Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 1

سورة النور

سُوۡرَۃٌ اَنۡزَلۡنٰہَا وَ فَرَضۡنٰہَا وَ اَنۡزَلۡنَا فِیۡہَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۱﴾

[This is] a surah which We have sent down and made [that within it] obligatory and revealed therein verses of clear evidence that you might remember.

یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں ( احکام ) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Importance of Surat An-Nur Allah says: سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا ... A Surah which We have sent down, Here Allah is pointing out the high esteem in which He holds this Surah, which is not to say that other Surahs are not important. ... وَفَرَضْنَاهَا ... and which We have enjoined, Mujahid and Qatadah said, "This means: We have explained what ... is lawful and unlawful, commands and prohibitions, and the prescribed punishments." Al-Bukhari said, "Those who read it: Faradnaha, say that it means: "We have enjoined them upon you and those who come after you." ... وَأَنزَلْنَا فِيهَا ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ ... and in it We have revealed manifest Ayat, means, clearly explained, ... لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ that you may remember. The Explanation of the Prescribed Punishment for Zina (Illicit Sex) Then Allah says:   Show more

مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں ۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام ، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے ۔ ... امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے ۔ اس میں صاف صاف ، کھلے کھلے ، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو ۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی ۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو ۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی ۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا ، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں ۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے ۔ یہ حضرت انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے ۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا ۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا رضی اللہ عنہا ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا ۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا ، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے ۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو ، خواہ عورت ہو ۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے ، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے ۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے ، قرآن میں جو نہ تھا ، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا ، جس طرح نازل ہوئی تھی ۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا ۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا ۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے ۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں ۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا ۔ یا اسی کے مثل ۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے ، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا ۔ واللہ اعلم ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا ، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا ۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں ۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ، مالک رحمتہ اللہ علیہ ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں ۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا ۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے سنگسار کرایا ۔ مسند احمد ، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میری بات لے لو ، میری بات لے لو ، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا ۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے ۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے ۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو ، پہنچ جائے ، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے ۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو ، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی ۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے ۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر ، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں ۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے ۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت ( ولا تاخذ کم الخ ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے ۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں ۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے ۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے ۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے ۔ رجم بری چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں ۔ اسے علانیہ سزا دی جائے ، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے ۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں ، چار ہوں یا اس سے زیادہ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت ، عبرت اور سزا ہو ۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] اس سورة کی پہلی آیت بطور تمہید ہے۔ جس میں صیغہ جمع متکلم کا تین بار تکرار کرکے اس سورة میں نازل کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نیز فرمایا کہ ان احکام کی حیثیت بعض سفارشات کی نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ احکام ہیں بھی ایسے جس میں کسی قسم کا الجھاؤ یا ابہام نہیں ... تاکہ ہر کوئی حکم تم پر مشتبہ ہوجائے۔ اور ان احکام کو تمہیں ہر وقت یاد رکھنا چاہئے بھولنا نہیں چاہئے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا :” سُوْرَةٌ“ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے اور یہ مبتدا محذوف ” ھٰذِہِ “ کی خبر ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”(یہ) ایک عظیم سورت ہے۔ “ ” اَنْزَلْنٰهَا “ (ہم نے اسے نازل کیا) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے (ہم نے ) کے ساتھ فرمایا ہے، بلکہ ” ا... َنْزَلْنٰهَا “ ” فَرَضْنٰهَا “ اور ” َاَنْزَلْنَا فِيْهَآ “ تینوں میں زور جمع متکلم کے صیغہ ” ہم نے “ پر ہے، یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ” ہم “ ہیں۔ اس لیے اسے کسی بےاختیار واعظ کی بات سمجھ کر ہلکا نہ سمجھ بیٹھنا، بلکہ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کی مٹھی میں ساری کائنات ہے، جو ہر جان دار کی پیشانی پکڑے ہوئے ہے اور تم مر کر بھی اس کی گرفت سے نہیں نکل سکتے۔ ” اَنْزَلْنٰهَا “ (نازل کرنے) سے ظاہر ہے کہ اسے اتارنے والا بلندی پر ہے اور اس نے اسے بلند مقام عرش سے اتارا ہے، جیسا کہ خود اس نے فرمایا : (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى) [ طٰہٰ : ٥ ] ” وہ بیحد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔ “ ان مفسروں پر افسوس ہوتا ہے جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس لیے وہ ” ہم نے نازل کیا “ کی بھی تاویل بلکہ تحریف پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں، نہ کسی جگہ میں ہے، وہ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ دائیں ہے نہ بائیں، نہ آگے ہے اور نہ پیچھے۔ پھر وہ کہاں ہے ؟ کہتے ہیں کسی جگہ بھی نہیں۔ مگر وہ اس فطری تقاضے کا کیا کریں گے جو ہر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اور اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائے۔ ان حضرات میں سے کئی ایسے دیدہ دلیر بزرگ بھی گزرے ہیں اور کئی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ بلکہ جو شخص یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کو یہ خوف بھی نہیں آتا کہ ان کے فتوے کی زد میں کون کون آ رہا ہے۔ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لونڈی کے ایمان کا امتحان لیتے ہوئے دو سوال کیے تھے، ایک یہ کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : ” آسمان میں۔ “ دوسرا سوال یہ کیا کہ میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : ” آپ اللہ کے رسول ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ مومنہ ہے۔ “ [ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام في الصلاۃ۔۔ : ٥٣٧ ] وَفَرَضْنٰهَا : یعنی اس سورت میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ محض سفارشات نہیں ہیں کہ جی چاہے تو مانو، ورنہ جو جی میں آئے کرتے رہو، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن پر عمل کرنا ہم نے تم پر اور تمہارے بعد آنے والوں پر فرض کردیا ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا “ سے اس سورت کی عظمت اور اہمیت بیان کرنا مقصود ہے، یہ مقصد نہیں کہ دوسری سورتوں کی یہ شان نہیں ہے۔ وَاَنْزَلْنَا فِيْهَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : یعنی اس سورت میں ہم نے جو احکام و مسائل بیان کیے ہیں ان میں کوئی پیچیدگی یا ابہام نہیں ہے، صاف اور واضح ہدایات ہیں، جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی، تو ہم اس پر عمل کیسے کرتے ؟ اس پر زور تمہید سے اس سورت میں مذکور احکام کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ اس کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

سورة نور مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی چونسٹھ آیتیں اور نو رکوع ہیں سورة نور کی بعض خصوصیات : اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر و حجاب کے متعلق ہیں اور اسی کی تکمیل کے لئے حد زنا کا بیان آیا۔ پچھلی سورت یعنی مومنون میں مسلمانوں کی فلاح دنیا و آخرت کو جن اوصاف پر موقوف رکھا گیا ہے ان...  میں ایک اہم وصف شرمگاہوں کی حفاظت تھی جو خلاصہ ہے ابواب عفت کا۔ اس سورت میں عفت کے اہتمام کے لئے متعلقہ احکام ذکر کئے گئے ہیں، اسی لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آئی ہیں۔ حضرت فاروق اعظم نے اہل کوفہ کے نام اپنے ایک فرمان میں تحریر فرمایا علموا نساء کم سورة النور، یعنی اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو ۔ خود اس سورت کی تمہید جن الفاظ سے کی گئی ہے کہ سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا، یہ بھی اس سورت کے خاص اہتمام کی طرف اشارہ ہے۔ خلاصہ تفسیر یہ ایک سورت ہے جس (کے الفاظ) کو (بھی) ہم (ہی) نے نازل کیا ہے اور اس (کے معانی یعنی احکام) کو (بھی) ہم (ہی) نے مقرر کیا ہے (خواہ وہ فرض و واجب ہوں یا مندوب مستحب) اور ہم نے (ان احکام پر دلالت کرنے کے لئے) اس (سورت) میں صاف صاف آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم سمجھو (اور عمل کرو) زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد (دونوں کا حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کے سو درے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے (کہ رحم کھا کر چھوڑ دو یا سزا میں کمی کردو) اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے (تاکہ ان کی رسوائی ہو اور دیکھنے سننے والوں کو عبرت ہو) ۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰہَا وَفَرَضْنٰہَا وَاَنْزَلْنَا فِيْہَآ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ ١ زنا الزِّنَاءُ : وطء المرأة من غير عقد شرعيّ ، وقد يقصر، وإذا مدّ يصحّ أن يكون مصدر المفاعلة، والنّسبة إليه زَنَوِيٌّ ، وفلان لِزِنْيَةٍ وزَنْيَةٍ قال اللہ تعالی: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا ز... انِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور/ 3] ، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور/ 2] ، وزنأ في الجبل بالهمز زنأ وزنوءا، والزّناء : الحاقن بوله، و «نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» «3» . ( ز ن ی ) الزنا عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنے کا نام زنا ہے یہ اسم مقصود ہے اگر اسے ممدور پڑھا جائے تو باب مفاعلہ کا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف نسبت کے وقت زنوی کہا جائے گا اور فلاں لزنیۃ ( بکسرہ زاو فتح آں ) کے معنی ہیں فلاں حرام زادہ ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور/ 3] زافی مرد سوائے زانیہ یا مشر کہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور فاجرہ عورت سوائے فاجرہ کے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرتی ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور/ 2] زانیہ عورت اور زانی مرد ۔ اور اگر مہموز اللام سے ہو جیسے زنا فی الجبل زناء وزنوء ۔ تو اس کے معنی پہاڑ پر چڑھنے کے ہوتے ہیں ۔ الزناء ۔ حاقن یعنی پیشاب روکنے والے کو کہتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ«نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» آدمی کو چاہیئے کہ حاقن ہونے کی صورت میں نماز نہ پڑھے ۔ نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) یہ سورت ہے جس کے الفاظ کو ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نازل کیا ہے اور اس کے حلال و حرام کو بھی ہم ہی نے مقرر کیا ہے اور اس صورت میں ہم نے واضح طور پر اوامرو نواہی اور فرائض و حدود کو بیان کیا ہے تاکہ تم اوامرو نواہی کو سمجھو اور حدود کو معطل نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰہَا وَفَرَضْنٰہَا) ” سورت کے آغاز کا یہ انداز تمام سورتوں میں منفرد ہے۔ ” سُوْرَۃٌ“ کا لفظ یہاں پر بطور اسم نکرہ استعمال ہوا ہے۔ اس کو اگر تفخیم کے لیے مانا جائے تو اس کے معنی یوں ہوں گے کہ یہ ایک عظیم سورت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. In all these sentences the emphasis is on We, which implies that it is Allah Who has revealed this and none else; therefore: You should not treat these instructions lightly like the word of an ordinary preacher. You should note it well that these have been sent down by One Who controls your lives and destinies and from Whom you can never escape even after your death. The second sentence emphas... izes that the instructions sent down in this Surah are not of the nature of advice which you may accept or reject at will. These are mandatory commandments which must be obeyed. If you are a believer and a true Muslim, you are obliged to act upon them. The third sentence states that the instructions given in this Surah are free from any ambiguity and are couched in clear and plain words. Therefore, you cannot put up the excuse that you could not act upon them as you did not understand them. This is the preamble of this blessed message after which the specific commandments follow. The cone of the preamble itself indicates the great importance which Allah has attached to the commandments contained in Surah An- Noor. The preamble of no other Surah containing commandments is so forceful as this.  Show more

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :1 ان سب فقروں میں ہم نے پر زور ہے ۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہیں ، اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا ۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں ، اور جس ... کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے ۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ سفارشات نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں ، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے ۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو ۔ تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے ۔ بس یہ اس فرمان مبارک کی تمہید ( Preamble ) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس تمہید کا انداز بیان خود بتا رہا ہے کہ سورہ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فرما رہا ہے ۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١:۔ یوں تو سارا قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل فرمایا ہوا ہے لیکن اس سورت میں بدکاری کی شہادت ‘ اس کی سزا کے اسی طرح اور خاص خاص حکم تھے ‘ اس لیے تاکید کے طور پر فرمایا کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ‘ اس میں جو احکام صاف لفظوں میں نازل کئے گئے ہیں ‘ ان کی پابندی ہر ایماندار شخص پر لازم ہے اور ہ... ر شخص کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی اور یاد رکھنی چاہیے کہ آیٔندہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے یہ احکام اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق نازل فرمائے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخزومیہ عورت کے چوری کے معاملے میں خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ شرعی سزا کے جاری کرنے میں پہلوتہی بڑی وبال کی بات ہے کیونکہ اس پہلوتہی سے پچھلی قوموں پر طرح طرح کی آفتیں آگئی ہیں ‘ اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اس سورت میں سزا کے احکام ہیں اور سزا کے احکام میں پہلوتہی کا کرنا بڑے وبال کی بات ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا ‘ یہ سورت اللہ تعالیٰ کی نازل فرمائی ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو احکام ہیں ان پر عمل کرنے میں پہلوتہی کرنا بڑے وبال کی بات ہے۔ (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٣١٤ باب الشفاعۃ فی الحدود )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

24:1) سورۃ۔ خبر۔ جس کا مبتدا محذوف ہے ای ھذہ سورۃ۔ فرضنھا۔ ماضی جمع متکلم۔ فرض مصدر ھاضمیر واحد مؤنث غائب جس کا مرجع لفظا سورة ہے لیکن اس سے مراد وہ احکام ہیں جو اس سورة میں بیان ہوئے ہیں۔ ای فرضنا احکامھا۔ ہم نے (ان احکام کو جو) اس میں ہیں (ان کا بجا لانا سلف وخلف پر) فرض کردیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی اس میں حلال و حرام اور حدود سے متعلق جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی حیثیت ہمارے عائد کردہ فرض کی ہے۔ لہٰذا ان کا بجا لانا ناگزیر ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة النور : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة نور مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور شرمگاہوں کی حفاظت نیز عفت و پاکدامنی کا ذکر جب چلا تو اس کے خلاف کرنے پر اسلام نے سز امقرر فرما دی ، اسلام نے بھی قاضی اور جج کے لیے موقع کی مناسبت شہادت اور قرائن یا اقبال و انکار جرم وغیرھا چیزوں پر غور کرکے انسداد ج... رائم کے لیے سزا تجویز کرنے کا موقع رکھا ہے کہ سزا سے مراد معاشرہ کی اصلاح اور خود مجرم کی اصلاح بھی ہے اور قاضی کی تجویز کردہ سزا کو اصطلاح میں تعزیر کہا جاتا ہے مگر چار باتوں پہ جج کو سزا میں کمی بیشی کا اختیار نہیں صرف شہادت لے کر واقعہ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ دے گا سزا اللہ جل جلالہ نے خود مقرر کر ی ہے ان چار امور پر مقرر کردہ سزائیں حدود کہلاتی ہیں اور جن چار جرائم پہ حد جاری ہوتی ہے وہ یہ ہیں ۔ (١) چوری ۔ (٢) پاک دامن خاتون پر تہمت لگانا۔ (٣) شراب پینا اور (٤) زنا ، پہ چاروں جرائم اس قدر گھناؤنے ہیں کہ جس معاشرے میں پائے جائیں اس کا امن بھی تباہ ہوجاتا ہے اور دنیا کے اعتبار سے بھی کبھی نہیں پھولتا پھلتا اور دین بھی برباد ہوجاتا ہے کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت سے یقین اٹھ جاتا ہے ، خصوصا شراب نوشی اور زنا کے اثرات کو مغرب کی دنیا میں دیکھا جائے تو عبرت کا بہت بڑا سامان ہے کہ وہاں نہ کوئی رشتہ محفوظ ہے اور نہ نسب کی کوئی قدر نہ عزت و شرافت بچتی ہے اور نہ حیا کا کوئی تصور ابن آدم جانوروں کیا خنزیروں سے بدتر زندگی گذار رہا ہے اور دینی ودنیاوی رشتے تباہ ہوچکے ہیں بھلا جس معاشرے میں شرم وحیا ناپید عزت وناموس عنقا رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہو اسے کسی خوبی کی بنا پر انسانی معاشرہ کہا جاسکتا ہے ہرگز نہیں دنیا پہ انہوں نے ظاہرا رعب بنا رکھا ہے مگر اندر سے بہت کمزور اور کھوکھلے ہیں ، امریکہ ساری طاقت لگانے کے باوجود ویت نام سے مار کھا کر لوٹا ، روس افغانستا پر چڑھ دوڑا مگر مجاہدین کے مقابلہ میں تباہ ہوگیا ، چالیس مغربی ممالک نے مل کر عراق پر حملہ کیا مگر اس کا اتنا نقصان نہ ہوا جتنے نقصان کا سامنا امریکہ ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ کو کرنا پڑا ، یہ محض بڑھکیں لگا کر اور دھوکہ دے کر دنیا پر رعب جمائے ہوئے ہیں ، اے کاش مسلمان بیدار ہو اور اللہ کا نام لے کر جہاد کی طرف بڑھے تو انہیں اپنی حیثیت یا د آجائے یہ شراب اور زنا کے مارے ہوئے معاشرے اللہ جل جلالہ کی زمین پر بوجھ ہیں تو اسلام نے ان خطرات کا پوری طرح سد باب کیا ہے یہاں زنا پر مقرر کردہ سزا کا بیان ہے لہذا ارشاد ہوتا ہے کہ یہ سورت ہم نے نازل کی ہے اور اس کے معانی ومفاہیم ہم نے مقرر فرمائے ہیں جن کا ماننا اور ان پر عمل کرنا تم سب مسلمانوں پر لازم ہے نیز اس میں بڑی واضح دلیلیں اور کھری باتیں ارشاد کی گئی ہیں تاکہ تم ان کو یاد رکھو اور ان سے نصیحت حاصل کرو ۔ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ انہیں سو سو کوڑے مارے جائیں نیز جرائم پر سزا دینے کے معاملے میں تم میں سے کوئی بھی نرمی اختیار نہ کرے کہ یہ اللہ جل جلالہ کا دین ہے محض کسی سیاسی حکومت کا قانون نہیں یعنی یہ صرف حکم کی تعمیل ہی نہیں اللہ جل جلالہ کی رضا کا سبب بھی ہے اور یقینا اس پہلو سے تو وہی نظر کرے گا جسے اللہ جل جلالہ کے ساتھ اور روز آخرت کے ساتھ ایمان نصیب ہوگا مزید یہ کہ یہ سزا سرعام دی جائے اور عامۃ المسلمین اس کو دیکھیں کہ معاشرہ اس سے عبرت حاصل کرے اور ایسا قبیح فعل کرنے والوں کی سزا میں رسوائی کا اضافہ بھی ہو ، صحیح حدیث اور عمل نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے ثابت ہے کہ یہ سزا کنوارے مرد اور غیر شادی شدہ عورت کے لیے مخصوص ہے اور شادی شدہ عورت یا مرد اگر زنا کے مرتکب ہوں گے اور وہ ان پر ثابت ہوجائے تو انہیں سرعام سنگسار کیا جائے گا ، ” سنگسار کرنا پتھر برسا کر ہلاک کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ “ حقیقتا زنا کی سزا میں بھی تدریج ہے یعنی شروع میں اس سے نرم سزا رکھی گئی پھر بتدریج سخت کردی گئی کہ پہلے سورة نساء میں گذر چکا کہ اگر عورت پر چار گواہوں سے یہ جرم ثابت ہوجائے کہ تو اسے گھر میں قید رکھا جائے اور مرد کو ایذا دی جائے تاآنکہ اللہ جل جلالہ کوئی راستہ پیدا کردے یا انہیں موت آجائے اب وہ راستہ اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ سو سو کوڑے سرعام مارے جائیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ سزا غیر شادی شدہ کے لیے ہے قرآن اور حدیث دونوں وحی الہی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے لیے دونوں میں کوئی فرق نہ تھا اسی زبان مبارک نے انہیں قرآن بھی سنایا جس سے انہوں نے حدیث سنی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ رجم اور سنگسار کا تذکرہ قرآن میں نہیں لہذا یہ سزا ہی مناسب نہیں ایسا کہنے والا مومن نہیں ہو سکتا ۔ جو حدیث رسول کو اہم اور قابل عمل نہ سمجھتا ہو تو کیا اسے قرآن کسی اور ذریعے سے ملا ہے لہذا یہ قانون ہے کہ اگر کنوارے مرد وعورت پر یہ جرم ثابت ہو تو سرعام انہیں کوڑے مارے جائیں گے اس کے ساتھ جج کی صوابدید پر ہے کہ ضروری سمجھے کہ مرد کو ایک سال جلاوطن بھی کرسکتا ہے اور اگر شادی شدہ عورت اور مرد اس جرم میں ملوث ہوں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ، یہ نہ صرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے ثابت ہے بلکہ یہ سزا آپ نے جاری فرمائی حتی کہ ایک کنوارے لڑکے کو سو کوڑے مارے گئے اور شادی شدہ خاتون کو سنگسار کیا گیا ، یہی سزا خلافت راشدہ اور بعد کی اسلامی حکومتوں میں جاری کی گئی تفصیل کے لیے احادیث وفقہ کی کتب دیکھی جائیں ، یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ ہاں جن جرائم پر سخت سزا دی گئی ہے اور انہیں معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ قرار دے کر اس کے سدباب کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں ان پر ثبوت کے لیے شہادت بھی سخت رکھی گئی ہے اگر شہادت میں ذرا کمی رہ گئی یا شبہ پیدا ہوا تو حد جاری نہ ہوگی جج کی صوابدید پر تعزیری سزا دی جائے گی نیز شہادت کے لیے دو مرد یا ایک مراد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے مگر سنگسار کرنے کے لیے چار مردوں کی عینی شہادت ضروری ہے اور وہ بھی ایسی کہ جس شہادت سے زنا ثابت ہو ورنہ محض برہنہ پایا جانا اور کسی غیر شرعی صورت میں تعزیر ہوگی اور شہادت غلط ثابت ہوگئی جرم ثابت نہ ہوسکا تو گواہوں پر حد قذف جاری ہوگی یعنی جھوٹی تہمت لگانے کی سزا اور وہ اسی کوڑے ہے اس کے علاوہ مختلف غیر شرعی صورتوں میں تعزیر ہوگی اور زنا کس قدر نقصان دہ ہے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ تو لوگوں کے مزاج تک بدل دیتا ہے اور زنا کا عادی مرد نکاح کے لیے بھی ایسی عورت ہی کو پسند کرتا ہے جو زانیہ اور بدکار ہو یا بےدین ومشرک کہ اس کا مقصد شہوت رانی ہوتا ہے اسی طرح زانیہ عورت بھی نکاح کے مقصد اصلی یعنی بقائے نسب اور شرافت کے لیے نہیں شہوت رانی کے لیے کسی زانی مرد یا بےدین مرد کو پسند کرتی ہے حالانکہ خود زنا اور محض شہوت رانی کے لیے نکاح ایمان والوں پر حرام کردیا گیا اور نکاح کا مقصد ایک شریف صحیح النسب اور نیک خاندان کی بنیاد رکھنا ہے نہ کہ محض شہوت رانی۔ فقہا کے مطابق اگر دو زانی مرد عورت آپس میں نکاح کریں گے تو ان کا مقصد کچھ بھی ہو نکاح منعقد ہوجائے گا اور اولاد کا نسب ثابت ہوگا وراثت وغیرہ کے احکام جاری ہوں گے برخلاف مشرکہ یا مشرک کے کہ مسلمان کا نکاح ان سے منعقد ہی نہ ہوگا نیز جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کی جرات نہ کی جاسکے نیز آئندہ کے لیے ان کی گواہی قبول نہ کی جائے کہ وہ سخت بدکار لوگ ہیں ، یہ سزا تو اسے ہر حال بھگتنا ہوگی اگر توبہ کرلے اور اس کے بعد ایسا جرم نہ کرے اپنی اصلاح کرلے تو آخرت کا عذاب اللہ کریم معاف فرما دیں گے کہ وہ بہت بڑے بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی ہی بیوی پر تہمت لگائے تو اسے بھی چار گواہ لانے ہوں گے یا پھر چار دفعہ اللہ کی قسم کھائے گا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار کہے گا کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو اس پر اللہ جل جلالہ کی لعنت ہو ۔ اسے شریعت میں لعان کہا گیا ہے یعنی لعنت کرنا ، اس کی صورت یہی ہے کہ میاں بھی چار گواہ لائے ورنہ قید کیا جائے گا اور اگر اپنا جھوٹا ہونے کا اقرار کرے گا تو تہمت کی حد یعنی اسی کوڑوں کی سزا پائے گا یا پھر چار دفعہ اللہ جل جلالہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اگر اس نے جھوٹ کہا ہو تو اس پر اللہ جل جلالہ کی لعنت تو سزا سے بچ جائے گا مگر عورت پر حد جاری نہ ہوگی بلکہ اسے بھی موقع دیا جائے گا ہاں جرم کا اقرار کرے تو سزا پائے گی ورنہ چار بار قسم کھا کر کہے کہ اگر وہ مرد جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ جل جلالہ کا غضب ہو تو وہ سزا سے بچ جائے گی مگر لعان کرنے سے وہ ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے اور پھر کبھی ان کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا ، نیز اس کی تفصیل بھی کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ، مفسرین کرام نے لعان کے واقعات جو عہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وقوع پذیر ہوئے نقل فرمائے ہیں ۔ اور اگر اللہ تم پر مہربان نہ ہوتا اور تم پر اس کی رحمت سایہ فگن نہ ہوتی تو تمہارا اسلامی معاشرہ بھی غیر اسلامی معاشرے کی طرح تباہ شدہ ڈھانچہ بن جاتا مگر یہ اس کا کرم ہے کہ سخت سزا مقرر فرما کر معاشرے کی حفاظت فرمائی اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھ کر گناہگار کی آخرت کے عذاب سے بچنے کی صورت پیدا فرما دی وہ بہت ہی بڑی حکمتوں کا مالک ہے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 3 : انزلنا (ہم نے اتارا۔ نازل کیا) ‘ فرضنا (ہم نے لازمی کیا۔ ہم نے فرض کیا) ‘ اجلدوا ( مارو) ‘ مائۃ (ایک سو) ‘ جلدۃ (کوڑے) ‘ لاتأ خذ (نہ پکڑے) ‘ رأفۃ ( ترس اور رحم) ‘ یشھد (دیکھے۔ موجود رہے) ‘ طائفۃ (ایک جماعت) حرم (حرام کردیا گیا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 : قرآن کریم ہ... ر آیت اور سورت کی اپنی اہمیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے سورة نور کو جس شان و شوکت ‘ اہتمام اور انوکھے انداز سے شروع کیا ہے وہ اس میں بیان کئے گئے احکامات کی اہمیت کو بہت واضح کردیتی ہے تاکہ معاشرہ کا ہر فرد اس سورت میں بیان کئے گئے احکامات کی پوری طرح پابندی کرسکے۔ سنگین گناہوں اور معاشرہ کی بد ترین برائیوں کو مٹانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرکے پاکیزہ اور پر سکون زندگی کی برکتوں کو حاصل کرسکے۔ جس معاشرہ یا سوسائٹی میں شرم و حیا ‘ باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کی عزت و وقار کے جذبات موجزن ہوتے ہیں وہی معاشرہ انسانی معاشرہ کہلاتا ہے لیکن اگر معاشرہ میں کسی کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ نہ ہو۔ باہمی اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہو ‘ بےشرمی ‘ بےغیرتی اور شراب نوشی عام ہو تو ہزاروں خوش حالیوں کے باوجود وہ معاشرہ انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ شریعت کی نظر میں ہر شخص بد کار اور بےغیرت نہیں ہوتا بلکہ کچھ بد کردار اور بےشرم لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں جو پورے ماحول کو گندہ کردیتے ہیں۔ اگر ان ذہنی مریضوں کو قابل عبرت سزادیدی جائے اور سڑے ہوئے گندے عضو کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جائے تو معاشرہ کا ہر فرد پر سکون زندگی گذار سکتا ہے اور اپنی جان و مال اور آبرو کو محفوظ سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خاص طور پر سوئہ نور میں ان سنگین گناہوں اور معاشرہ کی بدترین خرابیوں کے لئے ایسے فطری اور قابل عمل اصول ارشاد فرمائے ہیں جن کے نفاذ سے انسانی معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن کو جس زمانہ میں بھی اپنا یا گیا اپنا یا جائے گا اس کے نتائج یکساں نکلیں گے حالات کے بدلنے سے ان اصولوں کے دائمی فوائد سے کوئی محروم نہیں رہ سکتا۔ انسانی معاشرہ کے سب سے سنگین ‘ بدترین اور ناقابل معافی جرم چار ہیں۔ (1) ناجائز جنسی تعلقات (زنا) ۔ (2) چور (3) شراب نوشی (4) اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ اللہ تعالیٰ نے ان چاروں جرائم کی سزا کو خود متعین فرمایا ہے جس میں کسی حکومت ‘ عدالت یا اسخاص (جماعت ) کو کسی زمانہ میں کسی طرح کی تبدیلی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ جب گواہوں کے بعد پورے طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ ملزم یا ملزمہ نے یہ جرم کیا ہے تو پھر ان اسلامی سزاؤں کو نافذ کرنے میں کسی رعایت اور نرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ان چاروں جرائم کو ” حدود “ کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے جرائم ہیں ان کے اصولوں کو تو بیان کردیا گیا ہے لیکن جرم کی نوعیت کے مطابق ان کا فیصلہ کرنے میں اسلامی عدالتیں خاصی آزاد ہیں۔ ایسی سزاؤں کو ” تعزیرات “ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے ان بنیادی اصولوں میں سب سے پہلے ناجائز جنسی تعلق (یعنی زناض کی سنگینی اور اس کی عبرت ناک سزا کا ذکر فرمایا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناجائز جنسی تعلقات (زناض ایسا بدترین ‘ گھناونا ‘ شرمناک ‘ قابل نفرت اور انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والا فعل ہے جس کیچڑ کو بنیاد سے کھود کر پھینک دینا ضروری ہے۔ یہ وہ کینسر ہے کہ اگر اس کا ابتداء ہی میں علاج نہ کیا جائے تو وہ بڑی تیزی سے پھیل کر پورے انسانی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے کر تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔ دنیا کے مذاہب کو دیکھا جائے تو انہوں نے بھی زنا کو بدترین فعل قرار دیا ہے مگر اس کی سزاؤں کو متعین کرنے میں بعض ایسی رعایتوں کو رکھا گیا ہے جس سے یہ فعل دنیا سے مٹنے کے بجائے کینسر کی طرح پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس مرض کا علاج صرف قرآن کریم کے اصولوں کو اپنانے ہی سے ممکن ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ نے انتہائی سخت سزاؤں کو اس مرض کا علاج قراردیا ہے۔ ڈھیلے ڈھالے اصولوں اور چھپ چھپا کر سزائیں دینے سے یہمرض ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم دوسرے مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے فطری اصول نہیں ملتے جن سے اس گھنائو نے جرم کو ناقابل معافی قرار دیا گیا ہو یا ایسی سزائیں متعین کی گئی ہوں جو دوسروں کے لئے عبرت و نصیحت بن سکتی ہوں مثلاً نصاری (عیسائیوں) نے ناجائز جنسی تعلق کی سزا یہ مقرر کی ہے کہ (1) اگر کوئی کنوارا مرد کسی کنواری لڑکی سے زنا کرتا ہے تو وہ ایک سخت گناہ کی بات تو ہے مگر اس پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ (2) اگر کوئی شادی شدہ شخص کسی دوسری شادی شدہ عورت سے زنا کرتا ہے تو یہ سخت گناہ لیکن اس کی سزا یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر پر اس رشتے کی پامالی اور بےوفائی کا الزام لگا کر طلاق حاصل کرسکتی ہے۔ اسی طرح مرد کو بھی یہ اختیار ہے لیکن اس کے بعد مرد یا عورت کسی دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے اور زندگی بھر انہیں راہب یا راہبہ بن کر زندگی گذارنا ہوگی۔ نصاری کے برخلاف یہودیوں کے ہاں یہ قانون ہے کہ جو شخص دوسرے کی بیوی سے اس سنگین جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو زانی اور زانیہ دونوں کو جان سے مار دیاجائے گا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بدکاروں کو کھلی چھٹی دینے اور محض طلاق کا بہانہ بنانے یا کسی کو کسی جیل کی کو ٹھڑی میں جان سے مارڈالنے سے اس بدکاری کو عبرت و نصیحت بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ آئے دن یہ واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ایک مختصر سی مدت کے لئے یہ ایک اخباری خبر ہوتی ہے پھر لوگ بھول جاتے ہیں اور زانی اور زانیہ مرد اور عورتوں میں کمی نہیں آتی۔ دین اسلام نے اس برائی کو جڑ و بنیاد سے کھود نے اور عبرت ناک سزادینے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اور اس ذہنی اور عملی بیماری کا موثر علاج ہے اس کی تفصیل چند بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے بعد عرض کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی ابتدائ ” فرضنہا “ سے کی ہے (یعنی ہم نے اس کو فرض کردیا ہے) بتایا یہ جارہا ہے کہ اس سورت میں جو بھی احکامات بیان کئے جارہے ہیں ان کو ماننا اور اطاعت کرنا ہر اس شخص پر لازم اور واجب ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا ہے۔ یہ محض چند سفارشات یا نصیحتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایسی واضح کھلی اور صاف صاف باتیں ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اسی میں انسانی معاشرہ کی حقیقی زندگی ہے۔ اس بدترین فعل کی سزا کیا ہے ؟ اس کی تفصیلات کو فقہ کی کتابوں یا معتبر علماء سے معلو کیا جاسکتا ہے۔ چند ضروری اور بنیادی باتوں کو درج ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے تاکہ اس فعل بد کو دنیا سے مٹانے کی کچھ تفصیل سامنے آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے ناجائز جنسی تعلق (زنا) کو بدتر ین فعل اور ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے جس کی سزا کسی اسلامی عدالت کے ذریعہ ہی دی جاسکتی ہے۔ خود سے کسی کو سزادینے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ جس پر ناجائز جنسی تعلق کی تہمت لگائی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ چار ایسے چشم دید ( عینی شاہدین) گواہ ہوں جنہوں نے ملزم مرد اور ملزمہ عورت کو عین حالت مباشرت میں اس طرح دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی یا کنویں میں رسہ ڈالاجاتا ہے۔ اگر اس طرح گواہ نہ ہوں گے تو ملزمان پر شرعی حد جاری نہ کی جائے گی۔ اگر گواہی میں شبہ پیدا ہوجائے تو حد نافذ نہ کی جائے گی۔ لہذا چاروں گواہوں کے بیانات ایک جیسے اور یکساں ہوں۔ گواہی میں اس بات کو واضح طریقے پر بتایا گیا ہو کہ کس کو کس نے کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ اگر گواھوں کے بیانات میں اختلاف یا تضاد پایا جائے گا تو حد جاری نہ کی جائے گی۔ گواہی دینے والے سب کے سب قابل اعتماد ہوں۔ کبھی کسی مقدمہ میں ان کو جھوٹا ثابت نہ کیا گیا ہو۔ وہ بد دیانت یا سزا یافتہ نہ ہوں۔ محض قاضی (ججض کی ذاتی معلومات پر حد جاری نہ کی جائے گی۔ کسی لڑکی کا حاملہ ہونا حد جاری کرنے کا ثبوت نہیں ہے جب تک کوئی گواہی یا زبان سے اقرار نہ ہو۔ مذکورہ اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے جب گواہوں کی شہادت یا اقرار پر پوری طرح جرم ثابت ہوجائے تب شرعی سزا (کوڑے یارجم) نافذ کرنے میں کسی نام نہاد رعایت اور رحم کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ ناجائز جنسی تعلق (زنا) کسی عورت نے کیا ہو یا مرد نے دونوں پر حد جاری کی جائے گی۔ مرد اور عورت میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے زانیہ عورت کا ذکر کیا ہے پھر مرد کا تاکہ عورت کو صنف نازک قرار دے کر چھوڑ نہ دیاجائے یا اس کی سزا میں تخفیف یا کمی نہ کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ناجائز جنسی تعلق کو اتنا بد ترین فعل قرار دیا ہے کہ اس میں کسی باہمی رضا مندی یا راضی نامہ کی بھی گنجائش نہیں ہے چناچہ ایک لڑکا جس نے اپنی مالکن سے زنا کیا تھا تو لڑکے کے باپ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی بھیج کر درخواست کی کہ اس نوجوان لڑکے کی سزا کو ان چیزوں کے بدلے میں معاف کردیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تیری بکریاں اور لونڈی تجھے مبارک ہوں (آپ نے واپس کردیں) اور اس کے بعد آپ نے شریعت کے مطابق دونوں پر حد جاری فرمادی۔ رجم و سنگسار کی شرعی حیثیت : رجم (پتھر مار کر ہلاک کرنے) کا حکم قرآن کریم میں اشارۃ اور متواتر و مشہورا حادیث میں پوری وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے۔ شریعت نے زنا کو بدترین اور ناقابل معافی جرم قرار دے کر یہ سزا مقرر کی ہے کہ (1) اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکا یا غیر شادی شدہ لڑکی ناجائز جنسی تعلق (زنا) میں ملوث پائے گئے ہوں تو ان دونوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں گے۔ (2) اگر وہ دونوں شادی شدہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک شادی شدہ ہو اور دوسرا کنوارا ہو تو شادی شدہ عورت یا مرد کو رجم و سنگسار کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو ایک سو کوڑے مارے جائیں گے۔ (3) اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک غلام یا باندی ہو تو غلام اور باندی کو چالیس چالیس کوڑے مارے جائیں گے یعنی ان کی سزا نصف ہوگی۔ (4) رجم و سنگسار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں اس وقت تک پتھر مارے جائیں گے جب تک اس فعل کا مجرم یا مجرمہ ہلاک نہ ہوجائیں۔ (5) رجم و سنگسار یا کوڑوں کی سزا لوگوں کی نگاہوں سے دور کسی جیل یا کال کوٹھڑی کے اندر خاموشی سے نہیں دی جائے گی بلکہ (اعلان عام کرکے) مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے سامنے رجم کیا جائے گا یا کوڑے مارے جائیں گے تاکہ ہر شخص اس عبرت ناک انجام کو دیکھ کر اس بدترین فعل کے نزدیک جانے کی ہمت نہ کرسکے۔ (6) رجم و سنگساری کے بعد مجرم یا مجرمہ کے لئے تمام مسلمانوں کی طرف کفن ‘ دفن اور نماز جنازہ کا اہتمام کیا جائے گا اور مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کوڑوں کی سزا کے ساتھ ساتھ رجم و سنگسار کرنا بھی قرآن و سنت کے عین مطاق ہے۔ بعض ناواقف لوگ یا مغرب کی تہذیب کے سامنے شکست کھا جانے والے منکرین حدیث یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں زانی یا زانیہ کے لئے کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن رجم و سنگساری کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر لفظ کی تشریح و تعبیر کرنے کا حق صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” وہ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتے جب تک اللہ کی طرف سے وحی نہ آجائے “ دوسری جگہ فرمایا کہ ” اے مومنو ! رسول اللہ تمہیں جو کچھ دیدیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع فرمادیں اس سے رک جائو “۔ قرآن کریم کے اس اصول کے تحت ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دنیاوی زندگی میں رجم و سنگساری کے اصول کو جاری فرمایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفا راشدین (رض) اور صحابہ کرام (رض) بھی اسی عمل پر قائم رہے کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت نے اس جرم کا ارتکاب کیا تو ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا گیا اور غیر شادی شدہ کو ایک ایک سو کوڑے مارے گئے۔ تمام معتبر اور صحیح حدیثوں میں اس بات کو نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” ماعز اور غامد یہ “ پر سزائے رجم و سنگساری کو جاری فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت زید ابن خلاد جہنی کی صحیح ترین روایات سے ثابت ہے کہ ایک مرتبہ ایک غیر شادی شدہ لڑکے نے جو ایک شادی شدہ عورت کاملازم تھا اس کے ساتھ زنا کیا زانی لڑکے کا باپ اس کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا (اور کچھ رعایتیں چاہیں) تو آپ نے فرمایا کہ میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کی مطابق کروں گا۔ چناچہ آپ نے حکم دیا کہ زانی لڑکے کو جو غیر شادی شدہ ہے ایک سو کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ عورت کو سنگسار کردیا جائے کیونکہ دونوں نے اپنے جرم کا اقرار لیا تھا۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ زنا کی سزا میں ہم شرعی حیثیت سے رجم و سنگسار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سن لو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود رجم و سنگسار کیا اور ہم نے آپ کے بعد مجرموں کو رجم و سنگسار کیا۔ اور اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کہنے والے کہیں گے کہ عمر (رض) نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا لیا ہے تو میں قرآن کے کسی کونے پر بھی اس کو لکھ دیتا۔ فرمایا کہ اس پر عمر بن خطاب (رض) گواہ ہے۔ عبدالرحمن ابن عوف گواہ ہیں اور فلاں ابن فلاں گواہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم و سنگسار کیا اور آپ کے بعد ہم نے (زانیوں کو ) رجم و سنگسار کیا (نسائی) ۔ اس حدیث میں حضرت عمر فاروق (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور عمل کو کتاب اللہ اور آیت کتاب اللہ سے تعبیر فرمایا جو بالکل سچ ہے۔ اس موضوع پر ہمارے اکابر علماء نے نہایت تفصیل سے رجم و سنگسار پر کتابیں لکھی ہیں مزید معلومات کے لئے وہاں دیکھ لیا جائے۔ کوڑوں کی سزا : قرآن کریم اور احادیث کے اصولوں کی روشنی میں کوڑوں کی سزا دینے میں دو بنیادی مقصد ہیں (1) مناسب جسمان سزا دینا (2) اور زانیہ عورت اور زانی مرد کے فعل اور اس کی ذلت و رسوائی۔ کوڑوں کی سزا میں وحشیانہ یا ظالمانہ طریقے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس سزا کو عبرت و نصیحت بنایا گیا ہے۔ چنانچہ جب کوئی غیر شادی شدہ مرد یا غیر شادی شدہ عورت اس ناجائز جنسی تعلق (زناض میں مبتلا پایا جائے جس پر عینی شاہدین نے معتبر اور مکمل گواہی پیش کردی ہو اور قاضی نے ان دونوں پر حد جاری کرنے کا حکم دیدیا ہو تو (اطلاع عام کے ذریعہ) مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں ان کو ایک ایک سو کوڑے مارے جائیں گے اور اس میں کسی نرمی یا کمی بیشی کی اجازت نہیں ہوگی۔ جس کوڑے سے ماراجائے وہ درمیانہ اور اوسط درجہ کا ہو۔ نہ اتنا سخت ہو کہ اس سے مجرم کا جسم یاکھال پھٹ جائے اور اس کے گوشت کے ٹکڑے اڑجائیں۔ کو ڑانہ اتنا نرم ہو کہ یہ سزا محض ایک رسم یا مذاق بن کر رہ جائے۔ کوڑا ایسا ہونا چاہیے کہ ضرب (مار) کا اثر کھال تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ ہاتھوں کو اتنا اونچا کرکے کوڑے نہ مارے جائیں جن سے کوڑے مارنے والے کی بغلیں کھل جائیں۔ کوڑے کی جگہ بید کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ کوڑے جسم کے کسی ایک حصے پر نہ مارے جائیں بلکہ چہرہ ‘ سر اور شرم گاہ کو بجا کر جسم کے مختلف حضوں پر اس سزا کو پھیلا دیا جائے۔ ایک سو کوڑے وقفے وقفے سے بھی مارے جاسکتے ہیں اور ایک ساتھ بھی۔ بیس بیس کوڑے ہر روز مارے جاسکتے ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ ایک ہی دن میں ایک سو کوڑے مارے جائیں۔ اگر سزا کسی غلام یا باندی کو دی جائے تو ان کو نصف سزادی جائے گی یعنی چالیس چالیس کوڑے۔ اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل ( بچہ پیدا ہونے) تک انتظار کیا جائے گا۔ جب بچہ پیدا ہوجائے تو مناسب وقت پر سزادی جائے گی۔ اگر مجرم نہایت کمزور ‘ شدید بیمار یا بہت زیادہ بوڑھا ہو جو کوڑوں کی سزا برداشت نہ کرسکے تو ایک ایسی ٹہنی (درخت کی شاخ) لی جائے جس میں ایک سو شاخیں ہوں ان کو ایک دفعہ مار دیا جائے تو اس سے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ (ابودائود۔ ترمذی) مرد کو سزادینے کے لئے ستر کو چھپانے والے کپڑوں کے سوا ہر کپڑا اتار کر سزادی جائے گی اس کے برخلاف عورت کے صرف موٹے اور روئی دار کپڑے اتارے جائیں گے اور بقیہ کپڑوں کو اس کے جسم پر اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس سے سزا کے وقت کسی طرح اس کا جسم برہنہ نہ ہونے پائے۔ کسی چیز سے یا رسی وغیرہ سے مجرم کو باندھ کر سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ اگر مجرم بھاگنے یا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو اس کو کسی چیز سے باندھ کر سزادی جاسکتی ہے۔ مرد کو کھڑاکرکے اور عورت کو بٹھا کر سزادی جائے گی۔ اگر کسی قاضی نے گواہوں کی گواہی پر سزادی ہے تو کوڑے مارنے کی ابتداء گواہوں سے کرائی جائے گی اور اگر مجرم یا مجرمہ نے خود ہی اقرار کیا ہو تو سزا کی ابتداء خود قاضی عدالت کرے گا۔ سخت سردی یا سخت گرمی کے وقت کوڑے مارنا مناسب نہیں ہے اس کا بھی خیا ل رکھنا ضروری ہے۔ شریعت کے ان تمام اصولوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عبرت کے لیے یہ ایک بہت ہی سخت سزا تو ہے لیکن اس کو وحشیانہ سزا کہنا ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قراردینے میں جس قدر پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے وہ مذکورہ اصولوں کی روشنی میں بےحقیقت ہو کر رہ جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ غیر مسلم اگر ان سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تو اسلام کا وجود ہی دہشت گردی ہے اور انہوں نے ہمیشہ دین اسلام کو سمجھنے کے بجائے تعصب اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے لیکن جب ہمارے نام نہاد مسلمان ان سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں اور اس پر زور قلم صرف کرتے ہیں تو ان پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین۔ جیسا کہ آپ نے سروئہ نور کی ابتدائی آیتوں میں ملاحظہ کرلیا ہے کہ قرآن کریم میں ناجائز جنسی تعلق (زنا) کرنے والوں کے لئے جس قدر سخت ‘ ذلت آمیز اور عبرت ناک سزا مقرر کی گئی ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر مومن اس بدترین گناہ کے قریب جانے سے بھی ڈرتا رہے اور وہ لوگ جو پرسکون اور اعتماد سیبھر پور نیکی کے ساتھ زندگی گذار نا چاہتے ہیں وہ اپنے معاشرہ میں تحفظ محسوس کرسکیں۔ اسی لئے ایسیمعاشرہ میں ایسے بدکار لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا اظہار کر کے اخلاق و کردار کی گراوٹ میں مبتلا ہو کر زنا جیسے فعل تک پہنچ گئے ہوں۔ ایسے مردوں اور عورتوں کے لئے تو وہی لوگ مناسب ہیں جو ان کی طرح ذہنی مریض ہوں۔ ایک مومن صالح کو بہر حال ان سے دور رہنے اور پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس میں ایک اور اہم خرابی کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے جس کا عرب میں کسی حدتک رواج ہوگیا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ بعض غریب و مفلس لوگ اپنے فقرو فاقہ سے تنگ آکر اور مال و دولت کے لالچ میں ایسی دولت مند اور مال دار فاحشہ عورتوں سے شادی کرلیتے تھے جن کی آمدنی پر وہ عیش و عشرت کی زندگی گذار سکیں۔ دین اسلام نے اس بےغیرتی اور بےحیائی سے روکنے کے لئے بھی فرمایا ہے کہ کوئی شخص فاحثہ اور بدکردار عورتوں سے دنیاوی لالچ میں آکر نکاح نہ کرے کیونکہ اس جذبے سے نکاح کرنا اہل ایمان پر حرام قرار دیا دیا گیا ہے۔ اگر کوئی پاک دامن مرد یا عورت گھریلو سکون اور روحانی تسکین کے لئے کسی زانیہ یا زانی سے نکاح کرلے تو وہ نکاح ہوجائے گا۔ لیکن اگر زانیہ یا زانی کی بد کرداری کی حفاظت کے لئے محض دکھاوے کی شادی ہو تو وہ نکاح نہیں ہوگا کیونکہ اگر کوئی شخص نکاح کے باوجود اس پر راضی رہے کہ اس کی بیوی زنا کاری میں مبتلا رہے اور اس میں کوئی حرج نہ سمجھتا ہو تو ایسا نکاح حرام ہے۔ شریعت نے اس بات کو بھی واضح کر کے بیان کردیا ہے کہ ایک مومن مرد یا مومن عورت کا نکاح کسی مشرک عورت یا مشرک مرد سے نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اس بات کو بھی صاف کردیا گیا ہے کہ اگر زانی یا زانیہ ” سزا کے بعد “ سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ زندگی نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ گذارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادے گا۔ اگر رجم و سنگساری کے بعد یا کوڑوں کی سزا میں اس کی موت واقع ہو جئے تو اس کو باقاعدہ غسل اور کفن دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن کیا جائے گا۔ جس نے اپنے فعل بد سے توبہ کرلی ہے اس کا نام برائی کے ساتھ نہیں لیا جائے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس تمہید میں اپنی طرف منسوب فرماکر الفاظ سورت کی جزالت اور معانی کی جلالت اور معانی پر الفاظ کی وضوح دلالت اور پھر اس مجموعہ کی غایت بیان فرمانے سے ان احکام پر عمل کرنے کا غایت اعتناء شان ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة المؤمنوں کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو پکارتے ہیں ان کے پاس اس باطل عقیدہ کی کوئی دلیل نہ ہے۔ ان کا حساب ” اللہ “ کے ذمہ ہے ” اللہ “ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والے کامیاب نہیں ہونگے۔ اے رسول آپ اپنے رب سے مغفرت اور اس کا رحم مان... گئے۔ سورة النور کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے۔ گویا کہ جو شخص اپنے رب کی بخشش اور مہربانی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ” اللہ “ کی توحید کا اقرار اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ کا نام النّور رکھ کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر مسلمان ہر قسم کی تاریکی اور جہالت سے نکل کر روشن دور میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں ذاتی اور معاشرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے فرامین پر عمل کرنا ہوگا۔ اس سورة مبارک میں توحید و رسالت اور آخرت کا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی حدود وقیود کا ذکر کیا گیا ہے ان کی فرضیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ اس سورة کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اس نے اس سورة میں بیان ہونے والی تعلیم اور قوانین کو فرض ٹھہرایا ہے اور اس میں ذکر ہونے والے احکام کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے اور اس پر عمل کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام بالکل واضح ہیں ان میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے۔ اس کے باوجود سورة کی پہلی آیت میں پورے جلال اور دبدبے کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہم نے اس سورة کو نازل کیا ہم نے اسے فرض ٹھہرایا اور ہم نے اس کے احکام کھول کھول کر بیان کیے ہیں۔ ایک آیت میں تین مرتبہ ہم کی ضمیر لا کر اپنی جلالت و جبروت کا اظہار فرمایا تاکہ مسلمانوں کو اس کی عظمت و فضیلت کا ادراک ہو اور وہ اس پر من وعن عمل کرکے برائی اور بےحیائی سے پاک معاشرہ قائم کرکے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نور سے اپنے آپ کو منور کرسکیں یہی کتاب مبین کے نزول کا مقصد ہے۔ ” یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں اللہ غالب اور بےنیاز کے راستے کی طرف۔ “ (ابراہیم : ١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة انزلنھا۔۔۔۔۔۔۔ تذکرون یہ پورے قرآن مجید میں اپنی نوعیت کا واحد مطلع کلام ہے۔ اس میں جو نیا لفظ ہے وہ فرضنھا کا ہے ‘ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورة میں جو کچھ ہے اس کا اخذ کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یعنی اس کے اندر مذکور آداب پر عمل کرنا بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح حدو... د پر عمل کرنا لازمی ہے۔ یہ اخلاق و عادات نہایت ہی فطری ہیں۔ ان آداب اور اخلاق کو لوگ بعض ایسے عارضی حالات کی وجہ سے بھول جاتے ہیں جو انسان کو دھوکہ دے کر بدراہ کردیتے ہیں ‘ یہ آیات ایسے لوگوں کو یاد دہانی کرا کے راہ راست دکھاتی ہیں اور پھر ان کو راہ فطرت پر واپس لاتی ہیں جو بالکل واضح ہے۔ اس دو ٹوک تمہید کے بعد قانون حد زنا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس فعل کو نہایت ہی قبیح گردانتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ زانی اور اسلامی سوسائٹی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں رہتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

احکام شرعیہ پر عمل کرنا لازمی ہے زانیہ اور زانی کی سزا سو کوڑے ہیں اس سورت کا پانچواں رکوع (اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ ) سے شروع ہے اس لیے یہ سورت سورة النور کے نام سے موسوم اور معروف ہے اس کے شروع میں عفت اور عصمت کی حفاظت کا بیان ہے اور زنا کرنے والوں اور تہمت لگانے والوں کی سزا مذ... کور ہے اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے یہ سورة نازل کی اور اس میں جو احکام ہیں ان پر عمل کرنے کی ذمہ داری ڈالی ہے (قَرَضْنٰھَا) کا یہ ترجمہ اس لیے کیا گیا کہ اس سورت میں جو احکام مذکور ہیں وہ سب فرض نہیں ہیں البتہ مومن بندوں کو سب پر عمل کرنا چاہئے ان میں فرائض بھی ہیں اور غیر فرائض بھی ہیں) پھر فرمایا (وَاَنزَلْنَا فِیْہَا اٰیٰتٍ بَیِّنَاتٍ ) (اور ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں) ان آیات میں جو احکام ہیں ان پر عمل کریں (لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) (تاکہ نصیحت حاصل کرو) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ پہلا حصہ : تمہید، ترغیب الی القرآن، اصلاح معاشرہ کے لیے چار احکام، تہمت لگانے والوں پر زجریں، پھر اصلاح و تطہیر معاشرہ کے لیے چھ قوانین، دعوی توحید جس کی وجہ سے منافقوں نے تہمت لگائی، دعوی توحید پر ایک نقلی اور تین عقلی دلیلیں۔ ” سورة انزلنھا الخ “: ” سورة “ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ھذہ سورة او... ر انزلنھا مع معطوفات، سورة کی صفت ہے (مدارک) یہ سورت میں بیان کردہ احکام کی تمہید اور ان کی تعمیل کی ترغیب ہے یعنی اس عظیم القدر سورت میں مسئلہ توحید اور ستر و عفاف کے بارے میں احکام بیان کیے گئے ہیں ان کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ہم نے تم پر فرض کردیا ہے۔ ” انزلنا “ ماضی بمعنی حال ہے یعنی یہ سورت جو اس وقت ہم نازل کر رہے ہیں۔ فرضنھا “ ضمیر مفعول سے پہلے مضاف مقدر ہے ای فرضنا احکامھا (روح) احکام ستر وعفاف کے واضح احکام مراد ہیں یہ احکام چار ہیں جو اس کے بعد بالتفصیل مذکور ہیں۔ ” وانزلنا فیھا الخ “: ” انزلنا “ کا اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے مقسود ذکر مفعول ہے۔ ” ایت بینت “ سے توحید کے روشن دلائل مراد ہیں۔ وفرضناھا اشارۃ الی الاحکام التی بینھا اولا ثم قولہ وانزلنا فیھا ایت بینت اشارۃ الی ما بین من دلائل التوحید (کبیر ج 6 ص 310) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) یہ سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور … ہم نے ہی اس کے احکام کی بجاآوری کو مقرر اور لازم کیا ہے اور ہم نے اس سورت میں صاف صاف آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو اور یاد رکھو یعنی سورة نور ایک سورت ہے اس کو بھی ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے احکام کو بھی ہم ہی نے فرض کیا ہے اور مقرر فرمایا ہے اگر... چہ بعض احکام اس میں مستحب اور مندوب بھی ہیں لیکن چونکہ احکام واجبہ اور فرض زیادہ ہیں۔ اس لئے فرضنناھا فرمایا اور ان احکام مقررہ پر دلالت کرنے کے لئے صاف صاف آیتیں نازل فرمائیں جو ان احکام پر دلالت کرتی ہیں یعنی سورت کا بیشتر حصہ احکام ہیں پھر ہم نے ان معانی پر دلالت کرنے والی واضح آیات نازل کیں تاکہ سمجھنے والے آسانی سے سمجھ کر اس پر عمل کریں آگے احکام کی تفصیل ہے۔  Show more