی زندگی کا آغاز اور اس کا انجام عملاً زیر بحث لایا جاتا ہے۔ زندگی کے دور سے مراحل کے مقابلے میں جنین کے مختلف مراحل کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور آخر میں انسانی زندگی کا یہ سلسلہ یوم آخرت کی طرف چلا جاتا ہے کہ اسی طرح آخرت میں دوبارہ تمہاری تخلیق ہوگی۔ اس کے بعد بیان کا رخ آفاقی دلائل کی طرف پھرجاتا ہے کہ ذرا آسمانوں کی تخلیق پر غور کرو ، آسمانوں سے پانی برسنے کے نظام پر غور کرو ، پھر ان پانیوں سے مختلف قسم کی زرعی پیداوار اور پھلوں کی پیداوار پر غور کرو ، پھر مختلف قسم کے جانوروں پر غور کرو اور خصوصاً ان جانوروں پر غور کرو جن کو تم سواری کے لئے استعمال کرتے ہو اور کشتیوں پر غور کرو جن میں تم بحری سفر کرتے ہو۔ دوسرے دور میں انفس اور آفاق میں دلائل ایمان سے روئے سخن حقیقت ایمان کی طرف پھرجاتا ہے کہ وہ حقیقت کیا ہے جس کی طرف تمام انبیاء بلاساتثناء دعوت دیتے چلے آئے ہیں وہ یہ ہے۔ یقوم اعبدوا اللہ مالکم من اللہ غیرہ ” اے برادر ان قوم ، اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی اور حاکم نہیں ہے۔ “ یہی کلمہ اور یہی دعوت حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے سامنے پیش کی۔ آپ کے بعد آنے والے تمام رسولوں نے بھی یہ دعوت اپنی اپنی اقوام کے سامنے پیش کی۔ اور یہی دعوت آخر کار خاتم النبین نے پیش کی اور اس دعوت پر تمام زمانوں میں تکذیب کرنے والوں نے یہی ایک اعتراض کیا۔ ماھذا الا رجل منکم ” یہ کچھ بھی نہیں ہے مگر تم ہی میں سے ایک شخص “ اور یہ اعتراض کہ ولو شاء اللہ لانزل ملئکۃ (٣٢ : ٣٢) ” اگر اللہ چاتہا تو وہ اپنے فرشتے نازل کردیتا۔ “ اور پھر تمام لوگوں کا اعتراض یہ تھا۔ ایعدکم انکم اذا منم و کنتم تراباً وعظاماً انکم مخرجون (٣٢ : ٥٣) ” یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جائو گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائو گے ، اس وقت تم نکالے جائو گے۔ “ تمام رسولوں نے آخر کار اللہ کی بارگاہ میں پناہ لی اور الل ہ کی نصرت طلب کی۔ اللہ نے ہمیشہ رسولوں کی دعا کو قبول کیا اور مکذبین کو ہلاک کردیا۔ یہ دور رسولوں کی پکار پر اس ربانی ہدایت پر ختم ہوتا ہے۔ یایھا الرسل ……فاتقون (٣٢ : ٢٥) ” اے پیغمبرو ، کھائو پاک چیزیں اور عمل کرو صالح ، تم جو کچھ بھی کرتے ہو ، میں اسے خوب جانتا ہوں اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ، اور میں تمہارا رب ہوں ، پس مجھ ہی سے ڈرو۔ “ تیسرے دور میں یہ کہا گیا ہے کہ رسولوں کے بعد پھر لوگوں کے اندر کس طرح تفریق پیدا ہوگئی اور سک طرح فرقہ واریت اور تنازعات پیدا ہوگئے۔ حالانکہ امت ایک تھی اور ایمان کی حقیقت بھی ایک تھی۔ فتقطعوا امرھم بینھم زبراکل حزب بمالدیھم فرحون (٣٢ : ٣٥) ” مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔ “ وہ اپنی غفلت میں مگن ہیں۔ اللہ نے اہل ثروت کو جو انعامات دیئے وہ ان میں مگن ہیں اور کفار دنیا کے ساز و سامان میں مگن ہیں۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں کو دولت ایمان دی گئی ہے وہ اپنے رب کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ وہ اللہ کی بندگی کرتے اور اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کرتے۔ ہر وقت وہ خوف خدا اور خثیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ و قلو بھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون (٢٣ : ٢٠) ” اور ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے “۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان غافلوں ، مفروروں اور منکرین کا اس وقت کا منظر پیش کرتا ہے جب ان کو اللہ کی پکڑ آلیتی ہے اور وہ فریاد کرنے لگتے ہیں ۔ اس منظر میں ان کو دکھاتے ہوئے سخت تنبیہ اور تویخ کی جاتی ہے۔ قد تنکصون (٦٦) مستکبرین بہ سمر اتھجرون (٢٣ : ٦٧) ” میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پائوں بھاگ نکلتے تھے ، اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے۔ اپنی چو پالوں میں اس پر باتیں چھانٹتے تھے اور بکواس کیا کرتے تھے۔ رسول امین کے بارے میں ان لوگوں نے جو موقف اختیار کیا ہوا تھا اس پر سخت گرفت کی جاتی ہے ۔ حالانکہ رسول امین آنے کے لیے کوئی نئی شخصیت نہ تھے ، وہ انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ تو ان کے پاس ایک سچی دعوت لے کر آئے تھے ، پھر آپ اس پر ان سے کوئی اجر بھی نہ طلب فرماتے تھے تو ان لوگوں کو آپ کی دعوت میں سے کس چیز پر اعتراض تھا ؟ وہ تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا مالک صرف اللہ ہے ، وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ صرف اللہ ہی رب ہے زمین و آسمان کا خالق ہے اور صرف اللہ ہی ہے جس نے اس پوری کائنات کو تھام رکھا ہے ۔ ان امور کو تسلیم کرنے کے بعد وہ جس چیز کا انکار کرتے تھے وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد دوبارہ کس طرح ہم زندہ ہوسکتے ہیں ، نیز وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے اور اس کے سوا بھی وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الہوں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ فتعلی عما یشرکون (٢٣ : ٩٢) ” اللہ بلند ہے ان الہوں سے ‘ سن کو وہ اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں “۔ آخری دور میں ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے اور یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ بائی کو اس طریقے سے دفع کریں جو بہترین اور شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔ غصہ نہ کریں اور نہ اپنے آپ کو پریشان کریں۔ وہ لوگ جو کچھ بکتے ہیں بکتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قیامت کے ایک منظر کی جھلک دکھائی جاتی ہے جس میں ان کے لیے ایک خوفناک عذاب انتظار میں ہے۔ جہاں ان کے ساتھ نہایت ہی توہین آمیز سلوک ہوگا اور ان کی سخت سرزنش کی جائے گی۔ یہ سبق اللہ کی پاکی کے بیان پر ختم ہوتا ہے فتعلی اللہ الملک الحق لل الہ الل ھورب العرش الکریم (٢٢ : ١١٦)ــ” پس بالاتر ہے اللہ بادشاہ حقیقی کوئی حاکم اس کے سوا نہیں ہے وہ مالک ہے عرش بزرگ کا “۔ سورة کے آخر میں اس بات کی نفی کردی جاتی ہے کہ کفار کو کوئی کامیابی ہوگی جس طرح اس سورة کے آغاز میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اہل ایمان کو کامیابی ہوگی۔ ومن یدع مع اللہ الھا اخر نا برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ انہ لل یفلح الکفرون (٣٢ـ: ١١٧) ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود پکارے گا جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ۔ ایسیکاف کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ “ اور یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی رحمت اور مغفرت کی طلب کرو۔ وقل رب اغفر وارحم وانت خیرالرحمین (٢٣ : ١١٨) ” اور اے نبی کہو میرے رب درگزر فرما اور رحم کر تو سب رحیموں سے اچھا ہے “۔ سورة کا اندازبیان اس کی فضا ایسی ہے کہ اس میں فکروضمیر کو بیدار کیا جاتا ہے ، وجدانی طرزاستدلال کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے اور حقائق کو فیصلہ کن تقریری اور قرار داد کے انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ پوری سورة ایمان کی فضا چھائی ہوئی ہے کیونکہ ایمان ہی سورة کا ہم موضوع ہے۔ آغاز سورة مومنین کی یہ صفت آتی ہے۔ الذین ھم فی صلا تھم خشعون (٢٣ : ٢) ” وہ لوگ جو اپنی جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں “۔ سورة کے درمیان میں مومنین کی یہ صفت بیان ہوئی ہے : والذین یو تون ما اتو وقلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون (٢٣ : ٦٠) ” وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی چیتے ہیں اور ان کے اس خیال سے کانپتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے “۔ اور وجدانی یوں دیا جاتا ہے۔ وھو الذی انشالکم السمع و الابصار والافئدۃ قلینا ما تشکرون (٢٣ : ٧٨) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیئے مگر تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو “۔ غرض یہ تمام سورة ایک لطیف ایمان کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi