Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 108

سورة المؤمنون

قَالَ اخۡسَئُوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾

He will say, "Remain despised therein and do not speak to Me.

اللہ تعالٰی فرمائے گا پھٹکارے ہوئے یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Response and Rejection of the Disbelievers This is the response of Allah to the disbelievers when they ask Him to bring them out of the Fire and send them back to this world. قَالَ ... He (Allah) will say: ... اخْسَوُوا فِيهَا ... Remain you in it with ignominy! meaning, abide therein, humiliated, despised and scorned. ... وَلاَ تُكَلِّمُونِ And speak you not to Me! means, `do not ask for this again, for I will not respond to you. Al-`Awfi reported from Ibn Abbas concerning this Ayah, اخْسَوُوا فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ (Remain you in it with ignominy! And speak you not to Me!) "These are the words of Ar-Rahman when silencing them." Ibn Abi Hatim recorded that Abdullah bin `Amr said, "The people of Hell will call on Malik for forty years, and he will not answer them. Then he will respond and tell them that they are to abide therein. By Allah, their cries will mean nothing to Malik or to the Lord of Malik. Then they will call on their Lord and will say, قَالُواْ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْماً ضَألِّينَ رَبَّنَأ أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَـلِمُونَ Our Lord! Our wretchedness overcame us, and we were (an) erring people. Our Lord! Bring us out of this. If ever we return (to evil), then indeed we shall be wrongdoers. (23:106-107) Allah will not answer them for a time span equivalent to twice the duration of this world. Then He will reply: اخْسَوُوا فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ (Remain you in it with ignominy! And speak you not to Me!) By Allah, the people will not utter a single word after that, and they will merely be in the Fire of Hell, sighing in a high and low tone. Their voices are likened to those of donkeys, which start in a high tone and end in a low tone." Then Allah will remind them of their sins in this world and how they used to make fun of His believing servants and close friends: إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا امَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

ناکام آرزو کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں گے تو انہیں جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہوگے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمان ہوگا جو دوزخیوں کو ہر کھیل سے مایوس کردے گا اللہ ہمیں بچائے اے رحمتوں والے اللہ ہمیں اپنے رحم کے دامن میں چھپالے اپنی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے بچالے آمین حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائیں گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں پڑے رہو ۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہوگی نہ اللہ جل وعلا کے پاس ۔ پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہم اپنی گمراہی میں ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل وخوار ہو کر اسی دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہوجائیں گے اور گدھوں کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہے گے اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں گے صورتیں مسخ ہوجائیں گی یہاں تک کہ بعض مومن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں گے لیکن یہاں کسی کو نہیں پہچانیں گے جہنمی انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں لیکن یہ جواب دیں گے کہ غلط ہے ہم تمہیں نہیں پہچانتے ۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں گے اور وہ جواب پائیں گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور یہ وہیں سڑتے رہیں گے ۔ انہیں شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لئے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے بندوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کی دعاؤں پر دل لگی کرتے تھے وہ مومن اپنے رب سے بخشش ورحمت طلب کرتے تھے اسے رحمن الراحمین کہہ کر پکارتے تھے لیکن یہ اسے ہنسی میں اڑتے تھے اور ان کے بغض میں ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں اور دعاؤں پر ہنستے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ 29؀ڮ ) 83- المطففين:29 ) یعنی گنہگار ایمانداروں سے ہنستے تھے اور انہیں مذاق میں اڑاتے تھے ۔ اب ان سے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے ایماندار صبر گذار بندوں کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات و فلاح پاچکے ہیں اور پورے کامیاب ہوچکے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] خساء کا لفظ کتے اور سور کو دھتکارنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے ہم پنجابی زبان میں کتے کو دھتکارنے یا دفع کرنے کے لئے && در در && کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لئے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل سمجھ کر دفع ہونے یا نکل جانے کو کہا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی التجا کے جواب میں فرمائے گا کہ تم اس قدر ذلیل مخلوق ہو کہ تمہارا اس جہنم میں پڑے رہنا ہی مناسب ہے اور دیکھو ! آئندہ مجھ سے کوئی ایسی التجا نہ کرنا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْهَا ۔۔ :” خَسَأَ یَخْسَأُ (منع) أَيْ ذَلَّ ۔ “ ” اخْسَـُٔـوْا “ ذلیل رہو، دفع دور رہو۔ یہ لفظ کتے وغیرہ کو دھتکارنے کے لیے بولا جاتا ہے، پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لیے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل قرار دے کر دور دفع ہونے کے لیے کہا جائے، یعنی اللہ تعالیٰ انھیں دھتکارتے ہوئے فرمائیں گے کہ اسی جہنم میں ذلیل اور دور دفع رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ بعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور یہ ان کا آخری کلام ہوگا، مگر انھی آیات میں آگے ان کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو آرہی ہے : (قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ ١١٢؁ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّيْنَ ) [ المؤمنون : ١١٢، ١١٣ ] ” فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی کوئی روایت صحیح نہیں۔ البتہ آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی درخواست حقارت کے ساتھ رد کردی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا تُكَلِّمُونِ (Do not speak to Me - 23:108). According to Hasan al-Basri (رح) these will be the last words of the people who are cast in hell and in reply Allah will say, |"Do not speak to Me.|" After this they will not be able to speak like human beings, but will make animal sounds to each other. Baihaqi and others have quoted Muhammad Ibn Ka` b as saying that the Qur&an mentions five requests made by the people condemned to hell. Out of the five, replies were furnished to four, but in reply to the fifth Allah commanded them not to speak to Him. Thus these are the last words to be uttered by them after which they will not be able to speak. (Mazhari)

