Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 99

سورة المؤمنون

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾

[For such is the state of the disbelievers], until, when death comes to one of them, he says, "My Lord, send me back

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers' Hope when death approaches Allah tells: حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ ... Until, when death comes to one of them, he says: Allah tells us about what happens when death approaches one of the disbelievers or one of those who have been negligent with the commands of Allah. He tells us what he says and how he asks to come back to this world so that he can rectify whatever wrongs he committed during his lifetime. ... رَبِّ ارْجِعُونِ

بعد از مرگ بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت وافسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں ۔ تاکہ ہم نیک اعمال کرلیں ۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول یہ آرزو لاحاصل ہے چنانچہ سورۃ منافقون میں فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو ، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دے دے تو میں صدقہ خیرات کرلوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آجانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مثلا آیت ( وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ ) 14- ابراهيم 44 ) اور آیت ( يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭقَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 53؀ۧ ) 7- الاعراف:53 ) اور آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) تک اور آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۭقَالَ اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا ۭقَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ 30؀ۧ ) 6- الانعام:30 ) تک اور آیت ( وَتَرَى الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ 44؀ۚ ) 42- الشورى:44 ) تک اور آیت ( قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ 11؀ ) 40-غافر:11 ) اور اس کے بعد کی آیت ( وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) وغیرہ ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہوکر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے ۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہوگی ۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں ۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کرکے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کرلے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال واولاد کی تمنا ہے ۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہوجائے تو کچھ نیک اعمال کرلیں لیکن تمنا بیکار ، آرزو بےسود ، خواہش بےجا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کروگے ۔ حضرت علا بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں ، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آچکی تھی ، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کرلوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کرچکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہوجاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آکر دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے من ورائہم کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آجائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جارہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ۚ وَلَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَيْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 10۝ۭ ) 45- الجاثية:10 ) ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ 17؀ ) 14- ابراھیم:17 ) ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا ۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] رَبِّ ارْجِعُوْنَ میں اپنے پروردگار سے۔۔ کے بعد جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ رَبِّ ارْجِعِنِیْ نہیں استعمال کیا گیا۔ جس کا غالباً ترجمہ و مطلب یوں بنتا ہے کہ اے میرے پروردگار ! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ یہ فرشتے جو میری جان نکالنے آئے ہیں یہ مجھے دنیا میں واپس لوٹا دیں && اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیشمار مقامات پر فرشتوں کے عمل کو اپنا ہی عمل قرار دیتے ہوئے اس کی نسبت اپنی طرف بھی کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ترجمہ بھی درست ہے کہ اے میرے پروردگار ! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ : یہاں ایک سوال ہے کہ لفظ ” حَتّيٰٓ“ (یہاں تک) کا تعلق کس سے ہے ؟ مفسرین نے اس کی کئی توجیہیں فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کفار کی برائیوں کا جواب بہترین طریقے سے دیتے رہیں اور جو باتیں یہ بناتے ہیں انھیں ہمارے حوالے کرتے رہیں، یہاں تک کہ۔۔ الخ۔ دوسری توجیہ اس سے زیادہ واضح ہے کہ اس کا تعلق محذوف جملے سے ہے جو ” حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ “ سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔ ” أَيْ لَا یَزَالُوْنَ کَذٰلِکَ حَتّٰی إِذَا جَاءَ ۔۔ “ یعنی وہ اسی طرح اپنے کفر و شرک پر قائم رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے۔۔ اس طرح جملے کے حذف کی مثال فرزدق کا شعر ہے ؂ فَیَا عَجَبَا حَتّٰی کُلَیْبٌ تَسُبُّنِيْ کَأَنَّ أَبَاھَا نَھْشَلٌ أَوْ مُجَاشِعُ (أَيْ یَسُبُّنِيَ النَّاسُ حَتّٰی کُلَیْبٌ) ” یعنی تعجب ہے کہ مجھے سبھی لوگ گالی دیتے ہیں، حتیٰ کہ بنو کلیب بھی گالی دیتے ہیں، جیسے ان کا باپ نہشل یا مجاشع ہے، یعنی کسی نامور باپ کی اولاد نہ ہونے کے باوجود کلیب جیسے قبیلے کے بےوقعت لوگ بھی میرے جیسے اونچے نسب والے شخص کو گالی دیتے ہیں۔ “ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ : ” رَجَعَ یَرْجِعُ “ لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی، اس کا معنی لوٹنا بھی ہے اور لوٹانا بھی، یہاں مراد لوٹانا ہے۔ یعنی کافر و مشرک اپنے کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے اور رسولوں کی بتائی ہوئی وہ تمام حقیقتیں آنکھوں کے سامنے آتی ہیں، جنھیں وہ اب تک جھٹلاتے رہے تھے، تو وہ مہلت دینے اور دنیا کی طرف واپس لوٹانے کی درخواست کرتے ہیں۔ دیکھیے سورة منافقون (١٠، ١١) اور ابراہیم (٤٤) یہ درخواست وہ موت کے وقت بھی کریں گے، قیامت کے دن بھی اور آگ کو دیکھ کر بھی، جیسا کہ دوسری آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٣) ، سجدہ (١٢) ، انعام (٢٧) ، شوریٰ (٤٤) ، مؤمن (١١) ، فاطر (٣٧) اور سبا (٥١ تا ٥٣) ۔ ” رَبِّ “ (اے میرے رب ! ) میں مخاطب واحد ہے، جبکہ ” ارْجِعُوْنِ “ (مجھے واپس بھیجو) میں مخاطب جمع ہے۔ مفسرین نے اس کی تین توجیہیں کی ہیں، ایک یہ کہ کافر نہایت عجز کے ساتھ درخواست کرتے ہوئے تعظیم کے لیے اللہ تعالیٰ کو جمع کے صیغے سے مخاطب کرے گا، جیسا کہ تمام زبانوں میں یہ انداز معروف ہے، عربی میں بھی ایسے ہی ہے۔ جیسا کہ فرشتوں نے سارہ[ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا : ( اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ ) [ ھود : ٧٣ ] ” کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو ! “ ابن عاشور لکھتے ہیں کہ مخاطب مذکر ہو یا مؤنث، تعظیم کے وقت اس کے لیے جمع مذکر کی ضمیر ” کُمْ “ ہی استعمال ہوتی ہے۔ کلام عرب میں واحد مخاطب کے لیے جمع کی ضمیر کی مثال حسان بن ثابت (رض) کا قول ہے ؂ أَلَا فَارْحَمُوْنِيْ یَا إِلٰہَ مُحَمَّدٍ فَإِنْ لَمْ أَکُنْ أَھْلًا فَأَنْتَ لَہُ أَھْلٌ اس شعر میں شاعر نے ” فَارْحَمْنِيْ “ کے بجائے ” فَارْحَمُوْنِيْ “ کہا ہے اور حماسہ کے شاعر جعفر بن علبہ حارثی کا شعر ہے، جس میں وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ؂ فَلاَ تَحْسَبِيْ أَنِّيْ تَخَشَّعْتُ بَعْدَکُمْ لِشَيْءٍ وَ لَا أَنِّيْ مِنَ الْمَوْتِ أَفْرَقُ ” پس تو یہ گمان نہ کر کہ میں تمہارے بعد کسی چیز کی وجہ سے عاجز ہوگیا ہوں اور نہ یہ کہ میں موت سے ڈرتا ہوں۔ “ اس شعر میں شاعر نے ” بَعْدَکِ “ کے بجائے ” بَعْدَکُمْ “ کہا ہے۔ یہ توجیہ سب سے اچھی ہے۔ دوسری توجیہ طبری (رض) نے فرمائی ہے کہ کافر کلام کی ابتدا ” رب “ سے کرے گا، جو استغاثہ کے لیے ہے، مگر وہ واپس بھیجنے کی درخواست ان فرشتوں سے کرے گا جو اس کی روح نکالنے کے لیے آئے ہوں گے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ کسی کو پکڑ لیں اور وہ کہے ” ہائے اللہ ! مجھے چھوڑ دو ۔ “ یہ توجیہ بھی بہت اچھی ہے۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ کافر اللہ تعالیٰ سے بار بار درخواست کرے گا : ” ارْجِعْنِيْ ، ارْجِعْنِيْ ، ارْجِعْنِيْ “ تو اس تکرار کے بیان کے لیے جمع کا صیغہ ” ارْجِعُوْنِ “ استعمال کیا گیا ہے۔ اس توجیہ کی معتبر نظیر مجھے نہیں ملی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

