Surat ul Mominoon
Surah: 23
Verse: 9
سورة المؤمنون
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾
And they who carefully maintain their prayers -
جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾
And they who carefully maintain their prayers -
جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔
And those who strictly guard their Salawat. means, they persistently offer their prayers at their appointed times, Ibn Mas`ud said: "I asked the Messenger of Allah, `O Messenger of Allah, which deed is most beloved to Allah!' He said, الصَّلَةُ عَلَى وَقْتِهَا Prayer at the appointed time. I said, `Then what!' He said, بِرُّ الْوَالِدَيْن Kindness to one's parents. I said, `Then what!' He said, الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله Jihad in the way of Allah. It was recorded in the Two Sahihs. Qatadah said: "At the fixed times, with the proper bowing and prostration." Allah begins and ends this list of praiseworthy qualities with Salah, which is indicative of its virtue, as the Prophet said: اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَةُ وَلاَ يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلاَّ مُوْمِن Adhere to righteousness, you will never be able encompass it all. Know that the best of your deeds is Salah. None will preserve his Wuddu' except the believer. Having described them with these praiseworthy characteristics and righteous deeds, Allah then says: أُوْلَيِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ
9 1آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون
[٩] ایمان لاکر کامیاب ہونے کی صفات کی ابتداء بھی نماز سے کی گئی اور اختتام بھی نماز پر ہوا۔ اس سے نماز کی دوسرے خصائل پر اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی۔ پہلی آیت میں نماز میں خشوع کا ذکر تھا۔ اور اس آخری آیت میں سب نمازوں کی حفاظت کا ذکر ہے۔ حفاظت سے مراد نمازوں کو مقررہ اوقات پر بروقت ادا کرنا اور ہمیشہ ادا کرنا۔ تسلی سے نماز ادا کرنا اس کے پورے ارکان بجا لانا یعنی جسم کا، کپڑوں کا اور جگہ کا پاک ہونا پھر وضو اور طہارت پوری طرح کرنا وغیرہ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْن : فلاح پانے والے مومنوں کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان فرمائی اور دوسرے اوصاف بیان کرنے کے بعد آخر میں پھر نماز ہی سے تعلق رکھنے والی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ اپنی نمازوں کی خوب حفاظت کیا کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی کس قدر اہمیت ہے۔ ” يُحَافِظُوْن “ باب مفاعلہ سے مبالغے کے لیے ہے، کیونکہ یہاں مقابلے کا معنی مراد نہیں ہوسکتا۔ ” یَحْفَظُوْنَ “ ” حفاظت کرتے ہیں “ اور ” يُحَافِظُوْن “ ” خوب حفاظت کرتے ہیں۔ “ محافظت سے مراد نماز ہمیشہ ادا کرنا اور ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا ) ” نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ “ میں نے کہا : ” پھر کون سا عمل ؟ “ فرمایا : ” والدین سے حسن سلوک۔ “ میں نے کہا : ” پھر کون سا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جہاد فی سبیل اللہ۔ “ [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا : ٥٢٧۔ مسلم : ٨٥ ] مستدرک حاکم (١؍١٨٨، ح : ٦٧٤) میں ہے : ( اَلصَّلَاۃُ فِيْ أَوَّلِ وَقْتِھَا ) ” نماز اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔ “ حاکم نے فرمایا، یہ لفظ دو ثقہ راویوں بندار بن بشار اور حسن بن مکرم کی روایت سے ثابت ہیں، جو ان دونوں نے عثمان بن عمرو سے روایت کی ہے اور یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے، جب کہ شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔
Seventh attribute وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (And who consistently observe their prayers -23:9). To observe one’ s prayers here means to offer them regularly at the appointed time, and the word صَلَوَات (Prayers) has been used in the plural form to include all the five prayers. In an earlier verses the word صَلَوَاتِ (Salah: prayers) was used in the singular because the emphasis was on Khushu` which is the essence of all prayers whether they are fard, wajib, sunnah or nafl. A careful study of the above seven attributes would show that they encompass all the duties which man owes to Allah and to fellow men, and all the laws governing those duties. A person who possesses these attributes and adheres to them is a complete mu&min (believer) and deserving of falah in this world and in the Hereafter. It will also be noted that these seven attributes begin and also end with a reference to prayers which suggests that if prayers are offered in the prescribed manner with all their requirements, the other attributes will appear automatically.
