Surat ul Mominoon
Surah: 23
Verse: 2
سورة المؤمنون
الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
They who are during their prayer humbly submissive
جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔
الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
They who are during their prayer humbly submissive
جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔
Those who with their Salah are Khashi`un. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said: "( خَاشِعُونَ Khashi`un) means those with fear and with tranquility." This was also narrated from Mujahid, Al-Hasan, Qatadah and Az-Zuhri. It was reported from Ali bin Abi Talib, may Allah be pleased with him, that; Khushu` means the Khushu` of the heart. This was also the view of Ibrahim An-Nakha`i. Al-Hasan Al-Basri said, "Their Khushu` was in their hearts." So they lowered their gaze and were humble towards others. Khushu` in prayer is only attained by the one who has emptied his heart totally, who does not pay attention to anything else besides it, and who prefers it above all else. At that point it becomes a delight and a joy for eyes, as in the Hadith recorded by Imam Ahmad and An-Nasa'i from Anas, who said that the Messenger of Allah said: حُبِّبَ إِلَيَّ الطِّيبُ وَالنِّسَاءُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَة Fragrance and women have been made dear to me, and Salah was made the joy of my eye. وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
2 1خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔
[٢] خَشَعَ کے معنی ایسی عاجزی ہے جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو۔ پھر اس ڈر اور عاجزی کے اثرات اعضا وجوارح ہے پر بھی ظاہر ہونے لگیں۔ آنکھیں مرعوب ہو کر جھک جائیں اور آواز پست ہوجائے چناچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو۔ ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑوں کو سنوارتا رہے نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے۔ اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔ اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھر سے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے۔ خشوع اگرچہ اجزائے صلوۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔
الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ : طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے ” خٰشِعُوْنَ “ کی تفسیر ” خَاءِفُوْنَ سَاکِنُوْنَ “ روایت کی ہے۔ (طبری : ٢٥٦٢٧) یعنی وہ نماز میں دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور اس خوف کا ان کے جسم پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ نماز کے منافی کسی بھی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں، نہ ادھر ادھر نگاہ پھیرتے ہیں، نہ اپنے کپڑے یا ڈاڑھی سے کھیلتے ہیں اور نہ انگلیاں چٹخاتے ہیں۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں ادھر ادھر جھانکنے کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھُوَ اخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ الْعَبْدِ ) [ بخاري، الأذان، باب الالتفات في الصلاۃ : ٧٥١ ] ” یہ شیطان کا آدمی کی نماز سے اچک کرلے جانا ہے، جو شیطان بندے کی نماز سے اچک کرلے جاتا ہے۔ “ 3 اس آیت کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” اگر اس کا دل خشوع کرتا تو اس کے دوسرے اعضا بھی خشوع کرتے۔ “ شیخ البانی نے ” سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (١١٠) “ میں اس کا موضوع (خود بنائی ہوئی) ہونا دلائل سے ذکر فرمایا ہے۔ تنبیہ : نماز میں ڈاڑھی، کپڑے یا کسی بھی چیز سے کھیلنے اور بےمقصد حرکت کرنے کا خشوع، یعنی دل کے خوف اور جسم کے سکون کے منافی ہونا واضح بات ہے، مگر یہ ہرگز جائز نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے وہ الفاظ لگائے جائیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) [ بخاري، العلم، باب إثم من کذب۔۔ : ١١٠۔ مسلم : ٣ ]” جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔ “ 3 امام بخاری (رض) نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے : ” نماز میں ہاتھ سے مدد لینے کا باب، جب وہ کام نماز ہی سے متعلق ہو۔ “ پھر اس عنوان کے تحت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” آدمی نماز میں اپنے جسم سے جس طرح چاہے مدد حاصل کرے۔ “ پھر لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق نے نماز میں اپنی ٹوپی نیچے رکھی اور اسے اٹھایا اور علی (رض) نے اپنی ہتھیلی اپنی بائیں کلائی کے جوڑ پر رکھے رکھی، سوائے اس کے کہ اپنی جلد کو کھجلی کریں یا اپنا کپڑا درست کریں۔ “ اس کے بعد امام صاحب نے ابن عباس (رض) سے وہ حدیث نقل کی ہے جس میں انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑے ہو کر رات کی نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے (یعنی مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کیا) ۔ “ [ بخاري، العمل في الصلاۃ، باب استعانۃ الید في الصلاۃ إذا کان من أمر الصلاۃ : ١١٩٨ ]
الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ٢ۙ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
آیت ٢ (الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ) ” کامیاب ‘ بامراد اور فائز المرام اہل ایمان وہ ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ان کی توجہ رکعتوں کی گنتی پوری کرنے پر ہی مرکوز نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی نمازوں میں عاجزی اور فروتنی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نمازیں حقیقی خشوع و خضوع کا منظر پیش کرتی ہیں۔
