Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 16

سورة النور

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۶﴾

And why, when you heard it, did you not say, "It is not for us to speak of this. Exalted are You, [O Allah ]; this is a great slander"?

تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں ۔ یا اللہ! تو پاک ہے ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Further Discipline This is further discipline, in addition to the command to think well of people, i.e., if something unbefitting is mentioned about good people, then one should think well of them, and not feel towards them anything but good. Then if a person has any unsuitable thoughts about them, insinuated into his mind and imagination by Shaytan, he should not speak about that, for the Prophet said: إِنَّ اللهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ لاُِمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا مَا لَمْ تَقُلْ أَوْ تَعْمَلْ Allah will excuse my Ummah for anything that occurs to their minds, so long as they do not speak about it or act upon it. This was reported in the Two Sahihs. Allah's saying: وَلَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَذَا ... And why did you not, when you heard it, say: "It is not right for us to speak of this". meaning, we should not talk about it or mention it to anyone. ... سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ Glory be to You (O Allah)! This is a great lie. means, glory be to Allah that such a thing should be said about the wife of His Prophet and close Friend. Then Allah says,

پہلے تحقیق کرو پھر بولو پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نلکالنا چاہئے ۔ برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایساوسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرمالیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں ( بخاری ومسلم ) تمہیں چاہئے تھا کہ ایسے بےہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ پیش نہیں کیا۔ جبکہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشیوں کو جھوٹا نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رض) کو حد قذف لگائی گئی (مسند احمد، جلد۔6 عبد اللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا ہی میں پاک کردیا گیا۔ دوسرے اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلتًا اس سزا دینے سے گریز کیا گیا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] اس آیت میں ایک بڑا قیمتی اخلاقی ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہئے۔ تاکہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ امین کے علم میں نہ آجائے۔ یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جائے تاآنکہ اس کی امانت و دیانت کا کوئی یقینی ثبوت ہاتھ نہ آجائے۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ پر محض بدظنی کی بنا پر بہتان لگانا پھر اسے ہوا دینا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بلکہ اتنا سنگین جرم تھا کہ اس کی بنا پر تم پر عذاب نازل ہوسکتا تھا۔ یہ اللہ کی رحمت اور مہربانی ہی تھی کہ اس نے تمہیں ایسے عذابن سے محفوظ رکھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ ۔۔ : اس سے پہلے آیت (١٣) میں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب اچھے لوگوں کے بارے میں کوئی نامناسب بات سنی جائے تو ان کے متعلق اچھا گمان رکھنا لازم ہے۔ اب اس کے متعلق دوسرا ادب بیان فرمایا کہ اگر کوشش کے باوجود کوئی وسوسہ یا خیال دل میں آجائے تو اسے زبان پر ہرگز نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِيْ عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَھَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہِ أَوْ تَکَلَّمْ ) [ بخاري، الأیمان والنذور، باب إذا حنث ناسیا ۔۔ : ٦٦٦٤، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ اپنے دل میں کریں، جب تک وہ اسے قول یا عمل میں نہ لائیں۔ “ یعنی جب تم نے یہ بات سنی تو بجائے اس کے کہ اس پر خاموش رہتے، یا اس پر یقین کرتے، یا اسے آگے پھیلاتے، تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہ کہا کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم یہ بات زبان پر لائیں، بلکہ ایسی بات سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کے لیے ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا : (ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ) تو پاک ہے کہ تیرے نبی کی بیوی بدکاری کے ارتکاب سے آلودہ ہو، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کی بیوی بدکار ہو، وہ کافر تو ہوسکتی ہے، بدکار نہیں، کیونکہ انبیاء کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک قابل نفرت ہو وہ اس سے پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک بھی قابل نفرت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ And why, when you heard of it, did you not say, It is not for us to speak about this. Pure are You (0 Allah). This is a terrible calumny.& - 24:16. In this verse the same advice is repeated which was imparted in an earlier verse, with further elaboration as to what should the Muslims do in such a situation when they hear a rumor. The advice is that they should say in categorical terms that they are not allowed even to mention such a thing for which there is no proof. It is a very grave accusation. A doubt and its answer If someone has a doubt that just as the truth of an event cannot be verified without a proof, and hence it is unlawful to mention it and spread it, likewise, the report of that event should not be believed to be a lie and a &terrible calumny& without a proof of its being a lie. The answer to this doubt is that it is the integral spirit of Islam to consider every Muslim as free from sins, and this is based on reasoning. Anything contrary to this proven reality is a lie if put forward without a proof, and no further proof is required to prove this assertion a lie. This is enough to call it a slander if a believer Muslim is blamed for a crime without proof.

