Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 21

سورة النور

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱﴾

O you who have believed, do not follow the footsteps of Satan. And whoever follows the footsteps of Satan - indeed, he enjoins immorality and wrongdoing. And if not for the favor of Allah upon you and His mercy, not one of you would have been pure, ever, but Allah purifies whom He wills, and Allah is Hearing and Knowing.

ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو ۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا ۔ لیکن اللہ تعالٰی جسے پاک کرنا چاہے ، کر دیتا ہے اور اللہ سب سننے والا سب جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لاَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ... O you who believe! Follow not the Khutuwat of Shaytan. meaning, his ways and paths and what he commands, ... وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ ... And whosoever follows the footsteps of Shaytan, then, verily, he commands immorality and ... the evil deeds. This is a warning given in the most concise and eloquent manner. Ali bin Abi Talhah recorded from Ibn Abbas that خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ (the Khutuwat of Shaytan), means his deeds. Ikrimah said that: it means his evil whispers. Qatadah said: "Every sin is one of the footsteps of Shaytan." Abu Mijlaz said: "Vowing to commit sin is one of the footsteps of Shaytan." Then Allah says: ... وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا ... And had it not been for the grace of Allah and His mercy on you, not one of you would ever have been pure from sins. meaning, if He did not help whomever He wills to repent and come back to Him and be purified from Shirk, evil and sin, and whatever bad characteristics each person has according to his nature, no one would ever attain purity and goodness. ... وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاء ... But Allah purifies whom He wills, means, among His creation, and He sends astray whomever He wills, leaving him to be doomed in his misguidance and sin. ... وَاللَّهُ سَمِيعٌ ... and Allah is All-Hearer, means, He hears what His servants say, ... عَلِيمٌ All-Knower. of who deserves to be guided and who deserves to be misguided.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں ب... عض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی شیطان کا تو کام ہی یہ ہے کہ تمہیں برائیوں اور بےحیائیوں کے کاموں میں مبتلا کرکے تمہارا ایمان تباہ اور تمہیں گمراہ کر دے۔ شیطان کا انسان پر سب سے پہلا وار تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے شرک کی نئی راہیں سجھاتا اور انھیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔ جس سے کم ہی لوگ بچتے ہیں۔ اس طرح توحید سے ... گمراہ کرکے شرک میں مبتلا کردیتا ہے اور اس کا دوسرا وار یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو بےحیائی کے کاموں میں مبتلا کرے اور یہ کام بھی انھیں نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرے۔ جنت میں شیطان نے یہی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ پہلے حضرت آدم و حوا کو خوبصورت وعدے اور سبز باغ دکھلا کر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ان دونوں کا لباس اتروا دیا تھا۔ آج بھی شیطان اور ان کے چیلے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کی چاردیواری عورت کے لئے قید خانہ اور اس کی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے یا پردہ ایک دقیانوسی چیز ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک عورت گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر اور بےحجاب ہو کر مرد کے شانہ بشانہ کام نہ کرے یا عورت کے گھر میں بند رہنے سے ملکی معیشت پر ناگوار اثر پڑتا ہے۔ ایسی سب باتیں بےحیائی کی باتیں ہیں جو خوبصورت کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ ان کا اصل مقصد عورت و مرد کا بےحجابانہ اور آزادانہ اختلاط ہے اور بدکاری کی راہیں بڑی آسانی سے کھلنے لگتی ہیں۔ نیز جن فحاشی کے کاموں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں سے اکثر کام ایسے ہیں جو تہذیب کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے کاموں میں ہی الجھا کر شیطان انسانوں کو مزید بڑے بڑے فتنوں میں مبتلا کردیتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ [٢٥] یعنی یہ اللہ کی خاص رحمت تھی کہ اس نے تمہیں اس فتنہ کی رو میں بہ جانے سے بچا لیا۔ ورنہ شیطان کا یہ حملہ اتنا زور دار تھا کہ اگر اللہ کا فضل تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو شاید تم میں سے کوئی بھی اس رو میں بہ جانے سے بچ نہ سکتا۔ [٢٦] یعنی پاک سیرت بنانے کے لئے یا بنائے رکھنے کے لئے بھی اللہ کا ایک ضابطہ ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص خود پاک سیرت رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے ہی اللہ پاکیزہ رہنے کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس پاکیزگی کا اہل ہے اور کون نہیں ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۔۔ : ” خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ “ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٦٨) اور ” بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر “ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نحل کی آیت (٩٠) پہلے فرمایا : (لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ) پھر ” الشَّيْطٰنِ ... “ کے لیے ضمیر لا کر ” وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِہِ “ کہنے کے بجائے دوبارہ نام لے کر فرمایا : (ۭ وَمَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ) مراد توجہ دلانا ہے کہ آدمی سوچے کہ میں کس کی پیروی کر رہا ہوں۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی شخص کسی طرح بھی اپنے آپ کو پاک نہیں رکھ سکتا، نہ پاک کرسکتا ہے۔ اگر انسان کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی انسان بھی پاک نہ رہ سکے، کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر اسے گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ” فحشاء “ اور ” منکر “ کو خوش نما بنا کر اس کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں، نفس امارہ ان کی طرف مائل ہے اور ان کا حکم دیتا ہے۔ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے، یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہی ہے جس کی بدولت کوئی شخص گناہوں سے پاک رہتا ہے، یا گناہ کے بعد توبہ کے ساتھ پاک ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورة نساء (١٦، ١٧) اور سورة نجم (٣٢) ۔ 3 اس مقام پر ان الفاظ سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعۂ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہ جاتے جس میں بعض مسلمان بہ گئے تھے۔ اس لیے شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ان کو زیادہ ہدف ملامت نہ بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کرو۔ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، مگر اس کی مشیت اندھی نہیں، بلکہ وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اپنے اس علم ہی کی وجہ سے جسے پاک کرنے کے لائق جانتا ہے پاک کردیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) [ القصص : ٥٦ ] ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝ ٠ۭ وَمَنْ يَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ فَاِنَّہٗ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝ ٠ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا۝ ٠ۙ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ... ۝ ٠ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢١ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے خطو خَطَوْتُ أَخْطُو خَطْوَةً ، أي : مرّة، والخُطْوَة ما بين القدمین قال تعالی: وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة/ 168] ، أي : لا تتّبعوه، وذلک نحو قوله : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص/ 26] . ( ح ط و ) خطوت آخطوۃ کے معنی چلنے کے لئے قدم اٹھانے کے ہیں خطوۃ ایک بار قدم اٹھانا الخطوۃ کی جمع خطوت اتی ہے ۔ قرآن میں ہے ولا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة/ 168] اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ۔ یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو ۔ اور یہ آیت کریمہ : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص/ 26] اور خواہش کی کی طرح ہے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اب اللہ تعالیٰ شیطان کی پیروی اور اس کے نقش قدم پر چلنے سے روکتا ہے کہ اے ایمان والو تلبیس ابلیس اور شیطانی وساوس کی پیروی مت کرو۔ کیوں کہ جو شخص تلبیس ووساوس شیطانی کی پیروی کرتا ہے تو شیطان تو نامعقول کام اور نامعقول باتیں کرنے اور ایسی ہی چیزوں کے ارتکاب کو کہے گا کہ جن کا شریعت اور سنت میں...  کہیں ثبوت نہیں اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم نہ ہوتا کہ اس نے تمہیں ان باتوں سے حفاظت اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی تو تم میں سے کبھی کوئی موحد اور نیکوکار نہ ہوتا لیکن جو شخص اس کا اہل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسی کو توبہ اور نیکی کی توفیق عطا فرماتا ہے اللہ تعالیٰ سب باتوں کو سنتا اور تمہیں اور تمہارے سب اعمال کو جانتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَازَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًالا) ” یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ تم لوگوں کی برائیوں کی ستر پوشی کرتا رہتا ہے اور اس طرح تمہارے راہ راست پر آنے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ کیونکہ اگر انسان کی برائی کا پردہ ایک دفعہ چاک ہ... وجائے تو وہ ڈھیٹ بن جاتا ہے اور اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں رہتی۔ چناچہ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ گناہ اور معصیت کا ارتکاب کرنے والوں کی فوری پکڑ نہیں کرتا اور اس طرح ان کے لیے اصلاح اور توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. Satan is bent upon involving you in all kinds of pollutions and indecencies. Had it not been for the mercy and kindness of Allah Who enables you to differentiate between good and evil and helps you to educate and reform yourselves, you would not have been able to lead a pure and virtuous life on the strength of your own faculties and initiative alone. 19. It is Allah’s will alone which decide... s whom to make pious and virtuous. His decisions are not arbitrary but based on knowledge. He alone knows who is anxious to live a life of virtue and who is attracted towards a life of sin. Allah hears a person’s most secret talk, and is aware of everything that passes in his mind. It is on the basis of this direct knowledge that Allah decides whom to bless with piety and virtue and whom to ignore.  Show more

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :18 یعنی شیطان تو تمہیں برائی کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لیے اس طرح تلا بیٹھا ہے کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھائے اور تم کو اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے بل بوتے پر پاک نہ ہو سکے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ...  نمبر :19 یعنی اللہ کی یہ مشیت کہ وہ کسے پاکیزگی بخشے ، اندھا دھند نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر ہے ۔ اللہ جانتا ہے کہ کس میں بھلائی کی طلب موجود اور کون برائی کی رغبت رکھتا ہے ۔ ہر شخص اپنی خلوتوں میں جو باتیں کرتا ہے انہیں اللہ سن رہا ہوتا ہے ۔ ہر شخص اپنے دل میں بھی جو کچھ سوچا کرتا ہے ، اللہ اس سے بے خبر نہیں رہتا ۔ اسی براہ راست علم کی بنا پر اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے پاکیزگی بخشے اور کسے نہ بخشے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:21) خطوت الشیطن۔ مضاف مضاف الیہ۔ خطوت اخطو۔ کے معنی چلنے کے قدم اٹھانے کے ہیں۔ خطوۃ ایک بار قدم اٹھانا الخطوۃ وہ فاصلہ جو دو قدموں کے درمیان ہو۔ اس کی جمع خطوت ہے۔ لا تتبعوا خطوت الشیطن۔ شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو۔ فانہ میں ضمیر واحد مذکر غائب شیطن کے لئے ہے۔ المنکر۔ ... برا کام۔ وہ قول یا فعل جس کو عقل سلیم برا جانتی ہو یا شریعت نے اسے برا قرار دیا ہو۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ انکار مصدر۔ ما زکی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ وہ پاک صاف نہ ہوا۔ منکم من احد۔ تم میں سے کوئی بھی۔ ابدا۔ کبی بھی۔ یزکی۔ مضارع واحد مذکر غائب تزکیۃ مصدر (باب تفعیل) وہ پاک کرتا ہے پاک قرار دیتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی اسے گناہ میں پڑنے نہیں دیتا یا گناہ کے بعد اسے توبہ کی توفیق دیتا ہے۔ 2 ۔ اسے معلوم ہے کہ کون دل میں اخلاص رکھتا ہے کہ اسے پاک کیا جائے اور کون نہیں رکھتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف اے مسلمانو ! شیطان کے نقش قدم پر مت چلو کہ جو بھی شیطان کی بات سنتا ہے یا اس کے ساتھ چلنے لگتا ہے تو شیطان اسے بےحیائی اور برائی کا مشورہ دیتا ہے یا ایسے امور اختیار کرتا ہے اور ایسے ڈھنگ سے راہ دکھاتا ہے کہ وہ بےحیائی اور برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے لہذا معاشرے میں بےحیائ... ی پھیلانے والے سارے کام یہ ثقافت کے نام پر راگ رنگ کی محفلیں عریانیت اور فحش فلمیں یہ سب اسی کا شاخسانہ ہیں اور ایمان والے بندے کو ان کا ساتھ ہرگز زیب نہیں دیتا ورنہ یہ اس کا ایمان بھی ضائع کریں گے اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی ان کی زد سے نہ بچتا نہ اسے توبہ کرکے ان سے جان چھڑانے کی توفیق ہوتی اور اللہ جسے چاہتا ہے یعنی جو خلوص دل سے اللہ جل جلالہ سے اپنی اصلاح کا طالب ہوتا ہے اللہ جل جلالہ اسے پاک فرما دیتا ہے توبہ کی توفیق بھی دیتا ہے اور توبہ قبول بھی فرماتا ہے۔ (قبولیت توبہ کا اثر) یعنی توبہ کی قبولیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بندہ گذشتہ برائی سے بیزار ہو کر آئندہ عملا اس سے بچ جاتا ہے اور عملی زندگی میں اس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور یہ کیفیت اللہ کریم سے خلوص دل کے ساتھ معافی طلب کرنے سے نصیب ہوتی ہے کہ اللہ سب کی سنتا بھی ہے اور سب کچھ جانتا بھی ہے ، اب رہی یہ بات کہ کچھ لوگوں سے قصور ہوا جیسے حضرت مسطح (رض) تو وہ غریب بھی تھے اور حضرت صدیق اکبر (رض) کے قریبی بھی ، آپ اس کی مدد فرماتے تھے مگر اس واقعہ میں اس کے جھوٹ کے کھل جانے کے بعد آپ نے قسم کھالی کہ اس کی مدد نہ کریں گے تو ارشاد ہوا یہ نہ کیا جائے اور کسی بھی بندے کی ایک کوتاہی یا غلطی اس کے دوسرے سب اچھے کاموں کو فراموش نہ کرا دے ، اسلامی معاشرے کے لیے کس قدر خوبصورت سبق ہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور بہت بڑی بھی ہو سکتی ہے جب وہ توبہ کرلے اپنی اصلاح کرے تو اس کے دوسرے اچھے کاموں کو ضرور اہمیت دی جائے کہ وہ واپس زندگی میں شامل ہو سکے ورنہ دھتکارے ہوئے لوگ معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں لہذا صاحب کشائش لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہیے کہ ایسے لوگوں کی مدد نہ کریں گے جب وہ عزیز بھی ہوں مسکین بھی اور اللہ جل جلالہ کی راہ میں ہجرت بھی انہوں نے کی ہو تو انہیں معاف کردیں اور درگذر سے کام لیں ، انسانی کمزوری معاف کی جانی چاہئیے جبکہ وہ بندہ اصلاح کی جانب بڑھے کہ تم سے بھی لغزشیں صادر ہو سکتی ہیں ، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ جل جلالہ تجھ سے درگذر کرے اور تمہیں بخش دے کہ اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے چناچہ صدیق اکبر (رض) نے قسم توڑ دی اور ان کی مدد جاری رکھی ، رہے وہ لوگ جو ایسی پاک دامن خواتیں پر جو اپنی آبرو کی حفاظت کرنے والی معاشرے کی خرابیوں سے بیخبر کامل ایمان رکھنے والی ہیں جس کی مثال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات ہیں تو ایسے لوگوں پر دنیا پر بھی لعنت اور اللہ کے کرم سے دوری آخرت میں بھی پھٹکار اور محرومی ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے آخر ایک روز ان کے جسم کے اعضاء ہی ان کے خلاف بول اٹھیں گے ، خود ان کی زبانیں ان کے خلاف شہادت دیں گی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دے کر ان کے کرتوتوں کو ظاہر کردیں گے ۔ (دار دنیا میں زبان کی گواہی) ہمارے گاؤں میں ایک عورت قصاب پیشے والوں کی تھی وہ شیعہ ہوئی اور چند لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنی ۔ حرم نبوی کے حق میں بہت زبان دراز تھی اور نجی محفلوں میں بدکلامی کیا کرتی تھی ، موت سے چند برس پہلے اس کی زبان لٹک کر تقریبا ٣ انچ کے قریب باہر آگئی اور دنیا جہاں کے ڈاکٹروں نے علاج کیا مگر ویسی ہی رہی ، بات کرنے کی کوشش کرتی تو زبان باہر لٹکنے کی وجہ سے منہ کھلتا جڑتا تو کتے کی سی آواز نکلتی تھی ، ہمارے دوست ساتھی اور اللہ جل جلالہ کے نیک بندے حکیم خدا بخش مرحوم ذاتی طور پر اسے دیکھتے ۔ انہیں بھی بغرض علاج بلایا جاتا ، بالآخر ایسے ہی مر گئی ، یہ شہادت تو دنیا میں ہے آخرت کی اس سے شدید تر ہوگئی ۔ اور آخرت کے روز تو اللہ جل جلالہ انہیں پوری پوری سزا دے گا اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ اللہ ہی سچا ہے حق ہے اور ہر بھید کو کھولنے والا ہر راز سے باخبر ہے ، انسانی مزاج ایسا ہے کہ خبیث اور بدکار عورتیں مزاجا خبیث اور بدکار مردوں ہی کی شیدائی ہوتی ہیں اور انہیں کے ساتھ گذارہ کرسکتی ہیں ، ایسے خبیث مرد بھی خبیث عورتوں کو پسند کرتے ہیں اور نیک خواتین انہیں اچھی نہیں لگتیں جبکہ نیک خواتین نیک مردوں کو چاہتی ہیں اور انہیں پا کر خوش رہتی ہیں اور نیک مرد ہمیشہ نیک عورتوں کے طالب ہوتے ہیں ، وہ ایسی خرافات سے بہت بلند اور بےتعلق اللہ جل جلالہ کی بخشش کے سائے میں اور اللہ جل جلالہ کی نعمتوں کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ (انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مثالی خواتین) اس ضابطے اور انسانی مزاج کے تجزئیے نے ثابت کردیا کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو کہ مثالی نیک پاک صاف انسان ہوتے ہیں ان کی ازواج بھی مثالی باکردار خواتین ہوتی ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے سردار ہیں ان کی ازواج بھی پاکی ، طہارت اور عفت وعصمت میں جہان کی خواتین کی سردار ہیں لہذا یہ قانون ہے کہ کسی بھی نبی (علیہ السلام) کی بیوی نے کبھی اخلاقی جرم نہیں کیا اگرچہ نوح اور لوط (علیہما السلام) کی بیویاں مسلمان نہ تھیں ، مگر اخلاقی برائی کا الزام ان پر بھی نہیں لگایا جاسکتا ، حضرت ابن عباس (رض) نے اصول ارشاد فرمایا ہے کہ ” مابغت امراۃ نبی قط “۔ کبھی کسی بھی نبی (علیہ السلام) کی عورت نے بےحیائی کا کام نہیں کیا ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 26 : لاتتبعوا (تم پیچھے نہ چلو۔ تم اتباع نہ کرو) ‘ خطوات (خطوط) قدم۔ نقش قدم ‘(الفحشاء (فحش) بےحیائی کے کام ‘ مازکی (صاف ستھرانہ ہوتا) ‘ لا یاتل (ایتلائ) قسمیں نہ کھائیں ‘ اولی الفضل (حیثیت والے) ‘ السعۃ (گنجائش والے۔ وسعت والے) الا تحبون ( کیا تم پسند نہیں کرتے) ‘ المحص... نت (المحسنۃ) پاک دامن ‘(الغفلت) (بےخبر۔ انجان۔ بھولی بھالی) ‘ السنۃ (لسان) زبانیں ‘ ایدی (دونوں ہاتھ) ‘ ارجل (رجل) پاؤں ۔ یوفی (وہ پورادے گا) ‘ الخبیثات ( گندی عورتیں) الطیبت (پاک صاف ستھری عورتیں) ‘ مبرءون (بری ہونے والے ۔ پاک صاف) ۔ تشریح : آیت نمبر 21 تا 26 : شیطان جو انسان کا ازلی کھلا دشمن ہے اس کی ہمیشہ ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندوں کو راہ حق سے بھٹکاکر دنیا اور آخرت میں ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردے تاکہ نیکی ‘ پرہیزگاری ‘ پاکیزگی اور بھلائی کا ہر تصرو دھند لاکررہ جائے۔ لیکن اللہ کے وہ بندے جو شیطانی وسوسوں سے اپنا دامن بچا کر نبیوں اور رسولوں کے راستے پرچلتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی اور کامیابی عطا کردی جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کی بنیادی کمزوریوں ‘ خواہشوں اور تمناؤں کی تندو تیز آندھیاں اس کو سچائی کے راستے سے ڈگمگانے کی کوشش کرتی ہیں مگر جن لوگوں پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہوتا ہے وہ نیکی ‘ پاکیزگی اور بھلائی اختیار کر کے شیطان کے ہر نقش قدم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کریں کیونکہ بےحائیوں اور ہر طرح کے گناہوں میں پھنسا نے کی کوشش کرتا ہے جس سے ایک انسان ہر طرح کی خیر اور بھلائی سے محروم ہوجاتا۔ فرمایا کہ مومن کے مکارم اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ہر کام میں خلوص نمایاں ہو اس کا کوئی کام ریاکاری اور دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ ہر نیک کام کے پیچھے اللہ کی رضا و خوشنودی کا جذبہ موجزن نظر آئے۔ مکارم اخلاق کی اسی تعلیم پر قائم رکھنے کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ اہل امیان میں سے وہ لوگ جو صاحب حیثیت اور دوسروں کی مدد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں وہ رشتہ داروں ‘ غریبوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہیں۔ اگر کبھی ان سے کوئی ایسی بات ہوجائے جس سے ان کی دل شکنی ہوتی ہے تو وہ اپنی ذاتی رنجش کے لئے اپنے بلند اخلاق کی سطح سے نیچے نہ اتریں بلکہ ذاتیات سے بلند ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہر طرح کی قربانیاں پیش کرتے رہیں۔ جس طرح اللہ اپنے بندوں کی ہر غلطی پر فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ معافی اور در گذر کا انداز اختیار کرتا ہے اسی طرح اللہ کے نیک بندوں کو بھی اللہ کے اسی اخلاق کو اختیار کر کے عفو و درگذر کا انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ جب اللہ نے ان کی (حضرت عائشہ کی) بےگناہی ثابت کرنے کے لئے دس آیات نازل فرمادیں تو ان کے والد (حضرت ابوبکر صدیق (رض) جو اپنے خالہ زاد بھائی حضرت مسطح بن اثاثہ جو مہاجر غریب رشتہ دار تھے ان کی مدد کیا کرتے تھے جب آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ (رض) پر الزام لگانے والوں میں حضرت مسطح بھی شامل ہیں تو انہوں نے حضرت مسطح کی ہر طرح کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن جب یہ آیات نازل ہوئیں ” اے مومنو ! تم میں سے جو لوگ بلند رتبہ رکھتے ہیں اور صاحب حیثیت بھی ہیں وہ اپنے رشتہ داروں ‘ ضرورت مندوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی (خدمت سے) یہ کہہ کر انکار نہ کریدں کہ ہم ان کو کچھ نہ دیں گے۔ انہیں ایسے لوگوں کو معاف کردینا اور ان سے در گذر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرمادے اور اللہ تو نہایت مغفرت کرنے والا مہربان ہے “۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس آیت کو سنا ” کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے “ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا الہیـٰ ! ہم ضرور چاہتے ہیں ” اس کے بعد انہوں نے حضرت مسطح ابن اثاثہ کی نہ صرف پہلے جیسی مدد کرنا شروع کردی بلکہ اپنے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مدد اور حسن سلوک میں اور اضافہ کردیا۔ بعض روایات کے مطابق کچھ دوسرے اہل ایمان نے بھی الزام تراشی کرنے والوں سے منہ موڑ لیا تھا اور ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا لیکن ان آیتوں کے بعد انہوں نے بھی اپنے عزیزوں ‘ رشتہ داروں کی پہل کی طرح مدد کرنا شروع کردی تھی۔ یہ سب کچھ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے سیکھا تھا کیونکہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جانی دشمنوں کی معاف فرمادیا کرتے تھے اور آپ نے اپنی ذات کے لئے کسی سے کبھی کوئی انتقام نہیں لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی زندگی کے ہر پہلو میں یہی حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین صحابہ کرام کے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد گرامی موجود تھا کہ ہر شخص کو اپنے رشتہ داروں ‘ اور ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا چاہیے کیونکہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ” صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو رشتہ داروں کے ساتھ صرف احسانات کا بدلہ اداکر دے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے جو رشتہ داروں کے قطع تعلق کے باوجود ان سے اپنے تعلقات کو جوڑے رکھتا ہے “۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ بھولی بھالی ‘ بیخبر اور نیک چلن عورتوں پر غلط الزامات اور تہمتیں لگاتے ہیں ان پر نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی لعنتیں برسیں گی بلکہ ان پر ہر طرح کی ذلتیں اور رسوائیاں مسلط کی جائیں گی اور وہ حشر میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ فرمایا کہ کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ اپنے اس گناہ سے انکار کرسکے گا کیونکہ اس کی زبان ‘ اس کے ہاتھ پیر خود اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے۔ پھر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں کس قدر گھاٹے اور خسارے کا سواد کرکے آیا ہے۔ جب ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا فیصلہ آجائے گا تو ان ظالموں کے لئے سوائے پچھتانے کے اور کوئی کام نہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے جو ہر حقیقت کو کھول کر رکھ دے گا۔ یہ آیات جہاں الزام لگانے والوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے ہیں وہیں ان آیات میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی نیکی ‘ پاک دامنی ‘ پرہیز گاری اور نیک چلنی کا اظہار بھی فرمادیا گیا ہے کیونکہ گندہ ذہن رکھنے والی اور بدکار عورتیں ہی جیسے بد کاروں کے لائق ہوتی ہیں لیکن نیک چلن عورتیں پاک دامن مردوں سے مناسبت رکھتی ہیں چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے عظیم پیغمبر ‘ طاہر و طیب اور سراپا پاکیزگی ہیں لہٰذا اللہ نے ان کو بیویاں بھی ایسی عطا کی ہیں جو نہایت پارسا ‘ نیک اور پاکیزہ ہیں۔ خاص طور پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جنہیں اللہ نے عظمتوں کا مقام عطا فرمایا ہے وہ ایسی پاکیزہ اور بزرگ ہیں جن کی پاک دامنی کے لئے اللہ متعدد آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ علماء کرام نے فرمایا کہ اتنی واضح آیات اور صاف حقائق کی موجودگی میں بھی اگر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر کوئی تہمت لگاتا ہے یا الزام دھرتا ہے یا بغض و عنادرکھتا ہے وہ نہ صرف اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے بلکہ دنیا اور آخرت میں وہ اللہ کی لعنت کا مستحق بن جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت یا الزام لگاتے ہیں وہ سات بڑ بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ فرمایا کہ تم پاک دامن عورتوں پر تہمت نہ لگائو کیونکہ تہمت ایک سو سال کے نیک اعمال کو غارت کر کے رکھ دیتی ہے۔ (طبرانی)  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یا تو توبہ کی توفیق ہی نہ ہوتی جیسا منافقین کو نہ ہوئی، اور یا تو بہ قبول نہ کی جاتی، کیونکہ ہم پر کوئی چیز واجب تو ہے نہیں۔ 4۔ آگے اس کا بیان ہے کہ بعد نزول آیات براة کے بعض صحابہ نے جن میں حضرت ابوبکر بھی ہیں اور دوسرے صحابہ نے شدت غضب میں قسم کھالی کہ جس جس نے چرچا کیا ہے ہے کہ بعض ان میں حاجت...  مند بھی تھے ان کو اب سے کسی قسم کی مالی امداد نہ دیں گے، اللہ تعالیٰ عفو تقصیر اور امداد جاری کردینے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کسی پر تہمت لگانا شیطانی عمل ہے اس لیے مسلمانوں کو شیطان کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ شیطان کی ہر لمحہ کوشش ہوتی ہے کہ انسان بالخصوص مسلمان کو برائی اور بےحیائی کے کاموں میں مبتلا کرے۔ جب انسان ایک مرتبہ برائی اور بےحیائی کا ارتکاب بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہوجاتا...  ہے اس لیے حکم ہے کہ شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ قرآن مجید کے پہلے مخاطب صحابہ کرام (رض) تھے لہٰذا تیسری مرتبہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم سے پاک نہیں رہ سکتا تھا یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اسے ہر اعتبار سے پاک صاف رہنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ منافقین نے دیرینہ حسدوبغض کی وجہ سے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو بدنام کرنے کے لیے اس قدر گہری اور منظم مہم چلائی کہ جس سے صحابہ کرام (رض) کا بچنا بہت مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ گنتی کے دو تین آدمیوں کے سوا کوئی صحابی اس مذوم فعل میں شامل نہیں ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے بطور احسان ذکر فرمایا ہے کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو تم میں سے کسی ایک کا بچنا بھی محال نہ تھا ” خُطْوَہٌ“ کی جمع ” خُطُوَاتٍ “ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کے پیچھے قدم بقدم چلنا، ” خُطْوَات الشَّیْطَانُ “ کہہ کر مسلمانوں کو غیرت دلائی گئی ہے کہ کلمہ پڑھنے والوں کی یہ شان نہیں کہ وہ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے ہر سنی سنائی بات آگے پھیلاتے جائیں۔ (عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ َ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ] ” حضرت حفص بن عاصم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا چلا جائے۔ “ انسان جب کسی پر تہمت لگاتا ہے تو اس کے دل میں لا محالہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس سے نیک ہوں اور جس پر تہمت لگا رہا ہے۔ وہ برا اور ناپاک شخص ہے۔ جھوٹی تہمت کے پیچھے خود پسندی کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ اپنی پاکبازی کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ کوئی انسان اس وقت تک حقیقتاً پاکباز نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اسے پاکبازی کی توفیق نہ دے جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ) [ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ] ” میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کو شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ شیطان انسان کو برائی اور بےحیائی میں مبتلا کرتا ہے۔ ٣۔ ہر دم اللہ کا فضل اور مہربانی مانگنی چاہیے کیونکہ اس کی مہربانی کے بغیر شیطان کی پیروی سے نہیں بچا جاسکتا۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ شیطان آدمی کو ہر طرف سے گمراہ کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٢۔ شیطان جھوٹی قسموں سے ورغلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢١) ٣۔ شیطان اپنی فریب کاری سے پھسلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٤۔ شیطان بےحیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٩) ٥۔ شیطان برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو گمراہ کرنے کے لیے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف : ٢١) ٧۔ شیطان کی پیروی کرنے سے بچنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ : ٢٠٨) ٨۔ شیطان کی پیروی کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ (یٰسٓ: ٠ ٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(یا یھا الذین امنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سمیع علیم) (٢٤ : ٢١) ” اے لوگو ‘ جو ایمان لائے ہو ‘ شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک ک... ردیتا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے “۔ کیا یہ کوئی اچھا منظر ہوگا کہ شیطان قدم رکھتا جائے اور اس کے نقوش قدم پر ایک مومن قدم رکھتا جائے حالانکہ تمام انسانوں کے مقابلے میں مومن اس کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ شیطان سے نفرت کرے اور شیطان کی مقرر کردہ راہ سے دور جا کر سیدھی راہ پر چے۔ یہ تو ایک مکروہ صورت ہے جس سے ایک مومن نفرت کرتا ہے۔ اس کا وجدان اور شعور ہی اس منظر سے کانپ اٹھتا ہے۔ اس کا خیال کرتے ہی اس کے رونگٹے کھڑ ہوجاتے ہیں۔ اتباع شیطان کی یہ تصویر کشی ایک مومن کو چو کمنا کردیتی ہے اور وہ شیطان کی راہ پر چلنے سے حساس ہوجاتا ہے۔ (ومن یتبع۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والمنکر) (٢٤ : ٢١) ” شیطان کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور منکر ہی کا حکم دے گا “ اور واقعہ افک اس کا بہت ہی خوبصورت نمونہ ہے کہ اس میں اس نے پورے اہل مدینہ کو ملوث کردیا۔ شیطان کے کارناموں میں سے یہ ایک مکروہ کار نامہ ہے۔ انسان بہت ہی ضعیف ہے۔ یہ شیطانی اکساہٹ کا شکار ہو سکتا ہے اور پھر گناہ میں ملوث بھی ہو سکتا ہے۔ صرف اللہ کا فضل و کرم ہی اسے بچا سکتا ہے لیکن اللہ کا فضل و کرم بھی اسے تب بچائے گا کہ یہ اللہ کے فضل و کرم کی طرف متوجہ تو ہو اور اللہ کے منہاج پر چلنے کی سعی تو کرے۔ (ولولا فضل اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یزکی من یشآئ) (٢٤ : ٢١) ” اگر اللہ کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص بھی پاک نہ ہو سکتا “۔ اس لیے کہ یو نورربی ہی ہوتا ہے جو قلب میں روشنی پیدا کرتا ہے اور اسے پاک و صاف کردیتا ہے۔ اگر اللہ کا فضل و کرم اور یہ نور نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک و صاف نہ رہ سکتا۔ اللہ سمیع وعلیم ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے ‘ پاک کردیتا ہے بشرطیکہ اس کے اندر بھلائی استعداد ہو۔ اس تزکیہ اور طہارت کی تلقین کے بعد اب اہل ایمان کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس شر کے نتیجے میں جو تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں ان کو دور کر دو ‘ جس طرح تم اللہ سے معافی کے امیدوار ہو۔ اسی طرح آپس میں بھی ایک دوسرے کو معاف کردو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شیطان کے اتباع سے بچو، خیر کے کام سے بچنے کی قسم نہ کھاؤ، بہتان لگانے والوں کے لیے عذاب عظیم ہے، پاکیزہ لوگوں کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے یہ چھ آیات ہیں ان کا تعلق بھی انہیں مضامین سے ہے جو سورة کے شروع سے لے کر اب تک بیان کیے گئے۔ پہلی آیت میں اہل ایمان کو تنبیہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ شیطان ک... ے قدموں کا اتباع نہ کرو۔ یعنی اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر نہ چلو جو شخص شیطان کا اتباع کرے گا یعنی اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا شیطان اسے برباد کر دے گا کیونکہ وہ بےحیائی کے کاموں کا اور طرح طرح کی برائیوں کا حکم دیتا ہے جس نے اس کی بات مانی وہ گمراہی کے گڑھے میں گرا، پھر اگر توبہ نہ کی تو ہلاک ہوا۔ پھر فرمایا کہ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کی توفیق ہی نہ ہوتی جیسا کہ منافقین نفاق پر بھی اڑے رہے حضرت صدیقہ کو تہمت لگائی اس پر بھی جمے رہے۔ (وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآءُ ) (اور لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزہ بنا دیتا ہے) گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اور جس پاک دامن کو تہمت لگا دی جائے اس کی برأت کا راستہ نکال دیتا ہے۔ (وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) (اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے) ہر شخص کی اچھی بری بات کو سنتا ہے اور ہر ایک کے ہر عمل کو جانتا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” یا ایھا الذین الخ “ ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ پاک دامن مومنوں پر تہمت لگانا بہت برا اور فحش کام ہے اور بےحیائی اور فحش کاموں کی ترغیب و اشاعت تو شیطان کا کام ہے، ایمان والوں کو ایسے کاموں سے دور رہنا چاہئے اور شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ من یتبع الشیطان ارتکب الفحشاء والمنکر فانہ لا ... یامر الا بھما ومن کان کذلک لا یجوز اتباعہ وطاعتہ (روح ج 18 ص 124) ۔ 21:۔ ” ولو لا فضل اللہ الخ “ اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے اور مقصد ذکر جزاء ہے۔ ” ما زکی منکم الخ “ جزاء ہے یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس بےحیائی اور بہتان تراشی کو روکنے کے لیے احکام وحدود مقرر فرمادئیے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو منافقین کی شرارتوں سے کسی عزت بھی محفوظ نہ رہتی وہ آج ایک کو بدنام کرتے کل دوسرے کی ہتک پر آمادہ ہوجاتے لیکن اللہ نے حد قذف مقرر فرما کر ان کے منہ بند کردئیے ہیں یا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیات بینات نازل فرما کر توحید اور شریعت کی راہ واضح کردی ہے تاکہ ایمان والے اس پر چل کر اللہ کا قرب حاصل کریں پھر اس نے توبہ کا دروازہ بھی ل کھول دیا ہے تاکہ گنہ گار توبہ کر کے گناہوں سے اپنے کو پاک کرسکیں تو یہ سب اللہ کی مہربانی ہے اگر وہ ایسا نہ کرتا تو کوئی بھی گناہوں سے پاک نہ ہوسکتا۔ ” ولکن اللہ یزکی الخ “ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مہربانی ہی سے انسان کو عمل اور توبہ کی توفیق ملتی ہے اور اس کا فضل وکرم شامل حال ہو تب ہی انسان گناہوں سے پاک ہوسکتا ہے ای ان تزکیتہ لکم وتطھیرہ وھدایتہ انماھی بفضلہ لا باعمالکم (قرطبی ج 12 ص 207) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اے ایمان والو ! اے دعوت ایمانی کو قبول کرنے والو ! تم شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے اور شیطان کے قدم بہ قدم چلے گا تو وہ شیطان تو بےحیائی اور نامعقول ہی کام کرنے کو کہے گا اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں کبھی کوئی اس گناہ سے ... پاک اور صاف نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے پاک صاف کردیتا ہے اور سنوار دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ شیطان کی پیروی کرنے اور شیطان کے قدم بہ قدم چلنے سے مسلمانوں کو منع فرمایا کیونکہ شیطان کا کام تو یہی ہے کہ وہ نامعقول اور بےحیائی کی باتوں پر ابھارتا ہے اور معصیت اور گناہ کرنے کو کہتا ہے۔ جیسا کہ تم اس موقعہ پر ایک پاک دامن عورت اور ایک پاک دامن مرد پر تہمت لگانے میں مبتلا ہوگئے اور شیطان نے تم کو ایک بےحیائی اور نامعقول بات پر آمادہ کردیا یہ تم سے ایک ایسی ناشائستہ حرکت کا ارتکاب ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور وہ تم کو توبہ کی توفیق نہ دیتا اور پھر تمہاری توبہ قبول نہ فرماتا تو تم میں سے کسی ایک کی بھی حالت نہ سنورتی اور خراب و خستہ ہی رہتے اور نہ معلوم کس عذاب میں گرفتار ہوجاتے لیکن یہ اللہ کا فضل اور اس کا انعام ہے کہ اس نے مخلص مسلمانوں کو اس بےحیائی کی بات میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھا اور جو سوئے اتفاق سے دو چار محض مسلمان منافقوں کے پروپیگنڈے اور تشہیر میں مبتلا ہوگئے تھے ان کو توبہ کی توفیق عطا فرماکر اور ان پر حد قذف جاری کر ا کے آئندہ کی ہلاکت سے بچالیا اور ان کی توبہ قبول فرماکر ان کو سنواردیا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے ہر ایک کی توبہ کو سنتا اور ہر ایک کی قلبی ندامت کو جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون سنورنے کے قابل ہے اور کس کی طینت خراب اور کون بدباطن ہے چناچہ منافقوں کو نظر انداز کردیا گیا اور مخلص مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔ اب آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے ان مبتلائے بہتان ہونے والوں کی امداد بند کردی تھی۔ ان مالی امداد بند کردینے والوں میں حضرت صدیق اکبر (رض) کا نام خاص طور پر حدیثوں میں آتا ہے کہ مسطح جو ان کا قرابت دار تھا اور وہ اس کی مالی امداد کیا کرتے تھے چونکہ یہ مسطح حضرت عائشہ (رض) کے خلاف تہمت لگانے والوں میں شریک ہوگیا تھا اس لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کی امداد بند کردی اور قسم کھالی کہ میں آئندہ اس کے ساتھ کوئی سلوک نہیں کروں گا اس پر آگے کی آیت نازل ہوئی تب سیدنا صدیق اکبر (رض) نے پھر امداد کا سلسلہ جاری کردیا بلکہ امداد دگنی کردی اور ایسا ہی بعض دوسرے صحابہ نے بھی کیا۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔  Show more