Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 86

سورة المؤمنون

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۸۶﴾

Say, "Who is Lord of the seven heavens and Lord of the Great Throne?"

دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "Who is Lord of the seven heavens, and Lord of the Great Throne!" means, "Who is the Creator of the higher realm with its planets, lights and angels who submit to Him in all regions and in all directions! Who is the Lord of the Great Throne, which is the highest of all created things!" Allah says here: ... وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ and Lord of the Great Throne, meaning the Mighty Throne. At the end of the Surah, Allah says: ... رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ the Lord of the Supreme Throne! (23:116), meaning splendid and magnificent. The Throne combines the features of height and vastness with splendor and magnificence. This is why it was said that it is made of red rubies. Ibn Mas`ud said, "There is no night or day with your Lord, and the light of the Throne is from the Light of His Face." سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَ تَتَّقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ ۔۔ : زمین کے بعد ان سے عالم بالا کے متعلق سوال کرنے کا حکم دیا، کیونکہ آسمان زمین سے کہیں بڑا ہے، پھر ہر آسمان نیچے والے سے بڑا ہے اور ان سے اوپر عرش ان سب کو محیط ہے، جسے رب تعالیٰ نے عظیم (بہت بڑی عظمت والا) فرمایا ہے اور جو زمین و آسمان اور ان میں موجود ہر چیز سے پہلے موجود تھا۔ فرمایا : ” پوچھو، ان کا رب کون ہے ؟ “ فرمایا : ” وہ جواب میں کہیں گے، یہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے۔ “ فرمایا : ” تو پھر تم ڈرتے نہیں ؟ “ پہلے فرمایا تھا : (اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ) (پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ ) اب اس سے سخت الفاظ میں فرمایا : (اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) (تو پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ ) کیونکہ کوئی شخص جس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا علم رکھے گا اتنا ہی زیادہ وہ اس سے ڈرے گا۔ مثلاً ایک بچے کو کچھ علم نہیں کہ بادشاہ کتنی قوت کا مالک ہے، وہ اس سے نہیں ڈرے گا۔ ہاں، جسے جس قدر معلوم ہوگا کہ بادشاہ کتنی قوت رکھتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی ڈرے گا۔ اس لیے فرمایا : ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ) [ فاطر : ٢٨ ] ” اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔ “ یہاں فرمایا کہ یہ جان کر بھی کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب اللہ ہے، تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو اور کے بعد اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا انکار کرتے ہو، تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بعد کہ ساتوں آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ جو اب بظاہر یہ ہے : ” اَللّٰہُ “ کہ وہ اللہ ہے، اس کے بجائے فرمایا : ” لِلّٰهِ “ کہ یہ سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب طبری اور دوسرے مفسرین نے یہ دیا ہے کہ ” مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ “ (ساتوں آسمانوں کا رب کون ہے ؟ ) کا معنی یہی ہے کہ ” لِمَنِ السَّمٰوَات السَّبْعُ “ یعنی ساتوں آسمان اور عرش عظیم کس کی ملکیت ہیں ؟ اس لیے جواب آیا : ” لِلّٰهِ “ کہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ 3 حجاز، عراق اور شام کے تمام قراء اس لفظ کو ” لِلّٰهِ “ پڑھنے پر متفق ہیں، کیونکہ ان کی طرف امیر المومنین عثمان (رض) کی طرف سے جو مصحف بھیجے گئے، ان میں یہ لفظ اسی طرح ہے۔ البتہ بصرہ کے قاری ابو عمرو (رض) اسے ” اَللّٰہُ “ پڑھتے ہیں، کیونکہ ان کے مصحف میں اسی طرح لکھا ہے۔ اس صورت میں معنی واضح ہے کہ ” وہ اللہ ہے۔ “ طبری نے ” لِلّٰهِ “ کی قراءت کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ بصرہ کے سوا تمام بلاد اسلام کے مصاحف میں یہ لفظ اسی طرح لکھا ہے۔ 3 ابن عاشور (رض) نے ” لِلّٰهِ “ میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ سوال تو یہ تھا کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ ان کی طرف سے اس کا جواب یہ ذکر فرمایا کہ وہ (یہ کہنے کے بجائے کہ ان کا رب اللہ ہے) یہ کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے، کیونکہ وہ زمین و آسمان اور عرش عظیم غرض ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے تھے، مگر انھوں نے شریک اور رب کئی بنا رکھے تھے۔ چناچہ وہ حج و عمرہ کے لیے لبیک کہتے ہوئے کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ۔۔ إِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ ) [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصف تھا و وقتھا : ١١٨٥ ] ”(اے اللہ ! ) میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ۔۔ مگر تیرا ایک شریک ہے، اس کا مالک بھی تو ہے، وہ کسی شے کا مالک نہیں۔ “ مشرکین عرب فرشتوں کو اور مشرکین یہود و نصاریٰ عزیر اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو رب سمجھتے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے کے ساتھیوں کو فرمایا : (ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) [ یوسف : ٣٩ ] ” کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے۔ “ غرض مشرکین مالک صرف اللہ کو سمجھتے، مگر رب دوسروں کو بھی مانتے تھے، اس لیے فرمایا : (اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) کہ پھر کہہ دے کہ ہر چیز کا مالک اللہ کو مان کر پھر دوسرے ارباب کی پرستش کرتے ہو، تو تم اس کے غصے سے ڈرتے نہیں کہ وہ ساری کائنات کا مالک تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝ ٨٦ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ : معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ : 225- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع . ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد |" عدد تام |" ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(86) آپ اے پیغمبر ! ان سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا مالک کون ہے اور وہ کون ہے جو عالی شان تخت یعنی عرش عظیم کا مالک ہے۔