رَ‌بِّ ارْ‌جِعُونِ (My Lord, send me back - 23:99) When death approaches an infidel and he senses the punishment that awaits him on the Day of Judgment, he wishes for a return to this world, so that by performing good deeds he may escape the punishment which he has richly deserved. Ibn Jarir has related a story on the authority of Ibn Juraij that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said, |"At the time of death when a good Muslim perceives the angels of mercy and all the luxuries of Paradise spread out before him, and the angels ask whether he wishes to be sent back to the world, his reply invariably is in the negative. He refuses to return to a place which is full of woes and suffering and misery, and only desires to be taken to Allah&s presence. But when the same question is put to an infidel, his answer is رَ‌بِّ ارْ‌جِعُونِ i.e. he wishes to be sent back to the world.|"

رَبِّ ارْجِعُوْنِ ، یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرلوں۔ ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کے سامان سامنے دیکھنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کردیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو اب اللہ کے پاس لے جاؤ اور کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے رَبِّ ارْجِعُوْنِ یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ۝ ٩٩ۙ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سر پر ” ملک الموت “ اور ان کے مددگار ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آکھڑے ہوں تو یہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو دنیا میں پھر واپس کردیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. In the original text plural number has been used for Allah, which may be for reverence, or may include the angels as well, who will be seizing the criminal soul. The entreaty would be: O my Lord! Send me back.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :89 اصل میں رَبِّ ارْجِعُوْنِ کے الفاظ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو ، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے ۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرار دعا کا تصور دلانے کے لیے ہے ، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ ( مجھے واپس بھیج دے ، مجھے واپس بھیج دے ) کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب ان فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے ۔ یعنی بات یوں ہے : ہائے میرے رب ، مجھ کو واپس کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ ١٠٠:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر و قیامت کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ یہ انکار ان لوگوں کا اسی وقت تک ہے جب تک قبض روح اور قبر اور حشر اور قیامت کا عذاب ان کے روبرو نہیں آتا جب یہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا تو انہیں معلوم ہوجاوے گا کہ رسولوں کی معرفت اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا کہ دنیا عمل کی جگہ ہے تو یہ لوگ آخرت کی ہر سختی اور عذاب کے وقت دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی خواہش ظاہر کریں گے مگر جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر بےوقت کی خواہش سے کیا ہوتا ہے ‘ قتادہ کا قول ہے کہ ایسے لوگوں کے حال پر بڑا افسوس ہے جو نیک عمل سے غافل ہیں اور دنیا کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو قیامت میں یہ موقع پیش آنے والا ہے کہ دنیا کے سب دھندوں سے زیادہ فائدہ مند ان کو عمل نیک ہی نظر آوے گا ‘ چناچہ اس آیت کے مضمون سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت ‘ وزارت ‘ مال و ادلاد کے لیے کوئی شخص دنیا میں واپس آنے کی خواہش نہ کرے گا بلکہ خواہش اور آرزو ہوگی ‘ تو فقط اتنی ہی ہوگی کہ دنیا میں جاویں اور نیک عمل کریں ‘ صحیحین کے حوالہ سے انس بن مالک کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ قبر تک قرابت دار اور مال اور عمل یہ تین چیزیں آدمی کے ساتھ جاتی ہیں اور ان میں سے دو تو پھر دنیا کی دنیا میں ہی واپس آجاتی ہیں فقط عمل آدمی کے ساتھ رہتا ہے ‘ غرض دنیا میں جس طرح آدمی کی زیست کا ٹھکانا نہیں آج ہے اور کل نہیں ‘ اسی طرح خود دنیا اور دنیا کی سب چیزوں کا بھی ٹھکانا نہیں ‘ ایک عمل ہی دنیا میں آدمی کے ساتھ جانے کی چیز ہے اور نیک