ساتواں وصف نماز پر محافظت ہے والَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ ، نماز کی محافظت سے مراد اس کی پابندی کرنا اور ہر ایک نماز کو اس کے وقت مستحب میں ادا کرنا ہے۔ (کذا فسّرہ ابن مسعود، روح) یہاں صلوات کا لفظ جمع اس لئے لایا گیا ہے کہ مراد اس سے پانچ وقت کی نمازیں ہیں جن کو اپنے اپنے وقت مستحب میں پابندی سے ادا کرنا مقصود ہے اور شروع میں جہاں مقصود بالذکر خشوع تھا وہاں لفظ مفرد لایا گیا ہے کہ مطلقاً جنس نماز خواہ فرض ہو یا واجب، سنت ہو یا نفل سب کی روح خشوع ہے۔ غور کیا جائے تو ان سات اوصاف مذکورہ میں تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد اور ان سے متعلقہ احکام آجاتے ہیں جو شخص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہوجائے اور اس پر جما رہے وہ مومن کامل فلاح دنیا و آخرت کا مستحق ہے۔ یہ بات قابل نظر ہے کہ ان سات اوصاف کو شروع بھی نماز سے کیا گیا اور ختم بھی نماز پر کیا گیا اس میں اشارہ ہے کہ اگر نماز کو نماز کی طرح پابندی اور آداب نماز کے ساتھ ادا کیا جائے تو باقی اوصاف اس میں خود بخود پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ واللہ اعلم
وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَوٰتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ ٩ۘ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
نمازوں کی محافظت قول باری ہے (والذین ھم علی صلوتھم یحافظون اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں) قول باری (یحافظون) کی تفسیر میں سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ نمازیں ان کے اوقات میں ادا کی جائیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لیس التفریط فی النوم انما) التفریط ان یترک الصلوۃ حتی یدخل وقت الاخری نماز کی ادائیگی میں کوتاہی نیند کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ کوتاہی کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نماز ادا نہ کرے اور بیٹھا رہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے) مسروق کا قول ہے کہ نماز کی محافظت کا مفہوم یہ ہے کہ نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کیا جائے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ نمازوں پر دوام کرتے ہیں یعنی ہمیشہ ان کی ادائیگی کرتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ نماز کے لئے وضو کی، نماز کے اوقات نیز رکوع وسجود کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نماز کی محافظت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی شرائط کی تکمیل کے ساتھ وقت پر اس کی ادائیگی کی پوری نگہداشت کی جائے۔ سلف سے محافظت کی جو صورتیں منقول ہیں وہ سب کی سب آیت میں مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کا دوبارہ ذکر کیا اس لئے کہ نمازی نماز کی محافظت کا اسی طرح پابند ہے جس طرح اس میں خشوع و خضوع کا ۔
آیت ٩ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ) ” یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس مضمون کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے کیا گیا تھا اور اس کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر کیا جا رہا ہے۔ آیت ٢ میں کامیاب و بامراد مؤمنین کی پہلی صفت یہ بتائی گئی تھی : (الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ) کہ وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ یعنی اس مضمون کے آغاز میں نماز کی باطنی کیفیت کے حسن کا ذکر کیا گیا تھا ‘ جبکہ اختتام پر آیت زیر نظر میں نماز کے نظام کی بات کی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان نماز پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے تمام آداب و قوانین کوّ کماحقہ ملحوظ رکھتے ہیں۔
9. Salawat is plural of Salat. In( verse 2) the act of Salat itself was implied, but here the plural number implies the individual Prayers offered in their own times. They strictly guard their Prayers: they strictly adhere to the prescribed times of the Prayers: they perform them with due regard for their pre-requisites, conditions and articles with clean body and dress and necessary ablutions: they do not regard their Prayers as an unnecessary burden, which has to be cast off somehow: they do not recite mechanically but understand what they recite and are conscious that they are supplicating to their Lord like humble servants.
