Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 44

سورة المؤمنون

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا ؕ کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوۡلُہَا کَذَّبُوۡہُ فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّ جَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ ۚ فَبُعۡدًا لِّقَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۴۴﴾

Then We sent Our messengers in succession. Every time there came to a nation its messenger, they denied him, so We made them follow one another [to destruction], and We made them narrations. So away with a people who do not believe.

پھر ہم نے لگاتار رسول بھیجے جب جب جس امت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا ، پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا اور انہیں افسانہ بنا دیا ۔ ان لوگوں کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ... Then We sent Our Messengers in succession. Ibn Abbas said, "(This means) following one another in succession." This is like the Ayah: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَـلَةُ And verily, We have sent among e... very Ummah a Messenger (proclaiming): "Worship Allah, and avoid Taghut (all false deities)." Then of them were some whom Allah guided and of them were some upon whom the straying was justified. (16:36) ... كُلَّ مَا جَاء أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ... Every time there came to a nation their Messenger, they denied him; meaning the greater majority of them. This is like the Ayah: يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ Alas for mankind! There never came a Messenger to them but they used to mock at him. (36:30) ... فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا ... so We made them follow one another, means, `We destroyed them,' as Allah says: وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ And how many generations have We destroyed after Nuh! (17:17) ... وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ... and We made them as Ahadith, meaning, stories and lessons for mankind, as Allah says elsewhere: فَجَعَلْنَـهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَـهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ so, We made them as tales (in the land), and We dispersed them all totally. (34:19) ... فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لاَّ يُوْمِنُونَ So, away with a people who believe not!   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

441نَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔ 442ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔ 443جس طرح اَعَاجِیْبُ ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْ... ثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] قوم عاد اولیٰ اور عاد ثانی کے بعد، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک درج ذیل انبیاء مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، اور حضرت شعیب (علیہم السلام) یہ تو وہ انبیاء ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا وہ ان سے بہت ... زیادہ ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دنیا میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ٣١٣ تا ٣١٥ بتلائی اور انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتلائی جبکہ قرآن میں صرف ٢٧ انبیاء و رسل کا ذکر ہے۔ اب اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں تک انسانی علم کی رسائی ہوسکی ہے اس کے مطابق عاد اولیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیانی مدت تقریباً چار ہزار سال پر محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں لاتعداد انبیاء و رسل مبعوث ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ان انبیاء کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا جب روئے زمین پر کوئی نبی موجود نہ ہو۔ بلکہ بیک وقت ایک ہی زمانے میں کئی کئی انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ ان سب سے یہی سلوک ہوتا رہا کہ انھیں جھٹلایا گیا۔ کیونکہ چودھری قسم کے لوگ قطعاً اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنی سرداریوں سے دستبردار ہو کر نبیوں کے مطیع فرمان بن جائیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو بھی انبیاء کے خلاف بھڑکاتے رہے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آتے رہے۔ ایک قوم مٹتی تو دوسری اس کی جگہ لیتی رہی۔ پھر اس کے مقررہ وقت کے مطابق اسے بھی صفحہ ہستی سے نیست و نابود کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ان کے آثار بھی باقی نہ رہے، ماسوائے ان داستانوں اور افسانوں کے جو بعد کے آنے والے لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ۔۔ :” تَتْرَا “ ” دَعْوٰی “ اور ” سَلْوٰی “ (فَعْلٰی) کے وزن پر مصدر ہے، جو ” رُسُلَنَا “ سے حال ہے۔ ” تَتْرَا “ اصل میں ” وَتَرٰی “ ہے۔ واؤ کو تاء سے بدل دیا، جس طرح ” تَقْوٰی “ میں تاء واؤ کی جگہ آئی ہے۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی ” مُتَوَاتِرِیْنَ “ یعنی پھر ... ہم نے اپنے کئی رسول پے در پے بھیجے، مگر ان کی قوموں نے پہلی امتوں کے انجام سے کوئی عبرت حاصل نہ کی اور ہر امت اپنے رسول کے آنے پر اسے جھٹلاتی رہی، تو ہم نے بھی یکے بعد دیگرے ان کی ہلاکت کا تانتا باندھ دیا اور انھیں ایسا نیست و نابود کیا کہ قصے کہانیوں کے سوا ان کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا۝ ٠ۭ كُلَّمَا جَاۗءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَا كَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ۝ ٠ۚ فَبُعْدًا لِّــقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٤٤ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة ... قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ وتر الوَتْرُ في العدد خلاف الشّفع، وقد تقدّم الکلام فيه في قوله : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] «1» وأَوْتَرَ في الصلاة . والوِتْرُ والوَتَرُ ، والتِّرَةُ : الذّحل، وقد وَتَرْتُهُ : إذا أصبته بمکروه . قال تعالی: وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد/ 35] . والتَّواتُرُ : تتابع الشیء وترا وفرادی، وجاء وا تَتْرَى قال تعالی: ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون/ 44] ولا وتیرة في كذا، ولا غمیزة، ولا غير، والوَتِيرَة : السّجيّة من التّواتر، وقیل للحلقة التي يتعلم عليها الرّمي : الوَتِيرَة، وکذلک للأرض المنقادة، والوَتِيرَة : الحاجز بين المنخرین . ( و ت ر ) الواتر ( طاق ) یہ اعداد میں شفیع کی ضد ہے جس کی بحث آیت ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] اور جفت اور طاق کی ( قسم ) کے تحت گزرچکی ہے ۔ اوتر ۔ وتر نماز پڑھنا ۔ الوتر والوتر والترۃ کے معنی کینہ کے ہیں اور اسی سے وترتہ ( ض ) ہے جس کے معنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا اس کا حق کم کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ : ۔ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد/ 35] وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم ( اور کم ) ) نہیں کرے گا ۔ التواتر کسی چیز کا یکے بعد دیگرے آنا محاورہ ہے جاؤ تترٰی ( وہ یکے دیگرے کچھ وقفہ کے بعد آئے ) قرآن میں ہے : ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون/ 44] پھر ہم پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے ۔ لاوتیرۃ فی کذ ولا عمیزۃ ولاغیر اس میں عقلی کمزوری یا کوئی دوسرا عیب نہیں ہے اور تواتر سے وتیرۃ ہے جس کے معنی سجیتہ ( طبعی عادت کے ) بھی آتے ہیں ۔ نیز وتیرۃ کا لفظ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) وہ حلقہ جس پر بچے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں ۔ ( 2) نرم زمین ( 3 ) ناک کے نتھنوں کا درمیان پردہ ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ حدث الحدوث : كون الشیء بعد أن لم يكن، عرضا کان ذلک أو جوهرا، وإِحْدَاثه : إيجاده . وإحداث الجواهر ليس إلا لله تعالی، والمُحدَث : ما أوجد بعد أن لم يكن، وذلک إمّا في ذاته، أو إحداثه عند من حصل عنده، نحو : أحدثت ملکا، قال تعالی: ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ، ويقال لكلّ ما قرب عهده محدث، فعلا کان أو مقالا . قال تعالی: حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] ، وقال : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ( ح د ث ) الحدوث ) ( ن) کے معنی ہیں کسی ایسی چیز کو جود میں آنا جو پہلے نہ ہو عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اور احداث صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ محدث ( صیغہ صفت مفعول ) ہر وہ چیز جو عدم سے وجود میں آئی ہو اور کسی چیز کا احداث کبھی تو نفس شے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی اس شخص کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جسے وہ حاصل ہوئی ہو ۔ جیسے ۔ احدثت ملکا ) میں نے نیا ملک حاصل کیا ) چناچہ آیت کریمۃ ؛۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی ( میں اسی دوسرے معنی کے اعتبار ذکر کو محدث کہا گیا ہے اور ہر وہ قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہوا ہو اسے بھی محدث کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] جب تک میں خود ہی پہل کرکے تجھ سے بات نہ کروں ۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] شاید خدا اس کے بعد کوئی ( رجعت کی ) سبیل پیدا کردے ۔ ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری ) قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) پھر ہم نے اپنے پیغمبروں کو یکے بعد دیگرے بھیجا جب کسی امت کے پاس اس امت کا رسول اللہ کے احکام لے کر آیا اور انہوں نے اس رسول کو جھٹلایا، تو ہم نے بھی ہلاک کرنے میں ایک کے بعد ایک کا نمبر لگا دیا اور ہم نے ان کی کہانیاں بنا دیں کہ ان کے زمانہ میں وہ سنائی جانے لگیں تو اللہ کی رحمت سے دور ہیں وہ ... لوگ جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَاکَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا) ” ان کی تکذیب کے جواب میں ہم بھی ان قوموں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے چلے گئے۔ (وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ ج) ” ان قوموں کے نام اب دنیا میں کہانیوں اور داستانوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں کہ قوم مدین فلاں علاقے میں ب... ستی تھی ‘ عامورہ اور سدوم کے شہر فلاں جگہ پر واقع تھے ‘ وغیرہ وغیرہ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. That is, those who do not believe in the Messengers.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :38 یا باالفاظ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٤:۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی بےپرواہ ہے کہ اس کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے لیکن رسول وقت کی بات کو نہ ماننا اور رسول وقت کی فرمانبرداری کو مسخرا پن میں اڑا کر رسول وقت کو غصہ دلانا ایسی اللہ کی ایک غصہ اور غصب اور وبال کی چیز ہے کہ جو لوگ اس نافرمانی میں مبتلا ہوں ‘ ان کے وبال کی حالت پر باوجود اس بے... پروائی کے خود اللہ تعالیٰ نے حسرت اور افسوس کا استعمال فرمایا ہے چناچہ سورة یسٰ میں ارشاد فرمایا ہے یا حسرۃ علی العباد ما یاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزؤن جس کا حاصل یہ ہے کہ بندوں کی رسولوں کو جھٹلانے کی حالت قابل افسوس ہے اب ایک گروہ ان لوگوں کا تھا وہ رسول وقت کو رسول ہی نہیں مانتے تھے اور طرح طرح کی باتیں کرتے تھے وہ تو صریح کافر لیکن اس طرح کے مسلمانوں کے گروہ سے ہی ہرگز خدا اور رسول خوش نہیں ہیں جو رسم کے سبب سے یا کسی کی بات کا دل کو اچھی لگنے کے سبب سے رسول وقت کے قول یا فعل کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے قول یا فعل کو مانے ‘ معتبر سند سے صحیح ابن حبان اور بیہقی کی شعب الایمان میں حضرت جابر (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یہود سے جب ملاقات ہوتی ہے تو وہ لوگ اپنے دین کی بعض روایتیں ایسی بیان کرتے ہیں کہ وہ روایتیں دل کو نہایت بھلی لگتی ہیں اگر آپ اجازت دیویں تو ان روایتوں کو لکھ لیا جاوے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم لوگ بھی یہود اور نصاری کی طرح بھٹکنا چاہتے ہو ‘ میں شریعت خدا کی طرف سے لایا ہوں کہ اگر خود اللہ کے رسول موسیٰ آج زندہ ہوتے تو بغیر میری پیروی کے ان کو اور کچھ بن نہ آتا ‘ اس حدیث کے مضمون پر ذرا غور کرنا چاہیے کہ شریعت موسوی آخر ایک زمانہ میں حکم الٰہی سے ایک شریعت تھی ‘ جب جدید شریعت کے آجانے سے اس قدیم شریعت کے رسول حضرت موسیٰ بھی آج زندہ ہوتے تو اس کو بھی اس قدیم شریعت پر قائم رہنا جائز نہ ہوتا ‘ اب ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ جب جدید شریعت کے آگے قدیم شریعت پر عمل جائز نہیں ہے تو پھر شریعت کے آگے کسی رسم کی کیا حقیقت ہے ‘’ مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عمر (رض) کے قصہ کی یہ روایت ١ ؎ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی ہے حاصل مطلب آیت کے اس ٹکڑے کا یہ ہے کہ قوم ثمود بعد جن قوموں کی انجانی رفع کرنے کے لیے اللہ کے رسول آئے ‘ ان قوم کے لوگوں نے ان رسولوں کو جھٹلایا ‘ جس کے مآل میں آگے پیچھے وہ قومیں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں اور ان کی ہلاکت کی کہانیاں باقی رہ گئیں ‘ آخر کو فرمایا ایسے لوگوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ خود ہی ایسے لوگ دنیا اور عقبیٰ میں اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے ‘ اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ اور ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایتیں جو گزر چکی ہیں وہی روایتیں آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ ان قوموں کی انجانی کا عذر رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے اور رسولوں کی نصیحت کے سمجھنے کے لیے ان کو مہلت دی لیکن جب یہ مہلت کے زمانہ میں نافرمانی سے باز نہ آئے تو اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنتہ ص ٣٠ ) (١ ؎ تنقتح الرواۃ ص ٤٢ ج ١ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:44) تترا۔ ای یتبع بعضہم بعضا۔ یکے بعد دیگرے ۔ پے درپے۔ متواتر تتر سے جس کے معنی کسی شے کے پے در پے آنے کے ہیں۔ الف تانیث کا ہے فرا کے نزدیک یہ تنوین کے عوض آیا ہے۔ جاء القوم تتری لوگ پے در پے آئے۔ اس کی اصل وتری ہے ایک ایک کر کے آنا۔ کلما۔ جب کبھی۔ یہ لفظ کل اور ما سے مرکب ہے۔ اس ترکیب میں لفظ...  کل ظرفیت کی وجہ سے ہمیشہ منصوب ہوتا ہے۔ اکثر کلما کے بعد فعل ماضی آتا ہے آیۃ ہذا یا کلما دعوتہم (71:7) جب کبھی میں نے ان کو دعوت دی (بلایا) ۔ امۃ۔ ای الی امۃ رسولھا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب امت کے لئے ہے ! کذبوہ میں ضمیر جمع مذکر غائب امۃ (بمعنی جمع افراد امت) کے لئے ہے ہ کا مرجع رسول ہے۔ جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول (تبلیغ حق کے لئے ) آیا۔ اس امت (کے افراد نے اس کی تکذیب کی۔ احادیث۔ احدوثۃ کی جمع۔ اس کے معنی ہیں قصے کہانیاں۔ وجعلنہم احادیث۔ ہم نے ان کو کہانیاں بنادیا۔ یعنی وہ قصہ ماضی بن کر رہ گئے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی وہ ایسے نیست و نابود ہوئے کہ بجز کہانیوں کے ان کا کچھ نام و نشان نہ رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ فرعون اور اس کے درباریوں کا تکبر اور تکذیب اور ہلاکت حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر فرمانے کے بعد ایک اور رسول کی تشریف آوری کا اور ان کی امت کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا پھر فرمایا کہ ہم نے ان کے بعد اور بہت سی جماعتیں...  