لوگوں کو نیک عملوں کا ثمرہ پاتے ہوئے جب بدلوگ آخرت میں دیکھیں گے تو دنیا میں پھر آنے اور نیکی کمانے کی تمنا ان کے دل میں پیدا ہوگی ‘ ابوداود اور مسند امام احمد کے حوالہ سے براء بن العازب کی صحیح روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں کے آخر وقت پر خوفناک شکل کے فرشتے ایسے لوگوں کی قبض روح کے لیے آتے ہیں اور اللہ کی خفگی اور طرح طرح کے عذاب سے ایسے لوگوں کو ڈراتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کی روح ان کے جسم میں چھپتی پھرتی ہے اور پھر نہایت سختی سے وہ فرشتے اس روح کو جسم سے نکالتے ہیں آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ ایسے لوگ موت کے وقت دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی تمنا کرتے ہیں ‘ اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قبض روح کے وقت ایسے لوگ دنیا میں رہ جانے اور نیک عمل کرنے کی تمنا کریں گے علاوہ اس کے جس وقت ایسے لوگوں کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے دوزخ کے کنارہ پر کھڑا کیا جاوے گا ‘ اس وقت بھی یہ لوگ یہی تمنا کریں گے ‘ کہ ان کو نیک عمل کرنے کے لیے دنیا میں بھیج دیا جائے چناچہ اس کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ قبض روح کے وقت جب ایسے لوگوں کو عذاب کے فرشتے نظر آویں گے تو یہ لوگ اپنی حالت پر بہت پچھتا کر پہلے اللہ تعالیٰ سے اور پھر قبض روح کے فرشتوں سے دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی تمنا ظاہر کریں گے جس کا جواب ان لوگوں کو یہ ملے گا کہ انتظام الٰہی کے موافق حشر کے دن تک کوئی مرا ہوا شخص قبر سے اٹھ کر دنیا میں نہیں آسکتا ‘ اس واسطے تم لوگوں کی یہ تمنا پوری نہیں ہوسکتی ‘ دو چیزوں کے بیچ میں جو چیز اٹکاؤ کی طرح ہو اس کو برزخ کہتے ہیں ‘ انسان کا قبر میں رہنے کا زمانہ دنیا اور عقبیٰ کے مابین میں ایک اٹکاؤ کا زمانہ ہے اس لیے اس کو برزخ کہا جاتا ہے حشر کے دن سب لوگ قبروں سے اٹھ کر حساب کتاب کے لیے دنیا کے ایک ٹکڑے ملک شام میں جمع ہوں گے چناچہ اس کا ذکر ترمذی اور نسائی کی معاویہ بن حیدہ کی صحیح روایت میں ہے حشر کے دن تک کسی مرے ہوئے شخص کا قبر سے اٹھ کر دنیا میں نہ آنے کا ذکر جو آیت میں ہے ‘ اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حشر کے دن قبروں سے اٹھ کر دنیا کے ٹکڑے ملک شام میں یہ لوگ جمع ہوں گے اس سے پہلے دنیا میں نہیں آسکتے ‘ یہ معاویہ بن حیدہ بہز بن حکیم تابعی کے دادا مشہور صحابہ میں سے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:99) حتی۔ ابتدائیہ ہے جیسا کہ ابن عطیہ کا قول ہے صاحب جلالین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے لیکن بیضاوی اور الکشاف میں اسے حرف غایت (حد) لیا گیا ہے اس صورت میں اس کا تعلق یصفون (آیت 96) سے ہے اور آیات 97، 98 ۔ بطور جملہ معترضہ کے ہیں۔ معنی۔ حتی کہ۔ یہاں تک۔ جب تک۔ ارجعون۔ الرجوع باب ضرب سے مصدر امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہ خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور جمع کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے لئے تعظیما لایا گیا ہے۔ اور سائل کی ندامت اور عجز کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ حسان بن ثابت کا شعر ہے :۔ الا فارحمو فی یا الہ محمد ۔ فان لم اکن اھلا فانت لہ اھل ارجعون اصل میں ارجعونی تھا۔ مجھے پھر بھیج دیجئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا سکھلانے کے بعد اب پھر کلام کا رخ کفار کی طرف ہوتا ہے۔ منکرین حق سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے اس سے پہلے ان کے اس مطالبہ کا جواب دیا گیا بعد اب منکرین کو اس وقت کا احساس دلایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں میں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ اپنے رب سے آرزو کرتا ہے کہ کاش مجھے دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے اور میں جو کچھ کرتا رہا اس کی بجائے نیک اعمال کروں گا۔ لیکن اس وقت اسے جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وہ دل ہی دل میں روتا اور آہ وزاریاں کرتا ہے مگر اس کی آہ وزاریاں اور چیخ و پکار سوائے واویلا کی حیثیت نہیں ہوتی۔ مرنے والے کے لیے قیامت کے دن تک دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا جاتا ہے۔ ان آیات میں حق کے منکر کی کیفیت ذکر کی گئی ہے قرآن مجید اور حدیث میں کافر، مشرک، منافق اور خدا کے نافرمان کی موت کے وقت جو اس کی کیفیت ہوتی ہے اس کی بہت سی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہاں صرف ایک، دو احادیث پیش کی جاتی ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے۔ قبرستان پہنچے تو ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب دنیا کو چھوڑ کر کافر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے۔ وہ اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔ کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ تعالیٰ کے غصہ اور غضب کے سامنے پیش ہو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے۔ اس کی روح کو نکال کر جس بوری میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح مردہ لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے۔ وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے ؟ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے برے ناموں سے اس کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں۔ “ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے افسوس میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ کذّاب ہے۔ اس کا بچھونا آگ بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو ۔ اس کے پاس جہنم گرمی اور بدبو آتی ہے اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم اس طرح کی شکل والے کون ہو جو اتنی بری خبر کے ساتھ آئے ہو۔ وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں۔ کافر فریاد کرتا کہ اے میرے رب قیامت نہ قائم کرنا۔ “ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب ] (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کا نافرمان موت کے وقت دنیا میں پلٹ جانے کی آرزو کرتا ہے۔ ٢۔ موت کے بعد کسی شخص کو دنیا میں پلٹ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ٣۔ اللہ کے نافرمان کی آہ و بکا و واویلا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ : ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٧۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ : ١٦٦) ٨۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٩۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حتی اذا۔۔۔۔۔۔۔ رب ارجعون (٢٣ : ٩٩) لعلی اعمل۔۔۔۔۔ فیماترکت (٢٣ : ١٠٠) یہ منظر حالت نزع کا ہے۔ جب موت آتی ہے تو ہر شخص توبہ کرتا ہے۔ رجوع الی اللہ کرتا ہے ‘ یہ درخواست کرتا ہے کہ اے اللہ ایک موقعہ اور دیجئے ۔ ایک بار اور زندگی دیجئے تاکہ ہم ان کوتاہیوں کی تخصیح کرلیں اور جو اہل و عیال اور مال و دولت ہم نے چھوڑے ہیں ان میں تیری مرضی کا تصرف کریں۔ یہ ایک منظر ہے جسے سب دیکھ رہے ہیں اور مرنے والا یہ درخواست کررہا ہے اور جو اب بھی اعلانیہ آجاتا ہے۔ کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا (٢٣ : ١٠٠) ” ہر گز نہیں ‘ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ ہک رہا ہے “۔ یہ ایک بات ہے جو وہ کررہا ہے۔ اسکا کوئی مصداق وجود میں آنے والا نہیں ہے۔ یہ لفظ اور اس کا قائل قابل توجہ نہیں ہیں۔ یہ تو حالت خوف کی ایک چیخ ہے جو منہ سے نکل رہی ہے۔ یہ کسی اخصلاص پر مبنی نہیں ہے۔ نہ حقیقی توبہ ہے۔ مشکلات میں ہر کوئی یہ بات کرتا ہے۔ دل میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی نہ ارادہ ہوتا ہے۔ اب حالت نزع کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ بات کہنے والے اور دنیا کے درمیان پر وہ حائل ہوجاتا ہے۔ معاملہ ختم ہوگیا۔ تعلقات ختم ہوگئے۔ دروازے بند ہوگئے اور پردے گر گئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ ” حتی اذا جاء الخ “ یہ تخویف اخروی ہے یہ مشرکین اب تو غفلت میں ہیں۔ اور انکار پر اصرار کر رہے ہیں لیکن جب موت کا فرشتہ آپہنچے گا اور وہ اپنا بد انجام آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اب اللہ تعالیٰ سے بار بار التجا کریں گے کہ مجھے اب دنیا میں واپس بھیجدے میں نے دنیا میں جو کو تاہیاں کی ہیں اب ان کی جگہ میں نیک اعمال بجا لاؤں گا تیری توحید کو مانوں گا۔ تیرے ساتھ شرک ہرگز نہیں کروں گا تیرے پیغمبروں پر ایمان لاؤں گا۔ ” ارجعون “ جمع برائے تکرار ہے ای ارجعنی ارجعنی ارجعنی یعنی وہ بار بار یہ کہے گا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ” القیا فی جہنم “ یہ خطاب واحد سے ہے اور تثنیہ تکرار کے لیے ای الق الق۔ اسی طرح امراء القیس کا قول۔ ع۔ قفا نبک من ذکر حبیب ومنزل ای قف قف۔ ارجعون علی جھۃ التکریر ای ارجعنی ارجعنی (قرطبی ج 12 ص 149) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(99) یہ معاندین و منکرین اپنے انکار سے باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے تو اس وقت کہتا ہے اے میرے پروردگار مجھ کو واپس لوٹادے۔