Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 8

سورة المؤمنون

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾

And they who are to their trusts and their promises attentive

جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those who are faithfully true to their Amanat and to their covenants, When they are entrusted with something, they do not betray that trust, but they fulfill it, and when they make a promise or make a pledge, they are true to their word. This is not like the hypocrites about whom the Messenger of Allah said: ايَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اوْتُمِنَ خَان The signs of the hypocrite are three: when he speaks he lies, when he makes a promise he breaks it, and when he is entrusted with something he betrays that trust. وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] امانتوں سے مراد ہر وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا معاشرہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے کسی شخص کے سپرد کی گئی ہو۔ خواہ یہ امانت منصوبوں سے تعلق رکھتی ہو یا اقوال سے یا اموال سے ان سب کی پوری پوری نگہداشت ضروری ہے۔ یہی صورت مال، عہد اور معاہدات کی ہے۔ خواہ کوئی عہد اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے بندوں سے لیا ہو۔ خواہ یہ آپس کا قول وقرار ہو اور خواہ یہ معاہدہ بیع یا نکاح سے متفق ہو۔ ان کو وفا کرنا ضروری ہے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی دونوں ایسے جرم ہیں جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافق کی علامتیں قرار دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا &&: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے && (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامہ~ن~ المنافق) ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک اسے چھوڑ نہ دے جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو بےوفائی کرے۔ اور جب جھگڑا کرے تو بکواس یا ناحق کی طرف چلے && (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامہ~ن~ المنافق) اب دیکھئے پہلی حدیث میں صرف تین علامتیں مذکور ہیں جن میں دو یہی ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں اور دوسری میں جو چار علامتیں مذکور ہیں ان میں سے دو یہی باتیں ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْن : عفت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی امانت ہے، اس کے ذکر کے بعد عام امانتوں کی حفاظت کا ذکر فرمایا۔ عہد بھی ایک امانت ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا الگ ذکر فرمایا۔ ” رٰعُوْن “ ” رَعٰی یَرْعٰی “ (ف) سے اسم فاعل ہے۔ فعل مضارع کے بجائے اسم فاعل لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہ ان کی عادت ہے۔ منافقوں کی طرح نہیں کہ جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَ إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ) [ بخاري، الإیمان، باب علامات المنافق : ٣٣ ] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Fifth Attribute of a good Muslim is that he should discharge his trust truly and faithfully. وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَ‌اعُونَ (And [ success is attained ] by those who honestly look after their trusts and covenant, - 23:8). The word اَمَنَات (trusts) covers everything which a person has undertaken to perform or which have been placed under his care as trust. Since it may be of many kinds, the word is used in plural, so that it may include all sorts of trusts whether they may relate to the rights of Allah or to the rights of human beings. To perform scrupulously all the injunctions and duties made obligatory by religious laws and to abstain from things which have been forbidden or declared undesirable is to look after the trust that relates to the rights of Allah. As regards the discharge of trusts relating to the rights of human beings, these take numerous forms, and the most well-known is that a person must promptly return to the owner on demand any goods which have been in his custody as trust. Any information received in confidence is a trust and to reveal it to anybody else without the permission of the person who gave it is a breach of trust. Mutual settlement between an employer and an employee of the terms of employment, i.e. the work to be done and time to be spent in the performance of work, and the wages to be paid is a trust and binding on both the parties and a violation of this agreement by either party would constitute a breach of trust. Hence discharge of trust is an all-encompassing word. Sixth Attribute of a perfect Muslim is to fulfill his covenant. The word عھد . (covenant) has two connotations. One is a covenant between two parties specifying the duties and obligations of either party and is binding on both and a breach of this covenant by either party is a fraud and deceit and therefore forbidden in Islam. The other is where a person voluntarily promises to give something to someone or undertakes to do some job. This is known as وعدہ (promise) and its fulfillment is also obligatory under the dictates of Shari. There is a Hadith which says العدۃ دین (a promise is like a debt). It means that a promise is like a debt and must be fulfilled in the same manner as a debt must be discharged, the difference being that whereas the repayment of a debt can be enforced through a court of law, a voluntary promise is not enforceable likewise. Nevertheless the person making the promise is morally bound to abide by it and failure to do so would be a sin unless there is a religious ground for his inability to fulfill his promise.

