Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 18

سورة النور

وَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۸﴾

And Allah makes clear to you the verses, and Allah is Knowing and Wise.

اللہ تعالٰی تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے ، اور اللہ تعالٰی علم و حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الاْيَاتِ ... And Allah makes the Ayat plain to you, meaning, He makes clear to you the rulings of Shariah and His divine decrees. ... وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ and Allah is All-Knowing, All-Wise. means, He knows what is right for His servants and He is Wise in His Laws and decrees.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚوَيُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۔۔ : آیات کو کھول کر بیان کرنے کے ساتھ علیم و حکیم کی مناسبت ظاہر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ١٨ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) اور اللہ تعالیٰ تم سے واضح طور پر اوامرو نواہی کو بیان کرتا ہے اور وہ تمہاری باتوں کو سننے والا ہے اور بڑی حکمت والا ہے کہ تم پر حد کا فیصلہ فرمایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. These verses, especially (verse 12), wherein Allah says: “Why did not the believing men and the believing women have a good opinion of themselves” provide the general principle that all dealings in the Islamic society must be based on good faith. The question of a bad opinion should arise only when there is a definite and concrete basis for it. Every person should, as a matter of principle, be considered as innocent unless there are sound reasons to hold him guilty or suspect. Every person should be considered as truthful unless there are strong grounds for holding him as unreliable.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :15 ان آیات سے ، اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے کہ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے گروہ کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا یہ قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں تمام معاملات کی بنا حسن ظن پر ہونی چاہیے ، اور سوء ظن صرف اس حالت میں کیا جانا چاہیے جبکہ اس کے لیے کوئی ثبوتی و ایجابی بنیاد ہو ۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو ۔ اور ہر شخص اپنی بات میں سچا ہے جب تک کہ اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ چناچہ یہ اس کی حکمت ہی تھی کہ تہمت کھڑی کردی گئی جس سے سچے اور جھوٹے مسلمانوں کا فرق بھی واضح ہوگیا اور حضرت عائشہ (رض) کی پاک دامنی کا ایسا ثبوت بہم پہنچا جس میں ایک مسلمان، مسلمان رہتے ہوئے شک نہیں کرسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ویبین اللہ۔۔۔۔۔۔۔ حکیم) (٢٤ : ١٨) ” اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے وہ علیم و حکیم ہے “۔ جیسا کہ افک کے معاملے میں اس نے تمہیں ہدایات دیں ‘ اس کی تہ میں پوشیدہ مقاصد کو واضح کیا اور خود اہل اسلام سے جو کو تاہیاں ہوئیں اور اللہ چونکہ علیم ہے اس لیے وہ تمام لوگوں کی نیتوں کو بھی جانتا ہے۔ ہر شخص نے اس معاملے میں جو حصہ لیا اور اس کے پیش نظر جو مقصد تھا اس کو اللہ جانتا ہے کیونکہ وہ دلوں کے خفیہ بھیدوں کو جانتا ہے اور اس معاملے میں اللہ نے جو جوابی تدابیر اختیار کیں وہ حکمت پر مبنی ہیں۔ نیز وہ جو قانون و ضع کرتا ہے وہ گہری حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں لوگوں کی اصلاح و فلاح ہوتی ہے۔ اس کے بعد اب واقعہ افک پر ایک تبصرہ آتا ہے۔ اس واقعہ کے جو آثار اور اثرات معاشرے کے اندر رہ گئے تھے ان کو بالکلیہ مٹانے اور نفوس مسلمہ کو اس سے پاک کرنے کے لیے مکرر طور پر مسلمانوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ ایسا ساننحہ دو بارہ واقع نہ ہونا چاہیے۔ اس بار تو اللہ نے فضل و کرم کردیا لیکن آئندذہ جو لوگ بیخبر پاک دامن عورتوں پر اس قسم کے الزامات عائد کریں گے دنیا و آخرت دونوں میں وہ عذاب الہیٰ سے بچ نہ سکیں گے۔ یہ وعید اس لیے لائی گئی کہ دنیاوی تعلقات اور دنیاوی موجوں سے بلند ہو کر ان کی صفوں میں از سر نو تطہیر اور روشنی آجائے۔ مثلا حضرت ابوبکر (رض) اور ان کے ایک قریبی رشتہ دار مسطح ابن اثاثہ کے درمیان تعلقات کی تطہیر ہوئی۔ یہ شخص بھی ان دنوں اس بحران میں بہت ہی سرگرم ہوگیا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَیُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (اور اللہ تمہارے لیے واضح طور پر آیات بیان فرماتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے) اس میں حد قذف قبول توبہ نصیحت موعظت سب داخل ہیں جن کو ندامت تھی اس کی توبہ قبول فرما لی اور حد جاری کرنے میں حکمت تھی اس لیے حد بھی جاری کرا دی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اور اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کمالِ علم اور کمال حکمت کا مالک ہے یعنی واضح احکام بیان فرماتا ہے کمال علم کا مالک ہے ہر شخص کے دل کی ندامت اور قلب کی حالت جانتا ہے اور کمال حکمت کا مالک ہے اپنے احکام کو مبنی پر حکمت مقرر کرتا ہے یا یہ کہ عائشہ (رض) کی پاک دامنی کو جانتا اور ہر قسم کے عیب اور عار س اس کو بری قرار دینے کا حکم کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پتا اس کا کہ یہ طوفان اٹھایا کس نے معلوم ہوا کہ منافقوں نے جو ہمیشہ چھپے دشمن تھے اگلی آیت میں پتا بتادیا۔ 12