Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 93

سورة المؤمنون

قُلۡ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیۡ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۹۳﴾

Say, [O Muhammad], "My Lord, if You should show me that which they are promised,

آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to call on Allah when Calamity strikes, to repel Evil with that which is better, and to seek refuge with Allah Allah commands His Prophet Muhammad to: قُل ... Say: Allah commands His Prophet Muhammad to call on Him with this supplication when calamity strikes: ... رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ My Lord! If You would show me that with which they are threatened. رَبِّ فَلَ تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

برائی کے بدلے اچھائی سختیوں کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں پر عذاب لائے اور میں ان میں موجود ہوں ۔ تو مجھے ان عذابوں سے بچا لینا ۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا کہ اے اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے ، تو مجھے فتنہ میں ڈالنے سے پہلے اٹھالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں ۔ جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں ۔ پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں کی دوا ، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے ۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے ۔ جیسے ایک اور آیت میں بھی ہے کہ بھلائی سے دفع کر تو جانی دشمن ، دلی دوست بن جائے گا ۔ لیکن یہ کام انہیں سے ہوسکتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں ۔ یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں سے ہوسکتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کو برداشت کرلینے کے عادی ہوجائیں ۔ اور گو وہ برائی کریں لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں ۔ یہ وصف انہی لوگوں کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں ۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں ہو ۔ شیطان سے بچنے کی دعائیں انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے ۔ اس لئے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں ۔ وہ سلوک واحسان سے بس میں نہیں آنے کے استعاذہ کے بیان میں ہم لکھ آئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا ( اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم ) من ہمزہ ونفخہ ونفشہ پڑھا کرتے تھے ۔ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے ۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور علیہ السلام کی ایک دعا یہ بھی تھی ۔ ( اللہم انی اعوذبک من الھرم و اعوذ من الھدم ومن الغرق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عندالموت ) ۔ اے اللہ میں تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہوجانے کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم سوتے وقت پڑھا کریں ۔ دعا ( بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامتہ من غضبہ وعقابہ ومن شر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں سے جو ہوشیار ہو تے انہیں یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کرسکتے ان کے گلے میں اس دعا کو لکھ کر لٹکا دیتے ۔ ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ : ” اِمَّا “ ”إِنْ “ کی تاکید ” مَا “ کے ساتھ کی گئی ہے، اس لیے ترجمہ ” اگر کبھی “ کیا گیا ہے اور ” تُرِیَنَّ “ میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔ مفسر بقاعی نے لکھا ہے : ” أَيْ إِنْ کَانَ وَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ تُرِیَنِّيْ قَبْلَ مَوْتِيْ “ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ” اگر تو کبھی مجھے ضرور ہی وہ (عذاب) دکھائے۔ “ 3 یعنی جب اللہ تعالیٰ کی جناب میں اولاد یا شریک بنانے کی سخت گستاخی کی جاتی ہے تو یقیناً کوئی سخت آفت آ کر رہے گی، اس لیے ہر مومن کو حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر یہ دعا مانگے۔ 3 آیت کے اولین مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، ان کے ساتھ امت کا ہر فرد بھی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں عذاب نہ لانے کا وعدہ فرمایا ہے، فرمایا : (وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) [ الأنفال : ٣٣ ] ” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ “ اس کے باوجود اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذاب سے بچنے کی دعا کا حکم دیا، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے عذاب سے سخت خوف زدہ رہتے تھے اور اس سے بچنے کی دعا کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے، اس کے باوجود آپ کو استغفار کا حکم دیا، فرمایا : (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ) [ النصر : ٣ ] ” تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اللہ تعالیٰ سے خشیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بادل یا آندھی دیکھتے تو آپ کے چہرے پر اس کے اثرات پہچانے جاتے۔ “ عائشہ (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عَاءِشَۃُ ! مَا یُؤْمِنِّيْ أَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ عَذَابٌ ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بالرِّیْحِ وَقَدْ رَأَی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( فلما رأوہ عارضا۔۔ ) : ٤٨٢٩ ] ” اے عائشہ ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں کوئی عذاب نہ ہو ؟ ایک قوم (عاد) پر آندھی کا عذاب آیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے، یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔ “ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ پروردگار ! تو مجھے عفو اور عافیت عطا فرما اور اگر تو نے کچھ لوگوں کو عذاب دینے کا ارادہ کر ہی لیا ہو تو مجھے ان ظالموں میں شامل نہ کرنا۔ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دعا نقل فرمائی ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ وَ تَرْحَمَنِيْ وَ إِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃً فِيْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِيْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ ، وَ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ حُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ ) ” اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے، برائیاں چھوڑنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس بات کا بھی کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی قوم کے فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں ڈالے بغیر قبض کرلے۔ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت کا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب کر دے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّھَا حَقٌّ فَادْرُسُوْھَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْھَا ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة صٓ : ٣٢٣٥، قال الترمذي حسن صحیح و قال الألباني صحیح ] ” یہ کلمات حق ہیں انھیں پڑھو، پھر انھیں اچھی طرح سیکھ لو۔ “ 3 اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا سکھائی تاکہ مشرکین پر عذاب آئے تو آپ اس وقت ان کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ ان سے الگ ہوں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کی توفیق عطا فرما کر آپ کو کافروں سے الگ کردیا اور قحط اور جنگوں کی صورت میں ان پر جو عذاب آئے آپ کو ان سے محفوظ رکھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر آپ (حق تعالیٰ سے) دعا کیجئے کہ اے میرے رب جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے (جیسا اوپر اِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ سے بھی معلوم ہوا) اگر آپ مجھ کو دکھا دیں (مثلاً یہ کہ وہ عذاب ان پر میری زندگی میں اس طور سے آوے کہ میں بھی دیکھوں کیونکہ اس عذاب موعود کا کوئی وقت خاص نہیں بتلایا گیا ہے چناچہ آیت مذکورہ بھی مبہم ہے جس میں یہ احتمال مذکور بھی ہے غرض اگر ایسا ہوا) تو اے میرے رب مجھ کو ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجئے اور ہم اس بات پر کہ جو ان سے وعدہ کر رہے ہیں آپ کو بھی دکھلا دیں قادر ہیں (باقی جب تک ان پر عذاب نہ آوے) آپ (ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھئے کہ) ان کی بدی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کردیا کیجئے جو بہت ہی اچھا (اور نرم) ہو (اور اپنی ذات کے لئے بدلہ نہ لیجئے بلکہ ہمارے حوالہ کردیا کیجئے) ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ (آپ کی نسبت) کہا کرتے ہیں اور (اگر آپ بمقتضائے بشریت غیظ آ جایا کرے تو) آپ یوں دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے (جو مفضی ہوجاویں کسی ایسے امر کی طرف جو خلاف مصلحت ہو گو خلاف شریعت نہ ہو) اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس بھی آویں (اور وسوسہ ڈالنا تو درکنار پس اس سے وہ غیظ جاتا رہے گا۔ یہ کفار اپنے کفر و انکار معاد سے باز نہیں آتے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی (کے سر) پر موت آ (کھڑی) ہوتی ہے (اور آخرت کا معائنہ ہونے لگتا ہے) اس وقت (آنکھیں کھلتی ہیں اور اپنے جہل و کفر پر نادم ہو کر) کہتا ہے کہ اے میرے رب (مجھ سے موت کو ٹال دیجئے اور) مجھ کو (دنیا میں) پھر واپس بھیج دیجئے تاکہ جس (دنیا) کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں (پھر جا کر) نیک کام کروں (یعنی تصدیق و اطاعت حق تعالیٰ اس درخواست کو رد فرماتے ہیں کہ) ہرگز (ایسا) نہیں (ہوگا) یہ (اس کی) ایک بات ہی بات ہے جس کو یہ کہے جا رہا ہے (اور پوری ہونے والی نہیں) اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان لوگوں کے آگے ایک (چیز) آڑ (کی آنے والی) ہے (کہ جس کا آنا ضروری ہے اور وہی دنیا میں واپس آنے سے مانع ہے مراد اس سے موت ہے کہ اس کا وقوع بھی وقت مقدر پر ضروری ہے وَلَنْ يُّؤ َخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا اور موت کے بعد دنیا میں لوٹ کر آنا بھی) قیامت کے دن تک (قانون الٰہی کے خلاف ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ۝ ٩٣ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٣۔ ٩٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دعا کیجیے کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے اگر آپ مجھ کو دکھادیں تو بدر کے دن ان کافروں کے ساتھ مجھ کو شامل نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:93) اما ترینی۔ ای ان ما ترینی۔ ترین اراء ۃ سے مضارع کا صیغہ زائد ہیں۔ صرف تاکید کے لئے لائے گئے ہیں۔ عبارت یوں بھی ہوسکتی تھی۔ ان کان لا بد من ان ترینی۔ اگر یہ ضروری ہی تھا۔ کہ تو مجھے یہ (عذاب) دکھائے۔ ما یوعدون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب، جس (عذاب) کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف آپ یہ دعا کیجئے کہ ایمان دار بندے یہ سیکھ لیں کہ اے اللہ جب میرے سامنے ان پر عذاب آئے اور تیری گرفت میں آئیں تو اے میرے پروردگار مجھے ان ظالموں سے الگ رکھیے گا اور ان پر آنے والے عذاب سے محفوظ فرمائیے گا اس لیے کہ ہمیں قدرت حاصل ہے کہ ان سے عذاب کے وعدے کیے جا رہے ہیں وہ پورے کردیں اور آپ کو بھی دکھا دیں چناچہ کفار پر مکہ میں مختلف عذاب وارد ہوئے پھر میدان میں شکست ہوئی اور روئے زمین پر مسلسل شکست ہوتی چلی گئی ، اور اللہ کریم نے دنیا میں جن عذابوں سے خبر دار کیا تھا وہ واقعہ ہو کر رہے ۔ (کفار ومشرکین سے الگ رہنا ضروری ہے) یہاں واضح ہے کہ مومن شکل و صورت وضح قطع میں بھی کفار سے الگ اپنی پہچان رکھتا ہے کہ عقیدے اور عمل میں اس کا راستہ جدا ہے پھر اس سے بھی خطا ہوسکتی ہے تو دعا کرے کہ اللہ جل جلالہ مجھے کفار کے ساتھ عذاب میں شامل نہ فرمانا بلکہ میرے قصور معاف فرما اور یہ اس قدر ضروری ہے کہ اس دعا کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا جو معصوم ہیں خطا کا امکان نہیں اور رحمت مجسم ہیں مگر دعا تعلیم فرما کر یہ بتا دیا گیا کہ سب مسلمانوں کو ہر حال میں کفار سے الگ اسلامی تشخص برقرار بھی رکھنا ہے اور ان سے الگ رہنے کی دعا بھی کرتا رہے اور جب تک نہٰں مہلت مل رہی ہے اور ان پر عمل عذاب واقع نہیں ہو رہا آپ ان کی برائی کا جواب اپنے خوبصورت اور نرم رویہ سے دیجیے کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے تو وہ بڑھتی ہے جبکہ آپ کی شان اسے مٹانا ہے ، ہاں وہ کس قدر زیادتی کرتے ہیں اور آپ کی شان میں کس قدر گستاخ ہیں یہ ہمارے علم میں ہے یعنی اس کا بدلہ انہیں قدرت سے ملے گا ۔ (غصہ اور شیطان سے بچنے کی دعا) اور غصے میں جذبات بھڑک اٹھتے ہیں تو شیطان کے لیے اپنی بات ڈالنا آسان ہوجاتا ہے لہذا ایسی حالت میں اللہ جل جلالہ سے دعا کی جائے اے اللہ میں شیطان کی مداخلت سے تیری پناہ کا طالب ہوں بلکہ میری گذارش تو یہ ہے کہ شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور اسے میرے قریب بھی نہ آنے دے چہ جائیکہ وہ وسوسے ڈالنے لگے یہ دعا غصہ کی حالت میں پڑھی جائیے تو غصہ ٹھیک ہوجاتا ہے اور جن لوگوں کو وساوس آتے ہوں وہ پڑھا کریں تو نجات نصیب ہوتی ہے نیز بعض حضرات کے نزدیک یہ آیات جہاد کے حکم سے منسوخ ہوگئیں مگر ایسا نہیں یہ آیات حسن خلق کا حکم دے رہی ہیں جیسے اسلام نے عین حالت جن میں بھی باقی رکھا کہ عورت یا بچے کو قتل نہ کیا جائے معابد نہ اجاڑے جائیں فصلوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ مذہبی لوگ جو جنگ میں شامل نہیں ہوتے انہیں قتل نہ کیا جائے ، قیدیوں سے حسن سلوک مفتوح اقوام کے حقوق یہ سب اسلام کا حسن خلق ہی تو ہے جہاد جنگ نہیں بلکہ برائی کو مٹانے کی کوشش کا نام ہے جس کا اپنا حسن ہے ۔ اور کفار کا حال تو یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے یعنی بزرخ نظر آنے لگتا ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں تب انہیں آخرت کا یقین آجاتا ہے پھر اللہ جل جلالہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں واپس جانے دے یعنی دنیا کی زندگی میں پلٹنے دے کہ ہم ایمان لائیں اور تیری اطاعت کے کام کریں ، یہ سب تو ہم نے چھوڑ رکھا تھا اب اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا آپ مہربانی کیجئے اگر مرنے والے کو دیکھا جائے تو وہ موت سے کتنی دیر پہلے سب سے کٹ کر ایک طرف ہی متوجہ ہوجاتا ہے اور ظاہرا بھی سمجھ آتی ہے کہ اب اس کی توجہ صرف آخرت کی جانب لگی ہے اور کفار پر تو کئی روز پہلے یہ حال طاری ہوجاتا ہے اللہ معاف فرمائے بعض تو مہینوں موت کی دہلیز پہ لٹکے رہتے ہیں فرمایا جب آخرت منکشف