Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 0

سورة المؤمنون

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن نام : پہلی ہی آیت قَد افْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان اور مضامین ، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے ۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے ، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے ۔ آیت 75 ۔ 76 سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا ۔ عروہ بن زبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے ۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے ۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے ، اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا ، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، حاکم ) ۔ موضوع اور مباحث : اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے ۔ آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے ، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں ، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں ۔ اس کے بعد انسان کی پیدائش ، آسمان و زمین کی پیدائش ، نباتات و حیوانات کی پیدائش ، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے ۔ پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں ، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں ، لیکن دراصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں : اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں ۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے ، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو ، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے ۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے ۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟ دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے ۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو ۔ سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں ۔ چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے ۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے ۔ ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی ، مال و دولت ، آل و اولاد حشم و خدم قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے ۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے ۔ اصل چیز جس پر خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے ۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے ۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے ، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے ۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں ، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے ، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے ، یہ ایک تنبیہ ہے ۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے ۔ پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو ، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہے ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں ، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا ۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے ۔ خاتمہ کلام پر مخالفین حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق اور اس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ المومنون تعارف اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر (رض) کے حوالے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی لیے اس سورت کا نام مومنون ہے۔ یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ (رض) نے سورۃ مومنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے۔ سورت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غوروفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اور بالاخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے، اس میں انسان کا نجام کیا ہوگا؟ اس کے علاوہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں، تاکہ یہ بات واضھ ہو کہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی، اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے، اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi