Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 26

سورة المؤمنون

قَالَ رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ بِمَا کَذَّبُوۡنِ ﴿۲۶﴾

[Noah] said, "My Lord, support me because they have denied me."

نوح ( علیہ السلام ) نے دعا کی اے میرے رب !ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells us that Nuh, peace be upon him, invoked his Lord to help him against his people, Allah tells; قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ He (Nuh) said: "O my Lord! Help me because they deny me." as Allah mentions in another Ayah: فَدَعَا رَبَّهُ أَنُّى مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ Then he invoked his Lord (saying): "I have been overcome, so help (me)!" (54:10) Here he says: رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (O my Lord! Help me because they deny me).

جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آگئے اور مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے پروردگار میں لاچار ہوگیا ہوں میری مدد فرما ۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الہٰی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی ۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کرچکی ہے جو ایمان نہیں لائے ۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی ۔ واللہ اعلم ۔ اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا ۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا ۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہوجائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگا ۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لئے ہم نہیں دہراتے ۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پرسوار ہوجاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنادیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا ۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور توہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں یعنی مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یقینا رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کرلیتا ہے

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، (فدَعارَبَّہ، اَنِّیْ مَغْلُوْب فَانْتَصِرُ ) (القمر10 ' نوح (علیہ السلام) نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر ' اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] حضرت نوح (علیہ السلام) کا زمانہ تبلیغ غالباً تمام انبیاء سے زیادہ ہے جو قرآن کی صراحت کے مطابق ساڑھے نو سو سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں آپ اپنی قوم سے ناروا باتیں اور طعنے وغیرہ سنتے اور برداشت کرتے رہے۔ اتنی طویل مدت میں بہت ہی کم لوگ ایمان لائے۔ دوسروں کا کیا ذکر آپ کی بیوی اور ایک بیٹا بھی آپ کے مقابلہ میں کافروں کا ساتھ رہے تھے۔ حضرت نوح کو یہ یقین ہوگیا کہ اب جو کافر موجود ہیں وہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دعوت حق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ بس یہ لوگ صرف حضرت نوح کی اذیت اور ذہنی کوفت کا باعث بن رہے تھے۔ جب ان کافروں نے آپ کو اذیت دینے میں انتہا کردی تو اس وقت آپ نے دعا کی کہ یا اللہ ! یہ قوم مجھ پر غالب آگئی ہے اب تو ہی میری مدد فرما اور ان سے اس ظلم کا بدلہ لے جو انہوں نے اتنی طویل مدت مجھ پر ڈھایا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ : درحقیقت یہ قوم پر عذاب کی دعا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے یہ بد دعا کب کی اور کن الفاظ میں کی، اس کے لیے دیکھیے سورة قمر (٩، ١٠) ، سورة شعراء (١١٧، ١١٨) اور سورة نوح (٢٦، ٢٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۝ ٢٦ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) نوح (علیہ السلام) نے (مایوس ہو کر) عرض کیا، پروردگار ان پر عذاب نازل کرکے میرا بدلہ لے لے کیوں کہ انہوں نے میری رسالت کو جھٹلایا ہے تو ہم نے انکے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) حکم بھیجا کہ تم کشتی تیار کرلو ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے پس جس وقت ہمارے عذاب کا وقت قریب آپہنچے اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہو یا یہ کہ صبح کا کنارا نکل جائے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک مادہ اس کشتی میں سوار کرلو اور آپ کے متعلقین میں سے جو آپ پر ایمان لائے ان کو بھی سوار کرلو سوائے ان کے جن پر عذاب نازل ہونے کا حکم ہوچکا اور یہ سن لو کہ مجھے اپنی قوم کے کافروں کی نجات کے بارے میں کوئی درخواست مت کرنا وہ سب غرق کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. “Help me because they have denied me”: Take Thy vengeance on these people for they have denied me. (Verse 10 of Surah Al-Qamar) says: Then cried Noah to his Lord, I am overcome, so take Thy vengeance on these people, and (verses 26-27 of Noah) say: And Noah said, O my Lord, do not leave of these disbelievers any dweller upon the earth, for if Thou sparest them, they will mislead Thy servants and will beget none but sinners and disbelievers.