Surat ul Mominoon
Surah: 23
Verse: 31
سورة المؤمنون
ثُمَّ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ ﴿ۚ۳۱﴾
Then We produced after them a generation of others.
ان کے بعد ہم نے اور بھی امت پیدا کی ۔
ثُمَّ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ ﴿ۚ۳۱﴾
Then We produced after them a generation of others.
ان کے بعد ہم نے اور بھی امت پیدا کی ۔
The Story of `Ad or Thamud Allah tells: ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا اخَرِينَ فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولاًأ مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَأ تَتَّقُونَ
عادوثمود کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی امتیں آئیں جیسے عاد جو ان کے بعد آئی یا ثمود قوم جن پر چیخ کا عذاب آیا تھا ۔ جیسے کہ اس آیت میں ہے ان میں بھی اللہ کے رسول علیہ السلام آئے اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی تعلیم دی ۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا ، مخالفت کی ، اتباع سے انکار کیا ۔ محض اس بناپر کے یہ انسان ہیں ۔ قیامت کو بھی نہ مانا ، جسمانی حشرکے منکر بن گئے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل دور از قیاس ہے ۔ بعثت ونشر ، حشر و قیامت کوئی چیز نہیں ۔ اس شخص نے یہ سب باتیں از خود گھڑلی ہیں ہم ایسی فضول باتوں کے مانے والے نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ان پر مدد طلب کی ۔ اسی وقت جواب ملاکہ تیری ناموافقت ابھی ابھی ان پر عذاب بن کر برسے گی اور یہ آٹھ آٹھ آنسو روئیں گے ۔ آخر ایک زبردست چیخ اور بےپناہ چنگھاڑ کے ساتھ سب تلف کردئیے گئے اور وہ مستحق بھی اسی کے تھے ۔ تیزوتند آندھی اور پوری طاقتور ہوا کے ساتھ ہی فرشتے کی دل دہلانے والی خوف ناک آواز نے انہیں پارہ پارہ کردیا وہ ہلاک اور تباہ ہوگئے ۔ بھوسہ بن کر اڑگئے ۔ صرف مکانات کے کھنڈر ان گئے گزرے ہوئے لوگوں کی نشاندہی کے لئے رہ گئے وہ کوڑے کرکٹ کی طرح ناچیز محض ہوگئے ۔ ایسے ظالموں کے لئے دوری ہے ۔ ان پر رب نے ظلم نہیں کیا بلکہ انہی کا کیا ہوا تھا جو ان کے سامنے آیا پس اے لوگو! تمہیں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہے ۔
3 1 1اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیونکہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ : اس سے مراد اکثر مفسرین نے قوم عاد لی ہے، کیونکہ قوم نوح کے جانشین یہی لوگ بنے تھے۔ ہود (علیہ السلام) نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : (وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ) [ الأعراف : ٦٩ ] ” اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔ “ مگر بہت سے مفسرین نے اس سے مراد صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود لی ہے، کیونکہ یہاں ” اَلصَّیْحَةً “ (چیخ) کا ذکر ہے اور ” صیحہ “ یعنی چیخ سے ہلاک ہونے والے ثمود تھے۔ اس کے علاوہ اہل عرب کی نصیحت کے لیے قوم ثمود کا تذکرہ زیادہ موزوں تھا، کیونکہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے بنائے ہوئے مکانات مقام حجر میں ان کے سامنے موجود تھے۔ امام طبری، ابن عاشور اور مفسر سعدی وغیرہم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کسی قوم کا نام نہیں لیا، کیونکہ مراد تاریخ کا بیان یا قصہ گوئی نہیں بلکہ عبرت ہے کہ بعد میں آنے والوں نے بھی پہلوں کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہ کیا، آخر اللہ کی گرفت کا نشانہ بنے۔
In the earlier verses the story of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was told who was sent to his people to guide them along the path of righteousness and the following verses contain a brief account of some other prophets without mentioning their names and the people for whose guidance they were sent. From certain references and allusions the commentators have concluded that the verses refer to Sayyidna Hud (علیہ السلام) or Sayyidna Salih (علیہ السلام) who were sent for the guidance of the tribes of &Ad and Thamud respectively. In the present story both these tribes are reported to have perished as a result of صَیحَہ (Cry) from an unseen source, whereas in other verses it has been specifically mentioned that it was the tribe of Thamud which perished from صَیحَہ (Cry) and this had led some scholars to the view that the words قَرناً آخَرِینَ (another generation) refers to Thamud. An alternative explanation is that the word صَیحَہ (Cry) has been used in the general sense of punishment from Allah in which case it would include the tribe of ` Ad also.
خلاصہ تفسیر پھر (قوم نوح کے بعد) ہم نے دوسرا گروہ پیدا کیا (مراد عاد ہے یا ثمود) پھر ہم نے ان میں ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان ہی میں کے تھے (مراد ہود (علیہ السلام) یا صالح علیہ السلام) ہیں، ان پیغمبر نے کہا کہ) تم لوگ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود (حقیقی) نہیں، کیا تم (شرک سے) ڈرتے نہیں ہو، اور (ان پیغمبر کی یہ بات سن کر) ان کی قوم میں سے جو رئیس تھے جنہوں نے (خدا اور رسول کے ساتھ) کفر کیا تھا اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو دنیوی زندگانی میں عیش بھی دیا تھا کہنے لگے کہ بس یہ تو تمہاری طرح ایک (معمولی) آدمی ہیں (چنانچہ) یہ وہی کھاتے ہیں جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتے ہیں جو تم پیتے ہو اور (جب یہ تمہارے ہی جیسے بشر ہیں تو) اگر تم اپنے جیسے ایک (معمولی) آدمی کے کہنے پر چلنے لگو تو بیشک تم (عقل کے) گھاٹے میں ہو (یعنی بڑی بےوقوفی ہے) کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور (مر کر) مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے (چنانچہ جب اجزاء لحمیہ خاک ہوجاتے ہیں تو ہڈیاں بےگوشت رہ جاتی ہیں پھر بعد چندے وہ بھی خاک ہوجاتی ہیں تو یہ شخص کہتا ہے کہ جب اس حالت پر پہنچ جاؤ گے) تو (پھر دوبارہ زندہ کر کے زمین سے) نکالے جاؤ گے (تو بھلا ایسا شخص کہیں قابل اطاعت و اتباع ہوسکتا ہے اور) بہت ہی بعید اور بہت ہی بعید ہے جو بات تم سے کہی جاتی ہے بس زندگی تو یہی ہماری دنیوی زندگی ہے کہ ہم میں کوئی مرتا ہے اور کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم دوبارہ زندہ نہ کئے جاویں گے بس یہ ایک ایسا شخص ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے (کہ اس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور کوئی دوسرا معبود نہیں اور قیامت آوے گی) اور ہم تو ہرگز اس کو سچا نہ سمجھیں گے۔ پیغمبر نے دعا کی کہ اے میرے رب میرا بدلہ لے اس وجہ سے کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا، ارشاد ہوا کہ یہ لوگ عنقریب پشیمان ہوں گے چناچہ ان کو ایک سخت آواز نے (یا سخت عذاب نے) موافق وعدہ برحق کے (کہ لَّيُصْبِحُنَّ نٰدِمِيْنَ ) آپکڑا (جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے) پھر (ہلاک کرنے کے بعد) ہم نے ان کو خس و خاشاک (کی طرح پامال) کردیا سو خدا کی مار کافر لوگوں پر۔ معارف و مسائل اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بسلسلہ ہدایت ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالا بغیر نام متعین کئے ذکر کیا گیا ہے۔ آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد امتوں سے عاد یا ثمود یا دونوں ہیں۔ عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا اور ثمود کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) تھے۔ اس قصہ میں ان قوموں کا ہلاک ہونا ایک صیحہ یعنی غیبی سخت آواز کے ذریعہ بیان فرمایا ہے اور صیحہ کے ذریعہ ہلاک ہونا دوسری آیات میں قوم ثمود کا بیان ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے فرمایا کہ ان آیات میں قَرْنًا اٰخَرِيْنَ سے مراد ثمود ہیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صیحہ کا لفظ اس جگہ مطلق عذاب کے معنے میں لیا گیا ہو تو پھر یہ قوم عاد کے ساتھ بھی لگ سکتا ہے۔ واللہ اعلم
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ ٣١ۚ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں
(٣١۔ ٣٢) پھر ہم نے قوم نوح (علیہ السلام) کی ہلاکت کے بعد دوسرا گروہ پیدا کیا اور ان کی طرف ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان ہی میں سے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرلو اور جس خدائے وحدہ لا شریک پر میں تمہیں کو ایمان لانے کے لیے کہتا ہوں اس کے علاوہ اور کوئی اللہ نہیں کیا تم پھر غیر اللہ کی عبادت سے ڈرتے نہیں ہو۔
آیت ٣١ (ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ ) ” اس سے مراد قوم عاد یا قوم ثمود ہے۔
