Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 1

سورة المؤمنون

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾

Certainly will the believers have succeeded:

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Success is for the believers whose qualities are described here Allah says: قَدْ أَفْلَحَ الْمُوْمِنُونَ Successful indeed are the believers, means, they have attained victory and are blessed, for they have succeeded. These are the believers who have the following characteristics: الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَتِهِمْ خَاشِعُونَ

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی ، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر ، کم نہ کر ، ہمارا اکرام کر ، اہانت نہ کر ، ہمیں انعام عطافرما ، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے ، ہم پردوسروں کو پسند نہ فرما ، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے ۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں ۔ دعا ( الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا ۔ ) پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا ۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ، پھر ان آیتوں کی ( یحافظون ) ۔ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے ، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے ۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی ۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ( وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ḍ۝ۚ ) 59- الحشر:9 ) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پاگئے ، انہوں نے نجات پالی ۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو ، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے ( نسائی ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ آپ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل ، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72؀ ) 25- الفرقان:72 ) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئے سورۃ انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ١٤١؀ۙ ) 6- الانعام:141 ) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو ۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ḍ۝۽ ) 91- الشمس:9 ) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا ۔ یہی ایک قول آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ Č۝ۙ ) 41- فصلت:6 ) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں ۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں ۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں ۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا ۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے ۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی ۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا ۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ ( ١ ) جب بات کرے ، جھوٹ بولے ( ٢ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( ٣ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ( بخاری ومسلم ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقت ، رکوع ، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے ۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے ۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے ۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے ۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو ، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے ۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں ۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں ، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے ۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے ، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے ، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے ۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا ۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا ۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے ، جہنم سے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے ( تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63؁ ) 19-مريم:63 ) اسی جیسی آیت یہ بھی ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72؀ ) 43- الزخرف:72 ) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آجائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] افلح (مادہ۔۔ ف ل ح) میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) پھاڑنا (٢) کامیابی اور (٣) بقا (مقائیس اللغۃ) اور فلاح بمعنی کسان جو بیج بونے کے لئے زمین کو پھاڑتا، فصل پکنے پر کامیابی سے ہمکنار ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانے پر اپنی مراد پاتا ہے۔ گویا افلح کے معنی ایسا کامیاب ہونا ہے جو کسی کے اپنے عمل اور محنت کے نتیجہ میں ہو۔ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کے کامیابی ہونے کا تصور بھی محال تھا اور ان پر عرصہ حیات ہی تنگ کردیا گیا تھا اور اگر اسلام لانے سے پہلے کسی مسلمان کا کوئی کاروبار یا شغل تھا بھی تو اسلام لانے کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ تھے جن کے ہاں مال و دولت کی ریل پیل تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی اور صاحب اختیار و اقتدار تھے۔ کعبہ کے متولی ہونے کی بناء پر تمام قبائل عرب ان کی عزت بھی کرتے تے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔ ان حالات میں ایمانداروں کی کامیابی کا اعلان جہاں مسلمانوں کے لئے ایک بشارت تھی وہاں اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک دنیا دار انسان کے نزدیک کامیابی کا جو تصور اور معیار ہے وہ تصور ہی سرے سے غلط ہے۔ دنیوی اور اخروی کی کامیابی کے لئے جن صفات کا ہونا لازمی ہے۔ وہ وہی چھ صفات ہیں جن کا آئندہ آیات میں ذکر ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ : ” قَدْ “ حرف ” لَمَّا “ کی نقیض ہے۔ ” لَمَّا “ کا مفہوم یہ ہے کہ متوقع کام ماضی میں ابھی تک نہیں ہوا، جیسا کہ فرمایا : (كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ ) [ عبس : ٢٣ ] ” ہرگز نہیں، ابھی تک اس (انسان) نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا تھا۔ “ جب کہ ” قَدْ “ ماضی کو حال کے قریب کردیتا ہے اور جملہ فعلیہ میں تاکید کا وہی فائدہ دیتا ہے جو جملہ اسمیہ میں ”إِنَّ “ اور ” لام تاکید “ دیتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کام کی توقع تھی وہ ماضی قریب میں یقیناً واقع ہوچکا ہے۔ یعنی آگے ذکر کردہ صفات والے مومن یقیناً فلاح پاچکے ہیں۔ مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابی کو یقینی ہونے کی وجہ سے ” قَدْ “ اور ماضی کے صیغہ ” اَفْلَحَ “ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ (بقاعی وابن عاشور) ” قَدْ “ کے ساتھ تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سی آیات میں ایمان والوں کو فلاح کی امید دلائی گئی تھی، جیسا کہ پچھلی سورت کے آخر میں فرمایا : (وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) [ الحج : ٧٧ ] ” اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ “ تو اس توقع کے پورا کرنے کی خوش خبری ” قَدْ اَفْلَحَ “ کے ساتھ بیان فرمائی۔ شاید نماز کی اقامت ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ “ میں حرف ” قَدْ “ اسی وجہ سے ہے کہ نمازی شوق سے جماعت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ “ اسی انتظار کا اثبات میں جواب ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا بِلَالُ ! أَقِمِ الصَّلَاۃَ أَرِحْنَا بِھَا ) [ أبو داوٗد، الأدب، باب في صلاۃ العتمۃ : ٤٩٨٥ ] ” بلال ! نماز کھڑی کرو، ہمیں اس کے ساتھ راحت دلاؤ۔ “ (ابن عاشور) اَفْلَحَ : ” اَلْفَلَحُ “ لام کے فتحہ کے ساتھ اور ” اَلْفَلَاحُ “ کا معنی بھلائی کے کام میں کامیابی ہے اور ” اَلْفَلْحُ “ لام کے سکون کے ساتھ ” پھاڑنا۔ “ دونوں باب ” مَنَعَ “ سے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : ” اَلْحَدِیْدُ بالْحَدِیْدِ یُفْلَحُ “ ” لوہا، لوہے کے ساتھ کاٹا جاتا ہے۔ “ کسان کو اسی لیے ” اَلْفَلَّاحُ “ کہتے ہیں کہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے۔ گویا فلاح وہ کامیابی ہے جو محنت و مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو۔ کامیابی دنیا کی بھی ہے اور آخرت کی بھی۔ ” قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ “ میں یہ بتایا ہے کہ بعد میں ذکر کردہ صفات والے مومن یقیناً کامیاب ہوگئے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کس چیز میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بات ان آیات کے آخر میں بیان فرمائی ہے، فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10 ۝ ۙالَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ) [ المؤمنون : ١٠، ١١ ] ” یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ “ یعنی کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے، فرمایا : (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ) [ العنکبوت : ٦٤ ] ” اور بیشک آخری گھر، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔ “ دنیا کی زندگی نہ حقیقی زندگی ہے اور نہ اس کی کامیابی حقیقی کامیابی، فرمایا : (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ “ 3 کامیاب ہونے والوں کے اوصاف میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ ایمان ہی کامیابی کا اصل سبب ہے، پھر بعد کی آیات میں اہل ایمان کی چند مزید صفات بیان فرمائیں جو ایمان کے درست اور پختہ ہونے کی دلیل ہیں اور جن کے بغیر ایمان بےمعنی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

What is Falah? How and from where can it be obtained? قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ Success is really attained by the believers - 23:1. The word falah (translated above as &success& ) has been used in the Qur&an and Sunnah on numerous occasions. The call to prayers invites every Muslim towards falah five times a day. The word signifies the attainment of all desires as well as protection from all misfortunes. (Qamus). It is so comprehensive in its connotation that it may be regarded as the acme of one&s desire - but the total falah, where no desire remains unfulfilled or complete immunity from the vicissitudes of fate exists, is not granted even to great kings or to the most revered prophets of Allah. In any case there is an ever-present fear of a decline in or loss of good fortune, or the apprehension of an impending disaster, and no living person can claim to be free from it. Thus it is evident that total falah cannot be achieved in this world which is a place of pain and suffering, where nothing is everlasting and everything must ultimately perish. However this priceless commodity will be available in another world, namely the Paradise and it is there that people will achieve all their wishes very promptly وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ (They have all that they call for - 36:57). In that world there will be no sorrow, no distress, and everyone will enter there with the following words on his lips: الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَ‌بَّنَا لَغَفُورٌ‌ شَكُورٌ‌ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ‌ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ Praise belongs to Allah who has put away all sorrow from us. Surely our Lord is All-Forgiving, All-Thankful, who of His bounty has made us to dwell in the abode of everlasting life -35:34, 35. This verse also suggest that in this world there is nobody who at some time or the other has not been afflicted by pain and anguish. Therefore, on entering the Paradise people will say that they have been delivered from all sufferings. In Surah al-A` la while the Qur’ an says that falah may be obtained by purifying oneself against sins (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ), it also says that total falah may be achieved in the Hereafter only. A Person who aims at falah must not succumb to the temptations of this world: بَلْ تُؤْثِرُ‌ونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ وَأَبْقَىٰ Nay, but you prefer the present life; and the world to come is better, and more lasting. - 8.7: 16, 17 In brief, while total falah may be obtained in the Paradise only, Allah grants falah to his servants in this world also in the narrow sense of the word i.e. he grants them prosperity and relief from