Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 91

سورة المؤمنون

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾

Allah has not taken any son, nor has there ever been with Him any deity. [If there had been], then each deity would have taken what it created, and some of them would have sought to overcome others. Exalted is Allah above what they describe [concerning Him].

نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک ( اور بے نیاز ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah has no Partner or Associate Allah declares Himself to be above having any child or partner in dominion, control and worship. He says: مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ... No son did Allah beget, nor is there any god along with Him. (If there had been many gods), then...  each god would have taken away what he had created, and some would have tried to overcome others. meaning, if it were decreed that there should be a plurality of deities, each of them would have exclusive control over whatever he had created, so there would never be any order in the universe. But what we see is that the universe is ordered and cohesive, with the upper and lower realms connected to one another in the most perfect fashion. مَّا تَرَى فِى خَلْقِ الرَّحْمَـنِ مِن تَفَـوُتٍ you can see no fault in the creation of the Most Gracious. (67:3) Moreover, if there were a number of gods, each of them would try to subdue the other with enmity, and one would prevail over the other. This has been mentioned by the scholars of Ilm-ul-Kalam, who discussed it using the evidence of mutual resistance or counteraction. This idea states that if there were two or more creators, one would want to make a body move while the other would want to keep it immobile, and if neither of them could achieve what they wanted, then both would be incapable, but the One Whose existence is essential (i.e., Allah) cannot be incapable. It is impossible for the will of both to be fulfilled because of the conflict. This dilemma only arises when a plurality of gods is suggested, so it is impossible for there to be such a plurality, because if the will of one is fulfilled and not the other, the one who prevails will be the one whose existence is essential (i.e., God) and the one who is prevailed over will be merely possible (i.e., he is not divine), because it is not befitting for the one to be defeated whose existence is essential. Allah says: ... وَلَعَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ and some would have tried to overcome others! Glorified be Allah above all that they attribute to Him! meaning, high above all that the stubborn wrongdoers say when they claim that He has a son or partner.   Show more

وہ ہر شان میں بےمثال ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو ۔ ملک میں ، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں ، وہ یکتا ہے ، نہ اسکی اولاد ہے ، نہ اس کا شریک ہے ۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو...  موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے ، عالم علوی اور عالم سفلی ، آسمان وزمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں مشغول ہیں ۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے اللہ مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست ومغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا ۔ اگر غالب آگیا تو مغلوب اللہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں ۔ پس یہ دونوں دلیلیں بتا رہی ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے ۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کرلے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں ہوتا ۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے ۔ تو دونوں کی مراد کا حاصل ہونامحال ہے ۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں باطل ہوگیا ۔ اب رہی تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جس کی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا ۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں بھی معبودوں کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش ، حد سے گزر جانے والے ، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بلند وبالا اور برتر و منزہ ہے ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے ۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے ، جسے منکر اور مشرک شریک اللہ بتاتے ہیں ۔ آیت ( رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 94؀ ) 23- المؤمنون:94 )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] جبکہ مشرکین اپنی دیویوں کی لات، منات اور عزیٰ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور باقی ممالک کے مشرکین نے تو ایسی دیو مالا تیار کی کہ اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو۔ اب ظاہر ہے کہ بیٹا مملوک نہیں ہوتا ... بلکہ شریک ہوتا ہے۔ اب ایک طرف تو مشرکین مکہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے۔ لہذا اگر ہر چیز کو مملوک مان لیا جائے تو کوئی بھی چیز اس کی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یا پھر ان کلیہ سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ [٨٩] اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو الٰہ ماننے سے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ الٰہ صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہوں۔ اس طرح اللہ کے علاوہ بہت سے اصحاب اختیار و اقتدار سامنے آجاتے ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ دوسرے کو بات کرکے خود غالب آجائے پھر جس مخلوق پر کسی الٰہ کا اختیار چلتا ہوگا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ اور اقتدار کی اس جنگ میں لامحالہ کائنات کا نظام بھی تباہ ہو کے رہے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کے نظام میں ہم آہنگی اور استقلال پایا جاتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ دوسرے معبودوں اور ان کے اختیارات کا عقیدہ باطل اور لغو ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان بےہودگیوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ ۔۔ : ” وَّلَدٍ “ نکرہ پر ” مَا “ کے ساتھ نفی آئی تو عموم پیدا ہوگیا کہ ” اللہ نے کوئی اولاد نہیں بنائی۔ “ ” مِنْ “ کے ساتھ اس عموم کی تاکید ہوگئی، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی اولاد نہیں بنائی۔ “ یعنی نہ کوئی فرشتہ، نہ نبی، نہ ولی، نہ کوئی اور... ۔ 3 تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا کوئی شریک ہو، ملک میں، تصرف میں، عبادت کا مستحق ہونے میں۔ وہ یکتا ہے، نہ اس کی اولاد ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک الٰہ (معبود) ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کا مستقل مالک ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا، حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے۔ عالم علوی، عالم سفلی اور آسمان و زمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق ومالک ایک ہی ہے، نہ کہ متفرق کئی ایک۔ پھر بہت سے الٰہ (معبود) مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست و مغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقت ور ہونا چاہے گا، اگر غالب آگیا تو مغلوب الٰہ (معبود) نہ رہا، اگر غالب نہ آیا تو وہ خود الٰہ (معبود) نہیں۔ “ (ابن کثیر) پس ثابت ہوا کہ معبود ایک اللہ ہے۔ وہ ظالم، سرکش، حد سے گزر جانے والے مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں، ان کے بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بہت بلند و بالا اور برتر و منزہ ہے، وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے، پس وہ ان تمام شرکاء سے پاک ہے جو مشرک اور منکر اللہ کا شریک بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک کے رد کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٢٢) ، بنی اسرائیل (٤٢، ١١١) ، نحل (٥٧، ٥٨) ، اور کہف (٤) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝ ٠ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۝ ٩١ۙ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُ... ودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) ” اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت ارفع و اعلیٰ ومنزہّ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. It should be, noted that this is a general refutation of the belief that Allah has a child or children, and incidentally refutes the Christian belief that Christ is the son of God. Yet even some eminent commentators confine this to the refutation of the Christian belief. Obviously, there is no reason why it was necessary to refute the Christian belief specifically in this context, when the who... le discourse has been directed towards the disbelievers of Makkah alone, who were, like the Christians, guilty of this sort of shirk. 85. Here the argument of Tauhid is based on this principle: Had there been more than one God or partners in Godhead, there would have been serious differences, conflicts and wars among the different sovereigns and rulers. See (Surah Bani Israil, Ayat 42 and E.N. 47) thereof, and (Surah Al-Anbiya, Ayat 22 and E. N. 22 )thereof.  Show more