34. The people of Aad, who were raised to power after the people of Noah. Refer to (Surah Al-Aaraf, Ayat 69).
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :34 بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے ، کیونکہ آگے چل کر ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صیحہ کے عذاب سے تباہ کی گئی ، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود وہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا ، ( ہود ، 67 ۔ الحجر ، 83 ۔ القمر ، 31 ) ۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے قوم نوح کے بعد یہی قوم اٹھائی گئی تھی ، وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ( اعراف ۔ آیت 69 ) ۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ قوم نوح کے بعد کا اشارہ اسی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ رہا صَیْحَہ ( چیخ ، آواز ، شور ، ہنگامہ عظیم ) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اس آوازہ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کی موجب ہو ، اسی طرح اس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سبب ہلاکت کچھ ہی ہو ۔
٣١۔ ٤١:۔ پچھلی امتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں فرمایا ہے اس سے اور صحیح حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیشہ سے انبیاء کے فرمانبردار اکثر غریب لوگ ہوتے رہے ہیں اور مالدار لوگوں کو اپنے مال ومتاع اور اپنی سرداری کا ایک طرح کا غرور ہو کر وہی انبیاء سے جھگڑے کرتے رہے ہیں ہمیشہ سے یہ طریقہ جاری رہتے رہتے ایسا عام ہوگیا تھا کہ لوگ رسول وقت کے سچے نبی ہونے کی دلیل اس بات کو قرار دینے لگے تھے کہ اللہ کے رسول کو اور ان کے فرمانبرداروں کو تنگ دست نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ ایک غلط بات مشہور ہوگئی تھی ‘ کیونکہ صحیح بخاری میں ابوسفیان (رض) والی حدیث ١ ؎ جو ہے ‘ اس میں ہرقل نے جہاں اور نشانیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابوسفیان (رض) سے پوچھی تھیں وہاں یہ بات بھی پوچھتی تھی کہ ان نبی کے دین میں غریب لوگ زیادہ آتے ہیں یا مالدار لوگ ‘ جب ابوسفیان (رض) نے کہا کہ ان نبی کے پیرو اکثر غریب لوگ ہیں تو ہرقل نے کہا کہ ہمیشہ سے غریب لوگ ہی انبیاء کے فرمانبردار ہوتے آئے ہیں ‘ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ انبیاء کے فرمانبردار قدیم سے غریب لوگ ہوتے آئے ہیں ‘ قریش کے مالداروں کا بھی یہی جھگڑا کئی جگہ قرآن میں آیا ہے کہ غریب مسلمان لوگوں کا نام دھرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ ہم کو ان کنگال لوگوں کے ساتھ بھیٹھنے سے شرم آتی ہے کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے ہماری ہتک ہے ‘ اگر ہمارے لیے علیحدہ مجلس مقرر کردی جاوے تو ہم تمہاری نصیحت کی باتیں الگ آن کر سنیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے غریب دین دار بندے زیادہ پیارے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان مالدار مغروروں کی خواہش کے پورا کرنے سے منع فرمایا چناچہ سورة انعام میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اکثر مالدار لوگ دنیا میں آلودہ ہوجاتے ہیں اور دین سے ان کو ذرا غفلت اور بےپرواہی ہوجاتی ہے اس لیے ہمیشہ سے رسولوں کی فرمانبرداری کرنے میں جس طرح مالدار لوگ رسولوں کے وقت میں جھگڑے کرتے رہے ‘ اسی طرح فرما نبرداری اختیار کرنے کے بعد بھی امت کے مالدار لوگوں کی طرف سے دین پر قائم نہ رہنے کا کھٹکا رسولوں کو لگا رہتا تھا چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں ابو سعید خدری کی روایت ١ ؎ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خوف مجھ کو اس بات کا ہے کہ میرے بعد میری امت کو فراغت ہو اور اس سے ان کے دین میں فتور پڑجائے ‘ آپ نے معجزہ کے طور پر جو کچھ فرمایا تھا ‘ خلافت بنی امیہ اور عباسیہ کے عہد میں وہی ہوا کہ مسلمانوں میں آپس کی خونریزیاں اور طرح طرح کے فتور پڑگئے ‘ اللہ تعالیٰ جس شخص کو دنیا کی فراغت دیوے اسے چاہیے کہ دنیا میں ایسا نہ پھنسے جس سے دین