Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 7

سورة المؤمنون

فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾

But whoever seeks beyond that, then those are the transgressors -

جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who guard their private parts. Except from their wives and their right hand possessions, for then, they are free from blame. But whoever seeks beyond that, then those are the transgressors. means, those who protect their private parts from unlawful actions and do not do that which Allah has forbidden; fornication and homosexuality, and do not approach anyone except the wives whom Allah has made permissible for them or their right hand possessions from the captives. One who seeks what Allah has made permissible for him is not to be blamed and there is no sin on him. Allah says: ... فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ ... they are free from blame. But whoever seeks beyond that, meaning, other than a wife or slave girl, ... فَأُوْلَيِكَ هُمُ الْعَادُونَ then those are the transgressors. meaning, aggressors. Allah says: وَالَّذِينَ هُمْ لاِاَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعًا اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] شہوانی خواہشات کے سلسلہ میں تین ہی صورتیں ممکن تھیں۔ ایک یہ کہ انسان ایسی خواہشات کو کلیتؤہ ترک کردے۔ دوسری یہ کہ ان خواہشات کی تکمیل میں انسان کلیتؤہ آزاد ہو اور تیسری یہ کہ کوئی معتدل روش اختیار کی جائے۔ اسلام نے ان میں سے معتدل روش کو اختیار کیا ہے۔ یعنی ان خواہشات کی تکمیل کا راستہ کھول تو دیا۔ لیکن صرف جائز نکاح یا ملکبھین کی صورت میں۔ باقی دونوں انتہا پسندانہ عورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ نہ رہبانیت کی ترک خواہش کو پسند فرمایا اور نہ اس سلسلہ میں شتر بےمہار قسم کی آزادی کو۔ اس آیت میں اسی بےلگام آزادی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس میں زنا، لواطت یا لونڈے بازی، عورتوں کی ہم جنسی، جلق یا مشت زنی غرضیکہ شہوت رانی کی جتنی بھی صورت مندرجہ بالا دو صورتوں کے علاوہ ممکن ہیں سب ناجائز قرار پاتی ہیں۔ واضح ہے کہ جائز نکاح سے مراد ایسا نکاح ہے جو عورت کو بسانے کے لئے کیا جائے۔ عورت کی رضا کو مقدم سمجھا جائے۔ عورت کا نکاح اس کا ولی کرے، نکاح کا اعلان ہو اور کم از کم دو گواہ موجود ہوں اور حق مہر مقرر کیا جائے۔ ان شرائط کو پوری نہ کرنے والا نکاح مثلاً نکاح متعہ، نکاح حلالہ یا نکاح شعار جائز نہیں۔ دور نبوی میں اور بھی کئی قسم کے نکاح رائج تھے۔ جو یہ شرائط پوری نہیں کرتے تھے۔ لہذا وہ از خود باطل قرار پاگئے۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ چار طرح پر نکاح کیا کرتے تھے۔ ایک تو وہی معروف نکاح ہے۔ جیسے آج کل بھی لوگ کرتے ہیں یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کو نکاح کے لئے کہتا اور وہ اپنی کسی رشتہ دار عورت (مثلاً بہن، بھتیجی، بھانجی وغیرہ) یا بیٹی کا مہر ٹھہرا کر نکاح کردیتا۔ (اسی قسم کے نکاح کو اسلام نے بحال رکھا ہے) دوسری صورت یہ تھی کہ جب کسی بیوی حیض سے پاک ہوجاتی تو شوہر اپنی بیوی سے کہتا کہ تو فلاں شخص کو اپنے بلا لے اور اس سے لپٹ جا۔ (یعنی اس سے ہمبستری کر) جب عورت اس مرد سے صحبت کر چکتی تو اس کا خاوند اس سے اس وقت تک علیحدہ رہتا جب تک کہ اس غیر مرد کا حمل نمایاں نہ ہوجاتا۔ اور جب حمل واضح ہوجاتا تو اس کے اس کے خاوند اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ اور شوہر اپنی بیوی سے یہ کام اس لئے کرتا تھا کہ بچہ شریف اور عمدہ پیدا ہو (تاکہ وہ شوہر کی ناموری کا باعث ہو) ایسے نکاح کو نکاح استبضاع کہا کرتے تھے۔ نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ ایک عورت کے شوہر کئی مرد ہوتے تھے لیکن یہ دس سے کم ہی ہوتے تھے۔ اور وہ سب اس عورت سے صحبت کیا کرتے۔ پھر جب اسے حمل قرار پا جاتا تو وہ وضح حمل کے چند دن بعد ان سب شوہروں کو بلا بھیجتی اور اس کی دعوت پر ان سب کو آنا پڑتا تھا۔ جب وہ اس کے ہاں اکٹھے ہوجاتے تو وہ ان سے کہتی۔ جو کچھ تم کرتے رہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ اب میرے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے یہ تم سے فلاں کا بچہ ہے۔ اس معاملہ میں اس عورت کو پورا اختیار ہوتا کہ جس کا وہ چاہتی نام لے لیتی اور وہ بچہ اسی کا ہوجاتا اور کسی کو اس کے فیصلہ سے انکار کی مجال نہ ہوتی۔ (کیونکہ قومی رسم ہی یہی تھی) اور چوتھی صورت یہ تھی کہ کسی عورت کے پاس بہت سے آدمی آتے جاتے رہتے اور وہ ہر ایک سے صحبت کرا لیتی کسی سے بھی انکار نہ کرتی اور وہ کنجریاں تھیں جن کے دروازے پر پہچان کے لئے جھنڈا لگا دیتے۔ اب جس شخص کا جی چاہتا وہ اس سے صحبت کرسکتا تھا پھر جب اسے حمل ٹھہر جاتا اور بچہ جنتی تو اس کے ہاں جانے والے سب مرد اس عورت کے ہاں اکٹھے ہوجاتے اور کسی قیافہ شناس کو اپنے پاس بلاتے۔ قیافہ شناس علم قیافہ کی رو سے جس مرد کو اس بچہ کا باپ بتاتا وہ بچہ اسی کا بیٹا ہوجاتا وہ اس کا باپ کہلاتا۔ اور قیافہ شناس کے فیصلہ سے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوتی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغمبر بناکر بھیجا تو آپ جاہلیت کے سب نکاح موقوف کردیئے۔ بس ایک ہی قسم کا نکاح باقی رکھا جو آج کل لوگ کرتے ہیں && (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب من قال لانکاح الا بولی۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ ۔۔ : یعنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی بھی طریقے سے شہوت پوری کرنے والے ہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اس آیت سے اپنی منکوحہ عورتوں اور اپنی لونڈیوں کے سوا کسی بھی عورت سے جماع حد سے بڑھنا ٹھہرا۔ چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] ” اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “ اسی طرح قوم لوط کا عمل، کسی جانور سے بدفعلی اور ہاتھ یا کسی اور طریقے سے ایسا فعل بھی حد سے تجاوز ہے۔ اگرچہ تجاوز کے درجوں میں فرق ہے، مگر مومن کو کسی طرح بھی اللہ کی حدود سے تجاوز درست نہیں۔ تنبیہ : ہاتھ سے منی نکالنا اگرچہ ایک قبیح اور مروّت کے خلاف فعل ہے اور حد سے بڑھنا ہے، مگر اس کی وعید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جتنی روایات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں، مثلاً روایت : ( نَاکِحُ الْیَدِ مَلْعُوْنٌ ) ” ہاتھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے۔ “ اور یہ روایت کہ سات آدمی ہیں جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور انھیں آگ میں سب سے پہلے داخل کرے گا، ان میں سے پہلا ” نَاکِحُ الْیَدِ “ (ہاتھ سے نکاح کرنے والا) ہے اور یہ روایت کہ قیامت کے دن یہ فعل کرنے والوں کے ہاتھ حمل کی حالت میں ہوں گے، وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَ‌اءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (However, those who seek (sexual pleasure) beyond that are the transgressors - 7). Satisfying one&s desire with someone other than one&s own wife or a lawfully acquired slave-girl is strictly forbidden and the ban includes adultery (marrying a woman whom one is not allowed to marry under the religious code is also adultery), having sex with one&s wife or slave-girl when she is menstruating or is confined, or having unnatural sex with them, homosexuality and bestiality, while most jurists include masturbation also in the ban. (Tafsir Bayan ul-Qur’ an, Qurtubi, al-Bahr ul-Muhit, etc.)

