Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 63

سورة المؤمنون

بَلۡ قُلُوۡبُہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا وَ لَہُمۡ اَعۡمَالٌ مِّنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ ہُمۡ لَہَا عٰمِلُوۡنَ ﴿۶۳﴾

But their hearts are covered with confusion over this, and they have [evil] deeds besides disbelief which they are doing,

بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں اور ان کے لئے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں جنہیں وہ کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ ... Nay, but their hearts are covered, meaning because of negligence and misguidance, ... مِّنْ هَذَا ... from this. means, the Qur'an which Allah revealed to His Messenger. ... وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِن دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ and they have other deeds, besides which they are doing. Al-Hakam bin Aban narrated from Ikrimah, from Ibn Abbas that; وَلَهُمْ أَعْمَالٌ (and they have other deeds), means, evil deeds apart from that, i.e., Shirk, هُمْ لَهَا عَامِلُونَ (which they are doing), means, which they will inevitably do. This was also narrated from Mujahid, Al-Hasan and others. Others said that this phrase وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِن دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ (And they have other deeds, besides which they are doing), means: It was decreed that they would do evil deeds, and they will inevitably do them before they die, so that the word of punishment may be justified against them. A similar view was narrated from Muqatil bin Hayyan, As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. This is a clear and appropriate meaning. We have already quoted from the Hadith of Ibn Mas`ud: فَوَ الَّذِي لاَ إِلهَ غَيْرُهُ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا By Him besides Whom there is no other God, a man may do the deeds of the people of Paradise until there is no more than a forearm's length between him and it, then the decree will overtake him and he will do the deeds of the people of Hell, then he will enter Hell... حَتَّى إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] یعنی یہ بات ان کے ذہن میں آتی ہی نہیں کہ ان کی پوری ہسٹری شیٹ ساتھ ہی ساتھ تیار ہو رہی ہے۔ لہذا وہ اپنے دنیا کے دوسرے کاموں میں ہی ایسے منہمک اور مگن ہیں کہ انھیں اس نامہ اعمال اور اس کی بنا پر آخرت کی بازپرس کا خیال تک نہیں آتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ ھٰذَا ۔۔ : ” غَمْرَةٍ “ میں تنوین تہویل کی ہے، اس لیے ترجمہ ” سخت غفلت “ کیا ہے۔ ” ھذا “ کا اشارہ ان چیزوں کی طرف ہے جو اس سے پہلے مذکور ہیں، یعنی بات وہ نہیں جو کفار نے سمجھ رکھی ہے کہ اموال و اولاد کی صورت میں انھیں اللہ کی طرف سے بھلائیاں مل رہی ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل بھلائیوں کے حصول کا سبب بننے والی صفات سے (یعنی خشیت الٰہی، آیات پر ایمان، شرک سے اجتناب اور کوئی بھی عمل کرتے ہوئے اس کے قبول نہ ہونے کا خوف رہنا) اور قیامت کے دن کتاب اعمال کے پیش ہونے سے سخت غفلت میں ہیں۔ پھر ان کا جرم یہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی اعمال ہیں جنھیں وہ ہر حال میں کرنے والے ہیں، تاکہ ان پر حجت تمام ہو اور وہ اپنے کیے کا خمیازہ بھگتیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَ‌ةٍ (But their hearts are in ignorance) Lexically غَمْرَ‌ةٍ means deep water where a person may drown or be overwhelmed. For this reason the word is also used to signify a covering or something that conceals an object. In this verse the word means the ignorance in which the hearts of the infidels are submerged and hidden so that no light can reach them. وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ And they have deeds, other than that - 23:63 It means that in addition to their rejection of the Oneness of Allah, and their denial of the true faith, they engage themselves in other sinful deeds.

خلاصہ تفسیر (یہ تو اوپر مومنین کی حالت سنی مگر کفار ایسے نہیں ہیں) بلکہ (برعکس) ان کفار کے قلوب اس دین کی طرف سے (جس کا ذکر بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ میں ہے) جہالت (اور شک) میں (ڈوبے ہوئے ہیں (جن کا حال اوپر بھی معلوم ہوچکا فَذَرْهُمْ فِيْ غَمْرَتِهِمْ ) اور اس (جہالت و انکار) کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی (برے برے خبیث) عمل ہیں جن کو یہ (مسلسل) کرتے رہتے ہیں (یہ لوگ شرک اور اعمال سیہ کے برابر خوگر رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو (جن کے پاس مال و دولت اور نوکر چاکر سب کچھ ہے) عذاب (بعد الموت) میں دھر پکڑیں گے (اور غریب غرباء تو کس گنتی میں ہیں اور وہ تو عذاب سے کیا بچاؤ کرسکتے ہیں، غرض یہ کہ جب ان سب پر عذاب نازل ہوگا) تو فوراً چلا اٹھیں گے (اور سارا انکار و استکبار جس کے اب عادی ہیں کافور ہوجاوے گا اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) اب مت چلاؤ (کہ کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) ہماری طرف سے تمہاری مطلق مدد نہ ہوگی (کیونکہ یہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں ہے جس میں چلانا اور عاجزی کرنا مفید ہو جو دار العمل تھا اس میں تو تمہارا یہ حال تھا کہ) میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر (رسول کی زبان سے) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے تکبر کرتے ہوئے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان) میں بیہودہ بکتے ہوئے (کہ کوئی اس کو سحر کہتا تھا کوئی شعر کہتا تھا اور مشغلہ کا یہی مطلب ہے پس تم نے دار العمل میں جیسا کیا آج دار الجزاء میں ویسا بھگتو۔ اور یہ لوگ جو قرآن کی اور صاحب قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں تو اس کا کیا سبب ہے) کیا ان لوگوں نے اس کلام (الٰہی) میں غور نہیں کیا (جس سے اس کا اعجاز ظاہر ہوجاتا اور یہ ایمان لے آتے) یا (تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ) ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی (مراد اس سے احکام الٰہیہ کا آنا ہے جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ ان کی امتوں کو یہی احکام دیئے جاتے رہے ہیں کقولہ تعالیٰ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ، پس تکذیب کی یہ وجہ بھی باطل ٹھہری اور یہ دو وجہ تو قرآن کے متعلق ہیں۔ آگے صاحب قرآن کے متعلق فرماتے ہیں یعنی) یا (وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے رسول (کی صفت دیانت و صدق و امانت) سے واقف نہ تھے اس وجہ سے ان کے منکر ہیں، (یعنی یہ وجہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کے صدق و دیانت پر سب کا اتفاق تھا) یا (یہ وجہ ہے کہ) یہ لوگ (نعوذ باللہ) آپ کی نسبت جنون کے قائل ہیں (سو آپ کا اعلیٰ درجہ کا صاحب عقل اور صاحب الرائے ہونا بھی ظاہر ہے۔ سو واقع میں ان میں سے کوئی وجہ بھی معقول نہیں) بلکہ (اصلی وجہ یہ ہے کہ) یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ حق بات سے نفرت رکھتے ہیں۔ (بس یہ تمام تر وجہ ہے تکذیب کی اور عدم اتباع حق کی اور یہ لوگ اس دین حق کا اتباع تو کیا کرتے یہ تو اور الٹا یہ چاہتے ہیں کہ وہ دین حق ہی ان کے خیالات کے تابع کردیا جاوے اور جو مضامین قرآن میں ان کے خلاف ہیں ان کو خارج یا ترمیم کردیا جاوے کقولہ تعالیٰ فی سورة یونس قال الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ ) اور (بفرض محال) اگر (ایسا امر واقع ہوجاتا) اور دین حق ان کے خیالات کے تابع (اور موافق) ہوجاتا تو (تمام عالم میں کفر و شرک پھیل جاتا اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ حق تعالیٰ کا غضب تمام عالم پر متوجہ ہوجاتا اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ) تمام آسمان اور زمین اور جو ان میں (آباد) ہیں سب تباہ ہوجاتے (جیسا قیامت میں تمام انسانوں میں گمراہی عام ہوجانے کے سبب اللہ تعالیٰ کا غضب بھی سب پر عام ہوگا اور غضب الٰہی عام ہونے سے سب کی ہلاکت بھی عام ہوگی اور اول تو کسی امر کا حق ہونا مقتضی ہے اس کے وجوب قبول کو گو نافع بھی نہ ہو۔ اور اس کا قبول نہ کرنا خود عیب ہے مگر ان لوگوں میں صرف یہی ایک عیب نہیں کہ حق سے کراہت ہو) بلکہ (اس سے بڑھ کر دوسرا عیب اور بھی ہے کہ حق کا اتباع جو انہیں کے نفع کا سامان ہے اس سے دور بھاگتے ہیں بس) ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (اور نفع) کی بات بھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے بھی روگردانی کرتے ہیں یا (علاوہ وجوہ مذکورہ کے ان کی تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ ان کو یہ شبہ ہوا ہو کہ) آپ ان سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں تو (یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب آپ جانتے ہیں کہ) آمدنی تو آپ کے رب کی سب سے بہتر ہے اور وہ سب دینے والوں سے اچھا ہے (تو آپ لوگوں سے کیوں مانگتے ہیں) اور (خلاصہ ان کی حالت کا یہ ہے کہ) آپ تو ان کو سیدھے رستہ کی طرف (جس کو اوپر حق کہا ہے) بلا رہے ہیں اور ان لوگوں کی جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ اس (سیدھے) رستہ سے ہٹے جاتے ہیں (مطلب یہ کہ حق ہونا اور مستقیم ہونا اور نافع ہونا یہ سب مقتضیات ایمان کے جمع ہیں اور جو وجوہات مانع ہو سکتی تھیں وہ کوئی موجود نہیں، پھر ایمان نہ لانا اشد درجہ کی جہالت اور ضلالت ہے) اور (ان کی قسادت وعناد کی یہ حالت ہے کہ جس طرح یہ لوگ آیات شرعیہ سے متاثر نہیں ہوتے اسی طرح آیات قہریہ مصائب و بلیات سے بھی متاثر نہیں ہوتے گو مصیبت کے وقت طبعی طور پر ہم کو پکارتے بھی ہیں لیکن وہ دفع الوقتی ہوتی ہے چنانچہ) اگر ہم ان پر مہربانی فرما دیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو وہ لوگ (پھر) اپنی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے اصرار کرتے رہیں (اور وہ قول وقرار جو مصیبت میں کئے تھے سب ختم ہوجاویں کقولہ تعالیٰ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا الخ وقولہ تعالیٰ اِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ الخ) اور (شاہد اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات) ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا ہے سو ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے (پورے طور پر) فروتنی کی اور نہ عاجزی اختیار کی (پس جب عین مصیبت میں اور مصیبت بھی ایسی