پانچواں وصف امانت کا حق ادا کرنا والَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ لفظ امانت کے لغوی معنے ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسہ کیا گیا ہو۔ اس کی قسمیں چونکہ بیشمار ہیں اسی لئے باوجود مصدر ہونے کے اس کو بصیغہ جمع لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف و مشہور ہے کہ کسی شخص نے کسی کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا یہ اس کی امانت ہے اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی وہ بھی اس کی امانت ہے بغیر اذن شرعی کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ مزدور، ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لئے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہوگیا اس میں اس کام کو پورا کرنے کا حق ادا کرنا اور مزدوری ملازمت کے لئے جتنا وقت مقرر ہے اس کو اسی کام میں لگانا بھی امانت ہے کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا بڑا جامع لفظ ہے۔ سب مذکورہ تفصیلات اس میں داخل ہیں۔ چھٹا وصف عہد پورا کرنا ہے۔ عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملے کے سلسلے میں لازم قرار دیا جائے اس کا پورا کرنا فرض اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے جو حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں یعنی یکطرفہ صورت سے کوئی شخص کسی شخص سے کسی چیز کے دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلے۔ اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہوجاتا ہے۔ حدیث میں ہے العدة دین یعنی وعدہ ایک قسم کا قرض ہے۔ جیسے قرض کی ادائیگی واجب ہے ایسے ہی وعدہ کا پورا کرنا واجب ہے۔ بلا عذر شرعی اس کے خلاف کرنا گناہ ہے۔ فرق دونوں قسموں میں یہ ہے کہ پہلی قسم کے پورا کرنے پر دوسرا آدمی اس کو بذریعہ عدالت بھی مجبور کرسکتا ہے یکطرفہ وعدہ کو پورا کرنے کے لئے بذریعہ عدالت مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دیانةً اس کا پورا کرنا بھی واجب اور بلا عذر شرعی خلاف کرنا گناہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝ ٨ۙ أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ رعی الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال : رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات/ 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» «5» قال الشاعر : ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي «6» وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا [ البقرة/ 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه . ( ر ع ی ) الرعی ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات/ 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة/ 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ١١) اور جو لوگ اپنی امانتوں کو جو شرعا ان کے سپرد کی گئی ہیں جیسا کہ روزہ، وضو، غسل، جنابت اور امانت کا مال اور اپنے عہد کا خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ہو یا حقوق العباد میں سے ہو پورا کرنے کا پورا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کو ان کے اوقات پر ادا کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں اور یہی جنت کے وارث ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اصل مقام ہے اور یہ لوگ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ یہ لوگ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ ) ” اس آیت میں دو وصف بیان ہوئے ہیں۔ یعنی پانچواں وصف امانتوں کی پاسداری اور چھٹا وصف ایفائے عہد۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. The believers fulfill the terms of the trusts which are placed in their charge. In this connection it should be noted that the Arabic word amanat is very comprehensive and includes all those trusts which are placed in their charge by Allah or society or individuals. Likewise aahd includes all those compacts, pledges, and promises which are made between Allah and man, and man and man. The Prophet (peace be upon him) himself used to impress the importance of the fulfillment of pledges in his addresses: The one, who does not fulfil the terms of his trust, has no faith, and the one, who does not keep promises and pledges has no Islam. (Baihaqi). According to a tradition reported both by Bukhari and Muslim, he said: Four characteristics are such that if a person has all four in him, he is beyond any doubt a hypocrite, and the one who has one of these, is a hypocrite to that extent till he gives it up: (a) When something is placed in his trust, he commits breach of the trust. (b) When he speaks, he tells a lie. (c) When he makes a promise, he breaks it. (d) When he has a quarrel with somebody, he exceeds all limits (of decency and morality).