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ ، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاء شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکم زنا ہے اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے۔ (از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝ ٧ۚ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نکاح متعہ کی تحریم قول باری ہے (فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العادون البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں) آیت نکاح متعہ کی تحریم کی مقتضی ہے اس لئے کہ متعہ کی بنا پر ہاتھ آنے والی عورت نہ تو بیوی ہوتی ہے اور نہ ہی ملک یمین کے تحت آنے والی مملوکہ ہم نے سورة نساء میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہ بحث قول باری (ورآء ذلک کی) کی تفسیر کے تحت کی گئی ہے۔ قول باری (ورآء ذلک) کا مفہوم ” غیر ذلک ‘ ہے یعنی ان کے ماسوا۔ قول باری (الحادون) سے مراد ایسے لوگ ہیں جو حلال سے حرام کی طرف تجاوز کریں۔ قول باری (الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم) اس جملہ سے استثناء جس میں شرمگاہوں کی حفاظت کا ذکر ہے اور اس قول کے ذریعے بیوی اور ملک یمین کے تحت آنے والی لونڈی سے ہمبستری کی اباحت کی خبر دی گئی ہے۔ اس لئے آیت ان دو صنفوں کے ماسوا تمام عورتوں سے جنسی تعلقات پر پابندی کی مقتضی ہے۔ اس کے ذریعے بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ ہمبستری کی اباحت پر دلالت ہو رہی ہے کیونکہ ان کے بارے میں لفظ کے اندر عموم ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ ہمبستری کی اباحت میں اگر عموم ہوتا تو حیض کی حالت میں ا نک یساتھ ہمبستری درست ہوتی، اسی طرح ظوہر والی لونڈی نیز شبہ کی بنا پر جماع کے نتیجے میں عدت گزارنے والی کے ساتھ بھی وطی کا جواز ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کے لفظ کا عموم تمام احوال میں مذکورہ عورتوں کے ساتھ وطی کے جواز کا مقتضی ہے تاہم ان کی تخصیص پر دلالت قائم ہوچکی ہے جس طرح عموم کی تمام صورتوں میں ہوتا ہے کہ اگر اس کے بعض افراد کی تخصیص کردی جائے تو یہ بات باقی ماندہ افراد میں عموم کے حکم کی بقاء کو مانع نہیں ہوتی۔ ملک یمین کا جب اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے مملوک غلام اور لونڈی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ ملک یمین کا اطلاق بنی آدم کے سوا کسی اور چیز پر نہیں ہوتا۔ مثلاً گھر اور سواری پر ملک یمین کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ اس لئے کہ غلام اور لونڈی کی ملکیت دوسری چیزوں کی ملکیت سے اخص ہوتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص اپنے گھر کو گرا سکتا ہے اور گرا کر اسے دوبارہ بنا سکتا ہے اس کام میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن آدم زادوں کے سلسلے میں وہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح وہ گھر کو عاریت کے طور پردے سکتا ہے، اپنی مملوکہ اشیاء کو بھی جسے چاہے دے سکتا ہے لیکن اگر وہ چاہے کہ اپنی مملوکہ لونڈی کی شرمگاہ کسی کو عاریت کے طور پردے دے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ ) ” اس سلسلے میں جو کوئی حلال اور جائز طریقے سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا وہ گناہ اور زیادتی کا مرتکب قرار پائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7. This is a parenthesis which is meant to remove the common misunderstanding that sex desire is an evil thing in itself and satisfying it even in lawful ways is not desirable, particularly for the righteous and godly people. This misunderstanding would have been strengthened, had it been only said that the believers guard their private parts scrupulously, because it would have implied that they live unmarried lives, away from the world, like monks and hermits. Therefore a parenthesis has been added to say that there is nothing wrong in satisfying the sex desire in lawful ways. What is evil is that one should transgress the prescribed limits for satisfying the sex desire. Here are briefly a few injunctions which are based on this parenthetical clause. (1) Two categories of women have been excluded from the general command of guarding the private parts: (a) wives, (b) women who are legally in one’s possession, i.e. slavegirls. Thus the verse clearly lays down the law that one is allowed to have sexual relations with his slave-girl as with his wife. The basis being possession and not marriage. If marriage had been the condition, the slave-girl also would have been included among the wives, and there was no need to mention them separately. Some modern commentators, who dispute the permissibility of having sexual relations with the slave-girl, argue from (Surah An-Nisa, Ayat 25 )to prove that one can have sexual relations with a slave-girl only after entering wedlock with her, because that verse enjoins that if a person cannot afford to marry a free Muslim woman, he may marry a Muslim slave-girl. But these commentators have a strange characteristic. They accept a part of a verse if it suits them, but conveniently ignore another part of the same verse if it goes against their wish and whim. The law about marrying the slave-girls as enunciated in (Surah An-Nisa, Ayat 25) reads: You may marry them with the permission of their guardians and give them their fair dowries. Obviously the person under reference here is not the master of the slave-girl himself but the person who cannot afford to marry a free Muslim woman, and therefore, wants to marry a slave-girl, who is in the possession of another person. For if the question had been of marrying