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :84 یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے ۔ نہیں ، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ، اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی میں ان کے شریک حال رہے ہیں ۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ زیادہ مشہور ہو گی... ا ہے اس لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے ۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں ۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رخ پھر جانا بے معنی ہے ۔ البتہ ضمناً اس میں ان تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خدا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں ، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین عرب یا کوئی اور ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظام عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں میں ، اور ان گنت تاروں اور سیاروں میں پا رہے ہو ۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظام کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے ۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہوتا تو صاحب اقتدار میں اختلاف رونما ہونا یقیناً ناگزیر تھا ۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ یہی مضمون سورہ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ : لَوْ کَانَ فَیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ، ( آیت 22 ) ۔ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ اور یہی استدلال سورہ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ : لَوْ کَانَ مَعَہ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاًO ( آیت 42 ) اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو ضرور وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 22 ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: یہ توحید کی تقریباً وہی دلیل ہے جو سورۂ بنی اسرائیل : 42 اور سورۂ انبیاء : 22 میں گذری ہے۔ تشریح کے لیے ان آیتوں کے حواشی ملاحظہ فرمائیے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩١۔ ٩٢:۔ اوپر ذکر تھا کہ جس طرح جادوگروں کے فریب سے ٹھیکریاں روپے دکھائی دیتی ہیں ‘ اسی طرح شیطان کے فریب دینے اور بہکانے سے مرنے کے بعد کی وہ سچی باتیں ان لوگوں کو جھوٹی معلوم ہوتی ہیں ‘ ان آیتوں میں فرمایا ‘ اللہ کے رسول کو جھٹلانے والوں میں سے کچھ لوگ تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد کہتے ہ... یں اور کچھ وہ ہیں جو بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں مگر یہ بات ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کی ہے کہ دنیا کی جس بادشاہت میں دو بادشاہ شریک ہوتے ہیں تو ان میں طرح طرح کے جھگڑے ہو کر ایک دوسرے پر غالب آجاتا ہے ‘ اب جس طرح دنیا کے دو بادشاہوں کے آپس کے جھگڑے کی بات ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے ‘ یہ بھی ان کی آنکھوں کے روبرو ہے کہ تمام دنیا میں انتظام الٰہی ہمیشہ سے ایک وتیرہ پر ہے جس سے ہر شخص کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آسکتی ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کی بادشاہت میں اولاد بن کر یا ساجھی بن کر کوئی اس کا شریک نہیں ہے ‘ بغیر سند کے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں وہ بالکل جھوٹے ہیں کیونکہ ان میں سے کسی کو غیب کا علم نہیں ہے اس واسطے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں میں اپنی وحدانیت کی جو خبر دی ہے وہ سچ ہے اس سچ کے مقابلہ میں کوئی بےسند بات کسی طرح اعتبار کے قابل نہیں ہے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی جو اوپر گزری اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان نے مجھ کو صاحب اولاد ٹھہرا کر میری حقارت کی کیونکہ مجھ کو کسی طرح کے شریک کی حاجت نہیں ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس لیے انسان پر اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے جو لوگ اس واجب کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جب انسان کے پیدا کرنے میں اللہ کو کسی طرح کے شریک کی حاجت نہیں تو یہ مشرک لوگ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں شریک کر کے اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں شریک کر کے اللہ تعالیٰ کو دوسروں کی مدد کا حاجت مند ٹھہراتے ہیں ‘ جس سے اللہ کی شان کی حقارت لازم آتی ہے اس واسطے شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:91) اذا۔ حرف جواب اور جزا ہے۔ اصل میں یہ اذن ہے۔ وقف کی صورت میں نون کو الف سے بدل لیتے ہیں۔ بمعنی تب۔ اس وقت۔ فراء کا قول ہے کہ جس جگہ اذا کے بعد لام آئے گا۔ تو ضرور ہے کہ اس کے بعد لو مقدر ہو اگرچہ ظاہر اس کا کوئی پتہ نہ ہو۔ مثلاً قولہ تعالی۔ اذا لذھب کل الہ بما خلق (آیہ ہذا) ای لو کان معہ الھ... ۃ کما تزعمون لذھب کل الہ بما خلق۔۔ لعلا۔ لام تاکید کے لئے ہے علا یعلو علو (باب نصر) یا علی یعلی (فتح) علاء سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ وہ چڑھ گیا۔ اس نے چڑھائی کی ۔ وہ غالب آیا۔ لعلا بعضہم علی بعض۔ تو ضرور ایک دوسرے پر چڑھائی کردیتا۔ لذھب کل الہ بما خلق۔ تو وہ اپنی مخلوق کو لے کر جدا کرلیتا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ اپنی خدائی الگ قائم کرلیتا۔ 7 ۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا۔ (قرطبی) وہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اپنی بادشاہت اور اختیارات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اب اپنی ذات کے حوالے سے بتلا یا اور سمجھایا ہے کہ ذات کے اعتبار سے بھی کوئی اس کا ہم سر اور شریک نہیں ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات ... کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ سورة المائدہ آیت ٧٥ میں عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ میں سمجھایا کہ ابن مریم ( علیہ السلام) صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے رسول گزر چکے اس کی والدہ مریم کردار اور گفتار کے لحاظ سے صدیقہ تھی وہ ماں، بیٹا کھانا کھاتے تھے۔ توجہ فرمائیں کہ ہم ان لوگوں کے لیے اپنے دلائل کس طرح واضح کرتے ہیں تاکہ اس پر غور کریں کہ اس کے باوجود لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور عقلی دلیل کے ذریعے یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی زمین و آسمان میں اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ موجود ہے۔ اگر کوئی اور دو الٰہ ہوتے تو وہ اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے پر یلغار کرتے یہی صورت حال اللہ کی اولاد ہونے کی صورت میں پیدا ہوتی۔ اس کا ایک بیٹا زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کی کوشش کرتا اور اس کے مقابلے میں دوسرا اپنے اختیارات اور اپنی عوام میں اضافے کے درپے ہوتا۔ اس طرح یہ کائنات کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتی۔ کیونکہ جس کی اولاد ہوتی ہے اس کا ایک وقت پر کمزور اور ضعیف ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی ضرورت اور ہر قسم کے تعاون سے مبرّا اور پاک ہے وہ ہر غائب اور ظاہر کو جاننے والا اور اپنی ذات، صفات اور بادشاہی کے حوالے سے بلندوبالا اور ہر قسم کی شراکت اور معاونت سے منزہ اور پاک ہے۔ مسائل ١۔ اگر ” اللہ “ کے علاوہ اور الٰہ ہوتے تو وہ اپنی اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرنے کی کوشش کرتے۔ ٢۔ اگر ایک سے زیادہ الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے پر یلغار کرتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے لوگوں کے شرکیہ اور کفریہ عقیدہ اور کلمات سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ ایک ہی ہے : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٢۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٦۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٣٤) ٧۔ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جسے میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ٩۔ اللہ ہی الٰہ ہے وہی اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ ( الانعام : ١٠١) ١٠۔ کوئی اور الٰہ نہ بناؤ الٰہ تو ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ١١۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ : ٧٣) ١٢۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے، وہ مشرکوں کی شرکیہ باتوں سے پاک ہے مشرکین اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود بھی مانتے تھے آج بھی دنیا میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں اور خاص کر نصاری تو اس میں بہ... ت آگے ہیں، یہ لوگ حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان سب لوگوں کی تردید فرما دی جو قرآن کریم میں کئی جگہ مذکور ہے، یہاں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور یہ بھی فرمایا کہ صرف وہی معبود حقیقی ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، جو لوگ اس کے علاوہ معبود مانتے ہیں ان کو سمجھانے کے لیے فرمایا کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور اس لائق ہو تاکہ اس کی عبادت کی جائے تو خالق بھی ہوتا خود کسی کی مخلوق نہ ہوتا کیونکہ جس میں خالق ہونے کی اہلیت نہیں وہ معبود ہونے کا اہل نہیں سو بالفرض اگر کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اپنی پیدا کردہ ہر چیز کو اپنے قبضہ میں رکھتا۔ اور اپنی مخلوق کو دوسرے خالق سے علیحدہ رکھتا اور اپنی مخلوق پر کسی کا اختیار نہ چلنے دیتا اور مزید براں یہ ہوتا کہ ہر معبود دوسرے معبود پر چڑھائی کرتا اور دوسرے کی مخلوق پر بھی قبضہ کرنے کا نظام بناتا، لیکن سب جانتے ہیں جو کچھ وجود میں ہے ساری اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے جس کا سب کو اقرار بھی ہے اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ پورے عالم کا نظام یکسانیت کے ساتھ چل رہا ہے اس میں نہ کوئی کھینچ کھا نچ ہے نہ کوئی معارضہ ہے نہ مقابلہ، اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت و ارادہ کے موافق ساری مخلوق کا نظام چل رہا ہے جس کو اس نے جس طرح مسخر فرمایا ہر ایک اپنے اپنے کام میں اسی طرح لگا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ کے موافق ہے، اس کو دیکھتے ہیں پھر بھی شرک کرتے ہیں، یہ سراپا گمراہی ہے (سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) (اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو وہ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں) یعنی نہ اس کے اولاد ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ہے (عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ) (ہر چھپی ہوئی اور ہر ظاہر چیز کو جانتا ہے) اس صفت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے (فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (سو اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے جو لوگ شرک کرتے ہیں) یعنی لوگوں کی شرکیہ باتوں سے پاک ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

