Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 15

سورة النور

اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾

When you received it with your tongues and said with your mouths that of which you had no knowledge and thought it was insignificant while it was, in the sight of Allah , tremendous.

جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی ، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ ... When you were propagating it with your tongues, Mujahid and Sa`id bin Jubayr said, "Some of you were relating it to others," where one says, `I heard this from so-and-so, and so-and-so said such and such, and some of them mentioned such and such.' Others recited the Ayah: إِذْ تَلِقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ "When you were inventing a lie with your tongues..." In Sahih Al-Bukhari, it is recorded that A'ishah recited it like that. According to her, the meaning refers to lies which a person persists in telling. The first recitation is preferred and more popular, and the majority recites it that way, but the second is reported from A'ishah, the Mother of the believers. ... وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ... and uttering with your mouths that whereof you had no knowledge, means, you were speaking about something which you knew nothing about. Then Allah says: ... وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ you counted it a little thing, while with Allah it was very great. means, `you said what you said about the Mother of the believers and you thought that it was a trifling and insignificant matter, but even if she was not the wife of the Prophet, it still would not be an insignificant matter -- so how about when she is the wife of the Unlettered Prophet, the Seal of the Prophets and Leader of the Messengers!' It is a very serious matter with Allah that such a thing should be said about the wife of His Messenger! For Allah, may He be glorified and exalted, feels great fury and anger over such matters, and He would never decree such a thing for the wife of any of His Prophets. If that is the case, then how about the best of the wives of any Prophet, the wife of the best of the sons of Adam in this world and the next Allah says: وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ you counted it a little thing, while with Allah it was very great. In the Two Sahihs it is reported that: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِ لاَ يَدْرِي مَا تَبْلُغُ يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالاَْرْضِ A man may say a word that angers Allah without realizing how far it will go, and because of that he will be thrown into Hell a distance greater than that between heaven and earth. According to another report: لاَا يُلْقِي لَهَا بَالاًا And he may not pay any attention to it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] یعنی محض سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کردینا کبیرہ گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا : کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے منتقل کردے && (مقدمہ صحیح مسلم)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ : ” تَلَقّٰی یَتَلَقّٰی “ (تفعل) کسی سے کوئی چیز لینا، جیسے فرمایا : (فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ) [ البقرۃ : ٣٧ ] ” پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے۔ “ یعنی جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے کہ میں نے فلاں سے یوں سنا، فلاں نے یہ کہا وغیرہ۔ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ : یعنی یہ صرف تمہارے مونہوں کی بات تھی، نہ تمہارے دل میں اس کا یقین تھا نہ سننے والے کو یقین ہوسکتا تھا، جیسا کہ منافقین کے متعلق فرمایا : (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ) [ آل عمران : ١٦٧ ] ” اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ “ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ : ” عِلْمٌ“ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی تم اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کچھ علم نہ تھا۔ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا : تم اسے معمولی سمجھتے تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ تم اسے ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے، یا کم از کم اس پر خاموش رہتے تھے، کیونکہ اگر تم اسے معمولی نہ سمجھتے تو سختی سے اس کا انکار کرتے اور ایسی بات کرنے والے کو ٹوکتے۔ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ : حالانکہ بہتان کسی پر بھی ہو، اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے، تو جب وہ ام المومنین پر ہو، جو خاتم الانبیاء، سید المرسلین اور سید ولد آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین گناہوں کا مرتکب قرار دیا اور اس پر عذاب عظیم کے خطرے سے آگاہ فرمایا۔ پہلا گناہ یہ کہ ایک دوسرے سے سن کر اسے پھیلانا برائی کی اشاعت ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔ دوسرا گناہ وہ بات کرنا ہے جس کا علم نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات کرنی چاہیے جس کا علم ہو، ایسی بات کرنا جس کے سچا ہونے کا علم نہ ہو اسی طرح حرام ہے جیسے وہ بات کرنا حرام ہے جس کے جھوٹا ہونے کا علم ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ) [ بني إسرائیل : ٣٦ ] ” اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ “ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ : ٥ ] ” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر بات جو سنے آگے بیان کر دے۔ “ تیسرا گناہ یہ کہ وہ اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے کسی گناہ کو معمولی سمجھنے سے وہ معمولی نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث بن جائے، جب وہ اسے معمولی سمجھ کر بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَان اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَرْفَعُ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَھْوِيْ بِھَا فِيْ جَھَنَّمَ ) [ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان : ٦٤٧٨ ] ” بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے ساتھ اسے بہت سے درجے بلند کردیتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ When you were welcoming it with your tongues - 24:15. The word تَلَقَّی means to make inquiries from each other (to be inquisitive) and repeat before others. Here it means to repeat hearsay without probe and proof.(1) وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ And were taking it as a trivial matter, while in the sight of Allah it was grave - 24:15. (1). Lexically the word also means &welcoming&. This meaning is adopted in the translation of the text, because it also covers the meaning of receiving and conveying the news without hesitation. (Editor) It means that you regarded it a trifle matter that you heard it and passed it on to others. But in the sight of Allah it was a great sin that without probing and finding out any proof you passed on something to others to cause harm to other Muslims and to make their life miserable.

