Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 19

سورة النور

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾

Indeed, those who like that immorality should be spread [or publicized] among those who have believed will have a painful punishment in this world and the Hereafter. And Allah knows and you do not know.

جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disciplining Those Who like that Illegal Sexual Intercourse should be circulated among the Believers This is a third instance of discipline directed at those who hear evil talk, believe it to some extent, and start to spread it; they should not spread such talk or pass it on to others. Allah says: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ امَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ... Verily, those who like that Fahshah should be circulated among those who believe, they will have a painful torment, meaning, those who like to see evil talk about them (the believers) appear, ... لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا ... they will have a painful torment in this world, means, because of the prescribed punishment, ... وَالاْاخِرَةِ ... and in the Hereafter, because of the torment in Hell. وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَا تَعْلَمُونَ And Allah knows and you know not. means, return the matter to Him and you will be guided. Imam Ahmad recorded from Thawban that the Prophet said: لاَا تُوْذُوا عِبَادَ اللهِ وَلاَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلاَا تَطْلُبُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ طَلَبَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ طَلَبَ اللهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ فِي بَيْتِهِ Do not annoy the servants of Allah, nor abuse them, nor seek their hidden shortcomings. Whoever seeks out the faults of his Muslim brother, Allah will expose his faults and degrade him, even if he is hiding in his house.

برائی کی تشہیر نہ کرو یہ تیسری تنبیہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات سنے ، اسے اس کا پھیلانا حرام ہے جو ایسی بری خبروں کو اڑاتے پھیرتے ہیں ۔ دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی اور اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے ، تم بےعلم ہو ، پس تمہیں اللہ کی طرف تمام امور لوٹانے چاہئیں ۔ حدیث شریف میں ہے بندگان اللہ کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ۔ ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا ۔ اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19 ا فَاحِشَۃ، کے معنی بےحیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم صورت وہی ہے جس کا اس صورت میں ذکر ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت کو الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلاتحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے زنا (جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے) کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں۔ مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا اور ہماری شریعت میں لوطی کی سزا قتل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں۔ اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ && اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو && (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب من وقع علی البھیمہ) چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کردیئے ہیں۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایکسا قد نپا لیتی ہیں یہ باکل خلاف شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع کیا اور فرمایا && کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے && (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتبا شرا المراۃ المراۃ اس حدیث کے الفاظ سے پپٹی لگانا بھی مراد لیا جاسکتا ہے (یعنی عورت کا عورت کے ساتھ لگ کر جنسی خواہش پوری کرنا) کیونکہ عربی زبان میں مجامعت کے لئے مباشرت کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بدفعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدارہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ المراۃ) پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹیوی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وعیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل میں کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے۔ تاکہ کم ازکم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں۔ ورنہ انھیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔ [٢٣] یعنی یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور ان کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی سے یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے بدکار لوگوں کو بدکاری کے نئے نئے مراکز کیسے مہیا ہوتے ہیں۔ نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتداًء فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ ۔۔ : ” الْفَاحِشَةُ “ انتہائی برے کام کو کہتے ہیں، یہ لفظ زنا پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کی تہمت اور چرچے پر بھی۔ یعنی جو لوگ ایمان والوں میں بےحیائی اور بدکاری کا تذکرہ پھیلانا چاہتے ہیں اور پاک دامن مسلمانوں پر تہمتیں تراش کر مجلسوں میں ان کا چرچا کرتے ہیں، جس کے سننے سے زنا سے نفرت ختم ہوتی ہے، بلکہ ایسی باتوں میں دلچسپی کے نتیجے میں یہ برائی مزید پھیلتی ہے اور اس کا ذکر کرنے والے اور اسے خاموشی سے سن کر تہمت تراشنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، عفیف مسلمانوں کے گوشت سے لذت اٹھاتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا میں عذاب الیم ہے کہ تہمت لگانے والوں کو درّے پڑتے ہیں اور وہ مردود الشہادہ اور فاسق ٹھہرتے اور ان کا اور ان کے مجلس نشینوں کا نفاق اور فسق مسلمانوں کے سامنے بےنقاب ہوجاتا ہے، جس سے وہ مسلم معاشرے میں بےاعتبار ٹھہرتے ہیں اور آخرت کے عذاب کے المناک ہونے کی کوئی حد ہی نہیں۔ 3 آج کل تمام دنیا کے کفار اور ان کے مددگار مسلم حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، سکول و کالج کی تعلیم، غرض ہر طریقے سے مسلم معاشروں میں زنا اور اس کا تذکرہ عام ہو۔ ایک آدھ ملک کے سوا کسی ملک میں نہ زنا کی حد نافذ ہے نہ بہتان کی۔ نتیجہ اس کا دشمنوں کے خوف، قتل و غارت، بدامنی، وباؤں اور نئی سے نئی بیماریوں کے عذاب الیم کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور قیامت کا عذاب الیم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن : یعنی زنا کی حد اور بہتان کی حد جو اللہ نے مقرر فرمائی ہے اور ایمان والوں میں بےحیائی پھیلانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں جو عذاب الیم رکھا ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہر بات جانتا ہے “ ، اسے ان گناہوں کے خوفناک نتائج کا بھی علم ہے اور یہ بھی کہ انھیں کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ” اور تم نہیں جانتے “ لہٰذا تم اپنی عقل سے جو بھی قاعدہ و قانون مقرر کرو گے وہ تمہاری لاعلمی کی وجہ سے کبھی بھی مسلمانوں کی پاک دامنی اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا ضامن نہیں بن سکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ Surely, those who like that shamelessness spreads among the believers, for them there is a painful punishment in this world and the Hereafter - 24:19. Those who had taken part in any way in the slander are again condemned in this verse, and are warned with the punishment in the world and in the Hereafter. An extra element in this verse is that those who propagate such rumors actually want the spread of obscenity and immorality among the Muslims. The Qur&anic system for the prevention of obscenity The Holy Qur&an has drawn out this unique system for the prevention of obscenity that, in the first place such a news should not spread, and if at all it is leaked out, it should be backed up with lawful proof, so that the punishment of adultery is also executed publicly, immediately after the spread of the news. This way the publicity itself will serve as a preventive measure. If there were no condition of lawful proof, then it would have been lot easy to pass on and publicize such scandals, especially, when there is no punishment attached to it. Absence of any fear against spreading scandals leads to minimizing the repulsion against immorality and obscenity from the people&s mind; rather it encourages to indulge in such crimes and to propagate them. This is an everyday experience that this sort of scandals is published in the newspapers daily. Young men and women read them frequently. As a result, the intensity of such wicked acts is minimized gradually, and instead a slow inclination for indulging in them develops in their minds. It is for this reason that the Holy Qur’ an has allowed publicity of such news only in such situations when it is supported with lawful evidence, so that people should see the severe punishment for the obscene crime along with the news of adultery when they learn about it. Where there is no proof and punishment, Qur&an has proclaimed the publicity of such news as a tool for spreading obscenity among the Muslims. This vital point needs to be pondered by the Muslims. This verse actually emphasizes that to give publicity to scandals without proof will invite very severe punishment both in this world and in the Hereafter. The punishment in the Hereafter will naturally follow after the Dooms Day, and thus cannot be experienced here, but the punishment of the world can be seen. So, those who were punished for false accusation have in fact experienced the punishment of the world. If anyone has escaped the execution of the punishment for want of proof needed for the award of this punishment, even then he has earned the punishment (which will be executed in the Hereafter). For the implication of the verse even this is enough.

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ، اس آیت میں پھر ان لوگوں کی مذمت اور ان پر دنیا و آخرت کے عذاب کی وعید ہے۔ جنہوں نے اس تہمت میں کسی طرح کا حصہ لیا۔ اس آیت میں یہ بات زیادہ ہے کہ جو الگ ایسی خبریں مشہور کرتے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بدکاری اور فواحش پھیل جائیں۔ انسداد فواحش کا قرآنی نظام اور ایک اہم تدبیر جس کے نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج کل فواحش کی کثرت ہے : قرآن حکیم نے فواحش کے انسداد کا یہ خاص نظام بنایا ہے کہ اول تو اس قسم کی خبر کہیں مشہور نہ ہونے پاوے اور شہرت ہو تو ثبوت شرعی کے ساتھ ہو تاکہ اس شہرت کے ساتھ ہی مجمع عام میں حد زنا اس پر جاری کر کے اس شہرت ہی کو سبب انسداد بنادیا جائے اور جہاں ثبوت شرعی نہ ہو وہاں اس طرح کی بےحیائی کی خبروں کو چلتا کردینا اور شہرت دینا جبکہ اس کے ساتھ کوئی سزا نہیں طبعی طور پر لوگوں کے دلوں سے بےحیائی اور فواحش کی نفرت کم کردینے اور جرائم پر اقدام کرنے اور شائع کرنے کا موجب ہوتی ہے جس کا مشاہدہ آج کل کے اخبارات میں روزانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز ہر اخبار میں نشتر ہوتی رہتی ہیں۔ نوجوان مرد اور عورتیں ان کو دیکھتے رہتے ہیں روزانہ ایسی خبروں کے سامنے آنے اور اس پر کسی خاص سزا کے مرتب نہ ہونے کا لازمی اور طبعی اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ فعل خبیث نظروں میں ہلکا نظر آنے لگتا ہے اور پھر نفس میں ہیجان پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے ایسی خبروں کی تشہیر کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے جبکہ وہ ثبوت شرعی کے ساتھ ہو اس کے نتیجہ میں خبر کے ساتھ ہی اس بےحیائی کی ہولناک پاداش بھی دیکھنے سننے والوں کے سامنے آجائے اور جہاں ثبوت اور سزا نہ ہو تو ایسی خبروں کی اشاعت کو قرآن نے مسلمانوں میں فواحش پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ کاش مسلمان اس پر غور کریں۔ اس آیت میں ایسی خبریں بلا ثبوت مشہور کرنے والوں پر دنیا و آخرت دونوں میں عذاب الیم ہونے کا ذکر ہے۔ آخرت کا عذاب تو ظاہر ہے کہ قیامت کے بعد ہوگا جس کا یہاں مشاہدہ نہیں ہوسکتا مگر دنیا کا عذاب تو مشاہدہ میں آنا چاہئے سو جن لوگوں پر حد قذف (تہمت کی سزا) جاری کردی گئی ان پر تو دنیا کا عذاب آ ہی گیا اور اگر کوئی شخص شرائط اجراء حد موجود نہ ہونے کی وجہ سے حد قذف سے بچ نکلا تو وہ دنیا میں بھی فی الجملہ مستحق عذاب تو ٹھہرا آیت کے مصداق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٠ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ١٩ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فحش پھیلانے پر وعید قول باری ہے : (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا) جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بات واضح کردی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی خیر وصلاح کا طلبگار ہونا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو اہل ایمان میں فحش پھیلانے کے خواہشمند ہوں انہیں جھوٹے الزامات میں ملوث کریں اور ان کے سامنے بدکلامی کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان حرکات کو کبائر شمار کیا ہے جن کا مرتکب عقاب کا مستحق گرداتا جاتا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے لئے دلوں میں نہ صرف پاکیزہ جذبات رکھنا واجب ہے بلکہ اپنی زبان اور دوسرے اعضاء کو ان کی ایذارسانی سے بچانا بھی ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپکا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔ مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے، نیز ارشاد ہے : (لیس بمومن من لا یا من جارہ بوائقہ) وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کی ایذارسانیوں سے محفوظ نہ ہو۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن عباس رازی نے، انہیں سہل بن عثمان نے، انہیں زیاد بن عبداللہ نے لیث سے، انہوں نے طلحہ سے، انہوں نے خثیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نے فرمایا : (من سرہ ان یزحزح عن النار وید خلی الجنۃ فلتاتہ منیتہ وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ ویحب ان یاتی الی الناس ما یحب ان یاتوا لیہ۔ ) جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اسے دوزخ کی آگ سے دور کرکے جنت میں داخل کردیا جائے تو پھر چاہیے کہ اس کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ کلمہ طیبہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کی گواہی دیتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک روارکھتا ہو جس کی وہ ان سے اپنے بارے میں متقوع ہو۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن ہاثم نے، انہیں ھدبہ نے، انہیں ہمام نے، انہیں قتادہ نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لا یومن العبد حتی یحب لا خیہ ما یعب لنفسہ من الخیر) ، ایک بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بھلائی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) جو لوگ یعنی عبداللہ بن ابی منافق یہ کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) میں بےحیائی کی بات کا چرچا ہو، ان سب کے لیے دنیا میں حد قذف ہے اور خاص طور پر عبداللہ بن ابی منافق کے لیے آخرت میں جہنم کی درد ناک سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) پاک دامن وبری ہیں اور تم اس جرم کی سزا کو نہیں جانتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌلا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط) ” یعنی وہ لوگ جو مختلف حربوں سے معاشرے میں بےحیائی کو عام کرتے ہیں۔ آیت کے الفاظ اشاعت فحش کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ آج کل اس کا بہت بڑا ذریعہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ کمرشل اشتہارات میں عورتوں کی نیم عریاں تصاویر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ برائی کی اشاعت یوں بھی ہو رہی ہے کہ ناجائز تعلقات کے سیکنڈلز کی تشہیر کی جاتی ہے اور بغیر کسی معقول اور مناسب تحقیق کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی کرامت سے ان کی خبریں دنیا بھر میں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں بھی ایسے بےہودہ سکینڈلز کو پڑھتے ‘ سنتے اور اس موضوع پر اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہر حال ایسے واقعات کو خبر بنا کر شائع کردینا بہت بڑا جرم ہے اور جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو حتی الوسع برائی کا چرچا نہ کیا جائے۔ لیکن اگر قانونی تقاضے پورے ہوتے ہوں تو مجرموں کو کٹہرے میں ضرور لایا جائے اور انہیں ایسی سزا دلوائی جائے کہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں کے لیے باعث عبرت ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. The direct interpretation of the verse, in the context in which it occurs, is this: Those who cast aspersions, propagate evil, publicize it and bring Islamic morality into disrepute deserve punishment. The words in the text, however, comprehend all the various forms that can be employed for the propagation of evil. These include actual setting up of brothels, production of erotic stories, songs, paintings, plays and dramas as well as all kinds of mixed gatherings at clubs and hotels, which induce the people to immoralities. The Quran holds all those who resort to such things as criminals, who deserve punishment not only in the Hereafter but in this world as well. Accordingly, it is the duty of an Islamic government to put an end to all such means of propagating immorality. Its penal law must hold all those acts as cognizable offenses which the Quran mentions as crimes against public morality and declares the offenders punishable. 17. “You do not know”: You do not visualize the full impact of individual acts on society as a whole: Allah knows best the number of people who are affected by these acts and their cumulative effect on the collective life of the community. You should accordingly trust in Him and do all you can to eradicate and suppress the evils pointed out by Him. These are not trivial matters to be treated lightly; these have very serious repercussions and the offenders must be dealt with severely.