میں فتور پڑجاوے ‘ دنیا کے اس طرح کے پھنساوے سے بچنے کی غرض سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کو نئے نئے ڈھنگ سے حرص دنیا میں نہ پھنسنے اور تنگ دستی سے نہ اکتانے کی نصیحت فرماتے رہتے تھے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں سہل بن سعد سے جو روایت ٢ ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو سے ایک مالدار شخص گزرا اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے مجلس کے موجودہ لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے نزدیک دنیا میں یہ کس رتبہ کا شخص ہے لوگوں نے کہا کہ یہ ایسا عزت دار مالدار شخص ہے کہ جہاں یہ شادی کرنی چاہے وہاں اس کی شادی ہوسکتی ہے ‘ جو سفارش کرے وہ سفارش اس کی قبول ہوسکتی ہے ‘ پھر ایک تنگ دست مسلمان تھوڑی دیر کے بعد آپ کے روبرو سے گزرا ‘ اسی طرح آپ نے ان لوگوں سے پوچھا ‘ لوگوں نے کہا یہ ایک تنگدست شخص ہے نہ اس کو کسی کی بیٹی مل سکتی ہے نہ اس کی سفارش کوئی سنتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پہلے شخص سے یہ دوسرا شخص ہزار درجہ بہتر ہے ‘ اس قصہ میں اور اس سے اوپر کے قصہ میں قوم کے مالدار ‘ سردار لوگوں کی سرکشی اور شرارت کا جو ذکر ہے اوپر کی روایتوں سے اس کا یہ سبب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ مالدار سردار لوگ اپنی مالداری اور سرداری کے غرور میں ہمیشہ سے قوم کے لوگوں کو مخالفت سکھاتے رہے اسی واسطے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غریب شخص کو مالدار شخص سے ہزار درجہ بہتر فرمایا ‘ یہاں پچھلے قصوں کو مختصر طور پر بیان فرمایا ہے اس لیے سورة الاعراف اور سورة ہود کی طرح یہاں سلسلہ وار قوم نوح کے بعد قوم عاد کا قصہ نہیں ہے بلکہ قوم نوح کے بعد یہ قوم ثمود کا قصہ ہے جن کی ہلاکت چنگھاڑ کے صدمہ سے ہوئی ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قوم نوح اور قوم عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو پیدا کر کے ان کی ہدایت کے لیے صالح (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وہی نصیحت کی ‘ جو نصیحت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کی تھی ‘ صالح (علیہ السلام) کی نصیحت سن کر قوم کے مالدار سردار منکر شریعت لوگوں سے کہا کہ صالح ہم تم جیسے آدمی ہیں ‘ اور کھاتے پیتے ہیں ‘ ان کا وہی حال ہے جو ہمارا تمہارا ہے ‘ اپنی قدیمی سرداری چھوڑ کر ان کو سردار بنانا بڑے گھاٹے کی بات ہے مرنے کے بعد دوبارہ جینے اور نیک وبد کی جزا و سزا کا جو ڈراوا صالح دیتے ہیں یہ ایک سمجھ سے باہر بات ہے ‘ دنیا تو یونہی چل رہی ہے کہ بڈھے مرتے ہیں اور ان کی نسل کے بچے پھر بڈھے ہوجاتے ہیں کون سا مرا ہوا بڈھا دوبارہ زندہ ہوا ہے جو ہم دوبارہ زندہ ہوں گے یہ دوبارہ زندہ ہونے کی سمجھ سے باہر ایک بات صالح ( علیہ السلام) نے اپنی طرف سے گھڑی ہے زبردستی اور کو اللہ کا حکم ٹھہرا لیا ہے ہم تو صالح کی کوئی بات نہیں مانتے حاصل کلام یہ ہے کہ جب اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی ان لوگوں نے یہ سرکشی کی باتیں نہیں چھوڑیں اور اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا تو صالح (علیہ السلام) نے مدد غیبی کی دعا اور ان کی دعا قبول ہو کر یہ جواب ملا کہ اب تھوڑے دنوں میں ان لوگوں کے پچھتانے کا وقت آتا ہے پھر اس وعدہ کا ظہور یہ ہوا کہ اونٹنی کی ہلاکت کے تین روز کے بعد ایک سخت چنگھاڑ کے صدمہ سے یہ لوگ ہلاک ہوگئے ‘ عشاء اس کوڑے کرکٹ کو کہتے کہیں جو پانی کے ریلے میں بہہ کر کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ پانی کے ریلے میں کوڑے کرکٹ کی طرف یہ لوگ بالکل بےپتہ ہوگئے ‘ آخر کو فرمایا ‘ اس طرح کے ظالم لوگ اللہ کی رحمت سے ایسے ہی دور پڑجاتے ہیں قوم ثمود کو ظالم فرمانے کا بھی وہی مطلب ہے جو قوم نوح کے قصہ میں صحیح مسلم کی ابوذر (رض) کی روایت سے اوپر بیان کیا گیا۔ (١ ؎ صحیح بخاری ‘ باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ ‘ کتاب الرقاق ص ٤٣٩ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٤٦۔ باب فضل الفقراء وما کان من عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