سخت جس کو عذاب کہا جاسکے جیسے قحط جو مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے ہوا تھا انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کی تو بعد زوال مصیبت کے تو بدرجہ اولیٰ ان سے اس کی توقع نہیں مگر ان کی یہ ساری بےپروائی و بیباکی ان مصائب تک ہے جن کے عادی ہوچکے ہیں) یہاں تک کہ ہم جب ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے (جو کہ فوق العادة ہو خواہ دنیا ہی میں کہ کوئی غیبی قہر آ پڑے یا بعد الموت کہ ضرور ہی واقع ہوگا) تو اس وقت بالکل حیرت زدہ رہ جاویں گے (کہ یہ کیا ہوگیا اور سب نشہ ہرن ہوجاوے گا) معارف و مسائل غَمْرَةٍ ، ایسے گہرے پانی کو کہتے ہیں جس میں آدمی ڈوب جائے اور جو اس میں داخل ہونے والے کو اپنے اندر چھپا لے اسی لئے لفظ غمرہ پردہ اور ہر ڈھانپ لینے والی چیز کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مشرکانہ جہالت کو غمرہ کہا گیا ہے جس میں ان کے دل ڈوبے ہوئے اور چھپے ہوئے ہیں کہ کسی طرف سے ان کو روشنی کی کرن نہیں پہنچتی۔ وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ، یعنی ان کی گمراہی کے لئے تو ایک شرک و کفر ہی کا پردہ غفلت کافی تھا مگر وہ اسی پر بس نہیں کرتے اس کے ساتھ دوسرے اعمال خبیثہ بھی مسلسل کرتے ہی رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ قُلُوْبُہُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ مِّنْ ھٰذَا وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ۝ ٦٣ غمر أصل الغَمْرِ : إزالة أثر الشیء، ومنه قيل للماء الکثير الذي يزيل أثر سيله، غَمْرٌ وغَامِرٌ ، قال الشاعر : 342- والماء غَامِرُ جدّادها «1» . وبه شبّه الرّجل السّخيّ ، والفرس الشّديد العدو، فقیل لهما : غَمْرٌ كما شبّها بالبحر، والغَمْرَةُ : معظم الماء الساترة لمقرّها، وجعل مثلا للجهالة التي تَغْمُرُ صاحبها، وإلى نحوه أشار بقوله : فَأَغْشَيْناهُمْ [يس/ 9] ، ونحو ذلک من الألفاظ قال : فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون/ 54] ، الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات/ 11] ، وقیل للشَّدائِد : غَمَرَاتٌ. قال تعالی: فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام/ 93] ، ورجل غَمْرٌ ، وجمعه : أَغْمَارٌ. والغِمْرُ : الحقد المکنون «2» ، وجمعه غُمُورٌ والْغَمَرُ : ما يَغْمَرُ من رائحة الدّسم سائر الرّوائح، وغَمِرَتْ يده، وغَمِرَ عِرْضُهُ : دنس، ودخل في غُمَارِ الناس وخمارهم، أي : الذین يَغْمُرُونَ. والْغُمْرَةُ : ما يطلی به من الزّعفران، وقد تَغَمَّرْتُ بالطّيب، وباعتبار الماء قيل للقدح الذي يتناول به الماء : غُمَرٌ ، ومنه اشتقّ : تَغَمَّرْتُ : إذا شربت ماء قلیلا، وقولهم : فلان مُغَامِرٌ: إذا رمی بنفسه في الحرب، إمّا لتوغّله وخوضه فيه کقولهم يخوض الحرب، وإمّا لتصوّر الغَمَارَةِ منه، فيكون وصفه بذلک کو صفه بالهوج «3» ونحوه . ( غ م ر ) الغمر ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کے اثر کو زائل کردینے کے ہیں ۔ اسی سے غمرۃ غامر اس زیادہ پانی کو کہتے ہیں جس کا سیلاب ہر قسم کے اثرات کو چھپا کر زائل کردے شاعر نے کہا ہے ( المتقاریب ( 330 ) والماء غامر خدا دھا اور پانی اپنے گڑھوں کو چھپانے والا تھا ۔ اسی مناسبت سے فیاض آدمی اور تیز رو رگھوڑی کو بھی غمر کہا جاتا ہے جس طرح کہ تشبیہ کے طور پر اسے بحر کہہ دیا جاتا ہے اور غمرۃ اس پانی کثیر کو کہتے ہیں جس کی اتھا ہ نظڑ نہ آئے ۔ اور یہ اس جہالت کے لئے ضرب المثل ہے جو آدمی پر چھا جاتی ہے اور قرآن پاکنے وغیرہ الفاظ سے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون/ 54] تو ان کو ۔۔۔۔ ان کی غفلت ہی میں رہنے دو ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات/ 11] جو بے خبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ اور غمرات کے معنی شدائد کے ہیں ( کیونکہ وہ بھی انسان پر ہجوم کر کے اسے بد حواس کردیتے ) ہیں فرمایا : ۔ فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام/ 93]( جب موت کی سختی میں ۔ اور نا تجربہ کار آدمی کو بھی غمر کہا جاتا ہے والجمع اغمار نیز غمر کے معنی پوشیدہ کینہ کے بھی آتے ہیں ۔ والجمع غمور اور غمر کے معنی چربی کی بدبو کے آتے ہیں جو تمام چیزوں کی بو پر غالب آجاتی ہے غمرت یدہ اس کا ہاتھ میلا ہوگیا غمر عر ضہ اس کی عزت پر بٹہ لگ گیا محاورہ ہے ۔ وہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوگیا ۔ الغمرۃ زعفران سے تیار کیا ہوا طلا جو چہرے پر ملتے ہیں تغمرت باالطیب میں نے ( اپنے چہرہ پر ) زعفرانی خوشبو اور پانی پینے کے چھوٹے پیا لے کو غمر کہا جاتا ہے اسی سے تغمرت ہے جس کے معنی تھوڑا سا پانی پینے کے ہیں اور کسی شخص کو مغافر اس وقت کہتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی کی آگ میں جھونک دے اور یہ یا تو دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ فلان یخوض الحرب کا محاورہ ہے اور یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اور اس صؤرت میں اسے مغافر کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ اناڑی آدمی کو ھوج وغیرہ کہا جاتا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولھم اعمال من دون ذلک ھم لھا عاملون اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے مختلف ہیں (جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) وہ اپنے یہ کرتوت کئے چلے جائیں گے) قتادہ اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اعمال