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :16 موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں ۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں ۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار ، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں ۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے ۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے ۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا ، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :17 یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو ۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے ۔ دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢١:۔ ایمان والوں سے ظاہری مطلب شان نزول کے طور پر اگرچہ حضرت عائشہ (رض) اور صفوان (رض) اور ان دونوں کے ایماندار رشتہ داری ہیں اور بدکاری کا دل سے چرچا کرنے والوں سے مطلب عبداللہ بن ابی ‘ اس کے ساتھ اور وہ مسلمان لوگ ہیں جو منافقوں سے سن کر اس بہتان کے چرچے میں زبانی شریک تھے لیکن آیت کا مطلب عام ہے ‘ اب بھی اس قسم کے چرچا کرنے والے اور جن کے حق میں چرچا کیا جاوے قیامت تک کے سب لوگ آیت کے حکم میں داخل ہیں اور دنیا میں ان جھوٹا بہتان لگانے والوں کو کوڑے پٹنے کی سزا دی جاوے گی اور اگر بغیر توبہ کے اس عادت پر مرجاویں گے تو عقبیٰ میں جدا عذاب ہوگا ‘ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کو جھوٹے سچے کا حال خوب معلوم ہے ‘ پھر فرمایا ‘ یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے ان جھوٹا بہتان لگانے والوں پر جلدی سے کوئی عذاب نہیں بھیجا ‘ آگے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ شیطان لوگوں کو اپنی یہی بےحیائی کی باتیں سکھاتا ہے اس لیے ہر ایماندار شخص کو چاہیے کہ شیطان کے کہنے پر نہ چلے اور یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ جو ایماندار شخص شیطان کے حملے سے بچنا چاہتا ہے اور شیطان کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے حملے سے بچا کر نیک راہ سے لگ جانے کی توفیق دیتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان کا حملہ ایسا زبردست ہے کہ اس سے انسان کا بچنا دشوار ہے ‘ آخر کو فرمایا اللہ تعالیٰ ہر ایک نیک شخص کی منہ کی بات کو سنتا اور دل کے ارادہ کو جانتا ہے ‘ خالص دل سے جو کوئی شیطان کے حملہ کے روکنے کی التجا کرے گا اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ١ ؎ سے انس بن مالک کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بہکانے کے حملہ کے وقت شیطان خون کی طرح انسان کے تمام جسم میں سرایت کرجاتا ہے ‘ ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے حارث اشعری کی صحیح حدیث بھی کئی جگہ کزر ٢ ؎ چکی ہے کہ سوائے یاد الٰہی کے اور کوئی چیز انسان کو شیطان کے حملہ سے نہیں بچا سکتی ‘ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگرچہ شیطان کا حملہ بڑا زبردست ہے لیکن جو شخص اس کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے گا وہ شیطان کے حملہ سے بچ سکتا ہے۔ (١ ؎ نیز دیکھو مشکوٰۃ ص ١٨ باب الوسوسہ ) (٢ ؎ مثلا ص ٣٦٨ ج ٣ تفسیر ہذا ‘ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:19) تشیع۔ مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل ان۔ شیوع مصدر (باب ضرب) (کہ) وہ آشکار ہو وے۔ وہ فاش ہو وے۔ اس کا چرچا ہو وے۔ الشیاع کے معنی ہیں منتشر ہونا۔ تقویت دینا۔ شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی۔ شاع القوم قوم منتشر ہوگئی اور زیادہ ہوگئی۔ الفاحشۃ۔ اسم ۔ حد سے بڑھی ہوئی بدی۔ ایسی بےحیائی جس کا اثر دوسروں پر پڑے۔ یہاں مراد زنا ہے۔ یا تہمت زنا ہے۔ فی الذین امنوا۔ متعلق بہ ان تشیع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی دنیا میں حد جاری ہوگی اور آخرت میں دوزخ کا عذاب ملے گا۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آپس میں ایک دوسرے کے عیوب تلا ش نہ کرو۔ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کیا کہ اسے بدنام کرے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب تلاش کرے گا اور اسے اس کے گھر میں ذلیل و رسوا کرے گا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی یہ خبر شائع ہو کہ ان مسلمانوں میں یہ بےحیائی کی بات ہے، حاصل مطلب یہ کہ جو لوگ ان حضرات مقدسین کی طرف زنا کی نسبت کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کو نصیحت کرنے کے بعد منافقین اور بےحیائی پھیلانے والوں کی سزا کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ کے احکام واضح ہیں کہ کسی پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت نہ لگائی جائے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف انفرادی طور پر مسلمان کی بےحرمتی ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے میں بےحیائی پھیلتی ہے۔ جس معاشرے میں پاکدامن مردوں اور عورتوں کی عزت محفوظ نہیں وہاں بےشرمی اور بےحیائی عام ہوجاتی ہے۔ جو لوگ بےحیائی کو پھیلاتے اور رواج دیتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ پہلی ذلت یہ ہے کہ اسے سرعام اسّی کوڑے لگائے جاتے ہیں ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہوسکتی ہے۔ دوسری ذلّت یہ ہے کہ وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے جس وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ آخرت میں اس کے لیے عظیم عذاب کی سزا ہے۔ جس معاشرے میں بےحیائی عام ہوجائے وہاں کسی کی عزت سلامت نہیں رہتی۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ پامال ہوجاتا ہے اور عزت والا شخص اپنی عزت کے بارے میں ہر وقت ایک خوف محسوس کرتا ہے۔ جہاں تک بےحیائی پھیلانے والوں کا تعلق ہے وہ بھی قلبی سکون سے محروم ہوجاتے ہیں بظاہر وہ کتنے ہی فیشن ابیل اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہوں۔ لیکن اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں دل کا سکون پانے کے لیے ایسے مرد اور عورتیں شراب نوشی اور دیگر نشہ آورچیزیں استعمال کرتے ہیں بالآخر اپنی صحت بھی برباد کرلیتے ہیں اکثر اوقات ان کا دنیا میں بھی انجام عبرتناک ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ فیشن اور آزادی کے نام پر بےحیائی پھیلاتے ہیں جنہیں پہچاننا اور ان سے بچنا قدرے مشکل ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو تنبیہ کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے اور مسلمانوں تم انہیں نہیں جانتے کہ وہ کس کس طریقے سے تمہارے درمیان بےحیائی پھیلاتے ہیں۔ بےحیا لوگوں کی بےحیائی سے بچنا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ روا داری برتی جائے۔ حقیقت میں یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ مسائل ١۔ بےحیائی پھیلانے والے لوگ دنیا میں بھی اذّیت ناک سزا میں مبتلا ہوں گے۔ ٢۔ بےحیائی پھیلانے والوں کو قیامت کے دن اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ مہربانی فرمانا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٣۔ اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٦٤) ٤۔ اے نبی ! میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٥۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) ٦۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بیشک اللہ معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ : ٩٩) ٧۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٨۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ان الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم لا تعلمون) (٢٤ : ١٩) ” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “۔ وہ لوگ جنہوں نے پاک دامن عورتوں پر الزامات عائد کیے خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے حریم نبوی پر بےبنیاد الزام لگانے کی جرأت کی ان لوگوں کی اصل خواہش یہ ہے کہ یہ جماعت مسلمہ کے اندر سے بھلائی اور عفت اور پاکیزگی کے اعتماد کو متزلزل کردیں اور فحاشی کا اس قدر جھوٹا ڈھنڈورا کریں کہ لوگ اس کے بارے میں دلیر ہوجائیں۔ لوگ یہ کہیں کہ یہ بےحیائی تو بڑے لوگوں میں عام ہے۔ اس طرح وہ جھوٹے قصوں سے فحاشی کی مجالس گرم کر کے اس کو عام کردیں۔ یہ ہے ان جھوٹے الزاموں کا اثر۔ قرآن کریم یہ سمجھا نا چاہتا ہے کہ جھوٹے الزامات کی وجہ سے فحاشی پھیلتی ہے اس لیے ایسے لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب الیم تجویز کیا گیا ہے۔ قرآن کے انداز تربیت کا یہ ایک انداز ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ قانون اور سزا امتناعی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے اور یہ تدابیر اللہ ہی اختیار کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کا خالق ہے اور وہی اچھی طرح جانتا ہے کہ انسانی شعور کو ان کیفیات میں رنگا جاسکتا ہے اور اس کے رخ کو کس انداز سے اچھی سمت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتے ہیں۔ واللہ یعلم وانتم لاتعلمون (٢٤ : ١٩) ” اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو “۔ انسانی نفسیات کو اس ذات سے زیادہ کون جانتا ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور انسانی طرز عمل کو اچھے انداز میں کون چلاسکتا ہے ماسوائے اس کے جس نے اس کو وجود بخشا ہے۔ کون ہے جو ظاہر اور باطن سے واقف ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہی تو علیم وخبیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) (بلاشبہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بد کاری کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ) (اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے) اس آیت میں بطور قاعدہ کلیہ ایک بات بتادی اور یہ فرمایا کہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بےحیائی کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) کو تہمت لگانے میں حصہ لیا اس میں ان کو بھی تنبیہ ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی تنبیہ ہے تہمت لگانا تو گناہ ہے ہی اگر کوئی شخص کسی کو تہمت لگا دے یا کسی شخص سے بےحیائی کا گناہ صادر ہو ہی جائے اور اس کا کسی کو پتہ چل جائے تب بھی اس بات کو نہ اچھالے گناہ گار کی پردہ پوشی کرے ہاں سمجھانے کا اہل ہو تو اصلاح کی نیت سے احسن طریقہ پر سمجھا دے اگر دلیل شرعی سے ثابت ہوجائے کہ فلاں شخص نے بےحیائی کا کام کیا ہے تو امیر المومنین یا قاضی حسب قانون شرعی حد جاری کر دے اس حد جاری کرنے میں بھی بےحیائی کی روک تھام ہے۔ بےحیائی کا عملی طور پر پھیلانا یا کسی بےحیائی والے کام کا چرچا کرنا اور شہرت دینا یہ سب (یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ ) میں داخل ہے جو لوگ ایسی حرکت کریں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں عذاب الیم کی وعید بیان فرمائی۔ آج کل فواحش اور منکرات کا زور ہے یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں بےحیائی کا رواج دینے پر تلے ہوئے ہیں اور مسلمان خود بھی ایسی ایسی فلمیں دیکھتے اور بناتے ہیں اور ایسے ایسے اخبار و رسالے شائع کرتے ہیں اور ایسے ایسے ناول اور افسانے لکھتے ہیں جن سے مسلمانوں میں بےحیائی کا چرچا ہوتا ہے ان کو سب (لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) کی وعید شامل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” ان الذین الخ “ یہ گروہ منافقین کے لیے دنیوی اور اخروی تخویف ہے نیز تہمت لگانے کی علت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین تہمت اس لیے لگا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں فحش اور بےحیائی پھیل جائے اور لوگ بد اعتقاد ہو کر توحید کو نہ مانیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) بلاشبہ ! جو لوگ یہ چاہتے اور اس بات کو درست رکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی کی بات شہرت پذیر ہو اور بےحیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچا ہو تو ان لوگوں کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہوگا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے یعنی جب برات کا اعلان کردیا گیا پھر بھی ان برات شدہ لوگوں کے متعلق مسلمانوں میں چرچا کرنا اور ان کی تشہیر کرنا یہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتے ہوں تو ایسے لوگ دردناک عذاب کے مستحق ہیں یہ سزا دنیا میں بھی ممکن الوقوع ہے اور آخرت میں بہرحال سزا ملنی ہی ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے جو کسی بےگناہ مومن کی آبرو ریزی کرے گا تو دنیا میں اس کی آبرو بھی محفوظ نہیں رہے گی اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار کردے گا اور حدیث میں یہ بھی آیا کہ جو کسی گناہ گار کو بھی عار دلائے گا تو وہ مرنے سے پہلے اس گناہ میں خود بھی مبتلا ہوجائے گا۔ (اعاذنا للہ منہ) اس آیت میں منافقوں کے لئے تو وعید ہے ہی مگر مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ آئندہ اس بےحیائی کا کوئی چرچا اور تذکرہ باہم نہ آئے اور نہ مسلمانوں کی کسی مجلس میں اس بےحیائی کا ذکر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسے فتنہ پرداز منافقوں کو خوب جانتا ہے اگرچہ تم کو معلوم نہیں اور تم نہیں جانتے یا یہ کہ ہر معصیت اور گناہ کا درجہ ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے یعنی کون سا گناہ کیسا ہے اور اسکی سزا کیا ہونی چاہئے۔