(23:31) انشانا۔ ماضی جمع متکلم انشاء (افتعال) مصدر۔ ہم نے پیدا کیا۔ ہم نے پرورش کی۔ ن ش ء مادہ۔ قرنا واحد قرون۔ جمع قوم (ایسی قوم جو ایک زمانے میں ہو) ۔ قرنا اخرین۔ ایک دوسری قوم ۔ ایک دوسری جماعت (قوم عادیا ثمود مراد ہے) ۔
8 ۔ اکثر مفسرین نے اس سے مراد قوم عادلی ہے جیسا کہ سورة اعراف میں ہے کہ حضرت ہود ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : واذکروا اذجعلکم خلفاء من بعد قوم نوح۔ یاد کرو، جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح ( علیہ السلام) کے بعد زمین میں بسنے والے بنایا۔ (آیت :69) اور علما نے لکھا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس قوم پر ریح اور صبیحۃ دونوں قسم کے عذاب آئے۔ (ابن کثیر) بعض نے اس سے مراد قوم ثمود، اور بعض نے قوم شعیب لی ہے۔ کیونکہ آگے ذکر آرہا ہے کہ یہ قوم ” صیحۃ “ (چنگھاڑ) سے تباہ ہوئی اور ثمود اور قوم شعیب ( علیہ السلام) وہ قومیں ہیں جن کے متعلق دوسرے مقامات پر بتایا گیا کہ ان کی ہلاکت چنگھاڑ سے ہوئی۔ دیکھئے ہود آیت :67، 94 ۔ (قرطبی)
فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح کی بربادی کے بعد دوسری قوم کا تذکرہ اور کردار :۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو غرقاب کرنے کے بعدبچنے والے لوگوں کو بڑی افزائش سے سرفراز فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک دفعہ پھر طوفان نوح کے علاقہ میں آبادی کی کثرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک رسول بھیجا جس نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت حضرت نوح (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ اس پیغمبر نے لوگوں کو باربار یہ بات سمجھائی کہ اے لوگو ! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ؟ لیکن قوم نے اللہ تعالیٰ کو صرف ایک الٰہ ماننے سے انکار کیا۔ وقت کے پیغمبر نے انہیں بہت سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے باز آؤ اور صرف ایک اللہ کی کی عبادت کرو مگر قوم نے اپنے رسول کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پہلی آیت میں ” قَرْنَ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنٰی لیے گئے ہیں 1 سو سال کا عرصہ 2 ایک نسل 3 کسی قوم کا ایک پورا دور۔ یہاں رسول کا نام نہیں بتلایا گیا لیکن مفسرین کا اندازہ ہے کہ اس سے مراد حضرت ھود (علیہ السلام) ہیں۔ عقیدۂ توحید اور عبادت کی اہمیّت : (عَنْ مُعَاذٍ قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ ] ” حضرت معاذ فرماتے ہیں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی لکڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں ؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی (فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے بدکاری کرے۔ “ مسائل ١۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے کی تلقین کی۔ ٢۔ قوم ھودنے اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے سے انکار کردیا۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ : ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٢٥۔ ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣)
ثم انشانا ۔۔۔۔ للقوم الطلمین (آیات نمبر 31 تا 41) اس سورة میں قصص نہ محض قصہ گوئی کے لیے لائے گئے ہیں اور نہ ان کی تفصیلات دی گئی ہیں ، بلکہ یہاں مقصد یہ بتا تا ہے کہ تمام پغمبروں نے ایک ہی دعوت پیش کی اور تمام رسولون کی اقوام نے ان کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بات کی ابتداء حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے سے کی گئی اور انجام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر ہوا۔ جبکہ خطاب رسول آخر زمان کو تھا۔ رسولوں کے طویل سلسلے کے نام یہاں نہیں دیئے گئے کیونکہ تمام رسولوں کا معاملہ دراصل ایک ہی جیسا تھا ، مقصد یہ تھا کہ ان کا کلمہ ایک ہی تھا ، ان کی دعوت ایک تھی اور اس کے ساتھ عوام کا سلوک بھی ایک ہی تھا ، یہی تھا اس سورة کا مقصد۔ ثم انشانا من بعدھم قرنا اخرین (٢٣ : ٣١) ” اس کے بعد ہم نے دوسرے دور کی قوم اٹھائی “۔ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ کہ قوم کون تھی۔ راجح قول یہ ہے کہ یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم تھی۔ فارسلنا تتقون (٢٣ : ٣٢) ” پھر ان میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا ( جس نے انہیں دعوت دی ) کہ صرف اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “ یہ بھی وہی دعوت ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے پیش کی تھی اور الفاظ بھی ایک ہی ہیں۔ حلان کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان اور تھی اور زیر بحث رسول کی زبان اور تھی کیونکہ ان دونوں رسولون کے درمیان ــ” قروم “ کا فرق تھا۔ اس قوم کا جواب کیا تھا ؟ وہی جواب یعنی انکار و قال الملا من قومه الذين کفروا و کذبوا بلقاء الاخرة و اترفنهم في الحيوة الدنيا ما هذا الا بشر مثلکم ياکل مما تاکلون منه و يشرب مما تشربون (٢٣ ؛ ٣٣) ولئن لخسرون (٢٣ : ٣٤) اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا ، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا وہ کہنے لگے ــ” یہ شخص کچھ نہیں ہے ، مگر ایک بشر تم ہی جیسا ، جو کچھ تم کھاتے ہو ، یہی وہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو ، وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کرلی تو تم گھاٹے ہی میں رہے “۔ یہ وہی اعتراض ہے جو تمام امتوں نے پیش کیا کہ یہ رسول تو تم جیسا بشر ہے۔ یہ اعتراض اس لیے پیدا ہوا کہ کسی بھی معاشرے کے کھانے پیتے لوگوں کا تعلق خدا سے نہیں رہتا ، اس لیے وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک انسان کا تعلق خدا سے کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ معاشی خوشحالی انسان کی فطرت کو بگاڑ دیتی ہے دماغ موٹا کردیتی ہے۔ دل کے دروازے بند کردیتی ہے ۔ اور عیاش لوگوں کے دل پتھر بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر احساس نہیں رہتا۔ اس لیے وہ کسی بات سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ مان کردیتے ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ خوشحال لوگ ہمیشہ تحریک اسلامی کی مخالفت کرتے ہیں اور اس لیے اسلام عیاشی کی مخالفت کرتا ہے اور اپنا اجتماعی نظام اس طرح تشکیل دیتا ہے جس میں مترفین کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی ، کیونکہ یہ لوگ معاشرے کی سراند ہورتے ہیں ، پورے ماحول کو متفعن کردیتے ہیں اور معاشرے کو اس قدر گندا کردیتے ہیں کہ اس کے اندر گندے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسے معاشرے کو بالاخر یہ گندے کیڑے چاٹ جاتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ بعث بعد الموت کے قائل نہیں تھے وہ کہتے تھے کہ موت کے بعد اور مٹی ہوجانے کے بعد انسانوں کو کس طرح اٹھایا جائے گا۔ یہ تو بعید از امکان ہے اور جس بات کی اطلاع یہ رسول دے رہا ہے ، یہ عجیب ہے۔ ابعد مخرجون (٢٣ : ٣٥) ھیات توعدون (٢٣ : ٣٦) ان ھی بمبعوثین (٢٣ : ٣٧) ” یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مرکر مٹی ہو جائو گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائو گے اس وقت تم (قبروں سے) نکالے جائو گے ؟ بعید ، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جارہا ہے ، زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہر گز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھوٹ گھڑرہا ہے اور ہم کبھی اس کے ماننے وانے نہیں ہیں “۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم سوچ رکھنے والے لوگ آخرت کی زندگی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ زندگی کے گہرے حقائق پر نہ ہو انہوں نے غور کیا ہے اور نہ اس کے پچیدہ نظام کی کوشش کی ہے اور نہ یہ لوگ ایک اعلیٰ اور ارفع زندگی کی ترجیحات کو سمجھتے ہیں ۔ زندگی کے یہ اعلیٰ مقاصد ہے کہ اس دنیا میں پورے نہیں ہوسکتے۔ اس دنیا میں نہ بھلائی کو اس پوری جزا ملتی ہے اور نہ شر کو اس کی پور سز املتی ہے ۔ یہ جزا و سزا آخرت میں مکمل طور پر ملیں گی۔ آخرت میں اہل ایمان اعلیٰ ترین معیاری زندگی تک پہنچیں گے جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ تھکاوٹ ہوگی ۔ اسی طرح اہل کفر اور پسمانگی اختیار کرنے والے بھی نہایت ہی ذلیل ترین زندگی تک پہنچیں گے جس میں ان کی انسانیت تباہ ہوگی اور وہ وہاں لکڑیوں کی طرح جلتے اور جلائے جاتے رہیں گے ۔ نہ ان کے لیے اس سزا میں کمی ہوگی اور نہ اہل ایمان کے لیے جزاء میں کمی ہوگی ۔ اس قسم کے مترفین ان اعلیٰ مقاصد اور ایسے گہرے معانی کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ تعجب ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس موجودہ زندگی کے مختلف ادوار اور مراحل پر غور نہیں کرتے جو ابھی ابھی اسی سورة میں ان کے سامنے رکھے گئے ہیں ۔ یہ اس عجیب و غریب خود کار نظام تخلیق سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے۔ اسی نظام جیسے ایک خود کار نظام کے ذریعے اللہ مٹی اور ہڈیوں کے پنجر کو پھر زندہ کردے گا۔ اس لیے ان کو اس رسول کی اس اطلاع پر تعجب ہوتا ہے کہ ان کو قبروں سے نکا لا جائے گا۔ اب وہ نہایت ہی کبرو غرور سے اپنی حکمت و دانائی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہی زندگی اور یہی موت ہے۔ ایک نسل مرتی ہے اور دوسری نسل زندہ رہتی ہے ۔ جو مر گئے اور مٹی بن گئے اور ہڈیاں رہ گئے تو یہ بات بعید از امکان ہے وہ دوبارہ واپس ہوجائیں گے۔ یہ اطلاع جو یہ رسول دے رہا یہ اور ہم سے دوبارہ اٹھائے جانے کا وعدہ کر رہا ہے بعید از امکان ہے۔ یہ لوگ اپنی اس جہالت پر ہی نیں رکتے کہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے رسول پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ رسول اپنی جانب سے اللہ پر افتراء باندھتا ہے حالانکہ وہ اللہ کو جانتے ہی نہیں ۔ وہ صرف اس وقت اللہ کا نام لے رہے ہیں اور یہ نام بھی اس لیے لے رہے ہیں کہ رسول پر الزام لگائیں۔ ان ھو بمومنین (٢٣ : ٣٨) ” یہ شخص خدا کے نام پر جھوٹ گھڑتا رہا ہے اور ہم کبھی اس کی بات ماننے واہے نہیں ہیں “ ایسے حالات میں یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نصرت طلب کرے جس طرح اس سے قبل حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے نصرت طلب کی تھی۔ حضرت نوح کی دعائے نصرت بھی یہی تھی۔ قال رب کذبون (٢٣ : ٣٩) رسول نے کہا پروردگار ان لوگوں نے میری جو تکذیب کی ہے اس پر اب تو میری نصرت فرما “۔ اللہ کی طرف سے دعا قبول ہوتی ہے۔ اس قوم کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی بھلائی باقی نہیں رہی ہے یہ لوگ غفلت ، تکذیب اور عناد میں مبتلا ہیں۔ قالا عما غثاء (٢٣ : ٣٠) ” جواب میں ارشاد ہوا ، قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے “۔ لیکن اس وقت ان کی یہ ندامت ان کی کوئی فائدہ نے دے گی۔ فاخذتھم غثاء (٢٣ : ٣١) ” آخر ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامہ عظیم نے ان کو آلیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا “۔ غثاء اس کو ڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جس سیلاب بہا کر پھینک دیتا ہے اور اس میں کوئی چیز کام کی نہیں ہوتی۔ یہ کچرا کسی کام کا نہیں ہوتا اور ہر قسم کی گندگی اور بیکار چیزوں کا ڈھیر ہوتا ہے۔ یہ لوگ چونکہ ان انسانی اوصاف سے دستبردار ہوگئے تھے جن کی وجہ سے وہ انسان بکرم تھے ، وہ اپنے وجود دنیاوی اور وجود اخروی کی حکمت کو نہیں پا رہے تھے اور انہوں نے اپنے خالق کے ساتھ تمام روابط کاٹ دیئے تھے ، وہ اپنے وجود دنیاوی اور وجود اخروی کی حکمت کو نہیں پار ہے تھے اور انہوں نے اپنے خالق کے ساتھ تمام روابط کاٹ دیئے تھے اس لے ان میں کوئی ایسی بات باقی نہیں تھی جن کی وجہ سے ان کی تکریم ہوتی اور اس دنیا میں وہ باقی رہتے۔ لہذا وہ سیلاب کے کوڑے کرکٹ کی طرح بہادیئے ہیں۔ اس طرح کردیئے گئے کہ کوئی ان کو پوچھنے والا نہ تھا۔ یہ قرآن کا منفرد انداز کلام ہے جو کسی حقیقت کا اظہار نہایت ہی وقت کے ساتھ کرتا ہے ۔ ان لوگوں کے مزید توہین کے لیے اللہ کی جانب سے ان کی ملک بدری کا حال بتانے کے لیے یہ فقرہ کافی ہے کہ یہ اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے ۔ فبعد اللقوم الظلمین (٢٣ : ٣١) ” دور ہو ظالم قوم ! “ زندگی سے دور ، ذکر خیر سے بھی دور ، عالم واقعہ بھی دور اور عالم ضمیر سے بھی دور اس کے بعد سیاق کلام مضمون کو آگے بڑھاتا ہے ۔ منظر پر اقوام آتی ہیں اور جاتی ہیں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد ایک دوسرے نبی کی بعثت اور ان کی قوم کی تکذیب اور ہلاکت حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد زمین میں بسنے والے قوموں کی ہدایت کے لیے کثیر تعداد میں اللہ تعالیٰ کے رسول آئے، مذکور بالا آیات میں ایک رسول اور ان کی امت کی تکذیب کا پھر چیخ سے ہلاک ہونے کا تذکرہ ہے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان سے حضرت ھود یا حضرت صالح ( علیہ السلام) کے واقعے مراد ہیں۔ پہلے قول کو اس اعتبار سے ترجیح معلوم ہوتی ہے، کہ سورة اعراف اور سورة ھود اور سورة شعراء میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد ہی حضرت ھود (علیہ السلام) اور ان کی قوم عاد کا تذکرہ فرمایا ہے اور اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم سخت چیخ کے ذریعہ ہلاک ہوئی (کمافی سورة ھود) اور یہاں جس رسول کی امت کی ہلاکت کا ذکر ہے ان کی ہلاکت بھی سخت چیخ کے ذریعہ بتائی ہے تو اس سے قول ثانی کو ترجیح معلول ہوتی ہے والعلم عند اللہ الکریم۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعد ایک اور جماعت کو پیدا کیا ان میں بھی رسول بھیجا، یہ رسول انہیں میں سے تھا اس نے بھی ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارے کوئی معبود نہیں ہے تم وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو تمہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کی وجہ سے تم پر کوئی عذاب نہ آجائے، ان کی قوم کے چودھری اور سردار جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا تھا اور آخرت کے منکر تھے اور دنیا کے عیش و عشرت میں مگن تھے کہنے لگے جی یہ کیسے رسول ہوسکتا ہے یہ تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہے جس سے تم کھاتے ہو یہ بھی اسی سے کھاتا ہے جس سے تم پیتے ہو یہ بھی اسی سے پیتا ہے، اگر یہ رسول ہوتا تو اس میں کوئی امتیازی بات ہوتی، اگر تم نے ایسے شخص کی بات مانی جو تمہارے ہی جیسا شخص ہے تو تم نقصان اور گھاٹے والے ہوجاؤ گے، اس شخص کی بات پر وہی ایمان لاسکتا ہے جس کی عقل کا دیوالیہ ہوچکا ہو، کیا اس کی باتیں سمجھ میں آنے والی ہیں ؟ یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور بالکل مٹی اور ہڈیاں رہ جاؤ گے، تو قبروں سے زندہ کر کے نکالے جاؤ گے یہ جو بات تمہیں بتارہا ہے عقل و فہم سے دور ہے۔ (یعنی ایسا ہونے والا نہیں ہے) ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہی دنیا والی زندگی ہے اس میں موت وحیات کا سلسلہ جاری ہے ہم مرتے بھی ہیں اور جیتے بھی ہیں یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہ بات کہ مرنے کے بعد قبروں سے اٹھائے جائیں گے پھر حساب کتاب کے لیے پیشی ہوگی یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے جو مرگیا سو مرگیا اب کہاں کا زندہ ہونا اور قبروں سے اٹھنا ؟ یہ شخص جو کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اس کے بارے میں ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ جب ان کی قوم نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا تو انھوں نے بار گاہ خداوندی میں وہی دعا کی جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے کی تھی کہ اے میرے رب اس سبب سے کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا میری مدد فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان سے مدد کا وعدہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ لوگ نادم پشیمان ہونگے جب عذاب آئے گا تو پچھتائیں گے اللہ تعالیٰ نے جو اپنے رسول سے وعدہ فرمایا تھا حق تھا اس نے اپنے رسول کی مدد فرمائی اور جھٹلانے والوں کے لیے ایک زبردست چیخ بھیج دی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے ان کا وجود خس و خاشاک اور کوڑا کرکٹ کی طرح ہو کر رہ گیا، سو ظالم قوم کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری ہے ان پر اللہ کی مار ہے اور پھٹکار ہے۔