Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 3

سورة المؤمنون

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾

And they who turn away from ill speech

جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who turn away from Al-Laghw. refers to falsehood, which includes Shirk and sin, and any words or deeds that are of no benefit. As Allah says: وَإِذَا مَرُّواْ بِاللَّغْوِ مَرُّواْ كِراماً And if they pass by Al-Laghw, they pass by it with dignity. (25:72) Qatadah said: "By Allah, there came to them from Allah that which kept them away from that (evil)." وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انھیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] لغو سے مراد فضول اور بیکار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لئے یا جسمانی کسرت کے طور پر کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصلہوتا ہو۔ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی، نیزہ بازی، تیراندازی، اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بیہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جیسے فضل گپیں، غیبت، بکواس، تمسخر، فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے۔ بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی پر وہاں سے وہ اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور وہاں رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن :” لغو “ ہر وہ بات یا کام جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اس میں شرک اور ہر گناہ، بلکہ ہر بےفائدہ اور بےمقصد قول و فعل آجاتا ہے۔ یعنی کوئی لغو بات یا کام خود کرنا تو دور کی بات ہے، وہ کوئی لغو کام ہوتا ہوا دیکھتے یا سنتے بھی نہیں، بلکہ ان کی عادت ہی لغو سے منہ موڑے رکھنا ہے۔ ” یُعْرِضُوْنَ “ کے بجائے ” مُعْرِضُوْن “ (اسم فاعل) کا مطلب ہے کہ لغو سے اعراض ان کی عادت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیْہِ ) [ ترمذي، الزھد، باب حدیث من حسن إسلام المرء ۔۔ : ٢٣١٧، عن أبي ہریرہ (رض) ]” آدمی کے اسلام کے حسن میں سے اس کا ان چیزوں کو چھوڑ دینا ہے جو اس کے مقصد کی نہیں ہیں۔ “ عباد الرحمان کی صفت بیان فرمائی : (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) [ الفرقان : ٧٢ ] ” اور جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔ “ جنت کی ایک خوبی یہ ہوگی : (لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا ) [ الواقعۃ : ٢٥ ] ” وہ اس میں نہ بےہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۝ ٣ۙ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : 407- عن اللّغا ورفث التّكلّم «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : 408- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (والذین ھم عن اللغومعرضون اور لغوب بات سے دور رہتے ہیں) لغو بےفائدہ کام کو کہتے ہیں جس فعل اور قول کی یہ صفت ہو وہ ممنوع ہے ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ لغو باطل کو کہتے ہیں جس قومل کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ باطل کے ذریعے کبھی فوری طور پر حاصل ہونے والے فوائد کی تلاش ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٧) اور جو بیہودہ باتوں اور جھوٹی قسموں سے کنارہ کشی کرنے والے ہیں اور جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرم گاہوں کو حرام شہوت رانی سے پاک رکھنے والے ہیں لیکن اپنی چاروں بیویوں سے یا اپنی شرعی لونڈیوں سے کیوں کہ ان پر اس حلال طریقہ میں کوئی الزام نہیں، البتہ جو حلال راستہ کے علاوہ اور مقام پر شہوت رانی کا طلب گار ہو تو ایسے حلال اور پاکیزہ طریقہ سے حرام اور گندے راستہ کی طرف بڑھنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ) ” یعنی ان کا دوسرا وصف ہے بےکار باتوں سے احتراز کرنا ‘ بچنا ‘ دامن بچائے رکھنا۔ لغو سے مراد گناہ یا معصیت کا کام نہیں ‘ بلکہ ہر ایسا عمل یا کام ہے جو بےفائدہ اور فضول ہو۔ جیسے لوگ محفل جما کر تاش کھیلتے ہیں اور وقت کو ایسے ضائع کرتے ہیں جیسے یہ کوئی بوجھ (liability) ہو اور اسے سر سے اتار پھینکنا ناگزیز ہو۔ انہیں احساس نہیں ہو تاکہ یہ وقت ہی تو انسان کا سب سے بڑا سرمایہ (asset) ہے۔ اس وقت سے فائدہ اٹھا کر ہی انسان اپنی عاقبت کو سنوار سکتا ہے اور جو اس وقت کو فضول میں ضائع کرتا ہے وہ گویا اپنی عاقبت کو ضائع کرتا ہے۔ اس آیت میں مؤمنین صادقین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ مہلت زندگی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ انہیں زندگی میں ایک ایک لمحے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ صرف ایک دفعہ ” سبحان اللہ “ کہنے سے اللہ کے ہاں ان کے درجات کس قدر بلند ہوجاتے ہیں۔ چناچہ وہ اپنا وقت فضول اور بےمقصد مصروفیات میں ضائع نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور اسے اپنی شخصیت کی تعمیر اور آخرت کے اجر وثواب کے حصول کے لیے صرف کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. Literally, laghv is anything nonsensical, meaningless and vain, which is in no way conducive to achieving one’s goal and purpose in life. The believers pay no heed to such useless things and they show no inclination or interest for them. If by chance they see such things being indulged in, they keep away and avoid them scrupulously, or treat them with utmost indifference. This attitude has been described in (Surah Al-Furqan, Ayat 72), thus: If they have to pass by what is vain, they pass by like dignified people. This is indeed one of the outstanding characteristics of the believer. He is a person who feels the burden of responsibility at all times. He regards the world as a place of test, and the life as the limited time allowed for the test. This feeling makes him behave seriously and responsibly throughout life just like the student who is taking an exam with his whole mind and body and soul absorbed in it. Just as the student knows and feels that each moment of the limited time at his disposal is important and decisive for his future life, and is not inclined to waste it, so the believer also spends each moment of his life on works which are useful and productive in their ultimate results. So much so that even in matters of recreation and sport, he makes a choice of only those things which prepare him for higher ends in life and do not result in mere wastage of time. For him time is not something to be killed but used profitably and productively. Besides this, the believer is a person who possesses a right thinking mind, pure nature and fine taste. He has no inclination to indecent things. He can talk useful and healthy things but cannot indulge in idle talk. He has a fine taste of humor, but is not given to jesting, joking, ridicule, etc. nor can he endure dirty jokes and fun. For him a society in which the ears are never immune from abusive language, back-biting, slander; lying, dirty songs and indecent talk is a source of torture and agony. A characteristic of the promised Paradise is: Therein you will not hear anything vain or useless.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :4 لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول ، لایعنی اور لا حاصل ہو ۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو ، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو ، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو ، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو ، وہ سب لغویات ہیں ۔ معرضون کا ترجمہ ہم نے دور رہتے ہیں کیا ہے ۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی ۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے ۔ ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں ، ان میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں ، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں ، کترا کر نکل جاتے ہیں ، یا بہ درجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں ۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ: وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً O ( الفرقان ۔ آیت 72 ) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں ، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں ۔ یہ چیز ، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے ، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے ۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تلی مدت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے ۔ یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو ۔ جس طرح اس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں ، اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کو کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو ان ہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں ۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اسے تیار کرنے والی ہوں ۔ اس کے نزدیک وقت کاٹنے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے ۔ علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع ، پاکیزہ مزاج ، خود ذوق انسان ہوتا ہے ۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا ۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے ، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا ۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے ، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا ، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا ، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا ۔ اس کے لیے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالوں سے ، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے ، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں ۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیہ ، وہاں تو گوئی لغو بات نہ سنے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:3) معرضون۔ اسم فاعل جمع مذکر اعراض کرنے والے۔ روگردانی کرنے والے۔ اجتناب کرنے والے اعراض (افعال) مصدر

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ ” لغو “ (نکمی بات) سے مراد باطل یعنی ہر فضول اور لایعنی قول یا فعل ہے۔ شرک اور گناہ کے تمام کام بھی اس کی تعریف میں آتے ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(2) ان آیات میں اہل ایمان کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے دور رہتے ہیں۔ دراصل لغو ‘ فضول ‘ بیکار اور لا حاصل کاموں میں پڑ کر آدمی اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع اور برباد کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ یہ ارشاد فرمایا کہ ” اہل ایمان جب کسی ایسی جگہ سے گذرتے ہیں جہاں لغو اور فضول باتیں ہورہی ہیں تو وہ وہاں سے مہذب طریقے پر پہلو بچا جاتے ہیں۔ یعنی وہ فضول باتوں کی ہمت افزائی نہیں کرتے اور وہ لوگ جو اس بےہودہ مشغلے میں لگے رہتے ہیں ان پر یہ ظاہر کردیتے ہیں کہ انہیں ایسی لغو اور گناہ کی باتوں سے کئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ نے اہل ایمان سے جس جنت کا وعدہ کیا ہے اس کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ اس جنت میں کوئی لغو اور فضول بات نہ سنیں گے “۔ ان آیات میں نماز میں خشوع و خضوع کا ذکر کرنے کے عبد لغو بات سے پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو لغو اور فضول باتوں سے روکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ بیشک نماز ہر طرح کی بےحیائی اور ہر طرح کے فضول ‘ لغو اور ناجائز کاموں سے روکتی ہے۔ دراصل دکھاوا ‘ نمائش ‘ بےغیرتی ‘ بےحیائی ‘ برے خیالات ‘ گندے جذبات اور گناہوں کے تمام پہلو فضول اور بےہودہ ہیں جو انسان کی زندگی کو گھن اور دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ لیکن نماز اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی جام عبادت ہے جس میں مشغولیت انسانوں کو مذکورہ گناہوں سے ہٹا کر نیکیوں کی راہ پر گامزن کردیتی ہے۔ نماز کا کام ہی یہ ہے کہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفات پیدا کردیتی ہے لیکن اگر کوئی شخص لغو یات ‘ فضول باتوں اور گناہوں سے باز نہیں آتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز ایک رسم ‘ خانہ پری اور عادت سے زیادہ کچھ نہیں ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص نماز کا پابند ہو اور وہ نماز اس کے دل کا نورنہ بن جائے اور اس کو روحانی ترقی و عظمت سے ہم کنار نہ کردے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ لغو کا ادنی درجہ گو مباح ہو مگر ترک اس کا اولی اور موجب مدح ہے، اور معصیت لغو کا اعلی درجہ ہے، اس کا ترک واجب ہے، پس لغو کے معنی ہیں غیر مفید، پھر اس کی دو قسم ہیں مضر وغیر مضر۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نماز بےحیائی سے بچاتی ہے اس لیے نماز کے بعد لغو سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مومنوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ بےہودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز انسان کو برائی اور بےحیائی سے روکتی ہے (العنکبوت : ٤٥) لہٰذا مومن کی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ ناصرف برائی اور بےحیائی سے اجتناب کرے بلکہ اسے لغو باتوں اور کاموں سے بھی بچنا چاہیے۔ دوسرے مقام پر عبادالرحمن کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ بےہودہ باتوں کے قریب نہیں جاتے جب ان کا لغو اور بےہودہ کام کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٢) عربی لغت میں ” لغو “ بےہودہ بات اور کام کو کہتے ہیں۔ کامیاب ہونے والے مومنوں کے اوصاف میں یہ وصف ضرور ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے لغو کام سے اجتناب کرتے ہیں۔ اہل علم نے شطرنج، تاش وغیرہ کے کھیلوں کو بھی لغو شمار کیا ہے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لغو کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لاَ یَعْنِیہِ ) [ رواہ ابن ماجۃ : باب کَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کا بہترین اسلام یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔ “ مسائل ١۔ مومن بےہودہ باتوں اور بےمقصد کاموں سے اجتناب کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لغو اور اس سے بچنے کا حکم : ١۔ مومن لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المؤمنون : ٣) ٢۔ مومن جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور لغو باتوں میں ملّوث نہیں ہوتے۔ (الفرقان : ٧٢) ٣۔ جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں۔ (القصص : ٥٥) ٤۔ جنت میں لغو باتوں اور جھوٹ کا نام ونشان نہیں ہوگا۔ (النباء : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کا دوسرا وصف بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ( وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ) (اور جو لوگ لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں) لغو ہر اس بات اور ہر اس کام کو کہتے ہیں جس کا دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہیں، مومن بندے نہ لغو بات کرتے ہیں نہ لغو کام کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان سے لغو باتیں کرنے لگے یا کچھ لوگ لغو کاموں میں لگے ہوں تو یہ حضرات اعراض کر کے کنارہ ہو کر گزر جاتے ہیں۔ جیسا کہ سورة قصص میں فرمایا ہے (وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ ) (اور جب لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ ہوجاتے ہیں) اور سورة فرقان میں فرمایا (وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّورَ وَاِِذَا مَرُّوا باللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا) (اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب لغو بات پر گزرتے ہیں تو کریموں کے طریقہ پر گزر جاتے ہیں) ۔ غور کرلیا جائے کہ جب لغو بات اور لغو کام (جس میں نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے) سے بچنے کی اتنی اہمیت ہے تو گناہوں سے بچنے کی کتنی اہمیت ہوگی ؟ لغو بات لغو کام میں اگرچہ گناہ نہ ہو لیکن اس سے دل کی نورانیت جاتی رہتی ہے اعمال صالحہ کا ذوق نہیں رہتا زبان کو لغو باتوں کی عادت ہوتی ہے پھر یہ لغو باتیں گناہوں میں مشغولیت کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں اور لغو بات اور لغو کام کا کیا یہ نقصان کم ہے کہ جتنے وقت لغو بات یا کوئی لغو کام کیا اتنی دیر میں قرآن مجید کی تلاوت یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تو بہت بڑی دولت سے مالا مال ہوجاتے، لغو باتوں سے بہت بڑی دولت کو گنوا دیا۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی تو ایک شخص نے کہا کہ اس کے لیے جنت کی خوشخبری ہے اس کی بات سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اسے جنت کی خوشخبری دے رہے ہو ہوسکتا ہے کہ اس نے کوئی لایعنی بات کی ہو یا کسی ایسی چیز کے خرچ کرنے میں بخل کیا جو خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٣) (جیسے علم سکھانا تھوڑا سا نمک دیدینا کھانا پکانے کے لیے کسی کو آگ یا ماچس کی تیلی دیدینا وغیرہ وغیرہ) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیْہِ (انسان کے اسلام کی خوبی میں سے ایک یہ بات ہے کہ جو چیز اس کے کام کی نہ ہوا سے چھوڑ دے) حضرت لقمان سے کسی نے کہا کہ آپ کو جو یہ فضیلت حاصل ہوئی ہے کیسے حاصل ہوئی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سچی بات کہنے سے امانت ادا کرنے سے اور لایعنی کے چھوڑنے سے مجھے یہ مرتبہ ملا۔ (موطاء مالک)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ الخ “ یہ امر دوم ہے یعنی وہ شرک نہیں کرتے لغو کو بعض مفسرین نے عام کیا ہے اور اس سے ہر باطل قول اور عمل مراد لیا ہے اقوال میں سب سے بڑا باطل شرک فی التصرف ہے اور اعمال میں سب سے بڑا باطل شرک فعلی ہے اس طرح یہ لفظ شرک اعتقادی اور شرک فعلی کو بطریق اولیٰ شامل ہے حضرت عبداللہ بن عباس اور امام ضحاک نے تو لغو سے مراد ہی شرک لیا اور بعض نے اس سے گانا بجانا مراد لیا ہے۔ قال ابن عباس عن الشرک (خازن و معالم ج 5 ص 32) ۔ وقال الضحاک ان اللغو ھنا الشرک و قال الحسن انہ المعاصی لھا فھذا قول جامع یدخل فیہ قول من قال ھو الشرک و قول من قال ھو الغناء (قرطبی ج 12 ص 105) ۔ حاصل یہ ہے کہ وہ تمام معاصی سے اور خصوصاً ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرتے ہیں

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور جو بیکار اور لایعنی باتوں سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں یعنی لغو کام خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی ان کی طرف دھیان ہی نہیں کرتے۔