Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 82

سورة المؤمنون

قَالُوۡۤا ءَ اِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ ﴿۸۲﴾

They said, "When we have died and become dust and bones, are we indeed to be resurrected?

کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay, but they say the like of what the men of old said. They said: "When we are dead and have become dust and bones, shall we be resurrected indeed!" They thought it very unlikely that this would happen after they had disintegrated into nothing. لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَابَاوُنَا هَذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الاَْوَّلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] کفار مکہ سے جب بدوی لوگ پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے ؟ تو وہ کہہ دیتے کہ اس میں کوئی نئی بات تو ہے نہیں وہی پرانے لوگوں کی داستانیں اور قصے کہانیاں ہیں۔ جو ہم پہلے بھی سنتے آئے ہیں۔ اور یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ انبیاء کی بنیادی اور اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خود بھی تو اپنے پیغمبر کو وہی بات کہہ رہے ہیں جو ان کے آباء و اجداد انبیاء کی مخالفت میں کہتے چلے آئے ہیں کہ && جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا پھر ہمیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ؟ && یہ خود بھی تو وہی پرانی گھسی پٹی بات دہرا رہے ہیں۔ دلیل کے ساتھ انھیں کوئی نیا جواب میسر نہیں آرہا۔ پھر کیا ان کا یہ قول ہی پرانے افسانے پر نہیں ؟ جو محض تقلید آباؤ کے طور پر کہی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝ ٨٢ ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٢۔ ٩٠:۔ حشر کے منکر جو لوگ اب ہیں یا پچھلے زمانہ کے قصے سنتے آئے ہیں ‘ اسی طرح یہ بھی ایک قصہ ہے کہ ایک دفعہ مر کر پھر جینا ہے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں منکرین حشر سے یہ پوچھا ہے کہ آخر ایک دفعہ تمام جہاں نیست سے ہست جو ہوا ہے یہ کس نے پیدا کیا ہے ‘ نمرود ‘ فرعون ‘ ان لوگوں کی طرح حشر کا انکار اور خدائی دعویٰ کرتے کرتے مرگئے ‘ کیا انہوں نے کچھ پیدا کیا تھا یا ان منکرین حشر کے بتوں نے کچھ پیدا کیا ہے۔ جب مجبوری سے یہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تو اسی اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جس طرح ایک دفعہ سارا جہان نیست سے ہست ہوا ہے ‘ اسی طرح نیک وبد کی جزا وسزا کے لیے دوسری دفعہ پھر وہی ہونا ہے جو ایک دفعہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہوچکا ہے تاکہ جزا وسزا کے ہوجانے کے بعد دنیا کا پیدا کیا جانا ٹھکانے لگے ‘ ان لوگوں کے پاس کیا دلیل ہے جو آنکھوں کی دیکھی ہوئی چیز کو جھٹلاتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) اور ابو سعید خدری (رض) سے جو صحیح بخاری میں روایتیں ١ ؎ ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہوں گے تو اللہ کے حکم سے فرشتے پکاریں گے کہ دنیا میں جس طرح لوگوں کے گروہ تھے ‘ کوئی بت پرست تھا ‘ کوئی آتش پرست ‘ آج وہ ہر ایک گروہ علیحدہ علیحدہ ہوجاوے سب گروہ الگ ہو کر اپنے فرضی معبودوں کے ساتھ ہوجاویں گے مگر جو لوگ قیامت کے حساب و کتاب کو اور اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کو حق جان کر اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ باقی رہ جائیں گے لیکن ابھی تک اس گروہ میں وہ لوگ بھی شریک ہوں گے جو اوپرے دل سے دکھاوے کے طور پر اللہ کی عبادت کرتے تھے ‘ اس سارے گروہ کی توحید آزمانے کے لیے ایک ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو نظر آوے گا جس کو دیکھ کر ان خدا پرست لوگوں کا