his own slave-girl, who would then be the guardian whose permission would have to be sought? Then, the interpretation they give of this verse contradicts other verses dealing with the same subject in the Quran. A sincere person who wants to understand the Quranic law in this regard should study (Surah An-Nisa, Ayats 3, 25); (Surah Al-Ahzab, Ayats 50, 52), and (Surah Al-Maarij Ayat 30 )together with this verse of Al-Mominoon. (For further explanation, see (E.N. 44 of Surah An-Nisa) (2) The law prescribed in the parenthesis is only applicable to men as is clear from the text. A woman in the time of Umar did not understand this fine point of the language and indulged in sexual gratification with her slave. When her case was brought before the consultative body of the companions, they gave the unanimous decision: She misinterpreted the Book of Allah. Nobody should entertain the doubt that if this exception is meant for the men only, how could then the husbands become lawful for the wives? This doubt is unjustified because when the husbands are exempted from the command of guarding their private parts in regard to their wives, the wives automatically stand exempted from the command with regard to their husbands, and there is no need to grant them exemption separately. Thus the command of exemption remains applicable and effective only in respect of the man and the woman legally in his possession, and the slave becomes unlawful for the woman possessing him. The wisdom of why the slave has been forbidden to the woman is that he can only satisfy her sexual desire but cannot become guardian and governor of herself and her household, which leaves a serious flaw in the family life. (3) The sentence “Then whoever seeks beyond that, so it is they who are the transgressors” has made satisfaction of sex desire in other ways unlawful, whether it be through fornication, homosexuality, sex gratification with animals, or some other means. The jurists differ only with regard to masturbation. Imam Ahmad bin Hanbal regards it as lawful, but Imams Malik and Shafai regard it as absolutely unlawful: and though the Hanafites also regard it as unlawful, they give the opinion that if a person indulges sometimes in masturbation under the fit of passion, it is expected that he will be forgiven the error. (4) Some commentators have proved the prohibition of mutah (temporary marriage) from this verse. They argue that the woman with whom one has entered into wedlock temporarily, can neither be regarded as a wife nor a slavegirl. She is obviously not a slave-girl, and she is also not a wife, because the legal injunctions normally applicable to the wife are not applicable to her. She cannot inherit the wealth of the man. Likewise, the man cannot inherit her wealth. She is neither governed by the law pertaining to Iddah (waiting period after divorce or death of husband), divorce, subsistence, nor by that pertaining to the vow by man that he will not have conjugal relations with her, false accusation, etc. She is also excluded from the prescribed limit of four wives. Thus, when she is neither a wife nor a slave-girl in any sense, she will naturally be included among those “beyond this”, whose seeker has been declared as a “transgressor” by the Quran. This is a strong argument but due to a weakness in it, it is difficult to say that this verse is decisive with regard to the prohibition of mutah. The fact is that the Prophet (peace be upon him) enjoined the final and absolute prohibition of mutah in the year of the conquest of Makkah, but before it mutah was allowed according to several authentic traditions. If mutah had been prohibited in this verse, which was admittedly revealed at Makkah, several years before the migration, how can it be imagined that the Prophet (peace be upon him) kept the prohibition in abeyance till the conquest of Makkah? The correct position therefore is that prohibition of mutah is not based on any express law of the Quran but is based on the Sunnah of the Prophet (peace be upon him). Had it not been prohibited by the Sunnah, it would have been difficult to declare it as prohibited only on the authority of this verse. It would be worth-while to clarify two other points in connection with mutah: (a) lts prohibition is based on the Sunnah of the Prophet (peace be upon him) and therefore it is wrong to say that it was prohibited by Umar. As a matter of fact, Umar only enforced it as a law of Islam and publicised it among the people. This had not been done earlier because the Prophet (peace be upon him) had forbidden mutah only during the latter part of his worldly life. (b) The Shiite view that mutah is absolutely lawful and permissible has no sanction and support in the Quran or Sunnah. The fact is that a few of the companions, their followers and jurists who regarded it permissible in the early days of Islam, did so only in case of extreme necessity and need. None of them held the view that it was absolutely lawful like marriage and could be practised in normal circumstances. Abdullah bin Abbas, who is generally cited as a prominent supporter of the view of permissibility, has himself explained his