pain. In the present verse Allah has promised falah to those believers who possess the seven attributes mentioned therein, and it includes the total falah which can be achieved in the Hereafter only in addition to whatever falah may be obtained in this world. Here one may ask that while the promise of total falah in the Hereafter to the believers who possess the seven attributes mentioned in this verse is understandable, the common experience is that in this world the recipients of falah (prosperity and success) are generally the infidels and the impious persons. On the other hand the prophets and other reformers have, in all ages, suffered privations of life. The answer to this is that since total falah is to be achieved in the Hereafter only, it is inevitable that everybody in this world, whether he is a good and a pious man or whether he is a wicked person and an unbeliever, must face a certain measure of pain and hardship. Similarly every person, good or bad, has some of his wishes granted in this world. In these circumstances how is one to decide as to which of these two categories is the recipient of falah. The answer to this question can only be provided by the fate which awaits them. Human experience and observations provide sufficient evidence that although the pious people who possess the seven attributes mentioned above may at times face hardships and tribulations in this world, yet very soon they are released from all distress and they achieve their wishes. They command the respect of the whole world as long as they live and then after their death their memory is cherished and revered by all. The seven attributes of a perfect Believer on the basis of which he has been promised falah in this verse both in this world and in the Hereafter The first and most important attribute which is fundamental and basic to everything else is that a person should be a true believer. The other seven attributes mentioned in the verse are discussed below. The first attribute is خُشُوع Khushu` (translated in the text as being concentrative) during prayers. The literal meaning of this word is |"calmness|", but in religious terminology it means |"to bring about a state of perfect concentration in the heart|" so that he does not knowingly allow any thoughts to enter his heart other than the remembrance of Allah. It also means that during prayers a person must abstain from moving his body and limbs unnecessarily (Bayan u1-Qur&an). He must, in particular, avoid those movements of the body which have been forbidden by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and which the jurists have compiled under the general heading مَکرُوھَات (things which are disliked during prayers). Tafsir Mazhari quotes the above definition of خُشُوع (Khushu`) from Sayyidna ` Amr Ibn Dinar (رض) . Other scholars have given different definitions of this word, but they are in fact further details of what the serenity of the heart and the body means. For instance, according to Sayyidna Mujahid, casting down one&s eyes and keeping the voice low is خُشُوع whereas Sayyidna ` Ali (رض) said that خُشُوع is to refrain from casting sideways glances obliquely. Sayyidna ` Ata& says that the word خُشُوع means |"not toying with any part of the body|". There is a hadith from Sayyidna Abu Dharr (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said, |"Allah keeps an eye over His servant during prayers so long as he concentrates his attention on Allah, but when he turns his attention elsewhere and glances obliquely sideways, Allah also turns away from him.|" (Mazhari) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have directed Sayyidna &Anas رضی اللہ تعالیٰ عنہ to keep his eyes fixed at the spot which he touched with his forehead when performing sajdah (prostration) and not to look right and left during prayers. Sayyidna Abu Hurairah (رض) says that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw a man praying who was toying with his beard and remarked لو خشع قلب ھٰذا لخشعت جوارحہ (If this man had Khushu` in his heart, his body and limbs would have remained calm). How important is Khushu& during prayers? Imam Ghazzali, Qurtubi and some other scholars are of the view that Khushu` during prayers is obligatory and a prayer offered without total Khushu` will be deemed not to have been performed. However there are others who believe that while Khushu& is the essence of prayers and its absence deprives the prayers of their true purpose, yet it cannot be regarded as an indispensable condition for the prayers to be valid and its absence will not render it necessary to repeat performance of the prayers. Hakim ul-Ummah has written in Bayan ul-Qur&an that while Khushu& is not a necessary condition for the validity of the prayers, yet it is an essential element for the acceptance of the prayers by Allah and from this point of view it is obligatory. Tabarani in his book al-Mu&jim al-Kabir has related a hadith on the authority of Sayyidna Abu Darda& (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The first thing that will be taken away from this Ummah is Khushu& so much so that a time will come when no one will be left to practice Khushu|"&. The second attribute of a good Muslim is that he abstains from frivolous and vain things. لَغو (Laghw, translated in the text as &vain things& ) means useless talk and action which do not bring any religious reward and in its extreme form it may include sinful acts that are positively harmful and must, therefore, be avoided. And in its mild from laghw is neither useful nor harmful but it is very desirable to give up this habit. There is a hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said من حسن اسلام المرأ ترکہ ما لا یعنیہ (It is a part of one&s being a fair Muslim that he gives up all that is useless for him). For these reasons guarding oneself against useless acts has been described as an attribute of a good Muslim in this verse. The third attribute is Zakah which, literally means |"to purify|" but in religious terminology it means giving in charity a portion of one&s wealth subject to certain prescribed conditions and the word has been generally used in the Qur&an in this sense. This meaning of the word can be applied in this verse also. However this meaning of the word in the present context has been questioned by some scholars on the ground that this verse was revealed in Makkah when Zakah was not made obligatory. (Zakah was made obligatory after Hijrah to Madinah). Ibn Kathir and other commentators have answered this objection by claiming that Zakah was in actual fact made obligatory in Makkah as will be evident from Surah Al-Muzzammil, which is by consensus a Makkan Surah, in which the words وَآتُوا الزَّكَاةَ (and pay zakah) occur alongside of the words أَقِيمُوا الصَّلَاةَ. However arrangements for its collection and details regarding the determination of wealth liable to Zakah .(nisab) were settled after Hijrah to Madinah. According to this interpretation of the verse Zakah was made obligatory in Makkah but rules prescribing its various details were formulated in Madinah. As regards those scholars who hold the view that Zakah was made obligatory after Hijrah to Madinah, they believe that the word must be interpreted here in its common literal sense i.e. to purify one&s own self. There is an indication in the verse itself which supports this meaning of the word. It will be observed that wherever obligatory Zakah has been mentioned in the Qur&an the words used are لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ، یوتون الزَّكَاةِ and اُتوا الزَّكَاةِ (which refer to the &payment& of zakah) whereas here the words used are لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ (who are performers of zakah) which clearly indicates that in this verse the word has not been used in its technical meaning. Besides, the word فَاعِلُونَ (performers) is related to فعل (performance) and technically Zakah is not an act but a portion of wealth and the use of the word فَاعِلُونَ for this portion of wealth needs suitable explanation. If the technical meaning of the word Zakah is adopted, then its being obligatory and binding on all Muslims is undisputed and if the word means purification of soul then that too is obligatory and to cleanse one&s soul of impurities and sins such as polytheism, hypocrisy, vanity, jealousy, hatred, greed, miserliness is called تزکیہ (tazkiyah). All these things are forbidden and are major sins and it is obligatory to purify one&s soul from them. Forth Attribute is guarding ones private parts against unlawful liaison. وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُ‌وجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ (And who guard their private parts except from their wives or from those (slave-girls) owned by their right hands - 23:5, 6). They satisfy their needs with their wives and their legal bondmaids according to the prescribed laws and avoid unlawful liaison. About these people the Qur&an says فَإِنَّهُمْ غَيْرُ‌ مَلُومِينَ (Because they are not liable to blame - 23:6), which also means that the sexual desire must be kept under strict control and must not be allowed to become a means of gratification of one&s passions.

سورة مومنون مکہ میں اتری اور اس کی ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور چھ رکوع فضائل و خصوصیات سورة مومنون : مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب کی روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو پاس والوں کے کان میں ایسی آواز ہوتی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔ ایک روز آپ کے قریب ایسی ہی آواز سنی گئی تو ہم ٹھہر گئے کہ تازہ آئی ہوئی وحی سن لیں۔ جب وحی کی خاص کیفیت سے فراغت ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے اللھم زدنا ولا تنقصنا و اکرمنا ولاتھنا واعطنا ولا تحرمنا واثرنا ولا توثر علینا وارض عنا و ارضنا (یعنی یا اللہ ہمیں زیادہ دے کم نہ کر اور ہماری عزت بڑھا ذلیل نہ کر اور ہم پر بخشش فرما، محروم نہ کر اور ہمیں دوسروں پر ترجیح دے ہم پر دوسروں کو ترجیح نہ دے اور ہم سے راضی ہو اور ہمیں بھی اپنی رضا سے راضی کر دے) اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس آیتیں ایسی نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص ان پر پورا پورا عمل کرے تو وہ (سیدھا) جنت میں جائے گا۔ پھر یہ دس آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں پڑھ کر سنائی۔ (ابن کثیر) اور نسائی نے کتاب التفسیر میں یزید بن بابنوس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق کیسا اور کیا تھا، انہوں نے فرمایا آپ کا خلق یعنی طبعی عادت وہ تھی جو قرآن میں ہے اس کے بعد یہ دس آیتیں تلاوت کر کے فرمایا کہ بس یہی خلق و عادت تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ (ابن کثیر) خلاصہ تفسیر بالتحقیق ان مسلمانوں نے (آخرت میں) فلاح پائی جو (تصحیح عقائد کے ساتھ صفات ذیل کے ساتھ بھی موصوف ہیں یعنی وہ) اپنی نماز میں (خواہ فرض ہو یا غیر فرض) خشوع کرنے والے ہیں اور جو لغو (یعنی فضول) باتوں سے (خواہ قولی ہوں یا فعلی) برکنار رہنے والے ہیں اور جو (اعمال و اخلاق میں) اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت رانی سے) حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیونکہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حد (شرعی) سے نکلنے والے ہیں اور جو اپنی (سپردگی میں لی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد کا (جو کسی عقد کے ضمن میں کیا ہو یا ویسے ہی ابتداءً کیا ہو) خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی (فرض) نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ معارف و مسائل فلاح کیا چیز ہے اور کہاں اور کیسے ملتی ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں پانچ وقت ہر مسلمان کو فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ فلاح کے معنے یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو (قاموس) یہ لفظ جتنا مختصر ہے اتنا ہی جامع ایسا ہے کہ کوئی انسان اس سے زیادہ کسی چیز کی خواہش کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ رہے جو دور نہ ہو، یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم ہو یا سب سے بڑا رسول اور پیغمبر ہو۔ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور جو خواہش جس وقت دل میں پیدا ہو بلا تاخیر پوری ہوجائے۔ اگر اور بھی کچھ نہیں تو ہر نعمت کے لئے زوال اور فنا کا کھٹکا اور ہر تکلیف کے واقع ہوجانے کا خطرہ، اس سے کون خالی ہوسکتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ فلاح کامل تو ایسی چیز ہے جو اس ملک دنیا میں دستیاب ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا تو دار التکلیف و المحنت بھی ہے اور اس کی کسی چیز کو بقاء وقرار بھی نہیں۔ یہ متاع گرانمایہ ایک دوسرے عالم میں ملتی ہے جس کا نام جنت ہے۔ وہ ہی ایسا ملک ہے جس میں انسان کی ہر مراد ہر وقت بلا انتظار حاصل ہوگی وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ (یعنی ان کو ملے گی ہر وہ چیز جو وہ چاہیں گے) اور وہاں کسی ادنیٰ رنج و تکلیف کا گزر نہ ہوگا اور ہر شخص یہ کہتا ہوا وہاں داخل ہوگا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ، الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کردیا بلاشبہ ہمارا رب معاف کرنے والا قدر دان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام میں پہنچا دیا جس کی ہر چیز قائم و دائم ہے اس آیت میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ دار دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کو کبھی کوئی رنج و غم نہ پہنچا ہو۔ اس لئے جنت میں قدم رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہے گا کہ اب ہمارا غم دور ہوا۔ قرآن کریم نے سورة اعلیٰ میں جہاں فلاح حاصل کرنے کا یہ نسخہ بتلایا کہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرمایا کہ کامل فلاح کی جگہ اصل میں آخرت ہے صرف دنیا سے دل لگانا طالب فلاح کا کام نہیں۔ فرمایا بَلْ تُـؤ ْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا، وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى، یعنی تم لوگ دنیا ہی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے کہ اسی میں ہر مراد حاصل اور ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے اور وہ باقی رہنے والی بھی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کامل و مکمل فلاح تو صرف جنت ہی میں مل سکتی ہے دنیا اس کی جگہ ہی نہیں۔ البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح یعنی بامراد ہونا اور تکلیفوں سے نجات پانا یہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔ یہ فلاح عام اور شامل ہے جس میں آخرت کی کامل مکمل فلاح بھی داخل ہے اور دنیا میں جس قدر فلاح حاصل ہونا ممکن ہے وہ بھی۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ صفات مذکور کے حامل مومنین کو آخرت کی کامل فلاح ملنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دنیا میں فلاح تو بظاہر کفار فجار کا حصہ بنی ہوئی ہے اور ہر زمانے کے انبیاء اور ان کے بعد صلحا امت عموماً تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ مگر جواب اس کا ظاہر ہے کہ دنیا میں مکمل فلاح کا تو وعدہ نہیں کہ کوئی تکلیف پیش ہی نہ آوے بلکہ کچھ نہ کچھ تکلیف تو یہاں پر صالح و متقی کو بھی اور ہر کافر فاجر کو بھی پیش آنا ناگزیر ہے اور یہی حال حصول مراد کا ہے کہ کچھ نہ کچھ یہ مقصد بھی ہر انسان کو خواہ وہ صالح و متقی ہو خواہ کافر و بدکار ہو حاصل ہوتا ہی ہے۔ پھر ان دونوں میں فلاح پانے والا کس کو کہا جائے تو اس کا اعتبار عواقب اور انجام پر ہے۔ دنیا کا تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے کہ جو اہل صلاح ان سات اوصاف کے حامل اور ان سے متصف اور ان پر قائم ہیں گو دنیا میں وقتی تکلیف ان کو بھی پیش آجائے مگر انجام کار ان کی تکلیف جلد دور ہوتی ہے اور مراد حاصل ہوجاتی ہے ساری دنیا ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور دنیا میں نیک نام انہی کا باقی رہتا ہے۔ جتنا دنیا کے حالات کا غور و انصاف سے مطالعہ کیا جائے گا ہر دور ہر زمانے ہر خطہ میں اس کی شہادتیں ملتی چلی جائیں گی۔ مومن کامل کے وہ سات اوصاف جن پر آیات مذکورہ میں فلاح دنیا و آخرت کا وعدہ ہے : سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے مگر وہ ایک بنیادی چیز اور اصل الاصول ہے اس کو الگ کر کے سات اوصاف جو یہاں بیان کئے گئے ہیں یہ ہیں۔ اول نماز میں خشوع، خشوع کے لغوی معنے سکون کے ہیں اصطلاح شرع میں خشوع یہ ہے کہ قلب میں بھی سکون ہو۔ یعنی غیر اللہ کے خیال کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور اعضاء بدن میں بھی سکون ہو کہ عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے (بیان القرآن) خصوصاً وہ حرکتیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں منع فرمایا ہے اور فقہاء نے ان کو مکروہات نماز کے عنوان سے جمع کردیا ہے۔ تفسیر مظہری میں خشوع کی یہی تعریف حضرت عمرو بن دینار سے نقل کی ہے اور دوسرے بزرگوں سے جو خشوع کی تعریف میں مختلف چیزیں نقل کی گئی ہیں وہ دراصل اسی سکون قلب وجوارح کی تفصیلات ہیں۔ مثلاً حضرت مجاہد نے فرمایا کہ نظر اور آواز کو پست رکھنے کا نام خشوع ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ دائیں بائیں التفات یعنی گوشتہ چشم سے دیکھنے سے بچنا خشوع ہے۔ حضرت عطاء نے فرمایا کہ بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرنا خشوع ہے۔ حدیث میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب دوسری طرف التفات کرتا ہے یعنی گوشہ چشم سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں۔ (رواہ احمد والنسائی و ابو داؤد وغیرہم۔ مظہری) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس کو حکم دیا کہ اپنی نگاہ اس جگہ رکھو جس جگہ سجدہ کرتے ہو اور یہ کہ نماز میں دائیں بائیں التفات نہ کرو (رواہ البیہقی فی السنن الکبریٰ و مظہری) اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے تو فرمایا لو خشع قلب ھذا الخشعت جوارحہ (رواہ الحاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری) نماز میں خشوع کی ضرورت کا درجہ : امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز خشوع کے بغیر گزر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی۔ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ خشوع روح نماز ہے اس کے بغیر نماز بےجان ہے مگر اس کو رکن نماز کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خشوع نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور اس کا اعادہ فرض قرار دیا جائے۔ حضرت سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ خشوع صحت نماز کیلئے موقوف علیہ تو نہیں اور اس درجہ میں وہ فرض نہیں مگر قبول نماز کا موقوف علیہ اور اس مرتبہ میں فرض ہے حدیث میں طبرانی نے معجم کبیر میں بسند حسن حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز اس امت سے اٹھ جائے گی یعنی سلب ہوجائے گی وہ خشوع ہے یہاں تک کہ قوم میں کوئی خاشع نظر نہ آئے گا۔ کذا فی مجمع الزوائد (بیان) مومن کامل کا دوسرا وصف، لغو سے پرہیز کرنا ہے والَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ لغو کے معنے فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدہ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے اس سے پرہیز واجب ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حسن اسلام المرا ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بےفائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لئے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے۔ تیسرا وصف، زکوٰة ہے لفظ زکوٰة کے معنے لغت میں پاک کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں شرح مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوٰة کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں عام طور پر یہ لفظ اسی اصطلاحی معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں یہ معنے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور اس پر جو شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مکہ میں زکوٰة فرض نہ ہوئی تھی ہجرت مدینہ کے بعد فرض ہوئی، اس کا جواب ابن کثیر وغیرہ مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوٰة کی فرضیت مکہ ہی میں ہوچکی تھی سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اس میں بھی اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے ساتھ اٰتُوا الزَّكٰوةَ کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا عام انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ طیبہ جانے کے بعد جاری ہوئیں۔ جن لوگوں نے زکوٰة کو مدنی احکام میں شمار کیا ہے ان کا یہی منشاء ہے۔ اور جن حضرات نے فرضیت زکوٰة کو مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حکم قرار دیا ہے انہوں نے اس جگہ زکوٰة کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے خلاصہ تفسیر میں بھی یہی لیا گیا ہے اس معنے کا قرینہ اس آیت میں یہ بھی ہے کہ عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوٰة فرض کا ذکر آیا ہے تو اس کو (آیت) ایتاء الزکوٰة یوتون الزکوٰة اور اتوا الزکوة کے عنوان سے بیان کیا گیا، یہاں عنوان بدل کر للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ فرمایا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰة کے وہ اصطلاحی معنے مراد نہیں اس کے علاوہ فاعلون کا بےتکلف تعلق فعل سے ہوتا ہے اور زکوٰة اصطلاحی فعل نہیں بلکہ ایک حصہ مال ہے اس حصہ مال کیلئے فاعلون کہنا بغیر تاویل کے نہیں ہو سکتا۔ اگر آیت میں زکوٰة کے معنی اصطلاحی زکوٰة کے لئے جاویں تو اس کا فرض ہونا اور مومن کے لئے لازم ہونا کھلا ہوا معاملہ ہے اور اگر مراد زکوٰة سے تزکیہ نفس ہے یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریا، تکبر، حسد، بغض، حرص، بخل جن سے نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے یہ سب چیزیں حرام اور گناہ کبیرہ ہیں۔ نفس کو ان سے پاک کرنا فرض ہے۔ چوتھا وصف، شرمگاہوں کی حفاظت حرام سے والَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ، اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ ، یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سب سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ان دونوں کے ساتھ شرعی ضابطہ کے مطابق شہوت نفس پوری کرنے کے علاوہ اور کسی سے کسی ناجائز طریقہ پر شہوت رانی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ، یعنی شرعی قاعدے کے مطابق اپنی بیوی یا لونڈی سے شہوت نفس کو تسکین دینے والوں پر کوئی ملامت نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا ہے مقصد زندگی بنانا نہیں۔ اس کا درجہ اتنا ہی ہے کہ جو ایسا کرے وہ قابل ملامت نہیں واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١ۙ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نماز میں خشوع وخضوع قول باری ہے (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون) یقینافلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں) ابن عون نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھتے تو اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سرجھکا لیا۔ ہشام نے مجھ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی نگاہ اس کی سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ایک جماعت سے مروی ہے کہ نماز میں خشوع سے مراد یہ ہے کہ نگاہ سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ابراہیم، مجاہد اور زہری سے مروی ہے کہ خشوع کے معنی سکون کے ہیں۔ المسعودی نے ابوسنان سے اور انہوں نے اپنے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی۔ آپ نے فرمایا۔ خشوع کا تعلق دل سے ہے نیز یہ کہ تم مسلمان شخص کے لئے اپنا کندھا نرم رکھا اور نماز میں دائیں بائیں نہ دیکھو۔ “ حسن کا قول ہے کہ خاشعون بمعنی خائفون ہے یعنی ڈرنے والے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ خشوع کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنا، عاجزی کا اظہار کرنا۔ دائیں بائیں نہ یدکھنا ، حرکت نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے (اسکنوا فی الصلوۃ و کفوا ایدیکم فی الصلوۃ نماز میں سکون اختیار کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو) نیز فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعضاء وان لااکف شعرا ولا ثوباً مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء کے بل سجدوں کروں، اور بالوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں کنکریوں کو ہاتھ لگانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے (اذا قام الرجل یصلی فان الرحمۃ تواجھہ فاذا التفت انصوفت عنہ، جب ایک شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ جب وہ دائیں بائیں دیکھتا ہے تو رحمت منہ موڑ کر چلی جاتی ہے) زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں نگاہ اٹھاتے تھے لیکن دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوء دائود نے، انہیں ابو توبہ نے ، انہیں معاویہ بن سلام نے زید بن سلام سے کہ انہوں نے ابو سلام کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ مجھے السلولی نے روایت بیان کی، اور انہیں سہل بن الحنظلیہ نے کہ صحابہ کرام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حنین کی طرف روانہ ہوگئے۔ سہل نے سلسلہ حدیث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا۔” آج رات پہرہ دینے کے فرائض کون سر انجام دے گا ؟ “ حضرت انس بن ابی مرثد الغنوی نے عرض کیا۔” میں سرانجام دوں گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” پھر گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ “ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا۔” اس گھاٹی کی طرف چلے جائو یہاں تک کہ اس کی بلندی پر پہنچ جائو اور ہو شیار رہنا کہ کہیں رات کی وجہ سے دھوکا نہ جائو۔ “ جب صبح ہوئی تو حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز گاہ کی طرف چل پڑے اور وہاں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کی پھر فرمایا ” کیا تم نے اپنے سوار کی موجودگی کو محسوس کیا ؟ “ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد جماعت کے لئے صفیں درست ہوئیں اور اقامت کہی گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے دوران گھاٹی کی طرف بار بار دیکھتے رہے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا۔ تمہیں بشارت ہو، تمہارا سوار آگیا ہے۔ “ اس روایت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے اندر بار بار گھاٹی کی طرف دیکھتے رہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات دو وجوہ سے عذر پر محمول ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کو اس گھاٹی کی طرف سے دشمن کے اچانک حملے کا خطرہ تھا اور دوسری یہ کہ آپ سوار کے متعقل فکر مند تھے جب تک کہ اس کی آمد نہ ہوگئی۔ ابراہیم نخعی کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز میں دزدیدہ نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا کرتے تھے۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے انہوں نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر سے استفسار کیا گیا کہ عبداللہ بن الزبیر نماز میں فلاں فلاں حرکت نہیں کرت ییعنی دائیں بائیں نہیں دیکھتے یہ سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا۔” لیکن ہم تو کرتے ہیں اور ہم لوگوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ “ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ نماز میں دائیں بائیں التفات نہیں کرتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس التفات سے روکا گیا ہے یہ وہ التفات ہے جس میں نمازی اپنا چہرہ دائیں یا بائیں موڑ لے۔ لیکن اگر آنکھوں کے کناروں سے دائیں بائیں دیکھ لے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ سفیان نے اعمش سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ زمین پر پڑا ہوا کپڑا ہے۔ ابومجلز نے ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی آواز پست رکھتے، اپنا جسم اور اپنی نظریں جھکائے رکھتے۔ علی بن صالح نے زبیر الیامی کے متعلق روایت کی ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا لکڑی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) بیشک ان مومنوں نے کامیابی اور نجات پائی اور ان موحدین نے توحید خداوندی کی وجہ سے مقام سعادت کو حاصل کرلیا اور یہی لوگ جنت کے وارث ہوں گے کافر جنت کے وارث نہیں ہوں گے یا یہ کہ ان مومنوں نے جو ایمان کے ذریعے تصدیق خدا وندی کرنے والے ہیں، فلاح اور کامیابی پائی اور فلاح کی دو قسمیں ہیں ایک کامیابی اور دوسرے اس کامیابی کی بقاء اور دوام (اور یہ دونوں اہل ایمان کو حاصل ہوں گی) اب اللہ تعالیٰ ان مومنین کے اوصاف بیان فرما رہے ہیں کہ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں، دائیں بائیں التفات نہیں کرتے اور تکبیر تحریمہ کے بعد نماز میں اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ الذین ھم فی صلاتھم خشعون “۔ (الخ) امام حاکم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت نماز پڑھتے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں، اس کے نزول کے بعد سے آپ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا اور اسی روایت کو ابن مردویہ (رح) نے انھیں الفاظ میں روایت کیا ہے کہ آپ اپنی نماز میں التفات فرماتے تھے اور سعید بن منصور (رح) نے ابن سیرین سے اسی کو بایں طور روایت کیا ہے کہ آپ اپنی نظر گھمایا کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن سیرین سے مرسلا روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) حالت نماز میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) ” اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند (رح) کا کہنا ہے کہ انہوں نے ” موضح القرآن “ میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ ” فَلَاح “ کا ترجمہ بالعموم ” کامیابی “ سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ ” فلاح “ کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں : ” پھاڑنا “۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں ” فلّاح “ کہا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : اِنَّ الحَدِید بالحَدِید یفلَحُ یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فلقَ کے قریب تر ہے۔ سورة الانعام کی آیت ٩٥ میں لفظ ” فلق “ اسی مفہوم میں آیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط) ” یقیناً اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے “۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمود صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے : (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج) یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے (فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی) کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کو نپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا بالقوہّ (potentially) موجود ہے ‘ اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے (فلق) سے دو کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک (فلح) ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بےنقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اجاگر (develop) کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے (اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورة الحج کی آیت ٧٣ کی تشریح بھی مدنظر رہے) اپنی معرکۃ الآراء کتاب The Idealogy of the Future میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیر کی ‘ ہے۔ انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں ‘ گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پاؤں ‘ میری آنکھ ‘ میری ٹانگ ‘ میرا سر ‘ میرا جسم ! لیکن اس ” میرا “ اور ” میری “ کی تکرار میں ” میں “ کہاں ہے اور کون ہے ؟ یہ ” میں “ دراصل انسان کی انایا روح ہے۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روح ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂ دم چیست ؟ پیام است ! شنیدی نشنیدی ؟ در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟ دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! ! انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو ” فلّاحی “ کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہوگا اور آیت زیر نظر میں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بےنقاب کرنے اور اس کی نشوونما (develop) کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مرجاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابوجہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا ‘ اسی لیے نہ تو وہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان سکا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے ‘ اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورة النحل کی آیت ٩٧ میں ارشاد ہوا : (فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج) ” تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی “۔ چناچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء (development of self) اور اپنے کردار کی تعمیر (development of character) کا مشکل کارنامہ سرانجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ‘ کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیکؔ کے بقول : ع ” بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں ‘ سب کی گدڑی لال ! “ یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے ‘ ہر انسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے ‘ بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس ” لعل “ یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے : ؂ ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ درِدل کشا بہ چمن در آ ! یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے ‘ تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : (وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) (الذّٰرٰیت) یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے : |" Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self.|" یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات (انا یا روح) کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے ‘ جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ” جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا “۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی ” انا “ (self) سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورة الحشر کی آیت ١٩ میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : (وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط) ” ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا “۔ چناچہ لفظ فلحکا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفان ذات اور پھر معرفتِ الٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل ‘ اہل ایمان کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. “Believers”, who have attained true success, are those who have accepted the message of Muhammad (peace be upon him), and have acknowledged him as their guide and followed the way of life taught by him. This assertion cannot be fully appreciated unless one keeps in view the background in which it was made. On the one hand, there were the well-to-do and prosperous chiefs of Makkah, the opponents of Islam, whose business was thriving and who were enjoying every good thing of life, and on the other hand, there were the followers of Islam, majority of whom were either poor from the beginning, or had been reduced to poverty by ruthless antagonism to Islam. Therefore, the assertion: Most certainly the believers have attained true success, with which the discourse begins, was meant to tell the disbelievers that the criterion of success and failure that they had in mind was not correct. It was based on misconceptions besides being transitory and limited in nature: it led to failure and not true success. On the contrary, the followers of Muhammad (peace be upon him), whom they regarded as failures, were truly successful, because by accepting the invitation to the right guidance given by the Messenger of Allah, they had struck a bargain which would lead them to true success and everlasting bliss in this world as well as in the Hereafter, whereas by rejecting the message the opponents had incurred loss and would meet with the evil consequences both in this world and in the next. This is the main theme of the Surah and the whole discourse, from the beginning to the end, is meant to impress the same.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :1 ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا ، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے ۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی ۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا ، اپنی مراد کو پہنچا ، آسودہ و خوشحال ہو گیا ، اس کی کو شش بار آور ہوئی ۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی ۔ قَدْ اَفْلَحَ یقیناً فلاح پائی آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے ۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا ۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں ۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی ۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے ۔ یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١١:۔ امام احمد بن حنبل ‘ ترمذی ‘ نسائی اور مستدرک حاکم میں حضرت عمر (رض) سے صحیح روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس سورت کے شروع کی یہ دس آیتیں جب نازل ہوئیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٢ ؎ دعا مانگی ‘ جس دعا کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ اپنی نعمت کو روز بروز ہم پر بڑھا اور اپنی نعمت سے ہم کو محروم نہ رکھ اور اپنی رضا مندی کے کام ہم سے لے اور پھر آپ نے ان آیتوں کو پڑھ کر فرمایا جو کوئی اس دس آیتوں کے موافق عمل کرے گا بلا شک جنت میں داخل ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور صحابہ (رض) نے ان آیتوں کی جو تفسیر ٣ ؎ کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کا ایمان مضبوط ہونا چاہیے اور نماز پڑھتے وقت ادھر ادھر نظر نہ ڈالنی چاہیے بلکہ سجدہ کی جگہ نظر جمی رکھنی چاہیے صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ٤ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنے میں ادھر ادھر دیکھتا ہے اس کی نماز میں شیطان کا ساجھا رہتا ہے ‘ معتبر سند سے ترمذی اور نسائی میں حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نماز پڑھنے والا شخص جب تک ادھر ادھر نظر نہیں ڈالتا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف متوجہ رہتا ہے ‘ نماز کے ذکر کے بعد یہ ذکر ہے کہ گناہوں سے آدمی کو بچنا چاہیے ‘ امانت اور عہد کا پاس رکھنا چاہیے ‘ روزہ اور حج ہجرت کے بعد فرض ہیں اس لئے اس مکی سورت میں ان دونوں فرضوں کا ذکر نہیں ہے ‘ غرض یہ خصلتیں جس شخص میں ہوں اس کو فرمایا کہ وہ جنتی ہے قرآن شریف میں جگہ جگہ اچھے لوگوں کو جنت کا وارث جو فرمایا ہے اس تفسیر میں حدیث ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت ١ ؎ سے یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لیے جنت اور دوزخ دونوں جگہ مکان بنائے ہیں ‘ شرک اور گنہگاری کے سبب سے جو لوگ جنت سے محروم رہ کر ہمیشہ دوزخ میں رہنے کی سزا پاویں گے ان کے نام کے جنت میں جو مکان لاوارث خالی پڑے رہ جاویں گے ان مکانوں کے وارث بھی اچھے لوگ ٹھہریں گے اس لیے اچھے لوگوں کو جنت کا وارث ٹھہرایا ‘ صحیح سند سے مسند امام احمد میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ٢ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر میں منکر نکیر کے سوال کے بعد اچھے لوگوں کو دوزخ دکھا کر یہ کہا جاتا ہے کہ اس برے ٹھکانے سے اللہ تعالیٰ نے تم کو محفوظ رکھا اور برے لوگوں کو جنت دکھا کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے اچھے اور عمدہ ٹھکانے سے تم محروم رہے ‘ اس حدیث سے بھی ہر ایک شخص کے لیے جنت اور دوزخ دونوں جگہ میں ٹھکانے کا ہونا ثابت ہوتا ہے ‘ بعضے مفسروں نے یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ ان آیتوں میں نماز کا ذکر دو دفعہ آیا ہے جواب اس کا یہ ہے کہ ایک جگہ نماز کے ارکان کو پورے طور پر ادا کرنے کا ذکر ہے اور دوسری جگہ نماز کو وقت پر پڑھنے کا ذکر ہے ایک بات کا ذکر دو دفعہ نہیں ہے مستدرک حاکم ‘ مسند سعید بن منصور ‘ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں ابوہریرہ (رض) سے صحیح روایت ٣ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) نماز پڑھنے کے وقت کبھی آسمان کی طرف اور کبھی ادھر ادھر دکھا کرتے تھے جب سے یہ آیتیں اتریں تو نیچے نگاہ رکھنے لگے ” نوے “ کے معنی نیچے کے ہیں ترجمہ میں خشعون کا ترجمہ ” نوے “ جو کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ نماز پڑھتے وقت ان کی نگاہ نیچے رہتی ہے وہ ادھر ادھر نظر نہیں ڈالتے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت میں خیانت کرنے اور عہد پر قائم نہ رہنے کو منافق کی نشانی فرمایا ہے اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ان پکے ایماندار لوگوں میں منافقوں کی سی عادتیں نہیں ہیں۔ صحیح مسلم میں ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایتیں ٥ ؎ ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اہل جنت کے جنت میں داخل ہونے کے بعد فرشتے ان کو حکم سناویں گے کہ اب تو تم ہمیشہ اسی عیش و آرام میں رہو گے ‘ نہ کبھی بیمار پڑو گے ‘ نہ موت کا صدمہ ہوگا ‘ یہ حدیث ھم فیھا خلدون کی گویا تفسیر ہے ‘ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ کا حکم مکہ میں نازل ہوا ہے اور اس کے وصول کا انتظام مدینہ میں آنے کے بعد کیا گیا ١ ؎ ان مکی آیتوں میں زکوٰۃ کا جو ذکر آیا ہے ‘ اس سے ان علماء کے قول کو پوری تائید ہوتی ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٢٣٧ ج ٣ و تفسیر الدرا المنثورص ٢ ج ٥ ) (٢ ؎ الفاظ یہ ہیں اَللّٰھُمَّ زِدْنَا وَلاَ تَنْقُصْنَا وَاکْرِمْنَا وَلَا تِھُنَّا وَاَعْطِنَاوَ لَا تَحْرِ مْنَا وَاٰثَرْنَا وَلاَ تُوْثِرْ عَلَیْنَا وَاْرضَ عَنَّا وَاَرْضِنَا۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٣٨ ج ٣ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٩٠ ) (١ ؎ الدر المنثور ص ٥ ج ٥ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٦٤ ج ٤ ) (٣ ؎ الدر المنثور ص ٥ ج ٥ ) (٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٦ باب صنقہ الجنۃ واہلہا۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٣٩ ج ٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یہ پوری کی پوری سورت بالاتفاق مکی ہے۔ حضرت عبد اللہ (رض) بن سائب سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں فجر کی نماز میں یہ سورة شروع کی، جب موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارون ( علیہ السلام) ، یا عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ذکر پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانسی آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع فرمایا (نسائی مسلم) اس سورت کی پہلی دس آیتوں پر عمل کے بدلے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة المؤمنون : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة مومنون بھی مکی سورتوں میں شمار کی گئی ہے اور اسی سابق مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ایمان لانے والوں کے اوصاف کا تذکرہ فرماتے ہوئے شروع ہوتی ہے کہ جنہیں ایمان نصیب ہوا وہ فلاح پاگئے کامیاب ہوگئے فلاح کا ترجمہ اردو میں تو کامیابی ہی ہے مگر عربی زبان کے اعتبار سے اس کا معنی بہت وسیع ہے فلاح سے مکمل کامیابی مراد ہے ہر کام میں ہر وقت اور ہر عالم میں ، دنیا ہو دنیا کی تجارت ، سیاست یا امور ذاتی ہر جگہ کامیاب موت کے لمحات ہوں یا برزخ کا عرصہ کامیاب ، میدان حشر ہو یا آخرت کی زندگی کامیاب اور یہ کامیابی ایمان کا پھل ہے رہا یہ سوال کہ دنیا میں کون ہے جسے مصیبت سے گزرنا پڑا ہو اور جس کی ہر خواہش پوری ہوئی ہو۔ (مومن کی پسند اور خواہش) انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی تکالیف میں مبتلا رہے تو سمجھ لیا جائے کہ نبی ہو یا صحابی یا مومن کامل سب کی پسند اور طلب اللہ جل جلالہ کی رضا اور اس کا قرب بن جاتا ہے نبی تو ہوتا ہی کامل ہے ، صحابی نبوت سے برکات وانوارات حاصل کرکے اور مومن ان کی اتباع سے وہ عظیم طلب پیدا کرلیتا ہے اور ایسے لوگوں پر بظاہر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ جل جلالہ کی رضا وقرب کا سبب بن کر فلاح ہی بن جاتی ہے لہذا مومن کے لیے ہر حال میں کامیابی مقدر ہے آگے اوصاف بیان حال بیان ہوتے ہیں کہ مومن کیسا ہوتا ہے ، پہلا وصف کہ عبادت میں اسے خشوع حاصل ہوتا ہے ، خشوع قلب کا حال ہے جب قلب میں اللہ جل جلالہ کا نام راسخ ہوجائے تو غیر اللہ کے خیال تک کے لیے گنجائش نہیں رہتی ، بدن بھی سکون سے عبادت تب ہی کرسکتا ہے ، دوسرا وصف یہ کہ عمر عزیز کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے اور لایعنی امور میں الجھنے سے بچتے ہیں ، غیر ضروری کاموں سے دور رہتے ہیں تیسرا وصف یہ کہ زکوۃ یعنی پاکیزگی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ، بدنی اخلاق اور مال ہر طرح کی پاکیزگی کے لیے مسلسل محنت کرتے ہیں اور چوتھا وصف یہ کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور شہوات میں سے غالب تر حال میں بھی اللہ جل جلالہ کا حکم نہیں بھولتے اور صرف بیوی یا جائز لونڈی سے جن کے ساتھ جمع ہونے میں کوئی قباحت نہیں اپنی حاجت پوری کرتے ہیں علاوہ ازیں کسی بھی طرح سے شہوت پوری نہیں کرتے اور اپنی شرمگاہوں کو بچاتے ہیں اس لیے کہ ان دو حلال راستوں کے علاوہ کسی بھی طرح سے شہوت پوری کرنے والے تو حد سے گزرنے والے ہوتے ہیں اور مومن کا پانچواں وصف کہ یہ لوگ امانت دار اور وعدہ ایفا کرنے والے ہوتے ہیں ، وہ امانت اور عہد ، حقوق اللہ ہوں یا دنیا کی ذمہ داریاں اور حقوق العباد ان کو پورا کرنے میں اپنی پوری قوت پورے خلوص سے صرف کرتے ہیں اور اگلا وصف یہ کہ عبادات نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہیں یعنی پورے اہتمام کے ساتھ اور پورے لوازمات کے ساتھ فرض ، واجب ، سنت اور مستحب تک کا خیال رکھتے ہیں نیز دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں اور انہیں تبلیغ وتعلیم کرکے عبادات کی حفاظت کرتے ہیں ، جنت تو ایسے لوگوں کی میراث ہے یعنی انہیں اس کا ملنا اس قدر یقینی جس قدر وارث کو میراث کا پہنچنا یقینی ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ہر بننے والی شے کا ایک انجام اور نتیجہ ہوتا ہے کوئی بھی شے بےمقصد نہیں بنائی جاتی تو پھر اگر یہ دارآخرت حساب کتاب اور جزا وسزا پہ انہیں یقین آتا تو کیا انسان کی حیات کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا ، بس پیدا ہوئے زندگی گذاری اور مر گئے جو کسی سے بس سکا اچھا یا برا کر گذرا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، اس کا جواب ارشاد ہوتا ہے ذرا انسانی تعمیر تو دیکھو کہ کارگاہ حیات کا سارا نظام سورج چاند ستارے بادل اور آسمان زمین پانی ہوائیں اور اللہ کے بیشمار فرشتے اس کام پر لگے ہیں ۔ (تخلیق انسانی اور اسلام نیز سائنس کی تحقیق) یہ سارا نظام چلتا ہے تو مٹی سے وہ جوہر اور خلاصہ حاصل ہوتا ہے جس سے انسانی وجود کی تعمیر مقصود ہوتی ہے اور ہر ذرہ کسی وجود کا مقدر ہوتا ہے جیسے مٹی سے مختلف اجناس پھلوں غذاؤں ، دواؤں کی صورت ایک لمبے طریق کار سے گذار کر اس وجود تک پہنچایا جاتا ہے جس سے آگے کسی انسان کو پیدا ہونا ہوتا ہے ، حضرت آدم (علیہ السلام) کو دست قدرت نے بنا کر یہ نظام ترتیب دے دیا کہ اس کے بعد ساری اولاد آدم ایسے ہی بن رہی ہے اور اسے مخاطب ذرا غور کر کہ کتنا بڑا نظام مٹی کو غذا بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے پھر وہ غذا باپ اور ماں دو میں الگ الگ جمع ہو رہی ہے ، غذا وہ کھاتے ہیں مگر نظام قدرت ان تک وہ اجزا پہنچاتا ہے جو ان کے وجود کا مقدر ہیں اور ساتھ وہ بھی جن سے اولاد پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے یہ دوسرے جا کر نطفہ بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ پھر اپنے مقررہ وقت پر وہ نطفہ رحم مادر میں اپنی جگہ پاتا ہے پھر قدرت جمے ہوئے خون کے لوتھڑے میں تبدیل کردیتی ہے پھر اس سے گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اسی میں ہڈیاں بنتی ہیں اور ہر جوڑ اپنی جگہ پر آتا ہے پھر وہ گوشت ان ہڈیوں پر چڑھا دیا جاتا ہے کہ انسانی وجود مکمل ہوجاتا ہے پھر اسے ایک نئی صورت حیات عطا کر کے ایک نئی قسم کی مخلوق بنا دیا جاتا ہے یعنی اس میں روح پھونک کر اسے انسان کی صورت میں پیدا کردیتا ہے ، روح دو قسم کی ہے ایک روح حیوانی جو اعضاء انسانی کی تخلیق اور دوران خون کے اجزا سے لطیف بخارات کی صورت رگوں میں پیدا ہوتا جاتا ہے ۔ (روح) اسے اطباء اور فلاسفر روح کہتے ہیں مگر حقیقی روح انسانی کا تعلق عالم بالا سے ہے اور عالم ارواح سے لا کر اللہ کریم اپنی قدرت کاملہ سے وجود انسانی میں بسا دیتے ہیں اور روح حیوانی سے اس کا تعلق قائم کردیتے ہیں ، وہ کیا ہے یہ جاننا عقل انسانی کی رسائی سے بالاتر ہے ، ہاں یہ حق ہے کہ اس کی تخلیق ابدان کی تخلیق سے بہت پہلے ہے ازل میں اسی پر سوال ہوتا تھا ، ” ’ الست بربکم “ یہی انسانی حیات کا سبب ہے اور اس کا ہی یہ تعلق جو باعث حیات ہے ختم ہو کر موت کہلاتا ہے ذرا اس تمام عمل پر غور کرو اور دیکھو ۔ (خالق) کہ اللہ کس قدر بہترین و حسین ، کامل و قادر اور سارے بنانے والوں سے اعلی و افضل خالق اور پیدا کرنے والا ہے اگرچہ خالق حقیقی صرف اللہ ہے جو کسی شے کا محتاج نہیں اور عدم سے وجود کو پیدا فرماتا ہے مگر لفظ خالق صنعت پر بھی استعمال ہوتا ہے اور انسانی ایجادات کو بھی تخلیق کہہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ جل جلالہ کی بنائی ہوئی اشیاء کو مختلف انداز سے جوڑا تو ایک نئی شئے وجود میں آگئی ، تخلیق باری میں اور انسانی تخلیق میں اتنا فاصلہ ہے کہ قدرتی طور پر بننے والی ہر شے کبھی انسانی ہاتھ نہیں بنا سکتے وہ ویسے ہی قدرتی انداز میں بنتی ہے خواہ وہ گھاس کا ایک تنکا ہی ہو اور یہ قرآن کریم کا بہت بڑامعجزہ اور اس کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وجود انسانی کی تعمیر جو رحم مادر میں ہوتی ہے اسلام نے سائنس سے چودہ سو سال پہلے بیان کردی اور سائنس ٹکریں مار مار کر اب یہاں پہنچی ہے کہ صرف ان حقائق کا اقرار کرسکے ” سبحان اللہ العظیم “۔ اب یہ عمل فضول تو نہیں ہو سکتا کہ اس کے بعد تم سب کو موت آنی ہے موت دنیا کی زندگی کا خاتمہ تو ہے انسانی کا خاتمہ نہیں یکہ اس کے بعد تمہیں پھر سے زندہ کیا جائے گا اور روز قیامت اپنے اپنے کے نتائج پاؤ گے ۔ دیکھو عظمت الہی نے تمہارے اوپر ساتھ آسمان بنا کر ان میں اسباب حیات محرک بسا دئیے اور زندگی کے رستے بنا دیئے کہ آسمان حیات دنیا کے لیے حکومتی مراکز ہیں اور ملائکہ وہیں سے احکام حاصل کرکے حیات دنیا کا نظام چلاتے ہیں ، اعمال انسانی اور دعائیں بھی ادھر ہی کو جاتی ہیں ، یہ سب نظام اس خاطر بنا کر اللہ اپنی مخلوق سے اس کی ضروریات سے کبھی بیخبر تو نہیں دیکھو ہم نے کن بلندیوں سے پانی برسایا اس کے پیچھے کتنے عناصر کار فرما ہیں اور کتنی تبدیلیوں کے بعد وہ بارش کے قطرات کی صورت برستا ہے اور پھر کمال قدرت کہ قطرے بھی شمار کر کے برساتا ہے بےانداز نہیں برستے ، جگہ بھی منتخب فرما کر وہاں برساتا ہے اور پھر ایسا قادر ہے کہ اسے زمین پر روک بھی دیتا ہے کبھی برف کی صورت کبھی جھیل بنا کر کہیں زیر زمین جمع کرکے چشمے رواں کردیتا ہے اگر اللہ چاہتے کہ جیسے برسا تھا زمین پر رکے بغیر سب بہہ جاتا یا اللہ اس کو سرے سے ہی لے جائے تو قادر ہے مگر اپنے کرم سے تمہارے لیے اس کے سبب طرح طرح کے باغات اور پھول پھل اگا دیتا ہے کھجور ، انگور اور بیشمار دوسرے میوے جنہیں تم بہت شوق سے کھاتے ہو اور ایسے مبارک درخت اگا دیتا ہے ۔ (زیتون) جیسے وادی سینا میں زیتون کہ اس کا پھل ایسے تیل سے بھرا ہوتا ہے جو بہترین سالن بھی ہے جسے ڈیڑھ ہزار برس قبل کتاب اللہ نے بہترین سالن کہا سائنس آج اسے دیسی گھی کا نعم البدل کہتی ہے کہ کسڑول اور روغنیات کی خون میں زیادتی کے مریض بھی کھایا کریں یہ دیسی گھی سے زیادہ طاقت دیتا ہے اور خون میں سے ان موادوں کو صاف کرتا اور گھٹاتا ہے تمہارے لیے تو ایک ایک پالتو جانور عظمت الہی اور احسان باری تعالیٰ کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ان کے خون اور گوبر سے نکال کر بہترین دودھ تمہیں عطا فرماتا ہے پھر ان کا گوشت کھال بال اور ہڈیاں تک تمہارے کام آتی ہیں وہ تمہارا مال تجارت بھی بن جاتے ہیں اور سواری بھی اور انہوں نے تمہیں سواریاں بنانے اور بحری جہاز کا تصور دے کر کتنی خدمت کی ہے پرندوں کو دیکھ کر ہوائی جہاز اور بحری جانوروں کو دیکھ کر بحری جہاز بنا لیے گئے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت 1 تا 11 : افلح (وہ کامیاب ہوا۔ اس نے فلاح پائی) ‘ خاشعون (خاشع) اللہ کے خوف سے ڈرنے والے۔ اللغو (فضول بات۔ ایسی بات جس کا فائدہ کوئی نہ ہو) ‘ فروج (فرج) شرم گاہیں ‘ ملکت ایمان (باندیاں) ‘ غیر ملومین (الزام نہیں ہے) ‘ ابتغائ (جس نے تلاش کیا) ‘ وراء (پیچھے۔ علاوہ) العادون (حد سے بڑھنے والا) ‘ راعون (رعایت کرنے والے۔ خیال رکھنے والے) ‘ الوارثون (وارث) مالک۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 11 : دنیاداروں نے کامیابی ‘ ناکامی ‘ خیرو فلاح ‘ نفع و نقصان اور چھوٹائی بڑائی کے کچھ ایسے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں کہ اگر ایک شخص مال و دولت ‘ عیش و آرام ‘ بلندو بالا بلڈنگوں ‘ اونچی حویلیوں اعلی سواریوں کا مالک ہے تو اس کو کامیاب ترین ‘ عقل مند ‘ سمجھ دار ‘ باعزت اور معاشرہ کا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ خواہ وہ سب چیزیں ظلم و زیادتی ‘ رشوت و غصب ‘ حرام اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں لیکن اگر کوئی صاحب ایمان شخص دیانت و امانت ‘ تقویٰ ‘ پرہیز گاری اخلاص اور ایمان کا پیکر ہو مگر معاشرتی اعتبار سے کمزور ‘ غریب اور مفلس ہو تو اس کو معاشرہ میں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس کو ایک ناکام شخص اور چھوٹا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ غربت اور امارت کی یہی وہ ترازو ہے جس پر تول کر سارے فیصلے اور وزن کئے جاتے ہیں۔ ان دنیاوی اصولوں کے برخ لاف قرآن کریم نے ایمان ‘ عمل صالح اور تقویٰ کو انسانی عظمت کا معیار اور پیمانہ مقرر کیا ہے اور ایسے لوگوں کو کامیاب ترین لوگوں میں شامل کیا ہے جو ان صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ صاف صاف الفاظ میں فرمادیا ہے کہ اللہ نے حضرت آدم و حوا کے ذریعہ تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کردینا ایک پہچان تو ہے لیکن فخر کی چیز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم اور باعظمت وہ لوگ ہیں جو نیکی اور پرہیز گاری میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ سورة المومنون کی زیر مطالعہ آیات میں فرمایا کہ اللہ نے مومنوں کو کامیاب و بامراد کردیا یعین اہل ایمان صرف اسی دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب و با مراد ہوں گے۔ غربت وامارات کی یہی کشمکش اس وقت بھی تھی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے اعلان نبوت فرمایا۔ ایمان اور عمل صالح ‘ تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرنے والے صحابہ کرام (رض) جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے دنیا کی بےحقیقت زندگی کو چھوڑکر اپنا سب کچھ آخرت کی زندگی سنوارنے پر لگادیا تھا ان کو کفار مکہ دین اسلام قبول کرنے پر طعنے دیا کرتے تھے کہ تمہیں دین اسلام نے کیا دیا ؟ فقرو فاقہ ‘ غربت و افلاس ‘ بےرونق محفلیں ‘ طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں ‘ اس کے برخلاف ذرا ہمیں دیکھو دنیاوی راحتیں اور کامیابیاں ہمارے قدم چوم رہی ہیں ہماری محفلیں کیسی پر رونق ہیں اور ہم ہر اعتبار سے زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم کامیاب ترین لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ دراصل کامیاب ترین وہی لوگ ہیں جو صاحبان ایمان ہیں۔ دنیا اور آخرت میں وہی کامیاب و بامراد ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کفر پر جمے بیٹھے ہیں وہ دنیا کے نا کام ترین لوگ ہیں۔ کیونکہ جب یہ آخرت کی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی میں پہنچیں گے تو خالی ہاتھ ہوں گے اور وہاں کوئی ان کا ساتھ نہ دے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان آیات میں جس کامیابی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ دنیاوی اعتبار سے تو یوں پوری ہوئی کہ اللہ نے دین اسلام کی برکت سے انہیں ہر طرح کی فتوحات اور کامیابیاں عطا فرمائیں اور بہت تھوڑے عرصے میں اہل ایمان جزیرۃ العرب سے نکل کر ساری دنیا میں پہنچ گئے۔ ہر جگہ کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں ختم ہوگئیں اور دینا میں صرف اہل ایمان ہی فاتح اور کامیاب بن کر چھا گئے اور دنیا نے ظلم و ستم سے نجات پائی اور ہر طرف امن و سلامتی عام ہوگئی۔ یہ تو دنیاوی اعتبار سے کامیابیاں حاصل ہوئیں یقیناً آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں بھی اسی طرح حاصل ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کررہے گا۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں بن جائیں۔ جو لوگ صرف دنیا کی زیب وزینت کے چکر میں پوری زندگی گذار دیتے ہیں وہ لوگ وقتی طور پر تو کامیاب نظر آتے ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے قطعاً ناکام و نامراد لوگ ہیں۔ سورۃ المومنون کی ان گیارہ آیات میں ” کامیاب مومنوں “ کی سات خصوصیات کا خصا طور پر ذکر فرمایا گیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی کامیابی کی بنیادیں نہایت مضبوط ہیں۔ جب بھی ان بنیادوں کو اپنایاجائے گا اللہ کا وعدہ ہے کہ کامیابیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ان نیک خصلتوں کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل ہوگی۔ (1) پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ” وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ” یعنی قلبی ‘ ذہنی ‘ فکری اور جسمانی سکون کے ساتھ نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ وہ منافقین کی طرح دکھاوا ‘ سستی اور کاہلی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ نہایت ذوق و شوق ‘ عاجزی و انکساری ‘ ادب احترام اور شریعت کی تمام ہدایات کے مطابق اپنی نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کے جذبے سے اس طرح نمازیں ادا کرتے ہیں کہ اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا ” خشوع و خضوع “ کا یہی مفہوم ہے۔ نماز درحقیقت وہ اہم ترین عبادت ہے جس سے دین کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔ جو شخص نماز جیسی عبادت کو چھوڑتا ہے وہ درحقیقت دین کی بنیادوں کو ڈھانے والا اور اسلام کے اصولوں سے بغاوت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کے تفصیلی احکامات تو مدینہ منورہ کی زندگی میں آئے مگر نمازوں کا اہتمام مکہ مکرمہ سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ اور معراج النبی کے مبارک موقع پر اس امت کو اللہ کی طرف سے جو تحفہ عطا کیا گیا وہ پانچ وقت کی فرض نمازیں تھیں۔ جس کے اجرو ثواب کا یہ عالم ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے والے شخص کو پچاس نمازوں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نمازوں کی فرضیت مکہ مکرمہ ہی سے شروع ہوئی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن بھی سب سے پہلے نماز کے متعلق پوچھا جائے گا۔ قیامت کے دن جو آدمی پہلے سوال ہی میں فیل ہوگیا اس کی آخرت تو تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس اہمیت کا اندازہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ارشادات سے کیا جاسکتا ہے جن میں آپ نے نمازوں کو ادا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ نمازوں سے ہماری غفلت نے ہمیں بہت سی سعادتوں سے محروم کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اقامت صلوۃ کی توفیق عطا فرائے۔ آمین۔ اس موقع پر اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ نمازوں سے غفلت دو سرح ہورہی ہے پہلی تو یہ کہ بہت سے لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے جو ایک بہت بڑی بدنصیبی ہے لیکن بعض لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر ان کے آداب کا خیال نہیں رکھتے اور ایسی نمازیں پڑھتے ہیں کہ نمازیں خود ان پر ملامت کرتی ہیں چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنے کے لئے اچھی طرح وضو کرے گا اور نمازوں میں خشوع و خضوع (قلبی سکون) اختیار کرے گا تو وہ نمازیں نہایت روشن ہوکر چمکنے لگیں گی اور نماز اس کو دعا دے گی کہ اے اللہ جس طرح اس شخص نے میری حفاظت کی ہے ( ہر طرح کے آداب کا خیال رکھا ہے) اسی طرح آپ اس کی حفاظت فرمائیے۔ لیکن جو شخص نمازوں کو بری طرح پڑھتا ہے (جلدی ‘ دکھاوا ‘ آداب کا خیال نہ رکھنا) نمازوں میں سستی کرتا ہے۔ اس کو ٹا ل ٹال کر پڑھتا ہے۔ اچھی طرح وضو نہیں کرتا تو وہ نماز بری صورت میں سیاہ رنگ میں ڈھل جائے گی اور پڑھنے والے کو بد دعا دے گی کہ الہٰی جس طرح اس نے مجھے خراب کیا آپ اس کو اسی طرح خراب کردیجئے۔ اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ حضرت ابو دردائ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ امت سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی۔ وہ ” خشوع “ ہے۔ یہاں تک کہ قوم میں کوئی شخص بھی خاشع نظر نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازیں ادا کرنے ‘ اس کا پوری طرح حق ادا کرنے اور خشوع خضوع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو تصحیح عقائد کے ساتھ صفات ذیل کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورة : سورة حج کا اختتام اس بات پر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ” حَقَّ جِہَادِہٖ “ کے اصول پر جہاد کرنا، لوگوں پر شہادتِ حق قائم کرنا، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور ہر حال میں دین کے ساتھ وابستہ رہنے والے کا دنیا میں صلہ یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اور وہی بہترین مدد کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے جن کی اللہ تعالیٰ مدد کرے وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ سورۃ المومنون مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار اور مشرکین مسلمانوں کے بارے میں یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ یہ لوگ حالات کی کسمپرسی کی وجہ سے بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔ کیونکہ کفار اور مشرکین نے ہر طرف سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ جو مسلمان ہجرت کرکے حبشہ گئے ان میں کافی لوگ اس خوشی فہمی کی بنیاد پر مکہ واپس آئے کہ قریش مسلمان ہوچکے ہیں۔ لیکن مکہ پہنچ کر صورت حال کا علم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ واپس آنے والے احباب کی خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنیاد یہ واقعہ بنا کہ ایک دن سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں مسلمانوں اور کفار کے سامنے سورة نجم کی تلاوت کی جب سجدہ کی آیت آئی تو آپ اور مسلمانوں نے سجدہ تلاوت کیا مجمع میں کچھ کافر موجود تھے وہ بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ خبر حبشہ پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ مہاجرین حبشہ نے حالات بہتر سمجھ کر مکہ کی راہ لی مگر یہاں پہنچے تو حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں تھے۔ ان حالات میں ایک طرف حبشہ سے واپس آنے والوں کی پریشانی میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اور دوسری طرف کفار نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ہمارے رحم و کرم پر ہیں انہیں کوئی بھی پناہ دینے پر تیار نہیں ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان حالات میں سورة المومنون نازل ہوئی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دو ٹوک انداز میں کامیابی کی نوید دی۔ بظاہر یہ خوشخبری مستقبل کے حوالے سے ہے لیکن خطاب میں ” قَدْ “ اور ” اَفْلَحَ “ کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں۔ ” قَدْ “ کا مطلب ہے ” یقیناً “ اور ” اَفْلَحَ “ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں یقین کرو کامیابی تمہارا مقدر ہوچکی ہے۔ کامیابی سے مراد آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں اسلام دشمنوں کے خلاف کامیاب ہونا ہے چناچہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کامیابی کا یہ پیغام حرف بحرف پورا ہوا۔ مسلمان دنیا کے وسائل کے لحاظ سے خوشحال ہوئے اور صدیوں تک برسر اقتدار رہے۔ آخرت کے حوالے سے انہیں یہ اعزاز بخشا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا۔ اور وہ اپنے رب پر راضی ہوگئے یہ ایسی فلاح اور کامیابی ہے جو قیامت تک کسی جماعت کو حاصل نہ ہو پائے گی۔ مسائل ١۔ صحابہ کرام (رض) دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوئے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٤٥ تشریح آیات (١ تا ٢٢) قد افلح خلدون (ا تا ١١) یہ ایک پختہ وعدہ ہے بلکہ یہ عالم بالا کی ایک وہ ٹوک قرار داد ہے کہ مومنین فلاح پائیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تو کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ پھر یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا کہ مومنین دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی فلاح پائیں گے ۔ ایک مومن انفرادی طور پر فلاح پائے گا اور اہل ایمان کی جماعت بھی فلاح پائیں گی۔ ایسی کامیابی جسے ایک مومن اپنے دل اپنی حقیقی زندگی میں محسوس کرتے ہوں اور اس کے اندر فلاح کے وہ تمام مفہوم پائے جاتے ہوں جن سے دنیا با خبر ہے اور وہ مفاہیم بھی پائے جاتے ہیں جن سے اہل ایمان با خبر بھی نہ ہوں اللہ نے مستقبل مین ان کے لیے اس کا فیصلہ کر رکھا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مومنین کون ہیں جن کے ساتھ اللہ نے اس قدر پختہ وعدہ کرلیا ہے اور پیشگی ان کی فلاح اور کامیابی کا اعلان کردیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے بھلائی ، نصرت ، سعادت ، توفیق اور دنیا کا سازو سامان لکھ دیا گیا ہے ، اور جن کے لیے آخرت کا اجر ، کامیابی اور نجات لکھ دی گئی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے رب نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کردیا ہے اور ان کے لیے اللہ نے اس جہان اور اس جہاں کی فلاح لکھ دی ہے اور وہ کچھ لکھ دیا ہے جس کے بارے میں انسانوں کو عہم ہی نہیں ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو جنت کے وارث ہونے والے ہیں اور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ لوگ ہو ہیں جن کے بارے میں سیام کلام یہ تفصیلات دیتا ہے۔ O جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ O جو لغویات سے دور رہتے ہیں۔ O جو زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں۔ O جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہوں۔ O جو اپنی امانتوں اور عہد و یمان کا پاس رکھتے ہیں ۔ جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان صفات کی قدرو قیمت کیا ہے ؟ یہ صفات ایک مسلمان کی شخصیت کے مختلف رنگ ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک مسلم انسانیت کے افق پر تمام انسانوں کے مقابلے میں بلند نظر آنا ہے۔ وہ افق کا معیار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعین فرمایا ہے ، کیونکہ آپ تمام مخلوقات سے بر تر اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کی تربیت اللہ نے فرمائی تھی اور بہترین تربیت فرمائی تھی اور اس امر کی شہادت اپنی کتاب میں دی۔ وانک لعلی خلق عظیم ــ” اے محمد ؐ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں “ ۔ حضرت عائشہ (رض) سے جب آپ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کان خلقہ القران ” آپ کا اخلاق قرآن تھا “۔ اور اس کے بعد حضرت عائشہ (رض) نے سورة المومنون کی یہ آیات (١١) تلاوت فرمائیں اور فرمایا ایسے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ الذین ھم فی صلاتھم خشعون (٢٣ : ٢) ” وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں “۔ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو ان کے دلوں میں یہ خوف بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہیں ، نہایت سکون اور نہیات ہی دھیمے پن کے ساتھ ۔ ان کی حرکات ، ان کے انداز قیام ، ان کے انداز سجود سے خوف خدا اور خشوعیاں ہوتا ہے ان کی روح اللہ کی عظمت اور جلال سے بھری ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے ذہن سے تمام دوسرے مشاغل غائب ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ہاں حضوری کے سوا تمام تصورات اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پر دئہ احساس سے ان کا پورا ماحول اور ان کے تمام دوسرے حالات اور تعلقات ان کے جسم و خیال سے محو ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف اللہ کا احساس رکھتے ہیں اور صرف ذلت باری کی معرفت کو محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وجد ان تمام کثافتوں سے پاک ہوتا ہے۔ وہ تمام دنیاوی روابط کو کچھ دیر کے لیے جھٹک دیتے ہیں غرض نماز کے وقت اللہ کے جلال کے سوا ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یوں تو حقیر زدہ اپنے حقیقی مصدر سے مل جاتا ہے۔ ایک حیران روح کو طاقت پر وز مل جاتی ہے۔ ایک پریشان دل کو جائے قرار مل جاتی ہے۔ اس مقام پر تمام چیزیں ، تمام دنیاوی قدریں اور تمام افراد اشخاص نظروں سے گر جاتے ہیں اور ان چیزوں کا وہی پہلو نظروں میں ہوتا ہے جس کا تعلق اللہ سے ہو۔ والذین ھم عن الغو معرضون (٢٣ : ٣) ” جو لغویات سے دور رہتے ہیں “۔ ایسی باتون سے ادور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایسے افعال سے دور رہتے ہیں جو لغو ہو ، ایسی ترجیحات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں ، ایسے خیالات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایک مومن کے دل کی وہ چیز ہوتی ہے جو اسے لہو و لعب اور لغو ہوں سے دور رکھتی ہے۔ یعنی وہ ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے ۔ اللہ کی جلالت قدر کے بارے میں سوچنا رہتا ہے ۔ وہ نفس انسانی اور آفاق کائنات میں موجود آیات کے تدبر میں مصروف رہتا ہے۔ اس کائنات کے مناظر میں سے ہر منظر اس کے دماغ کو مصروف رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کی فکر ہر وقت ان مناظر میں غور کرتی رہتی ہے اور اس کا وجدان ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے قلب و نظر کی تطمیر میں لگا رہتا ہے ، تزکیہ نفس کرتا رہتا ہے اور ضمیر کو پاک کرتا رہتا ہے۔ نیز ایک مومن نے اپنے طرز عمل میں جو تبدیلی لانی ہوتی ہے وہ رات اور دن اسی میں مصروف رہتا ہے۔ پھر ایمان کی راہ میں اسے جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ ان کے دور کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی المنکرکے فرائض کی ادائیگی اسے کرنی ہوتی ہے۔ پھر اس نے اپنی جماعت کی صف بندی بھی کرنی ہوتی ہے اور اسے فتنہ فساد سے بچانا ہوتا ہے ۔ ایک مسلم کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ اسلامی سوسائٹی کی نصرت اور حمایت کرنی ہوتی ہے اور اسلامی سو سائٹی کے مخالفین اور معاندین سے اسے بچانا ہوتا ہے ۔ یہ وہ فرائض ہیں جو ایک مسلمان کے لیے ہر حال میں واجب الاداء ہیں۔ یہ تمام کام فرض عین ہیں یا فرض کفایہ ہیں یہ وہ فرائض ہیں کہ اگر ان کو صحیح طرح سے انجام دیا جائے تو انسان کی پوری زندگی سعی و جہد کے لیے یہ کام کفایت کرتے ہیں کیونکہ انسان کی عمر محدود ہے اور اس کی طاقت بھی محدود ہے۔ اس طاقت کو کوئی شخص یا تو مذکورہ بالا کاموں میں صرف کرکے انسانی نشونما ، ترقی اور اصلاح میں کھپائے گا یا اس محدود قوت کو لہو و لعب من اور فضولیات میں خرچ کے گا۔ یاد رہے کہ یہ تما فرائض اور شریعت کی تمام ہدایات کسی مسلمان کو وقتا فوقتا جائز تفریح سے نہیں روکتے۔ کیونکہ جائز تفریح اور لہو و لعب اور زندگی کو بالکل بےمعنی بنانے کے درمیان بہت فرق ہے۔ والذین ھم للزکوۃ فعلون (٢٣ : ٣) ” وہ لوگ جو زکواۃ کے طریقے پر عمل پیرا رہتے ہیں “۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور لہو و لعب اور بےمعنی زندگی سے دور ہونے کے بعد زکواۃ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ زکواۃ انسانی دل اور انسانی دولت دونوں کے لیے پاکیزگی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے انسان کا دل کنجوسی سے پاک ہوتا ہے اور انسان ذاتی مفاد کو قربان کردیتا ہے اور شیطان کی اس وسوسہ اندازی کا بھی مقابلہ کرتا ہے کہ تم غریب ہو جائو گے نیز زکواۃ کی وجہ سے سوسائٹی کا یہ روگ بھی دور ہوجاتا ہے کہ اس میں کچھ لوگ تو مالدار ہوں اور کچھ ایسے ہوں جن کے پاس کچھ نہ ہو۔ گویا یہ ایک لحاظ سے سوشل سکیورٹی کا ایک نظام ہے اور غریبوں کے لیے اجتماعی کفالت کا ذریعہ۔ اس کے ذریعہ ۔ اس کے ذریعے تمام لوگوں اور پوری سو سائٹی کے درمیان امن وا طمینان اور اتحاد و اتفاق کا سامان کیا جاسکتا ہے اور طبقاتی کشمکش کو دور کیا جاسکتا ہے۔ والذین ھم لفروجھم حفظون (٢٣ : ٥) ” وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ یہ روح کی پاکیزگی ہے ، یہ ایک خاندان کی پاکیزگی ہے ۔ اور پھر پوری سوسائٹی طہارت ہے۔ اس کے ذریعے ایک نفس ، ایک خاندان اور ایک معاشرے کو گندگی سے بچانا مقصود ہے ا۔ انسانی کی شرمگاہ کو غیر حلال اور ناجائز مباشرت سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ انسانی دل حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنسی تسکین کے لیے ایک سخت ضابطہ تجویز کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جن سو سائیٹیوں میں آزاد شہوت رانی کا رواج ہوتا ہے ان کا نظام ڈھیلا پڑجاتا ہے اور ایسی سو سائٹیاں فساد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی ایسی سوسائٹی میں خاندانی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور خاندان کا کوئی احترام نہیں رہتا۔ جبکہ فیملی کسی بھی سو سائٹی کے لیے پہلی وحدت اور پہلا یونٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ نرسری ہوتی ہے جس میں انسانی پود پروان چرھتی ہے اور درجہ بدرجہ برھتی ہے۔ لہذا خاندان ان کے ماحول میں امن و سکون اور پاکیزگی کا دور دورہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ یہ نرسری تدریج کے ساتھ نشو نما پائے اور والدین ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نئی انسانی پود کی پرورش کریں۔ خصوصاً نہایت ہی چھوٹے بچوں کی پرورش اور خاندانی نظام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ پھر جس سوسائٹی کے اندر آزاد شہوت رانی بےحد و حساب اور بےباک روک ٹوک ہو وہ ایک گندی اور غلیظ سوسائٹی ہوتی ہے ۔ اس کے افراد گرے ہوئے اور بےہمت ہوتے ہیں کیونکہ وہ معیار جس میں انسانی ترقی میں کوئی غلطی نہیں ہوتییہ ہے کہ انسان کی قوت ارادی اس کے تمام امور اور تمام میلانات پر حاوی ہو۔ انسان کے تمام فطری تقاضے اس طرح منظم ہوں کہ وہ پاک و صاف ہوں اور اس سوسائٹی کے اندر انسانی پود کی جو نرسری تشکیل پائے وہ شرمندہ طریقوں کے مطابق نہ ۔ اور بچے اس دنیا میں ایسے پاک طریقے کے مطابق آئیں کہ ہر بچے کو اپنا باپ معلوم ہو ۔ اور یہ نہ ہو کہ اس میں ایک مادہ حیوان کسی بھی نر حیوان سے نطفہ لے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حیوان کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کس طرح آیا ہے اور کون اسے لایا ہے۔ یہاں قرآن کریم متعین طور پر بتا دیتا ہے کہ انہوں نے اس نرسری کے لیے بیج کس طرح بونا ہے اور زندگی کی یہ تخم ریزی کہاں کرنی ہے۔ الل علی ازواجھم او ماملکت ایمانھم غیر ملومین (٢٣ : ٢) ” سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہو۔ جہاں تک بیویوں کا تعلق ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے “۔ اور نہ اس میں کوئی قیل و قال ہے ۔ یہ تو ایک معروف اور قانونی نظام ہے لیکن ملک یمین کے مسئلے کی تشریح ضروری ہے ۔ غلامی کے مسئلے پر ہم القران کی جلد دوئم میں منصل بحث کر آئے ہیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ جب اسلامی نظام آیا تو غلامی ایک عالمی نظام کے طور پر رائج تھی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کو غلام بنانا بھی ایک عالمی مسئلہ تھا۔ اسلام اور کفر کی کشمکش میں دشمنان اسلام پوری مادی قوت لے کر میدان میں اترے ہوئے تھے ، اس لیے اسلام کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس نظام کو یکطرفہ طور پر ختم کردے اور صورت حال یہ ہوجائے کہ مسلمان تو قیدی بن کر کفار کے غلام بن جائیں اور کفار قیدی ہو کر آئیں تو وہ اس قانون کی رو سے آزاد ہوجائیں ۔ اسلام نظام نے بامر مجبوری جنگی قیدیوں کی غلامی کا قانون تو بحال رکھا جبکہ غلامی کے دوسرے سرچشمے بند کردیئے ۔ اور یہ بھی اس وقت تک کہ قانون بین الاقوام مین غلامی کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوتا۔ چناچہ اس قانون کے مطابق اسلامی کیمپ میں بعض قیدی عورتیں آجاتی تھیں جو غلام ہوتی تھیں اور اس غلامی کی وجہ سے ان کا درجہ ایک آزاد منکوحہ عورت کے نہیں ہوتا تھا لیکن اسلام نے ان کے ساتھ مباشرت کی اجازت صرف اس شخص کو دے دی جو ان کا مالک ہوتا۔ یہاں تک کہ ان کو ان طریقوں کے مطابق آزادی مل جائے جو اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے وضع کیے اور یہ طریقے متعدد تھے۔ اسلام نے ملک یمین میں مباشرت کی جو آزادی دی ہے اس میں خود اسیر عورتوں کی فطری ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ قیدی عورتیں اسلامی معاشرے میں آزاد شہوت رانی کرتی پھریں۔ جس طر آج ہمارے دور میں جنگی قیدی عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ خصوصاً اس دور کے بعد جبکہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کا بین الاقوامی معاہدہ ہوگیا۔ اسلام نے یہ قانون اسلیے جاری رکھا ہے کہ اسلام آزاد شہوت رانی اور جنسی بےراہ روی کے خلاف ہے۔ یہ ایک عارضی نظام تھا اور اس وقت تک کے لیے تھا جب تک اللہ کی طرف سے ان کی آزادی کا انتظام نہیں کردیا جاتا ۔ اور یہ غلام عورتیں آزادی کے مقام تک نہیں پہنچ جائیں۔ اسلام نے ایسے قوانین بنائے کے کوئی غلام عورت بہت سے ذرائع استعمال کرکے آزادی حاصل کرسکتی ہے ۔ مثلا اگر اس سے مالک سے اس کا لڑکا یا لڑکی پیدا ہوجائے اور یہ مالک فوت ہوجائے تو غلام عورت آزاد ہوجائے گی یا یہ مالک خود اسے آزاد کردیگا یا کسی کفارہ میں وہ آزاد ہوجائے۔ نیز مکاتبت کے ذریعے بھی غلام عورت آزاد ہوسکتی ہے ۔ مکاتبت وہ تحریری معاہدہ وہوتا ہے جس میں ایک غلام اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے ۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے میری کتاب شبہات حول الاسلام) بہر حال غلامی ایک عارضی جنگی ضرورت تھی اور یہ اس طرح تھی کہ بین الاقوامی سطح پر جنگی قوانین مشل بالمشل ہوتے ہیں۔ یعنی جس طرح دشمن قوم جنگی قیدیوں سے سلوک کرے گی ، اسلام بھی ویسا ہی سلوک کرے گا۔ غرض آزاد لوگوں کو غلام بنانا اسلامی نظام کا کوئی مستقل اصول نہ تھا کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی ضرورت تھی۔ فمن ابتغی ورآء ذلک فا ولئک ھم العدون (٢٣ : ٧) ” البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں “۔ یعنی جو شخص اپنی منکوحہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ دوسرے کسی طریقے سے بھی شہوت رانی کرے گا وہ جائز دائرہ سے تجاوز کرنے والا ہوگا۔ وہ حرام میں پڑجائے گا۔ تعدی یوں ہوگی کہ نکاح اور جہاد کے بغیر وہ دوسرے طریقے سے شہوت رانی کر رہاے ہے۔ یو اس کا ضمیر بھی اسے ملامت کرے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چراگاہ میں چر رہا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس حرام کاری کے نتیجے مین جو نر سری ہوگی وہ بھی شتر بےمہار ہوگی اور اس کی وجہ سے پوری سوسائٹی فساد کا شکار ہوگی۔ اس سو سائٹی کے بھیڑئے آزاد ہوجائیں گے اور جہاں سے چاہیں گے گوشت نچ لیں گے۔ یہ تمام ایسی صورتیں ہیں جنہیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔ وا ؛ ذہم لل منتھم عھد رعون (٢٣ : ٨) ” جو اپنی امانتوں اور عہد ویمان کا خیال رکھتے ہیں “۔ یعنی انفرادی طور پر بھی وہ اپنے عہد و یمان کے محافظ ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی وہ عہد ویمان کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ امانتوں میں وہ تمام ذمہ داریاں آتی ہیں جو کسی فرد یا جماعت کے ذمہ لازم ہوتی ہیں۔ پہلی امانت تو فطرت انسانی ہے۔ فطرت انسانی کو اللہ نے نہایت ہی سیدھا بنایا ہے اور فطرت انسانی ناموس کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اور یہ دونوں پھر اللہ کی وحدانیت اور اس کی تخلیق پر شاہد عادل ہیں کیونکہ اس پوری کائنات میں ایک ہی قانون قدرت کام کر رہا ہے جس میں خود ذلت انسانی بھی شامل ہے اور یہ وحدت ناموس فطرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ہی ارادہ مدبرہ کام کررہا ہے۔ اہل ایمان کا یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ کائنات کی اس فطرت کو تبدیل نہ ہونے دیں۔ کیونکہ یہ ان کہ پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ذلت باری پر یہ شاہد عادل بھی ہے اور اسکے بعد پھر تمام دوسری امانتوں کا یہی حکم ہے۔ عہد کی رعایت کا مطلب بھی یہ ہے کہ سب سے پہلے اس عہد کی رعایت کی جائے جو از روئے فطرت انسان پر عائد ہے۔ انسان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ کو ازروئے فطرت پہچانے کہ وہ موجود ہے اور واحد ہے پھر اس عہد کے بعد تمام عہدو یمان آتے ہیں۔ ان عقود کی رعایت کرتے ہیں۔ گویا یہ اہل ایمان کی صفت دائمہ اور قائمہ ہے اور کسی بھی سو سائٹی کا نظم و نسق اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کے افراد میں استقامت نہ اختیار کریں۔ اپنے عہد ویمان کا خیال نہ رکھیں اور اس مشترکہ نظام زندگی پر اس سوسائٹی کے تمام افراد مطمئن نہ ہوجائیں تاکہ تمام لوگوں کو امن و اطمینان حاصل ہو اور وہ اعتماد سے زندگی بسر کریں۔ والذین ھم علی صلوتھم یحافظون (٢٣ : ٩) ” جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ وہ اپنی نماز ہرگز قضا نہیں کرتے نہ وہ انہیں ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نمازوں کی کیفیت میں کمی نہیں کرے۔ وہ ان نمازوں کے فرائض سنن اور مستحبات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں ۔ پورے ارکان اور آداب کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ ان کی نمازیں زندہ نمازیں ہوتی ہیں۔ اور پوری توجہ سے وہ ان میں غرق ہوتے ہیں ، ان کی روح اور ان کا وجدان نمازوں سے اچھا اثر لیتا ہے۔ نماز دراصل بندے اور رب کے درمیاں ایک رابطہ ہوتی ہے ۔ جو شخص نماز کی حفاظت نہیں کرتا وہ درحقیقت اپنے اور اپنے رب کے درمیاں اس رابطے کو کاٹ دیتا ہے۔ اور ایسا شخص پھر دو سرے بنی نوع انسان کے ساتھ بھی اچھے روابط نہیں رکھتا۔ بیان صفات اہل ایمان کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے ہوا اور اختتام بھی نماز کے ذکر سے ہوا۔ مقصد یہ بتلانا ہے کہ اسلام اور ایمان کے بعد نماز سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہاں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نماز کو اپنی پوری صفات کے ساتھ ادا کیا جائے اور اس میں اپنی پوری توجہ اللہ کی طرف مبذول کردی جائے کہ اسلام میں اول بھی نماز اور آخر بھی نماز ہے۔ یہ ان اہل ایمان کی صفات ہیں جن کے لیے اللہ نے فلاح لکھ دی ہے ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو یہ طے کرتی ہیں کہ اہل ایمان کی زندگی کے خدوخال کیا ہوتے ہیں اور اہل ایمان کو کیسی زندگی بسر کرنا چاہئے۔ یعنی ایسی زندگی جو ایک ایسے انسان کے ساتھ لائق ہے جسے پوری مخلوق پر کرامت اور شرف عطا کیا گیا ہے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو کہ وہ اپنی زندگی کو مزید ترقی دے اور محض حیوانات کی طرح زندگی بسر کرے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو جس طرح حیوانات ہوتے ہیں اور نہ اس طرح کھاتا پیتا ہو جس طرح حیوانات کھاتے پیتے ہیں۔ لیکن دنیا کی اس ہم گیر ترقی کے باوجود وہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی پر مزید آگے بڑھاتے ہوئے ، کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج تک یعنی جنت الفردوس میں پہنچایا۔ ترقی و کمال کے ان اعلیٰ مدارج پر ، پھر اہل ایمان ہمیشہ فائز رہیں گے۔ یہاں ان کے لیے کوئی خوف و خطر نہ ہوگا اور وہاں وہ بلا زوہل قرار و سکون رہیں گے۔ اولئک ھم الورثون (١٠) الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خلدون ” یہی وہ لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ وہ آخری مطلوب ہے جو اہل ایمان کے لیے لکھا گیا ہے ۔ اس کے سوا ایک مومن کا کوئی نصب العین نہیں ہے اور نہ اس کے حصول کے بعد اس کا کوئی اور نصب العین رہتا ہے جس کی وہ آرزو کرے۔ اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ خود اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور کریں۔ سب سے پہلے وہ ذرا اپنے وجود اور اس کی نشو نما کی حقیقت پر غور کریں کہ اس کی شخصیت کا آغاز کس چھوٹے سے چرثومے سے ہوا اور پھر بعث بعد الموت اور آخرت کی زندگی کا حال کیا ہوگا۔ ان دونوں زندگیوں کی دنیاوی اور اخروی کیفیت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کی صفات اور ان کی کامیابی کا اعلان ان آیات میں اہل ایمان کی کامیابی کا اعلان فرمایا ہے اور اہل ایمان کی وہ صفات بیان فرمائی ہیں جن کا اہل ایمان کو کامیاب بنانے میں زیادہ داخل ہے۔ فرمایا (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) (تحقیق اہل ایمان کامیاب ہوگئے) اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دنیاوی چیزوں کو دیکھ کر کامیابی کا فیصلہ کرلیتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کامیاب ہے کوئی سمجھتا ہے مالدار کامیاب ہیں اور کوئی گمان کرتا ہے کہ بہت بڑی جائداد والا کامیاب ہے کسی کے نزدیک وزیر کامیاب ہے کسی کے نزدیک سفیر، کوئی جمال کو کامیابی کا سبب سمجھتا ہے اور کسی کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص دنیاوی ہنر اور کمال میں ماہر ہو وہ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرما دیا کہ اہل ایمان کامیاب ہیں۔ کیونکہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے وہاں اہل ایمان ہی کامیاب ہوں گے وہاں کی کامیابی کے بارے میں فرمایا (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ) (جو شخص دوزخ سے بچا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا سو وہ کامیاب ہوگیا) ۔ اس کے بعد اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمائے ان میں پہلا وصف یہ بیان فرمایا (الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ) (جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں) خشوع کا اصل معنی ہے قلب کا جھکاؤ، جب مومن بندے نماز پڑھیں، ان کا پورا دھیان ظاہراً اور باطناً نماز کی طرف رہنا چاہئے۔ نماز پڑھتے ہوئے نماز سے غافل نہ ہوں اور یہ ذہن میں رہے کہ میری نماز قبولیت کے لائق ہوجائے غفلت کی نماز خشوع کی نماز نہیں ہے جس میں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کیا پڑھا رکوع سجدہ ” تو چل میں آیا “ کے طریقے پر جلدی جلدی کرلیا، سجدہ میں مرغ کی طرح ٹھونگیں مار لیں، لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھ لی، بار بار کپڑوں کو سنبھالا۔ مٹی سے بچایا داڑھی کو کھجایا۔ یہ سب چیزیں خشوع کے خلاف ہیں۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا اور داڑھی سے کھیل رہا تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (لو خشع قلبہ لخشعت جوارحہ) (اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا یعنی اس کے اعضاء شریعت کے قواعد کے مطابق نماز میں اپنی اپنی جگہ ہوتے) نماز چونکہ دربار عالی کی حاضری ہے اس لیے پوری توجہ کے ساتھ نماز پڑھنے ہوئے تشبیک یعنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کی ممانعت فرمائی ہے، کھانے کا اور پیشاب پاخانہ کا تقاضا ہوتے ہوئے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، چونکہ یہ چیزیں توجہ ہٹانے والی ہیں۔ ان کی وجہ سے خشوع و خضوع باقی نہیں رہتا جو دربار عالی کی حاضری کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو برابر اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ رہتی ہے جب تک کہ بندہ خود اپنی توجہ نہ ہٹا لے، جب بندہ توجہ ہٹا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بھی توجہ نہیں رہتی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٩١) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو کنکریوں کو نہ چھوئے کیونکہ اس کی طرف رحمت متوجہ ہوتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” قَدْ اَفْلَحَ الخ “ کے مفہوم میں دو باتیں داخل ہیں ایک مطلوب و مقصود کو پالینا۔ دوم جس سے ڈر یا خطرہ ہو اس سے محفوظ ہوجانا۔ والفلاح الظفر بالمطلوب والنجاۃ من الرھوب ای فاذوا بما طلبوا ونجو مما ھربوا (مدارک ج 3 ص 87) ۔۔ سورة حج کی ابتدا میں ” اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةَ شَیْءٍ عَظِیْمٍ “ سے جس خوفناک عذاب کی وعید سنائی گئی اس سے وہ مومنین محفوظ رہیں گے جو اپنے اندر اوصاف ذیل پیدا کرلیں گے (1) خدا سے ڈر کر نماز قائم کریں۔ (2) ہر قسم کے شرک سے بچیں اور (3) مخلوق خدا پر ظلم نہ کریں۔ یہ تینوں امور عذاب خداوندی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ 3:۔ ” اَلْمُوْمِنُوقنَ الخ “ المومنون سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ کی توحید، رسالت اور دیگر تمام ضروریات دین پر ایمان لائیں اور احکام الٰہیہ پر عمل پیرا ہوں۔ اس طرح بعد والی صفات المومنون کے لیے صفات موضحہ ہیں۔ ” اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ “ یہ امر اول ہے وہ نماز قائم کرتے ہیں وہ نماز میں اللہ سے ڈرتے اور عاجزی کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے نماز پر مداومت کرتے ہیں کیونکہ ایسی خشوع والی نماز سے باطن کی صفائی ہوتی ہے اور دلوں میں محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے فی الحدیث سووا صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم۔ خشوع یہ ہے کہ نماز میں خیالات جمع رہیں اور توجہ صرف نماز ہی میں مرکوز رہے اور نماز کے علاوہ کسی چیز کا دل میں خیال تک نہ آئے اور ہاتھ پاؤں سے نماز میں کوئی عبث کام کرے۔ وفی المنھاج و شرحہ لابن حجر و لیس الخشوع فی کل ژلاتہ بقلبہ بان لا یحضر فیہ غیر ما ھو فیہ وان تعلق بالاخرۃ و بجوارحہ بان لا یعبث باحدھا (روح ج 18 ص 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) بلاشبہ ! وہ ایمان والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ یعنی جن کی صفات آگے بیان ہوتی ہیں۔