پیدا کیں، ان سے حضرت لوط اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی قومیں اور ان کے علاوہ جو قومیں تھیں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کے باعث ہلاک کردی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر میں جس امت کے ہلاک ہونے کا جو وقت مقرر تھا ہر امت ٹھیک اسی وقت میں ہلاک کی گئی۔ نہ وہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہلاک ہوئی اور نہ اس وقت سے موخر ہوئی۔ قولہ تعالیٰ ” تَتْرَا “ من المتو اترۃ وھو التتابع مع فصل و مھلۃ و التاء الاولی بدل من الواو کمافی تراث و جمھور القراء و العرب علی عدم تنوینہ فالفہ للتانیث کالف دعوی و ذکری و معناہ ثم ارسلنا رسلنا متواترین و قرأ ابن کثیر و ابو عمر و تَتْرًا بالتنوین وھو لغۃ کنانۃ۔ (راجع روح المعانی ج ١٨ صفحہ ٣٤) (فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا) (سو ہم بعض کو بعض کے بعد وجود لاتے رہے) یعنی ایک قوم گئی اور اس کے بعد دوسری قوم آگئی برابر ایسا ہی ہوتا رہا جیسے وجود میں آنا آگے پیچھے تھا اسی طرح ہلاک ہونے میں بھی آگے پیچھے تھے، ایک قوم آئی رسول کو جھٹلایا وہ ہلاک ہوئی دوسری قوم آئی اس نے بھی اپنے رسول کو جھٹلایا وہ بھی ہلاک ہوگئی اسی طرح سلسلہ جاری رہا، (وَجَعَلْنَاھُمْ اَحَادِیْثَ ) (اور ہم نے انہیں کہانیاں بنا دیا) یعنی وہ لوگ رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ایسے برباد ہوئے اور ایسے گئے کہ بعد کے آنے والے صرف کہانیوں کے طور پر ان کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نام کی بھی کوئی قوم تھی اور فلاں علاقے میں بھی کبھی لوگ آباد تھے، کیا تو ان کے بڑے بڑے دعوے تھے اور کیا ان کا انجام ہوا کہ بس کہانیوں کی طرح لوگ ان کا تذکرہ کرتے ہیں (فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) (سو دوری ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان نہیں لاتے) یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہیں کیونکہ غیر مومن کو اللہ کی رحمت شامل نہ ہوگی وہ ہمیشہ لعنت میں رہیں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ ” ثُمَّ اَرْسَلْنَا الخ “ یہ توحید پر تیسری نقلی دلیل ہے یہاں اجمالاً ذکر فرمایا کہ پھر ہود (علیہ السلام) کے بعد ہم نے مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو اپنی امتوں کو دعوت توحید دیتے رہے جب ایک قوم نے ہمارے رسول کی تکذیب کی اور دعوت توحید کو نہ مانا تو ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور ان کی جگہ اوروں کو پید... ا کیا۔ ” تَتْرٰي “ اصل میں ” وَ تَرٰي “ تھا واؤ کو تا سے بدل دیا گیا اور یہ ” اَرْسَلْنَا “ سے حال واقع ہے ای ارسلنا رسلنا متواترین (بحر، روح) ۔ ” وَ جَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ الخ “ یعنی دعوت توحید کو رد کرنے والوں اور انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو ہم نے نیست و نابود کردیا اور دنیا سے ان کا نام و نشان ہی مٹا ڈالا البتہ ان کی باتیں باقی رہ گئیں لوگ تعجب اور عبرت کے طور پر ان کی کہانیاں بیان کرنے لگے۔ اخبارا یسمع بھا یتعجب منھا (مدارک ج 3 ص 93) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) پھر ہم پے در پے آگے پیچھے اپنے رسول بھیجتے رہے جب کسی قوم اور امت کے پاس اس کا رسول آیا تو وہ امت اس رسول کی تکذیب کرتی رہی اور اس کو جھٹلاتی رہی پھر ہم بھی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کرتے رہے اور ہم نے ان ہلاک شدگان کو گزرے ہوئے افسانے کردیا اور قصہ ان نئی قوموں کے پاس اپنے رسول بھیجتے ر... ہے اور ہر امت نے یہ شیوہ اختیار کیا کہ جب کوئی رسول ان کے پاس آیا تو عام لوگوں نے اس کو جھوٹا بتایا تو ہم بھی ایک امت کے بعد دوسری اس کی پیش رو امت کے ساتھ لگاتے رہے یعنی یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے رے اور ان کو ماضی کی کہانیاں اور قصہ ہائے پارینہ بناتے رہے کہ آنے والوں کی زبان پر ان کی کہانیا رہ گئیں اور ان کا نام و نشان نہ رہا۔ پس ایسے لوگ جنہوں نے پیغمبروں کے سمجھانے اور بتانے کے باوجود نہ مانا اور ایمان نہ لائے وہ خدا کی رحمت سے دور ہوں اور ایسے بےایمانوں پر خدا کی مار ہو۔  Show more