Surat ul Mominoon
Surah: 23
Verse: 5
سورة المؤمنون
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾
And they who guard their private parts
جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾
And they who guard their private parts
جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
[٥] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں اور کسی کے سامنے کھولتے نہیں نہ عریاں لباس پہنتے ہیں کہ بدن کے اعضا نظر آتے رہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْن : پاکدامنی کی صفت اگرچہ لغو سے اعراض میں شامل ہے، مگر نفس کی سب سے منہ زور قوت پر قابو رکھنے کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ بھی ذکر فرمایا، جیسا کہ ” اَلْمُوْمِنُوْنَ “ کے لفظ میں ایمان کے تمام اعمال شامل ہیں، مگر بعد میں سات چیزوں کو ان کی اہمیت کے پیش نظر الگ بھی ذکر فرمایا۔
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ ٥ۙ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . ( ف ر ج ) & الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
شرم و حیا قول باری ہے (والذین ھم لفزوجھم حافظون اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں) آیت سے مرد اور عورتیں دونوں مراد لینا درست ہے اس لئے کہ جب مذکر اور مئونث دونوں کا اجتماع ہوجائے تو تغلیب کے طور پر مذکر کا صیغہ لایا جاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون) یہاں مرد اور عورتیں دونوں مراد ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت (والذین ھم لفروجھم حافظون) مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے (الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں) اس میں لا محالہ مرد مراد ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوء امتناع نہیں کہ پہلا لفظ دونوں جنسوں کے لئے عام ہو اور استثناء مردوں کے لئے مخصوص ہو۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ حسناً اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی) پھر ارشاد ہوا (وان جاھداک علی ان نشرک بی اور اگر یہ دونوں یعنی ماں باپ تجھے اس امر پر مجبور کریں تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے) پہلا فقرہ سب کے لئے عام ہے اور عطف بعض افراد کے لئے ہے جنہیں لفظ شامل ہے۔ قول باری (والذین ھم لفروجھم حافظون) دلالت حال کی بنا پر عام ہے۔ دلالت حال یہ ہے کہ بدکاری میں مبتلا ہنے سے شرمگاہوں کی حفاظت کی جائے۔
6. They are modest in every sense of the word. They are free from sex abuse and sex perversion. They are so modest that they even conceal those parts of their bodies which the law forbids to expose before others. For explanation, see (E.Ns 30 and 32 of Surah An-Noor).
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :6 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں ، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں ، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النور حواشی 30 ۔ 32 ) ۔
4: یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔
(23:5) فروجہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان مردوں کی شرم گاہیں۔ فرج عورت اور مرد دونوں کی شرم گاہ کے لئے بولا جاتا ہے۔ آیت ہذا میں بھی مردو عورت دونوں مراد ہیں۔ الفرج والفرجۃ کے معنی دو چیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی۔ کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرم گاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے قرآن مجید میں شگاف کے معنوں میں اور شق کرنا۔ چیرنا۔ پھاڑنا کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً وما لھا من فروج (50:6) اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ اور و اذا السماء فرجت (77:9) اور جب آسمان پھٹ جائے۔ حفظوناسم فاعل جمع مذکر غائب۔ حفاظت کرنے والے نگرانی کرنے والے۔ محفوظ رکھنے والے ۔ بچانے والے۔ حفظ مصدر
(4) کامیاب اہل ایمان کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی بیویوں اور ان باندیوں تک (جن کی اس زمانہ میں اجازت تھی) محدود رکھتے ہیں۔ جو لوگ ان حدود سے آگے قدم نہیں بڑھاتے اس پر انہیں کسی طرف سے کسی ملامت کا سامنا کرنا نہ پڑے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص ان حدود سے آگے قدم بڑھائے گا تو وہ زیادتی کرنے والا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر رہیں گے انہیں روحانی قوت و طاقت ‘ اطمینان قلب اور سکھ چین نصیب ہوگا۔ لیکن ان حدود کو پھلانگنے والے اللہ کی رحمتوں سے محروم اور بد ترین عادتوں اور معاشرہ کو رسوا اور برباد کرنے والے بن جائیں گے۔ اس بد ترین فعل کو زنا کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی قومیں تباہ و برباد ہوگئیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو ! تم زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ وہ کھلی بےحیائی ‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا اور بدترین راستوں کو کھولنے والا ہے۔ اس کا پہلا نقصان تو یہ ہے کہ اس شدید گناہ میں مبتلا ہونے والا معاشرہ باہمی اعتماد اور بھروسہکو کھودیتا ہے کیونکہ اس میں کسی کی عزت ‘ آبروا ور عصمت محفوظ نہیں رہتی۔ اگر اس معاشرہ میں کفار غالب ہوں تو ان کو سوچنے ‘ سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ جب وہ بار بار کی تنبیہ کے باوجود ہوش میں نہیں آتے تو ان پر عذاب الہٰی نازل ہوجاتا ہے۔ زنا اور ایمان میں ایسی غیریت اور ضد ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی اس فعل بد میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا ایماناس کے اندر سے نکل جاتا ہے اور جب وہ اس سے فارغ ہوجاتا ہے تب ایمان واپس لوٹتا ہے۔ زنا کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ زانی اور بدکار آدمی باطنی ‘ روحانی اور جسمانی طور پر کمزور پڑجاتا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی حس اور احساس زندہ ہے تو اس کا دل اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا۔ جس سے اس کو کبھی سکون نصیب نہ ہوگا۔ لیکن اگر اس کا احساس ہی مردہ ہوچکا ہے اور اس کے اندر سے احساس گناہ ہی مٹ چکا ہے تو ایسا شخص ہر بھلے اور نیک راستے سے محروم رہتا ہے اور اس کو کبھی سچی توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور یہ بد نصیبی اسے جہنم کی بھڑکتی آگ پر پہنچا کر دم لیتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جب تک موت کے فرشتے سامنے نہیں آجاتے اس وقت تک توبہ کے دروازے بند نہیں ہوتے لہٰذا اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کرے لے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرماسکتا ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی چوتھی صفت :۔ مومن صرف اپنے دل اور مال کو پاک کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی سوچ اور کردار کو بھی پاک رکھتا ہے۔ فُرُوْجَکی واحد فَرْجَجس معنٰی شرم گاہ ہے۔ مسلمان کو شرم گاہ کی حفاظت کے لیے بڑی لطیف اور بنیادی ہدایات دی گئی ہیں مرد اور عورت کے لیے پہلی ہدایت یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ (النور : ٣١۔ ٣٢) اس ہدایت پر عمل کرنے سے بدکاری اور بےحیائی بہت حد تک ناممکن ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن مجید کا پہلا اصول یہ ہے کہ زنا کے قریب تک نہیں جانا۔ یعنی ہر وہ حرکت اور عادت جن سے بدکاری کا راستہ کھلتا ہو شریعت اس سے روکتی ہے عورت کی طرف سے نرمی نہ ہو تو مرد کے لیے بدکاری کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے قرآن حکیم نے عورت پر اس حد تک پابندی عائد فرمائی ہے کہ عورت کو غیر محرم کے ساتھ بات کرنا ناگزیر ہو تو اس کے لب و لہجہ میں نسوانہ ملائمت ہونے کی بجائے بیگانگی اور کسی حد تک آواز میں مردانگی کا تاثر ہونا چاہیے تاکہ جس کے دل میں اخلاقی گراوٹ ہو وہ اس کے بارے میں بری سوچ کا تصور نہ کرپائے۔ یہ فروج کی حفاظت کا بنیادی اور ابتدائی قانون ہے کہ جس کا خیال اور احترام رکھا جائے تو معاشرہ سے بےحیائی کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ ” حضرت سہل بن سعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ “ [ رواہ البخاری : باب حفظ اللسان ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قربانی کے دن فضل بن عباس پلان کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے اور فضل خوبصورت آدمی تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو مسائل بتلانے کے لیے ٹھہرے تو خثعم قبیلے کی ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھنے لگی اور حضرت فضل نے اس عورت کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اسے وہ بھلی لگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیچھے مڑکر فضل بن عباس کی طرف دیکھا کہ وہ اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے فضل کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کے چہرے کو دوسری طرف کردیا۔ اس عورت نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے حج اپنے بندوں پر فرض کیا ہے میرا باپ بوڑھا ہے۔ سواری پر بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا کیا میری طرف سے حج کرنا اسے کفایت کر جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! “ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتًا)] مسائل ١۔ مومن مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔
اہل ایمان کا چوتھا وصف یوں بیان فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ) (الایات الثلاث) اور جو لوگ اپنی شرم کی جگہوں کی حفاظت کرتے ہیں یہ لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے تو شرعی اصول کے مطابق شہوت پوری کرلیتے ہیں ان کے علاوہ کسی اور جگہ اپنی شرم کی جگہوں کو استعمال نہیں کرتے، بیویوں اور لونڈیوں سے شہوت پوری کرنا چونکہ حلال ہے اس لیے اس پر انہیں کوئی ملامت نہیں ان کے علاوہ اور کسی جگہ کو استعمال کیا تو یہ حد شرعی سے آگے بڑھ جانے والی بات ہوگی جس کی سزا دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔ آیت کی تصریح سے معلوم ہوا کہ متعہ کرنا بھی حرام ہے (جس کا روافض میں رواج ہے) کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ بیوی نہیں ہوتی اسی طرح جانوروں سے شہوت پوری کرنا یا کسی بھی طرح شہوت کے ساتھ منی خارج کرنا یہ سب ممنوع ہے کیونکہ ان سب صورتوں میں شرم کی جگہ کا استعمال نہ بیوی سے ہے نہ باندی سے، باندیوں سے قضائے شہوت کرنے کے کچھ احکام ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں، یاد رہے کہ گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں باندیاں نہیں ہیں اگر ان سے کوئی شخص شہوت پوری کرے گا تو صریح زنا ہوگا کسی بھی آزاد عورت کو اگر کوئی شخص بیچ دے تو اس کا بیچنا اور خریدنا دونوں حرام ہیں اور اس کی قیمت بھی حرام ہے اگر کوئی شخص خرید لے گا اور اس خریدی ہوئی عورت سے شہوت والا کام کرے گا تو زنا ہوگا۔ مسئلہ : جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے اگر ان سے نکاح کر بھی لے تب بھی ان سے شہوت پورا کرنا حرام ہی رہے گا۔ مسئلہ : حیض و نفاس کی حالت میں اپنی بیوی اور شرعی لونڈی سے بھی شہوت والا کام کرنا حرام ہے اور یہ بھی (فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ ) میں شامل ہے۔
6:۔ ” وَ الَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ الخ “ یہ امر سوم ہے یعنی وہ ظلم کے کاموں سے بچتے ہیں۔ یہاں ظلم کے تین کاموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ زنا، امانت میں خیانت اور بدعہدی، زنا بھی ایک بہت بڑا ظلم ہے فرمایا فلاح پانے والوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو ناجائز اور غیر محل میں استعمال کرنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں زنا اس لیے ظلم ہے کہ زنا سے جو بچہ پیدا ہوگا اسے یا تو تہمت کے کوسے قتل کردیا جائیگا یا اسے کہیں پھینک دیا جائے گا اور وہ مادر و پدر کی شفقت سے محروم رہے گا اور در بدر خوار ہوگا۔ یہ دونوں ظلم ہیں۔