Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 12

سورة النور

لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾

Why, when you heard it, did not the believing men and believing women think good of one another and say, "This is an obvious falsehood"?

اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disciplining the Believers for spreading the Slander Here Allah disciplines the believers with regard to the matter of A'ishah, because some of them spread this evil talk and the slander that had been mentioned. So Allah says: لَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ... Why then, when you heard it, meaning, the talk which accused the Mother of the believers, may Allah be pleased with her... , ... ظَنَّ الْمُوْمِنُونَ وَالْمُوْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا ... the believers, men and women, think good of their own people, means, why did they not compare what was said to themselves -- if it was not befitting for them then it was even less appropriate for the Mother of the believers, and she was more likely to be innocent. Or it was said that this was revealed about Abu Ayub Khalid bin Zayd Al-Ansari and his wife, may Allah be pleased with them. Imam Muhammad bin Ishaq bin Yasar narrated, "The wife of Abu Ayub Khalid bin Zayd Al-Ansari, Umm Ayub, said to him, `O Abu Ayub, have you heard what the people are saying about A'ishah!' He said, `Yes, and it is all lies. Would you do that, O Umm Ayub!' She said, `No, by Allah, I would not do that.' He said, `And by Allah, A'ishah is better than you.' When the Qur'an was revealed, Allah mentioned those who spoke about the evil deed among the people of the slander, إِنَّ الَّذِينَ جَاوُوا بِالاِْفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ (Verily, those who brought forth the slander are a group among you). (24:11) This refers to Hassan and his companions who said what they said. Then Allah said, لَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُوْمِنُونَ ... Why then, did not the believers, men, when you heard it, think... means, as Abu Ayub and his wife did." Allah's saying: ... ظَنَّ الْمُوْمِنُونَ ... the believers, men think... meaning, `why did they not think good, because the Mother of the believers is his wife and is closer to him.' This is concerned with innermost feelings; ... وَقَالُوا ... and say: means, with their tongues, verbally, ... هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ "This (charge) is an obvious lie." means, a clear untruth told about the Mother of the believers, may Allah be pleased with her. What happened should not have been the cause of suspicion. The fact that the Mother of the believers came openly, riding on the camel of Safwan bin Al-Mu`attal at midday, with the entire army watching and the Messenger of Allah among them, should have made it clear that there was no cause for suspicion. If there had been anything suspicious about the matter, they would not have come openly in this manner in front of so many witnesses; they would have come secretly. On this basis, what the people of the slander said accusing the Mother of the believers was an utter lie, false speech and evil foolish talk, by which people who indulged in it lost out. Allah said:   Show more

اخلاق و آداب کی تعلیم ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے ، جب ... کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المومنین کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے ۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا ۔ حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو حضرت عائشہ کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور یہ یقینا جھوٹ ہے ۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن ۔ آپ نے فرمایا پس حضرت عائشہ تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں ۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا ۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں کا ذکر ہوا ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی ۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ حصرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا ۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہئے ۔ اس لئے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے ۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا ۔ پھر فرمایا کہ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں ۔ فاسق و فاجر ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فورا ! اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] اس واقعہ افک کی پوری روئیداد خود حضرت عائشہ (رض) کی زبانی سنئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے (خود اپنا واقعہ افک یوں) بیان کیا کہ آپ کی عادت تھی کہ جب آپ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ ساتھ لے جاتے۔ چناچہ آپ نے ایک غزوہ (بنی مصطلق) میں قرعہ ڈالا ... جو میرے نام نکلا۔ پس میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی اور یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودہ سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے جب آپ اس غزوہ سے فارع ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آن پہنچے۔ ایک رات کوچ کا حکم ہوا یہ حکم سن کر اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ظفار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ پر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں۔ اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کمسن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار (جو اونٹ کے نیچے آگیا تھا) مجھے مل گیا میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گوی۔ جہاں رات کو اترے تھے۔ دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (سب جاچکے ہیں) میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا اور میں سوگئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کے لئے) ھفوان بن معطل سلمی مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للؤہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے انا للؤہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بیٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے تاآنکہ ہم لشکر سے سو اس وقت جاملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے۔ اور جن لوگوں نے قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے اس تہمت کو سب زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ البتہ ایک بات سے مجھے وہم سا پیدا ہوا۔ وہ یہ تھی کہ آپ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ آپ تشریف لاتے، سلام علیک کہتے پھر یہ پوچھ کر کہ (اب طبیعت) کیسی ہے چل دیتے۔ اس بات سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بات کی خبر نہ تھی۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور ابھی کمزور ہی تھی کہ مناصع کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (سلمیٰ ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اپنے گھروں کے نزدیک ہم پاخانے نہیں بناتے تھے بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لئے جنگل جایا کرتے۔ کیونکہ گھروں کے قریب پاخانہ بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطع کی ماں جو ابو رہم بن عبدمناف کی بیٹی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی، ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ تھی۔ اسی کا بیٹا مسلح تھا۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو کہنے لگی : && مسطح ہلاک ہوگا، میں نے اسے کہا &&: کیا بکتی ہو، کہا تم ایسے شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟ && وہ کہنے لگی : && اے بھولی لڑکی، کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا جو وہ کہتا ہے ؟ && پوچھا && کیا کہتا ہے ؟ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی۔ تو رسول اللہ تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا، اب کیسی ہے ؟ میں کہا : آپ مجھے اجازت دیجئے میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں۔ رسول اللہ ! نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا۔ امی ! یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں ؟ && اس نے کہا : && بیٹی اتنا رنج نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں && میں نے کہا &&: سبحان اللہ ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔ چناچہ میں یہ ساری رات روتی رہی۔ صبح ہوگئی۔ مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ اس سلسلہ میں ان سے مشورہ چاہتے تھے۔ چناچہ اسامہ بن زید نے آپ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ (رض) ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اسامہ کو آپ کی بیویوں سے محبت تھی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہ (رض) پاکدامن اور بےقصور ہیں۔ اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے کها : && یارسول اللہ !~ اللہ تعالیٰ آپ پر تنگی نہیں کرے گا۔ عائشہ (رض) کے علاوہ اور بھی بہت عورتیں ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ ٹھیک ٹھیک بتلا دے گی && چناچہ آپ نے بریرہ کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تم نے کوئی ایسی بات بھی دیکھی ہے کہ عائشہ (رض) کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو ؟ && بریرہ کہنے لگیں : && اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ ہاں میں اس میں ایک بات دیکھتی ہوں اور اس سے چشم پوشتی کر جاتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ ابھی کم سن بچی ہے۔ آٹا گندھا پڑا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے && (ان شہادتوں کے بعد) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن ابی سلول کے خلاف آپ نے مدد چاہی۔ فرمایا۔ مسلمانوں ! اس شخص کے مقابل کوئی میری حمایت کرتا ہے۔ جس نے میرے اہل خانہ کے بارے میں مجھے دکھ پہنچایا ؟ میں نے تو اپنے اہل خانہ میں بھلائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص سے یہ لوگ متہمم کرتے ہیں اس میں بھی میں نے بھلائی ہی دیکھی ہے۔ وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں آتا بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ یہ سنکر سعد بن معاذ (اوس قبیلہ کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : && میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے بجا لائیں گے && یہ بات سن کر حضرت سعد بن عبادہ جو خزرج قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے۔ وہ ایک نیک بخت آدمی تھے مگر قومی حمیت نے آدبوچا تو کہنے لگے : سعد بن معاذ ! اللہ کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اسے مارے گا نہ مارسکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زادہ بھائی تھے۔ کھڑے ہو کر سعد بن عبادہ سے کہنے لگے : && اللہ کی قسم ! تو جھوٹا ہے ہم ضرور اسے قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے ؟ اس پر دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں۔ نبی اکرم ابھی منبر پر ہی تھے۔ آپ انھیں سمجھاتے اور تھماتے رہے جب وہ خاموش ہوئے تو آپ بھی خاموش ہوگئے۔ میرا وہ دن بھی رونے دھونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی۔ نہ میر آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی۔ میرے والدین سمجھے کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالات میں آپ تشریف لائے اسلام کیا۔ پھر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ بھر آپ انتظار کرتے رہے مگر وحی نہ آئی۔ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا : && عائشہ (رض) ! مجھے کو تیری نسبت ایسی ایسی خبر آئی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تیری بریت فرمائے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے تو اللہ سے اپنے قصور کی معافی مانگ اور توبہ کر۔ جب بندہ گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے && جب آپ یہ گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ رسول اللہ کو جواب دیں && وہ کہنے لگے ! اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں && پھر میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے کہا کہ تم جواب دو && اس نے کہہ دیا کہ && میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں && آخر میں خود ہی جواب دینے لگے۔ میں ایک کمزور لڑکی تھی۔ قرآن مجھ کو زیادہ یاد نہ تھا۔ میں نے کہا : && اللہ کی قسم ! میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ لوگوں نے سنی ہے آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے۔ اور اگر میں گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم ! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتیں ہوں جیسے حضرت یوسف کے والد کی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں کہ && اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے && یہ کہہ کر میں نے کرو && بدلی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں۔ لہذا اللہ تعالیٰ ضرور میری بریت کردے گا۔ مگر اللہ کی قسم مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی آیات نازل کرے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی میں اپنا شان اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی۔ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ ! کوئی خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بریت واضح ہوجائے گی۔ پھر اللہ کی قسم ! ابھی رسول اللہ !~ وہاں سے ہلے بھی نہ تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی وہاں سے باہر گیا کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ معمول کے موافق آپ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا۔ مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی تھی ! جب امی موقوف ہوئی تو آپ خوش تپے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات آپ~صل ٣~ نے یہی کی : عائشہ (رض) ! && اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت فرما دی && میری والدہ مجھے کہنے لگی : اٹھو اور آپ کا شکریہ ادا کروں۔ میں نے کہا۔ اللہ کی قسم میں نہیں اٹھوں گی۔ میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی && جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ( اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۭ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11؀) 24 ۔ النور :11) پوری دس آیات۔ جب یہ آیات اتری تو ابوبکر (رض) نے، جو محتاجی اور رشتہ کی وجہ سے مسطح کی مدد کیا کرتے تھے، کہا : اللہ کی قسم ! && آئندہ میں مسطح کو کچھ نہیں دیا کروں گا جبکہ اس نے عائشہ (رض) کے متعلق ایسی باتیں کیں && تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 22؀) 24 ۔ النور :22) یہ آیت سن کر ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے : اللہ کی قسم ! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ پھر وہ مسطح سے پہلا سا سلوک کرنے لگے اور کہا : اللہ کی قسم ! جب تک مسطح زندہ تھا میں یہ معمول بند نہ کروں گا && حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ : (اس تہمت کے زمانہ میں) آپ زینب بن جحش (ام المومنین) سے میرا حال پوچھتے کہ && تم عائشہ (رض) کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے ؟ && تو انہوں نے کہا : && یارسول اللہ !~ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو عائشہ (رض) کو اچھا ہی سمجھتی ہوں && آپ کی بیویوں میں سے زینب ہی میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انھیں بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن سے اس بارے میں جھگڑنے لگی تو جیسے دورے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس مفصل حدیث کی رو سے مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے : ١۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ کو ایک بہتان ہی سمجھتے تھے۔ وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ کو ہی نہیں، صفوان بن معطل کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔ ٢۔ اس قصہ کا براہ راست صدمہ آپ کی ذات کو پہنچتا تھا۔ اور آپ کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے بہتان تراشوں کا صفایا بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب قومی اور قبائل عصبت کی بناء پر اس میں جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ جانکاہ خود اپنی ذات پر برداشت کرلیا۔ مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔ ٣۔ آپ اس سلسلہ میں پورا مہینہ بےتاب و بےقرار رہے اس لئے کہ یقینی علم۔۔ یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا۔ ورنہ آپ دوسروں سے حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں کوئی استفسار نہ فرماتے۔ اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ جو کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا ثابت نہ کرنے لگیں۔ ٤۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ) نے اس واقعہ کو حتمی تردید اس لئے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لئے تردید مخالفین کی نظروں میں کچھ۔۔ نہیں رکھتی۔ ٥۔ حضرت عائشہ (رض) کے والدین بھی ذاتی طور پر حضرت عائشہ (رض) کو پاکباز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی والدہ ام رومان کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لئے نہ کرسکتے تھے یا پاکبازی کا بیان اس لئے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کرسکتا۔ ٦۔ آپ نے اس سلسلہ میں حضرت اسامہ بن زید، حضرت بریرہ اور ام المومنین حضرت زینب بنت حجش سے استفسار فرمایا اور یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پرزور الفاظ میں حضرت عائشہ (رض) کی پاکبازی کا بیان دیا۔ حضرت زینب جو حضرت عائشہ (رض) کی سوکن اور حضرت عائشہ (رض) کے بیان کے مطابق ان کے مقابلہ کی چوٹ تھیں۔ انہوں نے بھی حضرت عائشہ (رض) کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ چوتھے گھر کے فرد حضرت علی (رض) تھے جن سے آپ نے استفسار فرمایا۔ انہوں نے اس الزام کی تردید یا حضرت عائشہ (رض) کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کبیدگی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا۔ تاہم ان کی زبان سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا حضرت عائشہ (رض) کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔ ٧۔ عامہ~ن~ المسلمین کی بھی اخلاقی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقوں کے پرزور پروپیگنڈہ کے باوجود تین افراد کے سوائے کوئی ان سے متاثر نہ ہوسکا ان میں سے بھی حمنہ بنت جحش اپنی بہن کی خاطر اور حضرت عائشہ (رض) کو نیچے دکھانے کی وجہ سے اس بہتان میں شامل ہوگئی تھیں۔ اور اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے خیر کے پہلو یہ تھے : ١۔ اس واقعہ مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوگیا اور منافقین چھٹ کر سامنے آگئے۔ جو یہ چاہتے تھے کہ اس طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمانوں کی اخلاقی توفق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ ٢۔ جو افراد اس صدمہ سے جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کے لئے تسلی اور خوش کا باعث ہوئی۔ جب وحی ختم ہوئی تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشی کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) کے والدین کی خوشی کا بھی یہ اثر تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو آپ کا شکریہ ادا کرنے کو کہا۔ اور آئندہ کے لئے ان کا لقب ہی صدیقہ پڑگیا۔ ٣۔ مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دیئے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ [١٦] جب اس بہتان کا عام چرچا ہونے لگا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا : لوگ حضرت عائشہ (رض) کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت ایوب کہنے لگے : لوگ بکواس کرتے ہیں۔ تم ہی خود ہی بتلاؤ۔ کہ تم ایسا کام کرسکتی ہو ؟ وہ کہنے لگی : && ہرگز نہیں && وہ کہنے لگے : پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ (رض) صدیقہ تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طہر و مطہر ہیں۔ ان کی نسبت ایسا بےحد گمان کیوں کیا جائے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کرسکتا تھا اور صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہے && اور مسلمانوں کی اکثریت کی فکر کا اندازہ یہی تھا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا : بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا کہ ” کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو تم نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا “ اس کے بجائے فرمایا : ” کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا “ اس...  کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت کو سچا سمجھنے والے مرد اور عورتیں دونوں تھے، اس لیے دونوں کو متنبہ کرنے کے لیے خاص طور پر ان کے مومن ہونے کا ذکر فرمایا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی تہمت کی وجہ سے کسی مومن کے متعلق اپنے دل میں برا گمان نہ آنے دیا جائے۔ 3 اس آیت کے تین مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر اپنے دلوں میں (عائشہ (رض) کے متعلق) اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح بہتان ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں اچھا گمان کرتے۔ یعنی تم اپنے متعلق سوچتے کہ اگر تم اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ اکیلے ہوتے تو کبھی یہ حرکت کرتے۔ تو تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ صفوان (t) اپنی اور تمام مومنوں کی ماں کے ساتھ ایسا خیال بھی کرے گا، بلکہ کیا تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی قافلے سے بچھڑی ہوئی کوئی خاتون مل جائے تو اس کے ساتھ ایسی خسیس حرکت کرو۔ یہ وہی شخص سوچ سکتا ہے جس میں ایمان نہ ہو اور انتہائی گندے ذہن کا مالک ہو، وہ دوسرے کو بھی ایسا ہی گندا سمجھے گا جیسا خود گندا ہے۔ پاک باز شخص دوسرے کے متعلق بھی پاک بازی ہی کا گمان کرے گا۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ ” بِاَنْفُسِهِمْ “ سے مراد دوسرے مومن ہیں، کیونکہ تمام مومن ایک جان کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَاتَقْتُلُوْا اَنْفَسَکُمْ ) [ النساء : ٢٩ ] ” اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ “ اور فرمایا : (فَسَلِّمُوْا عَلیٰ اَنْفُسِکُم) [ النور : ٦١ ] ” اپنے آپ کو سلام کہو۔ “ اور فرمایا : (وَلَاتَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُم) [ الحجرات : ١١ ] ” اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ۔ “ مراد کسی دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو سلام کہنا اور کسی دوسرے پر عیب لگانا ہے۔ یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں یعنی دوسرے مومنوں کے بارے میں اچھا گمان کرتے، کیونکہ وہ اور دوسرے مومن ایک ہی ہیں۔ نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ فِيْ تَرَاحُمِھِمْ وَ تَوَادِّھِمْ وَ تَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی عُضْوًا تَدَاعٰی لَہُ سَاءِرُ جَسَدِہِ بالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی ) [ بخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم : ٦٠١١ ] ” تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم، ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہو تو اس کی خاطر سارا جسم بخار اور بیداری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ “ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ : صاف جھوٹ اور صریح بہتان اس لیے کہ جو کچھ ہوا اس میں شک کی گنجائش ہی نہ تھی، ام المومنین (رض) دن کے وقت عین دوپہر کی روشنی میں صفوان بن معطل (رض) کی سواری پر آرہی ہیں۔ صفوان مہار پکڑے ہوئے ہیں، پورا لشکر آپ کو دیکھ رہا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس موجود ہیں۔ اگر (بالفرض) شک والی کوئی بات ہوتی تو وہ چھپ چھپا کر آتے، اکٹھے آنے کی جرأت نہ کرتے اور دن کے بجائے رات کو آتے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی رات کو آئے تھے، فرمایا : (وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ) [ یوسف : ١٦ ] ” اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔ “ اس لیے یہ بات واضح تھی کہ ام المومنین (رض) پر جو الزام لگایا گیا صاف جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور ایمان والے ہر مرد اور عورت کو یہی کہنا لازم ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرً‌ا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ Why - when you (0 believers) heard of it - did the believing men and the believing women not think well on their own selves and (why did they not) say, ` This is a manifest lie&. - 24:12. It means that when the Muslim men women heard about this slander they should have a...  good assumption about their own-self - that is about their Muslim brother and sister - and declared that it was but an open lie. In this verse quite a few things need attention. In the first place the Holy Qur&an has hinted by the word بِأَنفُسِهِمْ (on their own selves) that if a Muslim defames and disgraces another Muslim, he in fact disgraces himself, because the relationship of Islam has brought them all together as one body. A similar expression is used by the Holy Qur&an wherever the close tie between a Muslim and the whole Ummah is to be emphasized, for instance, a verse says وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ (49:11) which means ` Do not cast aspersion on your own-self, which actually means do not cast aspersion on any of your Muslim brethren - man or woman. At another place the Qur&an says لَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ (4:29) which means ` Do not kill yourselves&. Here again the sense is the same, that is, do not kill any of your Muslim brethren. Yet at a third place it says وَلَا تُخْرِ‌جُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِ‌كُمْ (2:84) which means ` You shall not drive out yourselves from your homes&. Here also it means not to expel any Muslim from his house. At a fourth place it says فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ which means ` Salute your own-self, which in fact means, salute your Muslim brethren. All these verses point toward one theme, that a Muslim who casts aspersion on another Muslim or causes oppression and harm to another Muslim, he in fact casts aspersion and causes harm to himself, because it leads to defamation of the whole Muslim Ummah, as the poet Saadi has said: چو از قومے یکے بےدانشی کرد نہ کِہ را منزلت ماند نہ مِہ را |"When a single person from a nation does an unwise act, no one from that nation, big or small, can achieve a respectful place (in the eyes of others). It was this teaching of the Qur&an which brought up the Muslims into prominence, and when they gained prominence, it was the whole nation which was uplifted, both collectively and individually. One can see the result of giving up of the Qur&anic teachings, that the Muslims have slumped into oblivion, again both collectively and individually. The other point, which needs attention in this verse, is that after having said لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ (Why, when you (0 believers) heard of it) it was in the fitness of things that the address form should have been used by saying, |"why did you not think well of your own-selves|". But the verse has opted for |"the believers|" instead of |"you|". The Holy Qur&an at this point has changed its form and said ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ instead ظَنَنتُم . In this form there is a subtle allusion that those who had committed this act were not fit to be called Mu&mins (believers) to the extent of this act, because it was the demand of faith that a Muslim should have stuck to the favourable view for another Muslim. The third point which needs attention is that in the last sentence of this verse وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ (24:12) it has been instilled that it was the demand of faith that the Muslims on hearing this rumor should have immediately rejected it as a total lie. This proves that to think good about any other Muslim is an obligatory demand of faith, unless an act of sin or evil is proved against him under Islamic law. Likewise, it is also the demand of faith to call an attribute of a sin or evil against a Muslim a lie, if there is no proof under Islamic law against him. Ruling This has proved that to think good about all Muslims men and women is obligatory, unless proved otherwise by Islamic law. And if someone accuses a Muslim without the proof under Islamic law, then the rejection of that accusation and to declare it as a lie is also obligatory, because it is nothing but backbiting and defaming an innocent Muslim. (Mazhari)   Show more

