Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 117

سورة المؤمنون

وَ مَنۡ یَّدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرۡہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۱۱۷﴾

And whoever invokes besides Allah another deity for which he has no proof - then his account is only with his Lord. Indeed, the disbelievers will not succeed.

جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے ۔ بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا اخَرَ ... And whoever invokes besides Allah, any other god, Shirk is the Worst form of Wrong, its Practitioner shall never succeed. Allah threatens those who associate anything else with Him and worship anything with Him. He informs that those who associate others with Allah: ... لاَا بُرْهَانَ لَهُ ... of whom he has no proof, meaning no evidence for what he says. Then Allah says: وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا اخَرَ لاَ بُرْهَانَ لَهُ بِهِ ... And whoever invokes, besides Allah, any other god, of whom he has no proof; this is a conditional sentence, whose fulfilling clause is: ... فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ... then his reckoning is only with his Lord. meaning, Allah will call him to account for that. Then Allah tells us: ... إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ Surely, disbelievers will not be successful. meaning, they will not be successful with Him on the Day of Resurrection; they will not prosper or be saved.

دلائل کے ساتھ مشرک کا موحد ہونا مشرکوں کو اللہ واحد ڈرا رہا ہے اور بیان فرما رہا ہے کہ ان کے پاس ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں ۔ یہ جملہ معترضہ ہے اور جواب شرط فانما والے جملے کے ضمن میں ہے یعنی اس کا حساب اللہ کے ہاں ہے ۔ کافر اس کے پاس کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ وہ نجات سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ ایک شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تو کس کس کو پوجتا ہے؟ اس نے کہا صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کام آنے والا وہی ہے تو پھر اس کے ساتھ ان دوسروں کی عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اکیلا تجھے کافی نہ ہوگا ؟ جب اس نے کہا یہ تو نہیں کہہ سکتا ، البتہ ارادہ یہ ہے کہ اوروں کی عبادت کرکے اس کا پورا شکر بجا لاسکوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سبحان اللہ! علم کے ساتھ یہ بےعلمی؟ جانتے ہو اور پھر انجان بنے جاتے ہو؟ اب کوئی جواب بن نہ پڑا ۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو جانے کے بعد کہا کرتے تھے مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کرلیا ۔ یہ حدیث مرسل ہے ترمذی میں سنداً بھی مروی ہے ۔ پھر ایک دعا تعلیم فرمائی گئی ۔ غفر کے معنی جب وہ مطلق ہو تو گناہوں کو مٹا دینے اور انہیں لوگوں سے چھپا دینے کے آتے ہیں ۔ اور رحمت کے معنی صحیح راہ پر قائم رکھنے اور اچھے اقوال و افعال کی توفیق دینے کے ہوتے ہیں ۔ الحمدللہ سورۃ مومنون کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1171اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فروانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال و اسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مومن اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] یعنی جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکار کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں اور انہوں نے انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا ہے۔ تو ان کے پاس اس کے جواز میں نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ نقلی۔ ایسے من گھڑت قصوں کی بنیاد محض وہم و گمان پر ہوتی ہے پھر تقلید آباء کی وجہ سے یہ نظریے لوگوں میں رواج پا جاتے ہیں۔ ایسے مشرکوں سے اللہ تعالیٰ پورا پورا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے مقدار جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اور ایسے ہٹ دھرم اور منکر لوگ جو سمجھانے پر باز نہیں آتے۔ آخرت میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۔۔ :” جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے “ کے بعد ” جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں “ کا یہ مطلب نہیں کہ کسی دوسرے ایسے معبود کو پکارنا جائز ہے جس کی کوئی دلیل کسی کے پاس موجود ہو۔ بلکہ یہ جملہ معترضہ ہے، جس کا مقصد اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں، نہ عقلی، نہ نقلی۔ (دیکھیے احقاف : ٤) یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے، جس کا اسے کوئی حق نہیں تو وہ اس کا بدلا پائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ایسا ظلم بھی ہوتا ہے جس کا کسی کو حق حاصل ہے، بلکہ مقصد ظلم کی برائی بیان کرنا ہے کہ ظلم کا حق کسی کو بھی نہیں۔ 3 رازی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ غور و فکر کے بعد دلیل پر عمل کرنا حق ہے اور تقلید (بلا دلیل کسی بات کو لے لینا) باطل ہے۔ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ : یعنی اس کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا کا کوئی شخص حساب نہیں کرسکتا، نہ اندازہ کرسکتا ہے۔ اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے اور وہی اس کی سزا جانتا ہے۔ لوگوں کو اس نے صرف اتنا بتایا ہے کہ میں یہ جرم کسی صورت بھی معاف نہیں کروں گا، اس کے سوا جو بھی گناہ ہے، جسے چاہوں گا بخش دوں گا۔ (دیکھیے نساء : ٤٨، ١١٦) اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی تسلی ہے کہ آپ کا کام پیغام پہنچانا ہے، حساب لینا ہمارا کام ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ) [ الرعد : ٤٠ ] ” تو تیرے ذمے صرف پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔ “ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ : ”إِنَّ “ کے بعد ضمیر ” ہٗ “ پیچھے کسی لفظ کی طرف نہیں لوٹتی، اسے ضمیر شان کہتے ہیں۔ یہ کسی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ۔ “ ” کافر فلاح نہیں پائیں گے “ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے والے کافر ہیں اور کافر فلاح نہیں پائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝ ٠ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ۝ ٠ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝ ١١٧ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بتوں کی عبادت کرے جس کے معبود ہونے پر اس کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تو اس کو آخرت میں عذاب ملے گا، یقینا کافروں کو عذاب الہی سے نجات اور فلاح نہیں ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَلا) ” یعنی اللہ کو بھی معبود مانتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کسی اور کو بھی پکارتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. It may also be translated as: The one who invokes any other deity along with Allah, has nothing to support him in this act. 105. That is, he cannot escape accountability. 106. Again, the reference is to those who will attain the success and to those who will be deprived of it.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :104 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اس کے لئے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :105 یعنی وہ محاسبے اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :106 یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم رہنے والے کون ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٧۔ ١١٨:۔ سورة الاحقاف میں آوے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تو زمین و آسمان اور ان بت پرستوں کو پیدا کیا ‘ ان بت پرستوں کے بتوں نے کوئی چیز پیدا کی ہو تو یہ لوگ اس کی سند پیش کریں اور اس طرح کو کوئی سند یہ لوگ پیش نہیں کرسکتے تو ان سے پوچھا جاوے کہ پھر آخر کس سبب سے یہ لوگ بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں کیونکہ دنیا میں تو ان بتوں کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کا یہ لوگ کچھ پتا اور نشان نہیں بتلا سکتے اور عقبیٰ کا یہ حال ان لوگوں کو قرآن میں کئی جگہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جن فرشتوں اور نیک لوگوں کی مورتوں کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں ‘ قیامت کے دن وہ فرشتے اور نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجاویں گے ‘ ان آیتوں میں شرک کا کسی سند سے ثابت نہ ہونے کا اور مشرکوں کا بھلائی کو نہ پہنچنے کا جو ذکر ہے ‘ سورة الاحقاف کی آیتوں سے اس کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں ‘ اس حدیث کو آیت کے ٹکڑے فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ شرک جتنا بڑا گناہ ہے قیامت کے دن نیکی بدی کے حساب و کتاب کے وقت اس کے مؤاخذہ کا حال ان مشرکوں کو اچھی طرح معلوم ہوجاوے گا ‘ جن غریب مسلمانوں کا یہ ذکر اوپر گزرا کہ جب مالدار مشرک ان کو طرح طرح کے مسخراپن میں اڑاتے تھے تو وہ غریب مسلمان کن لفظوں سے بارگاہ الٰہی میں دعا کیا کرتے تھے ‘ آخر سورة میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ہی لفظوں سے دعا مانگنے کا حکم دیا تاکہ ان غریب مسلمانوں کا دل بڑھے اور وہ جان لیویں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب ابوبکر صدیق (رض) نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے لفظ بھی ان لفظوں کے قریب قریب ہیں اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ لفظ یا ان کے معنے کے قریب کے لفظ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ‘ سورة المو ‘ منون ختم ہوئی (اب سورة النور شروع ہوتی ہے) (١ ؎ الدر المنثور ص ٧١ ج ٥ ومشکوٰۃ باب التشہد ‘ اور وہ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَاِنَّہ ‘ لَا یَغْفُِِ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَا غْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمہُ ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:117) یدع۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب دعاء ودعوۃ مصدر (باب نصر) مجزوم بوجہ جملہ شرطیہ کے ہے اصل میں یدعوا تھا۔ من یدع جو پکارے گا (مدد کے لئے یا عبادت کے لئے) لا برھان لہ بہ۔ میں لہ یعنی پکارنے والے نزدیک۔ بہ جس کو پکارا گیا ہو اس کے حق میں۔ یعنی اس (غیر اللہ کو معبود) پکارنے والے کے پاس (اس غیر اللہ کی بابت معبود پکارنے کی) کوئی دلیل نہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہیولا تقف ما لیس لک بہ علم (17:36) اور اس چیز کے پیچھے مت ہو لیا کر جس کی بابت تجھے (صحیح) علم نہ ہو۔ لا برھان لہ بہ۔ جملہ معترضہ ہے۔ جملہ شرطیہ اور جملہ جزا کے درمیان ۔ یا جملہ اول کی تاکید میں لایا گیا ہے۔ فانما حسابہ عند ربہ۔ جملہ جزائیہ ہے۔ انہ۔ ضمیر شان ہے ای ان الشان لا یفلح الکافرون۔ شان یہ ہے کہ کافروں کو فلاح نہیں ہونے کی۔ بیشک (حقیقت یہ ہے ۔ یقینا) حق کا انکار کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ تو وہ بقیہ تمام مخلوقات کا صاحب (مالک) کیوں نہ ہوگا جبکہ عرش ہر مخلوق سے بلند ہے عرش کو کریم (عزت والا) یا تو اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے خیر و رحمت کا نزول ہوتا ہے یا اس لئے کہ اس پر مستوی ہونے والی ذات مقدس کریم ہے۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی) 4 ۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ پکارنے سے مراد حاجت روائی کے لئے پکارنا ہے یا عبادت کرنا۔ 5 ۔ اور شر ک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ جس کا چاہے گا ہر گناہ معاف کر دیگا لیکن شرک کو بغیر توبہ کے معاف نہیں کریگا۔ (نساء :48، 116)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا، پوری کائنات کا بادشاہ، عرش کریم کا رب ہونے کی بناء پر اکیلا ہی معبودِ برحق ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو الٰہ بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے کی بجائے مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے کی اس کے بعد کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، شان اور صفات کے حوالے سے اکیلا اور سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ مشرک دلیل نہ ہونے کے باوجود نہ صرف شرک جیسے سنگین جرم میں ملّوث ہوتا ہے بلکہ شرک کی حمایت میں بحث و تقرار بھی کرتا ہے یہاں تک مرنے مارنے پر اتر آتا ہے ایسی صورت میں ایک داعی کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ مشرک سے الجھنے کی بجائے یہ کہہ کر اپنا کام کرتا جائے کہ تیرا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہّ ہے اس عقیدہ کا انکار کرنے والے یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحم مانگتے رہیں یقیناً آپ کا رب بڑا رحم کرنے والا ہے۔ سورة المومنون کی ابتداء ان الفاظ سے ہوئی تھی کہ مومن فلاح پا چکے اس کا اختتام اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ حقیقت بتلانے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحمت مانگتے رہو وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکا عذاب دیے جانے والے سے پوچھیں گے اگر تیرے پاس زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو کیا تو عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں وہ چیز دے دیتا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے دینا میں بہت ہی معمولی مطالبہ کیا تھا۔ جب تو آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا ‘ لیکن تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔ “ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ] توبہ و استغفار کی فضیلت اور فوائد : اللہ کی رضا کا حصول : گنا ہوں کی معافی کا ذریعہ، اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوں سے نجات ملتی ہے، دنیا میں کشادگی اور آخرت میں جنت کے باغات نصیب ہوں گے، سچی توبہ سے سیئات حسنات میں تبدیل ہوجاتی ہیں، توبہ و استغفار کرنے سے آدمی اللہ کے غضب سے محفوظ ہوجاتا ہے لہٰذا ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ، استغفار کرتے رہیے۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں ابر باراں ہوئے عرصہ گزر چکا تھا وہ ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کیا کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں، فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا سورة نوح میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش برسانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ (إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ ےُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَےْکُمْ مِدْرَارًا۔ ) [ نوح : ١٠۔ ١١] ” اپنے رب سے معافی مانگو بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔ “ مسائل ١۔ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا انکار کرنے والا فلاح نہیں پائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن نہ ” اللہ “ کے ساتھ کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے سوا کسی کو پکارا جائے : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء : ٢١٣) ٣۔ مشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ نے مدفون بزگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ (فاطر : ١٣) ٤۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:۔ ” ومن یدع الخ “ یہ تخویف اخروی ہے جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو کارساز اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں حالانکہ غیر اللہ کی الوہیت کسی دلیل اور برہان سے ثابت نہیں ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ فرمائے گا اور انہیں سخت سزا دے گا۔ اور ایسے کافر و مشرک ہرگز اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ ثم زکر ان من کان بذالک فجزاءہ العقاب العظیم بقولہ فانما حسابہ عند رب ؟ ؟ قال ان عقابلہ ابلغ الی حیث لا یقدر احد علی حسابہ الا اللہ تعالیٰ (کبیر ج 6 ص 309) ۔ اس سورت کی ابتدا میں فرمایا ” قد افلح المومنون “ اور آخر میں فرمایا ” انہ لا یفلح الکفرون “ ایمان والے کامیاب ہوں گے اور کافر و مشرک ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے آخر میں بندوں کو طلب مغفرت و رحمت کی تلقین فرمائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(117) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اور اس کی عبادت کرے کہ جس کی عبادت کے لئے اس کے پاس کوئی دلیل اور سند نہیں تو بس اس کا حساب اس کے پروردگار ہی کے ہاں ہوگا بلاشبہ کافروں کو فلاح نصیب نہ ہوگی۔ یعنی باوجود دلیل نہ ہونے کے پھر بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارے گا اور عبادت کرے گا تو ایسے نالائق کا حساب پروردگار کے پاس ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے منکروں کو کامیابی اور فلاح میسر نہیں ہوگی۔