لَا تُكَلِّمُوْنِ ، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اہل جہنم کا یہ آخری کلام ہوگا جس کے جواب میں حکم ہوجائے گا کہ ہم سے کلام نہ کرو پھر وہ کسی سے کچھ کلام نہ کرسکیں گے جانوروں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بھونکیں گے۔ اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ قرآن میں اہل جہنم کی پانچ درخواستیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے چار کا جواب دیا گیا اور پانچویں کے جواب میں حکم ہوگیا لَا تُكَلِّمُوْنِ بس یہ ان کا آخری کلام ہوگا اس کے بعد کچھ نہ بول سکیں گے۔ (مظھری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝ ١٠٨ خسأ خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) ارشاد خداوندی ہوگا کہ اسی جہنم میں راندے ہوئے پڑے رہو اور یہاں سے نکلنے کے بارے میں مجھ سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. “Do not speak to Me”: Do not plead your case with Me. According to some traditions, these will be their last words and they shall never be allowed to speak again, but this is contradicted by the Quran itself in the succeeding verses. Therefore, it only means this that they will not be able to plead their case again.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :98 یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو ۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو ۔ یہ مطلب نہیں ہے ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہوگا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی ۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے ۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں ، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨:۔ یہ وہی خفگی کا جواب ہے جس کا ذکر اوپر گزرا۔ حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ جس وقت یہ لوگ دنیا میں پھر آنے اور نیک عمل کی خواہش اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش کریں گے ‘ اس وقت یہ جواب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دے گا جو اس آیت میں ہے معتبر سند سے ترمذی ابوداود اور مستدرک حاکم وغیرہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے جو روایتیں ١ ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب سے تنگ آکر پہلے تو داروغہ دوزخ سے اپنی موت کی دعا کرنے کی خواہش کریں گے ‘ ہزار برس تک تو مالک داروغہ دوزخ کی طرف سے ان کو کچھ جواب نہ ملے گا ‘ ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر فریاد رس کوئی تمہارا نہیں ہے پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے التجا کریں گے کہ یا اللہ اب ہم کو دوزخ سے نکال ‘ دوبارہ ہم تیری مرضی کے خلاف عمل نہیں کریں گے ‘ دنیا کی جتنی عمر ہے اس سے دو چند مدت تک تو کچھ جواب ان کو نہ ملے گا ‘ اس قدر مدت کے بعد یہ جواب ملے گا کہ دوزخی ہو ‘ تم لوگ بات کرنے کے قابل نہیں ہو اور اسی عذاب میں رہنے کے لائق ہو کیونکہ ایک تو تم خود نیک کام نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی دوسرا بھی نیک کام کرتا تھا تو تم ان پر ہنستے تھے ‘ نیک کام کرنے والوں پر یہ منکرین شریعت جو ہنسا کرتے تھے اس کا ذکر آگے کی آیتوں میں آتا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں عدی بن حاتم سے جو روایت ٢ ؎ ہے اس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک شخص سے بلا واسطہ کلام کرے گا اس آیت اور اس حدیث میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ حساب و کتاب کے وقت جس طرح ہر شخص سے بلا واسطہ کلام کرے گا اسی طرح ان لوگوں سے بھی فرما دے گا کہ کیا دنیا میں تم لوگوں کو قرآن کی آیتیں نہیں سنائی گئیں اور تم نے ان آیتوں کو نہیں جھٹلایا ‘ چناچہ اوپر کی آیتوں میں یہ ذکر گزر چکا ہے ‘ ہاں حساب کتاب کے بعد جب ہمیشہ کے لیے یہ لوگ دوزخ میں ڈال دیئے جاویں گے اور فیصلہ الٰہی کے برخلاف یہ لوگ دوزخ سے نکالنے کی التجا کریں گے ‘ اس وقت یہ حکم ہوگا دور رہو ‘ تم لوگ بات کرنے کے قابل نہیں ہو۔ (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٩١۔ ٤٩٢ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب و القصاص والمیزان۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:108) اخسؤا۔ خسأ یخسأ خسأ (فتح) سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر خسأ الکلب۔ کتے کو دھتکارنا۔ خسات الکلب فخسأ۔ میں نے کتے کو دھتکارا تو وہ دور ہوگیا۔ اخسئوا فیھا۔ دھتکارے پھٹکارے ذلت کے ساتھ اس (جہنم) میں پڑے رہو اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ کونوا قردۃ خسئین 2:65) ذلیل و خوار بندر ہوجائو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال۔۔۔۔۔۔ ولاتکلمون ” “۔ خاموش ہو جائو ‘ ایک ذلیل شخص کی طرح خاموشی اختیار کرو۔ جس عذاب میں تم لوگ پڑے ہوئے ‘ تم اس کے پوری طرح مستحق ہو۔ یہی تو ہیں آمیز پوزیشن تمہارے لیے بہتر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قَالَ اخْسَؤُا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ ) (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اسی میں پھٹکارے ہوئے دور ہوجاؤ اور مجھ سے بات نہ کرو) سنن ترمذی میں ہے کہ اس کے بعد دوزخی ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے اور گدھوں کی طرح چیخنے چلانے اور حسرت اور واویلا کرنے میں لگ جائیں گے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ان کے چہرے بدل جائیں گے، صورتیں مسخ ہوجائیں گی حتی کہ بعض مومن شفاعت لے کر آئیں گے لیکن دوزخیوں میں سے کسی کو پہچانیں گے نہیں۔ دوزخی ان کو دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں مگر وہ کہیں گے کہ غلط کہتے ہو ہم تم کو نہیں پہنچانتے۔ (تفسیر ابن کثیر ص ٢٥٨ ج ٣) (اخْسَؤُا فِیْہَا) کے جواب کے بعد دوزخ کے دروازے بند کردیئے جائیں گے وہ اسی میں جلتے رہیں گے (ایضاً )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(108) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا اسی آگ میں ذلیل اور پھٹکارے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو یعنی ہزاروں برس کے بعد یہ جواب دیا جائے گا۔