Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 4

سورة المؤمنون

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

And they who are observant of zakah

جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who pay the Zakah. Most commentators say that the meaning here is the Zakah that is paid on wealth, even though this Ayah was revealed in Makkah, and Zakah was ordained in Al-Madinah in the year 2 H. The apparent meaning is that the Zakah that was instituted in Al-Madinah is the one based upon the Nusub and the specific amounts, apart from which it seems that the basic principle of Zakah was enjoined in Makkah. As Allah says in Surah Al-An`am, which was also revealed in Makkah: وَءَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ but pay the due thereof on the day of their harvest, (6:141) It could be that what is meant here by Zakah is purification of the soul from Shirk and filth, as in the Ayah: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّـهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـهَا Indeed he succeeds who purifies himself (Zakkaha). And indeed he fails who corrupts himself. (91:9-10) It could be that both meanings are intended, purification of the soul and of one's wealth, because that is part of the purification of the soul, and the true believer is one who pays attention to both matters. And Allah knows best. And Allah says; وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکہ میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] زکوٰۃ (زکی۔ ذکو) کے معنی بالیدگی، نشوونما پانا، بڑھنا اور عمدہ ہونا ہے اور ذکی کے معنی کسی چیز کو عمدہ بنانا، اس کی اصلاح کرنا اور آگے بڑھانا ہے۔ اور تزکیہ نفس کے معنی نفس کو روحانی آلائشوں، بیماریوں یا اخلاق رذیلہ سے پاک صاف کرکے اوصاف حمیدہ پیدا کرنا ہے جیسے ارشاد باری ہے۔ ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝۽) 91 ۔ الشمس :9) && یعنی جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لیا وہ کامیاب ہوگیا && اور زکوٰۃ کے مفہوم میں یہ سب باتیں شامل ہیں اور زکوٰۃ سے جو دو فائدے زکوٰۃ ادا کرنے والے کو پہنچتے ہیں وہ ہیں تطہیر مال اور تزکیہ نفس (٩: ١٠٣) اور زکوٰۃ سے جو فائدہ معاشرہ کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس غریبوں اور محتاجوں کی اولاد ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم کم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے دولت کا بہاو و امیر سے غریب کی طرف ہوجاتا ہے۔ اور فاعِلُوْنَ سے مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی ان کی مستقل اور پختہ عادت بن چکی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جب جی چاہے ادا کردیں اور جب نہ چاہے تو نہ کریں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ زکوٰۃ تو مدینہ میں فرض ہوئی تھی۔ پھر اس مکی سورة میں فاعِلُوْنَ کیا معنی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب محل زکوٰۃ اشیاء اور شرح زکوٰۃ کا تعین یہ سب کچھ فی الواقعہ مدینہ میں ہوا تھا۔ مگر اس کی شروعیت مکہ میں ہوچکی تھی۔ چناچہ اکثر مکی سورتوں میں بھی زکوٰۃ و صدقات کا ذکر پایا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هُمْ للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ : زکوٰۃ کا لفظ طہارت پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ) [ الأعلٰی : ١٤ ] ” بیشک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا۔ “ اور کسی چیز کے بڑھنے پر بھی، جیسا کہ کہا جاتا ہے : ” زَکَا الزَّرْعُ “ ” کھیتی بڑھ گئی۔ “ زکوٰۃ ارکان اسلام میں سے ایک رکن کا نام بھی ہے، جو مال میں سے ایک مخصوص حصے کی ادائیگی پر بولا جاتا ہے، کیونکہ اس عمل سے نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور مال میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اس معنی کے مطابق ” لِلزَّكٰوةِ “ کا لام اسم فاعل کی تقویت کے لیے ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کا عمل کرنے والے ہیں۔ (بقاعی) قرآن میں عام طور پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر اکٹھا آیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِلزَّكٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ۝ ٤ۙ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ) ” یہ کامیاب وبامراد اہل ایمان کا تیسرا وصف بیان ہوا۔ یہاں ” زکوٰۃ “ کا لفظ اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ اپنے لغوی معنی میں آیا ہے اور اس سے مراد تزکیۂ نفس ہے۔ اس لیے کہ یہ ابتدائی مکی دور کی سورت ہے اور اس وقت تک زکوٰۃ ادا کرنے کا ابھی کوئی تصور نہیں تھا۔ ویسے بھی قرآن حکیم میں زکوٰۃ کے ساتھ عموماً لفظ ” ایتاء “ آتا ہے۔ چناچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے مؤمن بندے ہمہ وقت ‘ ہمہ تن اپنے نفس کے تزکیے کے لیے کوشاں اور اپنے دامن کے داغ دھبے دھونے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. The word Zakat literally means purification and development, to help something grow up smoothly and develop without obstruction. As an Islamic term, it implies both the portion of wealth taken out for the purpose of purifying the rest of wealth and the act of purification itself. The words of the original text mean that the believer constantly practices purification. Thus the meaning is not confined to the paying off of Zakat dues only but it is extended to self purification which includes purification of morals as well as wealth, property and life in general. Then it does not mean purification of one’s own self, but includes the purification of the lives of other people as well. So the verse means: The believers are the people who purify themselves as well as others. This thing has also been stated at other places in the Quran, for instance: Successful is he who practiced purification and remembered his Lord and prayed. (Surah Al-Aala, Ayats 14-15). And: Successful is he who purified himself and failure is he who corrupted it. (Surah Ash-Shams, Ayats 9-10). But this verse is more comprehensive in meaning because it stresses the purification of both society and one’s own person.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :5 زکوٰۃ دینے اور زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے ۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے : یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃ کا معروف انداز چھوڑ کر للِزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرز بیان اختیار کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے ۔ ایک پاکیزگی ۔ دوسرے نشو و نما ۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں ان کو دور کرنا ، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا ، یہ دو تصورات مل کر زکوٰۃ کا پورا تصور بناتے ہیں ۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں پر ہو تا ہے ۔ ایک وہ مال جو مقصد تزکیہ کے لیے نکالا جائے ۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ کا فعل ۔ اگر : یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصہ دیتے یا ادا کرتے ہیں ۔ اس طرح بات صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے ۔ لیکن اگر لِلزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں ، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیہ نفس ، تزکیہ اخلاق ، تزکیہ زندگی ، تزکیہ مال ، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی ۔ اور مزید براں ، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا ۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں ، یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں ، اپنے اندر بھی جوہر انسانیت کو نشو و نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ اعلیٰ میں فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّیٰ ہ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ فَصَلّیٰ O فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھی ۔ اور سورہ شمس میں فرمایا : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ہ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا O با مراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا ، اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے ، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں ، اور یہ بجائے خود فعل تزکیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی ، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو پاک صاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ غریبوں کے لیے نکالیں، اسے زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے ان کا باقی مال بھی پاک صاف ہوجاتا ہے، اور ان کے دلوں کو بھی پاکی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ مالی فریضہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے دوسرے معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو برے اعمال اور اخلاق سے پاک صاف کرنا۔ اس کو تزکیہ بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہاں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کرنے کے بجائے زکوٰۃ پر عمل کرنے والے کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کی وجہ سے بہت سے مفسرین نے یہاں دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:4) فعلون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ فعل مصدر فعل اسم مصدر کرنے والے، یہاں فعلون دو معنی ہوسکتے ہیں۔ (1) یہ کہ لاداء الزکوۃ فاعلون وہ زکوۃ کی ادائیگی کرنے والے ہیں۔ اس صورت میں فعل پر دوام اور ثبات کے معنی ہوں گے۔ یعنی وہ زکوۃ کو ہمیشہ باقاعدگی سے ادا کرنے والے ہیں ! (2) یہ کہ زکوۃ بمعنی تزکیہ نفس بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے کہ وہ تزکیہ نفس میں کوشاں رہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی زکوٰۃ ادا کرنا ان کی عادت ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ آیت مکی ہے حالانکہ زکوٰۃ کی فرضیت 3 ھ میں مدینہ میں ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ مکہ میں فرض تھی مدینہ میں اس کا نصاب اور شرح مقرر ہوئی۔ جیسا کہ سورة انعام میں فرمایا گیا : واتوا حقہ یوم حصادہ “ اور کٹائی کے دن فصل کا حق ادا کرو حالانکہ سورة انعام بھی مکی ہے۔ بعض مفسرن نے یہاں ” زکوٰۃ “ کو طہارت (پاکیزگی) کے معنی میں لیا ہے۔ اگر یہ مراد ہو تو اس کے مفہوم کو عام رکھا جائے گا جس میں بدن، مال اور نفس ہر چیز کو پاک رکھنا شامل ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(3) مومنوں کی تیسری صفت اور خوبی یہ ہے کہ وہ ” زکوۃ ادا کرتے ہیں “ یعنی جس طرح نماز میں خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری سے سکون قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے اسی طرح لغویات سے بچنے میں ذہن و فکر پاک صاف ہوجاتا ہے۔ اور اپنی محنت سے کمائی ہوئی حلال دولت میں سے جب زکوۃ ادا کی جاتی ہے تو اس کا مال پاک اور صاف ہوجاتا ہے کیونکہ زکوۃ کے معنی پاک صاف کرنے ہی کے آتے ہیں۔ درحقیقت جو شخص زکوۃ ادا کرتا ہے وہ نہ صرف اپنے مال کو پاک کرتا ہے بلکہ اس کا وہ نفس جو اس کو خواہشات کے نیچے دبائے رکھتا ہے غرورو تکبر ‘ ریاکاری اور دکھاوا ‘ بغض و حسد ‘ لالچ اور کنجوسی جیسی گندگیوں سے دور کر کے اس کے نفس کو پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ اسی لئے علماء و مفسرین نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں ہر وہ جگہ جہاں زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے وہاں ” اتوالزکوۃ “ اور یوتون الزکوۃ “ کے الفاظ آتے ہیں۔ لیکن اس جگہ ” لزکوۃ فاعلون “ فرمایا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مومنوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ زکوۃ جیسے فریضہ کو ادا کرتے ہیں اور اپنے نفس کی پاکیزگی کے لئے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ جہاں تک زکوۃ کی فرضیت کا تعلق ہے وہ حکم تو بالکل واضح ہے لیکن نفس کی پاکیزگی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مومن صرف نماز ہی نہیں پڑھتے۔ محض لغو یات اور فضول مشغلوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ اپنے نفس اور نفسانی خواہشات پر قابو پاکر اس کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی تیسری صفت۔ مومن نا صرف ذاتی طور پر لغویات سے پاک ہوتا ہے بلکہ اس کا مال بھی ہر آلائش سے پاک ہوتا ہے۔ لفظ زکوٰۃ کا معنٰی نمود اور کسی چیز کو پاک کرنا ہے۔ انسان جب اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک طرف اس کا مال پاک ہوجاتا ہے اور دوسری طرف اس کا دل بخل اور بےجا حرص سے نجات پاتا ہے۔ (١) سالانہ حساب و کتاب کا اہتمام : اسلام بیخبر ی ‘ بدنظمی اور دنیا سے عد مِ دلچسپی کا نام نہیں اسلام تو باخبر رہنے ‘ منظم اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں دین کے حوالے سے ہوں یا دنیاوی امور کے متعلق ‘ شریعت کا حکم ہے کہ آنکھیں کھول کر اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو۔ خا ص طور پر کاروبار کا تقاضا ہے کہ اس پر پو ری محنت اور توجہ مبذول کی جائے۔ سستی اور عدم دلچسپی سے خسا رہ ہی نہیں اکثر اوقات اصل سرمایہ ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ بھی حکمت ہے کہ مسلمان زکوٰۃ کے حوالے سے ہر سال حساب و کتاب کریں تاکہ انھیں انفرادی ‘ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پتہ چلے کہ ان کی معیشت کس سطح پر ہے انہیں معلوم ہو کہ اس سال کیا کھو یا اور کیا پایا ہے۔ (٢) ارتکاز دولت کا خا تمہ : نظا مِ معیشت کو نا ہمو اری کے ناسور سے محفوظ رکھنے اور ار تکا زِ دو لت کے مستقل علا ج کے لیے اسلامی قانون معیشت سے زیادہ کوئی نظام کا میاب نہیں ہوسکتا۔ صد قہ و زکوٰ ۃ اور وراثت کی تقسیم سے تدریجاً جا گیرداری نظام کا خاتمہ ‘ دولت کی منصفانہ تقسیم کا جامع اور مستقل نظام جا ری کیا گیا ہے۔ تاکہ دولت چند لوگوں کے ہاتھوں جمع نہ ہو سکے۔ اور غریب کو غریب تر ہونے سے بچایا جائے۔ زکوٰۃ سے ار تکاز دولت کا علا ج بھی کیا گیا ہے۔ (٣) تزکیہ اور برکات : نبوّت کے بنیادی عناصر اور اجزا میں اہم ترین جز یہ ہے کہ ہر اعتبار سے فرد ‘ معاشرے اور تمام شعبہ ہائے زندگی کا تزکیہ کیا جائے۔ مال کا تز کیہ یہ ہے کہ اسے حلال طریقے سے کمایا جائے۔ سال بھر کی جمع شدہ رقم میں با قاعدہ زکوٰ ۃ کی ادا ئیگی کا التزام کیا جائے۔ اس سے مال دارکا مال پاک اور معا شرے کو غر بت سے نجات اور ضمیر کا تزکیہ اور دل کو تسکین اور لذت محسوس ہوتی ہے اور آدمی بخل اور دو لت کے تکبر و غرور سے پاک ہوجا تا ہے۔ (وَسَےُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی۔ اَلَّذِیْ ےُؤْتِیْ مَالَہٗ ےَتَزَکّٰی۔ وَمَا لِاَحَدٍعِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی۔ وَلَسَوْفَ ےَرْضٰی۔ ) [ اللیل : ١٧ تا ٢١] ” وہ نہایت پرہیزگار ہے جو پاک ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے وہ اس سے ضرور خوش ہوگا۔ “ تزکیہ کے ساتھ ہی مال میں برکت پیدا ہوتی ہے کیونکہ لفظ زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی اور اضافہ کے ہیں۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ )[ رواہ مسلم : باب الصدقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ “ امّہ کا بیت المال : ( اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْاِسْلَامِ ) [ مشکو ۃ : باب الز کو ۃ ] ” زکوٰۃ اسلام کا خزانہ ہے۔ “ اسلام نے فرد کو ذاتی اور انفرادی آزادی دیتے ہوئے اجتماعی زندگی کا حکم دیا ہے۔ انفرادی کوششیں کتنی ہی موثر اور ثمر آور ہوں لیکن اجتماعی جد و جہد اور ان کے نتائج کے بر ابر نہیں ہوسکتیں۔ انفرادی معاملات شخصی کاوش سے حل ہوسکتے ہیں لیکن اجتماعی مسائل کا حل فرد کے بس کا روگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مسائل ١۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا دل اور مال پاک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زکوٰۃ کی فرضیت اور فوائد : ١۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء : ٧٣) ٢۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اپنے اہل خانہ کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٥٥) ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٣١) ٤۔ بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کا حکم۔ ( البقرۃ : ٨٣) ٥۔ تمام امتوں کو زکوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ : ٥) ٦۔ زکوٰۃ مال کا تزکیہ کرتی ہے۔ (التوبۃ : ١٠٣) ٧۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بےخوف اور بےغم کرتی ہے۔ (البقرۃ : ٢٧٧) (تفصیل کے لیے میری کتاب زکوٰۃ اور اس کے مسائل دیکھیں۔ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کا تیسرا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ للزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ ) (اور جو لوگ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں) لفظ زکوٰۃ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے پاک صاف ہونے کے معنی پر دلالت کرتا ہے (اور اسی لیے مال کا ایک حصہ بطور فرض فقراء اور مساکین کو دینے کا نام زکوٰۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس سے نفس بھی بخل سے پاک ہوتا ہے اور مال میں بھی پاکیزگی آجاتی ہے) لغوی معنی کے اعتبار سے بعض مفسرین کرام نے آیت کا یہ مطلب بھی بتایا ہے کہ اپنے نفس کو برے اخلاق سے پاک رکھنے والے ہیں، انسان کے اندر سے بخل، حسد، حب جاہ، حب مال، ریا کے جذبات امنڈ کر آتے ہیں ان رذائل سے پاک ہونا اور نفس کو دبانا، نفس کی اصلاح کرنا یہ بھی (لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ ) کا مصداق ہے اسی کو سورة الاعلیٰ میں فرمایا (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی) (وہ شخص کامیاب ہوگیا جو پاک صاف ہوا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” وَّالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوةِ فٰعِلُوْنَ الخ “ یہ بھی امر دوم ہی سے متعلق ہے کچھ مفسرین نے زکوۃ کو یہاں زکوۃ مالیہ پر محمول کیا ہے لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ یہ سورت مکی ہے لیکن زکوۃ مکہ میں فرض نہ تھی بلکہ مدینہ میں فرض ہوئی بعض محققین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ مدینہ میں نصاب اور قدر زکوۃ کی فضیت نازل ہوئی تھی لیکن اصل زکوۃ مکہ میں فرض ہوئی۔ قال بعض المحققین فرضت بالمدینہ نصابھا وقدرھا واما اصلھا فقد کان واجبا بمکۃ (جامع البیان ص 298) ۔ یا زکوۃ سے زکوۃ نفوس مراد ہے یعنی وہ اپنے نفوس کو عقائد باطلہ اور اعمال مشرکانہ سے پاک رکھتے ہیں۔ او المراد زکوۃ النفس و تطھیرھا من الرزائل (جامع) ۔ حضرت شیخ کے نزدیک یہی راجح ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ” قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰی “ (سورۃ الاعلی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور جو زکوٰۃ ادا کیا کرتے ہیں یعنی ہمیشہ زکوٰۃ دیتے ہیں بعض مفسرین نے تزکیہ نفس مراد لیا ہے کہ وہ اپنے اعمال اور اخلاق کو پاکیزہ رکھتے ہیں۔