Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 80

سورة المؤمنون

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ وَ لَہُ اخۡتِلَافُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۸۰﴾

And it is He who gives life and causes death, and His is the alternation of the night and the day. Then will you not reason?

اور یہ وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل کا مختار بھی وہی ہے ۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ... And it is He Who gives life and causes death, meaning, He will bring the scattered bones back to life and cause the death of the nations, ... وَلَهُ اخْتِلَفُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ... and His is the alternation of night and day. meaning, by His command night and day are subjugated, each of them following the other and never departing from that pattern, as Allah says: لااَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَأ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلااَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ It is not for the sun to overtake the moon, nor does the night outstrip the day. (36:40) ... أَفَلَ تَعْقِلُونَ Will you not then understand! means, do you not have minds that tell you of the Almighty, All-Knowing to Whom all things are subjugated, Who has power over all things and to Whom all things submit! The Idolators thought that Resurrection after Death was very unlikely Then Allah tells us about those who denied the resurrection, who were like the disbelievers who came before them: بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الاَْوَّلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

801یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔ 802جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہر چیز جھکی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] یعنی وہ اس دنیا میں ہر آن مردہ سے زندہ ہے اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اگر تم سوچو تو اپنی ذات اور اپنے گردوپیش میں بیسیوں ایسی مثالیں مل سکتی ہیں۔ نیز وہ اندھیرے میں سے اجالا نکالتا ہے اور اجالے کو پھر اندھیرے میں گم کردیتا ہے۔ دن رات کا باری باری آنا، دنوں کی مقدار میں کمی شروع ہونا اور راتوں کا بڑھنے لگنا اور اس کے برعکس راتوں کا گھٹنے لگنا اور دنوں کا بڑھنے لگنا پھر موسموں کا تغیر و تبدل یہ سب چیزیں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پھر تمہیں یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ جو ہستی اس قدر قدرتوں کی مالک ہے تمہیں اپنے پاس اکٹھا کرکے حاضر کرلینے کی بھی قدرت رکھتی ہے۔ موجودہ نطریہ کے مطابق ہماری زمین کی دو قسم کی گردشیں ہیں ایک روزانہ یعنی ٢٤ گھنٹے میں اپنے محور کے گرد اور دوسری سالانہ سورج کے گرد ساڑھے چھیاسٹھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے۔ اسی سے دن رات وجود میں آتے ہیں اور موسموں میں تغیر و تبدل ہوتا ہے۔ یہ تو محض نظریہ کا فرق ہے جہاں تک اللہ کی قدرت کا تعلق ہے اس کا بہرحال ہر ایک کو اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بلکہ موجودہ نظریہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بھی زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے جس نے ہماری زمین اور اس سے بھی بہت بڑے اجرام فلکی کو اس طرح مصروف گردش بنا رکھا ہے جس سے وہ سر مو نہ تجاوز کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۔۔ : اکٹھا کرنے کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے ساری کائنات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا ذکر فرمایا۔ خصوصاً ان کاموں کا ذکر فرمایا جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، تاکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کی دلیل بن سکیں۔ چناچہ فرمایا، اور وہی زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور رات اور دن کا بدلنا بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ یہ توحید کی بھی دلیل ہے اور قیامت کی بھی کہ موت و حیات اور اندھیرے و اجالے کو یکے بعد دیگرے لانے والے کے لیے تمہیں موت کے بعد زندگی عطا کرنا اور تمہیں قیامت کو زندہ کرکے حساب کے لیے سامنے لا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے ؟ فرمایا : (كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ ) [ الأعراف : ٢٩ ] ” جس طرح اس نے تمہاری ابتدا کی، اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے۔ “ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : ہمزہ استفہام اصل میں فاء کے بعد ہے، مگر چونکہ اس کا مقام کلام کی ابتدا ہے، اس لیے اسے فاء سے پہلے لایا گیا ہے، یعنی تو کیا تم اتنی واضح بات بھی نہیں سمجھتے ؟ یا یوں کہہ لیجیے، تو کیا تم کوئی بات بھی نہیں سمجھتے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ٨٠ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) اور وہ ایسا ہے جو حشر کے لیے سب کو زندہ کرے گا اور وہی دنیا میں موت دیتا ہے اور دن رات کی تبدیلی اور ان کا آنا جانا اور گھٹنا اور بڑھنا اور رات کا تاریک کرنا اور دن کو روشن کرنا یہ سب چیزیں اسی کے دائرہ اختیار میں ہیں اور یہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد مردوں کو زندہ کرے گا تو ان دلائل کے بعد بھی تم بعث بعد الموت یعنی مرنے کے بعد زندگی کی تصدیق نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. If one makes the right use of his faculties and observes these things properly, he can find the truth, for it is obvious that the great mechanism of the universe could not have come into existence by a mere accident. There must be its Creator who need not have any associates or partners and that the universe could not have been created without a purpose as a mere sport. The very existence of a wonderful, rational thinking and feeling creature, man, who has been delegated with powers, is a clear proof that his real life will not come to an end at death. 