70:۔ ” ماتخذ اللہ الخ “ مسئلہ توحید کو دلائل کے ساتھ ثات و مبرہن کرنے کے بعد دعوی کو صراحت سے ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز اور عالم الغیب ہے اور اس کا کوئی نائب نہیں جس کو اس نے مافوق الاسباب تصرف کی اجازت دے رکھی ہو۔ ” و ما کان معہ الخ “ جس طرح اللہ تعالیٰ کا نائب کوئی نہیں اسی طرح الوہی... ت میں اس کا شریک وسہیم بھی کوئی نہیں کیونکہ اگر کوئی اسکا شریک ہوتا تو اپنی مخلوق میں اور اپنے ملک میں وہ خود مختار اور متصرف ہوتا۔ ” ولعلا بعضھم الخ “ اور ان کے درمیان اقتدار کی باقاعدہ جنگ ہوتی مگر تم دیکھ رہے ہو سارا عالم اللہ تعالیٰ ہی کے زیر تصرف ہے اور یہاں دوسرا کوئی متصرف نہیں تو معلوم ہوا کہ وہ وحدہ لا شریک ہے وہی قادر و متصرف اور مختار و کارساز ہے اور ہر چیز اسی کے اختیار و تصرف میں ہے۔ واذا کان کذالک فاعلموا انہ الہ واحد بیدہ ملکوت کل شیء ویقدر علی کل شیء (خازن ج 5 ص 43) ۔ 71:۔ ” سبحن اللہ الخ “ لہذا اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔ ” عالم الغیب والشہادۃ الخ “ متصرف و مختار بھی وہی ہے اور عالم الغیب بھی وہی ہے لہذا وہ ہر شریک سے پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(91) چونکہ توحید کا مسئلہ اہم ہے اس کی مزید وضاحت فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ تو کسی کو اپنی اولاد قرار دیا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اور ہر الٰہ اپنی اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہوجاتا اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لئے چڑھائی کردیتا۔ جو باتیں...  یہ اللہ تعالیٰ کی نسبت بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ان باتوں سے پاک اور بری ہے یعنی نہ تو اس کی کوئی اولاد ہے جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں یا عرب کے جاہل کہتے ہیں نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے اگر کوئی اور خدا بھی ہوتا تو اس کا قوی امکان تھا کہ وہ اپنی اپنی بنائی ہوئی اور پیدا کی ہوئی مخلوق کو لیکر علیحدہ ہوجاتا اور اس کا بھی امکان تھا کہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی غرض سے چڑھائی کردیتا اور سارا عالم خدائوں کی لڑائی میں تباہ ہوجاتا۔ جیسا کہ دنیا کے بادشاہوں کی لڑائی میں ہوتا ہے اور جب آج تک ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوگیا کہ جو باتیں یہ مشرک اس کی شان میں کہتے ہیں وہ ان سب باتوں سے پاک اور منزہ ہے۔  Show more