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ، یعی ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تھی تو یوں کہہ دیتے کہ ہمارے لئے ایسی بات زبان سے نکالنا جائز نہیں۔ پاک ہے اللہ، یہ تو بڑا بہتان ہے۔ اس آیت میں مکرر وہی ہدایت ہے جو اس سے پہلی ایک آیت میں آ چکی ہے اس میں یہ مزید وضاحت ہے کہ مسلمانوں کو ایسی خبر سننے کے وقت کیا عمل کرنا چاہئے وہ یہ کہ صاف کہہ دیں کہ ایسی بات بلا کسی دلیل کے زبان سے نکالنا بھی ہمارے لئے جائز نہیں یہ تو بہتان عظیم ہے۔ ایک شبہ اور جواب : اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ جیسے کسی واقعہ کا صدق بغیر دلیل کے معلوم نہیں ہوتا اس لئے اس کا زبان سے نکالنا اور چرچا کرنا ناجائز قرار پایا اسی طرح کسی کلام کا کاذب ہونا بھی تو بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا کہ اس کو بہتان عظیم کہہ دیا جائے۔ جواب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو گناہوں سے پاک صاف سمجھنا اصل شرعی ہے جو دلیل سے ثابت ہے اس کے خلاف جو بات بغیر دلیل کے کہی جائے اس کو جھوٹا سمجھنے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کافی ہے کہ ایک مومن مسلمان پر بغیر کسی دلیل شرعی کے الزام لگایا گیا ہے لہٰذا یہ بہتان ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا۝ ٠ۤۖ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِيْمٌ۝ ١٦ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ تکلم ومُكالَمَةُ اللہ تعالیٰ العبد علی ضربین : أحدهما : في الدّنيا . والثاني : في الآخرة . فما في الدّنيا فعلی ما نبّه عليه بقوله : ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ الآية [ الشوری/ 51] ، وما في الآخرة ثواب للمؤمنین وکرامة لهم تخفی علینا كيفيّته، ونبّه أنه يحرم ذلک علی الکافرین بقوله : إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران/ 77] . وقوله : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] جمع الکلمة، وقیل : إنهم کانوا يبدّلون الألفاظ ويغيّرونها، وقیل : إنه کان من جهة المعنی، وهو حمله علی غير ما قصد به واقتضاه، وهذا أمثل القولین، فإنّ اللفظ إذا تداولته الألسنة واشتهر يصعب تبدیله، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة/ 118] أي : لولا يكلّمنا اللہ مواجهة، وذلک نحو قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] «1» . بندے سے اللہ تعالیٰ کا ہم کلام ہونا دو قسم پر ہے یعنی یا دنیا میں اور یا آخرت میں ۔ چناچہ آیت ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُالآية [ الشوری/ 51] اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہمام کے ذریعہ سے ۔۔۔۔۔ میں دنیا میں ہم کلام ہونے کا بیان ہے اور آخرت میں ثواب و کرامت کے طور پر صرف مومنین ہے ہم کلام ہوگا جس کی کیفیت ہم سے مخفی ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران/ 77] کے آخر میں لاکہہ کر تنبیہ کی ہے کہ کفار اس نعمت عظمٰی سے محروم رہیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] کہ کلمات کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں ۔ میں کلم کلمتہ کی جمع ہے ۔ اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ وہ الفاظ میں تبدل و تغیر کرتے تھے اور بعض نے تحریف معنوی مراد لی ہے یعنی آیت کو اس کے مقتضٰی کے خلاف معنی پر حمل کرنا یہ دوسرا قول قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ الفاظ کے مشہور اور متدادل ہونے کے بعد ان میں تبدیلی کرنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة/ 118] اور جو لوگ کچھ نہیں جانتے ( یعنی مشرک ہیں ) وہ کہتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بالمشابہ گفتگو کیوں نہیں کرتا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب بتم سے درخواست کرتے ہیں ۔ ہمیں خدا کو ظاہر ( یعنی آنکھوں سے دکھا دو ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ بهت قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ. قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب . ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور تم نے جب اس بات کو سنا تھا تو اسی وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے ہرگز مناسب نہیں کہ ایسی جھوٹی بےاصل بات اپنے منہ سے نکالیں، معاذ اللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ١٨:۔ جس بہتاں کا ذکر اوپر گزرا ‘ اس بہتان میں دو طرح کے آدمی تھے ‘ کچھ تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ منافق لوگ تھے جو حقیقت میں دل سے مسلمانوں کے بدخواہ تھے ‘ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں یہ فرمایا ‘ ان کو عاقبت میں سخت عذاب ہوگا اور کچھ مسلمان لوگ منافقوں سے سن سنا کر دل میں اس بہتان کی بات کو سچا گمان کرنے لگے تھے یا بعض لوگ زبان سے بھی اس بہتان کی بات کا چرچا کرنے لگے تھے ‘ ان دونوں قسموں کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ اوپر کے حکم کے موافق جب شریعت میں چار گواہوں کی گواہی کے بغیر یہ بہتان ثابت نہیں ہوسکتا تو پھر جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں انہوں نے اس بہتان کو اپنے دل میں کیوں کر سچا گمان کیا اور زبان پر کیوں اس کا چرچا لائے۔ اس میں ابو ایوب انصاری (رض) ابی (رض) بن کعب اور ان صحابہ کی تعریف نکلتی ہے جنہوں نے بغیر شہادت کے اس بہتان کو سنتے ہی جھوٹ جانا۔ ابو ایوب (رض) کی بی بی نے ان سے ایک روز کہا۔ اجی تم نے کچھ سنا حضرت عائشہ (رض) کے باب میں لوگ کیا کیا کہتے ہیں ‘ انہوں نے جواب دیا کیا تم سے ایسا کام ہوسکتا ہے جس کام میں لوگ حضرت عائشہ (رض) کو بدنام کرتے ہیں ان کی بی بی نے کہا ہرگز نہیں۔ حضرت ایوب (رض) نے کہا پھر اللہ کے رسول کی بی بی سے ایسا کام کیونکر ہوسکتا ہے ‘ جو کچھ چرچا لوگ کر رہے ہیں وہ بالکل بہتان ہے ‘ صحیحین ١ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں سات بڑے سخت گناہوں کا جو ذکر آیا ہے ‘ اس طرح کا بہتان بھی ان گناہوں میں سے ہے ‘ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ اس طرح کی باتوں کو معمولی باتیں خیال کرتے ہیں اور اللہ کے نزدیک یہ بڑا سخت گناہ ہے ‘ صحیح مسلم ‘ ابوداود ‘ ترمذی اور نسائی میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ (رض) سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے کہ غیبت کیا چیز ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ہم کو معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کسی کے حق میں کوئی ایسی بات کہنی کہ اس کے سننے سے اس کو رنج ہو ‘ اسی کو غیبت کہتے ہیں ‘ کسی نے عرض کیا کہ حضرت کسی میں کوئی بات حقیقت میں ہو تو کیا پیٹھ پیچھے اس کا ذکر کرنا بھی غیبت میں داخل ہے ‘ آپ نے فرمایا غیبت تو یہی ہے ورنہ جو بات کسی آدمی کے حق میں کہی جاوے