Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 95

سورة المؤمنون

وَ اِنَّا عَلٰۤی اَنۡ نُّرِیَکَ مَا نَعِدُہُمۡ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿۹۵﴾

And indeed, We are able to show you what We have promised them.

ہم جو کچھ وعدے انہیں دے رہے ہیں سب آپ کو دکھا دینے پر یقیناً قادر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed We are able to show you that with which We have threatened them. means, `if We willed, We could show you the punishment and test that We will send upon them.' Then Allah shows him the best way to behave when mixing with people, which is to treat kindly the one who treats him badly, so as to soften his heart and turn his enmity to friendship, and to turn his hatred to love. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] کفار مکہ پر اس قسم کے عذاب کا آغاز غزوہ بدر سے ہی ہوگیا تھا۔ اور اختتام حجۃ الوداع کے دن اعلان برأت پر ہوا۔ جس کیرو سے مشرکین مکہ ہی نہیں بلکہ عرب بھر کے مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس عرصہ کے اندر خواہ وہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرۃ العرب کو خالی کردیں اور یہاں سے نکل جائیں۔ یا پھر ان سے جہاد کرکے ان کا کلی استیصال کردیا جائے یہ تو وہ عذاب تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی ان پر نازل ہوا اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں آس پاس کے ممالک سے مشرک اور مشرکین کا کلی طور پر خاتمہ ہوگیا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ :”إِنَّ “ اور ” لام “ کے ساتھ تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ پر عذاب کا وہ وعدہ پورا ہوتا ہوا آنکھوں سے دکھا دیا، جب کہ آپ اس وقت ان سے الگ ہوچکے تھے اور مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ چناچہ اس عذاب کی ابتدا بدر سے ہوئی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے سرداروں کی لاشیں کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور پھر اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا : ( فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ؟ ) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ٣٩٧٦ ] ” یقیناً ہم نے تو وہ وعدہ سچا پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا، تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا ؟ “ پھر ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوگیا اور دسویں سال حُجۃ الوداع کے موقع پر مشرکین کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرۃ العرب خالی کردیں اور یہاں سے نکل جائیں، ورنہ جہاد کے ذریعے سے ان کا کلی خاتمہ کردیا جائے گا۔ یہ عذاب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں ان پر نازل ہوا، پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں آس پاس کے ممالک سے شرک اور مشرکین کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ (والحمد للہ) 3 اگر عذاب سے مراد آسمان سے نازل ہونے والا عذاب ہو، جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا، تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان سے عذاب کا جو وعدہ کر رہے ہیں یقیناً آپ کو دکھانے پر قادر ہیں، مگر ایک تو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے طے کیا ہے کہ جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب ہو، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ اور بیشک ہم آسمان سے ایسا عذاب بھیجنے پر قادر ہیں جو ان کا صفایا کر دے، مگر ہماری حکمت کا تقاضا انھیں مہلت دینے کا ہے، تاکہ ان میں سے جنھوں نے اسلام قبول کرنا ہے کرلیں اور جن کی آئندہ نسل نے اسلام قبول کرنا ہے وہ نسل وجود میں آجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِ‌يَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُ‌ونَ And of course, We do have the power to show you what We threatened them with. (23:95) Some commentators say that even though Allah has promised, on account of His regard for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that He will not punish the entire community while he (Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) lives among them وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ (And Allah is not to send punishment upon them while you are in their midst-- 8:33) yet the punishment of some selected persons in special circumstance does not negate the promise. The punishment of the infidels of Makkah through famine and through their defeat at the hands of the Muslims at the Battle of Badr had taken place in the lifetime of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، which is emphasized in this verse that |"We have the power to show you what We threatened them with|".

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ ، یعنی ہم کو اس پر پوری قدرت ہے کہ ہم آپ کے سامنے ہی آپ کو ان پر عذاب آتا ہوا دکھلا دیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اگرچہ اس امت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے عذاب عام نہ آنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوچکا ہے وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ، یعنی ہم ان لوگوں کو اس حالت میں ہلاک کرنے والے نہیں کہ آپ ان کے اندر موجود ہوں لیکن خاص خاص لوگوں پر خاص حالات میں عذاب دنیا ہی میں آجانا اس کے منافی نہیں۔ اس آیت میں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ آپ کو بھی ان کا عذاب دکھلا دیں وہ اہل مکہ پر قحط اور بھوک کا عذاب پھر غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار کا عذاب آپ کے سامنے ہی ان پر پڑچکا تھا (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُہُمْ لَقٰدِرُوْنَ۝ ٩٥ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) اور ہم جس عذاب کا ان سے وعدہ کررہے ہیں وہ بدر کے دن آپ کو بھی دکھا دیں ہم اس بات پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:95) ان نریک۔ نریک۔ مضارع جمع متکلم۔ اراء ۃ (افعال) سے مصدر ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ کہ ہم دکھائیں تجھے۔ یعنی ہم تجھے دکھانے پر قادر ہیں۔ نعدہم۔ وعد یعد وعد (ضرب) مصدر سے۔ مضارع جمع متکلم۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر گا ئب۔ (جس عذاب کا) ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی ہم یہ پوری قدرت رکھتے ہیں کہ اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں ان پر نازل کردیں لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ آگے چل کر ایمان لانے والے ہیں اس لئے ہم اسے مؤخر کئے جا رہے ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاِِنَّا عَلٰی اَنْ نُرِیَکَ مَا نَعِدُھُمْ لَقٰدِرُوْنَ ) (اور ہم اس بات پر ضرور قادر ہیں کہ ان سے جو وعدہ کر رہے ہیں وہ آپ کو دکھا دیں) اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ہم آپ کی موجودگی میں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کریں گے یعنی ایسا عذاب نہ بھیجیں گے جس سے یہ سب تباہ و برباد ہوجائیں اور بعض لوگوں پر خاص حالات میں دنیا میں عذاب کا آجانا اس کے منافی نہیں ہے آپ کے وجود گرامی کی وجہ سے عمومی عذاب نہ آئے یہ موعود تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یہ قدرت حاصل ہے کہ جب چاہے جن لوگوں پر چاہے عذاب بھیج دے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(95) اور ہم اس بات پر پوری طرح قادر ہیں کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ آپ کو دکھادیں یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ وہ عذاب جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ آپ کی زندگی میں ان پر آجائے اور آپ بھی ان کو مبتلائے عذاب دیکھ لیں۔ آگے کفار سے برتائو کا ذکر فرمایا۔