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرً آ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ، یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس تہمت کی خبر سنی تھی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے بارے میں یعنی اپنے مسلمان بھائی بہن کے بارے میں نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ...  یہ کھلا جھوٹ ہے۔ اس آیت میں کئی چیزیں قابل غور ہیں اول یہ کہ بِاَنْفُسِهِمْ کے لفظ سے قرآن کریم نے یہ اشارہ کیا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو بدنام و رسوا کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی کو رسوا کرتا ہے کیونکہ اسلام کے رشتہ نے سب کو ایک بنادیا ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام مواقع میں یہ اشارہ استعمال فرمایا ہے جیسا ایک جگہ فرمایا وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ یعنی عیب نہ لگاؤ اپنے آپ کو۔ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی بھائی مسلمان مرد یا عورت کو۔ دوسری جگہ فرمایا وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ، اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ مراد وہی ہے کہ کسی بھائی مسلمان کو قتل نہ کرو۔ تیسری جگہ فرمایا وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ، یعنی نہ نکالو اپنے آپ کو اپنے گھروں سے۔ یہاں بھی کسی مسلمان بھائی کو اس کے گھر سے نکالنا مراد ہے۔ چوتھی جگہ فرمایا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ، یعنی اپنے آپ کو سلام کرو۔ مراد وہی بھائی مسلمان کو سلام کرنا ہے۔ یہ سب آیات قرآن یہ ضمنی ہدایت دیتی ہیں کہ ایک مسلمان جو دوسرے کسی بھی مسلمان پر عیب لگاتا یا اس کو ایذا و نقصان پہنچاتا ہے حقیقت کے اعتبار سے خود اپنے کو عیب دار کرتا ہے اور خود نقصان و تکلیف اٹھاتا ہے کیونکہ اس کا انجام پوری قوم کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے بقول سعدی چو از قومے یکے بےدانشی کرد نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را قرآن کی اسی تعلیم کا اثر تھا کہ جب مسلمان ابھرے تو پوری قوم کے ساتھ ابھرے، ان کا ہر فرد ابھرا۔ اور اسی کے چھوڑنے کا نتیجہ آج آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سب گرے اور ہر فرد گرا۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل نظر ہے کہ مقام کا تقاضا یہ تھا کہ لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَتُم بِاَنفُسِکُم خَیراً بصیغہ خطاب کہا جاتا جیسا کہ شروع میں سَمِعْتُمُوْهُ بصیغہ خطاب آیا ہے مگر قرآن کریم نے اس مختصر جملے کو چھوڑ کر اس جگہ طرز بدلا کہ صیغہ خطاب یعنی ظَنَنتُم کے بجائے ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ فرمایا۔ اس میں ہلکا سا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ فعل جن لوگوں سے سرزد ہوا وہ اس فعل کی حد تک مومنون کہلانے کے مستحق نہیں کیونکہ ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے حسن ظن قائم رکھتا۔ تیسری بات یہ قابل نظر ہے کہ اس آیت کے آخری جملے وّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تقاضا ایمان کا یہ تھا کہ مسلمان اس خبر کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کا علم کسی دلیل شرعی سے نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے ساتھ نیک گمان رکھنا اور بلا کسی دلیل کے عیب و گناہ کی بات اس کی طرف منسوب کرنے کو جھوٹ قرار دینا عین تقاضائے ایمان ہے۔ مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے ساتھ اچھا گمان رکھنا واجب ہے جب تک کسی دلیل شرعی سے اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے اور جو شخص بلا دلیل شرعی کے اس پر الزام لگاتا ہے اس کی بات کو رد کرنا اور جھوٹا قرار دینا بھی واجب ہے کیونکہ وہ محض ایک غیبت اور مسلمان کو بلا وجہ رسوا کرنا ہے۔ (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَيْرًا۝ ٠ۙ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٢ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى...  سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات/ 86] فيصح أن يجعل تقدیره : أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1» وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل . ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ { وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ } ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ } ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (لو لا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اس وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے) اس میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کے متعلق نیک گمان رکھ... یں جن کا ظاہر عدالت اور پاکدامنی کی نشاندہی کرتا ہو اور ان کے متعلق صرف گمان کی بنا پر فیصلہ نہ کریں ۔ وہ اس لئے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر بہتان لگایا تھا انہوں نے مشاہدہ کی بنا پر یہ بات نہیں کہی بلکہ صرف اپنے گمان اور اٹکل کی بنا پر الزام تراشی کی تھی۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت عائشہ (رض) لشکر اسلام سے پیچھے رہ گئیں اور صفوان بن المعطل کے اونٹ پر سوار ہوکر آئیں جس کی مہار صفوان (رض) پکڑے ہوئے تھے تو انہوں نے بہتان طرازی شروع کردی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کا ظاہر اس کی عدالت یعنی سلامت روی کی نشاندہی کرتا ہو اس کے متعلق حسن ظن رکھنا اور سوء ظن نہ رکھنا واجب ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ مسلمانوں کے تمام امور کو جن کا تعلق ان کے عقود ان کے افعال اور ان کے تمام تصرفات سے ہو صحت اور جواز پر محمول کیا جائے انہیں فساد پر محمول کرنا اور گمان نیز اٹکل کی بنا پر انہیں غلط معنی پہنانا جائز نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ پایا جائے اور پھر دونوں نکاح کا اعتراف کرلیں تو ان کی تکذیب جائز نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق واجب ہے۔ امام مالک کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں اپنے نکاح کا ثبوت پیش نہ کرسکیں تو انہیں حد لگائی جائے گی۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دینار اور ایک درہم دو درہموں اور دو دیناروں کے بدلے فروخت کردے تو ہم درہم ودیناروں اور ایک دینار دو درہموں کے بالمقابل قرار دیں گے۔ کیونکہ ہمیں اہل ایمان کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نیز یہ حکم بھی ہے کہ ان کے معاملات کو ہواز کے پہلو پر محمول کریں۔ اس لئے اس سودے کو بھی جواز کے پہلو پر محمول کیا جائے گا اور اس کی وہی صورت ہے جو ابھی بیان ہوئی ہے اسی طرح اگر کوئی شخص جڑائو تلوار جس میں ایک سو درہم کی چاندی لگی ہو دو سو درہم میں فروخت کردے تو ہم ایک سو درہم کو ایک سو درہم کے بالمقابل قرار دیں گے اور باقی ایک سو کو تلوار کا بدل بنادیں گے اس طرح ہم بائیں اور مشتری کے اس سودے کو جائز سودے پر محمول کریں گے، عدم جواز یا فساد پر محمول نہیں کریں گے۔ تمام مسلمان عادل ہیں یہ چیز امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ تمام مسلمان عادل ہیں جب تک کسی سے کوئی شک میں ڈالنے والی بات کا صدور نہ ہوجائے اس لئے کہ ہم جب مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے اور ظن وتخمین کی بنا پر ان پر ایسی بہتان طرازی کرنے والے کی تکذیب پر مامور ہیں جن سے ان کی ثقاہت اور عدالت مجروح ہوجائے تو ہمیں اس کا بھی حکم ہے کہ ان سے دوستی رکھیں اور ان کی ظاہری حالت پر ان کے متعلق ثقاہت و عدالت کا فیصلہ دیں۔ یہ بات انہیں پاک صاف قرار دینے اور ان کی گواہی قبول کرنے کی موجب ہے جب تک ان سے شک وشبہ میں ڈالنے والی کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہوجائے جس سے ان کی گواہی کے متعلق توقف کرنا یا اسے رد کردینا واجب نہ ہوجائے۔ ارشاد باری ہے (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا ۔ بیشک گمان حق کے سلسلے میں کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (ایاکم والظن قانہ اکذاب الحدیث) گمان سے بچو کیونکہ یہ سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔ قول باری۔ (ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے متعلق حسن ظن رکھیں جس طرح یہ قول باری ہے : (فاذا دخلتم بیوتا نسلموا علی انفسکم) جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کہو۔ یعنی ایک دوسرے کو سلام کہو۔ یا جس طرح یہ ارشاد ہے : لا تقتلوا انفسکم۔ اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمام اہل ایمان کو ان پر گزرنے والے احوال کے لحاظ سے ایک جان کی طرق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی کسی صدمے کا سامنا کرنا پڑے تو گویا اس صدمے سے سب کے سب دوچار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابو عبداللہ احمد بن دوست نے ، انہیں جعفر بن حمید نے، انہیں الولید بن ابوثورنے، انہیں عبدالملک بن عمیر نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (مثل المومنین فی تواصلھم وتراحمھم والذی جعل اللہ بینھم کمثل الحسد اذوجع بعضہ وجع کلہ بالسھر والحمی۔ ) مسلمانوں کی آپس کی دوستی، ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اخوت ومودت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کے ایک حصے کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے تو سارا جسم بےخوابی اور بخار کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن محمد ابن ناجیہ نے انہیں محمد بن عبدالملک بن زتجویہ نے ، انہیں عبداللہ بن ناصح نے، انہیں ابومسلم عبداللہ سن سعید نے مالک بن مغول سے اور انہوں نے حضرت ابوبردہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (المومنون للمومنین کا لبتیان یشد بعضہ بعضا۔ ) مسلمان ایک دوسرے کے لئے اس طرح ہیں جس طرح ایک عمارت ہو کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) جب تم لوگوں نے یہ طوفان سنا تھا تو مسلمان مردوں یعنی مسطح اور مسلمان عورتوں یعنی حمنہ نے اپنی ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ گمان نیک کیوں نہ کیا جیسا کہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ گمان کرتے ہو اور زبان سے صاف طور پر یوں کیوں نہ کہا کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. This may also be translated as: Why did they not have a good opinion of the people of their own community and society? The words in the text are comprehensive and contain a subtle meaning which should be understood well. What happened concerning Aishah and Safwan bin Muattal was only this: A woman belonging to the caravan (apart from the fact that she was the Prophet’s wife) was left behind, a... nd a man belonging to the same caravan, who was also left behind, happened to see her and brought her on his camel to the camp. Now if a person alleges that when the two found themselves alone, they became involved in sin, the accusation would imply two other hypotheses: First, if the accuser himself (whether man or woman) had been there, he would certainly have availed of the rare opportunity and committed the sinful act, for he had never before chanced upon a person of the opposite sex in a situation like this. Second, the accuser’s assessment of the moral condition of the society he belongs to is that in that society there is no man or woman who could possibly have abstained from sin in similar circumstances. This will be the case when it involves any one man and any one woman. But supposing if the man and the woman happened to belong to the same place, and the woman who was left behind by chance was the wife, or sister, or daughter of a friend, or a relative, or a neighbor, or an acquaintance of the man, the matter would become much more serious and grave. Then it would mean that the one who utters such an accusation has a very poor and degraded opinion of himself as well as of his society, which has nothing to do with morality and good sense. No gentleman can imagine that if he finds a woman belonging to the family of a friend, or a neighbor or an acquaintance, stranded on the way, the first thing he would do would be to molest and dishonor her, and then would think of escorting her home. But here the matter was a thousand times more serious. The lady was no other than the wife of the Prophet (peace be upon him) of Allah, whom every Muslim esteemed higher than his own mother, and whom Allah Himself had forbidden for every Muslim just like his own mother. The man was not only a follower of the same caravan and a soldier of the same army, and an inhabitant of the same city, but also a Muslim, who believed in the lady’s husband to be the Messenger of Allah and his religious leader and guide, and had even followed him and fought in the most dangerous battle at Badr. Viewed against this background, it would seem that the person who uttered such an accusation and those who considered the accusation as probable, formed a very poor opinion not only of their moral selves but also of the whole society. 13. That is, the accusation was not worth any consideration; the Muslims should have rejected it there and then as a lie and a falsehood. A question might be asked: Why did not the Prophet (peace be upon him) and Abu Bakr Siddiq reject it on the very first day, and why did they give it all that importance? The answer is that the position of the husband and the father is different from that of the common people. Though none else can know a woman better than her husband and a righteous husband cannot doubt the character of a virtuous and pious wife only on account of the people’s accusations, but when the wife is accused, the husband is placed in a difficult situation. Even if he rejects it outright as a calumny, the accusers will not listen. They will rather say that the woman is clever and has beguiled the husband into believing that she is virtuous and pious whereas she is not. A similar situation is faced by the parents. They also cannot remove the accusers’slander regarding their daughter’s chastity even if they know that the accusation is manifestly false. The same thing had afflicted the Prophet (peace be upon him), Abu Bakr and Umm Ruman, otherwise they did not entertain any doubt about Aishah's character. That is why the Prophet (peace be upon him) had declared in his sermon that he had neither seen any evil in his wife nor in the man who was being mentioned in the slander.  Show more