اور حقیقت میں وہ بات اس میں نہ ہو ‘ اس کا نام تو بہتان ہے ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ (رض) سے فرمایا ‘ تم کو معلوم ہے کہ مفلس کس شخص کو کہتے ہیں ‘ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال متاع نہ ہو ‘ ہم لوگ تو اس کو مفلس کہتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اصل مفلس میری امت میں وہ شخص ہے کہ جو نیک عمل کر کے پھر قیامت کے دن اس سبب سے خالی ہاتھ رہ جاوے گا کہ لوگوں میں غیبت کا کرنا لوگوں پر بہتان باندھنا اس کی عادت ہوگی اور اس عادت کی سزا میں قیامت کے دن اس کی سب نیکیاں چھین کر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دے گا جن لوگوں کی اس نے برائی کی تھی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ بہتان ‘ غیبت ‘ چغل خوری یہ اس طرح کے گناہ ہیں کہ اکثر لوگ ان کو ایک زبانی بات چیت اور محفل کا ایک مشغلہ گنتے ہیں اور شریعت میں یہ باتیں بڑے گناہ کی چیزیں ہیں ایسی باتوں کے باب میں ابوہریرہ (رض) کی صحیحین کی روایت ٤ ؎ گزر چکی ہے کہ بعض باتوں کو انسان خفیف جان کر دنیا میں منہ سے کہہ دیتا ہے ‘ عاقبت میں جن کی سزا کے سبب سے ایک مدت دراز تک اس کو دوزخ میں رہنا پڑے گا۔ یہ تو عاقبت کے وبال کا ذکر ہوا ‘ علاوہ اس کے ایسے شخص پر جو بہتان ‘ چغل خوری ‘ غیبت میں لگا رہے ‘ دنیا میں بھی وبال پڑتا ہے ‘ مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ثوبان (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کوئی کسی کی غیبت اور ایذا میں لگے گا وہ خود بھی دنیا میں فضیحت ہوگا ‘ معتبر سند سے اوسط اور صغیر طبرانی میں بھی ثوبان (رض) سے اس کے قریب قریب روایت ہے جس سے اس سند کی روایت کو تقویت ہوجاتی علاوہ اس کے صحیح سند سے ترمذی ٢ ؎ میں عبداللہ بن عمر (رض) سے ابوداود میں ابوبرزہ سے ‘ ابن ماجہ ٣ ؎ میں ابن عباس (رض) سے معتبر روایتیں اس مضمون کی ہیں جس سے سند کے راوی ابو محمد میمون تمیمی کا ضعف جاتا رہتا ہے ‘ یہی حال دوسرے راوی میمون بن موسیٰ مراغی کے ضعف کا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ تم میں کا ایک منافقوں کی جماعت نے جب اے مسلمانوں اس بہتان کا چرچا تمہارے کانوں تک پہنچایا تھا تو تم نے یہ سیدھی بات کیوں نہ کہہ دی کہ بغیر گواہی کے ہم کو یہ چرچا تو بہتان معلوم ہوتا ہے ‘ پھر فرمایا ‘ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ تم کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم ایمان دار ہو تو پھر کبھی تم کو ایسی بات کی جرأت نہ کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت کے موافق قرآن کی آیتوں کے ذریعہ سے صاف صاف تم کو یہ سمجھا دیا ہے کہ بغیر گواہی کے ایسی بےٹھکانے کی باتیں شریعت میں سزا کے قابل ہیں۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٧ باب الکبائرو علامات النفاق ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب حفظ اللسان والغیبہ والشتم ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٣٥ باب الظلم ) (٤ ؎ یعنی پچھلے صفحہ پر ) (١ ؎ ٢ ؎ ٣ ؎ تینوں حدیثوں کے لیے ملاحظہ ہو ‘ الرغیب والترہیب ص ٢٣٩ ج ١ الترغیب فی ستر المسلم والترہیب من ہت کہ وتتع عوراتہ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اس میں ان لوگوں کو تو بیخ کی ہے جو اس واقعہ کو سن کر اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ مروی ہے کہ حضرت سعد (رض) بن معاذ نے جب حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں قیل و قال کو سنا تو انہوں نے برملا اس کو جھٹلایا اور کہا : ” سبحانک ھذا بھتان عظیم “۔ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے حرم اس قسم کے ملوثات سے بالا ہوتے ہیں۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت، خیانت کفر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے باہم دگر معاملات کی بنیاد نیک گمان پر ہونی چاہیے۔ اور کسی سے بدگمانی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے لئے کوئی واقعی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ جیسا کہ بعض صحابہ نے اسی طرح کہا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ولو لآ۔۔۔۔۔۔۔ عظیم) (٢٤ : ١٦) ” کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا ‘ سبحان اللہ یہ تو بہتان عظیم ہے۔ جب یہ بات مسلمانوں کے دلوں میں اتار دی جاتی ہے کہ لوگوں سے کس قدر عظیم کوتاہی ہونی ہے اور دلوں کو اچھی طرح جھنجھوڑ دیا جاتا ہے۔ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ان سے کس قدر عظیم کوتاہی ہوئی ہے تو پھر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ دیکھو آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔ یہ تم نے بہت ہی عظیم جرم کیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَوْلاَ اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَا یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا) جب اس بات کو سنا تو تم نے یوں کیوں نہ کہا کہ ہم اس بات کو اپنی زبان پر نہیں لاسکتے۔ (سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ) (یعنی تمہیں اس بات کو سنتے ہی تعجب سے یوں کہنا چاہئے کہ سبحان اللہ یہ بڑا بہتا ہے) اس میں مسلمانوں کو یہ بتایا کہ تہمت والی خبر سنتے ہی صاف کہہ دیں کہ ہم اسے زبان پر نہیں لاسکتے یہ تو بہتان عظیم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ولو لا اذ سمعتموہ الخ “۔ یہ بھی دوسرے گروہ پر زجر ہے جب تم نے یہ بات سنی تھی تو تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ ہمیں اس قول باطل کی اشاعت میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اے اللہ بیشک تو ہر عیب سے پاک ہے لیکن یہ بھی ایک صریح بہتان ہے جو ایک پاک دامن اور پارسا عورت پر لگایا گیا ہے۔ ” یعظکم ان تعودوا الخ “ اگر واقعی تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ ایسی حرکت مت کرو۔ ” و یبین اللہ الخ “ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے اس لیے وہ ایسے احکام نازل فرماتا ہے جس میں تمام بنی آدم کی فلاح و بہبود ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور جب تم نے اس بہتان کو سنا تھا تو سنتے ہی یوں کیوں نہیں کہا کہ ہم کو یہ لائق اور ہم کو یہ زیبا نہیں کہ ہم منہ پر لادیں یہ بات اور ہم ایسی بات منہ سے نکالیں۔ اللہ تعالیٰ تو پاک ہے معاذ اللہ یہ تو بڑا بہتان ہے۔ جیسا کہ بعض صحابہ اور محتاط حضرا ت نے سنتے ہی کہہ دیا۔ حضرت ابو ایوب اور ان کی زوجہ کا قول مذکورہوا۔ رہا ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تردد اور تامل تو اول تو یہ کوئی بےاطمینانی کی دلیل نہیں آپ خاموشی کے ساتھ صرف ایک معاملہ کو ملاحظہ کررہے تھے۔ نیز آپ کا یہ قول احادیث میں مروی ہے کہ ماعلمت علی اھل الاخیراً یہ قول نزاہت اور پاکی پر یقین کا اظہار ہے۔