2. The noble characteristics of the believers pointed out in (verses 2-9 )are the arguments to prove the above assertion. In other words, it has been stated that people with such and such traits and qualities only can attain true success in this world and in the Hereafter. 3. Khashiun in the text is from khushu (to bow down, to express humility) which is a condition of the heart as well as of the body. Khushu of the heart is to fear and stand in awe of a powerful person and khushu of the body is to bow his head and lower his gaze and voice in his presence. In Salat one is required to show khushu both of the heart and of the body, and this is the essence of the Prayer. It has been reported that when the Prophet (peace be upon him) once saw a person offering his Prayer as well as playing with his beard, he remarked: If he had khushu in his heart, his body would have manifested it. Though khushu is actually a condition of the heart, as stated by the above tradition, it is manifested by the body as a matter of course. The Shariah has enjoined certain etiquette which, on the one hand, helps produce khushu in the heart, and on the other, helps sustain the physical act of the Prayer in spite of the fluctuating condition of the heart. According to this etiquette, one should neither turn to the right or left, nor raise his head to look up, One may, however, look around from the corner of the eye, but as far as possible, he must fix the gaze on the place where the forehead would rest in prostration. One is also forbidden to shift about, incline sideways, fold the garments or shake off dust from them. It is also forbidden that while going down for prostration, one should clean the place where he would sit or perform prostration. Similarly it is disrespectful that one should stand stuffy erect, recite the verses of the Quran in a loud resounding voice, or sing them, or belch or yawn repeatedly and noisily. It has also not been approved that one should offer the Prayer in a hurry. The injunction is that each article of the Prayer should be performed in perfect peace and tranquility, and unless one article has been completely performed, the next should not be begun. If one feels hurt by something during the Prayer, he may cast it aside by one hand, but moving the hand repeatedly or using both the hands for the purpose is prohibited. Along with this etiquette of the body, it is also important that one should avoid thinking irrelevant things during the Prayer. If thoughts come to the mind without one’s intention, it is a natural human weakness, but one should try his utmost that the mind and heart are wholly turned towards Allah, and the mind is in full harmony and tune with the tongue, and as soon as one becomes conscious of irrelevant thoughts, he should immediately turn the attention to the Prayer.
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :2 یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر درحقیقت فلاح پائی ہے ۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں ۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :3 خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا ، دب جانا ، اظہار عجز و انکسار کرنا ۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی ۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو ۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں ، نگاہ پست ہو جائے ، آواز دب جائے ، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو ۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : لو خشع قلبہ خشعت جوارحہ ، اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا ۔ اگرچہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا ۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مدد گار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کو کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیار خاص پر قائم رکھتے ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے ( زیادہ سے زیادہ صرف گوشہ چشم سے ادھر ادھر دیکھا جا سکتا ہے ۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے ، مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہنی چاہیے ) ۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے ۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا ، یا ان کو جھاڑنا ، یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے ۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یا سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے ۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا ، یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلاف ہے ۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے ۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت نا پسندیدہ ہے ۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل ، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے ۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے ، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا ، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے ۔ ان ظاہر آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے ۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفس انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے ۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے ۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آجائیں تو جس وقت بھی آدمی کو انکا احساس ہو اسی وقت اسے اپنی توجہ ان سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے ۔
1: یہ خشوع کا ترجمہ ہے۔ عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔
