Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 14

سورة النور

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمۡ فِیۡ مَاۤ اَفَضۡتُمۡ فِیۡہِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ۚ ۖ

And if it had not been for the favor of Allah upon you and His mercy in this world and the Hereafter, you would have been touched for that [lie] in which you were involved by a great punishment

اگر اللہ تعالٰی کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Grace of Allah towards the People of the Slander by giving Them the Opportunity to repent Allah says, وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالاْخِرَةِ ... Had it not been for the grace of Allah and His mercy unto you in this world and in the Hereafter, This is addressed to those who were indulging in discussing the matter of A'ishah, informing them that Allah has accepted their repentance in this world, and forgiven them because of their faith in the Hereafter. ... لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ ... would have touched you for that whereof you had spoken, with regard to the slander. ... عَذَابٌ عَظِيمٌ a great torment. This refers to those who had faith in Allah because of their repentance, such as Mistah, Hassan and Hamnah bint Jahsh the sister of Zaynab bint Jahsh. As for the hypocrites who indulged in the slander, such as Abdullah bin Ubayy bin Salul and his like, they are not the ones who are referred to in this Ayah, because they did not have sufficient faith and righteous deeds to balance or cancel out what they had done. By the same token, the threats that were narrated for a specific deed are bound to be carried out, if there is no repentance or sufficient righteous deeds to balance or outweigh it. Then Allah says:

فرمان ہے کہ اے وہ لوگوں جنہوں نے صدیقہ کی بابت اپنی زبانوں کو بری حرکت دی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا کہ وہ دنیا میں تمہاری توبہ کو قبول کر لے اور آخرت میں تمہیں تمہارے ایمان کی وجہ سے معاف فرما دے تو جس بہتان میں تم نے اپنی زبانیں ہلائیں اس میں تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا ۔ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں ہے جن کے دلوں میں ایمان تھا لیکن رواداری میں کچھ کہہ گئے تھے جیسے حضرت مسطع حضرت حسان ، حضرت حمنہ رضی اللہ عنہم ۔ لیکن جن کے دل ایمان سے خالی تھے جو اس طوفان کے اٹھانے والے تھے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول وغیرہ منافقین یہ لوگ اس حکم میں نہیں تھے ۔ کیونکہ نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ عمل صالح ۔ یہ بھی یادرہے کہ جس بدی پر جو وعید ہے وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب توبہ نہ ہو اور اس کے مقابلہ میں اس جیسی یا اس سے بڑی نیکی نہ ہو ۔ جب کہ تم اس بات کو پھیلا رہے تھے ، اس سے سن کر اس سے کہی اور اس نے سن کر دوسرے سے کہی ۔ حضرت عائشہ کی قرأت میں اذا تلقونہ ہے یعنی جب کہ تم اس جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے ۔ پہلی قرأت جمہور کی ہے ۔ اور یہ قرأت ان کی ہے جنہیں اس آیت کا زیادہ علم تھا ۔ اور تم وہ بات زبان سے نکالتے تھے ، جس کا تمہیں علم نہ تھا ۔ تم گو اس کلام کو ہلکا سمجھتے رہے ، لیکن دراصل اللہ کے نزدیک وہ بڑا بھاری کلام تھا ۔ کسی مسلمان عورت کی نسبت ایسی تہمت جرم عظیم ہے ۔ پھر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کے اوپر ایسا کلمہ ، سمجھ لو کہ کتنا بڑا کبیرا گناہ ہوا ؟ اسی لئے رب کی غیرت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر خاتم الانبیاء سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکیزگی ثابت فرمائی ۔ ہر نبی علیہ السلام کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اس بےحیائی سے دور رکھا ہے پس کیسے ممکن تھا کہ تمام نبیوں کی بیویوں سے افضل اور ان کی سردار ۔ تمام نبیوں سے افضل اور تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اس میں آلودہ ہوں ۔ حاشا وکلا ۔ پس تم گو اس کلام کو بےوقعت سمجھو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ انسان بعض مرتبہ اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ کہہ کر گزرتا ہے ، جس کی کوئی وقعت اس کے نزدیک نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم کے اتنے نیچے طبقے میں پہنچ جاتا ہے کہ جتنی نیچی زمین آسمان سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نیچا ہوتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] اللہ کا فضل اور رحمت یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بالعموم اور اپنے پیغمبر کو بالخصوص ان حالات میں صبر و استقامت کی توفیق بخشی۔ ورنہ منافقوں نے جس طرح مسلمانوں پر یہ زبردست وار کیا تھا۔ اگر مسلمان بھی جوابی کارروائی پر اٹھ کھڑے ہوتے تو حالات کوئی سنگین صورت اختیار کرسکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ ۔۔ : یعنی اگر دنیا میں تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا کہ اس نے تمہیں دنیا میں بیشمار نعمتیں دی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ پر فوراً مؤاخذہ کے بجائے وہ مہلت دیتا ہے اور اگر آخرت میں اس کا فضل نہ ہوتا کہ وہ توبہ قبول کرتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے، تو تم جس کام (بہتان) میں مشغول ہوئے تھے اس کی وجہ سے تمہیں بہت بڑا عذاب آلیتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَ‌حْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ And had it not been for the grace of Allah upon you, and His mercy in this world and in the Hereafter, a great punishment would have reached you for what you got indulged in - 24:14. This verse was revealed for those believers who had by mistake got somehow involved in the slander, but then repented and begged Allah&s pardon. Some of them were even punished, but all of them were told through this verse that the crime they had committed was a very grave one, and on that crime they could have been subjected to punishment even in this world, like the one sent down on earlier people. In addition, they would have also been punished severely in the Hereafter, but Allah&s dealings with those believers were that of grace and mercy, both in this world and in the Hereafter. Hence, the chastisement was withdrawn from them. The manifestation of Allah&s grace and mercy in the world is that, first, the Divine help was granted to adopt Islam and its faith, then the company of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) accorded, which is an impediment for the award of punishment, and then again the Divine help was granted to repent sincerely and beg Allah&s forgiveness for the sin which was committed, and ultimately the repentance was accepted and the sin was pardoned. While in the Hereafter, the token of Allah&s grace and mercy is that He has promised to forgive and overlook and grant pardon.

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ، یہ آیت ان مومنین کے بارے میں نازل ہوئی جو غلطی سے اس تہمت میں کسی قسم کی شرکت کر بیٹھے تھے پھر توبہ کرلی اور بعض پر سزا بھی جاری ہوئی۔ ان سب کو اس آیت نے یہ بھی بتلا دیا کہ جو جرم تم سے سرزد ہوا وہ بہت بڑا جرم تھا اس پر دنیا میں بھی عذاب آسکتا تھا جیسے پچھلی قوموں کے مجرموں پر آیا ہے اور آخرت میں بھی اس پر عذاب شدید ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کا معاملہ تم مومنین کے ساتھ فضل و رحمت کا ہے، دنیا میں بھی، آخرت میں بھی۔ اس لئے یہ عذاب تم سے ٹل گیا۔ دنیا میں اللہ کے فضل و رحمت کے مظاہر یہ ہوئے کہ اول اسلام و ایمان کی توفیق بخشی پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کا شرف عطا فرمایا جو کہ نزول عذاب سے مانع ہے اور پھر جو گناہ ہوگیا تھا اس سے سچی توبہ کی توفیق بخشی پھر اس توبہ کو قبول فرما لیا اور آخرت میں اللہ کے فضل و رحمت کا اثر یہ ہے کہ تم سے عفو و درگزر اور مغفرت کا وعدہ فرما لیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْہِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ١٤ۚۖ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی فيض فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] ، ومنه : فَاضَ صدرُهُ بالسّرّ. أي : سال، ورجل فَيَّاضٌ ، أي : سخيّ ، ومنه استعیر : أَفَاضُوا في الحدیث : إذا خاضوا فيه . قال : لَمَسَّكُمْ فِيما أَفَضْتُمْ فِيهِ [ النور/ 14] ، هُوَ أَعْلَمُ بِما تُفِيضُونَ فِيهِ [ الأحقاف/ 8] ، إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ [يونس/ 61] ، وحدیث مُسْتَفِيضٌ: منتشر، والْفَيْضُ : الماء الکثير، يقال : إنه أعطاه غيضا من فيض «3» ، أي : قلیلا من کثير وقوله : فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة/ 198] ، وقوله : ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفاضَ النَّاسُ [ البقرة/ 199] ، أي : دفعتم منها بکثرة تشبيها بِفَيْضِ الماء، وأَفَاضَ بالقداح : ضرب بها، وأَفَاضَ البعیر بجرّته رمی بها، ودرع مَفَاضَةٌ: أُفِيضَتْ علی لابسها کقولهم : درع مسنونة، من : سننت أي : صببت . ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ اسی سے فاض صدرہ بالسر جس کے معنی بھید ظاہر کرنے کے ہیں اور سختی آدمی کو فیاض کہا جاتا ہے اور اسی سے افاضوا فی الحدیث کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی باتوں میں مشغول ہوجانے اور چرچا کر نیکے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ لَمَسَّكُمْ فِيما أَفَضْتُمْ فِيهِ [ النور/ 14] تو جس بات کا تم چر چا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر ۔۔۔۔۔ نازل ہوتا ۔ هُوَ أَعْلَمُ بِما تُفِيضُونَ فِيهِ [ الأحقاف/ 8] وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو ۔ إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ [يونس/ 61] جب اس میں مصروف ہوتے ہو ۔ اور حدیث مستفیض کے معنی منتشر یعنی عام پھیلی ہوئی بات کے ہیں اور فیض کے معنی کثیر پانی کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ۔ اعطا ہ غیضا من فیض یعنی اسے زیادہ مال میں سے تھوڑا سا دیا ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ : ۔ فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة/ 198] اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفاضَ النَّاسُ [ البقرة/ 199] پھو جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو ۔ میں افاضۃ کے معنی مجمع کثیر کے یکبارگی لوٹنے کے ہیں اور یہ فیضان الماء یعنی پانی کا زور سے بہ نکلنا ) کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔ افاض بالقداح تیر گھمانا افاض البعئر بجر تہ اونٹ کا جسکا پھینکنا درع مفاعلۃ کشادہ زرہ گویا پہننے والے پرا سے د بہایا گیا ہے جس طرح کہ درع مسنونۃ کے معنی بھی وسیع زرہ کے ہیں جو کہ سننت بمعنی صببت سے مشتق ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو ان مسلمانوں کے بارے میں بیان فرماتا ہے جو اس منافق کے کہنے میں آگئے تھے اور انہوں نے اس میں حصہ لیا تھا کہ اے (حسان و مسطح) اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم نہ ہوتا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جس شغل میں تم پڑے تھے یعنی اس طوفان بدتمیزی میں تو تم پر دنیا و آخرت میں سخت عذاب واقع ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:14) افتضتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ افاضۃ (افعال) سے مصدر۔ تم نے پھیلایا۔ تم منتشر ہوئے۔ ف ی ض مادہ۔ فاض الماء کے معانی کسی جگہ سے پانی کا اچھل کر باہر نکلنے کے ہیں۔ آنسووں کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے مثلاً تری اعینہم تفیض من الدمع (5:83) تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ فاض صدرہ بالسر بھید ظاہر کرنا۔ اور اسی سے افاضوا فی الحدیث کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی باتوں میں مشغول ہوجانے اور چرچا کرنے کے ہیں۔ پس لمسکم فیما افضتم فیہ کا ترجمہ ہوا : تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر عذاب عظیم نازل ہوتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ اگر مسئلہ عام مسلمان خاتون کا ہوتا تب بھی یہ بڑی بات تھی اور اب تو معاملہ اس خاتون کا تھا جو اللہ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی اور امت کی ماں تھیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ صحابہ مقبول التوبہ اور پاک ہو کر آخرت میں مرحوم ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ولولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب عظیم) (٢٤ : ١٤) ” اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا “۔ اللہ تعالیٰ نے نئی تشکیل پانے والی جماعت مسلمہ کے لیے یہ واقعہ بطور آزمائش رو نما کرایا تو اللہ نے اس کو اپنے فضل اور رحم و کرم کے ذریعہ یوں خوش اسلوبی سے حل کرا دیا۔ اس عظیم غلطی پر کسی کو سزانہ دی ورنہ یہ فعل تو سخت سزا کا مستحق تھا کیونکہ اس واقعہ کے ذریعہ اہل مدینہ نے محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت اذیت دی تھی۔ لہٰذا مناسب تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سخت سزاد یتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اس واقعہ میں آپ کے صدیق ساتھی ‘ آپ کی محبوب اہلیہ اور ایک صادق اور پاکباز مسلمان کو اذیت دی گئی۔ پھر اس عظیم شر کی وجہ سے اسلام کے تمام مقدساتا کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ منافقین نے یہ سازش اس قدر گہرائی سے تیار کی تھی کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کی بنیادوں ہی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اگر نبی پر اہل ایمان کا اعتماد ہی نہ رہے اور نبی کے خاندان پر نہ رہے اور پھر وحی الہیٰ پر نہ رہے تو ظاہر ہے کہ اسلام ختم ہی سمجھا جائے گا اور ایسے حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس فتنے کے حاملین کو سخت سزادی جاتی اور ان پر اللہ کا عذاب بھی آتا مگر اللہ نے فضل و کرم کیا کہ اس آزمائش میں مسلمان کا میاب رہے۔ اس پورے مہینے میں مدینہ کی جو صورت حالات تھی اس کا اظہار قرآن کریم کے ان الفاظ سے اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ مدینہ میں کس قدر فکری انتشار تھا۔ لوگوں کے معیار کس قدر بدل گئے تھے۔ ان کی اقدار اور پیمانے کس طرح بدل گئے تھے۔ اس وقت وہ کیسی غلطی کررہے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَا اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ) یہ آیت ان مومنوں کے بارے میں نازل ہوئی جو بےاحتیاطی کی وجہ سے اس تہمت میں کسی قسم کی شرکت کر بیٹھے تھے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان پر رحم فرمایا کہ توبہ کی توفیق دے دی اور آخرت کی معافی کا بھی وعدہ فرمایا اگر اللہ کی طرف سے توبہ کی توفیق نہ ہوتی تو جس شغل میں لگے تھے اس کی وجہ سے بڑا عذاب آجاتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ولا لوا فضل الخ “: اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے پہلے ” ولولا فضل اللہ الخ “ گذر چکا ہے وہاں ” لو “ کا جواب مذکور نہیں تھا یہاں ” لمسکم فی ما افضتم الخ “۔ لَوْ “ کا جواب ہے اور خطاب دونوں گروہوں سے ہے یعنی تم نے جو ایک پاک دامن اور عفیفہ عورت اور پھر پیغمبر (علیہ السلام) کی بیوی پر تہمت لگائی ہے اس کی وجہ سے تم مستحق تو اس بات کے تھے کہ تمہیں فورًا ہی عبرتناک عذاب سے ہلاک کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر مہربانی فرمائی اور فوراً نہیں پکڑا بلکہ مہلت دیدی اس معاملہ میں جو مخلص مومنین ملوث تھے ان کے لیے یہ تاخیر حقیقتًا اللہ کی رحمت ثابت ہوئی انہیں موقع مل گیا اور انہوں نے سچی توبہ کرلی اور آخرت کے عذاب سے بھی بچ گئے لیکن رئیس المنافقین کو اس مہلت سے صرف وقتی فائدہ ہوا لیکن آخرت میں دردناک عذاب میں گرفتار ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کررہے تھے اور جس شغل میں تم پڑے تھے اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑا سخت عذاب نازل ہوجاتا اور کسی بڑی سخت سزا میں مبتلا ہوجاتے یعنی اس کی عام مہربانی اور اس کے عام فضل کا صدقہ ہے کہ تم اے مسلمانو ! محفوظ رہے۔ خطاب اگرچہ عام ہے لیکن مراد اس سے حمنہ حسان اور مسطح وغیرہ ہیں عبداللہ بن ابی منافق نہیں کیونکہ آخرت میں نہ وہ مستحق فضل ہے نہ وہ مستحق مہر حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ نے اس امت کو پیغمبر کے طفیل دنیا کے عذابوں سے بچایا ہے نہیں تو یہ بات قابل تھی عذاب کے۔ 12