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ ، تلقی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بات پوچھ اور نقل کرے، یہاں بات کو سن کر بےدلیل اور بلا تحقیق آگے چلتی کردینا مراد ہے۔ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا ڰ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ یعنی تم تو اس کو معمولی بات خیال کرتے تھے کہ ہم نے جیسا سنا ویسا دوسرے سے نقل کردیا مگر وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ تھا کہ بےدلیل اور بےتحقیق ایسی بات کو چلتا کردیا جس سے دوسرے مسلمان کو سخت ایذا ہو، اس کی رسوائی ہو اور اس کے لئے زندگی دو بھر ہوجائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَيِّنًا۝ ٠ۤۖ وَّہُوَعِنْدَ اللہِ عَظِيْمٌ۝ ١٥ تلقی السّماحة منه والنّدى خلقا«2» ويقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون فافواھکم مالیس لک بہ علم ) ذرا غور تو کرو اس وقت تم کیسی سخت غلطی کررہے تھے۔ جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لپتی چلی جارہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جارہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ لفظ تلقونہ کے حرف قاف کی شد کے ساتھ قرات کی گئی ہے مجاہد کا قول ہے کہ ” تم ایک دوسرے سے اس جھوٹ کو نقل کرتے چلے جارہے تھے تاکہ یہ جھوٹ پوری طرح پھیل جائے۔ “ حضرت عائشہ (رض) سے یہ لفظ تلقونہ مروی ہے۔ یہ لفظ ” ولق الکذب “ (وہ مسلسل جھوٹ بولتا رہا) سے ماخوذ ہے۔ اس کے مفہوم میں تسلسل کے معنی داخل ہیں۔ اسی سلسلے کا ایک اور محاورہ ہے ” ولق فلان فی السیر “ جب کوئی شخص مسلسل سفر پر رہے تو اس وقت یہ فقرہ کہا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی بات کو جس کی حقیقت سے وہ بیخبر تھے مسلسل اپنی زبان پر لانے پر ان کی مذمت کی۔ قول باری : (تقولون بافواھکم مالیس لک بہ علم) کا یہی مفہوم ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے : (ولا تقف مالیس لک ید عندان السمع والبصر والفوا دکل اولئک کان عنہ مسئولا) اس چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کے متعلق تمہیں کچھ علم نہ ہو، بیشک کان، آنکھ اور دل ہر ایک سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس بات کا اگرچہ وہ اپنے گمان وتخمین اور اٹکل کے حساب سے یقین رکھتے تھے لیکن اللہ کے نزدیک ان کا یہ طرز عمل ایک بہت بڑا گناہ تھا، تاکہ آئندہ اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے میں انہیں گناہ کا علم ہوجائے تو وہ اس سے باز رہیں۔ اس کے بعد ارشادہوا : (ولولا اذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بھتان عظیم) اور کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ” ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے۔ “ آیت میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی ایسے شخص کے متعلق جس کا ظاہر اس کی پاکبازی اور سلامت روی کا شاہد ہو اس قسم کی بات سنیں تو اس موقع پر ہمیں کیا کہنا چاہیے۔ قول لاری : (سبحانک ھذا بھتان عظیم) کا مفہوم ہے تیری ذات اس سے مبرا ہے کہ ہم اس جیسے بہتان کے قائل کی تصدیق کی خاطر اس پر کان دھرکے تیرے غضب کو آواز دیں جب کہ ظاہری حیثیت میں یہ بات ایک بہتان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) جب کہ تم اس جھوٹ بات کو اپنی زبانوں سے ایک دوسرے سے بیان کر رہے تھے اور اپنی زبانوں سے ایسی بات نکال رہے تھے جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت اور اس کی کوئی دلیل موجود نہیں تھی اور تم اس طوفان کو معمولی سا گناہ سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سزا اور گناہ کے اعتبار سے بہت بھاری بات ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ ) ” ادھر سے بات سن کر ادھر پہنچا دینا انسانی کمزوری ہے اور اسی انسانی کمزوری کی وجہ سے کوئی بھی ہیجان انگیز بات ” منہ سے نکلی کو ٹھے چڑھی “ کے مصداق دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ (وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ) ” اس بارے میں جتنی باتیں تھیں سب سنی سنائی تھیں ‘ ان کے پیچھے نہ کوئی علمی ثبوت تھا اور نہ کوئی گواہ۔ (وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًاق وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ ) ” کسی بھی مسلمان خاتون پر اس طرح کی تہمت لگا دینا بہت قبیح حرکت ہے ‘ چہ جائیکہ ” بازی بازی با ریش بابا ہم بازی ! “ کے مصداق اُمّ المومنین (رض) زوجۂ رسول کو ایسی تہمت کا ہدف بنا لیا جائے۔ اللہ کے نزدیک یہ حرکت کس قدر ناپسند یدہ ہوگی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: اگرچہ اکثر مخلص مسلمان اس تہمت کو جھوٹ ہی سمجھتے تھے، لیکن مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگا تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ اس طرح کی بے بنیاد اور بےدلیل باتوں کا تذکرہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:15) تلقونہ۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تلقی سے (باب تفعل) اصل میں تتلقون تھا ایک تا حذف ہوگئی۔ تلقی یا تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے وتتلقہم الملئکۃ (21:103) اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے۔ اور وانک لتلقی القران (27:6) اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے۔ باب افعال سے (الالقائ) بمعنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دینا کہ وہ دوسرے کو سامنے نظر آئے۔ پھر عرف میں مطلق کسی چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے وکذلک القی السامری (20:78) اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔ تلقونہ بالسنتکم (جب) تم اس (افواہ) کو اپنی زبانون سے لے رہے تھے یعنی تمہاری زبانیں اس افواہ کو (ایک دوسرے سے) لیتی چلی جا رہی تھیں۔ کہ تم اپنی زبانوں سے اس کا چرچا کر رہے تھے۔ ھینا۔ ہلکی۔ معمولی۔ آسان۔ ھان یھون ھون سے (باب نصر) صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی موجب گناہ عظیم۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القران ربط کلام : صحابہ پر خصوصی فضل ورحمت کا تذکرہ کرنے کے بعد انہیں مزید احساس دلایا گیا کہ جس بات کو تم نے معمولی سمجھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گناہ اور نتائج کے اعتبار سے بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن مرد اور عورت کی عزت و حرمت بڑا مقام رکھتی ہے اس لیے ایک دفعہ پھر صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جس بات کو تم ہلکا سمجھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی بات ہے یعنی بہت بڑا جرم ہے کیونکہ اس سے پاکدامن مومن مرد اور عورت کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ تمہارا اخلاقی فرض تھا کہ جو نہی تم نے اس بات کو سنا تو فوراً کہہ دیتے کہ ہماری کیا مجال کہ ہم سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ کے بارے میں منفی بات کریں تمہیں اس میں حصہ لینے کی بجائے صاف صاف کہنا چاہیے تھا یہ تو عظیم بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم حقیقتاً اپنے رب پر ایمان لانے والے ہو تو آئندہ اس قسم کی بات تمہاری زبان پر نہیں آنی چاہیے۔ اس نے اپنے احکام تمہارے لیے کھول کر بیان کردیے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر کام اور ہر بات کو جانے والا ہے اور اس کے ہر حکم اور ارشاد میں حکمت ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ مسلمان مرد اور عورت کی عزت و حرمت کے بارے میں منفی بات کرنا بڑا گناہ ہے۔ ٢۔ صحابہ (رض) اور صحابیات (رض) کے بارے میں منفی گفتگو کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ ٣۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عصمت و حرمت کے بارے میں منفی گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے : ١۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ (المائدۃ : ١) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ( المائدۃ : ٩٨) ٣۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ ( المائدۃ : ٩٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے۔ ( المؤمن : ١٩) ٥۔ جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے سب اللہ کو معلوم ہے اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ ( طٰہٰ : ١١٠) ٦۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٧۔ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(اذتلقونہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنداللہ عظیم) (٢٤ : ١٥) ” جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جارہی تھی “۔ بغیر کسی تدبر ‘ بغیر کسی غور فکر ‘ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے ایک بات تھی جو لوگ کہتے چلے جاتے تھے۔ گویا یہ بات کانوں کے ذریعے دل و دماغ تک غور کے لیے پہنچ نہ پاتی تھی کہ اسے دوسری زبان اچک لیتی تھی۔ (وتقولون۔۔۔۔۔۔ بہ علم) (٢٤ : ١٥) ” اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہتے تھے جس کا تمہیں علم نہ تھا “۔ منہ سے کہتے تھے مگر اس کا تمہیں یقینی علم نہ تھا۔ تمہارے دل و دماغ اسے حقیقت کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ الفاظ تھے جو زبانوں پر جاری ہوگئے۔ کسی علم و اور اک سے یہ باتیں ثابت نہ تھیں۔ پھر وتحسبونہ ھینا وھو عنداللہ (٢٤ : ١٥) ” تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی “۔ یعنی تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حریم پر الزام لگا رہے تھے ۔ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی اہلیہ کے لیے وہ درد پیدا کررہے تھے جس سے ان کا خون خشک ہورہا تھا۔ پھر تم حضرت صدیق اکبر (رض) کے گھر پر الزام لگا رہے تھے جن پر جاہلیت کے دور میں بھی کوئی الزام نہ لگا تھا۔ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک مجاہد صحابی پر یہ الزام لگا رہے تھے جبکہ وہ پاک تھا۔ پھر ان الزامات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی توہین ہورہی تھی۔ یہ تمام باتیں اللہ کے نزدیک اس قدر عظیم تھیں کہ قریب تھا کہ پہاڑ ٹل جائیں اور آسمان تم پر ٹوٹ پڑے اور تمہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا جائے۔ مناسب تو یہ تھا کہ یہ بات سنتے ہی مسلمانوں کے دل اس سے بدک جاتے ۔ اس بات کو زبان پر نہ لایا جاتا اور اس کو موضوع بحث بنانے سے گزیز کیا جاتا۔ اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑ دیا جاتا اور اس جھوٹی سازش کو مدینہ کی پاک اسلامی فضا سے گند کی طرح دور پھینک دیا جاتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیّْنًا وَّھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ) (جبکہ تم اس بات کو ایک دوسرے کے منہ سے سنتے تھے اور اپنے منہ سے نکالتے تھے اور ایسی بات کر رہے تھے کہ جس کا تمہیں علم نہیں اور تم خیال کر رہے تھے کہ یہ ہلکی بات ہے حالانکہ وہ اللہ کے نردیک بڑی بات ہے) یعنی جو کوئی کسی پر تہمت رکھی جائے اسے سننا لے اڑنا دوسروں تک پہنچانا بڑا گناہ ہے اور اس بات کو ہلکا سمجھنا سخت غلطی کی بات ہے اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ جب کسی کے بارے میں کوئی تہمت کی بات کہی جائے تو اسے نقل کر کے اپنی ذات کو یوں کہہ کر بےقصور قرار دینا کہ ہم نے تو تہمت نہیں گڑھی ہم نے تو سنی ہوئی بات نقل کی ہے یہ بھی ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے تہمت والی بات کو نقل کرنا ہی گناہ ہے اور بڑا گناہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” اذتلقونہ الخ “ یہ دوسرے گروہ کیلئے زجر ہے۔ ” اذ “ ” لمسکم “ کے متعلق ہے۔ (روح) ۔ یعنی تمام منافقین کی پھیلائی ہوئی خبر کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے اور بلا تحقیق اس کی اشاعت کر رہے تھے اس وقت ہی اگر تم پر اللہ کا عذاب آجاتا تو ایسا ہوسکتا تھا لیکن اللہ نے محض اپنی رحمت سے عذاب نازل کرنے میں عجلت نہیں فرمائی ” تحسبونہ ھینا الخ “ تم اس معاملہ کو بہت معمولی سمجھ رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ معاملہ بہت ہی سنگین اور بہت بڑا جرم تھا۔ اے ایمان والو ! تمہیں اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے تھا اور تمہارے لیے اس معاملے میں لب کشائی مناسب نہ تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اس عذاب عظیم کے تم اس وقت مستحق ہوجاتے اور وہ عذاب تم کو اس وقت مس کرلیتا اور تم عذاب عظیم کی زد میں آجاتے جب کہ تم اس بات کو اپنی زبانوں سے ایک دوسرے کو نقل کررہے تھے اور اپنے منوئوں سے ایسی باتیں کہہ رہے تھے جن کا تم کو مطلق علم نہ تھا اور کوئی دلیل نہ تھی اور تم اس تہمت اور بہتان کو ہلکی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بڑی سخت بات تھی۔ یعنی بلا تحقیق اور بلا دلیل ایسی باتیں منہ سے کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے سے نقل در نقل کررہے تھے جو معصیت اور موجب عذاب ہیں تم اس کو ہلکا اور سہل سمجھتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بڑی بھاری اور سخت چیز ہے اول تو حصنات پر رمی اور زنا کی تہمت۔ پھر محصنات بھی کون ازواجِ مطہرات میں سے۔ پھر ایذا رسانی پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صدیق اکبر (رض) ان کے متعلقین کی۔ یہ سب باتیں معصیت ہیں اور عذاب الٰہی کا موجب ہیں۔