سے مراد ایسی خطائیں ہیں جو حق کو نظر انداز کر کے کی جائیں حسن اور مجاہد سے منقول ہے۔” جو برے اعمال وہ ابھی کر رہے ہیں ان کے علاوہ بھی ایسے اعمال ہیں جنہیں یہ لازماً کر کے رہیں گے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) بلکہ ان مکہ والوں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے دل اس قرآن کریم کی طرف سے جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور جن نیکیوں کا آپ ان کو حکم دیتے ہیں ان کے علاوہ برائیاں ان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں جن کو یہ دنیا میں اپنے وقت آنے تک کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ ) ” اوپر اہل ایمان کے جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کے مشاغل اور سرگرمیاں ان سے یکسر مختلف ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس دین کی خدمت اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ انہیں دن رات اپنی دنیا کمانے کی فکر ہے۔ وہ اپنے وقت کاُ کل سرمایہ اپنی ساری توانائیوں سمیت خود ساختہ جھوٹے معیارات کو برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے کھپا رہے ہیں۔ اس آیت کے مضمون کی روشنی میں ہر شخص کو اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی شبانہ روز تگ و دو اور بھاگ دوڑ کا کتنا حصہ دین کے لیے ہے اور کتنا حصہ دنیا کے لیے۔ اگر کسی شخص کی تمام تر کوشش اور ساری محنت ہے ہی دنیا کے لیے ‘ اس کا نصب العین بھی دنیا ہے اور اس نے منصوبہ بندی بھی صرف اسی کے لیے کر رکھی ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ آخرت کی تیاری کرنے کے لیے فرصت کے لمحات اسے کب اور کیسے میسر آئیں گے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. They are heedless that everything they are saying and doing, is being recorded in some book and that they shall have to render an account of everything.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :58 یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں ، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے ، اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یعنی کفر اور شرک کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی بہت سے برے کام ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٣۔ ٦٧:۔ اوپر کی آیتوں میں ان کا ذکر تھا ‘ جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک قرار پاچکے ہیں ‘ ان آیتوں میں ان بدلوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو علم ازلی الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں اور ہر وقت دین کے کاموں کی طرف سے ان کے دل غافل ہیں ‘ ان آیتوں کی تفسیر بہت سی صحیح حدیثوں میں آئی ہے چناچہ صحیح بخاری میں جو روایتیں ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس وقت فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جنتی ہر شخص کا نام اہل جنت میں اور دوزخی ہر شخص کا نام اہل دوزخ میں لکھ لیا ہے تو یہ بات سن کر صحابہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت پھر نیک عمل کی کیا ضرورت ہے ہم لوگ اپنی تقدیر پر شاکر ہو نہ بیٹھ جائیں اور یقین کرلیں کہ اگر اللہ کے علم میں ہم جنتی ہوں گے تو آخر جنت میں جاویں گے آپ نے فرمایا نہیں یہ نہیں ہوسکتا بلکہ ہر شخص کا جو انجام علم الٰہی میں قرار پا چکا ہے دنیا میں وہ شخص اسی طرح کے کام بھی کرتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو شخص جس طرح کا قرار پایا ہے وہ ایک غیب کی بات ہے اس کو سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور جزا وسزا کا مدار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کا قرار دیا ہے جس طرح رزق ہر ایک شخص کا یا موت یا بیماری ہر شخص کی خدا کی طرف سے ہے مگر عالم اسباب میں اس کے سبب اور حیلے خدا نے ٹھہرا دیئے ہیں اسی طرح دنیا کے نیک و بدعمل کو اللہ نے سبب ٹھہرایا ہے اس سبب کو چھوڑ کر تقدیر پر شاکر ہونا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بےحیلہ کے دنیا میں مثلا رزق چاہے ‘ اب اس نیک وبد کی پہچان کا موقع آدمی کی آخری عمر تک ہے ‘ اسی واسطے شریعت میں خاتمہ کا بڑا اعتبار ہے ‘ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) ٢ ؎ سے اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے ٣ ؎ اور مسند امام احمد بن حنبل اور صحیح ابن حبان میں حضرت انس (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کسی شخص کو نیک عمل کرتے ہوئے دیکھ کر کوئی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہیے ‘ جب تک خاتمہ اچھا نظر نہ آوے کیونکہ بہت سے لوگ عمر بھر اچھے کام کرتے رہتے ہیں اور آخری عمر میں بگڑ کر برے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور برے کاموں پر ان کا خاتمہ ہو کر دوزخ کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور بہت سے لوگ عمر بھر برے کام کرتے ہیں اور آخر عمر میں نیک راستہ سے لگ جاتے ہیں اور نیکی پر ان کا خاتمہ ہوتا ہے اور جنتی بن جاتے ہیں اوپر یہ بیان ہوچکا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ اندازہ فرمایا ہے کہ اگر دنیا پیدا کی جاوے اور ہر شخص کو اس کے فعل کا فعل مختار کیا جاوے تو کون اچھا عمل کرے گا اور کون برا اور اسی اندازہ کو لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی کا نام تقدیر ہے دنیا میں نیک وبد فعل ہونے کے بغیر نہ اس تقدیر کے لکھے پر کچھ سزا جزا ہے ‘ نہ تقدیر کے لکھتے وقت اللہ تعالیٰ نے کسی کو کسی کام پر مجبور کیا ہے۔ جو لوگ حشر کے منکر ہیں ان کا بڑا شبہ یہ ہے کہ جب وہ مرجاویں گے اور ان کی ہڈیاں تک خاک ہوجاویں گی اور وہ خاک کچھ ہوا میں اڑ جاوے گی اور کچھ پانی کے ریلوں میں بہہ جاوے گی تو پھر وہ رواں دواں خاک کیونکر جمع ہوجاوے گی جس کا پتلا بنے گا ‘ سورة قٓ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے شبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ ان منکرین حشر کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ ان لوگوں کی خاک ہوا میں اڑ کر یا پانی میں بہہ کر کہاں جاوے گی اسی پتہ سے ان کی خاک جمع کرلی جاوے گی کیونکہ جنگل دریا کوئی چیز اس کے علم غیب اور حکم سے باہر نہیں ہے صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک شخص بڑا گنہگار تھا اس نے اپنے مرجانے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر آدھی خاک کو ہوا میں اڑا دینے اور آدھی کو دریا میں بہا دینے کی وصیت کی اور اس کے وارثوں نے وصیت کے موافق عمل بھی کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس کی خاک کے حاضر کرنے کا حکم دیا جس سے وہ خاک حاضر ہوگئی ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خاک کا پتلا بنایا اور اس میں دوبارہ روح پھونکی جس کے سبب سے وہ شخص دوبارہ زندہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس وصیت کا سبب اس سے پوچھا ‘ اس شخص نے جواب دیا اللہ تم کو خوب معلوم ہے کہ یہ کام میں نے تیرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر کر کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مغفرت فرمادی ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ جس طرح جنگل اور دریا میں سے اس شخص کی خاک حاضر ہوگئی اسی طرح منکرین حشر کی خاک جہاں ہوگی وہاں سے حاضر ہوجاوے گی۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ شرک کے وبال میں ان لوگوں سے بڑھ کر خوش حال پچھلی قومیں جب طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں جن کے قصے کئی دفعہ ان لوگوں کو سنا دیئے گئے تو ان مشرکوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے مال اور اولاد کی ترقی اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش ہے بلکہ ان لوگوں کے اس غلط خیال پر جمے رہنے کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ قرآن کی نصیحت کو دھیان سے نہیں سنتے اور نیک لوگوں کے جو کام ان کو اوپر کی آیتوں میں بتلائے گئے ہیں ‘ رات دن ان کاموں کے برخلاف کام کرتے ہیں لیکن ان میں کے بڑے بڑے خوشحال وقت مقررہ پر جب عذاب آخرت میں گرفتار ہوجاویں گے تو عذاب کی تکلیف سے بہت چلاویں گے جن پر ان کو ذلیل کرنے کے لیے یہ کہا جاوے گا کہ آج تمہاری فریاد سن کر کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکتا اور یہ بھی کہا جاوے گا کہ یہ عذاب تمہاری اسی شرارت کی سزا ہے کہ تم قرآن کی نصیحت کو سن کر الٹے قدموں بھاگتے تھے اور کعبہ کے خادم ہونے کی بڑائی جتلا کر اپنے گھروں میں راتوں کو قصے کہانیوں کی طرح قرآن اور اللہ کے رسول کی مذمت کیا کرتے تھے تَھْجُرُوْنَ کے معنی بےہودہ بکواس کے ہیں۔ (٢ ؎ صحیح مسلم ص ٢٢٤ ج ٣ کتاب القدر ) (٣ ؎ تنقیح الرواۃ ص ٢٦ باب الایمان بالقدر )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:63) بل۔ بلکہ۔ لیکن۔ قلوبہم۔ مضاف مضاف الیہ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار ہیں جن کا ذکر اوپر آیات 53 تا 56 میں آیا ہے۔ غمرۃ۔ ملاحظہ ہو اوپر آیت 54 ۔ من ھذا۔ ای من القران۔ یا اس حقیقت سے کہ ان کے جملہ احوال و افعال واقوال درج کئے جا رہے ہیں۔ من ھذا۔ ای من ھذا الدین۔ من دون ذلک۔ دون۔ بمعنی ورے۔ سوائے۔ غیر۔ جو کسی کے نیچے ہوں وہ بھی دون کہلاتا ہے۔ علامہ سیوطی کے نزدیک دون ظرف ہو کر استعمال ہوتا ہے اور فوق کی تقیض ہے ذلک کا مشار الیہ کیا ہے اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) اس کا اشارہ اوپر بیان کردہ مومنین کے اعمال صالحہ ہیں۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ ان کے اعمال مومنوں کے اعمال سے مختلف ہیں۔ (2) اس کا اشارہ ان کے دلوں کا پردہ غفلت میں پڑے رہنے کی طرف ہے (قلوبہم فی غمرۃ) اور ترجمہ یوں ہوگا : اس کے سوا (علاوہ) بھی ان کے (برے) عمل ہیں۔ (3) اس کا اشارہ من ھذا (ای القران) کی طرف ہے اور ترجمہ ہوگا :۔ اور ان کے اعمال قرآن کے معیار سے گرے ہوئے ہیں۔ ہم لھا عملون۔ جو (عمل) یہ کرتے رہیں گے۔ یعنی یہ اعمال خبیثہ یہ لوگ کرتے ہی رہیں گے (یہاں تک کہ ان کے عیاشون کو ہم عذاب میں پکڑ لیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، یا بول رہے ہیں، سب ان کے نامہ اعمال میں درج ہو رہا ہے اور ایک دن انہیں ان کا حساب دینا پڑے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ھذا “ سے اشارہ قرآن کی طرف ہو اور یہ کفار اور مشرکین قریش کو تنبیہ ہو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 3 ۔ یا وہ ” انہیں آئندہ کرنے والے ہیں “۔ واحدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں ان کے آئندہ اعمال کی خبر دی گئی ہے۔ یہی اکثر علمائے تفسیر نے بیان کی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دل ہر وقت اپنے رب اور قیامت کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں ان کے مقابلے میں مشرک اور متکبر لوگوں کے دل غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔ انسان کے دل سے اپنے رب کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ختم ہوجائے تو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ غفلت کا شکار شخص نیک کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا۔ غفلت کا بنیادی سبب دنیا کی عیش و عشرت اور مال کی ہوس ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے خوف سے عاری اور فکر آخرت سے لاپرواہ طبقہ معاشرے میں ترقی اور فیشن کے نام پر ہر قسم کی برائی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اکثر اوقات یہ طبقہ اس وقت تک ہوش کے ناخن نہیں لیتا جب تک ان پر عذاب نہیں آتا یا کسی سخت مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے یا یہ لوگ کسی سخت مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر آہ وزاری اور چیخ و پکار کرتے ہیں۔ اس وقت زبان حال انہیں پکار پکار کر کہتی ہے۔ اب چیخو، چلاّؤ لیکن اللہ تعالیٰ تمہاری مدد نہیں کرئے گا اور یہی صورت حال ان کی موت کے وقت ہوتی ہے یہ دل ہی دل میں آہ وزاری کر رہے ہوتے ہیں تو موت کے فرشتے انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج جس طرح چاہو آہ وزاریاں کرو تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ یہاں لوگوں کی غفلت کو ان کے اعمال نہ کرنے کی وجہ قرار دیا گیا۔ غفلت کرنے والوں میں سب سے پیش پیش ہمیشہ مال دار طبقہ ہوا کرتا ہے کیونکہ عوام میں انہی کے ذریعے عیاشی اور فحاشی اور شریعت سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ عذاب تو سب پر آتا ہے لیکن مال دار طبقہ کو احساس دلانے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ ہم ان کے سرمایہ داروں کو پکڑتے ہیں۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ تا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔ ) “ مسائل ١۔ غافل لوگ اکثر برے کام کرتے ہیں۔ ٢۔ مال دار طبقہ کی اکثریت غفلت کی زندگی گزارتا ہے۔ ٣۔ اللہ کا عذاب نازل ہوجائے تو پھر انسان کی آہ وزاری کام نہیں آتی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے وقت کوئی مدد کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن عذاب کے وقت کوئی مددگار نہیں ہوتا : ١۔ بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ عذاب کے وقت کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکے گا۔ ( الملک : ٢٨) ٣۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء : ٥٦) ٤۔ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ خیر خواہ اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٥) ٥۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء : ١٤٥) ٦۔ اس دن کافر لوگ جان لیں گے جب ان کے چہروں اور پشتوں سے آگ ہٹانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔ (الانبیاء : ٣٩) ٧۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدۃ : ٧٢) ٨۔ کافروں کے چہروں پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل قلو بھم تھجرون (آیت نمبر ٦٢ تا ٦٧) یعنی یہ لوگ جن حالات میں مشغول ہیں ان میں وہ اس لیے غرق نہیں ہیں کہ پیغبران کوا ان کی طاقت سے زیادہ احکام دیتے ہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ یہ لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس سچائی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے بلکہ وہ ان دوسری راہوں پر بہتے چلے جاتے ہیں ۔ اور یہ راہیں اسلام سے متضادرا ہیں ہیں۔ ولھم اعمال من دون ذلک ھم لھا عملون (٢٣ : ٦٣) ” اور ان کے اعمال اس طریقے سے مختلف ہیں اور یہ لوگ وہ اعمال کرتے دلے جاتے ہیں “۔ اب اس منظر کو پیش کیا جاتا ہے کہ جب اللہ کا عذاب ان کو آلیتا ہے ۔ یہ عذاب بہت ہی تباہ کن ہے ، اچانک ہے دفعتہ ان کو گھیر لیتا ہے ۔ حتی اذا اخذنا متر فیھم بالعذاب اذا ھم یحشرون (٢٣ : ٦٣) ” یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کے عذاب میں پکڑ لیں گے تو پھر وہ ذکرانا شروع کردیں گے “۔ مالدار لوگوں کی روش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ بسا اوقات عیا شیوں ، مد ہوشیوں اور خر مستیوں میں بہت زیادہ غرق ہوتے ہیں اور یہ لوگ ان خر مستیوں کے انجام کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اب زرا ان کی حالت دیکھ لو کہ ان کو اچانک خدا کا عذاب آلیتا ہے اور وہ چیختے چلانے لگ جاتے ہیں ۔ اب وہ فریاد کرتے ہیں اور رحم کے طلبگا ہوتے ہیں ۔ ان کی یہ حالت اس لیے ہوتی ہے کہ عیاشی میں بدمت ، غافل ، اور متکبر اور مغرور تھے۔ اب اس شورو فغاں اور فریاد پر کچھ نرمی کرنے اور رحم کرنے کے بجائے ان کی تواضع زجرو توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ سے کی جاتی ہے۔ لا تنصرون (٢٣ : ٦٥) ” اب بند کرو ، اپنی فریاد و فغاں ، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملتی “۔ یہ منظر سامنے ہے ۔ ان مجرموں کو ڈانٹ پلائی جارہی ہے ، ان کو کسی قسم کی امداد اور نرمی سے مایوس کن جواب دیا جارہا ہے اور ساتھ ان کو یاد دلانے جارہا ہے کہ وہ کس طرح غفلت میں غرق تھے اور دعوت اسلامی کے بارے میں ان کا ردعمل کیا تھا۔ قد کانت ایتی تتلی علیکم فکنتم علی اعقابکم تنکصون (٢٣ : ٦٦) ” میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پائوں بھاگتے تھے “۔ یعنی الٹے پائوں ہٹ کر تم بھاگ جاتے تھے گویا جو کچھ پڑھ کر تمہیں سنایا جا رہا تھا وہ کوئی خطرناک بات تھی یا نہایت ہی مکروہ امر تھا جس سے علیحدہ ہونا ضروری تھا ۔ حق پر ایمان لانے سے وہ اپنے آپ کو بہت ہی برا سمجھتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ الٹنے پائوں پھر کر بھاگ جاتے تھے بلکہ وہ اپنی چو پا لوں میں رات کو جو مجالس منعقد کرتے تھے ان میں دعوت اسلامی کے بارے میں سخت نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے اور یہ ان کے لیے مذاق کا ایک موضوع تھا۔ یہ لوگ اپنی مجالس میں اسلام کے بارے میں نہایت ہی گھٹیا زبان استعمال کرتے تھے۔ یہ مجالس وہ خانہ کعبہ میں اپنے بتوں کے ارد گر بیٹھ منعقد کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم ان کی مشغولیوں کی بہت ہی خوبصورت تصویر کشی کرتا ہے جبکہ اب عذاب آنے کے بعد وہ سخت فریاد کرتے ہیں اور مدد طلب کرتے ہیں۔ قرآن ان کو یاد دلاتا ہے کہ ذر ان مجالس کو تو یاد کرو۔ یہ تصویر کشی اس انداز میں کی جاتی ہے گویا یہ واقعہ ابھی ہو رہا ہے اور وہ رات دیکھ رہے ہیں اور ان ہی حالات میں زندہ ہیں ۔ قیامت کے مناظر کی ایسی تصویر کشی قرآن کا مخصوص اسلوب ہے ۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی فی القرآن) ۔ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر اپنی مجلسوں میں اعتراضات کرتے تھے اور ایام جاہلیت کے اخلاق کے مطابق اپنے اس رویہ پر فخر کرتے تھے ، وہ اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ قرآن کی سچائی کو سمجھتے کیونکہ وہ بصیرت کے اندھے تھے ۔ حق قبول کرنا تو کجاوہ تو قرآن کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزامات لگاتے تھے ۔ یہی وجہ بات ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے ۔ ہر جاہلیت میں یہی ہوتا ہے اور یاد رہے کہ عرب جاہلیت بھی دوسری جاہلیت میں سے ایک جاہلیت تھی اور نزول قرآن تک کئی جاہلتیں آتی رہیں اور اس کے بعد بھی آتی رہیں گی۔ قیامت کے اس منظر سے قرآن کریم ان لوگوں کو دنیا کی طرف منتقل کرتا ہے ۔ یہ از سر نو اب دنیا میں ہیں۔ اس منظر میں خود ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ عجیب و غریب اور غیر معقول موقف کیوں اختیار کیا اور یہ کہ وہ کیا معقول وجہ ہے کہ یہ لوگ رسول امین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے ۔ آخر وہ کیا شبہات ہیں جو ان کے دلوں میں خلجان پیدا کرے ہیں۔ اور ان کو راہ ہدایت سے روکتے ہیں وہ کیا دلائل ہیں جن کی وجہ سے وہ امراض کرتے ہیں اور اپنی مجالس میں بکواس کرتے ہیں حالانکہ دین اسلام ایک سیدھا سادھا دین حق صراط مستقیم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا حق سے منہ موڑنا، تکبر کرنا، اور تدبر سے دوررہنا اوپر اہل ایمان کا تذکرہ فرمایا اب ان آیات میں منکرین کے احوال اور اعمال بیان فرمائے اول تو یہ فرمایا کہ ان لوگوں کے دل میں جہالت نے جگہ پکڑ رکھی ہے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ان کے دل جہالت سے بھرے ہوئے ہیں تکذیب و انکار کے علاوہ دیگر اعمال خبیثہ کا بھی ارتکاب کرتے ہیں یہ لوگ اسی حال میں رہیں گے یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو پکڑ لیں گے اور ان پر عذاب بھیج دیں گے تو فوراً چلا اٹھیں گے، جب پہلے حق کی دعوت دی گئی تبلیغ کی گئی تو حق کو ٹھکرایا اور بات نہ مانی اب جب عذاب آگیا تو چلانے لگے، ان سے کہا جائے گا اب چیخ پکار نہ کرو اب ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہ ہوگی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ تم پر میری آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو تم تکبر کرتے ہوئے الٹے پاؤں بھاگ جاتے تھے اور تم نے قرآن کو مشغلہ بنا رکھا تھا کہ اس کی شان میں بےہودہ بکواس کرتے تھے قرآن کے بارے میں باتیں بناتے تھے کوئی شخص اسے کہتا تھا کہ پرانے لوگوں کی باتیں سن لی ہیں انہیں سناتے رہتے ہیں کوئی شعر بتاتا تھا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ بہ کی ضمیر حرم کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہیں کعبہ کا متولی ہونے پر ناز تھا مکہ مکرمہ میں امن کے ساتھ رہنے اور بےخوف زندگی گزارنے کی وجہ سے اپنے کو بڑا سمجھتے تھے اور حرم میں بیٹھ کر راتوں رات مجلسیں کرتے اور اول فول بکتے تھے اور اللہ کی ہدایت کی طرف کان نہیں دھرتے تھے۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کے منکر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور انکار کا کیا سبب ہے کیا انہوں نے اس میں غور نہیں کیا اگر غور کرتے تو اس کی فصاحت اور بلاغت کو دیکھ لیتے اور اس کے مضامین عالیہ سے متاثر ہوتے، غور و فکر کے بغیر ہی جھٹلانے کا سبب یہی عدم تدبر ہے یا یہ بات ہے کہ ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جو ان کے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی ؟ مطلب یہ ہے کہ اگر انہیں پہلے سے رسولوں کی باتیں نہیں پہنچی ہوتیں اور سلسلہ نبوت و رسالت سے ناواقف ہوتے تب بھی ایک بہانہ ہوتا کہ یہ ایک نئی چیز ہے ہم اسے نہیں مانتے لیکن ان کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں ہے کیونکہ انہیں اس کا علم ہے کہ اللہ کی طرف سے نبوت اور رسالت کا سلسلہ جاری رہا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جانتے مانتے تھے حج اسی لیے کرتے تھے کہ انہوں نے سکھایا اور بتایا تھا۔ مزید فرمایا کیا یہ لوگ قرآن کی اس لیے تکذیب کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا ؟ مطلب یہ ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پہچانا ہو، بچپن سے کے کر جوانی تک پھر جوانی سے لے کر نبوت سے سر فراز ہونے تک پھر نبوت سے سر فراز ہونے سے لے کر آج تک انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے آزمایا ہے آپ کی صفات کریمہ اور اخلاق عالیہ سے واقف ہیں آپ کو صادق اور امین جانتے ہوئے کیوں جھٹلا رہے ہیں ؟ آگر آپ کو نہ جانتے ہوتے تو یہ بھی ایک بہانہ بن سکتا تھا لیکن اس بہانہ کا بھی کوئی بہانہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا کیا وہ یوں کہتے ہیں کہ رسول دیوانگی سے متاثر ہے حالانکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آپ عقل و فہم کے اعتبار سے بلند مقام پر ہیں تو پھر آپ کی نبوت کے منکر کیوں ہیں ؟ بات یہ ہے کہ آپ کی ذات اور آپ کی دعوت کوئی تعجب کی چیز نہیں ہے نہ آپ کی بات نئی ہے نہ آپ کی سچائی اور امانت میں کلام ہے اور آپ کی طرف جو دیوانگی کی نسبت کرتے ہیں وہ بھی غلط ہے لہٰذا ان کا جھٹلانا کسی دلیل اور حجت کے باعث نہیں ہے (بَلْ جَاءَ ھُمْ بالْحَقِّ وَاَکْثَرُھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ ) بلکہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق بات کے کر آئے اور ان میں سے اکثر لوگ حق سے نفرت کرتے ہیں اصل وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ انہیں سے بغض اور عناد ہے اور اَکْثَرُھُمْ اس لیے فرمایا کہ ان میں سے بعض کا اسلام قبول کرنا مقدر تھا۔ لفظ غمرۃ ڈھانپنے کے معنی میں آتا ہے اور ایسے گہرے پانی کو بھی کہتے ہیں جس میں آدمی ڈوب جائے یہاں اس کا حاصل معنی یعنی جہالت کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ ان دلوں پر ایسا پردہ پڑا ہے کہ کسی طرف سے بھی علم و فہم کا گزر نہیں ہے اور مُتْرَفِیْھِمْ جمع ہے جو میم جمع کی طرف مضاف ہے، عربی میں خوش حال آدمی کو مترف کہا جاتا ہے جب عذاب آتا ہے تو پکڑے تو سبھی جاتے ہیں لیکن خوش حال افراد کا ذکر خاص کر اس لیے فرمایا کہ یہ لوگ نہ خود حق قبول کرتے ہیں نہ عوام کو قبول کرنے دیتے ہیں۔ دوسرے اس لیے کہ ان کے پاس مصائب سے بچنے کا انتظام ہوتا ہے اور چونکہ انہیں صبر تحمل کی عادت نہیں ہوتی سب سے پہلے یہی لوگ بلبلاتے ہیں، علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت بالا میں جس گرفت کا ذکر ہے اس سے مشرکین مکہ کا غزوہ بدر میں مقتول ہونا مراد ہے۔ قولہ تعالیٰ ” بہ سامرا تھجرون “ قال البغوی فی معالم التنزیل اختلفوا فی ھذہ الکنایۃ فاظھر الاقاویل انھا تعود الی البیت الحرام کنایۃ عن غیر مذکور، ای مستکبرین متعظمین بالبیت الحرام و تعظمھم بہ انھم کانوا یقولون نحن اھل حرم اللہ و جیران بیتہ فلا یظھر علینا احد و لا نخاف احد فیا منون فیہ و سائر الناس فی الخوف ھذا قول ابن عباس و مجاھد وجماعۃ و قیل مستکبرین بہ ای بالقرآن فلم یومنوا بہ والاول اظھر المراد منہ الحرم (سامرا) نصب علی الحال ای انھم یسمرون باللیل فی مجالسھم حول البیت و وحد سامرا و ھو بمعنی السمار لانہ و ضع موضع الوقت، اراد تھجرون لیلا و قیل وحد سامرا و معناہ الجمع کقولہ (ثم نخرجکم طفلا) (تھجرون) قرا نافع (تھجرون) بضم التاء و کسر الجیم من الاھجار وھو الا فحاش فی القول، ای تفحشون و تقولون الخنا و ذکر انھم کانوا یسبون النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ و قرأ الا خرون (تھجرون) بفتح التاء وضم الجیم ای تعرضون عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و عن الایمان والقرآن و ترفضونھا و قیل الھجر وھو القول القبیح یقال ھجر یھجر ھجرا اذا قال غیر الحق و قیل تھزؤن و تقولون مالا تعلمون من قولھم ھجر الر جل فی منامہ اذا ھذی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ ” بَلْ قُلُوْبُھُمْ الخ “ یہ بل لا یشعرون سے بھی ترقی ہے اور ” ان الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون “ سے متعلق ہے۔ یعنی یہ بات نہیں کہ وہ سمجھتے نہیں۔ سمجھتے خوب ہیں لیکن اس کے باوجود غفلت میں پڑے ہیں۔ اور شرک کی نئی نئی راہیں کھول رہے ہیں۔ مومنین تو اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ترسان و لرزاں رہتے اور تمام معاصی سے حتی الوسع اجتناب کرتے اور ہر قسم کے شرک سے بچتے ہیں۔ مشرکین غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مذکورہ بالا اعمال خیر سے دور بھاگتے ہیں انہیں چاہئے تھا کہ وہ اللہ سے ڈرتے اس کے ساتھ شرک نہ کرتے اور تمام دیگر اعمال شر سے اجتناب کرتے۔ ” وَلَھُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ الخ “۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ توحید کو مان لیں اور شرک کو چھوڑ دیں وہ شرک کی نئی نئی رسمیں ایجاد کر رہے ہیں۔ سورة حج میں غیر اللہ کی نذر و نیاز سے منع فرمایا اور یہاں ان مشرکین کی مذمت میں ارشاد فرمایا۔ غیر اللہ کی نذر و نیاز کو چھوڑنا تو رہا ایک طرف یہ ظالم تو اور بھی کئی قسم کا شرک کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کفار کے قلوب اس دین سے غفلت اور جہالت اور بیہوشی میں مبتلا ہیں اور اس جہالت اور انکار کے علاوہ اور بھی ان کے اعمال بد اور برے برے اعمال ہیں جن کو یہ کرتے رہتے ہیں یعنی دین حق کی جانب سے بالکل غفلت اور جہالت کا برتائو کررہے ہیں اور غفلت میں ڈوب رہے ہیں اور فساد عقیدہ کے ساتھ ساتھ اور بہت سے برے اعمال ہیں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور جس طرح مسلمان ایمان صحیحہ کے ساتھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں اسی طرح یہ شرک کے ساتھ اور اعمال سیئہ کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