position thus: It is just like carrion which is lawful for a person only in extreme necessity. Even Ibn Abbas had to revise his opinion when he saw that people were abusing permissibility and had started practising mutah freely regardless of genuine need and necessity. Again, even if the question, whether Ibn Abbas and the few likeminded jurists had revised their opinion or not, is ignored, the fact is that the supporters of mutah allow it only in case of extreme necessity. Holding mutah as absolutely permissible, practising it without any real necessity, or resorting to it even when one has a legally wedded wife or wives is a kind of licence which is abhorred by good taste, much less it be attributed to the Shariah of Muhammad (peace be upon him) and imputed to the learned jurists of his family. I think that among the Shiite Muslims themselves no respectable person would like that somebody should ask for the hand of his daughter or sister not in marriage but for the purpose of mutah. For, if mutah is held as absolutely permissible, it would imply that there should exist in society a low class of women, like the prostitutes, who should be available for the purpose as and when required, or if not that, mutah be restricted to the daughters and sisters of the poor stratum of society and the well-to-do be given the freedom and right to exploit them as and when they like. Can such an injustice and discrimination be expected of the divine law? And will Allah and His Messenger permit an act which every respectable woman would regard not only disgraceful for herself but shameful, too?

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :7 یہ جملہ معترضہ ہے جو اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو شرمگاہوں کی حفاظت کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے ۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوت شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا ، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو ، بہرحال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے ۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہل ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بند رہتے ہیں ، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے ۔ اس لیے ایک جملہ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے ، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے ۔ اس جملہ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں ۔ 1: شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ۔ ایک ازواج دوسرے مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ۔ ازواج کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو ، اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ بیوی کا مفہوم ہے ۔ رہا لفظ : مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ، تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے ، یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو ۔ اس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے ، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی ۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے ، سورہ نساء کی آیت : وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَولاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ ( آیت 25 ) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی تحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو ۔ لیکن ان لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں ، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا ان کے مدعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایات جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں : ۔ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔ پس ان ( لونڈیوں ) سے نکاح کر لو ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اور ان کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو ۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیر بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کر نا چاہے ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہو تو اس کے وہ اہل ( سرپرست ) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف : فَانْکِحُوْھُنَّ کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی : بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے ۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ سورہ نساء ، آیت 3 ۔ 25 سورہ احزاب ، آیت 50 ۔ 52 ۔ اور سورہ معارج ، آیت 30 کو سورہ مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے ۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے ۔ ( اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حاشیہ 44 ۔ تفہیمات جلد دوم ، صفحہ ، 29 تا 324 ۔ رسائل و مسائل ، جلد اول ، صفحہ 324 تا 323 ) ۔ 2: اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ میں لفظ عَلیٰ اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملہ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے ۔ باقی تمام آیات قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر خٰلِدُوْنَ تک مذکر کی ضمیروں کے باوجود مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو ضمیر مذکر ہی استعمال کی جاتی ہے ۔ لیکن یہاں لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے علیٰ کا لفظ استعمال کر کے یہ بات واضح کر دی گئی کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے ۔ اگر ان پر کہنے کے بجائے ان سے محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا ۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی ۔ صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہ ، اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا ۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے ؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اس حکم سے مستثنیٰ ہو گئیں ۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی ۔ اس طرح اس حکم استثناء کا اثر عملاً صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے ، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لیے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش نفس تو پوری کر سکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی رہ جاتی ہے ۔ 3: البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں ، اس فقرے نے مذکورہ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہش نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا ، خواہ وہ زنا ہو ، یا عمل قوم لوط یا وطی بہائم یا کچھ اور ۔ صرف ایک استمنا بالید ( Masturbation ) کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں ۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہو جائے تو امید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا ۔ 4 : بعض مفسرین نے متعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں ۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے ۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے ۔ نہ اس کے لیے عدت ہے ۔ نہ طلاق ۔ نہ نفقہ ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے ۔ پس جب وہ بیوی دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ان کے علاوہ کچھ اور میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن حد سے گزرنے والا قرار دیتا ہے ۔ یہ استدلال بہت قوی ہے مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے ۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے ، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمت متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی ، تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فتح مکہ تک جائز رکھتے ۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی ہے ۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا ۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے ۔ اول یہ کہ اس کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حرام کیا ، درست نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے ۔ چونکہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا ، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اسے نافذ کیا ۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھہرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے اس کے لیے تو بہرحال نصوص کتاب و سنت میں سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صرف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے ۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا ۔ ابن عباس ، جن کا نام قائلین جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے ، اپنے مسلک کی توضیح خود ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ : ماھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر ( یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں ) اور اس فتوے سے بھی وہ اس وقت باز آ گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے ۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباس اور ان کے ہم خیال چند گنے چنے اصحاب نے اس مسلک سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں ، تو ان کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالت اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے ۔ مطلق اباحت ، اور بلا ضرورت تمتع ، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوق سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمہ اہل بیت کو اس سے متہم کیا جائے ۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنا بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے ۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوش حال طبقے کے مردوں کا حق ہو ۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:7) ابتغی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ابتغاء (افتعال) مصدر۔ اس نے چاہا اس نے تلاش کیا۔ ورائ۔ وراء مصدر ہے لیکن اس کے معنی ہیں آڑ۔ حد فاصل ۔ کسی چیز کا آگے ہونا پیچھے ہونا۔ علاوہ۔ سوا ہونا۔ فصل اور حد بندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے ان سب معنی میں مستعمل ہے۔ العدون۔ عدو سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جمع مذکر۔ عادون اصل میں عادو ون تھا۔ وائو کلمہ میں چوتھی جگہ آیا ہے۔ اور ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے اس کو ی سے تبدیل کیا تو عادیون یوا۔ ی پر ضمہ دشوار ہونے کی وجہ سے نقل کر کے ماقبل کو دیا۔ اب دو ساکن جمع ہوگئے یعنی ی اور وائو۔ ی کو حذف کیا۔ عادون ہوگیا۔ عدو کے معنی حد سے تجاز کرنے کے ہیں لہٰذا عادون حد سے گذرنے والے۔ حد سے بڑھنے والے۔ حد سے نکلنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس کے علاوہ طلبگار ہو اس میں زنا و لواطت و وطی بہائم و عاریت جواری اجماعا اور بعض کے نزدیک استمنا بالید بھی داخل ہے۔ اور اگر یہ آیت مدنی ہو تو حرمت متعہ پر بھی اس سے استدلال صحیح ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) پھر جو کوئی ان بیویوں اور باندیوں کے خلاف شہوت رانی کی راہ تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ حد شرعی سے آگے بڑھ جانے والے ہیں۔ یعنی بیویاں اور باندیاں شریعت نے حلال کی ہیں ان حلال طریقوں کے علاوہ جو بھی طریقہ خواہش پوری کرنے کا اختیار کرے گا خواہ وہ زنا ہو۔ اغلام ہو۔ مشت زنی ہو یا بہائم کے ساتھ منہ کالا کرنے والے ہوں یہ سب لوگ حدِ شرع سے باہر نکل جانے والے اور مستوجب سزا ہوں گے۔