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :13 یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی ۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا ۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں ان... ہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اگرچہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا ، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی ، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے ۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے ۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی ۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ، اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی ۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:12) لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنت بانفسہم خیرا۔ جب تم نے یہ (افواہ افک) سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے کیوں نہ اپنون کے حق میں نیک گمان کیا۔ ضیاء القرآن میں ہے :۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو عتاب فرما رہے ہیں اور سرزنش کر رہے ہیں کہ تم نے سنتے ہی اس بہتان کی تردید کیوں نہ کردی اس میں ت... ردد کی غلطی کیوں کی تمہیں تو فورا کہہ دینا چاہیے تھا۔ ھذا افک مبین۔ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ بانفسہم سے مراد بعض نے باخوانہم واھل دینہم لیا ہے یعنی جب تم نے یہ افواہ سنی تو کیوں نہ مومنین اور مومنات نے اپنے دینی بھائیوں (حضرت عائشہ (رض) اور حضرت صفوان بن معطل) کے متعلق نیک گمان کیا۔ بانفسہم بمعنی اپنے دلوں میں۔ ازخود۔ اپنے اعتماد نفس کی بنا پر اور اپنے ساتھ نیکی کا گمان کر کے۔ بھی لیا گیا ہے (حقانی، مولانا ابوالکلام آزاد) یعنی جب تم نے یہ افواہ سنی تو کیوں نہ مومن مردوں (مثلاً حسان بن ثبت۔ مسطح بن اثاثہ) اور مومن عورتوں (مثلاً حمنہ بنت حجش ) نے خود ہی اپنے اعتماد نفس کی بناء پر اور اپنے ساتھ نیکی کا گمان کر کے کہہ دیا کہ یہ تو کھلی ہوئی تہمت ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی اپنے مسلمان بھائیوں اور اسلامی معاشرہ پر۔ 2 ۔ جسے ایک لمحہ کے لئے بھی قابل غور نہیں سمجھا جاسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی حضرت صدیقہ اور ان صحابی کے ساتھ دل سے گمان نیک کیوں نہ کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اگر کسی پاکدامن عورت یا مرد پر بدکاری کی تہمت لگ جائے تو مومن مرد اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ پاکدامن مرد اور پاکدامن عورت کا ماضی سامنے رکھ کر کھلے الفاظ میں تردید کریں کہ یہ تہمت اور الزام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان خطاکار ہے اور اس سے غلطی ہونے کا امکا... ن ہے لیکن انسان کا ماضی بالخصوص بدکاری کے معاملے میں مستقبل کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ زنا ایسا فعل ہے جو یکدم سرزد نہیں ہوتا چند ایک واقعات چھوڑ کر ہر معاشرے میں زنا سے پہلے آنکھ مچولی، قربت اور اس قسم کی حرکات کا سرزد ہونا لازمی امر ہے اس لیے قرآن مجید میں ولا تَقْرَبُو الزِّنَا (بنی اسرائیل : ٣٢) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس بنیاد پر مومن مردوں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھا کریں کیونکہ بدگمانی سے غیبت اور الزام تراشی کی ابتدا ہوتی ہے جس سے ایک طرف پاکدامن شخص کا کردار تارتار ہوتا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں نفرت اور لڑائی اور بےحیائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ آیات صدیقہ کائنات حضرت عائشہ (رض) کی برأت کے لیے نازل ہوئیں اس لیے ارشاد ہوا کہ مومنوں کا فرض تھا جونہی سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ (رض) پر تہمت لگی تو مومن بیک زبان بول اٹھتے ” ھٰذَا اِفْکُ ٗ مُّبِیْنُ ٗ “ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ تہمت اور بکواس کے سوا کچھ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نصر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بیان کی آپ نے فرمایا اچھا گمان بہترین عبادت ہے۔ “ [ رواہ ابو داود : باب فی حسن الظن ] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ قَذَفَ مَمْلُوکَہُ وَہْوَ بَرِیءٌ مِمَّا قَالَ ، جُلِدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ کَمَا قَالَ ) [ رواہ البخاری : باب قَذْفِ الْعَبِیدِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہیں سنا آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے غلام پر بہتان لگاتا ہے اور غلام اس کام سے بری ہو۔ قیامت کے دن الزام لگانے والے کو کوڑے لگائے جائیں گے یا وہ اپنا دعویٰ سچ ثابت کرے گا۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو ‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو۔ “ (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِسْتَأْذَنَ رَھْطٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ عَلَی النَّبِیِّ فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ فَقُلْتُ بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ فَقَالَ یَاعَاءِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الِرّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ قُلْتُ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَلَیْکُمْ وَلَمْ یَذْکُرِالوَاوَ ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ ۔ قَالَتْ اِنَّ الیَھُوْدَ اَتَوُا النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکَ قَالَ وَعَلَیْکُمْ فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَھْلًا یَا عَاءِشَۃُ عَلَیْکِ بالِرّفْقِ وَایَّا کِ وَالعُنْفَ وَالفَحْشَ قَالَتْ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ اَوَلَمْ تَسْمَعِیْ مَا قُلْتُ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِیْ فِیِْھِمْ ۔ وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِیَّ ) [ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمٍ ۔ قَالَ لَاتَکُوْنِیْ فَاحِشَۃً فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ ] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور آکر السام علیکم کہا (کہ تم ہلاک ہوجاؤ۔ ) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے ان کے جواب میں کہا تم پر ہلاکت ہو ! اور لعنت ہو ! یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اے عائشہ ! بیشک اللہ تعالیٰ نرمی پسند کرنے والا ہے اور تمام کاموں میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ آپ نے سنا نہیں، جو انہوں نے کہا ؟ ارشاد فرمایا اس لیے میں نے کہہ دیا : اور تم پر ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم پر ہو۔ یعنی لفظ واؤ (اور) نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) بخاری کی ایک روایت میں ہے ‘ حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ یہودی نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے کہا السام علیکم یعنی آپ تباہ ہوجائیں۔ آپ نے جواب دیا بلکہ تم پر ایسا ہو۔ عائشہ (رض) نے کہا ‘ تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ یہ سن کر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! نرمی اختیار کرو۔ تیز گفتگو اور بدزبانی سے اجتناب کرو۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : آپ نے ان کے کلمات نہیں سنے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تو نے میری بات نہیں سنی ! میں نے ان کی بد دعا کا جواب دے دیا ہے اور ان کے بارے میں میرے کلمات منظور ہوئے ہیں۔ ان کے کلمات میرے بارے میں قبول نہیں ہوئے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ اے عائشہ ! تجھے بری گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان کرنا چاہیے۔ ٢۔ صالح کردار آدمی پر الزام لگے تو اس کی تائید نہیں کرنا چاہیے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(لولآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبین) (٢٤ : ١٢) ” جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے ؟ “ ہاں یہ درست ہے کہ اہل ایمان سنتے ہی یہ کہہ دیتے۔ وہ اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن ظن سے کام لیتے تو یہ ان کے لیے اچھا ہوتا... ۔ اور یہ فرض کرلیتے کہ ایک مسلمان اس قدر گندے کام میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے نبی کی پاک بیوی اور ان کے بھائی مسلم۔ یہ تو خود ان میں سے تھے۔ نہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حریم اور نہ اس صحابی کے ساتھ یہ بات لائق تھی جو انہوں نے سنی۔ ان کو حسن ظن کا معاملہ رکھنا چاہیے تھا جیسا کہ ابو ایوب خالد ابن زید انصاری اور ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ امام ابن اسحاق نے روایت کی ہے۔ ابو ایوب کو اس کی بیوی ام ایوب نے کہا تم سنتے نہیں ہو کہ لوگ حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں بھی سنتا ہوں لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ام ایوب کیا تم ایسا کر تیں ہو ؟ تو اس نے کہا نہیں خدا کی قسم میں تو ہر گز ایسا نہ کرتی۔ تو پھر عائشہ تو تم سے بہتر ہیں۔ امام محمود ابن عمر زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں نقل کیا ہے۔ کہ ابو ایوب نے ام ایوب سے یہ کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگ کیا کہتے ہیں تو اس نے کہا اگر تم صفوان کی جگہ ہوتے تو کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے بارے میں سوچ سکتے تھے۔ تو اس نے کہا ہر گز نہیں۔ اگر میں عائشہ کی جگہ ہوتی تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔ عائشہ (رض) مجھ سے اچھی ہیں اور صفوان تم سے اچھے ہیں۔ یہ دونوں روایات یہ بتاتی ہیں کہ بعض مسلمانوں نے اس مسئلے پر اپنے ہاں غور کیا تھا۔ اپنے دل سے استفثاء کیا تھا اور ان کے عقول نے ان کو یہ باور کرادیا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات غلط ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کی طرف اس قسم کی گراوٹ کو منسوب کیا جائے اور وہ بھی محض شب ہے کی بناء پر محض بدظنی کی بناء پر۔ یہ تو پہلی راہ ہے جس کی نشاندہی قرآن مجید کرتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ذرا گہرے غور اور قیاس کے بعد کوئی رائے قائم کرو۔ اپنے نفس سے پوچھو ‘ اپنے وجدان سے پوچھو ‘ اور دوسری جگہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں تمہارے پاس دلیل ہونا چاہیے۔ بغیر دلیل وبرہان کے ایسے نازک معاملات میں فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (لَوْلاَ اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَا اِِفْکٌ مُّبِیْنٌ) (جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی جانوں کے بارے میں یہ گمان کیوں نہ کیا کہ یہ بات صریح جھوٹ ہے) اس میں ان مسلمانوں مردوں اور عورتو... ں کو بھی نصیحت ہے جو عبداللہ بن ابی کی باتوں میں آکر تہمت والی بات میں ساتھ لگ لیے تھے اور ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو بات سن کر چپ رہ گئے یا شک میں پڑگئے یعنی سب پر لازم تھا کہ نیک گمان کرتے اور بات سنتے ہی یوں کہہ دیتے کہ یہ صاف اور صریح جھوٹ ہے اس میں یہ بتادیا کہ جب کسی مومن مرد عورت پر تہمت لگائی جائے تو فوراً وہاں کہہ دیں کہ یہ جھوٹ ہے، اور حسن ظن سے کام لیں بد گوئی میں بھی ساتھ نہ ہوں اور بد گمانی بھی نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان مرد عورت کے ساتھ اچھا گمان رکھنا واجب ہے اور جو شخص بلا دلیل شرعی کسی پر تہمت دھرے اس کی بات کو جھٹلانا اور رد کرنا بھی واجب ہے کیونکہ اس میں بلا وجہ مسلمان کی بےآبروئی ہے اور رسوائی ہے۔ حضرت معاذ بن انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے کسی مومن کی حمایت کی کسی منافق کی بد گوئی سے اسے بچایا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کے گوشت کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا۔ اور جس کسی نے کسی مسلمان کو عیب لگا دیا اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کے پل پر کھڑا کرے گا۔ یا تو اس سے نکل جائے یا وہیں کھڑا رہے گا (رواہ ابو داؤد) یعنی جس کو عیب لگایا تھا یا تو اسے راضی کرے یا اپنے کہے کی سزا پائے، یہاں عورتیں خاص کر دھیان دیں جو بات بات میں ایک دوسری کو چھنال، حرامزادی رنڈی فلاں سے پھنسی ہوئی کہہ دیتی ہیں، ساس بہو نند بھاوج کی لڑائیوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے، اور بعض عورتیں تو اپنی لڑکیوں کو بھی نہیں بخشتی ہیں چھنال وغیرہ تو ان کا تکیہ کلام ہی ہوجاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ جہالت سے بچائے) ۔ حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے غائبانہ اپنے بھائی کی طرف سے دفاع کیا (غیبت کے ذریعہ جس کا گوشت کھایا جا رہا تھا اس کی صفائی دی) اللہ تعالیٰ نے اس دفاع کرنے والے کے لیے اپنے اوپر یہ واجب کرلیا ہے کہ اسے دوزخ سے آزاد فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٢٤) حضرت ابو الدرداء (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو بھی کوئی مسلمان اپنے بھائی کی آبرو کی طرف سے دفاع کرے گا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ قیامت کے دن اسے دوزخ کی آگ سے دور رکھے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٢٤) آیت شریفہ میں یہ تعلیم دی ہے کہ اھل ایمان کے بارے میں بد گمانی سے بچیں ایک حدیث میں ارشاد ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث (کہ تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب باتوں میں جھوٹی چیز ہے) (رواہ البخاری) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے حسن الظن من حسن العبادۃ کہ نیک گمانی اچھی عبادت سے ہے۔ (رواہ ابو داؤد) یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے اللہ جل شانہٗ نے یوں فرمایا (لَوْلاَ اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا) (جب تم نے یہ بہتان والی بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی جانوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا) ۔ اس میں جو بانفسھم فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ سب مسلمان آپس میں ایک ہی ہیں اگر کسی مسلمان پر تہمت لگائی جائے تو سننے والے مسلمان یوں سمجھیں کہ یہ تہمت ہمیں ہی لگائی گئی ہے اور اس میں ہماری اپنی رسوائی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے سورة حجرات میں ہے (لاَ تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ) فرمایا ہے چونکہ سب مسلمان ایک ہی ہیں اس لیے ایک کو تہمت لگنا یا لگانا سب کو تہمت لگانے کے ہم معنی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سب اہل ایمان آپس میں مل کر ایسے ہیں جیسے ایک ہی شخص ہو اگر آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔ (رواہ مسلم) لہٰذا جب ایک مسلمان کو جسمانی اور روحانی تکلیف پہنچے یا کوئی تہمت لگائی جائے تو سب کو تڑپ اٹھنا چاہئے تکلیف دور کرنے کے لیے سب فکر مند ہوں اور جو تہمت لگی ہے ہر شخص یوں سمجھے کہ یہ تہمت مجھے لگائی گئی ہے پھر تہمت لگانے والے کے بارے میں یوں بھی کہے کہ یہ جھوٹا ہے مسلمان کی حمایت بھی کرے اور اس کے طرف سے دفاع بھی کرے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” لو لا اذ سمعتموہ الخ “ یہ تیسرے گروہ پر زجر ہے۔ ” قالوا ظن “ پر معطوف ہے یعنی جب تم نے یہ تہمت سنی تو اس وقت تم نے تمام مردوں اور عورتوں کے بارے میں حسن سے کیوں کام نہ لیا اور فورًا ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ محض بہتان اور جھوٹی تہمت ہے کیونکہ ہم کسی مخلص اور سچے مومن مرد اور عورت کے بارے میں ی... ہ گمان نہیں کرسکتے کہ وہ زنا ایسا برا کام کر گذریں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) جب تم لوگوں نے اس طوفان کی خبر کو سنا تھا تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنوں کے ساتھ نیک گمان کیوں نہیں کیا اور سنتے ہی یوں کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح کذب و بہتان ہے۔ یعنی مسلمانوں کو تو یہ چاہئے تھا کہ جب کسی مسلمان اور پاک دامن کے متعلق زنا کی بات اور بدکاری کی افواہ کان میں پڑی تھی تو اسی وقت...  اس کو رد کرنا تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے مسلمان بھائی اور بہن کے ساتھ جو اعتقاداً اور عملاً اپنے ہی ہیں ان کے ساتھ نیک گمان کرنا چاہئے تھا اور صاف کہنا چاہئے تھا کہ یہ عائشہ اور صفوان پر صریح بہتان ہے جیسا کہ حضرت ابو ایوب اور ان کی زوجہ کا یہی قول بعض روایات میں منقول ہے۔ جو لوگ خاموش رہے یا شک میں پڑگئے ان کو بھی تنبیہہ ہے مومن مرد اور مومنہ عورتیں فرمایا جن میں حسان اور مسطح اور زید بن رفاعہ اور حمنہ بنت حجش سب داخل ہوگئے۔  Show more