Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 84

سورة المؤمنون

قُلۡ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾

Say, [O Muhammad], "To whom belongs the earth and whoever is in it, if you should know?"

پوچھیئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators believe in Tawhid Ar-Rububiyyah, which requires them to believe in Tawhid Al-Uluhiyyah Allah states that the fact that He is One and that He is independent in His creation, control, dominion and guides one to realize that there is no God except Him and that none should be worshipped except Him Alone, with no partner or associate. He tells His Messenger Muhammad to say to the idolators who worship others besides Him, even though they admit His Lordship, that He has no partner in Lordship. But despite this they still attributed partners in divinity to Him, and worshipped others besides Him even though they recognized the fact that those whom they worshipped could not create anything, did not own anything, nor do they have any control over anything. However, they still believed that these creatures could bring them closer to Allah, مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَأ إِلَى اللَّهِ زُلْفَى We worship them only that they may bring us near to Allah. (39:3) So Allah says: قُل لِّمَنِ الاَْرْضُ وَمَن فِيهَا ... Say: "Whose is the earth and whosoever is therein!" meaning, "Who is the Owner Who has created it and whatever is in it of animals, plants, fruits and all other kinds of creation." ... إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے اللہ تعالیٰ جل وعلا اپنے وحدانیت ، خالقیت ، تصرف اور ملکیت کا ثبوت دیتا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ معبود برحق صرف وہی ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنی چاہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے پس اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین سے دریافت فرمائیں تو وہ سات لفظوں میں اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرے گے اور اس میں کسی کو شریک نہیں بتائیں گے ۔ آپ انہیں کے جواب کو لے کر انہیں قائل کریں کہ جب خالق ، مالک ، صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں پھر معبود بھی تنہا وہی کیوں نہ ہو؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے ؟ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو بھی مخلوق الٰہی اور مملوک رب جانتے تھے لیکن انہیں مقربان رب سمجھ کر اس نیت سے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ ہمیں بھی مقرب بارگاہ اللہ بنا دیں گے ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ زمین اور زمین کی تمام چیزوں کا خالق کون ہے ؟ اس کی بابت ان مشرکوں سے سوال کرو ۔ ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ اب تم پھر ان سے کہو کہ کیا اب بھی اس اقرار کے بعد بھی تم اتنا نہیں سمجھتے کہ عبادت کے لائق بھی وہی ہے کیونکہ خالق ورازق وہی ہے ۔ پھر پوچھو کہ اس بلند وبالا آسمان کا اس کی مخلوق کا خالق کون ہے؟ جو عرش جیسی زبردست چیز کا رب ہے ؟ جو مخلوق کی چھت جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی شان بہت بڑی ہے اس کا عرش آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے قبہ کی طرح بنا کر بتایا ( ابوداؤد ) ایک اور حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی کل مخلوق کرسی کے مقابلے پر ایسی ہے جسے کسی چٹیل میدان میں کوئی حلقہ پڑا ہو اور کرسی اپنی تمام چیزوں سمیت عرش کے مقابلے میں بھی ایسی ہی ہے ۔ بعض سلف سے منقول ہے عرش کی ایک جانب سے دوسری جانب کی دوری پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے ۔ اور ساتویں زمین سے اس کی بلندی پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے ۔ عرش کا نام عرش اس کی بلندی کی وجہ سے ہی ہے ۔ کعب احبار سے مروی ہے کہ آسمان عرش کے مقابلے میں ایسے ہیں جسے کوئی قندیل آسمان وزمین کے درمیان ہو ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آسمان وزمین بمقابلہ عرش الٰہی ایسے ہیں جسے کوئی چھلا کسی چٹیل وسیع میدان میں پڑا ہو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عرش کی قدرت وعظمت کا کوئی بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے اندازہ نہیں کرسکتا بعض سلف کا قول ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے اس آیت میں عرش عظیم کہا گیا ہے اور اس سورت کے آخر میں عرش کریم کہا گیا ہے یعنی بہت بڑا اور بہت حسن وخوبی والا ۔ پس لمبائی ، چوڑائی ، وسعت وعظمت ، حسن وخوبی میں وہ بہت ہی اعلیٰ وبالا ہے اسی لئے لوگوں نے اسے یاقوت سرخ کہا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ تمہارے رب کے پاس رات دن کچھ نہیں اس کے عرش کا نور اس کے چہرے کے نور سے ہے ۔ الغرض اس سوال کا جواب بھی وہ یہی دیں گے کہ آسمان اور عرش کا رب اللہ ہے تو تم کہو کہ پھر تم اس کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کررہے ہو ۔ کتاب التفکر والاعتبار میں امام ابو بکر ابن ابی الدنیا ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموما اس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ جاہلیت کے زمانے میں ایک عورت پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا ایک مرتبہ اس نے اپنی ماں سے دریافت کیا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے کہا میرے والد کو کس نے پیدا کیا ؟ اس نے جواب دیا اللہ نے پوچھا اور ان پہاڑوں کو اماں کس نے بنایا ہے ماں نے جواب دیا ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ پوچھا اور ان ہماری بکریوں کا خالق کون ہے ماں نے کہا اللہ ہی ہے اس نے کہا سبحان اللہ ۔ اللہ کی اتنی بڑی شان ہے بس اس قدر عظمت اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سماگئی کہ وہ تھر تھر کانپنے لگا اور پہاڑ سے گرپڑا اور جان اللہ کے سپرد کردی اس کا ایک راوی ذرا ٹھیک نہیں ، واللہ اعلم ۔ دریافت کرو کہ تمام ملک کا مالک ہر چیز کا مختار کون ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم عموماً ان لفظوں میں ہوتی تھی کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جب کوئی تاکیدی قسم کھاتے تو فرماتے اس کی قسم جو دلوں کا مالک اور ان کے پھیرنے والا ہے پھر یہ بھی پوچھ کہ وہ کون ہے؟ جو سب کو پناہ دے اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کوئی توڑ نہ سکے اور اس کے مقابلے پر کوئی پناہ دے نہ سکے کسی کی پناہ کا وہ پابند نہیں یعنی اتنا بڑا سید و مالک کہ تمام خلق ، ملک ، حکومت ، اسی کے ہاتھ میں ہے بتاؤ وہ کون ہے ؟ عرب میں دستور تھا کہ سردار قبیلہ اگر کسی کو پناہ دے دے تو سارا قبیلہ اس کا پابند ہے لیکن قبیلے میں سے کوئی کسی کو پناہ میں لے لے تو سردار پر اس کی پابندی نہیں ۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ کی سلطنت وعظمت بیان ہو رہی ہے کہ وہ قادر مطلق حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ سب سے باز پرس کرلے لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کرسکے ۔ اس کی عظمت ، اس کی کبریائی ، اس کا غلبہ ، اس کا دباؤ ، اس کی قدرت ، اس کی عزت ، اس کی حکمت ، اس کا عدل بےپایاں اور بےمثل ہے ۔ سب مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لا چار ہے ۔ اب ساری مخلوق کی بعض پرس کرنے والا ہے اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ وہ اقرار کریں کہ اتنا بڑا بادشاہ ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے کہہ دے کہ پھر تم پر کیا ٹپکی پڑی ہے ؟ ایسا کونسا جادو تم پر ہوگیا ہے ؟ باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں کی پرستش کرتے ہو؟ ہم تو ان کے سامنے حق واضع کرچکے توحید ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت بیان کردی صحیح دلیلیں اور صاف باتیں پہنچا دیں اور ان کا غلط گو ہونا ظاہر کردیا کہ یہ شریک بنانے میں جھوٹے ہیں اور ان کا جھوٹ خود ان کے اقرار سے ظاہر وباہر ہے جسے کہ سورت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں کے پکارنے کی کوئی سند نہیں ۔ صرف باپ دادا کی تقلید پر ضد ہے اور وہ یہی کہتے بھی تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی پر پایا اور ہم ان کی تقلید نہیں چھوڑیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ ۔۔ : جب کفار نے اتنی شدت کے ساتھ قیامت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے ان باتوں کا اقرار کروائیں اور ان کی زبان سے کہلوائیں جنھیں وہ جانتے پہچانتے اور مانتے ہیں، جنھیں تسلیم کرنے کی صورت میں انھیں لازماً قیامت کے دن زندہ ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا۔ چناچہ فرمایا، ان سے کہہ اگر واقعی تم کچھ جانتے ہو تو بتاؤ یہ زمین اور اس میں جو کچھ ہے، اس کا مالک کون ہے ؟ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : ” تَذَکُّرٌ“ (تفعّل) کا اصل معنی یاد کرنا ہے۔” تَذَكَّرُوْنَ “ اصل میں ” تَتَذَکَّرُوْنَ “ ہے، یعنی تو پھر تم اپنی فطرت میں رکھی ہوئی اس بات کو یاد کیوں نہیں کرتے جو غفلت میں پڑ کر بھلا چکے ہو اور اس سے نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے کہ جب زمین کا اور اس میں موجود ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر مالک کو چھوڑ کر مملوک کی پوجا کیوں ؟ اور جب تم میں سے معمولی شخص بھی اس بات پر تیار نہیں کہ وہ اپنے غلاموں سے پوچھ گچھ نہ کرے، یا انھیں ان کی کارکردگی کا صلہ نہ دے، یا ان کے درمیان عدل نہ کرے، تو تم نے اس قادر مطلق اور حکیم کامل کے متعلق کیسے سوچ لیا کہ وہ تمہیں دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا، یا نہیں کرے گا اور اس کے بندے جو بھی کرتے رہیں نہ ان سے باز پرس کرے گا، نہ انھیں ان کے کیے کی جزا سزا دے گا اور نہ ان کے درمیان عدل فرمائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٨٤ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جوابا یوں فرما دیجیے کہ اچھا ی تو بتاؤ کہ یہ زمین اور یہ جو اس پر مخلوقات رہتی ہے، یہ کس کی ہے اگر تم کچھ جانتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) ” اس سورة مبارکہ کا یہ آخری حصہ بہت ہی پر جلال ہے۔ قاری محمد صدیق المنشاوی (ان کا تعلق مصر سے ہے) نے ان آیات کی تلاوت ایسے ُ پر سوز انداز میں کی ہے کہ اسے سنتے ہوئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : زمینی اور عقلی حقائق سے قیامت قائم ہونے کا ثبوت۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان سے استفسار فرمائیں کہ جس زمین پر تم رہ رہے ہو اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کی تخلیق اور ملکیت ہے اس کا یہی جواب دیں گے کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اب فرمائیں کیا پھر تم حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ ان سے پھر استفسار فرمائیں کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ سب کا سب اللہ ہی کا ہے۔ آپ فرمائیں پھر تم اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے کیوں نہیں ڈرتے۔ یہاں اہل مکہ کا عقیدہ بتلایا جا رہا ہے کہ اہل مکہ اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور وہی اس کا مالک ہے۔ اہل مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش سات آسمانوں کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس طرح جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی شان ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستویٰ ہونے کے بارے میں کسی قسم کی قیل وقال نہیں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے عرش پر کوئی چیز متمکن نہیں اور نہ ہی اس کے عرش میں کوئی دخیل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قبل از اسلام عربوں کا یہی عقیدہ تھا جس بناء پر وہ کھلے الفاظ میں ان حقائق کا اعتراف کرتے تھے کہ عرش، فرش اور آسمانوں کا ایک ہی رب ہے جس کا نام ” اللہ “ ہے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غیر متعلق چیزوں کے بارے میں سوال کریں۔ ہمیں یہ بات بڑی اچھی لگتی تھی کہ دیہات میں سے کوئی سمجھ دار آدمی آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرے اور ہم سنیں ایک دن ایک بدوی آیا۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے یہ بتلایا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے دیہاتی نے سوال کیا کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے عرض کی زمین کو کس نے پیدا کیا اور اس پر پہاڑوں کو کس نے نصب کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے کہا کیا آپ کو اللہ نے مبعوث کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! دیہاتی نے کہا آپ کے قاصد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہم پر ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک بتلایا۔ دیہاتی نے کہا کہ اس کا یہ بھی کہنا ہے ہم پر سال میں رمضان کے ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ اس دیہاتی نے کہا جس ذات نے آپ کو نبی مبعوث فرمایا ہے کیا ان باتوں کا اس نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا آپ کے قاصد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم میں سے صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ پھر وہ واپس پلٹا اور کہنے لگا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا نہ میں ان میں کمی کروں گا اور نہ زیادتی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ “ [ رواہ مسلم : باب فِی بَیَانِ الإِیمَان باللَّہِ وَشَرَاءِعِ الدِّینِ ] مسائل ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم کا رب ہے۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کو رب ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز نہیں آتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے چند دلائل : اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے بیشمار دلائل ہیں۔ لیکن اختصار کی خاطر چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر : ٣) ٤۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٦۔ اللہ سب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٧۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل لمن تسحرون (آیت نمبر ٨٤ تا ٨٩) ’ “۔ ان کے عقائد کے اندر جو اضطراب تھا وہ کسی عقلی دلیل پر مبنی نہ تھا نہ کسی منطق کا تقا ضا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ العرب کے اندر مشرکین کے عقائد اور افکار کس قدر بگڑ گئے تھے حالانکہ وہ دین ابراہیم پر ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ قل لمن تعلمون (٢٣ : ٨٤) ” ان سے کہو ، اگر تم جانتے ہو تو زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟ یعنی زمین کا مالک کون ہے اور زمین کے اندر موجود آبادی کا مالک کون ہے ؟ سیقولون للہ (٢٣ : ٨٥) ” یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ مالک ہے “ لیکن اپنے عمل میں وہ اس حقیقت ملحوظ نہیں رکھتے اور پھر بھی بندگی غیر اللہ کی کرتے ہیں ۔ لہذا ان سے کہو۔ قل افلا تذکرون (٢٣ : ٨٥) ” پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے “۔ اس حقیقت کو اپنے طرز عمل میں کیوں نہیں لاتے۔ قل من رب العظیم (٢٣ : ٨٦) ” ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے “۔ یہ سوال اس کائنات کی ابوہیت کے بارے میں ہے کہ آسمانوں اور عرش عظیم کا متصرف کون ہے۔ سات آسمانوں سے مراد سات افلاک بھی ہوسکتے ہیں یا سات ستاروں کے مجموعے بھی ہو سکتے ہیں ۔ یا سات آسمان بھی ہو سکتے ہیں۔ اور سات جہاں بھی ہو سکتے ہیں یا کوئی سات فلکی مخلوق بھی ہو سکتے ہیں۔ غرض دراصل یہ ہے اور کنٹرول اور اقتدار اعلیٰ کے مفہوم کی طرف یعنی کون ہے جو سات آسمانوں اور عرش عظیم کا کنٹرولر ہے ؟ سیقو لون للہ (٢٣ : ٨٠) ” یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ “ لیکن اس اقرار کے باوجود یہ لوگ رب عرش عظیم سے ڈرتے نہیں ۔ نہ رب سماوات سے ڈرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ پھر دوسروں کو شریک بھی کرتے ہیں ۔ ایسے بتوں کو جو زمین پر گرے ہوئے ہیں ۔ قل افلا تتقون (٢٣ : ٨٧) ” تو پھر تم ڈرتے کیوں نہیں “۔ قل من تعملون (٢٣ : ٨٨) ” ان سے کہو بتائو اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟ ” یہ سوال قبضے ، اقتدار اعلیٰ اور بادشاہت کے بارے میں ہے ، کہ کون ہے مقتدر اعلیٰ ؟ کو ہے جو سب چیزوں کا مالک ہے اور سب پر اس کا قبضہ و اقتدار ہے ۔ کون ہے جو ہر کسی کو پناہ دے سکتا ہے اور اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ وہ جس کو پناہ دے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور جس کو وہ پکڑنا چاہے کوئی نہیں ہے جو امت اللہ کو پکڑ سے بچاسکے۔ سیقلون اللہ (٢٣ : ٨٩) ” تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ہی ہے ــ“ اگر تم یہ باتیں تسلیم کرتے ہو تو پھر راہ ہدایت سے کیوں پھرے جارہے ہو۔ کیا جواز ہے پھر اس گمراہی کا ؟ فانی تسحرون (٢٣ : ٨٩) ’ پھر کہاں سے تم دھوکہ لگتا ہے ؟ “ حالانکہ اگر تم ان مذکورہ حقائق کو جانتے ہو تو تمہیں دھوکہ نہیں لگنا چاہیے ۔ حقیقت یہ کہ ان عقائد میں اضطراب اور یہ لوگ خبط میں بتلا ہیں۔ اب مناسب وقت آگیا ہے کہ ان کے شرکیہ عقائد کی تردید کردی جائے اور اللہ کی ذات سے اولاد کی نفی کردی جائے اور یہ فیصلہ سنادیا جائے کہ حقیقی عقائد وہی ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ ” قل لمن الارض الخ “ یہ دوسری عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین اور زمین میں رہنے والی ساری مخلوق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ” قل افلا تذکرون “ تعلموا ان من فطر الارض و من فیھا کان قادرا علی اعادۃ الخلق وکان حقیقا بان لایشرک بہ بعض خلقہ (مدارک ج 3 ص 96) ۔ ” قل من رب السموت الخ “ یہ تیسرے عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ ” قل افلا تتقون “ ظالمو ! کچھ تو خدا کا خوف کرو جب تم مانتے ہو کہ ساری کائنات کا خالق ومالک وہی ہے اس سے واضح ہوگیا کہ سب کا کارساز بھی وہی ہے افلا تخافونہ فلا تشرکوا بہ او افلا تتقون فی جحودکم قدرتہ علی البعث مع اعترافکم بقدرتہ علی خلق ھذہ الاشیاء (مدارک ج 3 ص 97) ۔ ” قل من بیدہ ملکوت الخ “ یہ چوتھی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ مشرکین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے ملک میں ہے اور ہر چیز اسی کے اختیار و تصرف میں ہے ’ وھو یجیر ولا یجار علیہ “ اور جسے وہ چاہے بچا لے مگر اس کی گفرت سے کوئی بچانے والا نہیں ای من ارادہ اللہ اھلا کہ وخوفہ لم یمنعہ منہ مانع و من اراد نصرہ وامنہ لم یدفعہ من نصرہ وامنہ دافع (قرطبی ج 12 ص 175) ۔ ” قل فانی تسحرون “ آپ ان سے کہیں پھر تمہاری عقلیں کیوں ماری گئی ہیں جب تم مانتے ہو کہ قادر علی الاطلاق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر اس کی عاجز مخلوق کو کیوں کارساز سمجھتے ہو۔ ای فانی تخدعون و تصرفون عن توحیدہ وطاعتہ (خازن ج 5 ص 43) ۔ ای کیف یخیل الیکم ان تشرکوا بہ مالا یضر و لاینفع۔ (قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(84) آگے اور دلائل توحید و بعث ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر آپ ان سے فرمائیے کہ اگر تم کو خبر ہے تو بتائو کہ یہ زمین اور جو مخلوقات اس میں ہے یہ سب کس کا ہے۔ یعنی زمین اور زمین پر بسنے والی مخلوقات خواہ وہ ذوی العقول ہو یا غیر ذوی العقول یہ سب کس کا ہے۔