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :8 امانات کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے ، یا معاشرے نے ، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں ۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان ، یا انسان اور انسان کے درمیان ، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں ۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا ، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا ، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا ( بیہقی فی شعب الایمان ) ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے ۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو توڑ دے ۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو ( اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:8) راعون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ راعی کی جمع رعی یرعی (فتح) رعی و رعایۃ مصدر۔ مویشی کو گھاس چرانا۔ الامیر رعیتہ رعایۃ امیر کا اپنی رعایا پر سیاست کرنا۔ الامرحفاظت کرنا۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ الرعی اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں خواہ غذا کے ذریعے ہو جو اس کی زندگی کی محافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ سے ہو۔ رعیتہ کے چارہ اور مرعی چراگاہ کو کہتے ہیں۔ راعون یعنی نگہداشت رکھنے والے۔ نگرانی کرنے والے۔ خبر رکھنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی امانت میں خیانت نہیں کرتے اور جب وہ کوئی عہد کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ امانت میں خیانت اور عہد میں دغا بازی کرنا نفاق کی علامت ہے۔ حدیث میں ہے : منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے۔ تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(5) مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ دیانت و امانت کا پیکر ہوتا ہے۔ یعنی وہ امانتوں کی ادائیگی کی حفاظت اور لحاظ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا اور ہر معاملے میں نہایت امانت دار ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امانت کے بجائے ” امانات “ کہہ کر امانت کے مفہوم کو زندگی کے تمام معاملات تک وسیع کردیا ہے جس میں ہر طرح کی امانتیں آجاتی ہیں۔ عام طور پر امانت کا مفہوم صرف یہ سمجھاجاتا ہے کہ اگر کسی نے کسی دوسرے شخص پر اعتماد اور بھروسہ کرکے کوئی چیز یا رقم اس کے حوالے کردی اور طلب کرنے پر واپس مل گئی تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے نہایت دیانت سے اس کی امانت واپس کردی۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جو زندگی کے ہر معاملے پر چھایا ہوا ہے۔ ٭ اگر کسی شخص نے کسی سے کوئی راز اور بھید کی بات کہی اور اس نے اس بات کو راز ہی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا کہا جائے گا کہ اس نے دیانت و امانت کا ثبوت پیش کیا۔ ٭کسی نے ایک مجلس میں ایسی بات سنی جس کو اہل مجلس ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو اس بات کو سن کر دوسروں سے نہ کہنا اور اس کو راز رکھنا بھی امانت ہے۔ ٭ایک شخص نے کسی کو معاوضہ دے کر کوئی کام سپرد کیا تو یہ وقت بھی ایک امانت ہے جس کو دیانت داری سے اسی مقصد میں صرف ہونا چاہیے جس کے لئے معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ اس وقت کو ضائع کرنا ‘ اس میں سستی اور کاہلی کرنا بددیانتی کہلائے گی۔ مومن کی شان اور صفت یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں دیانت و امانت کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرہ میں دیانت وامانت سے کام کئے جاتے ہیں وہ ایک بہترین معاشرہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمی بھی ہر معاملہ میں دیانت وامانت کے ہر پہلو کا لحاظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (6) کامیاب اہل ایمان کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے ‘ عہد اور معاہدوں کو پورا کرتے ہیں۔ یعنی ہر مومن کی شرعی اور اخلاقی طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس نے جس سے جو بھی وعدہ کیا ہوا اس کو ہر حال میں پورا کیا جائے۔ انسان نے انسان سے وعدہ کیا ہو یا انسان نے اپنے اللہ سے وعدہ کیا ہو ہر عہد و معاہدہ کو پورا کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کو فاسق و گناہ گار قرار دیا ہے جو قرآن کریم پڑھ کر بھی اس کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ ان فاسقین کے متعلق فرمایا ہے کہ جب بھی اللہ سے عہد و معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو توڑ ڈالتے ہیں (بقرہ) اسی لئے وہ گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی علامتیں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب منافق کسی سے وعدہ کرتا ہے تو وہ اسے پورا نہیں کرتا۔ قرآن کریم اور سنت سے معلوم ہوا کہ عہد و معاہدوں کو پورا کرنا ایک مومن کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے جب بھی کسی سے وعدہ فرمایا تو اس کو پورا کیا۔ (7) مومنین کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی نمازوں کی ہر طرح حفاظت کرتے ہیں علمائے مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے پانچ وقت کی فرض نمازیں مراد ہیں۔ یعنی وہ مومنین اپنی نمازوں کو ان کے پورے آداب ‘ وقت کی پابندی سے ان کے مستحب وقت پر ادا کرکے دلی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ نمازوں کا ادب و احترام یہ ہے کہ پورے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے سنت کے مطابق ٹھیک طرح وضو کیا جائے۔ جسم اور کپڑوں کی صفائی ‘ ستھرائی اور پاکیزگی کا خیال رکھا جائے۔ نمازوں کو نہایت سکون و اطمینان سے پڑھا جائے۔ جلدی جلدی پڑھ کر نمازوں کی روح کو ضائع نہ کیا جائے۔ نہایت خشوع و خضوع ‘ عاجزی و انکساری ‘ ادب واحترام سے نمازوں کو پورا کیا جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو صاحبان ایمان حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے کی سعادت حاصل کرتے اور مذکورہ سات صفات کو اپنے اندر پیدا کرتے ہیں وہ نہ صرف دنیا و آخرت کی ہر کامیابی اور فلاح و خیر حاصل کریں گے بلکہ اس جنت الفردوس کی ابدی راحتوں کے وارثو مستحق ہوں گے جو انہیں دے کر واپس نہیں لی جائینگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ انہیں حاصل رہیں گی۔ یہی وہ مومن ہیں جن کی زندگیاں اور بہترین اعمال حسن عمل اور اعلی کردار کی قابل تقلید مثالیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہل ایمان کی یہ تمام خوبیاں عطا فرما کر دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی پانچویں اور چھٹی صفت :۔ مومن جس طرح اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح ان میں یہ بھی اوصاف پائے جاتے ہیں کہ وہ امانت کی حفاظت اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ امانت سے مراد صرف سونا چاندی اور کرنسی کی حفاظت نہیں بلکہ اس سے مراد ہر قسم کی امانت ہے۔ بیشک وہ کسی منصب کے حوالے سے اس پر عائد ہونے والی ذمہ داری ہو۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت کے تصور کو وسعت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ باضابطہ مجالس میں ہونے والی گفتگو بھی امانت ہوتی ہے۔ (رواہ ابو داؤد : باب فِی نَقْلِ الْحَدِیثِ ) جس طرح ہر قسم کی امانت کا خیال رکھنا فرض اور مومن کی صفت ہے اسی طرح جائز کاموں پر کیے گئے عہد کی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے۔ عہد سے پہلی مراد عقیدہ توحید کے حوالے سے کیا ہوا وہ عہد ہے جو ہر انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب کے ساتھ کیا تھا (الاعراف : ١٧٢) اس میں وہ عہد وقیود بھی شامل ہیں جو ایک انسان دوسرے کے ساتھ اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرنا۔ ناصرف آدمی کا ایمان اور اس کی صفت ہے اس کا آخرت میں اجر ملے گا بلکہ دنیا میں بھی اسے اچھی شہرت اور لوگوں کا اعتماد حاصل ہونے پر اسے سیاست، تجارت اور معاملات میں فائدہ پہنچتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ ) [ رواہ احمد : مسند انس بن مالک ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔ “ مسائل ١۔ مومن کی صفت اور اس کا فرض ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کرے۔ ٢۔ مومن عہد کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن امانت اور عہد کے بارے میں احکام : ١۔ وعدہ پورا کرنے کا حکم۔ (المائدۃ : ١) ٢۔ قیامت کو عہد کی باز پرس ہوگی۔ (بنی اسرائیل : ٣٤) ٣۔ عہد پورا کرنے والے متقی ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٤۔ عہد پورا کرنے والے عقل مند ہیں۔ (الرعد : ١٩، ٢٠) ٥۔ عہد پورا کرنے والوں کو اجر عظیم ملے گا۔ (الفتح : ١٠) ٦۔ عہد پورا کرنے والے جنتی ہیں۔ (المومنون : ١٠، ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کا پانچواں اور چھٹا وصف بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ) (اور جو لوگ اپنی امتوں اور عہدوں کی رعایت کرنے والے ہیں) اس میں امانتوں کی حفاظت کا اور جو کوئی عہد کرلیا جائے اس کی حفاظت کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان دونوں کی رعایت اور حفاظت کو مومنین کی صفات خاصہ میں شمار فرمایا ہے۔ حضرت انس (رض) نے بیان کیا ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا ہو اور یوں نہ فرمایا ہو کہ (اَلاَ لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَ لاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَلَہٗ ) (خبر دار اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٥) اللہ تعالیٰ شانہٗ کے جو اوامرو نواہی ہیں ان کے متعلق جو شرعی ذمہ داریاں ہیں ان کا پورا کرنا فرائض و واجبات کا احترام کرنا اور محرمات و مکروہات سے بچنا یہ سب امانتوں کی حفاظت میں داخل ہے۔ اسی طرح بندوں کی جو امانتیں ہیں خواہ مالی امانت ہو یا کسی بات کی امانت ہو کسی بھی زار کی امانت ہو ان سب کی رعایت کرنا لازم ہے مالوں کی ادائیگی کو کچھ لوگ امانت داری سمجھتے ہیں لیکن عام طور سے دوسری چیزوں میں امانت داری نہیں سمجھتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں۔ (یعنی مجلسوں کی بات آگے نہ بڑھائی جائے) ہاں اگر کسی مجلس میں حرام طریقے پر کسی کا خون کرنے یا زنا کرنے یا ناحق کسی کا مال لے لینے کا مشورہ کیا تو ان چیزوں کو آگے بڑھا دیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص بات کہہ دے پھر ادھر ادھر متوجہ ہو (کہ کسی نے سنا تو نہیں) تو یہ بات امانت ہے۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے جس میں وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح) ایک حدیث میں ارشاد ہے ان المستشار موتمن (بلاشبہ جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے) یعنی مشورہ لینے والے کو وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ (رواہ الترمذی) امانت داری بہت بڑی صفت ہے خیانت منافقوں کا کام ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے۔ (١) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (٢) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔ (٣) اور اگر اس کے پاس امانت رکھ دی جائے تو خیانت کرے۔ (رواہ مسلم) امانتوں کی حفاظت کے ساتھ عہد کی حفاظت کو بھی مومنین کی صفات خاص میں شمار فرمایا ہے مومن بندوں کا اللہ تعالیٰ سے عہد ہے کہ اس کے فرمان کے مطابق چلیں گے تمام اعمال و احوال میں اس کا خیال رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان برادر ہو کر رہیں اور نافرمانی نہ کریں اور بندوں سے جو کوئی معاہدہ ہوجائے کسی بات کا وعدہ کرلیں تو اس کو پورا کریں بشرطیکہ گناہ کا معاہدہ نہ ہو۔ بہت سے لوگ قرض لے لیتے ہیں اور ادائیگی کی تاریخ مقرر کردیتے ہیں پھر تاریخ آجانے پر ادائیگی کا انتظام نہیں کرتے بلکہ انتظام ہوتے ہوئے بھی ٹالتے ہیں یہ سب بد عہدی میں آتا ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی صورتیں ہیں جو روز مرہ پیش آتی رہتی ہیں، جن لوگوں کا دینی مزاج نہیں ہوتا وہ عہد اور وعدہ کی خلاف ورزی کو کوئی وزن نہیں دیتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس میں چار چیزیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا، اور جس کے اندر ان میں سے ایک خصلت ہوگی اس کے اندر منافقت کی ایک خصلت شمار ہوگی وہ چار خصلتیں یہ ہیں۔ (١) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے (٢) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (٣) جب معاہدہ کرے تو دھوکہ دے (٤) جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دیدو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (١) جب بات کرو تو سچ بولو۔ (٢) وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (٣) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو۔ (٤) اپنی شرم کی جگہوں کو محفوظ رکھو۔ (٥) اپنی آنکھوں کو نیچے رکھو۔ (یعنی کسی جگہ ناجائز نظر نہ ڈالے۔ ) (٦) اور اپنے ہاتھوں کو (بیجا استعمال کرنے سے) روکے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانَاتِھِمْ الخ “ یہ تیسری صفت سے متعلق ہے یعنی وہ ظلم کے کاموں سے بچتے ہیں۔ اس آیت میں ظلم کے دو کاموں کی طرف اشارہ ہے امانت میں خیانت اور بد عہدی یہ دونوں باتیں دوسروں کے حق میں ظلم ہیں اس لیے فرمایا کہ فلاح کامل صرف ان مومنوں کو حاصل ہوگی جو ظلم کے ان کاموں سے بھی بچیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور وہ جو اپنے پاس رکھی ہوئی امانتوں کی اور اپنے عہد کی نگہداشت کرنے والے اور خبر رکھنے والے ہیں یعنی کسی کی کوئی امانت رکھی ہو یا کسی سے کوئی عہد کیا ہو تو اس کا دھیان رکھتے ہیں یعنی امانت ادا کرتے ہیں اور عہد کو پورا کرتے ہیں۔