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:26) بما۔ اس میں ب سببیہ ہے اور ما مصدریہ ای بسبب تکذیبہم ایای ان کے مجھے جھٹلانے کی وجہ سے۔ کذبون۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ اصل میں کذبونی تھا۔ انہوں نے مجھے جھٹلایا ۔ انہوں نے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے میری تکذیب کی۔ تکذیب (تفعیل) مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ جمہور مفسرین (رح) کے نزدیک یہی آگ کا تنور مراد ہے اور بعض نے مطلق وجہ ارض مراد لیا ہے۔ (ہود :40) 3 ۔ یعنی اپنے گھروالوں کو بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب یقین ہوگیا کہ اس کی قوم نے اسے کلیتاً جھٹلا دیا ہے تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد طلب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے سمجھنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور پتھر مار مار کر جان سے ختم کرنے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا کہ اگر تو واقعی اللہ کا پیغمبر ہے تو ہمیں عذاب سے تباہ و برباد کر دے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ کہہ کر مدد طلب کی کہ اے میرے رب میں مغلوب ہوچکا ہوں تو میری مدد فرما۔ اس صورت حال میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی اے نوح (علیہ السلام) آپ کی قوم میں سے جس نے ایمان لانا تھا وہ لا چکا اب تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ لہٰذا اب ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور پھٹ پڑے تو ہر چیز کا جوڑا جوڑا کشتی پر سوار کرو۔ اس میں ان لوگوں کو سوار کرنا ہے جو اس سے پہلے ایمان لاچکے ہیں جن لوگوں نے عقیدہ توحید کا انکار اور آپ کی نافرمانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے درخواست نہ کرنا کیونکہ وہ غرق ہو کر رہیں گے۔ نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلا دیا گیا کہ تیری بیوی بھی غرق ہونے والوں میں شامل ہوگی چناچہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وحی کے مطابق ٹھیک ٹھیک اسی طرح کشتی تیار کی جس طرح انہیں کشتی بنانے کا حکم ہوا تھا۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو بارش کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بارے میں بتلا یا گیا ہے کہ جگہ جگہ زمین پھٹ پڑی اور آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ اب نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہوجائیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو کشتی بنائی تھی اس کا طول (٢٠٠) ہاتھ، عرض (٥٠) ہاتھ، بلندی (٣٠) ہاتھ تھی اور اس میں تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کشتی تیار کی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ہر جاندار کا جوڑا جوڑا سوار کیا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ظالموں کے حق میں سفارش کرنے سے روک دیا گیا۔ ٤۔ طوفان کا آغاز تنور سے ہوا۔ ٥۔ کشتی پر سواری کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن طوفان نوح (علیہ السلام) کی کیفیت : ١۔ ہم نے کہا جب ہمارا حکم آجائے اور تندور ابلنا شروع ہوجائے تو کشتی میں ہر جانور کا جوڑا جوڑا بٹھالینا اور انہیں بھی سوار کرلینا جو ایمان لائے ہیں۔ (ہود : ٤٠) ٢۔ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لیے پھرتی تھی۔ (ہود : ٤٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر زور دار بارش کے دہانے کھول دیے۔ ( القمر : ١١) ٤۔ جگہ، جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ ( القمر : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال کذبون (٢٦) جب زندہ انسان اس طرح پتھروں کی طرح جمود اختیار کرلیں۔ زندگی آگے بڑھنا رک جائے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ترقی و کمال کے جو مدارج مقرر کر رکھے ہیں۔ انسان اس کی طرف برھنا چھوڑ دیں تو ایسے انسان انسانی ترقی کی راہ میں روڑہ بن جاتے ہیں۔ اب دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو زندگی کو اس جگہ پر جامد چھوڑ دیا جائے اور یا پھر انکو پاش پاش کردیا جائے جس نے زندگی کی گا ڑی کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں یہی فیصلہ ہوا کہ اسے انسانیت کی راہ سے برطرف کردیا جائے۔ کیونکہ حضرت نوح السلام کا دور آغاز انسانیت کا دور ہے ۔ اس لیے اللہ نے انسانیت کی راہ میں اس بھاری پتھر کو ایک طرف پھینک دیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ الخ “ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے مگر قوم ضد وعناد سے اپنے مشرکانہ عقائد و اعمال پر جمی رہی تو ان کے راہ راست پر آنے سے مایوس ہو کر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ میر متواتر تبلیغ و دعوت پر ان کے مسلسل انکار و جحود کی وجہ سے اب انہیں ہلاک کردے اور میری تکذیب کا ان سے انتقام لے۔ ای اھلکھم بسبب تکذیبھم ایای (کبیر ج 6 ص 281) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کی اے میرے پروردگار ! چونکہ یہ لوگ میری تکذیب کرتے ہیں اور انہوں نے مجھ کو جھٹلایا ہے اس لئے آپ میری مدد کیجئے۔ یعنی ان کے مقابلے میں طاقت مجھ میں نہیں ہے یہ سب ایک طرف اور میں تنہا انہوں نے میری تکذیب کی ہے لہٰذا تو میری مدد فرما۔