ہوگئی تو اب واپسی کیسی یہ ہرگز نہیں ہو سکتا یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہے جا رہے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں اب ان کو برزخ ہی میں داخل ہونا ہے جو ان کے روبرو ہے جہاں قیام قیامت تک سب کو رہنا ہے ، دنیا اور قیام قیامت کے درمیان عالم برزخ کہلاتا ہے جسے ایک انتظارگاہ کہا جاسکتا ہے مگر وہاں بھی ہر آدمی کی ایک حیثیت ہے ، نیک وبد کو اس کی حیثیت کے مطابق ہی رکھا جاتا ہے پھر جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہوگی سب اٹھ کر میدان حشر میں جمع ہوں گے تو کفر کی نامرادی کا یہ عالم ہوگا کہ کوئی کسی رشتے اور نسب کی پرواہ کرے گا نہ حال پوچھے گا کہ سب اپنی اپنی مصیبت میں اس قدر پھنسے ہوئے ہوں گے کہ دوسروں کو بھول جائیں گے ہاں یہ حال کفار کا ہے مومنین کا آپس میں ملنا ایک دوسرے کی شفاعت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا یہ سب ثابت ہے اور جن کے اعمال کے وزن ہونے کے وقت نیکی کا پلڑا بھاری ہوا وہی کامیابی کو پہنچیں گے اور جن کا نیکی کا پڑا کم پڑگیا اور بدی کا پلڑا بھاری ہوگیا اور سخت نقصان میں رہے اس لیے کہ وہ دوزخ میں جائیں گے جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگا ۔ (مومن وکافر کے اعمال کا وزن) مفسرین کرام نے کتاب اللہ کی دوسری آیات سے استدلال فرما کر لکھا ہے کہ نیکی کا پلڑا بھاری ہونے کا معنی یہ ہے مومن کی برائی کا پلڑا سرے سے خالی ہوگا کہ اس سے گناہ بھی سرزد ہو تو توبہ کرتا ہے ایک نماز سے دوسری نماز کے گناہ نماز سے معاف ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ جل جلالہ کو یاد کرکے معافی کا طلبگار رہتا ہے لہذا اس کا بدی کا پلڑا خالی ہوگا اور کافر کی کوئی نیکی قبول ہی نہیں ہوتی کہ اگر کوئی تک کام بھی کرے تو اپنی پسند سے کرتا ہے اور دنیا کے فائدے کے لیے کرتا ہے کہ نہ وہ اللہ جل جلالہ سے ایمان رکھتا ہے نہ آخرت سے لہذا اس کا نیکی کا پلڑا خالی ہوگا اور وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ، ہاں مومنین میں نماز کے تارک یا ذکر الہی سے غافل لوگ اگر گناہ لے جائیں گے تو ان کی مثال زنگ کی سی ہوگی اور انہیں جہنم میں وہ زنگ اتارنے کو داخل ہونا پڑے گا پھر بھی آخر نجات پائیں گے مگر کفار تو ہمیشہ رہیں گے جہاں آگ ان کے حلیے بگاڑ دے گی اور جل بھن کر شکلیں مسخ ہو کر ڈراؤنی ہوجائیں گی ، اوپر کے ہونٹ اوپر اور نیچے کے نیچے کو لٹک جائیں گے تب زور زور سے چلائیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تمہارے سامنے میری آیات پیش نہ کی گئیں ، یقینا تمہیں حق کی دعوت پہنچی مگر تم تو اس کی تکذیب کرتے تھے اور ٹھکرا دی تم میں سے تو کہیں گے اے پروردگار یہ ہماری بدبختی اور شقاوت یعنی دل کی گناہوں کے باعث سختی کا نتیجہ تھا کہ ہم گمراہ ہوگئے اور حق کو نہ اپنایا ، اے ہمارے رب یعنی وہاں مانیں گے کہ رب صرف اللہ ہے دنیا میں بیشمار لوگوں سے امیدیں وابستہ تھیں اب سمجھے کہ حق کیا ہے ، سو اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال کر پھر سے دنیا میں بھیج دیکھ ہم کس طرح غلامی کرتے ہیں اگر ہم پھر اسی کے حقدار ٹھہرے تو پھر قصوروار ہم ہی ہوں گے تو ارشاد ہوگا جاؤ جہنم میں ذلیل ہوتے رہو اور آئندہ کبھی مجھے مت پکارو ، بات کرنے کی کوشش بھی نہ کرو ” العیاذ باللہ “ یہ بہت سخت عذاب کی حالت ہوگی کہ اس کے بعد اہل جہنم بات تک کرنے سے محروم ہوجائیں گے اور ایک دوسرے پر بھی صرف بھونکیں گے تب انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں میرے ایسے بندے بھی تو تھے جو مجھے وہاں اپنا رب مان کر دعا کرتے تھے ۔ (اہل اللہ کا احترام ضروری ہے) کہ ہمارے پروردگار ہم تیری ذات وصفات پر یقین رکھتے ہیں بندے ہیں خطا ہوجاتی ہے ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہم پر رحم فرما کہ تو ہی سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے تو تم ان کا مذاق اڑاتے تھے ان کی توہین کرتے تھے جس کی سزا یہ ملی کہ تمہیں میری یاد ہی بھول گئی تم کو میرا ذکر تک کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور تمہاری ساری عمر کا حاصل صرف یہ رہا کہ میرے مقبول بندوں کا مذاق اڑایا کیا آج تمہارے سامنے میں ان کو عزت و عظمت دوں گا تمہاری ایذا اور مشکلات حیات میں انہوں نے جو صبر کیا اس کا انعام دوں گا اور انہیں اپنے کرم سے سرفراز کروں گا بھلا یہ تو سوچو کہ دنیا کی زندگی تھی ہی کتنی کہ تم پر اطاعت کرنا بھاری ہوگیا تھا تو کہہ اٹھیں گے دن بھر رہی ہوگی یا کم وبیش اے اللہ حساب جاننے والوں سے پوچھ ہمیں اس کا حساب بھی یاد نہیں آرہا تو ارشاد ہوگا واقعی تم بہت ہی تھوڑا عرصہ رہے کہ آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کے مقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں بنتی اگر تم جانتے اور جاننے کی کوشش کرتے تو بات ایسی ہی تھی مگر تم نے یہ سوچ لیا تھا کہ شاید تمہیں پیدا کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں اور یہ سارا نظام محض عبث ہے اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا اور نہ تمہیں واپس ہماری بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا مگر یاد رکھو اللہ جل جلالہ اس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی شے عبث پیدا فرمائے وہ حقیقی بادشاہ ہے اور اس کا ہر فعل حق ہے ہرگز عبث نہیں ہو سکتا اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ کوئی اس کی برابری کا دعوی نہیں کرسکتا وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور عرش عظیم کا مالک ہے یعنی کاروبار حیات کا سب سے بڑا دفتر اس اکیلے کی قبضہ قدرت میں ہے لہذا جو لوگ بھی اس کے علاوہ کسی کی پوجا کرتے ہیں ان کے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں اور نہیں پروردگار عالم کے حضور اس بات کا حساب بھی دینا ہوگا جہاں کافر کو کبھی کامیابی نہ مل سکے گی اور آپ یہ دعا کیا کیجئے کہ میرے رب مجھے معاف فرما اور میرے حال پر رحم فرما کہ تو ہی سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 93 تا 118 : ترینی (مجھے دکھائیں) ‘ لاتجعلنی ( مجھے نہ بنائے گا) ‘ ادفع ( دورکردے) ‘ احسن ( بہترین) ‘ ھمزات (وسوسے) ‘ ترکت ( میں نے چھوڑ دیا) ‘ یحضرون (وہ حاضر ہوتے ہیں) برزخ (آڑ۔ پڑدے کے پیچھے) انساب (نسب۔ رشتے ناتے) ‘ ثقلت (بھاری ہونا) ‘ خفت (ہلکی ہوگی) موازین (وزن) خسروا ( نقصان کیا) ‘ تلفح (جھلس دی گئی) ‘ کالحون (بگڑے چہرے) ‘ شقوۃ (بدنصیبی۔ بد بختی) ‘ اخسوا (دور ہوجائو) ‘ سخریا (مذاق) ‘ تضحکون ( وہ مذاق اڑاتے ہیں) ‘ العادین (شمار کرنے والے۔ گننے والے) ‘ عبثا (فضول) خیرالراحمین ( بہترین رحم کرنے والا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 93 تا 118 : جب اللہ کے نبی اور رسول اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں تو خوش نصیب اس کو قبول کرتے ہیں اور بدنصیب لوگ اس کا انکار کرکے کفر و شرک میں آگ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو جہنم اور عذاب الہی کا مستحق بنا لیے یہں۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سخت سزادیتا ہے۔ کفار کے لئے یہ عذاب کا فیصلہ کبھی تو پیغمبروں کی زندگی میں ان کو دیکھا دیا جاتا ہے اور کبھی ان کے بعد۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اللہ کے دین اور اس ابدی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کی جس میں کفار مکہ اور آنے والی نسلوں کی فلاح اور کامیابی پوشیدہ تھی تو وہ انکار کرکے اللہ کی رحمت سے دور ہوتے چلے گئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقے اب اس امت پر وہ عذاب تو نہیں آئیں گے جو گذشتہ امتوں پر آئے لیکن سزا کے طور پر بیماریوں ‘ طوفانو ‘ زلزلوں اور اپس کے اختلافات اور جھگڑوں کے عذاب آتے رہیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے (پوری امت سے ) کہا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ اے میرے پروردگار آپ نے ان کافروں سے جس عذاب کا وعدہ کیا ہے اگر وہ مجھے اسی دنیا میں دکھادیں تو وہ عذاب اس طرح آئے کہ میں بھی دیکھوں لیکن مجھے ظالموں میں شریک نہ کیجئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیں اس بات پر پوری قدرت حاصل ہے کہ اگر ہم چاہیں تو کفارو مشرکین کے لئے جس عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے وہ آپ کو بھی دکھادیں لیکن اللہ نے ان کے لئے فیصلے کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ اس فیصلے کے دن تک بہر حال آپ ان کے ساتھ ہر برائی کا بدلہ بھلائی اور نیکی سے دیتے رہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے کرتوت کیا ہیں اور وہ کس طرح شیطان کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ آپ بھی دعا کرتے رہیے کہ الہی میں شیطان کے وسوسوں اور شرارتوں سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں او اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ کفار و مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو وہ شرمندگی سے یہ کہیں گے کہ ہمیں تو پھر اسی دنیا میں بھیج دیجئے جس کو ہم چھوڑ کر آئے ہیں تاکہ ہم وہاں جا کر خوب نیک اور بھلے کام کریں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کی یہ باتیں ہی باتیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کے اور دنیا کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی گئی ہے جو اسی وقت ہٹے گی جب صور پھونکا جائے گا اور اولین و آخرین کے تمام لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر اس میدان حشر میں جمع ہوں گے جہاں سارے رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے وہاں کوئی کسی کو نہیں پوچھے گا۔ ہر شخص اپنے اعمال لے کر حاضر ہوگا ۔ اچھے یا برے۔ جس کے اعمال کے وزن بھاری ہوں گے اس دن وہی کامیاب و بامراد ہوں گے لیکن جن کے اعمال ہلکے اور بےوزن ہوں گے ان کو اس بات پر بڑا افسوس ہوگا۔ کہ انہوں نے اپنا بہت بڑا نقصان کرلیا ہے اور ان کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جھونک دیا جائے گا۔ وہ آگ ان کے چہرے جھلس دے گی اور ان کے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتی تھیں اور برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تو تم ان آیات کو جھٹلایا کرتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے اور قدقسمتی نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور ہم بھٹک گئے تھے۔ درخواست کریں گے الہیٰ ! اب ہمیں اس جہنم سے نجات دید دیجئے دنیا میں لوٹا دیجئے اگر ہم پھر بھی ایسا کریں تو بیشک ہم سے بڑا بےانصاف کوئی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم اسی طح ذلیل و خوار پڑے رہو اور آج مجھ سے بات نہ کرو۔ ارشاد فرمایا جائے گا کہ میرے بندوں میں سے وہ بھی ایک جماعت تھی جو ہر وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہتی تھی اور کہتی تھی کہ الہی ہم پر رحم فرمائیے کیونکہ آپ سے بڑا رحم کرنے والا کون ہے ؟ کفار سے فرمایا جائے گا کہ تم نے میرے بندوں کی اس جماعت کو مذاق کا نشانہ بنا لیا تھا اور ہماری یاد سے تم مسلسل غفلت برت رہے تھے اور ان نیک لوگوں پر تم ہنستے تھے۔ آج کے دن ہم نے ان کو ان کے صبرو برداشت کا بدلہ عطا کردیا اور آج وہ کامیاب و بامراد ہیں۔ فرمایا جائے گا کہ اچھا تو یہ بتائو کہ تم دنیا میں کتنے عرصے تک رہے ہو وہ کہیں گے ہمیں تو ایسا معلوم ہوا جیسے دن یا آدھے دن تک رہے ہوں گے۔ اس کا صحیح اندازہ تو انہیں ہوگا۔ جو اس کو شمار کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ واقعی دنیا کی زندگی بڑی مختصر ہے اور تم اسی مختصر عرصے میں رہے ہو۔ لیکن کیا اچھا ہوتا کہ اس تھوڑی سی مدت میں کبھی تم اس بات پر غور کرلیتے کہ تمہارے کفر و شرک اور گناہوں کا انجام کیا ہوگا۔ فرمایا جائے گا کہ تم نے تو یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی کھیل کود کے طور پر بنارکھا ہے اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر نہیں آنا ہے۔ اگر تمہیں اس کا احساس ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ اللہ بہت بلندو برتر ہے ‘ سچا بادشاہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک و مختار ہے۔ جو لوگ ایسے با اختیار معبود کو چھوڑ کر بےبس ومجبور اور بےسند معبودوں کو پکارتے ہیں وہ ناکام ترین لوگ ہیں اور کافروں کو کبھی فلاح و کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ آخری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اور آپ کی امت کو) خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ گناہوں کا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا صرف اللہ ہی ہے لہذا تم ہمیشہ یہی کہو کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ معاف کردیجئے۔ اور ہم پر رحم کیجئے کیونکہ سب رحم کرنے والوں میں آپ ہی سب سے بڑھ کر رحم و کرم کرنے والے ہیں۔ اس مضمون پر سورة مومنون کی ختم فرمایا گیا ہے۔ اس کی ابتداء اس جملے سے کی گئی تھی کہ اہل ایمان ہی کامیاب و بامراد ہیں اور ختم اس جملے پر کیا گیا ہے کہ جو اللہ کے منکر ہیں ان کو کبھی فلاح و کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اگر انہوں نے توبہ کرلی اور اپنے حقیقی معبود کو پہچان کر اس کی عبادت و بندگی میں لگ گئے تو وہ اللہ اتنا مہربان ہے کہ وہ انسانوں کے تمام گناہوں کو معاف کرکے رحم و کرم کرنے والا ہے۔ الحمد للہ سورة المومنون کا ترجمہ ‘ تشریح مکمل ہوا۔ واخر و دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک کرنے کی وجہ سے پہلی اقوام پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذاب سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ منکرین حق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے وہ اب تک کیوں نہیں آیا ؟ کفار کے اس مطالبہ کے مختلف موقعوں پر مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں نئے انداز میں اس کے تین جواب دیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں جس عذاب کی تم جلدی کررہے ہو میں تو اپنے رب سے اس کی پناہ مانگتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ الٰہی اگر میری موجود گی میں تیرا عذاب نازل ہو تو مجھے ظالموں میں شریک نہ کرنا۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ ہم کفار کے ساتھ کیے گئے وعدہ کو پورا کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں کے سامنے ان کو تباہ و برباد کردیں۔ آپ ان کی برائی کے مقابلے میں اچھا رویّہ اختیار کریں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ آپ کے بارے میں ہر زہ سرائی کرتے ہیں۔ ” اے نبی نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے آپ برائی کا ایسے انداز میں جواب دیں جو اچھا ہو آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا گہرا دوست بن گیا۔ یہ حوصلہ اور ہمت صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ کسی بڑے نصیب والے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ (حٰم السجدہ : ٣٤، ٣٥) ” حضرت علی (رض) سے روایت ہے ایک یہودی عالم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے کچھ دینار قرض تھا۔ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کیا آپ نے اس سے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس سے تیرا قرض ادا کروں۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہاں سے نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ آپ مجھ کو میرا قرض ادا کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک تو میرے پاس بیٹھا رہے گا اس وقت تک میں بھی یہاں بیٹھا رہوں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھائی آپ کے صحابہ نے اسے ڈرانا اور دھمکانا چاہا تو آپ ان کی اس حرکت پر ناراض نہیں ہوئے۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول یہودی آپ کو روکے ہوئے ہے رسول اللہ نے فرمایا میرے رب نے مجھے نرمی کرنے والا بنایا ہے اور کسی پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ اگلے دن اس یہودی نے کلمہ پڑھ لیا اور کہا کہ میرا آدھا مال اللہ کے راستے میں وقف ہے۔ اللہ کی قسم میں نے آپ کے ساتھ یہ رویہّ آپ کو جانچنے کے لیے اختیار کیا۔ تاکہ میں ان اوصاف کو دیکھ سکوں جو اوصاف تورات میں محمد بن عبداللہ کے متعلق پائے جاتے ہیں اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور اس کی ہجرت مدینہ میں اور اس کی بادشاہت شام تک ہوگی نہ وہ سخت گو، نہ تند خو، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا، نہ بےحیائی کرنے والا اور نہ بد کلامی کرنے ولاہو گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں میرے اس مال کے بارے میں اللہ کے حکم کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے یہودی مالدار آدمی تھا۔ “ [ رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ] مسائل ١۔ ” اللہ “ کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے۔ ٣۔ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا ” اللہ “ کے عتاب اور عذاب سے ڈرنا : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( الاعراف : ٥٩) ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب ڈرتا ہوں۔ (یونس : ١٥) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر ایسے عذاب سے ڈرتا ہوں جو تم سب کو گھیرلے گا۔ ( ہود : ٨٤) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اللہ کے عذاب سے خوف کھایا کرتے تھے۔ ( مریم : ٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ربی ان یحضرون (آیت نمبر ٩٢ تا ٩٨) جب ان لوگوں کو وہ عذاب دیا جائے گا جس کی دھمکی ان کو دی جارہی ہے تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس سے نجات پائیں گے لیکن پھر بھی حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو مزید محفوظ کرنے کے لیے دعا کرتے رہیں اور بعد کے آنے والے اہل ایمان کو بھی یہ ایک قسم کی تعلیم ہے کہ وہ اللہ کے عذاب اور شیطان کی چالوں سے مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جائیں ۔ ہر وقت بیدار رہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ حیات محمد ؐ کے دوران ہی ان پر عذاب لے آئے۔ وانا علی ان لقدرون (٢٣ : ٩٠) ” اور یہ کہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے وہ چیز لانے کی قدرت رکھتے ہیں جس کی دھمکی دے رہے ہیں “۔ اور غزوہ بدر میں اللہ نی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی ایک جھلکی دکھا بھی دی ۔ اس کے بعد فتح مکہ میں بھی ایک رنگ دکھایا گیا۔ ادفع یصفون (٢٣ : ٩٢) ” اے نبی ؐ ، برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو ، جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں “۔ اس سورة کے نزول کے وقت مکہ مکرمہ میں دعوت اسلامی کے لیے یہ منہاج اختیار کیا گیا تھا کہ برائی کا دفعیہ بھلائی کے ساتھ کیا جائے ۔ اللہ کا حکم آنے تک صبر کیا جائے اور معالات اللہ کے سپرد کردیئے جائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے یہ دعا کہ اے رب میں تجھ سے شیطان کی اکساہٹوں سے پناہ مانگتا ہوں ، جب کہ آپ خدا کی طرف سے حفاظت میں تھے اور معصوم تھے ، یہ بات زیادہ احتیاط اور زیادہ تقویٰ کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ التجا اور امت کو تعلیم دینے کی خاطر ہے کیونکہ حضور ہی اپنی امت کے لیے اسوہ ہیں ۔ یہ دراصل امت کو تعلیم ہے کہ شیطان کو اکساہٹوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ ہر وقت مانگتے رہو۔ بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ شیطان کے قرب سے پناہ طلب کریں ۔ چناچہ کہا جاتا ہے۔ واعوذبک رب ان یحضرون (٢٣ : ٩٨) ” بلکہ میں تو اے رب ، اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے قریب آئیں “۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وفات کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے پناہ مانگتے ہوں کہ شیطان اس وقت آموجود ہو۔ اس آیت کے بعد اگلی آیت جو اگلے سبق میں ہے اس طرف اشارہ بھی کرتی ہے ۔ حتی اذا جاء احدھم الموت (٢٣ : ٩٩) ” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے “۔ یہ قرآن کا انداز کلام ہے کہ ایک مفہوم سے دوسرامفہوم بڑی ہم آہنگی سے نکلتا چلا جاتا ہے۔ دحتی اذا۔۔۔۔۔۔۔۔ یبعثون (٩٩ : ١٠٠) ”(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ” اے میرے رب ‘ مجھ یا سی دنیا میں واپس بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں ؟ امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔ ہر گز نہیں ‘ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ ہک رہا ہے۔ اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک “۔ اس آخری سبق میں بھی مشرکین کے برے انجام کی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ اب یہ لوگ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں ہیں۔ اس میں آغاز دنیا میں روح قبض کرنے کے وقت سے ہوتا ہے اور نفعع صور پر ختم ہوتا ہے۔ آخر میں سورة کے اختتام پر اصل مضمون کی طرف آتے ہوئے اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو کیونکہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے۔ سورة کا خاتمہ اس ہدایت پر ہوتا ہے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی مغفرت طلب فرمائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برائی کو اچھے طریقہ پر دفع کرنا اور شیاطین کے آنے اور وساوس ڈالنے سے اللہ کی پناہ لینا قرآن مجید میں بہت سی جگہ کافروں پر عذاب آنے کی وعید مذکور ہے موت کے بعد تو ہر کافر کو عذاب میں داخل ہونا ہی ہے دنیا میں بھی کبھی کبھی کہیں کہیں عذاب آجاتا ہے عذاب آنے کی جو وعیدیں ہیں چونکہ کوئی تاریخ مقرر کرکے نہیں بتائی گئی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ عذاب آئے گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آئے گا یا آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد نازل ہوگا اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے تلقین فرمائی کہ آپ یوں دعا کریں اے میرے رب اگر آپ مجھے وہ عذاب دکھا دیں جس کا ان لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو مجھے ظالموں کے ساتھ نہ کیجیے یعنی مجھے عذاب میں مبتلا نہ فرمائیے دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو ان کے آس پاس جو لوگ ہوتے ہیں وہ بھی مبتلائے عذاب ہوجاتے ہیں یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل فرماتا ہے تو وہاں جو لوگ بھی موجود ہوں سب پر عذاب نازل ہوتا ہے پھر قیامت کے دن اپنے اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ (رواہ البخاری) آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ اگر میری موجودگی میں ان لوگوں پر عذاب آجائے اور میرے دیکھتے ہوئے عذاب آنا ہی ہے تو مجھے ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے آپ اللہ کے معصوم نبی تھے جب تکذیب کرنے والی امتوں پر عذاب آتا تھا تو حضرات انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام اور ان حضرات کے متبعین عذاب سے محفوظ رہتے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مذکورہ بالا دعا کی تلقین فرمائی اس میں ایک تو آپ کو اس طرف متوجہ فرمایا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت اور خوف و خشیت کی شان ہونی چاہئے اور ساتھ ہی دیگر مومنین کو بھی تلقین ہوگئی کہ یہ دعا کیا کریں، اس میں حضرات صحابہ کو بھی خطاب ہوگیا اور بعد میں آنے والے اہل ایمان کو بھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ ” قل رب اما الخ “ تخویف دنیوی ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ اس طرح اللہ سے دعا مانگیں کہ اے اللہ جس عذاب کا تو نے ان منکرین سے وعدہ کیا ہے اگر وہ عذاب میری زندگی ہی میں ان پر نازل ہوجائے تو میرے پروردگار مجھے اس سے بچائیو یہ اس عذاب کی شدت و فظاعت کے اظہار کے لیے کہا گیا ورنہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو عذاب سے محفوظ تھے ہی تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ یہ عذاب اس قدر شدید اور دردناک ہوگا کہ ہر ایک کو اس سے پناہ مانگنی چاہیے (روح) ۔ ” وانا علی ان نریک الخ “ جس عذاب کی ہم ان کو دھمکی دے چکے ہیں وہ ہم آپ کی زندگی میں ان پر مسلط کرسکتے ہیں ہمیں اس کی قدرت و طاقت ہے لیکن ہم عذاب کو موخر کریں گے تاکہ کچھ لوگ ان میں سے ایمان لے آئیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(93) ان صاف صاف دلائل کو سن کر بھی جب یہ کفار عرب دین حق کی طرف مائل نہیں ہوتے تو یہ عذاب دنیوی یا اخروی میں ضرور مبتلا ہوں گے اس لئے اس عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے پیغمبر کو دعا تعلیم فرمائی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اے پیغمبر آپ یوں دعا کیجئے اے میرے پروردگار جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جارہا ہے اگر تو وہ مجھ کو دکھائے یعنی میری زندگی میں اگر وہ عذاب ان پر آجائے۔