Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 53

سورة المؤمنون

فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ ﴿۵۳﴾

But the people divided their religion among them into sects - each faction, in what it has, rejoicing.

پھر انہوں نے خود ( ہی ) اپنے امر ( دین ) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لئے ، ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ... But they have broken their religion among them into sects, the nations to whom Prophets were sent. ... كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ each group rejoicing in what is with it. means, they rejoice in their misguidance because they think that they are rightly-guided. Allah says, threatening and warning:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] یعنی اصل دین میں چند موٹی موٹی باتیں شامل تھیں۔ اور ہر نبی یہی اصول دین پیش کرتا رہا۔ مگر لوگوں نے انھیں اصول دین میں اختلاف کرکے سینکڑوں فرقے بناڈالے۔ مثلاً پہلی شق توحید ہی کو لیجئے۔ شیطان نے شرک کی بیسیوں نئی سے نئی قسمیں ایجاد کرکے لوگوں کو اس راہ پر ڈال دیا بعض لوگوں نے کسی شخص، نبی یا فر... شتوں کو اللہ کی اولاد قرار دیا۔ حلول اور اوتار کا عقیدہ وضع کیا اور اللہ تعالیٰ کو بعض لوگوں کے اجسام میں اتار دیا۔ کسی نے کہا کہ فلاں ہستی اللہ کے نور میں سے (جدا شدہ) نور ہے۔ کئی ہستیوں کو اللہ کے علاوہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر تسلیم کیا گیا اور سب سے بڑھکر یہ کہ حضرت انسان نے جسے تمام مخلوق سے افضل و اشرف پیدا کیا گیا تھا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، ستاروں، جن بھوتوں اور آستانوں سے وابستہ کردیا۔ اور ان کے آگے سرتسلیم خم کرنے لگا۔ انھیں سے مرادیں مانگنے لگا۔ دوسری شق آخرت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے تو روز آخرت اور دوبارہ جی اٹھنے کا انکار ہی کردیا۔ اور جنہوں نے اسے تسلیم کیا۔ انہوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ بعض نے کہا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں۔ لہذا ہمیں کیسے عذاب ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے سفارش کے عقیدے وضع کر لئے اور اگر فلاں حضرت کی بیعت کرلی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے دیوتاؤں سے یا بتوں سے وابستہ کردیا۔ نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ لیا اور بعض پادری حضرات اس دنیا میں ہی لوگوں سے رقوم بٹور کرکے ان کے لئے معافی نامے جاری کرنے لگے۔ اور بعض لوگوں نے عقیدہ وضع کیا کہ اگر فلاں حضرت کے بہشتی دروازہ سے اس کے عرس کے دن نیچے سے گزرا جائے تو یقیناً نجات ہوجائے گی ایسے سستی نجات کے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں۔ اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔ تیسری شق حلال اور پاکیزہ اشیاء کھانے سے متعلق تھی تو اس میں بھی لوگوں نے افراط وتفریط کی راہیں پیدا کرلیں۔ رہبان و مشائخ اور بعض صوفیاء نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا۔ اور بعض دوسروں نے حرام و حلال کی تمیز ہی ختم کردی اور سود جیسی حرام چیز کو جسے ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا ہے اسے حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ اور بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیار خود سنبھال لئے اور ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ چوتھی شق عمل صالح کی تھی۔ تو غالباً اس شق میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی۔ دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کردیئے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب حاہ وھل لتی اور بیشمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آگئے۔ انہی میں سے ایک تقلید شخصی کا عقیدہ ہے جس کے ذریعہ اماموں کو نبیوں کا درجہ دے دیا گیا یا ان سے بھی بڑھ کر سمجھا گیا۔ گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کرکے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے سینکڑوں اور ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کو راہ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہ حق آج بھی اسی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا : اصل دین تمام پیغمبروں کا ایک ہے، البتہ بعض وقتی احکام میں فرق ہوسکتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب کا دین اسلام ہے اور ان کے پیروکار سب امت مسلمہ ہیں۔ جس کے چند بنیادی اصول یہ ہیں : 1 توحید، یعنی عبادت صرف الل... ہ کی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ 2 قیامت، یعنی مرنے کے بعد سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے عمل کا بدلا پانا ہے۔ 3 اکل حلال، یعنی صرف حلال اور طیب کھانا کھانا ہے، حرام سے پوری طرح اجتناب کرنا ہے۔ 4 عمل صالح، یعنی ریا سے بچ کر خالص اللہ کے لیے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ ہر پیغمبر یہی اصول دین لے کر آیا، مگر لوگوں نے اصول دین ہی میں اختلاف کرکے سیکڑوں فرقے بنا لیے، مثلاً پہلے اصل توحید کو لے لیجیے، صرف ایک اللہ کی عبادت اور اسی سے استعانت کی جگہ کسی نے پیغمبر کو رب بنا لیا، کسی نے احبارو رہبان کو، کسی نے تین رب بنا لیے، کسی نے وحدت الوجود کا عقیدہ نکال لیا کہ ہر چیز میں رب ہے۔ کسی نے کہا، فلاں اللہ کا بیٹا ہے، کسی نے کہا، فلاں اللہ کے نور میں سے جدا شدہ نور ہے۔ کسی نے کہا، اللہ تعالیٰ بزرگوں اور ولیوں میں اتر آتا ہے۔ کسی نے کہا، بزرگ ترقی کرکے رب بن جاتے ہیں۔ اللہ کے سوا کئی ہستیوں کو عالم الغیب اور مختار کل تسلیم کیا گیا۔ حتیٰ کہ انسان نے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، جن بھوتوں، قبروں اور آستانوں سے وابستہ کردیا اور ان کے آگے سر جھکانے اور انھی سے مرادیں مانگنے لگا۔ پیغمبروں کی لائی ہوئی توحید پر بہت کم لوگ قائم رہے۔ دوسرا اصل قیامت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے دوبارہ جی اٹھنے ہی کا انکار کردیا اور جنھوں نے اسے تسلیم کیا انھوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ کسی نے کہا، ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں، لہٰذا ہمیں عذاب کیسے ہوسکتا ہے ؟ بعض لوگوں نے جبری سفارش کا عقیدہ وضع کرلیا کہ اگر فلاں مرشد کی بیعت کرلی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے بتوں یا دیوتاؤں سے وابستہ کرلیا۔ نصاریٰ نے کفارے کا عقیدہ گھڑ لیا کہ مسیح (علیہ السلام) ہم گناہ گاروں کے کفارے کے طور پر سولی چڑھ گئے، اب ان کے نام لیواؤں کے سب گناہ معاف ہیں۔ بعض پادری حضرات اس دنیا ہی میں لوگوں سے رقمیں بٹور کر انھیں معافی نامے جاری کرنے لگے اور بعض لوگوں نے عقیدہ گھڑا کہ اگر فلاں قبر کے بہشتی دروازے کے نیچے سے عرس کے دن گزرا جائے تو یقیناً نجات ہوجائے گی۔ سستی نجات کے ایسے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔ تیسرا اصل حلال و طیب کھانا تھا، اس میں بھی لوگوں نے افراط و تفریط کی راہ پیدا کرلی۔ راہبوں، جوگیوں اور بعض صوفیوں نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا اور بعض دوسروں نے حلال و حرام کی تمیز ہی ختم کردی اور سود اور قوم لوط کے عمل جیسی حرام اشیاء کو، جنھیں ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا، حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ، بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیارات خود سنبھال لیے۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ چوتھا اصل عمل صالح ہے، غالباً اس اصل میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی، دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کردیے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب جاہ و مال تھی۔ چناچہ بیشمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آگئے، ہر فرقے نے اپنے پیشوا کی بات انبیاء کی بات کی طرح حرف آخر قرار دے دی۔ گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کر کے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے، سیکڑوں ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے، حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کر راہ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہ حق آج بھی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو۔ (تیسیرالقرآن از کیلانی (رض) بتصرف) كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ : ” فَرِحُوْنَ “ بہت خوش۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص ہر حال میں اپنے گروہ کو قائم رکھنے پر اڑ جاتا ہے تو اس کے دل میں حقیقت کی تلاش کا جذبہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور اسے اپنے دھڑے ہی کی ہر بات درست معلوم ہوتی ہے اور وہ اسی پر خوش رہتا ہے، خواہ کتنی غلط ہو اور دوسرے کی بات خواہ کتنی صحیح ہو اسے غلط معلوم ہوتی ہے۔ افسوس ! مسلمان بھی خیر القرون کے بعد کتاب وسنت پر ایک جماعت رہنے کے بجائے فرقوں میں بٹ گئے۔ کچھ عقائدی فرقے، کچھ فقہی فرقے اور کچھ صوفی فرقے اور ہر ایک اپنے دھڑے پر اتنی سختی سے قائم ہے کہ اس کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی صریح آیت، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث بھی پیش کی جائے تو وہ یہ کہہ کر اسے ماننے سے انکار کر دے گا کہ کیا ہمارے بڑوں کو اس کا علم نہ تھا ؟ اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ شاید مسیح (علیہ السلام) ہی اس امت کو کتاب و سنت پر جمع فرما سکیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا But they split up ways from one another (dividing themselves) into factions - 23:53). The word زُبُر is the plural of زُبُور meaning a book, and the verse would mean that Allah had commanded all prophets and their followers to adhere to the one and only faith revealed by Him in all matters relating to the basic principles and beliefs. But the followers o... f different prophets split up into groups and sects and each one of them chose a different way of life and adopted a different book in which the beliefs of each group and sect were recorded. Sometimes زبر is used for the plural of زُبرَہ (zubrah) meaning |"fragment|" or |"group|". This meaning is more appropriate here and the meaning of the verse would be that these people were divided into sects even in the matter of fundamental beliefs of their religion. It should be noted that the difference of opinion among the mujtahidin (competent Shari` ah Scholars) in some minor issues is not included in this division which is condemned in this verse, because these differences do not cause a division of the religion, nor do the people maintaining these differences become separate sects. Giving these interpretative and subsidiary differences a sectarian colour is the height of ignorance and no religious scholar would support it.  Show more

فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا، زبر، زبور کی جمع ہے جو کتاب کے معنے میں آتا ہے اس معنے کے اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو سب انبیاء اور ان کی امتوں کو اصول اور عقائد کے مسائل میں ایک ہی دین اور طریقہ پر چلنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر امتوں نے اس کو نہ مانا اور آپس میں ... ٹکڑے مختلف ہوگئے ہر ایک نے اپنا اپنا طریقہ الگ اور اپنی کتاب الگ بنا لی۔ اور زبر کبھی زبرہ کی جمع بھی آتی ہے جس کے معنے قطعہ اور فرقہ کے ہیں۔ یہی معنے اس جگہ زیادہ واضح ہیں اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ لوگ عقائد اور اصول میں بھی مختلف فرقے بن گئے لیکن فروعی اختلاف ائمہ مجتہدین کا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ ان اختلافات سے دین و ملت الگ نہیں ہوجاتا اور ایسا اختلاف رکھنے والے الگ الگ فرقے نہیں کہلاتے۔ اور اس اجتہادی اور فروعی اختلاف کو فرقہ واریت کا رنگ دینا خالص جہالت ہے جو کسی مجتہد کے نزدیک جائز نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ زُبُرًا۝ ٠ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۝ ٥٣ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) ا... لقطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) تو ان امتوں نے اپنے دین میں اپنا طریقے سے الگ الگ مختلف فرقے بنائے، جیسے یہود، نصاری، مشرکین، مجوس، ہر ایک گروہ اور جماعت کے پاس جو دین ہے وہ اسی سے خوش ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط) ” اَمر سے یہاں مراد ” دین “ ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ اور وہ یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ ناموں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48. This is not a mere statement of a fact, but it is a link of the same argument which is being put forward from the very beginning of the Surah. The argument is this: Islam has been the real and original religion of all the Prophets from Noah to Jesus (peace be upon them all), because all of them brought and taught the same doctrines of Tauhid and the Hereafter. On the contrary, all the other re... ligions are the perversions of the real and original religion, which has been tampered with in many ways. Therefore, those who are following the perverted religions are in the wrong and not the Prophet (peace be upon him) who is inviting them to the real and original religion.  Show more

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :48 یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغاز سورہ سے چلا آ رہا ہے ۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء یہ توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں ، تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسان... ی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنالی گئی ہیں ۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:53) فتقطعوا : ف ترتیب کا ہے تقطعوا ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ تقطع (تفعل) سے اور تقطع بمعنی قطع ہے جیسے تقدم بمعنی قدم۔ یعنی انہوں نے کاٹ دیا ۔ انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ انہوں نے توڑ دیا۔ امرہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ امر بمعنی معاملہ۔ کام۔ حکم۔ امرہم ای امر دینہم۔ زبرا۔ الزبرۃ لوہے کی بڑی سل کو ک... ہتے ہیں اور اس کی جمع زبرآتی ہے جیسے اتونی زبر الحدید (18:96) لوہے کی سلیں مجھے لادو ! کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کی جمع زبر آتی ہے استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو بھی زبر کہا جاتا ہے (آیہ ہذا) ۔ زبر بمعنی کتب۔ اوراق بھی آیا ہے اس صورت میں یہ زبور کی جمع ہے جیسے وانہ لفی زبر الاولین (96: 196) اور اس کا ذکر پہلے لوگوں کی کتابوں میں ہے ! زبرا۔ امرہم سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ فتقطعوا امرہم بینہم زبرا۔ پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا۔ ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع گذشتہ پیغمروں کی امتیں ہیں۔ بما لدیہم۔ میں ما بمعنی الذی ہے۔ فرحون۔ فرح کی جمع۔ خوش۔ اترانے والے۔ صفت مشبہ کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ کل حزب بما لدیہم فرحون۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی اپنے آپ کو برحق اور دوسرے کو باطل پرست سمجھتا ہے۔ 10 ۔ یعنی عذاب یا کفر پر موت کے وقت تک، یہ تہدید ہے تعیین نہیں ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تمام انبیاء (علیہ السلام) کی ایک ہی دعوت تھی کہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچو۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) رشتہ نبوت کے حوالے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور سب کے سب اپنے رب کی طرف بلانے والے تھے۔ ہر نبی اپنے زمانے میں لوگوں کو صرف اپنے رب کی طرف بلاتا تھا۔ لیکن انبیاء کرام کے د... نیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کے علمی اور روحانی ورثاء نے ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے نہ صرف ان کی امتوں کو پارہ پارہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے لائے ہوئے دین اور شریعت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ انبیاء کے بعد ان کی امتوں کے علماء کے فتوے ٰ اور ان کی فقہ ہی اصل دین قرار پائی۔ علماء نے اپنی اپنی سوچ اور فقہ کو دین قرار دیا اور اس کے ماننے والے اپنے اپنے گروہ اور فقہ پر فخر کرنے لگے جن کے بارے میں سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آپہنچے۔ دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا ہے کہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ اے نبی آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہوگا وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ [ الانعام : ١٥٩] یاد رہے کہ دین میں فرقہ واریت اور گروہ بندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی مسئلہ میں غلوّ کیا جائے یا اس میں اپنی طرف سے رخصت نکالی جائے۔ جب کسی عالم کی یہ سوچ اور کردار ہوجائے تو پھر فرقہ واریت معرض وجود میں آتی ہے۔ فرقہ واریت میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے وہ کسی عالم یا امام کی سوچ پر حد سے زیادہ اعتماد اور اس پر فخر کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر پہلی امتیں گروہ بندی کا شکار ہوئیں اور اسی وجہ سے امت محمدیہ میں انتشار اور گروہ بندی پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن وسنت کی دعوت دی جائے۔ اسے تسلیم کرنا تو درکنار ایسے لوگ اپنی فقہ پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ٢۔ ہر کوئی اپنی فقہ اور گروہ پر فخر کرتا ہے۔ ٣۔ جو لوگ دین میں گروہ بندی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اختلاف اور فرقہ پرستی کے نقصانات : ١۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ : ١٣) ٢۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمہیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران : ١٥٣) ٣۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ (آل عمران : ١٠٥) ٤۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٥۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام : ١٥٩) ٦۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم : ٣٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٥٠ ایک نظر میں یہ اس کا سورة کا تیسرا سبق ہے ۔ رسولوں کے حالات بیان کرنے کے بعد اب اس میں لوگوں کے حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جب رسول آخر تشریف لائے تو لوگوں کے یہ حالات تھے۔ لوگوں کے درمیان شدید مذہبی اختلافات تھے۔ عقیدہ توحید جسے تمام بالا تفاق بیان کرتے آئے تھے اس میں بھی اختلافات...  تھے۔ رسول خاتم النبین جس حق کو لے آئے ہیں اس کے ساتھ بھی لوگوں نے ایسا غفلت کا سلوک کیا حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس نئی دعوت اور اس کے ماننے والوں پر غور کرتے ۔ اہل ایمان کا کردار ان کے سامنے تھا۔ وہ اللہ کی بندگی کرتے تھے ، نیک کام کرتے تھے ، خوف آخرت رکھتے تھے۔ اس تصور آخرت سے ان کے دل کانپتے تھے کہ ایک دن انہوں نے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ یہ دو کرایہ دار ہیں دو قسم کے ، ان لوگوں کے درمیان مکمل تقابل ہے ۔ اہل ایمان جاگتے ہیں اور ڈرتے ہیں اور اہل کفر غافل اہور مد ہوش ہیں۔ اس سورة کے اس سبق میں ان کے موقف پر تنقید کی گئی ہے۔ ان کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے ۔ ان کے وجدان کو جگایا گیا ہے کہ وہ نفس و آفاق میں موجود دلائل ایمان پر غور کریں ۔ پھر ان کے ہاں مسلمہ عقائد کو لیا گیا ہے اور انہی سے ان کے خلاف حجت قائم کی گئی ہے ۔ آخری میں کہہ دیا گیا ہے کہ چھوڑو انہیں ان کے حال پر کہ یہ اپنے مقررہ انجام تک پہنچ جائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی راہ پر گامزن رہیں اور ان کے اس عناد اور ہٹ دھری سے دل گرفتہ پریشان نہ ہوں بلکہ ان کے برے رویے کے مقابلے میں اچھا رویہ اختیار کریں اور شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کریں جو ان لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ” فَتَقَطَّعُوْا الخ “ یہ جواب سوال مقدر ہے سوال یہ تھا جب تمام انبیاء (علیہم السلام) کی ملت ایک تھی اور سب توحید پر متفق تھے تو یہ اختلاف کس طرح پیدا ہوگیا تو اس کا جواب دیا گیا کہ سب لوگوں اور امتوں کے لیے اللہ نے ایک ہی دین مقرر فرمایا تھا اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں کی بنیاد ت... وحید پر تھی لیکن امتوں کے دنیا پرست عالموں اور دین حق کے باغی مولویوں نے اللہ کی توحید میں اختلاف ڈال دیا۔ اور دین واحد کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور لوگوں کو مختلف اور متضاد فرقوں میں تقسیم کردیا۔ ” فَتَقَطَّعُوْا “ کی ضمیر فاعل باغی اور گمراہ پیشواؤں سے کنایہ ہے کیونکہ ہر زمانے میں انہوں نے ہی توحید میں اختلاف ڈالا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْه اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَتْھُمُ الْبَیِّنٰت بَغْیًا بَیْنَھُمْ الایة “ (بقرہ ع 26) ۔ اور آل عمران (رکوع 2) میں فرمایا۔ ” وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ الایة “۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ یہ لوگوں کو مختلف فرقوں میں متفرق کرنے والے گمراہ اور باغی مولی اور پیر ہی تھے۔ ” زُبُرًا “ زبور کی جمع ہے جس کے معنی یہاں فرقہ اور جماعت کے ہیں۔ زبرا ای فرقا و قطعا مختلفۃ (خازن ج 5 ص 39) 46:۔ ” کُلُّ حِزْبٍ الخ “ ان مختلف فرقوں میں سے ہر فرقہ اپنے خود ساختہ دین و عقیدہ پر مطمئن ہے اپنے کو حق پر اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے۔ والمراد انھم معجوبون بہ معتقدون انہ الحق (روح ج 18 ص 42) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) دین کی وحدت اور اپنی ربوبیت اور تقوے کا اظہار کرنے کے بعد اشاد ہوتا ہے پھر لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اپنا دین آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اب ہر فرقہ کے لوگوں کے پاس جو دین ہے وہ اسی پر خوش اور مگن ہورہے ہیں یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ سب لوگ ایک ہی دین پر قائم رہتے اور پیغمبروں کے زمانے میں جو وقتی طور پر ف... روعی مسائل میں کچھ اختلافات ضرورت کے اعتبار سے ہوتے ہیں ان سے متاثر نہ ہوتے اور اصول میں سب ایک رہتے لیکن ہوا یہ کہ لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لئے اور اب ہر فرقہ اپنی شریعت الگ بنائے بیٹھا ہے اور اسی پر مگن ہورہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ بس حق میرے ہی پاس ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر پیغمبر کے ہاتھ اللہ نے جو اس وقت کے لوگوں میں بگاڑ تھا سنوار فرمایا ہے پیچھے لوگوں نے جانا ان کا حکم جدا جدا ہے آخر پیغمبر کے ہاتھ سب بگاڑ کا سنوارا کھٹا بتادیا اب سبمل کر ایک دین ہوگیا۔ 12 یعنی لوگوں کی خرابی کو دور کرنے کی غرض سے جو ہر پیغمبر کو اصلاحی باتیں بتائی گئی تھیں وہ محض وقتی تھیں اور ان لوگوں کے لئے خاص تھیں جن کی برائی اور خرابی کو دور کرنے کی غرض سے اس پیغمبر کو بھیجا گیا تھا وہ کوئی مستقل دین نہ تھا۔ لوگ اپنی نادانی اور خوش فہمی سے یہ سمجھ گئے کہ ہو پیغمبر کا دین جدا جدا ہے پھر انہوں نے باہم ٹکڑے ٹکڑے کرکے پیغمبروں کی تعلیم کو باہم تقسیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مستقل قانون دے کر بھیجا تاکہ قیامت تک وہ قانون کام دے۔ دین کی اصل تو ایک ہی تھی فروعی مسائل کے لئے بھی دین کی تکمیل کردی گئی اور اب سب کا ایک ہی دین ہوگیا لیکن لوگ اتنی صاف بات کو بھی نہیں سجھتے اور ہر فرقہ اپنے حصہ پر ریجھ رہا ہے اور اپنی جہالت اور حماقت سے اسی کو دین سمجھ رہا ہے جو اس کے پاس ہے تو آگے اس کا مداوا فرمایا۔  Show more