دل گواہی دے گا کہ یہ ان کا معبود نہیں ہے اس لیے یہ لوگ کہیں گے تم ہمارے خدا نہیں ‘ ہمارے دل میں ہمارے خدا نے اپنی خاص پہچان رکھی ہے ‘ جب ہم اپنے خدا کو دیکھیں گے تو خود پہچان لیں گے ‘ غرض پھر خدا کا اصلی دیدار ہوگا اور خالص توحید والے اس وقت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں گے اور منافقوں کی کمر تختہ ہوجاوے گی ‘ وہ سجدہ نہ کرسکیں گے ‘ پھر خالص توحید والا گروہ نجات پاوے گا اور سب گروہ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوجاویں گے ‘ حاصل کلام یہ کہ شریعت میں حشر اور قیامت پر ایمان لانا جو شرط ٹھہرا ہے اور اس شرط کے سبب سے قرآن شریف میں منکرین حشر کی جگہ جگہ مذمت جو آئی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ جب تک جزا وسزا کا پورا یقین نہ ہو خالص دل سے نیک عمل کرنے اور بدعمل سے بچنے کا شوق اور ارادہ آدمی کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا اور جب نیت ہی آدمی کی درست نہ ہو تو تمام عمر نیک کام اوپرے دل سے اگر کوئی کرتا رہے یا برے کام سے بچتا رہے تو کچھ فائدہ نہیں اس لیے جہاں کہیں قرآن شریف میں منکرین حشر کا ذکر ہے وہ ایسے لوگوں سے بھی کسی قدر متعلق ہے جن کو اگرچہ حشر اور قیامت کا صاف انکار تو نہیں ہے لیکن ان کو پورا یقین بھی سزا وجزا کا نہیں ہے چناچہ اس یقین کی کوتاہی کے سبب سے ان کی نیت دین کے کام میں ڈانواں ڈول رہتی ہے اور یہی ڈانواں ڈول اوپر کی صحیح حدیثوں کے بموجب ان لوگوں کے خالص نیت سے عمل کرنے والے گروہ کے ذیل سے بالکل الگ کردے گا اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے کے بعد کا ان کو خالص نیت کا سجدہ نصیب نہ ہوگا ‘ اس واسطے منکرین حشر کا ذکر سن کر اس طرح کے ڈانواں ڈول لوگوں کو بھی اپنے حال پر ذرا عبرت چاہیے کہ آخرت کے معاملہ میں ایک طرح کی غفلت کے سبب سے جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں ‘ وہ خالص اللہ کے واسطے نہیں کرتے بلکہ عمل کچھ ہے اور نیت کچھ ہے وَھْوَ یِجُیْرُ وَلَا یُجَارُعَلَیْہِ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر وقت بلا سے انسان کو بچاتا ہے مگر اس کے حکم سے جو آفت انسان پر آوے تو اس سے سوائے اس کے کوئی دوسرا کسی کو نہیں بچا سکتا فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح جادوگروں کے فریب سے مثلا ٹھیکریاں روپے نظر آتے ہیں اسی طرح شیطان کے فریب سے مرنے کے بعد کی سچی باتیں ان لوگوں کو جھوٹی نظر آتی ہیں ‘ آخری آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت مرنے کے بعد کو جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق بالکل سچی ہیں ‘ جو لوگ بغیر سند کے ان باتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ (١ ؎ جلداتا دوسری ١١٠٥۔ ١١٠٦ باب قول اللہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ الٰایۃ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:82) لمبعوثون۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ قبروں سے اٹھائے جانے والے۔ دوبارہ زندہ کئے جانے والے۔ مرنے کے بعد اٹھا کر کھڑا کئے جانے والے۔ ان۔ نافیہ ہے۔ اساطیر۔ کہانیاں۔ من گھڑت لکھی ہوئی باتیں۔ وہ جھوٹی خبر جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ وہ جھوٹ گھڑ کر لکھ دی گئی ہے۔ سطور کہلاتی ہے۔ اساطیر الاولین۔ پہلے لوگون کی من گھڑت کہانیاں۔ (23:75) افلا تذکرون۔ پھر کیوں تم غور نہیں کرتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مرگئے اور مرکر مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے یعنی جو پہلے منکر کہا کرتے تھے کہ جب ہم مرکر خاک ہوجائیں گے تو پھر ہم دوبارہ کیسے زندہ ہوجائیں گے یہی یہ سب بھی کہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جس نے پہلی مرتبہ ان کو زندگی بخشی ہے اس کو دوبارہ زندہ کرلینا کیا مشکل ہے۔