(23:2) خشعون۔ خشوع سے اسم فاعل جمع مذکر الخشوع (باب نصر) کے معنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ضراعۃ کے معنی میں آتا ہے بمعنی عاجزی کرنا لیکن زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعۃ کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولاجاتا ہے۔ ایک روایت ہے اذا ضرعت القلب وخشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اس کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے خشعون عاجزی کرنے والے۔ زاری کرنے والے۔
2 ۔ ” خشوع “ کے لفظی معنی ہیں کسی کے سامنے ڈر کر جھک جانے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کے اس کا تعلق دل سے بھی ہے اور ظاہری اعضائے بدن سے بھی۔ لہٰذا نماز میں خشوع اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل پر خوف وہیبت طاری ہو اور اس کے اعضا میں سکون ہو۔ وہ نگاہ ادھر ادھر پھیرے نہ کپڑے یا داڑھی وغیرہ کھیلے اور نہ انگلیاں چٹخائے۔ کیونکہ ادھر ادھر دیکھنے کو شیطان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضا پر بھی اثر ہوتا۔ یہ خشوع نماز کی اصل روح ہے اس لئے بہت سے علماً نے اسے فرض قرار دیا ہے یعنی اگر یہ نماز میں نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔ ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز میں اپنے سر اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا کرتے تھے اور دائیں بائیں رخ کرلیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ چناچہ اس کے بعد وہ ایسا کرنے سے باز آگئے۔ (ابن جریر) عبد الواحد بن زید نے اس پر بھی علما کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ آدمی کی نماز وہی قبول ہوتی ہے جسے وہ سمجھ کر پڑھے نیز دیکھئے بقرہ :45، شوکانی)
2۔ خشوع کی حقیقت ہے سکون قلب یعنی یہ کہ خیالات غیر کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے، اور جوارح کا بھی کہ عبث حرکتیں نہ کرے، اور اس کی فرضیت میں کلام ہے مگر حق یہ ہے کہ صحت صلویہ کا تو موقوف علیہ نہیں اور اس مرتبہ میں فرض نہیں البتہ قبول صلوة کا موقوف علیہ ہے اور اس مرتبہ میں فرض ہے۔
تفسیر بالقرآن ربط کلام : کامیاب ہونے والوں کی پہلی صفت۔ سورۃ الحج کے آخر میں نماز قائم کرنے کا حکم تھا اب نماز کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی ادائیگی میں اس کے ظاہری ارکان کا خیال رکھنا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ آدمی اپنے رب کے حضور کھڑا ہو تو اس کا سراپا گواہی دے رہا ہو کہ وہ اپنے رب کے دربار اور اس کی بارگاہ میں ایک فقیر، بےنوا اور سب سے بڑھ کر ایک درماندہ انسان کھڑا ہے۔ رکوع میں جائے تو اس سوچ اور انداز میں جھکے کہ اس نے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور سرنگوں کرلیا ہے اب وہ جان بوجھ کر سرکشی نہیں کرے گا۔ سجدہ کرے تو اس نیت کے ساتھ کہ وہ ساری دنیا کے آستانوں کو چھوڑ کر اس آستانے پر گرا پڑا ہے جہاں سے کوئی سوالی نامراد نہیں لوٹتا۔ پیشانی زمین پر رکھ کر ایک طرف دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنی بےبسی اور درماندگی کا اظہار کرے اور دوسری طرف اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرے۔ اسی کا نام خشوع ہے اس کے حصول کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی جائے جس طرح عبادت کرنے والا خود اپنے رب کو دیکھ رہا ہے یا پھر اس کا یہ تصور ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” اپنے ” اللہ “ کی عبادت اس یقین کے ساتھ کرو گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ َالَ أُمِرْنَا أَنْ نَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ وَلاَ نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا) [ رواہ البخاری : باب لَا نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے ہمیں سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہم کپڑے اور بالوں کو نماز میں نہ سنواکریں۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوا أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہِ ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَۃَ ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ ) [ رواہ البخاری : باب (فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیلَہُمْ )] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں جنہوں نے یہ کام کیے تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حقوق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ “ (عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عِظْنِی وَأَوْجِزْفَقَالَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ وَلاَ تَکَلَّمْ بِکَلاَمٍ تَعْتَذِرُ مِنْہُ غَداً وَاجْمَعِ الإِیَاسَ مِمَّا فِی یَدَیِ النَّاسِ ) [ رواہ احمد : مسند ابو ایوب انصاری ] ” حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس طرح نماز ادا کرو گویا کہ الوداعی نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی ایسی گفتگو نہ کرو۔ جس کے لیے کل کو کوئی عذر پیش کرنا پڑے اور جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کی امید نہ کرو۔ “ مسائل ١۔ مومن اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ ٢۔ خشوع و خضوع کے بغیر نماز ادا کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن نماز کے دوران جن باتوں کا خیال رکھنا چاہے : ١۔ نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ( الروم : ٣١) ٢۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء : ١٠٣) ٣۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے۔ ( النساء : ٤٣) ٤۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : ٥، ٦) ٥۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ : ٦) ٦۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ : ٤٣) ٧۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ : ٢٣٨) ٨۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون : ٢) ٩۔ اقامت صلوٰۃ کا اجر۔ (العنکبوت : ٤٥)