76. Here attention is being drawn to the proof of both Tauhid and life after death, and in the other phenomena cited to the refutation of both shirk and rejection of the Hereafter.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :75 علم کے ذرائع ( حواس اور قوت فکر ) اور ان کے مصرف صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشان دہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے ، یا کھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے ، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے ۔ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ یہ کار خانہ ہستی بے خدا ، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے ، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے ۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے ، نرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے ، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مر کر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :76 واضح رہے کہ یہاں توحید اور حیات بعد الموت ، دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے ، اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان سے شرک کے ابطال اور انکار آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جا رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ کبھی رات آتی ہے اور کبھی دن، اور پھر ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور دنیا کی ساری رونق اس رات دن کے الٹ پھیر ہی سے قائم ہے۔ 9 ۔ کہ آخر زندگی کا یہ سارا نظام کسی خالق اور عزیزو علیم کے بغیر وجود میں آسکتا تھا اور کیا اس کائنات کے ایک سے زیادہ خالق و مدبر ہوسکتے تھے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یہ دلائل قدرت توحید اور صحت بعثت دونوں پر دال ہیں، مگر پھر بھی نہیں مانتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وھو الذی یحی و یمیت (٢٣ : ٨٠) ” وہی ہے جو زندگی دیتا اور موت دیتا ہے “۔ موت اور حیات ایسے واقعات ہیں جو رات اور دن نمو دار ہوتے رہتے ہیں ۔ موت حیات کا مالک صرف اللہ ہے۔ انسان جو زیادہ ترقی یافتہ حیوان ہے اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ زندگی پیدا کرسکے اور انسان کسی زندہ مخلوق سے زندگی چھین بھی سکتا۔ کیونکہ تم کو عبث پیدا نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی اس زمین پر تمہیں شتر بےمہار پیدا کرکے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ بلکہ تمہاری تخلیق ایک حکمت اور تدبیر کے تحت ہوئی ہے۔ وھو الذی یحی و یمیت (٢٣ : ٨٠) ” وہی ہے جو زندگی دیتا اور موت دیتا ہے “۔ موت اور حیات ایسے واقعات ہیں جو رات اور دن نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔ موت وحیات کا مالک صرف اللہ ہے۔ انسان جو زیادہ ترقی یافتہ ہیں جو رات اور دن نمودار ہوتے ہیں ۔ موت وحیات کا مالک صرف اللہ ہے۔ انسان جو زیادہ ترقی یافتہ حیوان ہے اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ زندگی کا ایک خلیہ پیدا کرسکے اور انسان کسی زندہ مخلوق سے زندگی چھین بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ جو ذات حیات عطا کرتی ہے وہی اس کی حقیقت کو جانتی ہے ۔ یہ اس ذات کی قدرت میں ہے کہ وہ زندگی بخشنے اور زندگی واپس لے۔ انسان کبھی اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ کسی زندگی چھن جائے لیکن در حقیقت انسان کسی سے اس کی زندگی چھین نہیں سکتا۔ حقیقت میں حیات و ممات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی حیات و ممات کا وا اکدار ـ” مختار “ نہیں ہے۔ ولہ اختلاف الیل والنھار افلا تعقلون (٢٣ : ٨٠) ” گردش لیل و نہار کے قبضہ قدرت میں ہے “۔ وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس میں متصرف ہے ، جس طرح موت وحیات کا مالک وہی ہے۔ گردش لیل و نہار بھی ایک کائناتی سنت الہیہ ہے جس طرح موت وحیات کی کارکردگی اللہ کی سنت کے مطابق ہے ۔ وہ نفس انسانی ، جسم انسانی ، یہ کائنات اور یہ افلاک سب کے سب اسی سنت کے مطابق چل رہے ہیں۔ اگر اللہ کسی کے جسم سے حیات نکال دے تو اس کا جسم ٹھندا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ زمین سے روشنی واپس لے لے تو یہ تاریک رہ جائے ۔ یہاں اللہ نے زندگی پیدا کی اور روشنی پیدا کی اور ان دونوں سے زندگی کی گاڑی رواں دواں ہے ۔ اور یہ اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ افلا تعقلون (٢٣ : ٨٠) ” کیا تم عقل نہیں رکھتے “۔ کہ تم ان چیزوں کی حقیقت کو سمجھ سکو۔ یہ سب چیزیں تو وجود باری اور صنعت بار کے شواہد ہیں کہ وہ خالق و مدبر ہے اور وہ اس پوری کائنات کا چلا رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(80) اور وہی ہے جو جلاتا اور مارتا ہے زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے اور رات دن کا بدلتے رہنا اسی کے اختیار میں ہے پھر کیا تم لوگ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے یعنی بےجان کو جان دیتا ہے اور جان دار کو بےجان کردیتا ہے اور رات دن کا باہم یکے بعد دیگرے آنا رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات اور کبھی کے دن بڑے کبھی کی رات یہ سب اس کی بےغایت قدرت کے کرشمے ہیں تو کیا اس کے بعد بھی تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر ایمان نہیں لاتے اور اس کی قدرت اور اس کے قابو سے اپنے کو باہر سمجھتے ہو۔