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :9 اوپر خشوع کے ذکر میں نماز فرمایا تھا اور یہاں نمازوں بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے ۔ دونوں میں فرق یہ ہے وہاں جنس نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے ۔ نمازوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز ، آداب نماز ، ارکان و اجزائے نماز ، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں ۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں ۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں ۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں ، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے ۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے ۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے ، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے ۔
7: نمازوں کی نگرانی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ نماز کی پوری پابندی کی جائے، اور یہ بھی کہ ان کو صحیح طریقے سے آداب اور شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔
(23:9) یحافظون۔ مضارع جمع مذکر غائب (باب مفاعلہ) محافظۃ مصدر نگرانی رکھتے ہیں۔ پابندی کرتے ہیں۔
7 ۔ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں بلکہ فرمایا کہ وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی تمام نمازیں ان کے وقت پر باجماعت ادا کرتے ہیں کبھی ناغہ نہیں کرتے نیز دیکھئے سورة بقرہ :2 ۔ (ابن کثیر)
فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی ساتویں صفت اور ان اوصاف کے حامل حضرات کا آخرت میں صلہ :۔ یہاں مومنوں کی بیان ہونے والی صفات میں ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نماز کی حفاظت سے مراد پنجگانہ نماز کو اول وقت پر ادا کرنا اور نماز کے متعلقہ مسائل کا خیال رکھنا ہے اس میں طہارت سے لے کر نماز سے سلام پھیرنے تک کے مسائل شامل ہیں جن کا خلاصہ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے ان پر عمل کیا اور مذکورہ اوصاف کے ساتھ متصف ہونے کی کوشش کی ان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ جنت الفردوس کے مالک اور وارث ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یاد رہے کہ جنت کی سو منزلیں ہیں سب سے اعلیٰ اور آخری منزل جنت الفردوس ہے جس میں تمام جنّتوں سے بڑھ کر گل و گلزار اور انعام و اکرام ہوں گے۔ سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لوگو ! جب اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس مانگا کرو۔ (عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) أَنَّ أُمَّ الرُّبَیِّعِ بِنْتَ الْبَرَاءِ وَہْیَ أُمُّ حَارِثَۃَ بْنِ سُرَاقَۃَ أَتَتِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَتْ یَا نَبِیَّ اللَّہِ ، أَلاَ تُحَدِّثُنِی عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمٌ غَرْبٌ، فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ ، صَبَرْتُ ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ اجْتَہَدْتُ عَلَیْہِ فِی الْبُکَاءِ قَالَ یَا أُمَّ حَارِثَۃَ ، إِنَّہَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ ، وَإِنَّ ابْنَکِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الأَعْلَی) [ رواہ البخاری : باب مَنْ أَتَاہُ سَہْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَہُ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ام ربیع بنت براء (رض) جو حارثہ بن سراقہ کی والدہ ہیں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اس نے کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے حارثہ کے بارے میں کیوں نہیں بتلاتے جو جنگ بدر میں شہید ہوگیا۔ اسے نامعلوم شخض کا تیر لگا۔ وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں اگر جہنم میں ہے تو میں بہت زیادہ رونے کی کوشش کروں گی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے امِّ حارثہ ! جنت کے بہت سے مراتب ہیں تیرا بیٹا فردوس الاعلیٰ میں پہنچ چکا ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی پیدائش کے علاقہ میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ مسائل ١۔ مومن ہر حوالے سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ٢۔ مومنوں کو جنت کا مالک اور وارث ٹھہرایا جائے گا۔ ٣۔ مومن جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جنت الفردوس کی ایک جھلک : ١۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت الفردوس میں ہوں گے۔ (المومنوں : ١٠۔ ١١) ٢۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی کا اہتمام ہوگا۔ (الکھف : ١٠٧) ٣۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلام کیا جائے گا۔ (الفرقان : ٧٥) ٤۔ جنت میں جنتی کو وہ کچھ حاصل ہوگا جس کا وہ خواہشمند ہوگا۔ ( الانبیاء : ١٠٢)
اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ) (اور وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں) اس میں تمام نمازیں پابندی سے پڑھنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ جو لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی وہ لوگ اس فضیلت کے مستحق نہیں جس کا یہاں بیان ہو رہا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور انہیں بروقت ادا کیا اور ان کا رکوع اور سجود پورا کیا اس کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے گا، اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کے لیے اللہ کا کوئی عہد نہیں اگر چاہے اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔ (رواہ ابو داؤد) ۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے نماز کی پابندی کی قیامت کے دن اس کے لیے نماز نور ہوگی اور (ایمان کی) دلیل ہوگی اور جو بےنمازی ہے وہ قیامت کے دن قارون فرعون ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (رواہ الدارمی جلد ٢ صفحہ ٢١١ و البیہقی فی شعب الایمان کمافی المشکوٰۃ)
9:۔ ” وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰوتِھِمْ الخ “ یہ امر دوم کا اعادہ ہے اور اعادہ کا فائدہ یہ ہے کہ پہلے ” اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ “ میں نماز میں خشوع و خضوع کرنے کا ذکر تھا اور یہاں فرائض و واجبات، آداب و مستحبات اور وقتوں کی پابندی کی رعایت سے بلا ناغہ نماز قائم کرنے کا ذکر فرمایا کیونکہ لفظ محافظت ان تمام باتوں کو شامل ہے المراد بالمحافظۃ التعھد لشروطھا من وقت و طھارۃ و غیرھما والقیام علی ارکانھا واتمامھا حتی یکون ذالک دابۃ فی کل وقت الخ (کبیر ج 6 ص 372) ۔